(Last Updated On: )
وہ اندھا دھند بھاگ رہی تھی اس سنسان سڑک پر بس اس سے بچنےکا یہی ایک راستہ تھا وہ اس کی پہنچ سے دور ہوجانا چاہتی تھی پر پلٹ کر دیکھنے سے ڈر رہی تھی کہیں اس کا حوصلہ نہ ٹوٹ جاۓ ۔۔۔۔ یہ اس کا حوصلہ تھا جو اپنی عزت بچانے کے لیۓ بغیر پرواہ کے بھاگ رہی تھی یہ جانے بغیر کہ وہ ان کی نظر سے اوجھل ہونے میں کامیاب ہوئی کہ نہیں ۔۔۔۔
“تم نے کیوں سانس روک لی ہے ہاتھی میرے ساتھی بچ جاۓ گی ہیروئن جو ہے ۔۔۔
“ایمان چپ کر جاؤ ۔۔۔ جب میں ڈرامہ دیکھوں مجھے ڈسٹرب نہ کیا کرو ۔۔۔
اس کی انکھیں ٹی وی پر مرکوز تھیں اور بول ایمان سے رہی تھی ۔۔۔
“او سنو ۔۔۔ایمان نے گھبرائی آواز میں کہا ۔۔۔۔
“ششششش چپ دیکھنے دو ۔۔۔ انشاء نے ٹوکا ۔۔۔ ساڑی میں بھاگتی ہیروئن اس کی نظر کا محور تھی ۔۔۔
اسی وقت کسی نے ایل ای ڈی بند کی ۔۔۔۔
“کیا بکواس ہے ایمان ۔۔۔ انشاء نے غصے سے کہا پر اگلے لمحے اس کی زبان کو بریک لگا ۔۔۔ وہ شاک میں اگئی ۔۔۔ اب سہی معنیٰ میں اس کی سانس تھمی ۔۔۔۔
“کتنی دفعہ کہا ہے تم دونوں سے کہ انڈین ڈرامہ اور فلم نہ دیکھا کرو کہ تم دونوں کے لگتا ہے سمجھ میں بات ہی نہیں آتی۔۔۔
عیان نے غصے سے کہا ۔۔۔
“بھائی وہ ہاتھی میرے ساتھی نے کہا دیکھنے کو اس کی فرینڈ نے بتایا اسے ۔۔۔
“نہیں عیان بھائی ساری غلطی اس ایمان کے بچے کی ہے ۔۔۔ انشاء نے سب الزام ایمان پر رکھا ۔۔۔
“نہیں ساری غلطی اس ہاتھی میرے ساتھی کی ہے ۔۔۔ ایمان نے کہا ۔۔۔
“چپ کرجاؤ دونوں آواز نہ نکلے دونوں کی جاؤ اپنے اپنے کمروں میں ۔۔۔ اس نے غصے سے کہا ۔۔۔
دونوں نظریں جھکاۓ اپنے کمروں کی طرف بھاگے ۔۔۔ عیان ان کو جاتا دیکھ رہا تھا ۔
@@@@
“کیا بات ہے عیان وہ دونوں نہیں آۓ کھانے پر ۔۔۔
بابا جان نے پوچھا ۔۔۔ یہ اس گھر کا رول تھا رات کا کھانا ساتھ میں کھایا جاتا ۔۔ ایمان اور انشاء کی غیر موجودگی کو محسوس کیا انہوں نے ۔۔۔
“زینب بی بی ۔ بلائیں دونوں کو ۔۔۔ عیاں نے اس گھر کی پرانی ملازمہ سے کہا ۔۔۔
“وہ عیان بیٹے نے ڈانٹا تھا دونوں کو اس لیۓ انشاء بیٹی تو سوگئی باقی ایمان بیٹے نے منع کردیا ہے ۔
“کیوں ڈانٹا دونوں کو ان دونوں کے دم سے رونق ہے گھر میں اور تم دونوں پر رعب ڈالتے رہتے ہو ہر وقت ۔۔۔
بابا جان نے منہ کہا ۔۔۔
” ان کی بھلائی کے لئے کرتا ہوں میں ,
” وہ دونوں بڑے ہیں اپنی بھلائی سمجھ سکتے ہیں تم اتنا رعب نہ ڈالا کرو ۔۔۔
جی بابا جان ۔۔۔ اتنا کہہ کر اٹھنے لگا تو اسی وقت انہوں نے پوچھا اب تم کہاں جارہے ہو۔۔۔
” بابا جان ایمان کو بلانے جا رہا ہوں ۔۔۔
اور پھر واقعی کچھ دیر میں وہ اسے منا کر لے کر آگیا ۔۔۔ دونوں بھائی ساتھ ارہے تھے ۔۔۔
