شایان جانتا تھا شہوار اس سے بہت ناراض ہے وہ اسکو منانا چاہتا تھا لیکن وجہ کیا پیش کروں کیسے اسکو ماما کی ضد بتاؤں شایان سر پکڑ کر بیٹھا تھا
دور کھڑی شہوار کو عجیب سا محسوس ہونے لگا
“وہ پریشان ہے جاکر ایک بار اور پوچھ لو” شہوار کے دل نے کہا اور وہ ساری ناراضگی بھول کر اسکے پاس آگئی لیکن کچھ بولی نہیں اور شایان نے کسی کو اپنے پاس محسوس کرکے سر اٹھایا سامنے کھڑی شہوار کو دیکھ کر چونک گیا
” بتانا پسند فرمائیں گے آپکو کیا ہوا ہے؟” شہوار نے نروٹھے پن سے کہا شایان اسکے انداز پر مسکرادیا
“تمہاری یہی ادائیں مجھے دیوانہ بناتی ہیں” وہ اسکو بازوؤں میں بھر کر بولا
“چھوڑیں مجھے ناراض ہوں میں آپ سے بس اتنا بتائیں کہ آپکو کیا ہوا ہے؟” اپنی ناراضگی جتانا اس پر اپنا حق سمجھا
“کیا کروگی جان کر؟” شایان مسکرا کر بولا
“آپ بتائیں بس” شہوار نے ضد کی اور شایان نے اسکو بتانے کی ٹھان لی تاکہ وہ سن کر تھوڑا اسکا ساتھ دے دے
” وعدہ کرو مجھ سے بدگمان نہیں ہوگی پھر؟” شایان نے کندھوں سے تھام کر کہا
” نہیں ہونگی بتائیں” وہ بے صبری سے بولی
” بیٹھو” شایان نے اسکو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا
” شہوار مجھے سمجھ نہیں آریا کہ کیسے شروع کروں میں دو دن سے بہت پریشان ہوں ماما چاہتی ہیں میں بینش سے شادی کروں کیونکہ وہ خالہ کو زبان دے چکی ہیں” شایان کی بات کر اسکے سر پر ہتھوڑے برسنے لگے اپنے اندر سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی
” تو کیا آپ کرلیں گے” شہوار کو اپنے آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی
” مجھے نہیں سمجھ آرہا شہوار ماما نے دھمکی دی ہے اگر میں نے انکار کیا تو نتیجہ کے ذمہ دار میں خود ہونگا” شایان نے پریشانی سے کہا
“آپ کرلیں ان سے شادی تائی کا مان رکھ لیں وہ بھلے میرے ساتھ کیسی ہیں لیکن یہ سچ ہے میں پھر بھی ان سے محبت کرتی ہوں کیونکہ کم از کم انہوں نے مجھے گھر سے تو نہیں نکالا کبھی میرے پڑھائی روک کر گھر کی ذمہ داری تو نہیں دی کبھی مجھے مارا تو نہیں جیسے اور یتیم بچوں کی تائی کرتی ہیں” شہوار کی آواز بھیگی ہوئی تھی
” آپ کرلیں پتہ نہیں میں برداشت کیسے کروں گی پر آپکی محبت پر یقین ہے شایان” اور آنسو روکنا اب اسکیلیئے مشکل ہوگیا تھا وہ فورا اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی اور شایان ایک فیصلہ کرکے اٹھ کھڑا ہوا اور دور کھڑی تائی پہلے شہوار کی باتیں سن کر حیران پھر نفرت سے چہرہ جھٹکتے ہوئے بڑبڑائی
“ڈورے ڈالنے کی ایک اور سازش ماننا پڑے گا تمہیں شہوار بی بی”
__________
“شایان کیا فیصلہ کیا” اگلی دن تائی نے شایان کو اپنے کمرے میں بلا کر پوچھا
” وہی جو اسوقت کیا تھا جب آپ نے پہلی مرتبہ کہا تھا” شایان کا لہجہ اسپاٹ تھا
