زاشہ اس وقت زرداب کی اسٹڈی میں کھڑی تھی زرداب نے اسے یہیں آنے کو کہا تھا۔
تبھی اس کے فون پہ میسج آیا۔
وہ اسے آگے آنے کا راستہ سمجھا رہا تھا۔
زاشہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خود کو کمپوز کیا اور بک ریک کی جانب بڑھی۔
سامنے رکھی تین ایک جیسی بکس میں سے درمیان والی بک ذرا سی باہر نکالی تو بک ریک دو برابر حصوں میں تقسیم ہو گیا سامنے ہی نیچے کو جانے کے لئے سیڑھیاں نظر آ رہی تھیں۔
اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پہلی سیڑھی پہ قدم رکھا اور دھیرے دھیرے نیچے اترنے لگی۔پندرہ سیڑھیاں اترنے کے بعد وہ ایک حال نما جگہ پہ پہنچی وہ اپنی زندگی میں پہلی بار یہاں آئی تھی یہ شاید زرداب کی کوئی خفیہ جگہ ہے وہ سوچتے ہوئے آگے بڑھی۔
نیم اندھیرے میں وہ ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھ رہی تھی جبھی گھمبیر بھاری آواز نے اس کے قدم روکے۔
گرچه وصالش نه به کوشش دِهند
هر قدر ای دل که توانی بِکوش
(حافظ شیرازی)
اگرچہ اُس [یار] کا وِصال کوشِش سے مُیَسّر و نصیب نہیں ہوتا۔۔۔
تاہم، اے دِل، جِس قدر بھی تم کوشِش کر سکتے ہو کرو!۔۔۔
اچانک سے لائٹ آن ہوئی۔
وہ اپنے لہجے کا سحر پھونکتے ہوئے اس کے سامنے آیا۔
بلیک شلوار سوٹ میں ملبوس وہ بے حد حسین لگ رہا تھا سنہری آنکھیں جیت کے نشے سے سرشار تھیں۔
زاشہ نے نظر اٹھا کر اپنے سامنے موجود شاندار مرد کو دیکھا بلاشبہ وہ اپنی وجاہت میں یکتا تھا لاکھوں دل اس کو دیکھ کر دھڑکتے تھے مگر وہ بلا کا مغرور کسی پہ ایک نگاہ تک نہیں ڈالتا تھا۔
کاش اس مغرور شہزادے کا باطن بھی اتنا ہی خوبصورت ہوتا جتنا اس کا ظاہر تھا۔زاشہ نے تکلیف سے سوچا۔
” لے لیا میرا جائزہ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسا ہی حسین ہوں نا جیسے پہلے تھا۔”
وہ زاشہ کی کھلی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
زاشہ اپنی نگاہ پھیر گئی۔
” آپ نے مجھے بلایا میں آ گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اب مجھے میرے بابا سے ملنا ہے ”
وہ مضبوط لہجے میں بولی۔
” آں ہاں ۔ ۔ ۔ ضرور کیوں نہیں ۔ ۔ ۔ ملتےہیں چچا جان سے بھی ۔ ۔
مگر پہلے وہ فائل اور فلیش میرے حوالے کر دو ۔ ۔ ۔ ۔ ”
زرداب کی بات سن کر ایک پل کو وہ گھبرائی۔
” پہلے مجھے اپنے بابا سے ملنا ہے آغا زرداب علی خان ۔ ۔ ”
زاشہ کے انداز نے اس کے اندر آگ بھڑکائی تھی۔
” تمھیں اتنی اجازت کس نے دی کہ میرے سامنے کنڈیشنز رکھو ۔ ۔ ۔ ۔
ایک تو تم نے یہاں سے بھاگنے کی غلطی کی دوسرا اس ایس پی سے شادی کی اور تیسرا سارے ثبوت میرے لاکر سے چرا لئے ۔ ۔ ۔ ۔
بولو اب تمھیں کیا سزا دی جائے مادام زاشہ ۔ ۔ ۔ ”
وہ اس کے بال مٹھی میں دبا کر غرایا۔
تکلیف کی وجہ سے اسکی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔
” تم جو بھی کر لو آغا ۔ ۔ ۔ ۔ اب تم نہیں بچو گے ۔ ۔
اللّه ظالم کی رسی دراز ضرور کرتا ہے مگر جب وہ رسی کھینچتا ہے تو تم جیسوں کو کہیں پناہ نہیں ملتی ۔ ۔ ۔ ۔