عیان انشاء کو بھی ساتھ لے کر آنا تھا نا ۔۔۔ بابا نے کہا ۔۔
” وہ سو گئی تھی بابا جان ورنہ اسے بھی لے کر آتے ۔۔۔ عیان نے جواب دیا ۔۔
” بابا جان آپ کو پتہ ہے نہ وہ ہاتھی میری ساتھی کتنا ڈرتی ہے عیان بھائی سے اور ان کے خوف سے سوگئی ۔۔۔
ایمان بتا کر ہسنے لگا ۔۔۔
“چپ کرجاؤ ایمان , ڈاکٹر بننے والے ہو پر ہو بچے کے بچے ہی یہ بھی کمال تمہارا ہے جو تم نے اسے مجھ سے اتنا ڈرایا ہوا ہے ۔۔۔
“ارے بھائی میں نے نہیں , یہ اپ کے خود کے کمالات ہیں , کیوں بابا جان ۔۔
“اب چپ کرجاؤ اور کھانا کھاؤ جلدی سے ۔۔۔
اور پھر واقعی خاموشی سے کھانے لگے دونوں ۔۔۔
کچھ دیر کے بعد قہوہ کا دور چلا , حیدرشاہ کی عادت تھی وہ کھانے کے بعد قہوہ ضرور پیتے اور یہ عادت ان کی اہلیہ نے ان میں ڈالی تھی کیونکہ ان کا ہنا تھا کھانے کے بعد قہوہ پینے سے بہت بیماریوں سے انسان بچ جاتا ہے اور تیزابیت کا شکار بھی نہیں ہوتا ہے ۔۔۔ بس تو یہی عادت حیدر شاہ نے اپنے بچوں میں منتقل کی تھی ۔۔۔ پر فارن رہنے کے بعد عیان کی عادت چھوٹ گئی تھی جبکہ انشاء اور ایمان اج بھی ان کا ساتھ دیتے تھے ۔۔۔ جبکہ عیان کافی پینے لگا تھا ۔۔۔
ایک طرح یہ ٹائم ان کا فیملی ٹائم تھا جس میں کوئی بھی ضروری بات کرنا ہو کرلیا کرتے تھے ۔۔۔
اس وقت زینب بی بی نے حیدرشاہ اور ایمان کو قہوہ دیا اور عیان کو کافی دے کر چلی گئی ۔۔۔
اور وہ اپس میں باتیں کرنے لگے ۔ عیان نے دو گھونٹ پی کر کافی چھوڑدی جس پر بابا جان ٹوکا تو جواب میں اس نے کہا۔۔۔
“آج مزا نہیں کافی میں اس لیۓ ۔۔۔
“بابا جان ان کو تو ہاتھی میرے ساتھی کے ہاتھ کی پسند ۔۔۔۔
ایمان ہنستے ہوۓ اور کچھ کہنے لگا پر عیان نے اس کی بات کاٹ کر کہا ۔۔۔
” بس کرو ایمان اس طرح نہیں بلاتے کسی کو اور وہ بھی خاص کر لڑکیوں کو , ہاتھی میرے ساتھی یہ بھی کوئی نام ہوا بھلا , کل اس کی شادی ہوگی اگلے گھر جاۓ گی کیا مناسب لگتا ہے تم اسے ایسے ناموں سے پکارو ۔۔۔
عیان نے تھوڑا رعب سے کہا کیونکہ اسے سخت ناگوار گزرا تھا اس طرح انشاء کو پکارنا ۔۔۔
ایمان اس کی بات سن کر شاک ہوا اور کچھ دیر تو اس سے بولا نہ گیا ۔۔۔
“انشاء کی شادی اگلے گھر ۔۔۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے ۔۔۔ وہ خود سے بولا ۔۔۔
“سوری بھائی مجھے سوچنا چاہیۓ تھا ۔۔۔
“ہممم عیان ہنکارا ۔۔۔
کچھ دیر میں ایمان تو اٹھ گیا پر بابا جان بھی گم صم بیٹھے رہے گۓ ۔۔۔
“آپ کو کیا ہوا بابا جان ۔۔۔ عیان نے ایمان کے جاتے باپ سے پوچھا ۔۔۔
“بس باپ کے سامنے کوئی بیٹی کی شادی کی بات کرتا ہے تو ان کو اپنی زمیداری کا احساس جاگ جاتا ہے ۔۔۔
