(Last Updated On: )
بہت آسان ہے کہنا۔۔
محبت ہم بھی کرتے ہیں۔۔
مگر مطلب محبت کا،
سمجھ لینا نہیں آساں۔۔
محبت پا کے کھو دینا،
محبت کھو کے پا لینا۔
یہ ان لوگوں کے قصے ہیں۔
محبت کے جو مجرم ہیں۔۔
جو مل جانے پر ہنستے ہیں۔۔
بچھڑ جانے پر روتے ہیں۔۔
سردی اس کی ہڈیوں میں گھس رہی تھی۔۔دسمبر کا مہینہ تھا۔۔ٹھنڈ کے مارے کپکپی بند گئ تھی اس کی۔۔۔ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی اس نے۔۔
نظریں بھٹک بھٹک کر اس ستم گر کی طرف چلی جاتیں جو اسے ٹھنڈی کارپٹ پر پٹخ کر خود نرم گرم بستر میں خواب و خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔۔۔
وہ جو کبھی اس کی تکلیف پر تڑپ اٹھتا تھا وہ اتنا سنگ دل بھی ہو سکتا تھا دل ماننے کو تیار ہی نہ ہوتا۔۔۔
دانین نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اس شخص کے ساتھ ایک خوشخال زندگی کے خواب دیکھتے ہوۓ گزارا تھا۔۔
خوابوں کے پائیدان لڑکیوں کی دسترس میں ہوتے ہیں وہ خواب سجاۓ جاتی ہیں ۔ان دیکھے رستوں پر محبت کی انگلی پکڑے چلی جاتی ہیں۔اور یہی خوابوں کے دیس تاعمر رولتے ہیں رُلاتے ہیں۔۔۔
وہ دانین جمشید علی تھی۔خواب نگر کی شہزادی۔۔اس کے خواب بےلگام گھوڑے تھے جو خواب نگر میں دوڑتے پھرتے تھے۔
اس کی خوابیدہ آنکھوں نے برسوں شہزادے کی راہ تکی تھی اور پھر شہزادہ آیا اور اس میں کھو گیا۔
خواب نگر کی وہ شہزادی خوابوں کی راہ کی مسافر بن گئ۔اور پھر چھن سے خواب ٹوٹا۔شہزادے نے ظالم دیو کا روپ دھار لیا۔۔۔
اذان کی آواز نے اس کی سوچوں پر بند باندھے۔۔کپکپاتی ہوئ وہ اٹھی۔۔تھکاوٹ اور سردی سے اس کا بدن ٹوٹ رہا تھا۔۔آہستہ آہستہ چلتی وہ کھڑکی کے پاس آئ۔۔تھوڑا سا پردہ ہٹا کر باہر جھانکا۔۔۔
کاظمی حویلی کے سامنے ہی مسجد تھی۔۔مؤذن کی اذان رات کے سکوت کو توڑ رہی تھی۔
مرغ اذانیں دے رہے تھے۔۔چرند پرند اذان کی آواز کے ساتھ اپنی پناہ گاہوں سے نکل آۓ تھے۔۔
اذان ختم ہو چکی تھی۔۔پردہ برابر کرتی دوپٹہ سر پر اوڑھے وہ وضو کرنے واش روم میں گھس گئ۔۔
وضو کر کے دوپٹہ صیح سے اوڑھا۔۔جاۓ نماز ڈالی اور نماز کی نیت باندھی۔۔ہاتھ کا درد سردی سے نڈھال ہوتا تپتا جسم اس کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا۔۔۔
