(مطبوعہ ماہ نامہ ’’انتساب‘‘ شاہد میر نمبر)
محسن جلگانوی کی کتاب
(’’جدید شاعری کی نمائندہ آوازیں‘‘ پر پیش لفظ)
محسن جلگانوی ایک صاحب نظر تنقید نگار، ایک عبقری جدید شاعر اور مشاق صحافی ہیں جنھوں نے تخصیص اور دقت نظری سے اردو ادب کے ادوار، ان کے مختلف پہلوؤں خصوصاً جدید اردو شاعری کے اسالیب و تجربات پر قابل قدر رائے قائم کی ہے۔ ان کی تحریریں متنوع موضوعات، ابعاد اور سمتوں کو متشرح کر کے ایک مرکوز نقطہ نظر پر منعکس کرتی ہیں۔ یہ فن آسان نہیں ہے۔ طویل زیرک تجربہ اور مشق سخن کی دین ہے جو ایک تربیت یافتہ تخلیق کار ہی کر سکتا ہے اور یہی اس سخن ور کے فکری ذوق کا واضح اشارہ ہے۔
اردو زبان کے جدید تر عہد کی شاعری بڑے طمطراق سے ترقی پسندی کے سحر کو باطل کرتی ہوئی سامنے آئی۔ ہندوستان اور پاکستان کے مختلف گوشوں سے ایک ساتھ تازہ آوازوں کے جھونکے اٹھے۔ کئی بڑے نام سامنے آئے، ہر شاعر اپنے طرز کلام، اپنی لفظیات کے برتنے کے سبب شناخت اور قبولیت کے مختلف پیمانوں پر نمایاں ہوا۔
اس دوران میں اردو کے کئی نئے رسالے، جریدے، انتھالوجی کے نہج پر مجموعے سامنے آئے جنھوں نے بہ بانگ دہل نئی آواز اور نئی شعری جہت کی آمد کا اعلان کیا۔ انتخابات کے اولین صفحات پر اس زمانے کے معتبر تنقید نگاروں اور ادبی اکابر کے مضامین ضرورہوتے جو زور و شور سے دعویٰ، دلیل اور وکالت کے طور پر جدید شاعری کی حمایت میں رطب اللسان ہوتے۔ یہ مضامین اہم اور مستقل تصنیف قسم کے تھے جو افہام و تفہیم، رہبری اور نئی شاعری کی سمت شناسی بھی کرتے لیکن ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اکثر مضامین اس مفروضے پر بھی مبنی ہوتے کہ جدید شاعری کی تائید کے لیے اہم ترین نکتہ ترقی پسند شاعری کی تردید ضرور ہو۔ اس کی خامی اور کمیوں کو اجاگر کیا جائے۔ یہ مفروضہ بے حد اضافی اور بے تکا تھا جو رائج ہو گیا۔
آج وہ زور و شور اور تائید و تردید کا طوفان ریت کے غبار کی طرح بیٹھ گیا ہے۔ جدید شاعری کی عمر بھی پینتالیس پچاس برس کی ہو رہی ہے، سن رسیدگی جھلک رہی ہے۔ آج مناسب ترین وقت ہے کہ ٹھہراؤ، اعتدال اور توازن سے جدید شاعری کا سیر حاصل جائزہ لیا جائے اور اس کے مجموعی تاثر کی بازدید کی جائے اور اس طرح محسن صاحب کی یہ کتاب بہت بروقت بھی ہے اور ادبی مطالعہ کی راہ میں ایک سنگ میل بھی ہے۔
محسن جلگانوی اپنے کلام کی ندرت اور تازگی کے لیے پہچانے جاتے ہیں ان کی شاعری جدید حسیت، ایمائیت اور اظہار ذات سے معنون ہے۔ انھوں نے اپنی آمد کا احساس ۱۹۷۰ء۔ ۱۹۸۰ء میں حیدرآباد کے جدید شعری حلقوں کو اپنی دلکش تخلیقات کے ذریعہ دلایا۔ اس کے بعد انھوں نے نثری میدان میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کیا تو کئی قابل ذکر کتابیں سپرد قلم کیں اور اپنے نقد و نظر کی صلاحیتوں کا ثبوت پیش کیا۔