تو بابا جان ہمیں ہی کرنی ہے اس کی شادی اب بیس کی ہوگئی ہے میرا خیال ہے ہمیں کوشش کرنی چاہیۓ ۔۔۔
“پر بیٹا تم بتیس کے ہوگۓ ہو پہلے تمہارا سوچنا ہے پھر انشاء کا ۔۔۔
“بابا جان میں نے پہلے کہے دیا مجھے شادی نہیں کرنی اپنا بزنس سیٹ کروں گا پہلے پھر دیکھوں گا ۔۔۔
“پر عیان تمہاری عمر میں میں دو بچوں کا باپ بن گیا تھا ۔۔ مجھے دیکھ کر کوئی مانتا نہیں اتنے بڑے بیٹے ہیں ۔۔۔
“بس بابا جان وہ دور ایسا تھا ۔۔۔ اج بھی اپ بہت ہینڈسم ہیں میرے تو بڑے بھائی لگتے ہیں ۔۔۔
وہ مسکراۓ اور دراز قد خوبرو بیٹے کو دیکھا اور کہا ۔۔۔
“تو مان جاؤ نا شادی کے لیۓ رونق لگے تمہارے بچوں کو گود میں کھلاؤں ۔۔۔
انہوں نے حسرت سے کہا ۔۔
بابا جان میری چھوڑیں ایمان کی کروادیں ویسے بھی سب اس کا ہی تو ہے , میں اپنا بزنس کروں گا ابھی ایک دو سال رہنے دیں اپ ایمان کی کروادیں ۔۔۔
“تم نہیں مان رہے وہ کیا مانے گا ہے تو تمہارا ہی بھائی , انشاء کی نہیں کرواؤں گا ورنہ میرے گھر کی رونق بھی چلی گئی پھر تو میں اکیلا ہوجاؤں گا ۔۔۔
انہوں نے اداس لہجے میں کہا ۔۔۔
“اف بابا جان اپ بھی نا , بس ایمان کی کروادیتے ہیں شادی ۔۔۔
“عیان ایک بات کہوں ۔۔۔ انہوں نے سرے سے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
“بیٹا مجھے انشاء بہت عزیز ہے تم جانتے ہو ۔۔
“جی بابا جان جانتا ہوں ۔۔۔ تو ۔ عیان نے سوالیہ انداز میں کہا ۔
“بس اسی لیۓ میں انشاء کی شادی تم سے کروانا چاہتا ہوں ۔۔۔
“واٹ ۔۔۔ عیان نے شاک بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔
“واٹ … شاک لہجے میں عیان نے کہا ۔۔۔
“کیوں اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا بات ہے ۔۔۔ ان کا انداز نارمل ہی تھا ۔۔۔
“بابا جان , وہ مجھ سے اتنا چھوٹی ہے میں نے ہمیشہ اسے ایمان کی طرح سمجھا اس نظر سے تو میں کبھی سوچ ہی نہیں سکتا ۔۔اور پلیز آئندہ یہ بات مت کہیۓ گا ۔۔۔
اب کے عیان کے لہجے میں سختی تھی اور شاید اسے سخت ناگوار گزرا ہو جیسے اس کے چہرے کے تاثرات گواہی دے رہے تھے اس بات کی ۔۔۔
“پر بیٹا , وہ میری ذمیداری ہے ۔۔۔
“تو اپ نبھائیں ذمیداری اس کی شادی ایمان سے کردیں , دونوں ایک دوسرے کو میچ بھی کریں گے ۔۔ میرا خیال ہے ۔۔۔
اس نے پرسوچ انداز میں کہا ۔۔۔
“جہان تک میرا خیال ہے شاید دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہوں ۔۔۔
“ارے واقعی یہ خیال تو مجھے ایا ہی نہیں ۔۔۔ بس ہر باپ کی طرح میں نے پہلے بڑے بیٹے کو سوچا , ہممممم ایمان اور انشاء کا جوڑ ٹھیک رہے گا ۔۔۔ وہ بےساختہ ہنسے اور عیان بھی ان کے ساتھ مسکرایا ۔۔۔
“تو بس ٹھیک ہے بابا جان , ایمان اور انشاء اگر مانے تو ان کی شادی کردیں گے جلدی پھر تو اس گھر کی رونق بڑھ جاۓ گی ۔۔۔