بہت بڑے مرد بنے پھرتے ہو نا تم مگر میرے نزدیک تم تیسری جنس سے بھی کمتر انسان ہو جو خود کو بچانے کے لئے ایک کمزور عورت کا سہارا لیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
لعنت ہے تم پر آغا زرداب علی خان لعنت ۔ ۔ ۔ ”
زاشہ نے چلا کر بولتے ہوئے اس کو دیکھ کر زمین پہ تھوک دیا۔
زرداب کو اس کا انداز اس کے الفاظ ذلت کے عمیق گڑھے میں پھینک گئے۔
اس کے بھاری ہاتھ کا تھپڑ زاشہ کے حواس گھما گیا وہ لہرا کر فرش پہ گری۔
” تمہاری اتنی جرات کہ تم مجھے یعنی آغا زرداب علی خان کو اس کی اوقات بتاؤ ۔ ۔ ۔ ۔
ارے میں ہوں وہ جس نے تمھیں زاشہ ۔ ۔ مادام زاشہ بنایا ہے بڑے بڑے مرد تمہارے آگے جھکتے ہیں تم سے نگاہ ملا کر بات کرنے کی جرات نہیں کرتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرے بغیر تم ہو کیا ۔ ۔ ۔ ۔ بولو ”
وہ اسکے گرے ہوئے وجود کو اپنے بھاری بوٹ کی ٹھوکر مارتے ہوئے بولا۔
غصے سے اس کا دماغ پھٹنے کو تھا۔
” آج میں خاموش نہیں رہوں گی ۔ ۔ ۔ سب بولوں گی
تم نے مجھے استعمال کیا ہے اپنے فائدے کے لئے ۔ ۔ ۔
مجھے فرنٹ پہ کر کے تم پیچھے سے غیر قانونی کام کرتے رہے یہاں ہر کوئی مجھے جانتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
تم نے مجھے ضد بنایا ہے اپنی محبت نہیں ہوں میں تمہاری ۔ ۔ ۔ ۔
ارے تم جیسا انسان کیا کسی سی محبت کرے گا ۔ ۔ ۔ ۔
جو معصوم لوگوں کی جان لیتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچاتا ۔ ۔ ۔
جسے اپنے سگے رشتوں کا ہی احترام نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔
تم ایک ناسور ہو آغا ۔ ۔ ۔ ۔ اس معاشرے کی بہت سی گندگی کا غلیظ ترین حصہ ہو تم ۔ ۔ ۔ ۔ سنا تم نے ۔ ۔ ۔ ۔ ”
وہ روتے ہوئے چیخ رہی تھی۔
زاشہ کے الفاظ نے سفاک شہزادے کے اندر کے جانور کو جگا دیا تھا۔
وہ اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے سامنے بنے کمرے میں لایا فرش سے رگڑنے کی وجہ سے اسکی ساری کمر چھل گئی تکلیف کی شدت سے اسکے مساموں سے پسینہ بہہ نکلاتھا۔
ٹھوکر سے دروازہ کھولتے ہوئے اس نے زاشہ کو اندر پھینکا۔
اس کا سر دروازے سے ٹکرایا۔
سامنے کا منظر زاشہ کا دل چیر گیا۔
آغا زمان دیوار کے ساتھ بندھے ہوئے تھے جگہ جگہ ان کے جسم سے خون رس رہا تھا ان کے دونوں بازو دیوار پہ دائیں بائیں زنجیروں کے ساتھ بندھے ہوئے تھے یہی حال پیروں کا بھی تھا ان کا وجود زنجیروں میں جکڑا تقریباْ جھول رہا تھا وہ اس وقت نیم بے ہوش تھے۔
” بابا ۔ ۔ ۔ ”
وہ چلائی۔
” چلاؤ اور زور سے چلاؤ ۔ ۔ ۔ تمہاری یہ چیخیں مجھے سکون دیتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اب تم اور تمہارا باپ دونوں چلاؤ گے تو مجھے سکون ملے گا ۔ ۔ ۔ ۔
تمہاری دلکش چیخیں مجھے زندگی کا احساس دلاتی ہیں سہی کہا تم نے ضد ہو تم میری ۔ ۔ ۔ ۔
جب تم یہاں نہیں تھیں تو بے سکون تھا میں مگر اب بہت سکون ہے یہاں ۔ ۔ ۔اس دل میں ”
وہ جھک کر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔
اس کے جبڑے کو فولادی گرفت میں لیا۔
زاشہ کی سسکی نکلی۔