محسن صاحب کی یہ کتاب بروقت بھی ہے اور موضوع کی بساطت کو محیط بھی۔ اس کتاب کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ یہ کتاب صرف تعارف و تبصرہ پر مشتمل مضامین کا مجموعہ نہیں بلکہ اس کے اہم ابتدائی اوراق جدید شاعری کا منظم اور سائنسی طرز تحلیل پر جائزہ لیتے ہیں۔ مباحث، موضوعات اور سوالات کے ذریعہ مقیاس و میزان کا عمل انجام دیتے ہیں۔ شاعری کے اسلوبیاتی لسانی اور مزاجی زاویوں پر ناقدانہ نظر ڈالی گئی ہے۔ تحلیل کے لیے منتخبہ اشعار اور اقتباسات کے ذریعہ نتائج تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح یہ کتاب جدید شاعری کی روح کی رسائی میں ممد و معاون ہو گی۔
محسن جلگانوی کی یہ تصنیف ایک خاص ہیکل اور منصوبہ بند ترتیب کے تحت تشکیل دی گئی ہے۔ اس کے ابو اب کے عنوانات اور مشمولات میں لچک بھی ہے اور افراط خیال سے نقطہ مرکوز کی طرف متوجہ ہونے کا عمل خاصی سمت شناسی سے کام لے کر کیا گیا ہے۔ بہت سارے اقتباسات اور مثالوں کی فراوانی سے اپنے مقصود موضوع کا حصول کرنا مصنف کا ہی خاصا ہے اور اس میں وہ کافی کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ اس طرح ان کی تقسیم ابو اب میں بھی غیر محدودیت ہے۔ تخصیص کے معاملہ میں وہ سختی کے پابند نہیں۔ ابو اب جدید شاعری کا منظر نامہ، جدید شاعری غزل اور نظم کے پیرائیوں سے ۱۹۵۵ء کی شاعری میں جدید حسیت، جدے دیت اور مابعد جدے دیت کے عنوانات سے معنون ہیں لیکن اگر بہ نظر غائر ان مشمولات اور امکانات پر نظر ڈالی جائے تو یہ سب ابو اب تانے بانے کی طرح بنے ہوئے ہیں کہ حریر سخن سے جو ملبوس سامنے آتا ہے وہ خاصا بوقلمون ہے۔ گویا ہر بات، ہر پہلو، ہر ممکن زاویہ پر آہستہ آہستہ نظر پڑتی جاتی ہے اور قاری سوچنے لگتا ہے کہ کہیں کوئی بات تشنہ تو نہیں رہ گئی۔ تحلیل و تجزیہ کا یہ طریقہ کار مثبت بھی ہے اور قابل اعتبار بھی۔ امید کہ محسن صاحب اس نہج پر کئی نئی تخلیقات اور کتب کے ذریعہ اردو کے دامن کو مالا مال کریں گے۔
مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ طوالت سے اختصار کی جانب رجوع کرتے ہوئے، محسن کو کافی دشوار اور مشکل فیصلے کرنے پڑے ہوں گے۔ وقت نظر اور ارتکاز اظہار کے لیے پیمانوں کو اور حدود انتخاب کو تیکھا کرنا پڑا ہو گا جس کے لیے ادبی پس منظر کا عرفان لازم و ملزوم ہے۔ اسی لیے انھوں نے جن شاعروں کو نمائندہ طور پر منتخب کیا ہے وہ واقعی اہم ترین جدید ناموں میں سے ہیں۔ ان شاعروں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور ہر مضمون اس شاعر کے تعارف اور تذکرہ کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ ان کی طرز تحریر نے ہر مضمون میں اپنی تخصیص کو زندہ رکھا ہے۔
