“کیا سوچ رہی ہو اسوہ؟” میر نے اسوہ سے پوچھا جو سوچوں کے گرداب میں اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ اسے میر کے آنے کی خبر تک نہ ہوئی۔
“کچھ نہیں لالہ آپ کب آئے؟” اسوہ چونکی تھی۔
“بس ابھی تھوڑی دیر پہلے آیا تو دیکھا میری بہنا گہری سوچوں میں گم ہے۔” میر نے مسکراتے ہوئے کہا اور اسکے سامنے بیٹھ گیا۔
“لالہ یہی گہری الجھی سوچیں میرا مقدر ہیں۔” اسوہ نے پھیکی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے کہا ۔
“اسوہ ایسی باتیں کیوں کرتی ہو مجھے اپنی شوخ سی چنچل سی اسوہ واپس چاہیے کہاں گم کر دیا ہے تم نے اسے۔” میر اسکی بات پر تڑپ اٹھا تھا۔
“لالہ وہ اسوہ تو اسی دن مر گئی تھی جب۔۔۔۔۔” اسوہ نے کچھ کہنا چاہا مگر ایک دن سے اسکی خوبصورت غزالی آنکھیں چھلک گئیں۔
“لالہ کی جان ایسے نہ کرو ہم سبکو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ بھول جاؤ سب کچھ اور اب تم میرے ساتھ کراچی چلو گی۔” میر نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
“نہیں لالہ مجھے یہیں رہنا ہے۔” اسوہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور پھر وہ میر کے ساتھ لگی روتی رہی۔
پچھلے چند سالوں سے ایسے ہی ہوتا تھا وہ میر کی لاڈلی بہن تھی۔ میر کو سامنے دیکھ کر وہ خود پر قابو نہیں رکھ پاتی تھی جبکہ میر کو اس سب سے بہت تکلیف ہوتی تھی
وہ اسے کراچی اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا مگر وہ مانتی نہیں تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“داؤد لالہ!” عمیر نے داؤد کے آفس کے باہر کھڑے ہو کر کہا۔
“ارے عمیر تم اندر آؤ نا۔” داؤد اٹھا اور اسکے گلے لگا۔
“کس کو سوچ رہے تھے لالہ اور غصہ کیوں ہے؟” عمیر نے شرارت سے پوچھا کیونکہ جب وہ آیا تھا تو داؤد کے ماتھے کی شکنیں واضح تھیں۔
“ارے کوئی غصہ نہیں بس ایسے ہی کاروباری الجھن تھی۔” مشوانی نے اسے ٹالا تھا۔
“رہنے دیں کاروباری الجھن آپ کو اس طرح کبھی نہیں الجھا سکتی۔ میں جانتا ہوں آپ کو آپ اور میر لالہ بہت کم الجھتے ہیں۔” عمیر نے منہ بنا کر کہا۔
“شرم کرو چھ سال بڑے بندے کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتے ہو۔” مشوانی نے اسے لتاڑا۔
” ایک آپ اور میر لالہ ہر وقت چھ سال بڑے ہونے کا رعب ہی جماتے رہیے گا۔” عمیر نے اسکی بات ہواؤں میں اڑائی تھی۔
“چلو باتیں کم پڑھائی زیادہ کل سے تم نے میڈیکل کالج جانا ہے۔” مشوانی نے کہا اور پھر وہ لوگ باتیں کرنے لگے۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
“نور!” نور کو اپنے پیچھے سے آواز سنائی دی جسکو سن کر وہ پلٹی تھی۔
” تمممم؟” سامنے والے کو دیکھ کر نور کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں۔
“کیوں اپنی آنکھیں باہر نکالنی ہیں۔” اس نے مسکرا کر کہا جو بلیک ہڈی پہنے کھڑا تھا۔
“تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ شاہ نے دیکھ لیا تو مصیبت ہو جائے گی۔”
“شاہ؟ یا پھر ڈاکٹر شاہ؟” اگلے کے لہجے میں کاٹ تھی ۔
آ” یک ہی بات ہے شاہ کہوں یا پھر ڈاکٹر شاہ!” نور نے اسے جواب دیا جس پر وہ طنز کرتے ہوئے بولا۔
