نکاح کے چند ماہ بعد ابان لغاری کو پڑھنے کے لئے لندن بھیج دیا گیا تھا۔
نعمان لغاری بھی چند ماہ کے مہمان تھے۔ ابان کے لندن جانے کے دو ماہ بعد وہ بھی اس دنیا سے چل بسے۔
زری جو پہلے اپنے باپ کی بیماری سن کر خاموش ہو گئی تھی اب ان کے چلے جانے سے بالکل ہی چپ ہو گئی ۔
وہ تو پڑھائی کو ہی خیرآباد کہہ دینے کو تھی۔
جب ایک دن اسے ابان کا فون آیا۔
زری لو یہ فون ابان بھائی تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ حیران تھی کہ کیسا ستمگر ہے جس کو اس کی یاد دیار غیر میں رہنے کے باوجود ایک سال بعد آئی تھی۔ لیکن زری نے تو اس کو ہر لمحہ یاد کیا تھا۔ اس نے ناسمجھی سے فون کان کو لگایا تھا۔
میں کیا سن رہا ہوں کہ تم پڑھنا نہیں چاہتی؟ بغیر سلام دعا کیے، حال چال پوچھے وہ مدعے کی بات پر آیا تھا۔
جی۔۔۔جی۔۔۔ کتنے مہینوں بعد اس کی آواز سننے کو ملی تھی اور الفاظ جیسے ساتھ ہی چھوڑ گئے تھے۔
جی کیا؟ میں وجہ جاننا چاہتا ہوں کے تم نے کیوں پڑھائی کو خیرباد کہنے کا سوچا۔۔۔
“بس میرا دل نہیں کرتا ” وہ بھی تڑک کر بولی کتنے مہینوں کا غبار تھا، کہیں پر تو نکالنا ہی تھا۔
“آغا جان سے سننے کو ملتا ہے کہ محترمہ کافی خاموش ہوگئی ہیں لیکن یہاں تو مجھے لگتا ہے زبان اور بھی تیز ہوگئی ہے، تو بتائیں زری بی بی آپ کا دل کیا کرنے کو کرتا ہے؟”
ایک پل کو زری کا دل کیا کہہ دے تم سے بات کرنے کو، تمہارے ساتھ زندگی گزارنے کو، تمہارے ساتھ گھومنے پھرنے کو، تمہارے ساتھ اپنی زندگی کا ہر لمحہ بیتانے کو۔۔۔۔۔آہ یہ دل کے ارمان بھی۔
اب کچھ بولو گی بھی مجھے اپنا پیکج تم پر ختم نہیں کرنا۔۔۔
زری کا موڈ ایک دم سے خراب ہوا تھا۔” مجھ پر کیوں کریں گے اپنا پیکج ختم، وہاں پر کوئی گوری مل گئی ہوگی۔” وہ صرف یہ سوچ ہی سکی۔
میں بزنس پڑھ رہا ہوں اور کچھ سالوں میں بزنس کی دنیا میں قدم بھی رکھ دوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ ایک بزنس مین کی بیوی صرف دسویں پاس نکلے۔۔۔۔۔ تو اس لیے کل شرافت سے ماہین کے ساتھ جاکر اپنا ایڈمیشن کرواؤ۔۔۔ یہ کہنے کے بعد فون دوسری طرف سے کٹ چکا تھا۔ بغیر اس کا جواب سنے وہ ستمگر فون کاٹ چکا تھا۔۔۔
اب اس کے پاس کوئی اور اوپشن بچا ہی نہیں تھا اور پھر ماہین اور زری کا کالج میں ایڈمیشن کروا دیا گیا۔۔۔۔
_________
چلو آج گھر چلتے ہیں۔ وہ دونوں اچھے نمبروں سے انٹر پاس کر چکی تھیں۔ آج یونیورسٹی کا فوم فل کرکے واپس لوٹ رہی تھیں جب ماہی نے زری کو ساتھ چلنے کو کہا۔
نہیں! تمہیں پتا تو ہے تائی امی کا پارہ ہائی ہو جاتا ہے مجھے دیکھ کر، پھر کبھی سہی۔۔۔۔
آغا جان تمہیں یاد کر رہے تھے۔ ماہی نے بہانہ بنایا۔
صبح ہی ہماری پارک میں ملاقات ہوئی ہے۔
میں کیسے بول گئی تم اور آغا جان سے نہ ملوں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔
اچھا مجھے آج گھر پر بہت کام ہیں اور امی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی۔ وہ اسے دروازے پر چھوڑ کر آگے اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی۔
__________
“مجھے داؤد اینڈ سنز انڈسٹری کی فائل دو منٹ میں اپنے ٹیبل پر چاہیے۔۔۔۔ دو منٹ مینز دو منٹ انڈرسٹینڈ۔۔۔۔۔۔ “بلیک تھری پیس سوٹ میں، جل سے بال سٹ کیے مغرورانہ چال چلتا ہوا اپنے کیبن کی طرف بڑھ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے مینیجر پر چیخ رہا تھا۔