” اب یہاں تمہارے باپ کے سامنے بتاؤں گا میں تمھیں کہ کتنا بڑا مرد ہوں میں یقین آ جائے گا تمھیں کہ میں تیسری جنس سے کم تر نہیں ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ”
وہ اس کے نازک ہاتھ کو اپنے پاؤں سے کچلتے ہوئے بولا۔
زاشہ تکلیف سے تڑپ رہی تھی۔
” چچا جان ہوش میں آئیے اور سامنے دیکھیے آپ کی بیٹی آئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
Now its show time۔ ۔ ”
وہ آغا زمان کےنیم بے ہوش وجود پر ٹھنڈا پانی پھینکتے ہوئے بولا۔
انہوں نے ذرا سی نگاہیں اٹھا کر سامنے گری زاشہ کو دیکھا ۔ ۔ ۔ سینے میں درد سا اٹھا تھا اپنی بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر۔
اب وہ ایک ہاتھ میں سیگریٹ پکڑے دوسرے ہاتھ میں سامنے رکھے ٹیبل سے بلیڈ اٹھا کر قدم قدم زاشہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔
وہ اپنے زخمی وجود کو گھسیٹتے ہوئے پیچھے دیوار سے جا لگی۔
*____دعا کرو کوئی اور زد میں آ جائے ۔ ۔
مجھے تمہارے حصے کا غصہ نکالنا ہے ___*
تیمور جب پولیس سٹیشن پہنچا تو وہ اس شعر کی عملی تفسیر بنا لاک اپ میں کسی مجرم کی دھلائی کر رہا تھا۔
باہر ایس ایچ او حنیف اور انسپکٹر نازیہ پریشان کھڑے تھے۔
تیمور بمشکل اسے وہاں سے نکال کر آفس میں لایا۔
تبریز کی ساری شرٹ پسینے سے بھیگ چکی تھی اور چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
” کیوں اپنی انرجی فضول جگہ پہ ویسٹ کر رہے ہو ۔ ۔ ۔
یہ دیکھو ۔ ۔ ”
تیمور نے بولتے ہوئے اسے فائل اور فلیش تھمائی۔
” یہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ ؟”
وہ فائل پکڑ کر بولا۔
اتنے میں تیمور فلیش سامنے رکھے لیپ ٹاپ میں لگا چکا تھا۔
وہ جو فائل دیکھ کر حیران ہو رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ سامنے چلتی ویڈیوز اس کو گنگ کر گئیں۔
” یہ ۔ ۔ یہ سب کہاں سے ملا تمھیں ۔ ۔ ۔ ”
اسکی سرسراتی ہوئی آواز نکلی۔
تیمور نے زاشہ کا لکھا نوٹ اس کے سامنے کر دیا۔
جسے دیکھ کر تبریز کی حالت غیر ہو گئی۔
” What is this nonsense ۔ ۔ ۔
ایسے کیسے اکیلی چلی گئی وہ کم از کم مجھے انفارم ہی کر دیتی ۔ ”
وہ غصے سے بولتا ہوا اٹھا۔
” معلوم نہیں بھابھی نے تمھیں کیوں نہیں بتایا ۔ ۔ ۔ لیکن ابھی دیر مت کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں جلدی وہاں پہنچنا ہو گا زیادہ وقت نہیں ہے بھابھی کی جان خطرے میں ہے۔”
تیمور کی بات سن کر اسے اپنا رات کا رویہ یاد آیا اسی لئے وہ اسے بتا کر نہیں گئی تھی۔
سوچتے ہوئے وہ جلدی سے دروازے کی طرف بڑھا جہاں سے ابھی تیمور نکلا تھا۔
فلحال اسے اپنی بیوی کو بچانا تھا ۔ ۔ ۔
پھر وہ اس سے معافی مانگ لے گا اسے منا لے گا ۔ ۔ ۔
اسے پورا یقین تھا کہ زاشہ اسے معاف کر دے گی کیوں کہ وہ بھی اس سے محبت کرتی ہے اور محبت کرنے والوں کا ظرف بہت وسیع ہوتاہے۔
” اسے دیوار سے لگتے دیکھ کر وہ ہنسا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
” اب بچ کر کہاں جاؤ گی مادام ۔ ۔ ۔ ”