“یہ سہی رہے گا , میرا دل خوش ہوگیا ہے اگر یہ سب ممکن ہوجاۓ , میری بیٹی اسی گھر میں رہے اس سے بڑی خوشی کی کیا بات ہو ۔۔
“بسسس بابا جان ہوجاۓ گا , میری شادی کا فی الحال سوچیۓ گا بھی نہیں ۔۔۔ مجھے میرے کیریئر پر فوکس کرنا ہے ۔۔۔
عیان نے ٹھوس لہجے میں کہا ۔۔۔
“اچھا میرے باپ نہیں کہوں گا , اج تک تم سے کچھ منوا سکا ہوں جو اج مانو گے ۔۔۔۔
انہوں نے کہا جس پر عیان نے انکھیں سکوڑیں اور کہا ۔۔۔
“بابا جان اپ کا بھی وقت آۓ گا ایک دن اۓ گا جو اپ کی بات یہ بیٹا مانے گا ۔۔۔
“اللہ ہی خیر کرے اب تو اثار بھی نہیں رہے جو ایسا وقت اۓ جو زبردستی کوئی بات تم سے میں منوائوں ۔۔۔
انہوں نے ہنستے ہوۓ کہا جس پر عیان بھی ہنسا اور کہا
” آۓ گا آۓ گا اپ کا بھی وقت اۓ گا ۔۔۔۔
دونوں باپ بیٹا کم دوست زیادہ لگ رہے تھے اور ان کا تعلق ایسا ہی تھا ۔۔۔
ایسا تھا محبتوں بھرا یہ گھر ۔۔۔ جس میں ہر روز یونہی گھر میں ایک دوسرے محبت کا تعلق نبھایا جاتا تھا ۔۔۔
@@@@@@@@@@
حیدر شاہ اور ان کی اہلیہ نائلہ بیگم جن کو اللہ نے شادی کے ایک سال بعد اپنی نعمت سے نوازا ان کا پہلا بیٹا عیان ۔۔۔۔
دونوں میاں بیوی بے انتہا خوش تھے۔۔۔ حیدر شاہ اور نائلہ بیگم اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے اس لئے ان کو خواہش تھی کہ ان کو ڈھیر سارے بچے ہوں ۔۔ دونوں کا تعلق گاؤں سے تھا پر حیدر شاہ بہت زیادہ پڑھ کر اپنا بزنس کرنا چاہتے تھے نہ کہ زمین سنبھالین ۔۔۔ اس لیے اپنے چچا کے بیٹوں کو بیچ کر اپنے حصے کی زمینین , خود شہر میں آکر ابسے ۔۔۔ جب تک ماں باپ زندہ تھے تب تک گاؤں سے تعلق رکھا پھر اہستہ وہ تعلق بھی کم ہوتا گیا ۔۔ نائلہ ان کی پھپھو کی اکلوتی بیٹی تھی ۔۔۔ نائلہ بیگم کے ماں باپ کے گزرنے کے بعد وہ تعلق بھی کم ہوگیا ۔۔۔ اب صرف دکھ سکھ کے موقع پر ہی ملنا رہتا تھا گاؤں والوں سے ۔۔۔
عیان ان دونوں کی آنکھوں کا نور تھا ۔۔۔ بہت محبت سے پال رہے تھے دونوں ۔۔۔ ان کا بزنس دن بدن ترقی کے مراحل سے گزر رہا تھا ۔
زینب بی بی بہت کم عمری میں بیوہ ہوگئی تھیں اس کی ماں نائلہ بیگم کی امان کے گھر کام کرتی تھیں ۔۔ عیان کی پیدائش کے وقت زینب کو گاؤں سے شہر لے کر آئیں تھیں نائلہ بیگم کی سھولت کے لیۓ ۔۔۔ زینب بی بی نے نہ صرف گھر سنبھالا بلکہ عیان کو بھی بہترین طریقے سے سنبھالا ۔۔۔ جس سے متاثر ہوکر نائلہ بیگم نے مستقل رکھ لیا ۔۔۔ زینب کو زینب بی بی عیان نے کہنا شروع کیا تو یوں ان کا نام زینب بی بی پڑ گیا ۔۔۔ کہنے کو ملازمہ تھی پر گھر کے فرد سی حیثیت اختیار کر گئیں ۔۔۔