” نہیں ایک بات نہیں ہے۔ڈاکٹر شاہ سے شاہ کا سفر ایک طویل داستان کا نام ہے۔”
” تم ہمیشہ ایک الگ نرالی منطق لاتے ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہے اور جاؤ یہاں سے۔ ڈاکٹر شاہ نے دیکھا تو برا ہوگا۔” نور نے تنگ آ کر کہا۔
“چلتا ہوں میں لیکن یاد رکھنا تمہاری آنکھوں سے میں ہر بات پڑھ کر سنا سکتا ہوں۔” اسنے کہا اور پھر وہاں سے چل دیا اور وہ اسے دیکھ رہی تھی کہ ایک دم پیچھے سے آتی آواز سن کر کرنٹ کھا کر پلٹی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“مہمل کیسے لگے لڑکے والے؟” رقیہ بیگم نے اس سے پوچھا جو اپنے ہاتھ میں موجود ان لوگوں کی پہنائی ہوئی انگوٹھی کو گھمائے جا رہی تھی۔
“ٹھیک ہیں۔” مہمل نے مختصر جواب دیا۔
“کیا مطلب ٹھیک ہیں؟ کیا کوئی الجھن ہے تمہیں؟” رقیہ بیگم نے اسکی غائب دماغی دیکھتے ہوئے کہا اور وہ انھیں دیکھ کر رہ گئی کیونکہ وہ ہمیشہ اسکی الجھن محسوس کرتی تھیں۔
“امی مجھے بہت حیرت ہے اور الجھن سی بھی محسوس ہو رہی ہے۔” مہمل نے شام کے اداس منظر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“الجھنوں میں خود کو الجھانے سے تو یہ الجھنیں نہیں سلجھتیں۔” رقیہ بیگم نے اسکے روشن چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“مگر یہ الجھن ایسی ہے جس میں خودبخود میں الجھتی جا رہی ہوں۔” مہمل نے انکو دیکھا تو وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔
“امی آخر ایسی کیا بات ہے کہ حماد لغاری کا رشتہ آیا ہے۔ اتنا بڑا سیاسی خاندان جہاں شادیاں بھی سیاسی نفع و نقصان دیکھ کر کی جاتی ہیں۔ اس خاندان سے یوں رشتہ آنا اچنبھے کی بات ہے۔” مہمل نے بتایا۔
” ارے بیٹا یہ تو اللہ کی رحمت ہے اور دوسرا میری بیٹی جیسی لڑکی تو انھیں پوری دنیا میں بھی نہیں ملنی تھی۔” رقیہ بیگم نے اسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا کر رہ گئی کہ اسکی ماں کتنی بھولی ہے۔
“امی مگر کچھ تو ہے جو یہ سب ہو رہا ہے۔” مہمل نے انھیں کہا اور اٹھ کر اندر جہانگیر خان کے کمرے میں چلی گئی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“حماد یار کیا بنا پھر تمہارا؟” حماد کے دوستوں نے پوچھا تو وہ ہنس کر بولا “حماد لغاری کو آج تک کبھی انکار سننا پڑا ہے جو اب سنتا؟”
“یہ تو ہے! تم تو شہزادے ہو تمہیں کوئی انکار کیوں کرتا؟” اسکے ایک دوست علی نے کہا تو وہ ہنسا تھا۔
“ویسے ہے کون وہ جس کے گھر حماد لغاری کی نظر پڑ گئی۔ ورنہ تو یہ صاحب دور ہی رہتے ہیں سب چیزوں سے۔” اسکے دوسرے دوست اسفر نے کہا جو کل ہی لندن سے آیا تھا اور کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا۔
“ارے یوسفزئی خاندان پہ نظر ڈالی ہے۔” اس نے پہلے دوست علی نے کہا۔
“کیا ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟ حماد انکل کے مقابلے میں ہر بار جہانداد خان یوسفزئی ہوتا اور تم یوسفزئی خاندان میں ہی؟” اسکے دوست اسفر نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
“ایسا کچھ نہیں وہ یوسفزئی خاندان سے انتقام لینا چاہتی ہے اور میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ آسان سی بات ہے سمجھ آنی چاہیے تمہیں۔” حماد نے اسے بتایا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔
“مگر ایک بات بتا دوں میری اطلاع کے مطابق مشوانی گروپ آف انڈسٹریز میں اس لڑکی کا آنا جانا ہے اور تمہیں معلوم ہے نا کہ شاہ کا دوست ہے مشوانی کا۔ یعنی اس لڑکی کا شاہ سے کوئی نا کوئی تعلق تو ہے۔” اسکے دوست نے اسے تازہ اطلاع دی تو وہ چونکا تھا۔
“کون مشوانی؟ کہیں داؤد مشوانی کج بات تو نہیں کر رہے؟” حماد نے پوچھا۔
” ہاں اسی کی بات کر رہا ہوں۔” اسکے اطلاع دینے والے دوست نے کہا۔
“مگر اسکا داؤد مشوانی سے کیا تعلق ہے؟” حماد الجھا تھا۔
” اگر ایسا ہے تو بہت برا ہے کیونکہ داؤد مشوانی سے ٹکرانا آسان نہیں اور وہ کبھی بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہونے دیگا جو شاہ کی مرضی یا مفاد کے خلاف ہو۔” اسفر نے پریشانی سے کہا تو حماد سوچ میں پڑ گیا کیونکہ مہمل نے اسے نہیں بتایا تھا کہ اسکا مشوانی سے کوئی تعلق ہے۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل کے فون پر میسج کی بیپ بجی تھی۔
مہمل نے دیکھا تو داؤد کا میسج تھا جس میں لکھا تھا۔ “کیا ہم سب بھول نہیں سکتے۔ میں اس دن کیلئے معذرت چاہتا ہوں تم سے۔”
مہمل نے میسج دیکھا اور پھر اسے لکھا “بھول جاؤ مجھے میں اب تم سے بات نہیں کروں گی۔ تم شاہ کی چمچہ گیری کرو۔”
مہمل کے میسج کے تھوڑی ہی دیر بعد میسج آیا۔
“ایسا ممکن نہیں ہے اور جو وہ حماد چاہتا وہ بھی میں ہونے نہیں دونگا۔”
مہمل اسکا میسج دیکھ کر لمبی سانس بھر کر رہ گئی تھی۔
تھوڑی ہی دیر بعد دوبارہ میسج آیا جو کہ وائس میسج تھا
مہمل نے سنا تو اس میں داؤد نے اپنی آواز میں ایک نظم بھیجی تھی
چلو اب ایسا کرتے ہیں۔۔۔
محبت پھر سے کرتے ہیں
گریباں چاک کرتے ہیں۔۔۔۔
شکستہ آرزوؤں کو،،،،،،،
سپردِخاک کرتے ہیں!!!!!!!
دلِ رنجیدہ کو پھر سے
دلِ شاد کرتے ہیں!!!!!
نئی امیدیں پھر سے
اس میں آباد کرتے ہیں
چلو یہ مان لیتے ہیں کہ
پانچوں انگلیاں۔۔۔
ہوتی نہیں ایک ساتھ
مگر یہ بات بھی سچ ہے
تمھیں کیسے بھلائیں گے
تمہاری یاد کو دل سے
کیسے مٹائیں گے؟؟؟؟؟؟
چلو پھر ایسا کرتے ہیں
محبت پھر سے کرتے ہیں
اور تمھیں سے کرتے ہیں
(سائرہ بانو)
مہمل نے آگے سے اسے لکھا تھا۔
“یہ محبت میرے نصیب میں نہیں لکھی ہے اس لئے تم اب اسکو دفن کر دو تو بہتر ہوگا تمہارے لئے۔”
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“السلام علیکم!” آنکھوں پر کالا چشمہ چڑھائے پاؤں میں ہمیشہ کی طرح چارسدہ چپل پہنے نیوی بلیو شلوار قمیض زیب تن کئے ہوئے وہ حماد لغاری کے سامنے آ بیٹھا تھا جو شہر کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں لنچ کر رہا تھا۔
“وعلیکم السلام! آپ کی تعریف؟” حماد نے پوچھا۔
“مجھے داؤد مشوانی کہتے ہیں۔” داؤد نے چشمہ اتار کر ٹیبل پر رکھا تھا۔
“آپ کو مجھ سے کیا کام ہے۔” حماد کے ماتھے پر شکنیں آئیں تھیں۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
نور پلٹی تو شاہ اسکے سامنے کھڑا تھا۔
“ڈاکٹر نور کیا کر رہی ہیں آپ یہاں۔ جائیں جا کر وارڈ کا راؤنڈ لگائیں۔” شاہ نے اسکے چہرے کو دیکھا جہاں ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