اس کے چہرے پہ سیگریٹ کا دھواں چھوڑتے ہوئے وہ بولا۔
” تمہارا انجام بہت درد ناک ہو گا آغا ۔ ۔ ۔
تم نے بوا کو مار ڈالا حالانکہ انہوں نے اتنے سال تمہاری خدمت کی ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے معصوم پوتے کو بھی نہیں بخشا تم نے ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا کیا قصور تھا وہ تو بچہ تھا ابھی ۔ ۔ ۔
تمھیں آہ لگے گی مظلوموں کی ۔ ۔ ۔ ۔ ”
وہ پھنکاری تھی۔
” غداری کی تھی اس عورت نے اور غداروں کو آغا چھوڑتا نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اب تم اپنی ہی مثال لے لو ۔ ۔ ۔ ۔
بہت مزہ آنے والا ہے ۔ ۔ ۔ ۔چلو تمہاری سزا شروع کرتے ہیں ”
بولتے بولتے اس نے جلتی سیگریٹ زاشہ کی گردن پہ رکھ دی ۔ ۔ ۔
زاشہ کی چیخیں بے قابو ہوئیں۔
وہ پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہی تھی مگر زخمی وجود میں اتنی طاقت نہیں تھی۔
اب وہ ہاتھ میں پکڑے بلیڈ سے اس کے بازو پہ کچھ لکھ رہا تھا ۔ ۔ ۔
تھوڑی دیر بعد اسی جگہ جلتی ہوئی سیگریٹ رکھ دی۔
اس کے بعد ظلم و ستم کا اک نیا دور شروع ہوا تھا۔
وہ جگہ جگہ سے اسکا نازک بدن جلا رہا تھا ۔ ۔ ۔ بلیڈ سے کٹ لگا رہا تھا ۔ ۔ ۔
زاشہ کی آہ و بکا اسے سکون دے رہی تھی۔
” چلاؤ اور زور سے چلاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے بہت سکون دیتی ہیں تمہاری یہ چیخیں ۔ ۔ ”
اس کے دائیں گال پہ وہ جلتی سیگریٹ رکھتے ہوئے بولا۔
زاشہ تکلیف کی شدت سے بے ہوش ہو گئی۔
” اٹھو ۔ ۔ ۔ اٹھو ۔ ۔ ۔ چلاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ خاموش مت رہو ۔ ۔ ۔ ”
وہ اب اس کے بے ہوش وجود کو ٹھوکروں سے مارتے ہوئے بول رہا تھا۔
جبھی کسی نے پیچھے سے اسکی گردن پہ وار کیا ۔ ۔
زرداب لڑکھڑا کر پیچھے مڑا۔
پیچھے سے تبریز خونخوار تیور لئے اس پہ جھپٹا۔
زاشہ کی حالت دیکھ کر وہ پاگل ہو گیا تھا۔
تبریز نے اسے کوئی بھی موقع دئیے بغیر گریبان سے پکڑ کر پیچھے دیوار کے ساتھ پٹخا۔
تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی ۔ ۔ ۔ ۔ اسے دھمکانے کی ۔ ۔ ”
بولتے ہوئے تبریز نے اس کی ٹانگوں کے بیچ و بیچ کک لگائی ۔ ۔
زرداب تکلیف سے دہرا ہو گیا۔
” فیصل ۔ ۔ ۔ ۔ جاوید ۔ ۔ ۔ کہاں ہو سب “۔
زرداب زمین پہ گرتے ہوئے چیخا۔
” تمہاری نامردوں کی فوج اس وقت پولیس وین میں ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی نہیں آنے والا یہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ”
تبریزنے اسکےسر کو بالوں سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ مارا۔
اس کے بعد لاتوں گھونسوں کی برسات کر دی تھی اس نے آغا پہ اس وقت وہ سب کچھ فراموش کر گیا تھا۔
تبھی تیمور اور انسپکٹر نازیہ اندر آئے۔
انسپکٹر نازیہ فوراْ بے ہوش پڑی زاشہ کی طرف بڑھی۔
تیمور نے آغا زمان کو چیک کیا ۔ ۔ ۔ ۔ انکا بدن ٹھنڈا پڑ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
نجانے کب ان کی روح جسم کی قید سے آزاد ہو گئی تھی۔
” تابی بھابھی کو لے کر جاؤ یہاں سے ۔ ۔ ۔