حیدر شاہ نے بھی ان کو بہن کا مقام دے دیا تھا یوں زینب بی بی گھر کی ملازموں کی ہیڈ بن گئیں تھیں ۔۔۔
نائلہ بیگم ایک بہترین بیوی تھیں جو بچے کے پیچھے اپنے شوہر کو بھولتی نہیں تھیں بلکہ ہر وقت شوہر کو ان کا مکمل ٹائم دیتی ہے ۔۔۔ حیدر شاہ ان پر جان چھڑکتے تھے۔۔۔
عیان چار سال کا ہوگیا پھر بھی کوئی خوشخبری ان کی زندگی میں نہ آئیں تو ڈاکٹر کو دکھایا علاج کروایا پر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔۔۔ دعا بھی کروانے لگے پر بس اللہ کے کاموں میں کون کیا کرسکتا ہے اس کی مصلحت وہی جانے ۔۔۔
یہ غم اندر ہی اندر نائلہ بیگم کو کھائے جا رہا تھا ۔۔۔ عیان سات سال کا بھی ہوگیا پر کوئی خوشخبری نہ ائی ۔۔۔ حیدر شاہ سمجھاتے رہتے پر وہ دکھی رہنے لگی تھیں ۔۔ علاج کروانا دعا کروانا بند کر دیا انہوں نے ۔۔۔ اب کسی سے بھی کچھ نہ کہتی ۔۔
پھر انہی دنوں ان کی طبیت گرنے لگی پر وہ خود سے لاپرواہ ہوگئیں تھیں حیدر شاہ نے زبردستی ڈاکٹر کو دکھایا جس پر معلوم ہوا وہ دوبارہ مان بننے والی ہیں ۔۔۔ یہ لمحہ ان کی زندگی کا سب سے خوبصورت لمحہ تھا جب ساری امیدیں ٹوٹ گئیں تو اللہ نے ان کو یہ خوشخبری سنادی ۔۔
پھر تو بس حیدر شاہ اور زینب بی بی نے ان کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا ۔۔۔ ہر وقت ارام اور ان کو ریلیکس رکھا جانے لگا ۔۔۔ پھر آخر کار وہ وقت بھی آگیا جب انہوں نے ایک اور بیٹے کو جنم دیا ۔۔۔ پر اسے پیدا کرنے کے ساتھ وہ خود اس دنیا سے چلی گئیں کچھ پیچیدگیوں کے بعد ۔۔۔ وہ لمحہ کسی قیامت سے کم نہ تھا حیدر شاہ کے لیے۔۔
اس وقت زینب بی بی نے ہی اس بیٹے کو سنبھالا ۔۔۔ حیدر شاہ تو گم صم ہوکر رہ گۓ تھے ۔۔۔ یہاں تک بیٹے کا نام رکھنا ان کو یاد نہ رہا ۔۔ رشتیداروں کے احساس دلانے پر انہوں نے اپنے بیٹے کا نام ایمان رکھا یہ نام نائلہ بیگم کو پسند تھا ۔۔۔ وہ اکثر حیدر شاہ سے کہتی” بچے کا نام ایسا سوچنا چاہیۓ جو لڑکا لڑکی دونوں پر رکھا جاسکے تو حیدر شاہ نے کہا “تو ممتاز نام کیسا رہے گا لڑکا لڑکی دونوں پر رکھا جاسکتا ہے ۔۔۔
“یہ کیا بکواس نام ہے پرانے زمانے کا , میں نے سوچ لیا ہے ایمان نام رکھیں گے لڑکا ہو یا لڑکی دونوں پر رکھا جاسکتا ہے ۔۔
یوں ان کے دوسرے بیٹے نام ایمان رکھا گیا ۔۔۔ وقت کے ساتھ لوگوں نے کہا سب نے کہا زینب بیبی یہان تک عیان خود نے اپنے بابا سے کہا پر وہ نہ مانے دوسری شادی کے لیۓ کیونکہ وہ نائلہ بیگم کی جگہ کسی کو دے ہی نہیں پا رہے تھے ۔۔
وہ مر کر بھی ان کے اندر زندہ تھیں اور انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں پر اپنی زندگی نچھاور کرنے لگے اور ان میں ہی اپنی خوشیاں دیکھنے لگے ۔۔
