جب باجی کی منگنی ٹوٹی مجھے تو اس وقت منگنی کی spelling بھی نا آتی تھی۔۔۔۔
کیا خرم بھای باجی کے قابل تھے ؟؟؟؟ کیا اج انکی بیوی خوش ھے ؟؟؟
کیا وہ اچھا نا ھوا تھا ؟؟
ابو امی ۔۔۔۔۔۔
اپ سب نے !!!!!
اپ سب نے میری زات کو اس قدر منحوس بنا دیا کہ مجھے خود سے نفرت محسوس ھونے لگی۔۔۔۔مجھے اپنا آپ منحوس لگنے لگا۔۔۔خاندان کا ہر لڑکا ہر لڑکی مجھ سے خوف کھاتے تھے۔۔میں نے سب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیا۔۔۔مجھے ڈر لگتا تھا کہ کوئی مجھے منحوس نا کہ دے۔۔۔۔۔
ماما بابا
کیا کوئی بیٹی اپنے باپ ماں کے لیے منحوس ھو سکتی ھے۔۔۔۔
اپ لوگ نے میری زات کو منحوس بنا دیا۔۔۔۔مجھے منحوس بنا دیا اپ جانتے اپ کے دیے گئے اس نام نے میرا پیچھا کبھی نا چھوڑا۔۔۔۔
میری زندگی میں انے والی پہلی خوشی سمعی تھی اور دوسری خوشی حسین تھا۔۔۔
میں حسین سے بہت پیار کرتی ھوں انھوں نے مجھے جینا سکھایا۔۔۔۔مجھے خوش رہنا سکھایا۔۔۔۔مجھے سہارا دیا۔۔۔۔اور میں واقع جینا سیکھ گئ سب کچھ بھول کر اس کی محبتوں میں خود کو گم کر دیا۔۔۔۔
مگر اپ لوگوں کے عنایت کردہ میری منحوصیت نے یہاں بھی میرا پیچھا نا چھوڑا اور حسین کی ماں نے ایک منحوس لڑکی اپ کی منحوس بیٹی کو اپنی بہو بنانے سے انکا ر کر دیا اور اج مجھے حساس ھوا کے میرا وجود فضول ھے۔۔۔میرے زندگی کا کوئی مقصد نہیں۔۔۔۔اور جس چیز کا کوئی مقصد ہی نا ھو اسکو زندہ رہنے کا بھی حق نہیں ھے ۔۔۔۔
اسے ختم ھو جانا چھایئے۔۔۔
مجھے مر جانا چھایئے۔۔۔۔
اس دینا سے مایوس لوٹنے سے پہلے میں اپنی مایوسی کو ایک عبرت بنا کر چھوڑ جانا چھاتی ھوں۔۔۔تا کہ پھر دوبارہ کسی شرمین جیسی لڑکی کی زندگی خراب نہ ھو۔۔۔۔
اگر اج اپنے مجھے اپنی اولاد بنا خر رکھا ھوتا مجھے منحوس نا بنایا ھوتا ۔۔۔تو اج میں بھی ایک نارمل اور پرسکون زندگی گزار رہی ھوتی۔۔۔میں بھی اج اپ کی ایک لاڈلی بیٹی ھوتی۔۔مگر اج میں ان تمام حسرتوں کو خد ختم کرنا چھاتی ھوں۔۔۔بس میں اب تھک گئ ھوں۔۔۔لوگوں کی نفرتیں برداشت کرتے کرتے میں تھک گئ ھوں ماما بابا اب ایک پر سکون جگہ جانا چھاتی ھوں۔۔۔۔!!
سکون چھاتی ھوں !!!