ابھی سارا میڈیا یہاں آ جائے گا ان کا یہاں ہونا مناسب نہیں ہے۔
تیمور اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے بولا۔
تب اس کا دھیان زاشہ کی طرف گیا اسے ایسے بے حس و حرکت دیکھ کر وہ اسے بانہوں میں اٹھائے باہر کو دوڑا۔
تھوڑی ہی دیر میں سفید محل پولیس نے سیل کر دیا تھا باہر میڈیا کا رش لگا تھا۔
آغا زرداب علی خان کوئی چھوٹا نام نہیں تھا۔
ہیروں کا بہت بڑا تاجر تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کے بارے میں آج یہ انکشاف سامنے آیا تھا کہ وہ ایک گینگسٹر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اسکا تعلق ہے ۔ ۔ ۔ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی خبر تھی ۔
جب آغا زرداب کو ہتھکڑیاں لگائے پولیس وین میں بٹھایا جا رہا تھا تو کئی کیمروں کے فلیش چمکے تھے۔
اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ایک آخری نگاہ سفید محل پہ ڈالی۔
اور گاڑی میں سوار ہو گیا۔
وہ جانتا تھا کہ اب اس کا بچنا نا ممکن ہے۔
” آپ کی بات نہ مان کر بہت نقصان اٹھایا ہے میں نے بابا ۔ ۔ ۔
آپ کی نصیحت کو بھول کر ایک عورت پہ اعتبار کرنے کی بہت بڑی سزا پائی ہے میں نے بابا ۔ ۔ ۔ ۔ ”
وہ سیٹ سے سر ٹکائے آنکھیں موندے سوچ رہا تھا۔
” تبریز صاحب آپ کی وائف اب خطرے سے باہر ہیں ۔ ۔ ۔ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔”
چار گھنٹے بعد ڈاکٹر کے منہ سے نکلنے والے یہ الفاظ تبریز اور پیچھے بیٹھی نور اور فوزیہ بیگم کو زندگی کی نوید دے گئے تیمور ابھی پولیس سٹیشن تھا۔
” مجھے آپ سے کچھ ڈسکس کرنا ہے میرے ساتھ آئیے پلیز ۔ ۔ ”
ڈاکٹر نے تبریز کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔
” جی ڈاکٹر کہیے کوئی پریشانی تو نہیں ہے نا ۔ ۔ ”
وہ ڈاکٹر کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا۔
” میری بات تحمل سے سنیے گا ایس پی صاحب ۔ ۔ ۔
ایکچولی آپ کی وائف بہت بری طرح سے زخمی ہیں پورے جسم پہ جلانے اور کاٹنے کے زخم ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ انھیں بہت بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ۔ ۔
انکی رپورٹس کے مطابق انھیں کچھ اندرونی گہری چوٹیں آئی ہیں اور بلیڈنگ بھی بوئی ہے ۔ ۔ ”
ڈاکٹر پلیز صاف صاف بات بتائیے۔
وہ ڈاکٹر کی بات درمیان میں کاٹتے ہوئے بولا۔
” ویل ۔ ۔ ۔ ۔ تو بات یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔
آپ کی مسز کبھی ماں نہیں بن سکیں گی ۔ ۔ ”
تبریز کا وجود جیسے زلزلوں کی زد میں تھا۔
” یہ سب تو رپورٹس کہتی ہیں باقی ہمیں اللّه کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ ”
ڈاکٹر اسے تسلی دے رہا تھا۔
تبریز بنا کچھ کہے اٹھ کڑ باہر آ گیا۔
اس سب میں کہیں نہ کہیں قصور اس کی بے اعتباری کا بھی تھا اگر وہ زاشہ پہ یقین کرتا تو شاید آج یہ سب نہ ہوتا۔
سچ کہتے ہیں کہ رشتوں میں محبت سے زیادہ اعتبار ہونا ضروری ہے محبت نہ بھی ہو تو زندگی گزر جاتی ہے اگر اعتبار نہ ہو تو زندگی اور رشتے دونوں خراب ہو جاتے ہیں۔
