ڈاکٹر روبینہ رفیق(بہاول پور)
بے کراں کائنات کی بے پناہ وسعتیں اپنے مظاہر اور فرائض کے اعتبار سے سنجیدگی کی ہمزاددکھائی دیتی ہیں اور اس میں پھیلی لا محدود مگر سنجیدہ تر معمولات کی اسیر زندگی بسا اوقات اپنی یک رنگی اور یکسانیت کے با وصف بے حد بے کیف اور حبس آلود موسموں کی رہین دکھائی دیتی ہے۔ایسے میں معمول کی سنجیدگی سے تھوڑا سا انحراف یا اُکتا دینے والی یکسانیت میں درآنے والی نا ہمواری اس احساس کو تحریک دیتی ہے جو ماحول کی ساری تھکن ، افسردگی، معمول زدگی، بے رنگی اور بے کیفی میں تازگی ، شگفتگی اور انبساط کے رنگ بھر دیتاہے۔یہ انسان کو ودیعت کردہ (اکثر اوقات )احساس ہے جو زندگی اور انسانوں سے محبت کے نتیجے میں جنم لیتا ہے اور جسے عرف عام میں احساس مزاح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی احساس کی بدولت زندگی کا بھرم بھی قائم رہ جاتا ہے اور یہ قابل برداشت بھی ہو جاتی ہے خا ص طور پر ان لوگوں کے لیے جن کے خواب اور تعبیریں ایک دوسرے سے اَن مٹ فاصلوں پر اور جن کی آرزوئیں اور تلخ حقیقتیں ایک دوسرے سے اتنی قریب ہوتی ہیں کہ باہم متصادم ہو جاتی ہیں اور اس تصادم سے جنم لینے والی شدید مایوسی سے نکلنے کی راہ احساس مزاح کے کوچے سے بھی ہو کر جاتی ہے۔کیونکہ
’’احساس مزاح کا کام یہ ہے کہ وہ انسان کی بے لگام آرزوؤں ، منہ زور امنگوں اور پُر اسرار خوابوں پر متبسم انداز سے تنقید کرے اور یوں اسے حقائق کا احساس دلا کر اس شدیدمایوسی سے بچائے جو اس کے خوابوں کی منزل پر ہمیشہ سے اس کی منتظر ہے۔‘‘(۱)
زندگی کی مانند ادب میں بھی مزاح اور احساس مزاح کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دور جدید میں ( یا کسی بھی دور میں )ادیب کا زندگی کے تلخ حقائق کی سنجیدہ ترجمانی کے ساتھ ساتھ ان پر ہنسنے کا ہنر بھی ان کو گوارا کرنے ، خوابوں اور آرزوؤں سے دست بردار نہ ہونے پرآمادہ کرتا ہے۔ یوں مزاحیہ ادب کی اہمیت سنجیدہ ادب سے ہرگز کم نہیں اسی تناظر میں ہر تخلیقی زبان کے ادب کی طرح اردو ادب میں مزاحیہ ادب کی قابل قدرروایت موجود ہے اور اس روایت میں ایک نمایاں نام محمد خالد اختر کا ہے۔
اگرچہ تخلیقی اعتبار سے محمد خالد اختر ہمہ جہت فنکار ہیں۔ان کی تخلیقات بیس دو گیارہ ، چاکی واڑہ میں وصال(ناول)کھویا ہوا اُفق(افسانے، مضامین، سفر نامے) ، ابن جبیر کا سفر(سفر نامہ)مکاتیب خضر چچا عبدالباقی اور مختلف جرائد میں چھپنے والے ان کے افسانے ان کی تخلیقی شخصیت کا معتبر اور پروقار حوالہ ہیں اور اس کی گواہی قارئین کا پڑھا لکھا اور ذوقِ سلیم رکھنے والا طبقہ ہی نہیں مقتدر ادبی حلقے بھی ایوارڈز کی شکل میں دے چکے ہیں لیکن ان کی تقریباً ساری تخلیقات میں ان کے مزاج کی شگفتگی کبھی مزاح کے پھول کھلاتی اور کبھی طنز کا نوکیلا کانٹا چبھوتی یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر طنزو مزاح نگار ہیں۔
طبعاً وہ ایک سیلانی مزاج شخص ہیں۔’’رومان‘‘کی تلاش جنہیں سرگرداں رکھتی ہے اور یہ تلاش کبھی انہیں چاندنی راتوں میں رُوپہلی چادر اوڑھے ریگ زاروں میں سفر آمادہ کرتی ہے۔ کبھی چشموں کی گنگناہٹ اور نوخیز ہر یاول میں ملبوس پہاڑوں اور وادیوں میں، کبھی پُر اسرار سا طیری روّیوں کی حامل سر زمینوں میں اور کبھی نئے لہجوں اور منفرد خیالات کی حامل کتابوں میں، اس کے ساتھ ساتھ یہ رومان اپنی جھلک ، روشنیوں، رنگوں اور ذائقوں سے محروم بستیوں ، اور ان گلی کوچوں میں اپنی جھلک دکھاتا ہے۔’’جن کی ناپاک خاشاک سے چاند راتوں کو آ آکے کرتا ہے اکثر وضو۔‘‘ ان ان ڈربہ نما مکانوں میں بھی جن کے دریچوں پر عشق پیچا کی بیلوں کے پھول نہیں کھلتے، پیوند لگے ٹاٹوں کی بوسیدگی ہانپ رہی ہوتی ہے۔۔۔۔