کافی دیر کے بعد آئمہ کو ہوش آئ تھی جب اسے ہوش آئ تو اس نے خود کو ہسپتال کے ایک روم میں پایا اس نے دوری طرف دیکھا تو اس کے ماں باپ بیٹھے تھے آئمہ کو ہوش میں آتا دیکھ کر اس کے ماں باپ بہت خوش ہوئے وہ آگے بڑھے اور آئمہ کے پاس جاکر بیٹھ گئے آئمہ نے نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی مگر اس کے اندر اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اٹھ سکے آئمہ کی ماں نے اسے بٹھایا اور کہا: آئمہ بیٹا اب طبیعت کیسی ہے تمہاری؟؟؟
آئمہ نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا: کیا ہوا تھا مجھے؟؟؟
آئمہ کے والد اکرم نے کہا: نہیں بیٹا کچھ نہیں ہوا تھا۔
آئمہ کے والد نے اشاروں سے آئمہ کی والدہ کو روکا کہ وہ آئمہ کو اس وقت کچھ نا بتائے کیونکہ اس واقت آئمہ کچھ سننے کی حالت میں نہیں تھی۔
آئمہ نے حیرانگی سے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور کہا: تو پھر ہم ہسپتال کیا کررہے ہیں چلے چلتے ہے یہاں سے!
آئمہ کے والد اکرم نے کہا: جی بیٹا بس ہم جانے ہی لگے ہیں یہ ڈاکٹر صاحب س آ لے پھر چلتے ہے۔
آئمہ نے کہا: اور آزر آزر کہا ہے؟؟؟؟ وہ مجھے دیکھنے کیوں نہیں آیا؟؟؟
یہ الفاظ آئمہ کے والدین کے سینے میں کسی تیر کی طرح لگے آئمہ کی ماں نے روتے ہوئے کہا: اب بس کرو تم بھول جاؤ اسے!!!!
یہ سن کر آئمہ تڑپتی ہوئی بولی: یہ کیا کہہ رہی ہے آپ ہوش میں تو ہے میں آزر کو نہیں چھوڑ سکتی یہ امی کیا کہہ رہی ہے ابو سمجھائے انہیں۔
آئمہ کی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوچکے تھے۔
آئمہ کے والد نے اس کی ماں سے کہا: میں نے تمہیں کہا ہے نا کہ چپ ہوجاو ابھی وہ اس حالت میں نہیں ہے۔ آئمہ کے والد کے لہجے میں تھوڑی سکتی تھی یہ سن کر آئمہ کی والدہ نے کہا: تو کیا جھوٹ ہے اس میں نہیں دیکھا جاتا مجھ سے یہ سب کچھ۔۔۔
یہ کہہ کر وہ کمرے سے روتے ہوئے باہر چلی گئ۔
آئمہ نے کہا: ابو آزر کہاں ہے پلیز بتادے۔
آئمہ کا والد یہ کہنا تو نہیں چاہتا تھا مگر اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر اسے مجبوراً کہنا پڑا : آزر آرہا ہے۔۔۔۔!!!تم آرام کرو بیٹا میں ڈاکٹر کو دیکھ کر آتا ہو۔۔۔۔
یہ کہہ کر وہ بھی باہر چلا گیا آئمہ وہی بیٹھی آزر کے بارے ہی سوچ رہی تھی کہ اچانک اسے سب کچھ یاد آگیا اسے یہ بھی یاد آگیا کہ آزر نے اسکی طرف طلاق کے کاغزات بھیجے تھے یہ سب یاد کرکے آئمہ کو پھر سے جھٹکا لگا وہ پھر سے رونے لگ پڑی اور روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ “آزر تم بے وفائی کیسے کرسکتے ہو آزر ایک بار بس ایک بار میری بات سن لو آزر تم مجھے کیسے چھوڑ سکتے ہو۔۔۔