” تم ماں کے سامنے کھڑے انکار کر رہے ہو” وہ دکھ سے بولیں
” آپ نے فیصلہ کا اختیار دیا تھا وہ اثبات اور نفی دونوں میں ہوسکتا ہے سو میں نے کوئی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی” شایان اٹل لہجے میں کہتا ہوا چلا گیا اور تائی بیچ و تاب کھا کر رہ گئیں
” خالہ جانی” تائی کو اداس دیکھ کر بینش کمرے میں آئی وہ ساری باتیں سن چکی تھی
” چھوڑیں مامی جیسے اسکی خوشی میں اب کبھی بھی شادی نہیں کروں گی آپ چھوڑیں ٹینشن نہ لیں” بینش نے ایک اور جال بچھایا
” ایسے کیسے رہنے دوں اپنی بیٹی کیلئے میں ضرور کچھ نہ کچھ کروں گی تم کچھ خواہش کا اظیار کرو اور وہ میں پورا نہ کروں ایسا نہیں ہوسکتا” تائی کے لہجے میں بینش کیلئے محبت ہی محبت تھی اور بینش اپنی سازش کی کامیابی پر مسکرادی
____________________
مسز زبیر آج یونی آئیں تو شہوار کو اپنے آفس بلانے کیلئے خادم کو کیلئے بھیجا
“میم وہ تو آج نہیں آئی” خادم نے آکر اطلاع دی
“آپکو کس نے بتایا” میم نے چونک کر پوچھا
” انکی کزن ہے جی حوریہ انہوں نے کہا کہ انکی طبیعت خراب ہے اسلئے نہیں آئیں” طبیعت کا سن کر مامتا کا سمندر جوش مارنے لگا
“اوکے آپ جائیں اور حوریہ کو بھیجیں” وہ بولیں تو آواز میں نمی سی تھی
دس منٹ بعد حوریہ آئی
“مے آئی کم ان میم” حوریہ کی آواز پر میم نے سر اٹھا کر اسکو سر کی جنبش سے آنے کی اجازت دی
” شہوار کو کیا ہوا ہے؟” انکے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ حوریہ بھی ایک پل کیلئے چونک گئی
” اسکو بخار تھا میم ” حوریہ نے کہا
” کیا ٹینشن لی اس نے” جانتی تھیں شہوار بچپن میں جب بھی کوئی ٹینشن لیتی تھی اسکو بخار ہوجاتا تھا اسلئے اب بھی بلا تردد پوچھ بیٹھیں حوریہ کا حیران ہونا بجا تھا وہ انکو چونک کر دیکھنے لگی
” میرا مطلب اکثر بخار اسی وجہ سے ہوجاتا ہے نا” میم اسکی حیرانی سمجھ کر بولیں
” جی وہ کچھ فیملی میٹرز ہیں” حوریہ انکو بتانا نہیں چاہتی تھی مبادا کہیں شہوار بتانے پر ناراض نہ ہوجائے
“اوکے یو مے گو” میم نے اسکو جانے کو کہا اور مسز زبیر نے مصطفی کو کل کی دو تین بیل جانے کے بعد انہوں نے کال اٹھائی
” وہ بیمار ہے مصطفی” مسز زبیر نے روتے ہوئے کہا
“کون؟” مصطفی ناسمجھی میں بولے
” شہوار اس نے کسی بات کی ٹینشن لی ہے اور یاد ہے وہ بچپن میں جب بھی کسی بات کی ٹینشن لیتی تھی اسکو بخار ہوجاتا تھا وہ ہماری ہی بیٹی ہے مصطفی” وہ بے تحاشا رو رہی تھیں
” تم چھٹی لے کر گھر آجاو ہم بات کرتے ہیں پھر” اب تو مصطفی صاحب کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوگئی تھی
__________________
“شایان جلدی گھر آؤ خالہ نے اپنے ہاتھ کی نس کاٹ لی” بینش کی کال پر اسکے پاؤں کے نیچے سے زمین سڑکنے لگی وہ اتنا انتہائی قدم اٹھالیں گی اسکے وہم گمان میں بھی نہیں تھا