آنسؤوں سے چہرہ تر تھا۔۔۔نماز پڑھ کے ہاتھ دعا کے لیئے اٹھاۓ۔آنسوؤں نے ہچکیوں کا روپ دھار لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔چہرہ ہاتھوں میں چھپاۓ وہ سسکیاں بھر رہی تھی کہ آواز سے رونے کی اجازت نہیں تھی اسے۔۔۔۔
یااللہ مجھے ثابت قدم رکھ۔مجھے ہمت دے کہ میں اپنے بھائ کی زندگی کی جنگ جیت جاؤں۔۔سوجھی ہوئ آنکھیں بخار کی حدت سے بند ہو رہیں تھیں۔۔
میرا بھائ بہت معصوم ہے اس پر لگے الزام کو غلط ثابت کر میرے اللہ۔۔۔اس کی پھر سے ہچکی بند گئ تھی۔۔۔
میں یہ نہیں کہتی اللہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔۔کئیں لڑکیاں ایسی ہوں گی جو اس سے بھی بڑے بڑے ظلم کا شکار ہوں گی۔۔۔
بس میرے اللہ میری ہمت مت توڑنا۔۔۔مجھے مظبوط کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہچکیوں کے درمیاں وہ بولی۔۔اس سے مزید بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔۔ہاتھوں کو منہ پر پھیرتی اس نے آنسؤں صاف کیئے۔۔۔جاۓ نماز لپیٹ کر دراز میں رکھی۔۔اور واپس آ کر لیٹ گئ۔۔بخار کی شدت اس کے انگ انگ کو توڑ رہی تھی۔۔تپتے جسم درد سے پھٹتے سر کے ساتھ وہ عنودگی میں چلی گئ۔۔۔۔
________________________________________________________
خالہ جان سنبھالیں اپنی ڈرپوک بیٹی کو ۔چھوٹی چھوٹی بات پر رو دیتی ہے۔۔۔وہ بمشکل اس کے خوف پر قابو پاتا اسے گھر تک لایا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔
کون ڈرپوک ہاں ڈی۔جے کسی سے نہیں ڈرتی سمجھے۔۔اپنے لیئے ڈرپوک کا لفظ سن کر وہ اپنی پرانی جون میں لوٹ آئ تھی۔۔۔
اے۔کے اور ڈی۔جے کی ماں مسکرا اٹھیں ۔وہ ایسی ہی تھی کسی بھی فیز سے پل بھر میں نکل آتی اور کبھی مہینوں لگ جاتے۔۔
خالہ جان آپ کی ڈی۔جے ابنارمل ہے آئ تھنک۔۔اے۔کے نے ڈی۔جے کو چھیڑنے کے لیئے کہا۔۔
اماں آپ دیکھ رہی ہیں اسے مجھے یعنی کے ڈی۔جے کو ابنارمل کہہ رہا ہے۔۔LLB کی سٹوڈنٹ کو۔مستقبل کی نامی گرامی وکیل کو۔۔۔ڈے۔جے اپنی ماں کی طرف دیکھتی حیرانی سے بولی۔۔۔وہ مسکرا دیں ۔ان دونوں کی نوک جھوک لگی رہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کیا غلط کہھ رہا ہوں میں خالہ جان۔۔۔اس نے ڈی۔جے کو مزید چڑایا۔۔۔۔
تم ناں مجھ سے بات مت کرو ۔۔اپنے سامان کا بیگ وہی پھینکتی وہ پاؤں پٹختی وہاں سے چلی گئ۔۔۔۔۔۔۔۔اے۔کے کا جاندار قہقہہ لاؤنج میں گونجا۔۔۔۔
________________________________________________________
سنو۔۔۔!!