اس کا دل پھٹنے کو آرہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ اس کے پاس پڑے چھوٹے سے ٹیبل پر آپریشن والی چھری پڑی ہے وہ چھری کافی تیز بھی تھی وہ اب اور جینا نہیں چاہتی تھی وہ اب خود کو ختم کرنا چاہتی تھی اسی نیت سے اس نے وہ چھری اٹھائی اور اپنی کلائی کاٹنے ہی لگی کہ اچانک ہی وہاں پر اس کا والد ڈاکٹر کو لے آیا جب انہوں نے آئمہ کی یہ حرکت دیکھی تو وہ بھاگتے ہوئے آگے بڑھے اور آئمہ کے ہاتھوں سے وہ چھری پکڑ لی آئمہ نے لگ بھگ اپنی تھوڑی سی کلائی پر کٹ لگا ہی لیا تھا جس پر سے خون بھی نکلنا شروع ہوگیا تھا۔
ڈاکٹر نے جلدی سے پٹی پکڑی اور وہ خون روکا۔
آئمہ کے والد نے تڑپتے ہوئے آئمہ سے کہا: یہ کیا حرکت ہے آئمہ یہ کیا کرہی ہو تم۔۔۔۔۔ پاگل ہوگئ ہو۔۔۔۔
آئمہ اپنی پوری آنکھیں کھولیں نیچے منہ کرکے بیٹھی تھی وہ پلکیں تک نہیں جھپک رہی تھی۔۔۔
آئمہ میں نے پوچھا ہے کچھ۔۔۔؟؟؟؟
مگر آئمہ پھر بھی چپ بیٹھی تھی۔
تبھی ڈاکٹر نے کہا: جی دیکھئے جب انسان کو غصہ یا پھر بہت دکھ ہو تو پھر ہی وہ یہ حرکت کرتا ہے ابھی آئمہ اپنے حواسوں میں نہیں ہے پلیز آپ انہیں ڈسٹرب مت کرے ایسے یہ اور بھی زیادہ ہائپر ہوجائے گی۔۔۔۔
آئمہ کا والد بہت پریشان تھا اس نے ڈاکٹر سے کہا: یہ حرکت یہ دوسری بار کرچکی ہے۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نے آئمہ کی کلائی پر اچھی طرح سے پٹی باندھی۔
آئمہ نے غصے سے کہا: آخر آپ لوگ مجھے مرنے کیوں نہیں دے رہے ہیں مرنے دے مجھے اگر میں آپ لوگوں پر بوجھ ہو اور اگر آپ لوگ چاہتے ہے کہ میں آپ لوگوں کو بار بار تنگ نا کرو تو پھر مرنے دینا مجھے۔۔۔۔ آئمہ کی آنکھیں لال پڑگئ تھی۔
اتنا غصہ اور اتنا درد تھا آئمہ کی آنکھوں میں جسے بیان کرنا بھی مشکل ہو۔
نماز سے فارغ ہوکر اس کی ماں بھی اندر آگئ۔
آئمہ نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا: امی آپ ابھی ابھی نماز پڑھ کر آئ ہینا اچھا چلے پھر دعا کرے کہ میں مرجاؤ۔۔۔۔۔
یہ سن کر اس کی ماں نے حیرانگی سے کہا: بیٹا تمہیں خدا کا واسطہ ہے اب بس کرو ایسا مت کہو اس بے وفا لڑکے کے پیچھے تم خود کو بھی نقصان پہنچا رہی ہو اور ہمیں بھی خدا کے لئے اب بس کرو۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نے آئمہ کو کہا: دیکھوں آئمہ اپنے ماں باپ کو تنگ مت کرو یہ آپ کے لئے بھی ٹھیک نہیں ہے اور نا ہی ان کے لئے پلیز سنبھالے خود کو۔۔۔۔
یہ سن کر آئمہ کچھ خاموش ہوئ۔
“زندگی تو ایک نعمت ہے ایک تحفہ ہے جو کہ ہمیں خدا نے دیا ہے زندگی تو خدا کی امانت ہے اور آپ اس میں ہی خیانت کرہی ہے پلیز ایسا مت کرے ایسا کرنے کے بعد بھی آپ کی روح قیامت تک ایسے ہی تڑپتی رہے گی اسی لئے ایسا مت کرے۔۔۔۔
آئمہ نے ایک لمبی سانس خارج کی اور اپنے ماں باپ کی طرف روتے ہوئے دیکھا آئمہ کے ماں باپ کافی پریشان تھے۔
آئمہ نے روتے ہوئے اپنے ماں باپ کو اپنی طرف بلایا اور ان سے مل کر روتے ہوئے کہا: امی ابو مجھے معاف کردے میری وجہ سے آپ لوگ اتنا پریشان ہیں میں بہت بری ہوں پلیز مجھے معاف کردے میں اب ایسا نہیں کرو گی۔۔۔۔
یہ سن کر اس کے ماں باپ کی آنکھوں میں بھی آنسوں آگئے انہیں نے آئمہ کو چپ کرایا اور کہا: وعدہ کرو!!!!