وقت کا کام گزرنے کا تھا جو گزر رہا تھا تھک کر دوستوں نے سب نے کہنا بند کر دیا دوسری شادی کا ۔۔۔
دو بیٹوں نے ان کی زندگی کو مکمل کر دیا تھا پر ایک بیٹی کی کمی شدت سے ان کو محسوس ہوا کرتی تھی ۔۔۔ پر سوائے صبر کے وہ کر ہی کیا سکتے تھے۔۔۔
@@@@@@@@
عیان 15 سال کا ہو گیا تھا اور میٹرک کے اگزام کے دن تھے اس کے اور ایمان 7 سال کا تھا ۔۔۔ ایک دن حیدر شاہ ایک خوبصورت بچی کا ہاتھ تھام کر ارہے تھے ۔۔۔ ایمان بے انتہا خوش ہوا اس گڑیا کو دیکھ کر اتنی خوبصورت گڑیا جو کسی کا بھی دل موہو لے ۔۔۔ وہ موٹو اور گپو سی تھی سنہری بال بڑی انکھین خم دار پلکین جیسے واقعی کسی ڈول کا گمان ہو ۔۔۔
“ایمان یہ انشاء ہے اس کو اپنے کھلونے دکھاؤ ۔یہ ہمارے ساتھ ہی رہے گی اب سے ۔۔
“سچی پاپا مجھے تو یہ بہت پسند ہے گڑیا ۔۔۔ اب یہ بنے گی میری ساتھی ہر گیم میں ۔۔۔ بہت مزا آۓ گا ۔۔۔
ایمان نے خوش ہو کر اس کا ہاتھ تھاما اور اسے چلنے کا کہا ۔۔۔ پر وہ تو حیرت سے ٹکڑ ٹکر دیکھے جا رہی تھی گھر کو ۔۔۔
” انشاء جاؤ دیکھو بھائی ہے یہ تمہارا ۔۔۔ حیدر شاہ نے کہا پر پھر بھی وہ گلابی فراک پہنے گڑیا وہیں جمی رہی ۔۔۔
” نہیں بابا جان میں آس کا بھائی نہیں ہوں اس کا دوست ہوں اور یہ میری ساتھی ہے ۔۔۔
“اوکے اوکے بیٹا ۔۔ جاؤ اسے گھر دکھاؤ ۔۔
زینب بی بی اور عیان تو حیران ہی تھے اسے دیکھ کر ۔۔۔ ایمان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا تاکہ اسے لے جا سکے اور گھر گھماۓ پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی کیونکہ وہ کافی موٹی تھی جبکہ ایمان ایک دبلا پتلا بچہ تھا ۔۔۔
” بابا جان یہ تو ہاتھی ہے دیکھیں ہل ہی نہیں رہی چلو نا ہاتھی میرے ساتھی ۔۔۔
ایمان کے انداز پر سب ہنس پڑے ۔۔۔
“ارے ایسے نہیں کہتے ۔۔۔ حیدر شاہ نے ٹوکا ۔۔
پھر حیدرشاہ کے سمجھانے پر وہ گئی گھر گھومنے ۔۔۔ کچھ دیر میں ہی دونوں دوست بن گۓ ۔۔۔ ایمان کو ہر کھیل کے لیۓ اپنا ساتھی مل گیا تھا وہ بے انتہا خوش تھا ۔۔
ان دونوں کے جانے کے بعد حیدر شاہ نے زینب بیبی اور عیان سے کہا ۔۔۔
” انشاء میرے دوست کی بیٹی ہے ۔۔ ان دنوں میں پریشان تھا تو اسی وجہ سے تھا۔۔۔ میرے دوست اور ان کی بیوی کا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا اور یہ ان کی اکلوتی بیٹی ہے ۔۔۔ ان کو گزرے دو مہینے ہوگۓ ہیں اج ویسے ہی گیا اس بچی کا حال پوچھنے کہ اب اس کی زمیداری کون لے رہا ہے وغیرہ اس بارے میں معلومات لینے ۔۔۔ وہان دیکھا کہ پھپھو نے گھر پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اس معصوم کے ہاتھ میں جھاڑو تھا چار پانچ سال کی بچی سے کام لیا جارہا ہے ۔۔۔ بس اسی وقت فیصلا کرلیا اور اسے لے ایا ۔۔۔