محبت کرنے والے تو،
بہت خاموش ہوتے ہیں۔۔
جو قربت میں بھی جیتے ہیں۔
جو فرقت میں بھی جیتے ہیں۔۔
نہ وہ فریاد کرتے ہیں،
فقط اشکوں کو پیتے ہیں۔۔
محبت کے کسی بھی لفظ،
چرچا نہیں کرتے۔۔
وہ مر کے بھی اپنی چاہت کو،
کبھی رسوا نہیں کرتے۔۔
بہت آسان ہوتا ہے کہنا،
محبت ہم بھی کرتے ہیں۔۔۔
محبت ہم بھی کرتے ہیں۔۔
دانین۔ ۔ دانین ۔۔!!! نیم عنودگی میں اس نے اساور کی آواز سنی ۔۔۔اس نے آنکھیں کھولنی چاہیں مگر پلکیں من من کی ہو رہیں تھیں۔۔
دانین ۔۔!!اٹھو ناشتہ بنا کر دو۔۔۔وہ اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔۔مگر اس کا جسم تو ہلنے سی انکاری تھا۔۔پھر سکوت چھا گیا۔۔اسے لگا اساور چلا گیا ہے۔۔۔مگر چہرے پر پڑتے پانی کے سیلاب نے اس کی تمام حسیات کو جگایا۔۔وہ ایک دم اٹھ بیٹھی۔۔۔
اساور پانی کا خالی جگ لیئے کھڑا تھا۔۔جو سارا کا سارا بس پر پھینک چکا تھا۔۔پہلے ہی وہ بخار کی حدت سے دہک رہی تھی۔۔۔بھیگے وجود نے اس پر مزید کپکپی طاری کر دی تھی۔۔۔
پمشکل پلکوں کو اٹھا کر اس نے ظالم دیو کی طرف دیکھا۔۔۔جو پورے جہاں کی سختی اپنے چہرے پر لیئے کھڑا تھا۔۔۔
ماہرانی صاحبہ نیند پوری ہو گئ ہو تو ناشتہ بنا دو۔۔۔جگ کو میز پر پٹختا۔۔وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔۔
نیم بےجان وجود کو گھسیٹتی شال اوڑھ کر وہ کمرے سے نکل گئ۔۔۔
وہ کچن میں پہنچی کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ناشتہ بنایا اور لے کر کمرے میں پہنچی۔۔
ناشتہ کر لیں۔۔۔ٹرے ٹیبل پر رکھی۔۔۔۔۔
پرفیوم کی بوتل واپس ڈریسنگ پر رکھتا وہ آکر ناشتہ کرنے لگا۔۔۔۔
چاۓ دو۔۔۔سلائیس کا ٹکڑا منہ میں ڈالا۔۔جلدی سے دانین نے چاۓ کا کپ اٹھایا اس کی طرف بڑھایا۔۔کمزوری کی وجہ سے ہاتھ کانپا اور چاۓ چھلک کر اساور کے پینٹ پر گِر گئ۔۔۔۔اساور کا میٹر گھوما۔۔۔
جاہل عورت تمیز نہیں ہے تجھے۔۔اساور کا لہجہ وخشیانہ تھا وہ سہم گئ۔۔۔
سوری۔۔!!!! آواز کپکپائ۔۔
سوری مائ فٹ۔۔اسے زور کا دھکا دیتا وہ واش روم میں گھس گیا۔۔۔۔۔۔۔دانین کا سر بیڈ کی پائنتی سے لگا۔۔روح کی گھائل اب وہ جسم کی بھی گھائل ٹھہری۔۔۔ہاتھ سر پر لگا کر دیکھا تو خون بہہ رہا تھا۔۔۔
اس کی سانس ساکت ہوی۔وہ ڈر گئ تھی۔۔
پینٹ بدل کر وہ باہر نکلا۔۔بغیر اس پر نظر ڈالے پاؤں کی ایک مزید ٹھوکر بیڈ کے پاس بیٹھی اس خواب نگر کی شہزادی کو مارتے ہوۓ وہ لمبے لمبے ڈگ بڑھتا آفس روانہ ہو گیا۔۔۔
بہتے خون کو دیکھتی وہ رو پڑی تھی۔۔۔ماضی کی اک یاد آنکھوں کے پردے پر لہرائ۔۔