آئمہ نے وعدہ کرتے ہوئے کہا: وعدہ اب ایسا نہیں کرو گی۔۔۔۔
یہ سن کر اس کے ماں باپ کو سکھ کا سانس ملا ۔
تھوڑی دیر بعد آئمہ کو ہسپتال سے ڈسچارج کردیا آئمہ اپنے گھر پہنچی تو اس کی ماں اسے اس کے کمرے میں لے گئ اس نے آئمہ کو اس کے بستر پر لٹایا اور کہا: بیٹا اب کسی بھی قسم کی کوئ بھی ٹینشن مت لینا اور آرام کرو میری جان۔ یہ کہہ کر اسکی ماں آئمہ کو سلا کر کمرے سے باہر چلی گئ۔۔۔
آئمہ کے والد کو کسی کی کال آرہی تھی وہ فون کی طرف لپکا اور اس نے دیکھا کہ آزر کا والد اسے کال کرہا تھا۔
آئمہ کے والد نے فوراً کال اٹھائ اور غصے سے کہا: مجھے آپ لوگوں سے یہ امید نہیں تھی۔
آزر کے والد نے کہا: مجھے بھی آپکی بیٹی پر ایسی امید نہیں تھی کہ وہ یہ حرکت کرے گی۔۔۔
“دیکھئے آپ تمیز سے بات کرے میری بیٹی کبھی ایسا کوئ کام نہیں کرے گی جس میں اس کے ماں باپ کا سر شرم سے جھک جائے” آئمہ کے والد نے غصے میں آکر کہا۔
آزر کے والد نے کہا: تمیز سے آپ بات کرے آپکی بیٹی کی ہی غلطی ہے اس نے حرکت ہی ایسی کی تھی جس کی وجہ سے اسے چھوڑنا آزر کے لئے کسے ثواب کے کام سے کم نہیں۔
یہ سن کر آئمہ کے والد کو مزید غصہ چڑھا اس نے کہا: میری بیٹی پر الزام لگانے سے پہلے آپ اپنے اس بے حیا اور بغیرت بیٹے عثمان سے پوچھے کہ اس نے کیا حرکت کی تھی اسے تو میں زندہ نہیں چھوڑو گا میں کل ہی پولیس اسٹیشن جاکر اس کی ایف آئی آر کٹواو گا چین سے نہیں بیٹھنے دونگا میں اسے۔
یہ سن کر آزر کا والد بھی بھڑک اٹھا اس نے کہا: تم نے جو کرنا ہو کر لینا غلطی ساری آپکی بیٹی کی ہی تھی اس نے ہی عثمان کو خود کی طرف مائل کیا تھا آئ سمجھ اسے نشا دے کر اس نے یہ بےحیائ کی تھی کسی پر الزام لگانے سے پہلے ہزار بار سوچ لیا کرو آئ سمجھ۔۔۔۔
یہ سن کر آئمہ کے والد کو تو جیسے کرنٹ لگ گیا ہو اس نے کہا: تم سوچ سمجھ کر بات کرو تمہارے پاس بیٹی نہیں ہینا اسی لئے تم یہ بکواس کررہے ہو میری بیٹی چھی میری بیٹی اتنی گھٹیا حرکت کر ہی نہیں سکتی۔۔۔
آزر کے والد نے کہا: تم نے جو سوچنا ہے سوچو مگر اب آزر اب اسے اس گھر میں اور اپنی زندگی میں اور برداشت نہیں کرسکتا تو تم جاکر اپنی بیٹی سے کہو کہ چپ چاپ پیپرز پر دستخط کردے ورنہ اگلی بار کورٹ میں ملاقات ہوگی۔ یہ کہہ کر اس نے غصے میں آکر کال کاٹ دی۔
آئمہ کا والد وہی بت بنا کھڑا رہا اس کے کانوں میں اس کے یہ الفاظ کسی سوئی کی نوک کی طرح چب رہے تھے یہ اس نے کیا لیا تھا کیا وہ کوئی خواب دیکھ رہا تھا اس کی پھول جیسی بیٹی پر اس قدر گھٹیا الزام لگا تھا جس کے بارے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اچانک کمرے میں آئمہ کی والدہ آگئ اس نے اپنے شوہر کو اس حالت میں دیکھا اور کہا: کیا ہوا آپ کو؟؟؟