یوں یہ رومان ، خواب آگیں اور انبساط پر ور ماحول میں زندگی کو عظمت و نفاست کے اعلیٰ ترین معیارات سے ہمکنار کرنے کی خواہش سے نہیں بلکہ زندگی کو اس کے تمام تر متنوع ، رنگین، تلخ وشیریں اور خاص طور پر اوریجنل(original)، بے ریا اور منفرد انداز میں دیکھنے اور برتنے سے تعلق رکھتا ہے۔زندگی کی (Orignality)سے ہم کلام اور ہم آہنگ ہونے کا روّیہ دراصل اس شگفتہ مزاجی اور رجائی انداز فکر کی طرف اشارہ ہے جو زندگی کی ناہمواری ، کم روئی، بے کیفی اور بے رنگی میں حسن، رنگینی اور انبساط کے پہلو تلاش کر لیتی ہے۔لا یعنیت کی اوٹ میں چھپی معنویت ، کثافت کے پردے میں ملفوف لطافت اور غلاظت کی درزوں سے جھانکتی معصومیت کو بھانپ لیتی ہے۔
یوں خالد اختر نے زندگی کو اس کے اصل چہرے کے ساتھ دیکھا، برتا، پیار کیا۔ان کی تمام تخلیقات میں یہی زندگی سانس لیتی ہے جو کبھی کوئے ملامت میں بھٹکتی نظر آتی ہے اور کبھی شہرِ اعتبار میں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے اور اس زندگی کو بسر کرنے والے خواب اور تقدیر کی متضاددنیاؤں کے باسی ہیں۔……خالد اختر اس زندگی اور ان لوگوں کی دنیا کی تضحیک جنہیں کرتے بلکہ اپنائیت اور خلوص کے ساتھ ان نا ہمواریوں اور تضادات پر زیرِ لب مسکراتے اور مسکرانے پر آمادہ کرتے ہیں کہ
’’مزاح نگار اس وقت تک تبسم زیر لب کا سزاوار نہیں جب تک اس نے دنیا اور اہل دنیا سے رَج کے پیار نہ کیا ہو۔ ان سے ، ان کی بے مہری و کم نگاہی سے، ان کی سرخوشی و ہوشیاری سے ، ان کی تردامنی اور تقدس سے……‘‘(۲)
زندگی کے گہرے اور متنوع مشاہدے نے جہاں خالد اختر کے تہذیبی اور سماجی شعور کی پرداخت کی وہیں انگریزی اور اردو ادب کا وسیع مطالعہ اور فنکارانہ ذکاوت نے ایک پختہ تخلیقی شعور اور معیار و مقدار کے ضمن میں اعلیٰ انتخابی حس بھی پیدا کی جس کا اظہار ان کے طنزو مزاح کے موضوعات سے ہوتاہے۔یہ موضوعات متنوع بھی ہیں ا ور ان میں وہ عمومیت ہے جو آفاقیت کی حدوں کو چھوتی محسوس ہوتی ہے۔یہ موضوعات وہ سچائیاں ہیں جو عام طور پر ہر سماج میں اور خاص طور پر انحطاط پذیر سماج میں دیمک زدہ قدریں بن جاتی ہیں۔ یعنی سیاست، جمہوریت، علم و ادب، ذرائع ابلاغ، معاشرتی وطبقاتی تضادات اور عام انسانی معمولات وروّیے…… یہی وجہ ہے کہ ان موضوعات کے عرصہ کے عرصہ تحریر اور لمحہ حال میں زمانی بُعدکے باوجود یہ صداقتیں ہمارے زمانے کی سیاسی و سماجی صداقتوں سے اس قدر ہم آہنگ ہیں کہ ان کی دل چسپی اور معنویت کی تازگی کی صورت ماند نہیں پڑتی ہے۔
علم و ادب کی طرف ان کے فطری رجحان کے باعث اردو ادب خاص طور پر غیر معیاری پر چوں میں فروغ پانے اور جزباتی ہیجان میں مبتلا کرنے والا تیسرے درجے کا ادب ان کے طنزو مزاح کے اہداف میں سب سے نمایا ہے……خالد اختر اپنے مضامین میں ادب کے مطالعاتی اور جمالیاتی ذوق سے عاری مگر بز عم خویش مشہور ادیبوں،شاعروں اور نقادوں کی شاعری اور تحریروں کی لایعنیت کے ساتھ ساتھ غیر معیاری پرچوں کے ایڈیٹروں کی ہوس زراور خوشامد پسندی کو بڑے شگفتہ انداز میں سامنے لاتے ہیں(سائیں حیدر علی فندک، رفتار ادب، مسٹر گھامڑ کا ادبی کیریئر ، تنقید نگاری سے توبہ وغیرہ) اس کے علاوہ علیٰ اد ب کی عدم تفہیم اور بڑے ادیبوں کی قدر شناسی کاروّیہ بھی طنز کی چبھن کے ساتھ بے نقاب ہوتا ہے۔(چچا سام کے نام آخری خط) اپنے عہد کے ادبی ماحول میں پوروان چڑھنے والی بے بنیاد رنجشوں، مخالفتوں اور حاسدانہ روّیوں کی مضحک صورتیں بھی طنزو مزاح کے آئینے میں دکھائی ہیں۔ کچھ مثالیں دیکھیے:
’’ان کے کلام کے بارے میں یہ ہے کہ ان کے مصرعے عموماً ایک بحر میں نہیں ہوتے ، انہوں نے گویا شاعری میں ایک نئی روش پیدا کی اور نظم کا رشتہ نثر سے جوڑ ا یہ اشعار لگی لپٹی اٹھانہیں رکھتے۔ سادگی اور شگفتگی ان کے کلام کے جوہر ہیں گوکہ اس کا بیشتر حصہ مبتذل اور اخلاق سے گرا ہوا ہے۔ اصل محاورے اور روز مرہ کی خواہ پنجابی کا ہو ، خواہ اردو کا یا سندھی کا ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور جوں کا توں شعر میں ضر دیتے ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ ۔ان کا زورِ کمال یہ ہے کہ چار پانچ زبانوں کا مرکب تیار کرکے ایک ایسی خوش ذائقہ بھاشا اختراع کی ہے کہ آدمی ہونٹ چاٹتا رہ جاتاہے۔‘‘(۳)
اور
’’گھامڑ اور ایڈیٹر رفتہ رفتہ اچھے دوست بن گئے گھامڑ اکثر ایڈیٹر کو کافی ہاؤس میں ملتا۔گھامڑ نے آخر اپنے انحطاطی رجحانات والے مقالے پر کام شروع کر دیا۔اس نے اس پر بے حد محنت کی۔ پہلے تو اس نے خاص نمبر کے سب سے طویل مقالے میں سے مشکل اور بار بار استعمال ہونے والے الفاظ چن کر ایک کاغز پر لکھ لیے مثلاً غیر طبقاتی شعور، سرمایہ دارانہ رجعت پسندی یا جدلیاتی قدریں، استحصالی نظام، سامراج، بورژوائی ذہنیت وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس نے ایسے فقرے بنانے کی کوشش کی جن میں ان لفظوں اور ترکیبوں میں سے کم از کم ایک آدھ ضرور استعمال ہو۔ گھامڑ کو خود اچھی طرح معلوم نہ تھا کہ وہ کیا لکھنے کی کوشش کر رہا ہ۔دس دن کی شبانہ روز محنت کے بعد وہ اپنے مقالے کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گی……۔‘‘(۴)
یا
’’ناول نویسوں کے استاد کے کمرے میں آدمی کی آنکھیں کتابوں کی بے سود تلاش کرتی تھیں……شیخ قربان علی کٹارنے اپنے اسکول کے دنوں کے بعد……کبھی کچھ نہیں پڑھا تھا وہ اس کا صاف گوئی سے اقرار کیا کرتا، مگر اس کو تاہی کی صفائی میں یہ ظاہر کرتا کہ قوت تخلیق خدا کی دین ہے اور دوسروں کی کتابیں پڑھنے سے فنکار اپنے اسلوب کی جدت اور تازگی کھو بیٹھتا ہے اس کی گفتگو اس کے مطالعہ اور مشاہدہ کے ہولناک فقدان کی وجہ سے حد درجہ عامیانہ اور غیر ادبی ہوتی اور اس اس کی دماغی نشوونما غالباً اس وقت رُک گئی تھی جب و ہ آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ مصنفوں کے ناموں تک سے اسے آشنائی نہ تھی اور اسے ان سے ایک ضدسی تھی……وہ اپنے آپ کو مصنف کی حیثیت سے ایک قسم کا بورژوایا، یا رئیس متصور کرتا تھااور دوسرے مصنفین کو محض پرولتاریت کے افراد جن پر محض ’’ناک سڑکانا‘‘چاہیے……ترقی پسندوں کاذکر اس کے اعصاب کے حق میں ضرور اور خطرہ سے خالی نہ تھا بلکہ ان مصنفوں کا ذکر بھی جو ترقی پسند نہ تھے……خاص طور پر جلال ے نام پر تو اس میں مرگی کے دورہ کی سب علاما ت ظاہر ہو جاتیں……دنیا اس کو، اصلی مصور فطرت، اصلی تھامس ہارڈی کو نظر انداز کر رہی تھی اور نئے ناول نویسوں کو جن کے ناول اس کے ناولوں کے مقابلے میں دسواں حصہ بھی سنسنی خیز نہ ہوتے تھے سر آنکھوں پر بٹھا رہی تھی ……۔‘‘(۵)
یہ حقیقت ہے کہ جو معاشرے علمی و ادبی سطح پر اعلیٰ قدروں سے بچھڑ جاتے ہیں ان کی باقی ماندہ اجتماعی قدروں کی صورت بھی اندوہناک ہو جاتی ہے۔ یہی صورتِ حال ہماری اجتماعی زندگی کی بعض قدروں کو بھی درپیش ہے جن میں سرفہرست ہماری سیاست اور نظامِ حکومت ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے لکھا تھا:
’’ہم لوگ ان چیزوں پر ہنستے ہیں جواب ہماری سمجھ میں آ گئی ہیں۔ مثلاً انگریز،عشقیہ شاعری،روپیہ کمانے کی ترکیبیں اور بنیادی جمہوریت۔‘‘(۶)
خالد اختر نے اس فہم کا ثبوت کہیں پہلے دیا۔ جمہوریت اور روپیہ کمانے کی ترکیبوں(چچا عبدالباقی) کو ان کی تمام تر ناہمواریوں سمیت اتنے لطیب پیرائے میں بیان کیا ہے کہ ایک بے ساختہ مسکراہٹ چہرے کا حصہ بن جاتی ہے۔