بےبی پنک پاؤں تک آتی فراک ،مانگ کی صورت میں بالوں کو دونوں کندھوں پر پھیلاۓ وہ اپنی دوست کی شادی میں جانے کے لیئے تیار تھی۔اساور لینے آیا تھا اسے۔پک اینڈ ڈراپ کی ڈیوٹی دانین کی وہی سرانجام دیتا تھا۔۔۔۔
پوری طرخ سے تیار ہو کر اس نے چوڑیاں پکڑیں اور بہننے لگئ۔۔۔ایک چوڑی اس کے ہاتھ میں ٹوٹ گئ۔۔۔۔ ۔ہاتھ کی پشت پر چھوٹی سی خراش آئ اور خون کا ننھا سا قطرہ ابھرا۔۔خون دیکھ کر اس کی جان ہوا ہوئ۔۔
اس نے زور سے چیخ ماری۔۔لاؤنج میں بیٹھے،اساور ،سعدی اور اس کی امی گھبرا گئیں۔۔بھاگتے ہوۓ اس کے کمرے کو پہنچے۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔سعدی جلدی سے اس کے پاس پہنچا۔۔۔لہجہ پریشان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ہاتھ پر چوٹ لگ گئ۔۔۔اس کے آنسو نکلنے کو بےتاب تھے۔۔۔
دکھاؤ مجھے۔۔۔اساور نے تڑپ کر اس کا ہاتھ پکڑا۔۔چوٹ چھوٹی تھی مگر اساور کو اسے تکلیف دینے والی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پریشان کرتی تھی۔۔۔۔
سعدی فرسٹ ایڈ باکس لاؤ۔۔اساور نے اس کا ہاتھ زور سے پکڑے سعدی کی طرف دیکھا۔۔وہ بھاگ کر فرسٹ ایڈ باکس لے آیا۔۔۔
جب تک اس کی پٹی نہیں ہو گئ۔دانین کی چیخیں گھر بھر میں گونج رہیں تھیں۔۔پٹی ہوی تو وہ چپ ہوئ۔۔۔
ذیادہ درد تو نہیں ہو رہا۔۔وہ ایسے پوچھ رہا تھا جیسے اسے بہت چوٹ لگ گئ ہو۔۔۔
پریشان مت ہو بیٹا اتنی بڑی چوٹ نہیں ہے۔۔۔اس کی اماں نے اساور کو مطمئن کیا۔۔۔
اماں مجھے آرام کرنا ہے۔۔چھوٹے سے زحم سے اس کو کمزوری ہو گئ تھی۔۔
اور شادی۔۔۔
نہیں جا رہی دیکھیں طبیعت خراب ہے اس کی۔۔۔سعدی اور اساور بیک وقت بولے ۔ دانین نے مسکرا کر ماں کو دیکھا۔۔جو سر جھٹکتی مسکراتی ہوئ باہر چلی گئیں۔۔۔
سر میں درد کی ٹیس شدت سے ابھری تو وہ ماضی کی یاد سے باہر نکلی۔۔۔
اس کا حال اور مستقبل اس کے ماضی سے بہت مختلف ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
خود کو گھسیٹتی وہ ڈریسنگ کے سامنے جا کھڑی ہوئ۔۔سر اچھا خاصا پھٹ چکا تھا۔۔خون ابل ابل کر بہہ رہا تھا۔۔اسے لگا وہ مر جاۓ گی مگر وہ تو بےہوش تک نہ ہوئ مرتی کیا۔۔۔
________________________________________________________
موج عشق کی تلاطم حیز روانی
جیسے اجڑا ہوا دریا بکھرا ہوا پانی
تیری آنکھوں کی سرخی کا بیان
تیری شب بھر کی اداسی کی کہانی
ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی وہ سر سے نکلتے خون کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