میں اپ کی ظلم دنیا کو چھوڑ کر جا رہی ھوں ماما بابا اور جاتے جاتے اپ لوگوں سے ایک گزارش کر رہی ھوں۔۔۔اب کبھی کسی لڑکی کو منحوصیت کے نام پر بدنام نا کیجیے گا۔۔۔اب کسی لڑکی کی زندگی تباہ نا کیجیے گا۔۔۔۔میری موت کو ایک سبق سمجھ کر لوگوں کو سمجھایئے گا۔۔۔۔میری موت کو عبرت بنا کر سیدھا راستہ اپنانے کی خوشش کریں۔۔۔۔
کسی معصوم کی زندگی اندھیروں میں نا ڈھکلیں۔۔۔کوئی منحوس نہیں ھوتا ۔ ۔لڑکا لڑکی اللہ بناتا ھے ۔۔۔۔
اولاد اللہ نصیب کرتا ھے۔۔۔۔۔۔
شائید میری موت ہی اپ کے دل میں میری مرئ ھوی محبت جگا سکے۔۔۔۔ایک منحوس بیٹی کی محبت جگا سکے۔لوگ اور کسی لڑکی کو منحوس نا بولیں۔۔اگر ایسا ھوا تو میری روح کو سکون ملے گا۔۔میری روح کو خوش کرنے کے لیے پلیز لڑکیوں سے محبت کیجیے گا۔۔ ۔
منحوس کا لفظ اس دینا سے ختم کر دینا نا بابا ماما۔۔۔اور میری روح کو پڑھ کر بخشنا ۔۔۔۔اتنا تو حق ھے ایک منحوس بیٹی کا پاپا ماما ۔۔۔اس چیز سے محروم نا کیجیے گا۔۔۔۔۔
پاپا جاتے جاتے اپ سے کچھ کہنا چھاتئ ھوں
شام ھوگی ھے ابھی تو گھومنے چلو نا
پاپا
چلتے چلتے تھک گئ کندھے پر بیٹھا لو نا
پاپا
اندھیرے سے در لگتا ھے سینے سے لگا لو نا
پاپا
ماما تو نہیں سلاتی۔۔ اپ ھی سلا دو نا
پاپا
منحوس تو مجھ کو بنا دیا
اب انسو تو مت بھاو نا
پاپا
اپ کی مسکراہٹ اچھی لگتی ھے
ایک بار مسکرا دو نا
پاپا !!!
کوئی بات تو میری مانی نہیں
ایک بات تو مان جاو نا
پاپا
دھرتی پر بوجھ نہیں ھوتی ھے بیٹیاں
دینا کو سمجھاو نا دو نا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کو سمجھا دو نا “پاپا”
I LOVE YOU
MAMA
BABA
” I QUIET ”
اپ کی محبتوں کی پیاسی :-
ایک منحوس لڑکی
۔۔۔۔۔۔۔۔شرمین۔۔۔۔۔۔۔۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شرمین نے ایک ربط سے انداز میں خط مکمل کیا اور پھر دوسرا پیڈ اٹھا کر سنبھالا اور ایک اور خط لکھتی رہی اور روتی رہی۔۔۔۔پھر خط لفافے میں بند کر دیا۔۔۔اور لفافے پر لکھا۔۔۔۔۔
for Hussain
اور پھر قلم میز پر رکھ کر سر میز پر ٹیکا دیا۔۔۔۔ایک طوفان تھا جو اس کے اندر برپا تھا۔۔۔جو باہر نکلنے کو بار بار جوش مار رہا تھا۔۔۔۔سورج اب آہستہ آہستہ واپس لوٹ رہا تھا۔۔۔۔وہ آنسو ضبط کرتی اور پونچھتی ھوئ آہستہ سے اٹھی فون کے پاس گئ اور سمعی کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد سمعی نے کال اٹھا لی۔۔۔
ہیلو سمعی !!!!
فورن میرے پاس آجاو ایک ضروری کام ھے پلیز !!