’’بچو! آج کل جمہوریت کا زمانہ ہے جس کو دیکھو دیوی کے نظارہ حسن میں مست ہے آؤ!ہم تمہیں بتائیں کہ جمہوریت کس کو کہتے ہیں؟ایک دانائے فرنگ نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ جمہوریت بعض ادمیوں کی حکومت ہوتی ہے جسے بعض آدمیوں کے فائدے کے لیے چلاتے ہیں……خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری نظام رائج ہے۔ ہمارے حاکم منتخب شدہ ہیں یعنی انہوں نے ایک دوسرے کا انتخاب کیا ہے وہ سب بڑے مزے میں ہیں۔‘‘(۷)
جمہوریت ہو یا آمریت یا کوئی بھی نظام، طرزِ سیاست سے ہی پھوٹتے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی ستم ظریفی ہماری سیاست ہے۔آغازِ سفر(قیام پاکستان)کے کچھ عرصہ بعد سے ہی اس کی جو چال رہی سو بے ڈھنگی رہی اور اب جب کہ اس کی سطحیت ، کھوکھلے دعوؤں اور پامال خوابوں کی تکرار عام لوگوں کی ہنسی کا موجب بھی ٹھہرتی ہے کچھ پختہ تر سیاسی شعور رکھنے والوں کی پیش بینی کی صلاحیت نے اس میں موجود مضحک صورتیں بہت پہلے دیکھ لی تھیں۔ خالد اختر بھی انہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ملکی سیاست کے خود غرضانہ ، مفاد پرستانہ رنگ ڈھنگ بھی ان کی اور ہماری ہنسی کا باعث بنتے ہیں اور ملکی سیاست خاص طور پر امریکی سیاست کے استحصالی ہتھکنڈوں اور سامراجی سوچ بھی ان کے طنز کی نشتریت کی زد میں آتی ہے۔ اس کی گواہی ان کا ناول’’بیس سو گیارہ‘‘بھی دیتا ہے اور یہ اقتباس بھی:
’’بچو!تم نے اخباروں میں مسٹر جان فاسٹر ڈلز کا نام بار بار پڑھا ہو گا آؤ تمہیں ڈلز صاحب کے متعلق کچھ بتائیں ۔ مسٹر ڈلز ریاست ہائے متحدہ امریکا کے وزیر خارجہ ہیں یہ کئی اور ملکو ں کے وزیر داخلہ بھی ہیں لیکن یہ بات ذرا چپکے سے کہنے کی ہے یہ چچا سام کے دستِ راست ہیں اور کندھے پر چار پانچ بقچے لٹکائے چھوٹے ملکوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں آؤ قریب سے دیکھیں کہ ان بقچوں پر کیا لکھا ہے۔ایک پر انگریزی میں ’’نیٹو‘‘لکھا ہے ، دوسرے پر ’’میڈو‘‘، تیسرے پر ’’سیٹو‘‘ یہ چھوٹے ملکوں کو ایک زہر خند سے چک کر ایک ایک کر کے ان بقچوں میں ڈالتے جاتے ہیں کئی ملک ایسے ہیں جن کا سر نیٹو میں ہے دھڑ میڈو میں اور ٹانگیں سیٹو میں ……چھوٹے ملکوں کو بہلانے اور کھلانے کے لیے ان کے پاس طرح طرح کی مٹائیاں اور اچھی چیزیں ہیں۔ایک جیب میں چوئنگ گم ہے تو دوسری میں کوکا کولا کی بوتلیں، تیسری میں لائف سیور کی کینڈی ہے چوتھی میں ہوائی جہازوں ، ٹینکوں وغیرہ کے کھلونے ۔ ہائیڈروجن بم ان کی اندر کی جیب میں ہے۔‘‘(۸)
اسی طرح سرکاری محکموں کی کار گزاریوں، کلک بادشاہ کی حاکمانہ طبیعت اور سرکاری وسائل کے ’’بیش بہا‘‘استعمال جیسی بے درد صورتِ حال ہو یا ہماری اجتماعی زندگی اور تقدیر کا فیصلہ کرنے والے افراد اور اداروں کی ترجیحات کے ضمن میں محدود اور سطحی اپروچ کا حساس معاملہ۔ خالد اختر اپنی فن کارانہ ذکاوت و فطانت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس پر پردہ دری اس طرح کرتے ہیں کہ دست درازی کا الزام عائد ہوتا ہے اور نہ ہی دریدہ ذہنی کا……مشتاق احمد یوسفی کے نزدیک ایک ذہن مزاح نگار کی پہچان بھی یہی ہے۔
’’جہاں سچ بول کر سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے وہاں چاتر مزاح نگار الف لیلہ کی شہر زاد کی طرح ایک ہزار ایک کہانیاں سُنا کر اپنی جان اور آبرو صاف بچالے جاتا ہے……۔‘‘(۹)
چند مثالیں دیکھیے:
’’پیارے بچو! مدت سے ہمارا قومی ترانہ نہیں تھا اس کمی کی وجہ سے دل ملول رہتے تھے۔ہم سر اُٹھا کر چل سکنے کے لائق نہ تھے۔افغانستان کا قومی ترانہ تھا، تبت کا قومی ترانہ تھا اور تو اور بوڈ لینڈ کے مردم خوروں کا ترانہ تھا۔ ایک قومی ترانہ نہیں تھا تو ہمارا۔ یہ تو ہم کو غالباً معلوم ہی ہو گا کہ باعزت ملک خوراک اور کپڑے کے بغیر زند ہ رہ سکتے ہیں مگر قومی ترانے کے بغیر ہرگز نہیں……اور ……ہمارا قومی ترانہ کو ن سی زبان میں ہے؟ اس کے ایک مصرعے میں ’’عوام‘‘کا ذکر ہے یہ غلطی شاعر سے کیسے سر زد ہوگئی؟‘‘(۱۰)