جی سر دو منٹ میں فائل ٹیبل پر موجود ہو گئی۔ اس نے لندن میں ہی اپنا بزنس سٹارٹ کر دیا تھا۔ اور اس کا پاٹنر اس کا بہترین دوست(فہد) تھا۔ جس کا تعلق پاکستان سے ہی تھا۔
ابھی اسے اپنی چیئر پر بیٹھے ہوئے چند ہی پل گزرے تھے۔ جب ایک نسوانی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
عاشی تم یہاں۔۔۔۔۔۔ یہ تھی عروشے لندن میں رہنے کے باوجود ایک سلجھی ہوئی لڑکی اور ان لوگوں کی بہترین دوست۔
مجھے تمہیں اپنا دکھ بناتا ہے، وہ گدھا، الو کا پٹھا تمہارا دوست(فہد) مجھے بنا بتائے پاکستان جا چکا ہے ۔
تو تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ تمہارے پلو سے بند کر بیٹھ جائے؟
میں نے ایسا بھی نہیں کہا۔
اچھا دوست ہونے کے ناطے میری یہ ذمہ داری ہے کہ تمہیں اس بات سے آگاہ کرتا چلوں کہ جہاں پاکستانیوں کے فرض کی بات آجائے تو وہاں قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔
اچھا اب مجھے کوئی فلسفہ نہیں سننا۔ تم ابھی اسے فون کرو اور اسے کہو کے وہ جلد لندن واپس آئے کیونکہ وہ میری کال اٹینڈ نہیں کر رہا۔
جب وہ اپنی محبوبہ کی کال نہیں اٹھا رہا تو میری کیسے اٹھائے گا اس کی بات سنتے ہی وہ مسکرا دی۔
ڈرامے مت کرو اور جلدی سے اسے کال کرو۔
تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا جتنی تم ضدی ہو مجھے تو ڈر رہتا ہے کہ کہیں تمہیں کوئی نقصان اٹھانا نہ پڑ جائے۔۔۔۔ یہ کہتے ہی اس نے فون اٹھایا اور فہد کو کال ملائی۔ کال ہونز جا رہی ہے لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا۔
اب تمہارے سامنے ہے وہ موصوف میری بھی کال اٹینڈ نہیں کر رہا۔
اچھا ٹھیک ہے وقفے وقفے سے کرتے رہنا اور کیا تمہارے اوفس میں مہمانوں کو اس طرح سے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ مجھ سے کچھ کھانے پینے کا ہی پوچھ لو۔
عاشی بی بی اپنے جملے کی درستگی کریں، مہمان تم جیسا نہیں ہوتا جو بن بلائے آ جائے۔
تم نہیں سمجھو گے مہمان بن بلائے ہی آتے ہیں اور جلدی سے کافی کا آرڈر دو۔
وہ جانتا تھا کہ یہ بھوکی ایسے نہیں مانے گئی، اسی لیے فون اٹھایا اور کافی کا آرڈر دینے لگا۔
__________
کیا ابان کی کال آئی؟ تم نے اس سے پوچھا کہ کب آرہا ہے؟ وہ دونوں پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے جب آغا جان نے ہمیشہ کی طرح ایک ہی موضوع چھیڑا۔
آغا جان مجھے آپ کی سمجھ نہیں آتی۔ آپ بہتر جانتے ہیں اور مجھ سے روز ایک ہی سوال کرتے ہیں۔ “جو شخص مجھ سے بات کرنا پسند نہیں کرتا وہ مجھے خود کال کر کے کیوں بتائے گا کہ وہ کب آرہا ہے کب نہیں۔۔۔۔۔”
مجھے آج آپ بتا ہی دیں کہ آپ اس سوال کے بدلے کیا جواب سننا پسند کرتے ہیں تاکہ میں وہ جواب دوں اور آپ کو روز ایک سوال نہ کرنا پڑے ۔۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے آکر خود بتاؤ کہ وہ کس دن آ رہا ہے کیونکہ میں تمہارے چہرے پر مسکان دیکھنا چاہتا ہوں۔
آغا جان آپ میری سمجھ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں بھلا اس کے آنے سے یا نہ آنے سے مجھے کیا فرق پڑے گا وہ لاپرواہی سے بولی۔
اچھا تو کیا مین لاعلم ہوں اپنی پوتی کے جذبوں سے جو وہ میرے پوتے کے لئے رکھتی ہے۔
ان کا ذکر مت کیا کریں۔ مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا، ان کی سردمہری، نظر اندازی کچھ بھی نہیں۔ یہ کہتے ہوئے ان کا ہاتھ پکڑے پارک سے باہر چل دی۔