شرمین نے آواز میں بشاشت بھر کر کہا اور فون رکھ دیا۔۔۔۔پھر جلدی سے جاکر باتھ روم میں گھس گئ۔۔۔
نھا کر خود کو فریش ظاہر کرنا چھاتی تھی کہ کہی اس کی کیفیت سے سمعی کو کچھ اندازہ نا ھو جائے۔۔۔۔۔
ابھی شرمین باتھ روم سے نکل کر بال سکھا رہی تھئ کہ سمعی اس کے کمرے میں اگئ۔۔۔۔
اور شرمین اس کو دیکھ کر حولے سے مسکرا دی۔۔۔۔
اور اگے بڑھ کر سمعی کو بے ساجتہ گلے لگا لیا۔۔۔
ارے
ارے خیرت ۔؟؟
یہ عنائت عظیم کس سلسلے میں کی جارہی ھے ؟؟؟
سمعی اچانک شرمین کے گلے لگ جانے پر سخت حیرانی سے بولی۔۔۔۔اور شرمین نے غیر محسوس طریقے سے اپنی نم پلکیں صاف کیں۔۔اور بظاہر بڑی بشاشت سے بولی۔۔۔
تم نے کہا تھا نا کہ میں جو بھی فیصلہ کروں بہت اچھا اور حسین کے حق میں ہی کروں۔۔۔تو میں نے فیصلہ کیا ھے سمعی بلکہ تمھارے کہنے کے مطابق حسین کے حق میں ہی ھے۔۔۔
اب تم سے ایک کام ھے کر دو گی نا ؟؟؟؟
ارے کیوں نہیں بھی حکم کیجیے۔۔۔۔۔
غلام حاضر ھے۔۔۔
سمعی اسے سنبھلا دیکھ کر اور اس کی بات سن کر خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی۔۔۔اس لیے بری شرارت سے بولی۔۔۔
اور شرمین نے مسکرا کر لفافہ اسے تھما دیا۔۔۔
یہ خط تم حسین کو دے دینا۔۔۔۔
اچھا !!!!
تو یہ بات ھے !!!!
محترمہ آخر مان ھی گئی ھیں۔۔۔۔
زندگی میں پہلا فیصلہ تم سے عقلمندی سے کیا ھے شرمین۔۔۔۔۔ورنہ تو ہمیشہ تم۔دوسروں کے بارے میں سوچتی آئی ھو۔۔۔
سمعی اس کی باتوں اور مسکراہٹ سے بلکل غلط مطلب نکال رہی تھی۔۔۔اور خوش ھوی جارہی تھئ۔۔۔اور شرارت سے شرمین کو تنگ کر رہی تھی۔۔۔۔
ہاں تم۔تھیک کہتی ھو سمعی۔۔۔۔
میں نے واقعی زندگی میں پہلی بار عقلمندی سے فیصلہ کیا ھے جو مجھے بہت پہلے کر لینا چھایئے تھا۔۔۔۔۔۔
مجھے بھی تو کچھ خوشیاں حاصل کرنے کا حق ھے نا۔۔۔۔؟؟؟
شرمین کی آواز حولے سے کانپ گئ !!!
جسے سمعی نے اپنی خوشی میں محسوس ہی نہیں کیا۔۔۔اور جلدی سے اٹھتے ھوئے بول۔۔۔
تمھارا یہ خط میں بلکہ ابھی ہی چند گھنٹوں بعد حسین بھائ تک پھنچا دوں گی۔۔۔میں گھر میں بیٹھے مہمانوں کو رخصت کرتے ھی ادھر جاوں گی۔۔۔۔
سدا خوش رہو میری جان شرمی۔۔۔۔
سمعی نے بے حد مسرت اور جوش کے ساتھ سمعی کو گلے لگا کر دعا دی اور اپھر شرمین نے بھی بے ساختہ اس کو زور سے اپنے اندر بیچ لیا اور دیوانہ وار اسکا منہ چوم لیا۔۔۔اور سمعی اس کو اسکی خوشی کا اظہار سمجھنے لگی۔۔۔۔اور پھر مسکراتی ھوئی چلی گئی۔۔۔۔۔۔
اور اس کے نکلتے ھی شرمین کا ضبظ ٹوٹ گیا۔۔۔وہ پھر سے پاگلوں کی طرح رو دی۔۔
میری پیاری دوست !!!