صیح کہا ہے کسی نے ماں باپ کے گھر چھوٹی سی چوٹ پر گھر سر پر اٹھا لینے والی لڑکی سسرال میں بڑی سے بڑی چوٹ بھی چپ کر کے سہہ جاتی ہے۔۔۔
دوپٹے سے بےدردی سے اس نے چوٹ کو رگڑا۔زخم مذید رسنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اٹھی اور جا کر منہ دھو کر کچن میں گھس گئ۔۔دن بھر نوکروں کی طرح اس سے کام لیا جانا تھا اب۔درد محسوس کرنے کا وقت کہاں تھا اس کے پاس۔۔۔
دانی۔۔!!!ناشتہ بناؤ جلدی سے میرے اور ماما کے لیئے۔اور ہاں مجھے پوریاں اور ماما کو آلو کے پراٹھے بنا دو۔۔۔سائرہ اپنا فرمائشی پروگرام لے کر خاضر ہوئ۔۔اس کی چوٹ دیکھی اور مسکرا دی۔_اس کے درد پر سکون ملتا تھا اسے۔۔۔
جی آپ جائیں میں بنا کر کمرے میں بجھواتی ہوں۔۔بخار کے مارے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ٹانگیں شل ہو رہیں تھی۔۔۔
پانی پیتی سائرہ نے اک نظر اسے دیکھا اور ہاتھ میں پکڑا گلاس نیچے پھینک دیا۔ ۔۔
کانچ کے ٹوٹنے کی آواز گونجی۔۔دانین نے سہم کر سائرہ کو دیکھا۔۔۔۔۔۔
کانچ سمیٹ لینا۔۔۔اک ادا سے مسکراتی سائرہ کچن سے چلی گئ۔۔۔
جلدی جلدی ان کے لیئے ناشتہ بنایا۔۔۔پھر لے کر کمرے میں پہنچی۔۔۔۔سائرہ اور اس کی ماں بیٹھی ٹی وی انجواۓ کر رہیں تھیں۔۔اس پر نظر پڑتے بھابھی کا مسکراتا چہرہ پتھر ہوا۔لب بھینچ لیئے۔۔آنکھوں میں غصہ نفرت خقارت جانے کیا کچھ در آیا۔۔۔
دانین کو لگا وہ اک منٹ اور یہاں رکی تو اس کا سانس بند ہو جاۓ گا۔۔سانس بند نہ بھی ہوا بھابھی اسے کچا کھا جائیں گی۔۔۔۔
ٹرے ان کے سامنے رکھتی وہ جلدی سے کمرے سے نکل آئ۔۔۔
وہ بھاگتے ہوۓ کچن میں پہنچی۔۔ٹوٹے کانچ کو وہ فراموش کر چکی تھی جو سیدھا اس کے دائیں پاؤں میں گھسا۔۔اس کے منہ سے سسکی نکلی۔۔۔
وہ وہیں بیٹھ گئ مارے درد کے اس کی گھگھی بند گئ تھی۔۔اس کا دل دھاڑیں مار مار کر رونا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔مگر وہاں اس کا رونا سننے والا کوئ نہیں تھا۔۔جو کہتا تھا کبھی کہ آنسوں نہیں آنے دوں گا آنکھوں میں وہ شخص پتھر ہو چکا تھا۔۔۔
چچی ناشتہ وہ۔۔۔!!!سومو کو بریک لگا اس نے کچن میں سسکتی ہوئ دانین کو دیکھا ۔۔۔
پاس پڑے جھاڑو سے کانچ کو ایک سائیڈ کرتی وہ اس کے پاس بیٹھ گئ۔۔جو گھٹنوں میں سر دئیے بےآواز ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
چچی۔۔سومو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اسے ایک دم جھٹکا لگا۔۔دانین آگ بنی ہوئ تھی۔۔۔بخار نے اس کے جسم کو تپا دیا تھا۔۔۔
چچی بخار ہے آپ کو تو۔۔۔سومو پریشان ہوئ۔۔۔