آئمہ کے والد نے آئمہ کی والدہ کی طرف دیکھا اور روتے ہوئے اسے وہ سب بتایا جو کچھ اس نے سنا تھا
یہ سن کر آئمہ کی والدہ بھی کافی پریشان۔
آئمہ کے والد نے کہا: تتتت تم جاکر آئمہ کو سمجھاو کہ وہ دستخط کردے ان دھوکے باز لوگوں سے خود کی جان چھڑائے وہ اگر میں آئمہ کو پولیس اسٹیشن یا پھر عدالت تک لے کر گیا تو پھر میں تو بہت ہی بدنام ہوجاو گا۔۔۔۔
آئمہ کی والدہ نے روتے ہوئے کہا: آپ فکر مت کرے میں آئمہ کو سمجھاو گی۔
یہ سن کر اس کے والد نے کہا: میرا دل پھٹ رہا ہے یہ سب میں نے کیا سن لیا۔
آئمہ کی والدہ نے اپنے شوہر ہو سنبھالتے ہوئے کہا: آپ پلیز خود کو سنبھالے میں صبح جاکر آئمہ سے بات کرو گی پلیز سنبھالے خود کو۔
جب صبح ہوئی تو آئمہ کی ماں کاغزات پکڑے آئمہ کے کمرے میں گئ آئمہ اٹھی ہوئ تھی اور وہ کھڑکی کے پاس بیٹھی پتا نہیں کس گہرائی تک سوچ رہی تھی کہ اچانک آئمہ نے اپنی ماں کی طرف دیکھا آئمہ نے کہا: ارے امی آپ آئے بیٹھے۔۔۔
آئمہ کی امی آئمہ کیساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گئ۔
آئمہ نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا: امی کیا ہوا آپ پریشان کیوں لگ رہی ہے۔
آئمہ کی ماں نے کل رات آئمہ کے والد کیساتھ جو کچھ بھی آزر کے والد نے کہا وہ سب اس نے آئمہ کو روتے ہوئے بتا دیا اور کہا: بیٹا تم ہماری بیٹی ہو ہم تمہیں بھلا ہی سوچے گے جہاں تمہاری یہ عزت ہے وہاں تم کیسے خوش رہ سکتی ہو تمہیں تو لاکھوں اچھے رشتے مل جائے گے میرا بیٹا چھوڑ دو اس بے وفا لڑکے کو اس نے تمہیں بہت بدنام کردیا ہے ارے جس کو اپنی محبت پر ہی یقین نہیں ہے وہ بھلا کسی پر کیا یقین کرے گا اور اس عثمان کو تو اللہ ہی پوچھے گا تم سب کچھ اپنے خدا کر چھوڑ دو تم تو ایک بہادر لڑکی ہو تو یہ سب تم کیسے برداشت کرسکتی ہو۔۔۔۔؟؟؟
یہ سب کچھ سن کر آئمہ نے اپنی میں کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے آنسو صاف کئے اور روتے ہوئے کہا: جہاں میرے ماں باپ کی عزت نہیں وہاں میں تھوکتی بھی نہیں ہو۔
آئمہ کی ماں نے کاغزات اور پین آئمہ کو پکڑتے ہوئے کہا: تو پھر یہ لو کردو دستخط اور خود کو اس عزاب سے نجات دلا دو۔
آئمہ نے ان کاغزات پر دیکھا تو آزر نے پہلے کے ہی دستخط کئے ہوئے تھے مطلب اس کا سب مکمل طور پر آئمہ پر بھروسہ ٹوٹ چکا تھا تو پھر وہ کیوں تڑپے وہ کیوں اس شخص کے لئے روئے جس نے اسے آج اس ہال تک پہنچایا جس نے اسے بھی اور اس کے ماں باپ کی عزت کی دھجیاں اڑا دی کیوں تڑپے۔
آئمہ کی آنکھوں میں آزر کے لئے بہت سے سوالات تھے۔
آئمہ نے قلم اٹھایا اور پھر اس نے ان کاغزات پر دستخط کردئیے۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...