ڈھونڈ اجڑے ھوے لوگوں میں وفا کے موتی
ممکن ہے یہ خزانے تجھے خرابوں میں ملیں
دو ہفتوں کے بعد اسے ہوسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔
زرداب کا کیس عدالت میں چل رہا تھا۔
زاشہ کے زخم کافی حد تک مندمل ہو چکے تھے۔
اپنی رپورٹس دیکھنے کے بعد اس نے تبریز سے ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا
وہ بھی خود میں اتنی ہمت نہیں پاتا تھا کہ اس سے معافی مانگ سکے۔
آج رات جب وہ کمرے میں آیا تو وہ گم سم سی بستر پہ بیٹھی تھی۔
فریش ہونے کے بعد وہ ہمت جٹاتا ہوا اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
زاشہ نے اپنے پیر سمیٹ لئے۔
تبریز نے اس کا ہاتھ تھاما ۔ ۔ زاشہ نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
” مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کس منہ سے معافی مانگوں تم سے ۔ ۔ ۔ ۔ کب سے اپنے اندر ہمت جمع کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔
مجھے معاف کر دو زرش معاف کر دو مجھے ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے یقین نہیں کیا تمہارا ۔ ۔ ۔کوئی بات نہیں سنی تمہاری اور اپنی درندگی دکھا دی تمھیں۔”
وہ اس کے پیروں پہ اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
زاشہ نے جلدی سے اپنے پاؤں پیچھے کیے۔
” یہ آپ کیا کر رہے ہیں میں ناراض نہیں ہوں آپ سے ۔ ۔ ۔ میں بھلا کیوں ناراض ہونے لگی آپ سے ۔ ۔ آپ تو میرے محسن ہیں آپ ہی کی بدولت مجھے اس زندگی سے آزادی ملی ہے آپ نے ہی میرا نام کیس میں کہیں بھی نہیں آنے دیا آپ کا تو بہت احسان ہے مجھ پہ ۔ ۔ ۔ ”
وہ اس کے چہرے پہ نظر ٹکائے بول رہی تھی جب تبریز نے اس کے منہ پہ باتھ رکھ دیا۔
” شش ۔ ۔ چپ ہو جاؤ کچھ مت بولو کوئی احسان نہیں کیا کسی نے تم پر سب کچھ تم نے خود فیس کیا ہے تم بہت بہادر ہو۔”
وہ اس کا ہاتھ سہلاتے ہوئے بول رہا تھا۔
” نہیں تبریز مجھے بولنے دیں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ سچ میں بہت اچھے انسان ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
میں آپ کے قابل نہیں ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
میں آپ کو کچھ نہیں دے سکتی ۔ ۔ ۔
میں ایک اجڑی ہوئی بنجر زمین کی طرح ہوں ۔ ۔ ۔
آپ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ ۔ ۔ دوسری شادی کر لیں تبریز ۔ ۔ ماما کو آپ کے بچوں کی بہت چاہت ہے میں آپ کے نام کے سہارے اپنی باقی کی زندگی گزر لوں گی۔”
وہ چہرہ جھکائے روتے ہوئے بول رہی تھی۔
تبریز نے اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا۔
” خبردار جو تم نے آئیندہ ایسی کوئی بات کی ۔ ۔ ۔ ۔ میرے لئے تم اس زمین پر پہلی اور آخری لڑکی ہو جس سے میں نے محبت کی ہے یہ جگہ یہ مقام اور کسی کا نہیں ہو سکتا ۔ ۔ ۔
رہی بات بچوں کی تو رپورٹس کے بارے میں ہم دونوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی تم کسی سے ذکر کرو گی