اور
’’اگلے دن ہم فشریز کے دفتر میں گئے……ہیڈ کلرک نے کہا کہ ڈیپارٹمنٹ کے پاس لے دے کے یہی کام کا ٹرالر تھا۔باقی پانچ ٹرالر پیندوں میں سوراخوں کی وجہ سے ایک مدت سے بے کار پڑے تھے۔ فشریز ڈیپارٹمنٹ نے انگلستان سے چار ہزار روپے ماہوار پر ایک ٹیکنیکل ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کی تھیں جو ڈیپارٹمنٹ کو سوراخوں کے بند کرنے کے متعلق مشورہ دے گا۔‘‘(۱۱)
ایسی صورتِ حال میں خالد اختر کا مزاح اکثر طنز کے کاٹ داردائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔کیونکہ:
’’ طنز بنیادی طور پر ایک ایسے باشعور، حساس اور درد مند انسان کے ذہنی ردعمل کا نتیجہ ہے جس کے ماحول کو ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں نے تختہ مشق بنالیا ہو۔‘‘(۱۲)
خالد اختر بھی زندگی کو دشوار اور کراہت انگیز بنانے والے تمام عوامل کے خلاف اس ذہنی و جذبتی رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔غالباً وہ جانتے ہیں کہ بعض اوقات غلطیوں اور حماقتوں کی نشاندہی یا اصلاح محض پیار بھری تھپکیوں یا چٹکیوں سے بھی ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کے نزدیک……معاشرتی ناہمواریوں ، معاشی مسائل، قول و فعل کے تضاد اور ریاکاری کے خلاف ’’طنز کا اثر بہت گہرا اور عجیب ہوتا ہے۔‘‘(۱۳)
ریاکاری اور طبقاتی تفریق کے خلاف یہ طنز بعض اوقات زہر خند کی شکل اختیار کر لیتاہے۔جس میں وہ تلخی ہوتی ہے جو آنسوؤں کو پینے کی کوشش میں حلق کو کڑوا کر دیتی ہے اور چہرے پر ایک مسکراہٹ کی معنی خیز تحریر بھی رقم کرتی ہے۔
’’امیر آدمی نئے سال کا استقبال بڑے اہتمام اور چاؤ سے کرتے ہیں۔ ان کی تصویریں ہمارے فیشن کے رسالوں میں چھپتی ہیں۔ڈنرسوٹ پہن کر یہ بڑے آدمی کسی شاندار ہوٹل میں جمع ہوتے ہیں اور وہاں دوسرے امیر آدمیوں کی بیویوں کے ساتھ ڈانس کرتے ہیں۔ بارہ بجے جب نئے سال کے پہلے دن کا ورود ہوتاہے تو یہ دہکتی ہوئی سکاچ کے جام سے اسے ہیپی نیو ایئر کہتے ہیں۔نئے سال کو منانے کا اصل طریقہ یہی ہے……وہ ہزاروں لوگ جو سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے فٹ پاتھوں کے پتھریلے بستروں پر نئے سال کا استقبال کرتے ہیں وہ نئے سال کی توہین کرتے ہیں اسی لیے نیا سال ان سے ناراض ہو جاتاہے اور ان لوگوں کے لیے طلوع ہی نہیں ہوتا……تم کبھی غریب نہ بننا……‘‘(۱۴)
خالد اختر کا فن محض طنز تک محدود نہیں بلکہ طنزو مزاح کا ایک خوشگوار امتزاج ان کے فن کا خاصہ ہے ۔اکثر مقامات پر تو طنز کانشتر جس مزاح کی لطافت کے باعث کند ہوتا نظر آتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ’’تخلیقی روّیوں‘‘کے ضمن میں یہ مثال اس بات کی گواہی دے گی۔
’’دوسرے دن صبح میں زیریں ہوٹل میں ڈبل روٹیوں کی قطاروں اور کیکوں کے مرتبانوں کی اوٹ میں لنگوٹا کسے پاکستان ریڈیو کی قوالی کی گت پر، تیل مالش کرارہا تھا اور میرا دل ہمارے ریڈیو کے کار پردازان کے لیے شکریہ اور تعریف کے جذبات سے بھر پور تھا جنہوں نے اقبال کی اسی ایسی نظموں کو قوالی بنا کر دکھادیا تھا۔ جن کے متعلق کسی کو وہم و گمان نہیں ہو سکتا کہ ان کی قوالی ہو سکتی ہے۔ میں نے سوچا کہ اقبال زندہ ہوتا تویہ امر اس کے لیے غالباً بے حد تسکین دہ اور مسرت بخش ہوتا اس نے غالباً پہاڑ اور گلہری، شکوہ اور جواب شکوہ اور دوسرے شاہکار اسی لیے لکھے تھے کہ اس کے مرنے کے بعد بھال قوال اور اس کے ساتھی انہیں دل نواز قوالیوں میں ڈھال کر علی الصبح ریڈیو سے نشر کیا کریں……‘‘(۱۵)