” کیا کہ رہی ہوں میں آتا ہوں” وہ پریشانی سے بولتا ہوا آفس سے نکل گیا اور تیز ڈرائیو کرتا ہوا گھر پہنچا ماں کی حالت دیکھ کر اسکا سر گھومنے لگا وہ انکو اٹھا کر گاڑی میں ڈالنے لگا اور حوریہ جو ابھی ابھی یونی سے آئی تھی وہ بھی پریشانی میں گاڑی میں بیٹھ گئی کیونکہ بینش پہ اسکو بھروسہ نہیں تھا وہ کچھ بھی کر سکتی تھی
شاید گاڑی دوڑاتے ہوئے ہاسپٹل پہنچا انکو ایمرجینسی وارڈ میں داخل کیا گیا شایان نے کال کرکے فیضان کو بھی بلا لیا تھا
“ہوا کیا ہے کیوں کیا ہے تائی نے ایسا” فیضان نے پوچھا تو شایان نے اسکو ساری بات بتادی
جسپر فیضان کا خون کھولنے لگا
” تم کروگے شادی؟” فیضان کے لہجے میں سختی تھی اپنی بہن کو اتنا بڑا دھچکا نہیں دے سکتا تھا
” اسکے بغیر کوئی چارہ نہیں” شایان نے دھیمے لہجے میں کہا
“اگر تم نے کیا تو تو مجھ سے کوئی تعلق مت رکھنا” وہ کہتا ہوا چلا گیا
” آپکی ماما کو ہوش آگیا” ڈاکٹر نے آکر خبر دی تو وہ ماں کے پاس گیا
“کیوں بچایا مجھے مرنے دیتے مجھے” شایان کے آتے ہی وہ بھڑک اٹھیں
“ماما پلیز ” وہ بے بسی کی انتہا کو تھا
” ٹھیک تم ابھی بینش سے نکاح کرو ورنہ میں جان دے دوں گی” وہ ڈرپ کی سوئی نکالنے لگیں شایان گھبرا گیا
“ماما پلیز ایسا مت کریں میں کروں گا اس سے شادی پلیز یہ مت کریں” وہ رو دینے کو تھا
“ابھی کرو” اور پھر شایان نے نکاح کا انتظام کرکے چند لوگوں کی موجودگی میں نکاح کرلیا اور تائی مسکرادیں
” اب خوش ہے میری بیٹی” وہ شایان کے جانے کے بعد بینش سے مخاطب ہوئیں تو وہ مسکرادی
___________________
” آج تو حوریہ بھی نہیں آئی میں کس سے شہوار کے بارے میں پوچھوں؟” وہ پریشان تھیں اپنی بیٹی کیلئے
“نجانے کس حالت میں ہوگی” سوچیں تھیں کہ ختم ہی نہیں ہورہی تھیں
کاش میں پہلے ہی حوریہ کے گھر کا ایڈرس پوچھ لیتی وہ پچھتا رہی تھیں پر اب کوئی سروکار نہیں تھا
انہوں نے بے بسی سے ٹیبل پر سر رکھ دیا
__________________
” تو تم نے نکاح کرلیا؟” فیضان کو یہ خبر پہنچی تو غصے سے اسکے پاس آیا
“ہاں” شایان نے اسپاٹ لہجے میں کہا
“اب بہت برا ہوگا شایان بہت برا تم بہت پچھتاؤ گے جب شہوار کو کھو دوگے میں اسکو دکھ نہیں دے سکتا تھا اور تم تم نے اسکو مار ڈالا ہے شایان سنا تم نے مرگئی ہے وہ” فیضان اسپر چلانے لگا
” بس کرو خدارا بس کرو چلے جاؤ یہاں سے غم بانٹ نہیں سکتے تو زخم مت ادھیڑو” شایان کی آواز میں کرب تھا لیکن فیضان ساکت رہ گیا جب اسکے پیچھے شہوار کو جاتے دیکھا وہ سب سن چکی تھی
“او نو شہوار” وہ اسکے روم کی طرف بھاگا
“شہوار” شایان چونکا اور معاملہ سمجھتے ہی اسکے روم کی طرف بھاگا
” شہوار” اسکے روم داخل ہوا تو وہ فیضان کی گود میں سر رکھ کر رورہی تھی