اور آغا جان آج پھر اس کا اداس چہرہ دیکھ کر اداس ہو گئے تھے۔ انہیں دکھ نے آ گھیرا تھا۔ لیکن وہ کبھی مایوس نہ ہوئے تھے اپنے کیے گئے فیصلے پر۔
__________
کب آ رہے ہو برخوردار؟
بس آغاجان ارادہ تو بہت جلد آنے کا ہے لیکن ابھی مجھے یہاں سب وائنڈ اپ کرنے میں کافی ٹائم لگ جائے گا۔
تم تین مہینوں سے بہت جلد کا کہہ رہے ہو۔
بس میرے مرنے سے پہلے آ جانا۔
ایسی باتیں مت کیا کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ دیارغیر میں میری تکلیف بانٹنے والا کوئی نہیں ہے۔
تکلیف اسے نہیں کہتے میرے بچے۔ تم اپنے ماں باپ کو جو دے رہے ہو تکلیف اسے کہتے ہیں۔ ایک بھائی اپنے بیوی بچوں کو لے کر دوسرے شہر جا بسا ہے اور دوسرے کو پڑھنے کے لیے بھیجا تھا جو آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔۔۔
آغا جان میں اپنی پوری کوشش کررہا ہوں، بس اسی مہینے کے آخر میں آپ کے پاس آ جاؤں گا۔ انہیں مطمئن کرنے کے لئے ایسا کہا۔ ورنہ کام تو بہت تھا اور اب تو فہد بھی پاکستان جا چکا تھا۔ اور اب اسے اکیلے کو ہی سارا کام ختم کرنا تھا۔۔۔۔
ٹھیک ہے برخوردار ہم انتظار کریں گے۔ لیکن تم ہمیں ایک بات تو بتاؤ۔ کیا تم بھول بیٹھے ہو کہ تمہاری ذات کسی سے منصوب کر دی گئی ہے۔
آپ یسی باتیں کر کے مجھے ڈسٹرب کر دیتے ہیں۔
تم جانتے ھو کہ تمھاری یہ ڈسٹربینس دور کرنے کے لئے لیے، تمارے پاس اپنے دکھ سنانے کے لیے تمہاری ماں، بہن ہے، یہاں تک کہ تمہارا باپ ہے اور ہم لاعلم نہیں ہیں کہ تمہارا بڑا بھائی بھی ہے جس سے تم کنٹیکٹ میں ہو۔ لیکن اس لڑکی کے پاس اپنی بیمار ماں کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے جو اسے سمجھ سکے۔ تمہارے ہوتے ہوئے اسے غیروں کا سہارا ہے۔
ایک وقت آئے گا کہ وہ اتنی ٹوٹ چکی ہوگی، بکھر چکی ہو گئی کہ اسے تمہاری طلب بھی نہیں رہے گئی۔ اتنی لاپرواہی اچھی نہیں ہے۔ یہ کہتے ہی انہوں نے فون کٹ کر کے رکھ دیا۔
___________
“دل اس سے نہیں لگانا جسے اپنے حسن پر غرور ہو
دل اس سے لگانا جسے محبت سمجھنے کا شعور ہو”
وہ اپنے بیڈ پر لیٹی اس ستمگر کے خیال میں تھی۔ کیا وہ شخص اتنا مصروف ہے کہ مجھ سے دو منٹ بات نہیں کر سکتا۔ مجھ سے میرا حال حوال نہیں پوچھ سکتا؟
تبھی اس کے فون پر رنگ ہوئی تھی۔ اس نے بغیر دیکھے فون کان کو لگا لیا۔ اس وقت اس کو اکثر ماہین کال کرتی تھی اور اپنے بھائی کے نام سے چڑاتی تھی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ زری اکیلے میں اداس ہو جایا کرتی ہے۔
میں اداس نہیں ہوں۔ تم ٹینشن مت لو اور ویسے بھی میں ابھی انہی کے خیالوں میں تھی۔ وہ اس کو ہنسانے کے لیے یہ بولی تھی لیکن مقابل کی آواز پر اٹھ بیٹھی تھی۔
اس وقت تمہیں کون فون کرتا ہے اور کس سے تم اتنی بے ہودہ گفتگو کرتی ہو یہ جاننے میں مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔ “اس کو لگا کہ وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گئی، اس قدر زہر میں لپٹے ہوئے الفاظ جو سیدھا روح زخمی کر دیں۔ وہ جانتی تھی کہ یہ شخص اس کو ناپسند کرتا ہے لیکن اس قدر وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔
مانا اس نے آغاجان کے کہنے پر کال کی تھی۔ لیکن مقابل کی بیھودہ گفتگو سن کر اسے طیش آگیا۔
زرفشاں بی بی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ کچھ بولتا کہ دوسری طرف سے لائن کٹ گئی تھی۔
____________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...