“ج۔۔۔ جی۔۔ میں جاتی۔۔۔ ہوں۔” نور نے بمشکل چہرے پر مسکراہٹ لائی اور مڑ کر دیکھا کہ وہ چلا گیا یا نہیں۔
“نور آپ ٹھیک ہیں؟” شاہ الجھا تھا۔
“جی میں ٹھیک ہوں۔” ڈاکٹر نور نے اسے کہا۔
“لگ تو نہیں رہیں خیر وہ کون تھا جس سے آپ باتیں کر رہی تھیں۔” شاہ نے سرسری سے لہجے میں پوچھا جبکہ نور کا سانس وہیں اٹک گیا تھا۔
“آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟” نور نے گڑبڑا کر کہا۔
“نور کیا ہو گیا ہے؟ میں نے ویسے ہی پوچھ لیا تھا۔ آپ نے نہیں بتانا تو نہ بتائیں مگر اس میں پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔” شاہ نے اسے کہا تو وہ فوراً بولی “نہیں میں پریشان نہیں ہوں۔” اور وہاں سے چلی گئی۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
“مجھے آپ سے کوئی خاص کام تو نہیں ہے۔” مشوانی نے اسے چبھتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“پھر یہاں آنے کا مقصد بتا سکتے ہیں آپ؟” حماد نے بھی اسی کے لہجے میں کہا کیونکہ اسے مشوانی کا آنا کچھ زیادہ اچھا نہیں لگا تھا۔
“مقصد بتانا ضروری ہے کیا؟” مشوانی نے تیکھے لہجے میں سوال کیا تو وہ بولا” اگر بتانا نہیں تو پھر آنا نہیں چاہیے تھا۔”
“چلو بتا دیتا ہوں میر یوسفزئی المعروف ڈاکٹر شاہ تم سے ملنا چاہتا ہے۔ اگر کل خود آ جاؤ تم میرے آفس تو ٹھیک ورنہ ہمیں خاص بندے بھیجنے پڑیں گے بلانے کیلئے۔” مشوانی کا انداز بلکل سرد تھا
“یہ دھمکی ہے کیا؟” حماد نے ابرو اٹھایا۔
” ارے نہیں حماد لغاری میں بھلا آپ کو کیوں دھمکی دونگا۔ چلیں اب چلتا ہوں کل آ جائیے گا آپ۔” مشوانی نے کہا اور پھر ہاتھ آگے بڑھایا جسے حماد تھامنے لگا تو مشوانی نے فوراً پیچھے کھینچ لیا اور مسکرا کر بولا “پھر ملتے ہیں مسٹر۔” اور چشمہ چڑھاتا وہاں سے چلا گیا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
عمیر کا آج میڈیکل کالج میں پہلا دن تھا۔
صبح ہی میر بھی کراچی پہنچ گیا تھا۔
مہمل آج میڈیکل کالج جانے کے موڈ میں نہیں تھی۔ کیونکہ اسے حماد کے ساتھ اپنی منگنی کی شاپنگ کرنی تھی جو کہ اتوار کی رات کو تھی۔
“ہیلو حماد کیا ہوا ہے؟ منہ کیوں بنا ہوا ہے تمہارا؟” مہمل نے حماد سے پوچھا اور اسکے سامنے بیٹھ گئی۔ ٹھیک اسی جگہ جہاں مشوانی بیٹھا تھا۔
“کچھ نہیں بس ایک فضول انسان مل گیا تھا۔” حماد نے موڈ ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
“ہممم!” مہمل نے جواب دیا۔
“مہمل ایک بات پوچھوں۔” حماد نے محتاط ہوکر کہا
ہاں پوچھو مہمل الجھی تھی۔
“تم نے بتایا تمہیں یوسفزئی خاندان سے بدلہ لینا کیوں کہ وہ تمہارے ابو کی اس حالت کے ذمہ دار ہیں اور تمہارے خاندان کی بربادی کے بھی۔ لیکن آخر ایسی کیا وجہ تھی جو وہ تم لوگوں کے خلاف گئے اور تم کیوں مشوانی سے ملنے جاتی ہو۔”
حماد نے اس سے پوچھا تو مہمل کا چہرہ زرد پڑ گیا۔
“کیا یہ سب بتانا ضروری ہے؟” مہمل نے گھبرا کر کہا۔
” ہاں میں چاہتا ہوں کہ رشتہ ہونے سے پہلے سب بتا دو تم مجھے۔” حماد نے اس کو کہا۔
“مگر میں اس معاملے پر بات نہیں کرنا چاہتی۔” مہمل نے کہا اور پھر بیگ اٹھا کر ہوٹل سے باہر نکل آئی کیونکہ مزید اب وہ اسکے ساتھ نہیں بیٹھ سکتی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...