اگر ہمارے نصیب میں اولاد ہوئی تو اللّه تعالیٰ مجھے تم میں سے ہی عطا کریں گے اس کے لئے میں دوسری شادی ہر گز بھی نہیں کروں گا۔
آئیندہ کبھی ایسی بات مت کرنا۔”
وہ اسکی کمر سہلاتے ہوئے بول رہا تھا جو آنسوؤں سے اسکی شرٹ بھگو رہی تھی۔
” مگر ۔ ۔ ۔ ”
” نو اگر مگر زرش ۔ ۔ ۔ اب ہم اس ٹوپک پر کوئی بات نہیں کریں گے ”
وہ اس کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا۔
” ہممم ۔ ۔ ۔ آپ مجھے بابا کی قبر پر لے جائیں گے نا ۔ ۔ میں تو ان کو آخری وقت میں دیکھ بھی نہیں پائی ”
” ہاں ہم صبح ہی چلیں گے ۔ ۔ اب پلیز رونا بند کرو ورنہ میں ان آنسوؤں کے سمندر میں بہہ جاؤں گا ”
وہ ہلکے پھلکے لہجے میں بولا۔
زاشہ کے آنسو اور بھی بے قابو ہوئے۔تبریز نے جھک کر اس کے آنسو اپنے لبوں سے چن لئے۔
اب وہ اس کے گال کو چوم رہا تھا جہاں زرداب نے جلایا تھا وہاں ابھی نشان موجود تھا۔
ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ سارے نشان ختم ہو جائیں گے۔
” تبریز ۔ ۔ “۔
زاشہ نے کچھ کہنا چاہا مگر وہ اس کے ہونٹوں کو قید کر گیا زاشہ کا بدن بولے ہولے کانپ رہا تھا۔
چہرہ جذبات کی شدت سے سرخ پڑ گیا۔
ایک منٹ کے بعد اس کے لب آزاد ہوئے تو وہ بولی۔
” میرا سارا بدن نشان زدہ ہے ۔ ۔ ۔ میں پہلے جیسی نہیں ربی ۔ ۔ “۔
تبریز جو اسکی گردن پہ جھکا ہوا تھا ایک دم سیدھا ہوا۔
” کیا کہا تم نے ۔ ۔ ۔ تمھیں کیا لگتا ہے میں تمھارے حسن سے محبت کرتا ہوں ۔ ۔ ۔
تو غلط لگتا ہے تمھیں مجھے تمھارے وجود تمہاری روح سے محبت ہے تم میرے لئے دنیا کی سب سے حسین عورت ہو اور ہمیشہ رہو گی۔”
وہ اس کے کان کی لو چومتے ہوئے اس کی ذات کو معتبر کر رہا تھا اپنی محبت اور اپنے یقین کا مان بخش رہا تھا۔
” اب کبھی ایسی کوئی فضول بات مت سوچنا ”
وہ دوبارہ اس کی گردن پہ جھک گیا۔
زاشہ نے بے اختیار اس کے گرد بانہوں کا حصار کھینچ دیا جو دھیرے دھیرے اس کے وجود پہ ہر جگہ اپنی محبت کی مہر ثبت کر رہا تھا۔
محبت کی دیوی اس حسین رات پہ مسکرائی اور مزید محبت کے جگنو کائنات کے اس خوبصورت جوڑے کی طرف بھیجے جنہوں نے ہر سو اجالا کر دیا۔
چلتا رہا صحرا بہ صحرا۔ ۔ عشق کا حسین جوڑا
نہ لیلیٰ اونٹ سے اتری نہ پیچھا قیس نے چھوڑا
After five years
(پانچ سال بعد )
عدالت نے زرداب کو عمر قید بامشقت کی سزا سنائی تھی جب کیس چل رہا تھا تب اس نے اپنا ذہنی توازن کھو دیا تھا تبھی کورٹ کوئی سخت سزا نہیں دے سکا۔اب وہ پاگل قیدیوں کی جیل میں تھا۔
واقعی میں یہ سزا اس شخص کے لئے بہت بڑی تھی اگر وہ مر جاتا تو یہ سزا چھوٹی ہوتی مگر اب اسے اپنی باقی زندگی ایسے ہی گزارنی تھی۔
قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے زمین کے سینے پہ فخر سے چلنے والا آج اپنے وجود سے بھی لا علم تھا۔
“”””””””””””””””””””””””””””””””””””
وہ پنک فراک میں ملبوس کھلے کرل کیے ہوئے بالوں کے ساتھ بے حد حسین لگ رہی تھی گزرتے وقت نے اسے مزید خوبصورت بنا دیا تھا۔
آہستہ سے چلتی ہوئی وہ آ کر لان میں لگے جھولے پہ بیٹھ گئی فضا میں رات کی رانی کی مہک رچی ہوئی تھی چودھویں کے چاند نے ہر شے منور کر رکھی تھی۔