کچھ نہیں ہوتا سومو ٹھیک ہوں میں۔۔۔دانین نے گھٹنوں سے سر اٹھایا تو سومو کو دھچکا لگا۔۔اس کے سر سے بھی خون بہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
چچی یہ سب کیا ہے بخار سر اور پاؤں سے خون۔۔۔سومو کا لہجہ بھیگا۔۔۔
کچھ نہیں سومو۔۔یہ کانچ لگ گیا تھا پاؤں میں۔۔۔وہ مسکرائ ۔۔نم آنکھوں سے مسکرانا اذیت کی انتہا تھی۔۔۔
چکس نے ہاتھ اٹھایا آپ پر۔۔۔سومو کے لہجے میں دبا دبا غصہ در آیا۔۔۔۔۔چلیں آپ میرے ساتھ ہوسپٹل۔۔طبیعت ذیادہ خراب ہو گئ یا کچھ ہو گیا آپ کو تو۔۔سومو پریشان تھی اس کے لیئے۔۔۔
بےفکر رہو سومو بہت ڈھیٹ جان ہوں کچھ نہیں ہو گا مجھے۔۔۔سومو کے اتنی فکر پر اس کا لہجہ بھرا گیا۔۔۔
چچی میں کچھ نہیں سنوں گی چلیں میرے ساتھ۔۔۔اسے ہاتھ سے پکڑ کر تقریباً گھسیٹتی ہوئ بولی۔۔۔۔۔
سومو کام ہے ابھی مجھے بہت بعد میں چلیں گے۔۔۔اس نے اختجاج کرنا چاہا مگر سومو پر کوئ اثر نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔وہ اسے کھینچتی ہوئ اپنے ساتھ لے جا رہی تھی۔۔جلا ہوا ہاتھ زخمی پاؤں پھٹا ہوا سر اتنا درد کر رہے تھے کہ اس نے خاموشی اختیار کر لی۔۔۔۔
ڈرائیور انکل گاڑی نکالیں۔۔۔سومو نے ڈرائیور کو آواز دی۔۔جو سامنے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
سوری چھوٹی بی بی اساور صاحب کا حکم ہے دانی بی بی کو کہیں نہیں لے کر جانا۔۔۔ڈرائیور کی بات پر تو سومو کو آگ لگ گئ۔۔دانین کا دل ڈوبا۔دل نے وہ پانی رسنا شروع کیا جو آنکھ سے نکل کر آنسو کہلاتا ہے۔۔۔۔
صیح ہے مت لے کر جائیں آپ میں خود لے جاؤں گی۔۔۔فرنٹ ڈور کھول کر سومو نے دانین کو بٹھایا۔۔۔پھر گھوم کر ڈرائیور کے پاس آئ۔۔اس کے ہاتھ سے چابی کھینچی۔۔۔
گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی اور زن سے بھگا کر لے گئ۔۔۔
پیچھے کھڑا ڈرائیور اساور کے غصے سے ڈر گیا۔۔جلدی سے اساور کو کال لگائ۔۔۔
صاحب وہ سومو بیٹی دانین بی بی کو لے کر کہیں چلی گئیں ہیں۔۔۔
صاحب روکا تھا وہ مجھ سے چابی لے کر خود ڈرائیو کر کے چلیں گئیں۔۔۔۔
معاف کر دیں صاحب۔۔۔ڈرائیور کو اچھی خاصی شاید سنائ گئیں تھیں۔۔۔وہ ڈر گیا تھا۔۔۔
صاحب۔۔۔!!!اس کی بات منہ میں ہی رہ گئ۔۔دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئ تھی۔۔۔
کرے کوئ بھرے کوئ۔۔۔ڈرائیور بڑبڑاتے ہوۓ اپنے کواٹر کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔
________________________________________________________
آج اتوار کا دن تھا۔۔ڈے۔جے گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔۔ہاسٹل سے گھر آکر اس کا یہی تو کام ہوتا تھا کھانا پینا اور سو جانا۔۔۔
پراٹھوں کی خوشبو سارے گھر میں پھیلی ہوئ تھی۔۔گرما گرم پوریاں راشدہ بھیگم اماں بی کے ساتھ تل رہیں تھیں۔۔۔
پراٹھوں کی مہک اسے لگی تو وہ فوراً اٹھ بیٹھی کھانے پینے کی وہ بہت شوقین تھی۔۔۔
چھلانگ لگا کر بیڈ سے اتری۔۔بکھرے بالوں کو کیچڑ میں جھکڑتی بغیر منہ دھوۓ وہ کچن کی طرف بھاگی۔۔۔
یاہو۔۔پوریاں۔۔ ۔ وہ خوشی سے چہکتی اماں بی کے گلے لگ گئ جو ان کی ہاں برسوں سے نوکرانی تھیں اب تو وہ گھر کا فرد بن چکی تھیں۔۔۔۔۔۔
خبردار ہاتھ لگایا۔ ۔ تو پہلے خلیہ درست کرو۔۔پراٹھا تلتی راشدہ بھیگم نے چمٹا اس کے الٹے ہاتھ پر مارا۔۔۔
اففف اماں ۔۔۔بعد میں ہو جاؤں گی فریش ناں پلیز ابھی کھانے دیں۔۔۔اسنے ہاتھ پوریوں کی طرف بڑھایا۔۔۔۔
ڈی۔جے جاؤ۔۔۔اس بار راشدہ بھیگم نے باقائدہ آنکھیں نکالیں۔۔۔ڈی۔جے نے رونی سی صورت بنا کر ماں کو دیکھا۔۔
باہر سے آتا اے۔کے اس کے تاثرات دیکھ کر ہنس پڑا۔۔۔
اسلام علیکم خالہ جان۔۔۔اے۔کے کچن میں ہی چلا آیا۔۔زبردست سا ناشتہ دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔۔۔
تم کیا صبح سویرے یہ سوکھا بوتھا لے کر پہنچ جاتے ہو۔بڑے کوئ ویلے انسان ہو۔۔۔کہتے ہوۓ اس نے ہاتھ دوبارہ سے پوریوں کی طرف بڑھایا۔۔۔راشدہ بھیگم نے چمٹے کا کاری وار کیا تو وہ سی کر کے رہ گئ۔۔ ۔۔۔
یہ آج مطلع ابر آلود کیوں ہے۔۔۔اے۔کے مسکرایا۔۔اور شیلف پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔
یہ جو تمہارا مطلع ہے کھا کھا کر پھٹ جاۓ گا مگر کھانے سے باز نہیں آۓ گا۔۔۔اماں بی نے بھی اپنا خصہ ڈالا۔اے۔کے کا قہقہ بےساختہ تھا۔۔۔۔
اماں بی آپ بھی ۔۔۔۔ڈی۔جے کو صدمہ ہوا۔۔۔۔
کہہ تو ٹھیک رہیں ہے اماں بھی۔تھوڑا اپنے وزن پر دھیان دو پھٹنے کو بےتاب ہی ہو۔۔۔۔راشدہ بھیگم نے بھی اسے چھیڑا۔۔
آپ میں سے کوئ مجھ سے بات مت کرے۔۔۔منہ پھلاتی وہ پاؤں پٹختی کمرے میں گھس گئ۔۔۔
مائینڈ کر گئ وہ۔۔حالہ وزن کی بات پر وہ ناراض ہو جاتی ہے نہ کیا کریں ناں۔۔۔اے۔کے کو برا لگا تھا یوں اس کا مذاق بننا۔۔۔
کوئ ناراض نہیں ہوتی ابھی پوریوں کی خوشبو پا کر بےصبری دوڑتی چلی آۓ گی۔۔۔۔۔اماں بی نے کہا تو اے۔کے اور راشدہ بھیگم مسکرا کر رہ گۓ۔۔۔۔
________________________________________________________
محبت سمیٹ لیتی ہے
زمانے بھر کے رنج و غم
سنا ہے دوست اچھے ہوں تو__
کانٹے بھی نہیں چبتے۔۔۔۔۔!!!!!