انہوں نے کم لفظوں میں سب ان دونوں کے گوش گزاردیا ۔۔۔ زینب بی بی تو حیران رہ گئیں اتنی معصوم بچی کے ساتھ یہ ظلم ۔۔۔
ساری دولت اس کی تھی پر وہ پرانے کپڑوں میں ملبوس تھی جن کا حق نہ تھا وہ عیش کررہے تھے وہان ۔۔۔ پر حیدر شاہ جانتے تھے کہ اگر وہ انشاء کی پراپرٹی بچانا چاہیں گے تو اس کے رشتہ دار کبھی بھی اس کو حوالے نہیں کریں گے ان کے ۔۔۔ حیدر شاہ کو تو کوئی دولت کی کمی نہ تھی اسی لیۓ انہوں نے اس کے بہتر مستقبل کے لئے اس پراپرٹی کو رشتہ داروں کے حوالے کردیا اور خود آج انشاء کو لے کر آ گئے تھے ۔۔۔ ان کو یقین تھا جو یتیم کا مال کھاۓ گا وہ اپنے لیۓ جھنم کی اگ جمع کرے گا ۔۔۔ اسی لئے انشاء کے رشتے داروں کا فیصلہ انہوں نے اللہ پر چھوڑ دیا ۔۔۔ اس وقت جو لباس انشاء کے تن پر تھا وہ بھی انہون نے خود خریدا تھا ۔۔۔ سوائے انشاء کے لیگل ڈاکومنٹس کے علاوہ انہوں نے اس گھر سے کچھ نہ لیا ۔۔۔ انشاء کی پرواہ کسی کو بھی نہیں تھی اس صورت حال میں انہوں نے خوشی خوشی حوالے کردیا ان کی سرپرستی میں ۔۔۔
یوں اللہ نے ان کو ایک بیٹی سے بھی نواز دیا ۔۔۔ وہ بے انتہا اللہ کے شکر گزار تھے جس نے اس گھر کو رحمت سے بھی نواز دیا ۔۔۔۔ اور وہ لیگل سرپرست بن گۓ کیونکہ وہ پکا کام کرنے کے قائل تھے ۔۔۔ تاکہ کل کو کوئی اس کا حقدار بن کر نہ اجاۓ ۔۔۔
@@@@@@@@@
“عیان میں امید کرتا ہوں جس طرح تم نے ایمان کو ہمیشہ پڑھائی میں گائیڈ کرتے ہو اس کی تربیت کی ہے اسی طرح انشاء بھی تمہاری زمیداری ہے ۔۔۔
“جی بابا جان , میں اس کا بھی خیال کروں گا بلکل چھوٹی بہن کی طرح ۔۔۔۔
“شاباش میرے بچے ۔۔۔ مجھے یہی تم سے امید تھی ۔۔۔ اور وہ مطئمن ہوگۓ ۔۔۔
چند دنوں میں وہ گھر میں گھل مل گئی زینب بی بی اسے بھی پالنے لگی ۔۔۔ زینب بی بی کے وجود سے ہی حیدر شاہ کو تسلی تھی کہ انشاء کی پرورش میں کوئی کمی نہیں رہے گی ۔۔۔
یوں ایمان کے ساتھ اس کے اسکول میں ایڈمیشن ہوگیا اس کا ۔۔۔
پہلے پہلے عیان کو بہت فکر رہا کرتی تھی ایمان کی کیونکہ وہ اکیلا ہوتا تھا گھر میں تو وہی اس کے ساتھ کھیل لیا کرتا تھا اب انشاء کے انے سے ایمان کو اس کا کھیل کا پارٹنر مل گئ تھی ۔۔۔ اس لیۓ اب بےفکر ہوکر اپنی اسٹڈیز پر توجہ دینے لگا ۔۔۔
ایمان اور انشاء شرارتوں میں گھر کو سر پر اٹھا لیتے حیدر شاہ کو اب گھر مکمل سے لگنے لگا اسی قسم کی رونق وہ گھر میں چاہتے تھے ۔۔۔ پر عیان کو کوفت ہوتی تھی ان کی شرارتوں سے کیونکہ وہ کم عمری میں ہی ایک میچور لڑکا تھا ۔۔۔ وہ چاہ کر بھی کچھ کہے نہیں پاتا تھا دونوں کو ۔۔۔۔۔