میں تم سے بہت دور جا رہی ھوں ہمیشہ کے لیے تم سے جدا ھونے والی ھوں ۔۔۔۔
تمھیں نہیں معلوم۔۔۔
تم نہیں جانتی سمعی۔۔۔۔
کہ تیری یہ دوست تجھ سے اب کبھی نا مل سکے گی۔۔۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔۔
وہ بلک بلک کر سمعی کی باتیں سوچ سوچ رہی تھی۔۔۔اس کے ساتھ گزارا ھوا بچپن ۔۔۔۔اسکول کا ساتھ پھر کالج کا ساتھ۔۔۔۔
اس کے ساتھ لڑنا جھگڑا کرنا۔۔۔۔شرمین کے زہن میں ایک کے بعد ایک یاد آرہی تھی۔۔۔۔ایک ایک لمحہ فلم کی طرح اس کی انکھوں کے اگے گھوم رہا تھا۔۔۔۔۔
پھر شرمین نے آخری نظر اپنے کمرے پر ڈالی اور آنسوں کو رومال میں جزب کیا اور امی ابو والا لفافہ تھام کر آیا کے کمرے میں چلی ائ۔۔۔۔
آیا شائید ابھی نماز پڑھ کر فارغ ھوئ تھی۔۔۔
آیا جی !!!!
میں زارا سی دیر کو جارہی ھوں میرے جانے کے بعد اپ یہ خط امی ابو کو دے دینا۔۔۔۔
کس کا خط ھے یہ بیٹی ؟؟؟
آیا نے حیرت سے پوچھا۔۔۔مجھے نہیں معلوم ایا بس اپ یہ خط ان دونوں میں سے کسی کو دے دینا۔۔۔۔۔
مجھے ضروری کام سے جانا ھے اچھا خدا حافظ۔۔۔۔
جلدی آجانا بیٹی رات کو دیر نا کرنا۔۔۔
آیا نے تاکید کی۔۔۔
ہم آیا جی جلدی آجاوں گی۔۔۔۔
شرمین آیا کی شفیق صورت کو تکتی ھوئ نظروں کے زریعے دل میں اتارتی ھوئ جلدی سے کمرے سے نکل گئ اور ڈورتی ھوئ گیٹ سے باہر نکل گی۔۔کہ کہیں ایا جی کی شفقت اس کے فیصلہ کو بدل نا دے۔۔۔۔آیا جی اس کی انکھوں میں اترنے والا سیلاب کو دیکھ نا لیں۔۔۔۔
جاتے جاتے ایک نظر امی ابو کے بیڈ روم کی طرف ڈالی۔۔۔مگر شائید ابو بزنس کے سلسلے میں گئے ھوئے تھے اور امی جان آرام فرما رہی تھی۔۔۔۔۔اس نے ایک بار پھر پلٹ کر گھر کو دیکھا اور نظروں میں بسایا اور تیزی سے چلی گئ۔۔۔۔۔۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
یہ کیا ھے سمعی ؟؟؟؟
حسین نے خط ہاتھ میں لیتے ھوئے کہا۔۔۔۔
پتا نہیں اپ خود دیکھ لیں شرمین نے دیا ھے۔۔۔۔سمعی نے شرارت سے ثوبیہ کی طرف دیکھا تو ثوبیہ ھسن دی۔۔۔
کیا ؟؟ شرمین نے دیا ھے۔۔۔۔؟؟؟؟؟
حسین بہت سخت حیران تھا۔۔۔۔
جی ہاں جناب !! اپ کی شرمین نے دیا ھے۔۔چلیں اب کھولیں اور جلدی سے پڑھ کر کوئی خوشخبری ہمیں بھی سنا دیں۔۔ ۔۔۔سعمی نے بڑی شرارت سے کہا اور خود وہی بیٹھ گئ۔۔۔
حسین نے فورن لفافہ کھولا ۔۔۔اور ایک ایک لفظ اس کا دل بند کر رہا تھا۔۔۔اس کے چہرے پر ایک رنگ اتا اور جاتا۔۔۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...