مری کی ٹھنڈ تو ویسے ہی ہڈیوں کو چیرتی ہے اوپر سے دسمبر کا مہینہ تھا۔۔خنکی فضا میں پھیلی ہوئ تھی۔۔
آسمان نے چاند کو اپنے اندر سمویا تو دن کی سفید چادر نے دنیا کو اپنی آغوش میں لیا۔۔۔
ایسے میں لارنس کالج مری کے سٹوڈنٹس بستروں میں دبکے خواب و خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔۔
وارڈن جہاں داد کی کڑک آواز پر سب آنکھیں ملتے بستر چھوڑ کر واش روموں کو بھاگے۔۔۔
سردی سے بچنے کے لیئے اوپر نیچے جلدی جلدی شرٹیں چڑھا کر گراؤنڈ کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔
ابے سعدی تو نے پھر میری بنیان پہنی چھٹی کے بعد تجھے پوچھتا ہوں۔۔۔لائن میں لگے لڑکے بھاگ رہے تھے ان میں ہی بھاگتے ہوۓ امان دبی آواز میں غرایا۔۔۔
کیا یار تیری بنیان میری بنیان اور میری بنیان بھی میری ہی بنیان۔۔۔سعدی نے اسے چھیڑا۔۔۔۔۔
یہ ایڈوانس تھا۔۔امان نے اِدھراُدھر دیکھتے ہوۓ اس۔ کی کمر میں دھموکہ مارا۔۔۔۔باقی ادھار۔۔۔۔
تیری تو ۔۔۔سعدی اس کی طرف بڑھا۔۔۔۔
سعدی رانا اور امان کاظمی۔۔۔۔وارڈن جہاں داد کی آواز پر سعدی کا امان کی طرف بڑھتا ہاتھ رکا۔۔۔۔
تم دونوں نے ناک میں دم کر رکھا پورے کالج کے کل بھی سیکنڈ ایئر کے شفیق نے تم دونوں کی شکایت کی ہے ۔۔۔وارڈن جہاں داد کی آواز کرک اور اپنی تیز تھی کہ بندہ سن کر دو قدم پیچھے کھسکتا۔۔۔
اس شبو کو بھی زبان لگ گئ۔۔۔امان بڑبڑایا۔۔سعدی نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
کیا بول رہے ہو اونچا بولو۔۔وارڈن جہاں داد اپنی اذلی انداذ میں بولا۔۔۔۔
سوری۔۔۔یک لفظی ادائیگی دونوں نے بیک وقت کی۔۔۔اور سر جھکا کر منہ پر معصومیت طاری کر کے کھڑے ہو گۓ۔۔۔۔۔
ابھی جانے دے رہا ہوں اگلی بار پرنسپل کے پاس لے جاؤں گا۔۔۔اپنی کرک آواز میں وارڈن جہاں داد انہیں وارن کرتا ہوا چلا گیا۔۔۔
وہاں کھڑے اکا دکا سٹوڈنٹس کی ہنسی چھوٹی۔۔۔
تم لوگوں کی۔۔۔سعدی نے جو آنکھیں دکھائ سب فوراً وہاں سے رفو چکر ہو گۓ۔۔۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئیں ہیں
لیکن آج بہت بےآبرو ہو کر وارڈن کے شر سے ہم نکلے۔۔۔امان نے غالب کے شعر کو بگاڑتے ہوۓ سرد آہ بھری۔۔۔۔۔۔
چل بیٹا اسمبلی میں نہ پہنچے تو پرنسپل نے بہت بےآبرو کر کے ہمیں کالج سے نکالنا ہے۔۔۔سعدی نے بھی سر آہ بھری ۔دونوں شکل پر شیطانی معصومیت سجھا کر سر جھکاۓ گراؤنڈ کی طرف بڑھ گۓ۔۔۔۔۔۔
________________________________________________________