آج اس کے اور تبریز کے بیٹے اسامہ لاشاری کی دوسری سالگرہ تھی دو سال بعد خدا نے اسکی گود بھر دی تھی بے شک اسکی رحمت کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔
اندر نور اسامہ کو تیار کر رہی تھی نور اور تیمور کی جڑواں بیٹیاں تھیں مگر وہ اسامہ سے بھی بہت محبت کرتی تھی۔
” اکیلے اکیلے بیٹھ کر کیا سوچا جا رہا ہے ۔ ”
تبریز نے اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
زاشہ نے مسکرا کر اس کو دیکھا اور اس کے کندھے پر سر ٹکا دیا۔
تبریز نے قیمتی متاع کی طرح اسے اپنے حصار میں لے لیا ۔
” میں خود پر اللّه کی رحمتوں کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔ ۔ ۔
ہمیشہ میں خود کو بدنصیب سمجھتی رہی ۔ ۔ ۔ مگر اس روئے زمین پر شاید ہی کوئی مجھ سا خوش نصیب ہو گا جس کے ارد گرد اس قدر محبت ہے ۔ ۔ ۔ خدا کی ہر نعمت ہے ”
وہ تشکر سے بول رہی تھی۔
وہ دھیان سے اسے سن رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
” میں آپ کو بھی شکریہ کہنا چاہتی ہوں ۔ ۔ ”
وہ تبریز کا ہاتھ تھام کر بولی تو اس نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
” آپ نے مجھے ‘ زاشہ( تنہا چاند ) ‘ سے ‘ زرش ‘ بنایا ہے ۔ ۔ ۔
آپ نے مجھے مکمل کیا ہے ”
وہ احترام سے اسکے ہاتھ کی پشت پہ لب رکھتے ہوئے بولی۔
” زرش تم میری زندگی کا ماہ کامل (مکمل چاند ) ہو ۔ ۔ ۔
تم نے میری زندگی کو اپنے وجود سے مہکایا ہے مجھے اولاد جیسا انمول تحفہ دیا ہے ۔ ۔ ۔ الٹا میں تمہارا شکر گزار ہوں ”
وہ اس کی پیشانی چوم کر بولا۔
” تبریز یہ سب بدل تو نہیں جائے گا نا ”
وہ اس کے خدشے پہ مسکرایا۔
” وقت چاہے بدل جائے لیکن میں نہیں بدلوں کا ہر سکھ دکھ میں تم مجھے اپنے ساتھ پاؤ گی ”
وہ اسے اپنے ساتھ کا مان دے رہا تھا ایک اٹوٹ عہد باندھ رہا تھا۔
” اگر آپ لو برڈز کا رومینس ختم ہو گیا ہو تو پلیز اندر چلیے کیک کاٹنے کے لئے سب آپ دونوں کو ڈھونڈ رہے ہیں ”
تیمور کو دیکھ کر زرش جلدی سے اس سے الگ ہوئی۔
” تم نے کیا قسم کھا رکھی ہے ہمیشہ غلط وقت پہ ہی انٹری مارنے کی ”
تبریز نے اسے گھرکا تھا۔
” تو آپ دونوں نے کیا قسم کھا رکھی ہے لان میں ہی رومینس کرنے کی ۔ ۔ ۔ ”
تیمور کی بات پہ زرش سرخ ہوئی۔
اس سے پہلے کہ تبریز اس کی بات کا کوئی جواب دیتا پیچھے سے آتی نور نے اس کی بات سن لی ۔
” تم خود کون سا جگہ دیکھ کر عمران ہاشمی بنتے ہو جو دوسروں کو نصیحت کر رہے ہو ۔ ۔ ۔ ”
نور کی بات پر ایک پل کو سب حیران ہوئے پھر سب کا فلک شگاف قہقہ نور کو اپنی بات پہ غور کرنے پر مجبور کر گیا۔
بات سمجھ میں آتے ہی وہ اندر کو بھاگی۔
باقی سب بھی مسکراتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ گئے۔
زندگی میں خوشیوں نے دستک دی تھی جس کا وہ سب کھلے دل سے استقبال کر رہے تھے۔
آنے والے غم بھی وہ سب مل کر بانٹ لیں گے زندگی نے انھیں پر خلوص رشتوں میں باندھ دیا تھا یقیناْ آئیندہ زندگی بہت اچھی گزرنے والی تھی۔
ختم شد