ان کی شرارتوں کے زد میں زینب بی بی اجاتی تھیں ۔۔۔ عیان جو کبھی ہر وقت ایمان کا خیال کرتا تھا اب دونوں سے بے پرواہ ہو گیا تھا کیونکہ ایمان خوش تھا تو بس عیان بھی ریلکس ہوگیا تھا ۔۔۔
عیان فرسٹ ایئر میں تھا اس کے نوٹس اسٹڈی ٹیبل پر پڑے تھے اور وہ کچھ دیر دوستوں میں گیا ۔۔۔ ایمان اور انشاء کھیل کھیل میں اس کے کمرے میں چلے گئے اور انشاء سے غلطی سے اس کے نوٹس پر سیاہ انک گرگئی اور اسی وقت عیان دونوں کے سرپر پہنچ گیا ۔۔۔ پھر جو ڈانٹ لگائی اس نے انشاء کو ۔۔۔ وہ روپڑی پر عیان کا غصہ کم ہونے کا نام نہ لے رہا تھا ۔۔۔ اس دن جو ڈر اس کے دل میں بیٹھ گیا عیان سے پھر وقت کے ساتھ بڑھنے لگا ۔۔۔ عیان نے کبھی کوشش ہی نہیں کی اس ڈر کو کم کرنے کی ۔۔۔
یہی وجہ تھی کل رات بھی وہ اس کے ڈر سے سوگئی تھی ۔۔۔
عیان نے کبھی اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی ۔۔۔ اور وقت کے ساتھ دونوں پر رعب رکھنے لگا وہ ۔۔ وہ دونوں عیان کے سامنے شرارت نہ کرتے تھے ورنہ گھر میں ادھم چوکڑی مچاۓ رکھتے ۔۔۔
عیان کے لیۓ اس گھر میں اس لڑکی کا وجود کوئی معنیٰ نہ رکھتا تھا ۔۔۔ وہ ایسا ہی تھا اپنے کام سے کام رکھنے والا ۔۔
@@@@@@@@
” اف ایمان کے بچے چھت پر کیا گھورے جارہے ہو اٹھو یونیورسٹی نہیں جانا کیا ۔۔۔
انشاء نے کمر پر ہاتھ ٹکا کر لڑاکا عورتوں کے انداز میں پوچھا ۔۔۔
“ہممم اٹھنے لگا تھا ۔۔۔ ایمان نے مری آواز میں کہا ۔۔۔
” تو اٹھو جاؤ دیر ہو رہی ہے ۔۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
“اوۓ !!! ایک منٹ ۔۔۔ انشاء نے اس کا بازو پکڑ کر اسے خود کی طرف موڑ کر کہا ۔۔ کیونکہ ایمان تو جلدی سے واش روم میں جانا چاہ رہا تھا تاکہ اپنی بے چینی اور پریشانی انشاء سے چھپا سکے ۔۔۔
“یہ تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے یہ سوج کیوں رہی ہیں کیا ساری رات جاگتے رہے ہو , کیا تمہارے اس کھڑوس خرانٹ بھائی نے ڈانٹا پھر سے اس کی تو ۔۔۔
انشاء نے چڑ کر کہا پر ایمان نے اس کے آخری لفظوں کو کاٹ کر اس سے بھی زیادہ تیز لہجے میں کہا۔۔۔
“چپ کر جاؤ انشاء , یہ کونسا طریقہ ہے تمہارا , جو منہ میں ایا بولے جارہی ہو وہ بڑے بھائی ہیں ہمارے اور یہ کیا تم ہر وقت میرے کمرے میں منہ اٹھا کر آ جاتی ہو اور دروازہ بھی ناک نہیں کرتی اور اس طرح بازو سے دبوچنا یہ کوئی صحیح طریقہ ہے , پلیز لمٹس میں رہا کرو لڑکیوں کو یہ طریقے زیب نہیں دیتے ۔۔۔۔
انشاء ہکا بکا ہوگئی اس کا یہ انداز دیکھ کر وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کبھی ایمان اس سے اس طرح بات کرے گا ۔۔۔ وہ شاک ہی تو ہوگئی تھی اس کے اس انداز پر ۔۔۔۔