منظر نامہ کا احاطہ کرتے ہوئے مصنف نے بے حد خوش اسلوبی سے مختلف سمپوزیم، سمینار، مباحث اور کتب میں اٹھائے ہوئے سوالات اور تحقیقاتی نکتے اور ان کے جوابات اور نتائج کو ایک ترتیب سے متوازی انداز میں جمع کر کے متشرح کر دیا ہے۔ محسن جدید شاعری کا سنگ میل ۱۹۶۰ء سے ہٹا کر ۱۹۵۵ء تک لے گئے ہیں۔ اس طرح آخر آخر کے ترقی پسند شعرا اور ادیب بھی داخل گفتگو ہو گئے ہیں۔ یہی حال تنقید نگاری کا بھی ہے ترقی پسند عہد کے چند نامی تنقید نگاروں کی آرا بھی جدید فن کی شناخت کے لیے روبہ کار لائی گئی ہیں۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ اقتباسات کو اپنے تجزیے / تبصرے سے اسی طرح تسلسل میں لائے کہ ایک مجموعی نتیجہ قاری تک پہنچ سکے۔ یہی تصنیف و تالیف کی خوبی ہے۔ محسن صاحب نے اپنی پسند اور اپنی انتخابی نظر کے تحت بہت سے اشعار اور اقتباسات بھی اس کتاب میں جمع کیے ہیں۔
محسن جلگانوی کی اس کتاب کی ایک خوبصورت خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کا سواد نظر وسیع تر ہے۔ ان کے طرز انتخاب میں اولاً، جدید شاعری، ناصر کاظمی اور اختر الایمان سے ابتدائی دور کی نشان دہی کرتی ہے۔ جدید شاعری چوں کہ جاری و ساری ہے اور نئے نام بھی آتے رہیں گے اور یہ فہرست کچھ دن اپنی چمک دمک دکھاتی رہے گی۔ نمائندہ مذکورہ جدید شاعروں میں ناصر کاظمی اور اختر الایمان دونوں ہی ترقی پسند شاعری کے دور کے اہم نام ہیں جن میں ان کی جدت طرازی اور اظہار ذات کے سبب جدید شاعری میں بھی اولیت دی گئی ہے، اس طرح میراجی، مخدوم، تصدق حسین خالد، ن۔ م۔ راشد، مجید امجد، جیلانی کامران، خلیل الرحمن اعظمی، بلراج کومل ایسے کئی شاعر گزرے ہیں جنھیں اپنی جداگانہ فکر اور ممتاز ڈکشن کی بنا پر اپنا الگ الگ مقام حاصل ہے۔ ناصر کاظمی اور اختر الایمان کا تذکرہ مختلف ادبا اور تنقید نگاروں کے فرمودات سے سجایا گیا ہے۔
خورشید احمد جامی ایک بہت خوبصورت نام ہے جو ترقی پسندی سے جدید شاعری کی جانب مائل ہوئے اور اپنی تشبیہات اور علامات کے سبب ممتاز ہوئے۔ ان پر بہت سے جدید تنقید نگاروں نے بھی خوب لکھا ہے۔ میری تحریریں، محمود خاور، وقار خلیل اور کئی اہل ادب نے جامی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ مصنف نے ان کی چند اہم آرا جو انھیں پسند آئیں پیش کر دی ہیں جن میں چوٹی کے ترقی پسند نقادوں کی آرا بھی ہیں۔ محسن جلگانوی کی زبان معیاری ہے اور ان کی تبصراتی تحریریں متوازی اور کافی دقت نظر سے لکھی گئی ہیں۔ جن دوسرے اہم جدید شاعروں کا تجزیہ اس کتاب میں تفصیل سے پیش کیا گیا ہے وہ ہیں محمد علوی، بانی، قاضی سلیم، بشیر بدر، ندا فاضلی وغیرہ۔ ہر شاعر کا تعارف و تذکرہ اپنے آپ ایک مستقل مضمون کی طرح ہے اور علاحدہ ہو کر بھی اتنا ہی اہمیت رکھے گا، جتنی اہمیت اس کتاب کے ہر حصہ کی طرح ہے۔ ہر شاعر کو اس کے انفرادی تاثر کے تناظر میں پڑھا گیا ہے۔ ہر شاعر کے بدلتے ہوئے لہجوں اور منتخبہ موضوعات کو ان کی عصری قیمت کے سیاق و سباق میں رکھ کر پرکھا گیا ہے۔ ہاں یہ بات بھی سچ ہے کہ کئی اور اہم نمائندہ شاعر شریک ذکر نہ ہو سکے، جو اپنی مخصوص شعری قد آوری کے سبب آ سکتے تھے۔ غالباً مصنف نے اختصار کی مناسبت سے تحدید قائم رکھی ہے۔ یہ کتاب ایک خوبصورت ادبی نقد و نظر کا مرقع بن کر ابھری ہے جس کے لیے مصنف لائق تحسین بھی ہے اور قابل تشکر بھی۔ ٭٭٭