انگریزی ادب کے وسیع مطالعہ کے باعث وہ خالص مزاح کی رمزوں سے بھی واقف ہیں اور اس سے محفوظ ہونے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ا س لیے ان کے ہاں خالص مزاح کے بیشتر حربے یعنی واقعہ کردار، موازنہ، مشابہت ، تضاد اور اسلوب سے پیدا شدہ ظرافت کے خوب صورت نمونے ملتے ہیں۔انہوں نے ان تمام حربوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے سماجی پس منظر کو دھیان میں رکھا اس لیے ان کیہاں مزاح کی ایک سنبھلی ہوئی کیفیت ملتی ہے۔ان کے مزاح کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ا پنے مزاج میں یہ دو آتشہ ہے یعنی خیال اور لفظ دنوں کی سطح پر موجود ہے۔ ان کے خیالات اور الفاظ میں وہ شگفتہ کیفیت ہے جسے خوش مذاقی سے تعبیر کیا جاتاہے اور اس خوش مذاقی اور بزلہ سخنی کی نادیدہ مگر محسوس ہونے والی برقی روان کی تخلیقات کی باطنی سطح پر جاری و ساری رہتی ہے۔اسی بنا پر ان کے مزاح میں وہ باساختگی ہے جو معنوی اور مرصع فقروں کی انجمن آرائی کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ان کا مزاح وارد ہونا محسوس ہوتا ہے ……جیسے اچانک کوئی پھول کھل اٹھے یا کوئی چشمہ پھوٹ پڑے۔ دراصل وہ جملے یا فقرے میں الفاظ کی دروبست اس طرح سے کرتے ہیں کہ روانی سے پڑھتے ہوئے اچانک انکشاف ہوتا ہے کہ کوئی تضادا س طرح مشابہت (یا اس کے برعکس ) کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ جو بے ارادہ اور بے ساختہ ہنسی کا باعث بنا ہے ۔ یہی بے ساختگی ان کے اسلوب کی داخلی کیفیت بھی ہے اور خارجی بھی۔ مثال کے طور پر :
۱۔’’انہوں نے ہماری معاشرتی خرابیوں کو جنات سے منسوب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ رشوت خوری ، ذخیرہ اندوزی، خود نمائی اور غزل گوئی یہ سب امراض جنات کی پیدا کردہ ہیں۔‘‘(۱۶)
۲۔’’انہوں نے ایک دست کا ذکر کیا جو پہلے بھلا چنگاتھا یک لخت غزل گوئی کرنے لگ گیا۔ پانچ پانچ غزلیں روزانہ نظم معریٰ میں لکھتا تھا اور انہیں ڈاک میں بھیج کر ٹھنڈی آہیں بھرتا تھا۔……‘‘(۱۷)
۳۔’’اس کرے پر انسان کی زندگی وبال ہو چکی ہے اناج کی قلت، کپڑے کی مہنگائی اور سیاسی لیڈروں نے ہمارا یہاں رہنا دو بھر کر دیا ہے۔‘‘(۱۸)
۴۔’’پریذیڈنٹ چُنے جانے سے پہلے آپ پانامہ پولیس کے بل بوتے پر ہی پریذیڈنٹ بے تھے۔‘‘(۱۹)
۵۔’’قربان علی کو دیکھ کر مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ باچھیں کیسے کھلتی ہیں۔قربان علی کے معاملے میں باچھیں زیادہ نہ تھی مگر جتنی بھی تھیں وہ گاؤں اور چوکور ٹوپی کو دیکھ کر کھل گئیں۔‘‘(۲۰)
پیروڈی یا تحریف بھی اسلوبیاتی مزاح کی ایک صورت ہے۔خالد اختر کے ہاں مزاح کی یہ صورت بڑی نمایاں ہے انہوں نے مختلف عمومی اور معروف تصانیف کی اصل ہیئت کو برقار رکھتے ہوئے یا پھر کسی معروف ادیب کے سٹائل کی تقلید کرتے ہوئے الفاظ وخیالات کی تبدیلی سے ایک ایسا نیا اور دل چشت جہان معنی تخلیق کیا ہے جس میں ان کے عہد کی ادبی، نظریاتی، سیاسی اور سماجی خدوخال ایسی مضحک صورت اختیار کرتے ہیں جو تفریح طبع کا باعث بھی بنتے ہیں اور خندہ استجزاء کا بھی ۔ خالد اختر نے عام طور پر عمومی رسائل اور بعض اوقات معروف تصانیف یا اسالیب کی پیروڈی کی ہے۔مثال کے طور پر معلوماتی قاعدہ۔ ۱(بچوں کے لیے )،معلوماتی قاعدہ۲(قدرے بڑے بچوں کے لیے)، ایک باتصویر سوسائٹی میگزین،رفتار ادب وغیرہ’’حقایت الیسپ‘‘ ایک معروف کلاسیکل تصنیف ہے جس کی پیروڈی انہوں نے اسی عنوان سے کی ہے اور جس میں مختلف جانوروں کے روّیوں، مسائل اور سوالوں کے استعارے میں انسانوں کے مختلف روّیوں ،مسائل اور سوالوں کو بیان کیاہے……’’سائیں حید ر علی فندک‘‘ مولانا محمد حسین آزاد کی تصنیف ’’آبِ حیات‘‘کے سٹائل کی پیروڈی ہے جب کہ چچا سام کے نام آخری خط سعادت حسن منٹو کے ’’ چچا سام کے نام خطوط‘‘ کی پیروڈی ہے جسے مصنف نے ایک عقیدت مندانہ پیروڈی کا نا م دیا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے ہاں صورتِ واقعہ سے مزاح تخلیق کرنے کی بھی بڑی کامیاب کوششیں نظر آتی ہیں وہ واقعہ کی بُنت پوری جزئیات سمیت اتنی ہنر مندی سے کرتے ہیں اور مرکز واقعہ کو ایسی صورتِ حال کا اسیر بناتے ہیں ہ پورا ماحول ایک بے ساختہ ہنسی کو جنم دیتا ہے۔ عام طور پر یہ حربہ بروئے کار لاتے ہوئے مرکز واقعہ یا مزاح کا ہدف و ہ خود یا نا کا تخلیقی ہمزاد ہوتاہے۔ یوں ان کے ہاں احساس مزاح کی وہ خوب صورت شکل بھی نظرآتی ہے۔ جو خودپر ہنسنے کی وفیق اور حوصلے سے جنم لیتی ہے۔مثلاً
’’اصل شرارت کی پہلی ملّا ہدیٰ (بکرا ) نے کی ۔ اس کے باوجود کہ وہ میرے پیالے سے چائے پیتا رہا تھا۔اس کا دل میری طرف سے صاف نہ تھا۔ نہ جانے اچانک اس کے دماغ میں کیا وحشت سمائی کہ اس نے اگلی دو ٹانگوں پر کھڑے ہوکہ میرے بالوں کو سونگھنا شروع کرد یا(غالباً گھاس سمجھ کر )میں نے گھبرا کر پہلے تو شرافت اور ملائمت سے باز رکھنے کی کوشش کی مگر پھر جب اس نے میرے کان کترنے کا ارادہ ظٓہر کیا تو میں اسے پیچھے پھینک کر ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑا ہوا۔عین اسی وقت پروفیسر کے ٹھہراؤ ، بچواؤ کے باوجود مِس میسی (بندریا) خرخراتی ہوئی میز پر سے میری طرف جھپٹی۔ میز پر پیالوں اور گلاسوں کو چورا کرتی ہوئی ……کچھ عرصہ بعد میں نے اپنے آپ کو ریسٹوران کے فرش پر چت پڑے ہوئے پایا۔ پروفیسر نے مَیسی کو بروقت پیچھے کھینچ لیا تھا……‘‘(۲۱)
یا
’’کیا آپ مجھ کو اپنی فرزندگی میں قبول کریں گے؟‘‘قربان علی کٹارنے ڈرتے ڈرتے ذرا اونچا کہا۔
’’کیا؟‘‘ قصاب اپنے چھرے کو ہو امیں تو پلٹ کر مڑا۔
’’سیر گوشت چاہے‘‘کٹار نے کہا ’’ ران کا ہو‘‘۔(۲۲)
خالد اختر نے اگرچہ مزاح کے بیشتر حربوں کو استعمال کیا لیکن خاص طور پر وہ کردار سے مزاح پیدا کرنے میں بہت کامیاب ہوئے ہیں۔قربان علی کٹار ، عبدالحنان، بختیار خلجی اور سب سے بڑھ کر چچا عبدالباقی کردار نگاری سے مزاح پیدا کرنے کا معروف ترین حوالہ ہے۔ خالد اختر کے ردار اپنے ظاہری حلیے، باطنی سادگی اور معنوی ذہانت کے باعث مادی دنیا کے ریا کارانہ نظام سے متصادم ہو کر مسکراہٹ کو تحریک دیتے ہیں۔ چچا عبدالباقی سے متعارف ہوتے ہیں۔
’’اگرچہ آپ کبھی ایک چھوٹے گول مٹول سے آدمی کو دیکھیں جس نے ایک چیک ڈیزائن کا سوٹ پہن رکھا ہو۔ جس کی جیبی گھڑی کی زنجیر اپنی آب کھو چکی ہو۔ جس کے کوٹ کے کالر کے سوراخ میں ایک بڑا سُرخ گلاب لگا ہوا ہو۔ جس کے بغیر فریم کے چوکور چشموں میں سے دو معصوم بوکھلائی ہوئی آنکھیں جھانکتی ہوں ۔ جس کا چہر ہ ایک دودھ پیتے بچے کی طرح بے ریا اور پاک ہو اور جس کے سر پر اس کے کالر کے گلاب سے زیادہ سرخ ایک جھومتے ہوئے پھندے والی ترکی ٹوپی ہو تو فوراً مان لیجیے کہ یہ میر ا چچا عبدالباقی بی۔اے، ایل ایل بی ہے۔‘‘(۲۳)
چچا عبدالباقی اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے باوجود مادی زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور اس کی تلافی کے لیے خواب دیکھنے اور عملی طور پر ان کے خوابوں کے حصول کی ساد ہ اور معصومانہ مگر رائیگاں کوشش میں لگے رہتے ہیں۔چچا عبدالباقی بھی بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنی ’’ذہانت‘‘اور دور اندیشی پر بھروسہ کر کے ’’رپیہ کمانے کی ترکیبیں‘‘ سوچتے اور ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں لیکن ریا کارانہ سماجی اوردفتری نظام ان کی ’’ذہانت‘‘ کو ایسے چکر دیتاہے کہ وہ گھن چکر دکھائی دیتے ہیں اسی لیے یہ محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک طبقے کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔یوں کہیے کہ یہ کردار شیخ چلّی کا جدید (Version)ہے جو محض خیالی پلاؤ ہی نہیں پکا تا عملی طور پر بھی ’’انڈوں کی ٹوکری‘‘ زمین بو س کر بیٹھتا ہے۔ان کی ’’شیخ چلّیت کی ایک مثال دیکھیے:
’’چچا نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔ ’’فرض کرو ہم پہلے پہل سوز یبرے درآمد کریں اور ان کی پہلی افزائش نسل کا انتظام کریں۔اگر ہمارے پاس پانچ سوزیبرے بھی ہوں ، ممکن ہے ہزار ہوں یا دو ہزار……میں کم سے کم تخمینہ لگا رہا ہوں۔ہاں اگر پانچ سوزیبرے بھی ہوں اور ہم ان کو پانچ سو روپیہ فی زیبرہ کے حساب سے فروخت کریں تو پانچ سو ضرب پانچ سو کتنے ہوئے؟ عبدالرحمن پانچ سو کو ذرا پانچ سو سے ضرب تو دی۔‘‘(۲۴)
یہ وہ’’ شیخ چلّی‘‘ ہے جو کسی قدر ہم سب کے اندر موجود ہے خواب دیکھنے اور ان کے حصول کی احمقانہ کوششیں کرنے والا۔ شاید اسی لیے خالد اختر نے کہا تھا کہ:
’’خود مجھ میں بہت کچھ عبدالباقی موجود ہے۔‘‘(۲۵)
خالد اختر نے اس کردار کے ذریعے جہاں فرد کی انفرادی حماقتوں اور بے اعتدالیوں کو بے نقاب کیا ہے وہیں اجتماعی منافقتوں اور ریا کاریوں کا پردہ بھی چاک کیا ہے۔اردو ادب کے مزاحیہ کرادروں میں’’چچا عبدالباقی‘‘ بڑا معنی خیز مگر توجہ کا طالب کردار ہے۔
مختصراً یہ کہ خالد اختر کا مزاح ذہانت ، فطانت اور ذوقِ سلیم کا آئینہ دار ہے اسی لیے اس میں شگفتگی طبع کے ساتھ پر وقار شائستگی اور شستگی موجود رہتی ہے پھر یہ مزاح محض ہنسنے ہنسانے پر ہی نہیں اپنا احتساب اور گردو پیش کا تجزیہ کرنے پر بھی آمادہ کرتا ہے اور یوں ان کے مزاح میں پُر تبسم شگفتگی بھی ہے اور پر خلوص تفکر بھی……یہ تفکر مایوسی کی گرد سے آلودہ نہیں کرتا بلکہ اپنے خالق کی طرح امید ورجا کے کئی خوش رنگ زاویوں سے ہم کلام کرواتا ہے اور یہی ایک اعلیٰ مزاح نگار کی پہچان ہے کہ وہ
’’اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان ایک قد آدم دیوارِ قہقہہ کھڑی کر دیتا ہے وہ اپنا روئے خنداں سورج مکھی کے پھول کی مانند ہمیشہ سر چشمہ نور کی جانب رکھتا ہے او ر جب اس کا سورج ڈوب جاتا ہے تو اپنا رخ اس سمت کر لیتا ہے جدھر سے وہ پھر طلوع ہوگا۔‘‘(۲۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ وزیر آغا، اردو ادب میں طنزو مزاح، ص:۳۱، جدید ناشرین لاہور ۱۹۶۶ء ، طبع اوّل
۲۔ مشتاق احمد یوسفی، خاکم بدھن(دستِ زُلیخا)ص:۹، مکتبہ دانیال کراچی ۱۹۹۶ء
۳۔ محمد خالداختر، کھویا ہوا اُفق (سائیں حیدر علی فندک)ص:۳۰، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ۲۰۰۰ء
۴۔ محمد خالداختر، کھویا ہوا اُفق (مسٹر گھامڑ کا ادبی کیرئیر) ص:۱۰۹،۱۱۰
۵۔ محمد خالداختر،چاکی واڑہ میں وصال، ص:۵۵،۵۶
۶۔ مشتاق احمد یوسفی، خاکم بدھن (دستِ ذُلیخا) ص:۱۱
۷۔ محمد خالدختر،کھویا ہوا افق، ص۱۴۸
۸۔ محمد خالدختر،کھویا ہوا افق، ص۱۴۹،۱۵۰
۹۔ مشتاق احمد یوسفی، زرگزشت (تزک یوسفی) ص:۱۲، مکتبہ دانیال کراچی ۱۹۸۰ء ،طبع سوم
۱۰۔ محمد خالدختر،کھویا ہوا افق، ص۱۴۷،۱۵۰
۱۱۔ محمد خالدختر،کھویا ہوا افق، ص۷۷
۱۲۔ وزیر آغا،اردو ادب میں طنز و مزاح،ص:۶۰
۱۳۔ طاہر مسعود، یہ صورت گر کچھ خوابوں کے ،ص۲۸۱،۲۸۲، مکتبہ اسلوب کراچی ۱۹۸۶ء
۱۴۔ محمد خالدختر،کھویا ہوا افق، ص۲۶۶،۲۶۷
۱۵۔ محمد خالدختر،چاکی واڑہ میں وصال،ص:۱۴۹
۱۶۔ محمد خالدختر،کھویا ہوا افق، ص۴۶
۱۷۔ محمد خالدختر،کھویا ہوا افق، ص:۴۶
۱۸۔ محمد خالدختر،کھویا ہوا افق، ص:۲۶۳
۱۹۔ محمد خالدختر،کھویا ہوا افق، ص:۲۶۵
۲۰۔ محمد خالدختر،چاکی واڑہ میں وصال،ص:۴۶
۲۱۔ محمد خالدختر،چاکی واڑہ میں وصال،ص:۲۸
۲۲۔ محمد خالدختر،چاکی واڑہ میں وصال،ص:۸۹
۲۳۔ محمد خالد اختر، چچا عبدالباقی، ص:۹، قوسین لاہور ۱۹۸۵ء
۲۴۔ محمد خالد اختر،کھویا ہو ا افق، ص:۱۲۹
۲۵۔ محمد خالد اختر، کھویا ہوا افق، ص:۸
۲۶۔ مشتاق احمد یوسفی، خاکم بدھن (دستِ زُلیخا)، ص:۸