” تم جاؤ یہاں سے تمہارا اس سے کوئی تعلق نہیں ” فیضان نے غصے سے کہا
” بھیا انکی کوئی غلطی نہیں ہے میں نے کہا تھا انکو” اور شہوار کی بات پر پہلے حیران پھر غصے سے کھولتا ہوا اٹھ کر چلا گیا
” شہوار تمہیں میری محبت پر یقین ہے نا” فیضان کے جاتے ہی شایان نے اسکو تھام کر پوچھا
“جی” فقط اتنا ہی جواب آیا
“پھر مجھ پر بھروسہ رکھو ماما کے ٹھیک ہوتے ہی میں اسکو چھوڑ دوں گا خالہ کی سچائی بتا کر ابھی انکی آنکھوں کر خالہ کی محبت کی پٹی بندھی ہے جب اترے گی تو تمہاری قدر آجائیگی” شایان نے اسکو سمجھایا تو شہوار بس سر ہلا کر رہ گئی اور شایان اسکا دکھی چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا اسی لیئے واپس پلٹ گیا
______________
تائی گھر آچکی تھی اور بینش اسکے روم میں جو ایک تلخ حقیقت تھی
“شایان مجھے کچھ شاپنگ کرنی ہے مما آرہی ہیں نا تو انکیلئے کچھ گفٹس لینے ہیں” وہ ابھی آفس سے ہی آیا تھا کہ بینش کی خواہش پر تلملا اٹھا
” میں ابھی آفس سے آیا ہوں نظر نہیں آرہا” شایان نے سخت لہجے میں کہا
“ابھی شہوار کہتی تو لے چلتے” بینش نے طنزیہ لہجے میں کہا
” اسکا نام اب تم اپنی زبان سے مت لینا سمجھی” شایان نے انگلی اٹھا کر وارن کیا
“شایان لے جاؤ اسکو” دادی کی آواز سن کر وہ چونکا انکی آنکھوں میں کرب ہی کرب تھا اپنی پوتی کی قسمت پر وہ بہت روئی تھیں اور تب سے انہوں نے شہوار کو اپنے روم میں بلا لیا وہ انکے پاس ہی رہتی تھی
“جی” کہتا ہوا وہ گاڑی کی جانب چل دیا اور بینش مسکراتی ہوئی اسکے پیچھے
________________
وہ شاپنگ کرکے گھر آیا تو شہوار لان میں ٹہل رہی تھی شایان کو بینش کے ساتھ شاپنگ سے آتا دیکھ کر اسکے دل میں بدگمانی نے جگہ لے لی
“کیسی ہو” اسکے پاس آکر شایان نے پوچھا
” ٹھیک” شہوار نے کہا
” کہاں گئے تھے” نہ چاہتے ہوئے بھی لہجہ طنزیہ ہوگیا
” بینش کو شاپنگ کرنی تھی تو۔۔۔۔” شایان نے کہا
“بس سمجھ گئی آپ بے بس ہوگئے اور اسکو لے چلے کافی دن سے یہی تو ہورہا ہے نا” شہوار نے دکھ سے کہا اور چلی گئی اور شایان بے بسی سے تکتا رہ گیا
________________
“فیضان صاحب آپکو شایان صاحب بلا رہے ہیں” وہ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا جب خادم نے آکر اطلاع دی شایان کا بلانا اسکیلئے تعجب کی بات تھی
وہ جانا نہیں چاہتا تھا لیکن کچھ سوچ کر چلا گیا
اسکے روم کے قریب آکر سوچا کہ بینش ہوگی واپس پلٹنے لگا کہ خادم نے کہا کہ وہ ایمرجینسی میں بلا رہے ہیں جلدی جائیں
“بینش ہے اندر؟” فیضان نے پوچھا
” نہیں وہ تو نہیں وہ اکیلے ہیں” خادم کی بات سن کر سکون کا سانس لیا اور پریشانی سے اندر داخل ہوگیا
اندر داخل ہوا تو بینش بیٹھی تھی اور شایان کا نام و نشان نہیں تھا اسکا سر گھومنے لگا وہ واپس پلٹنے لگا کہ بینش اچانک اسکے سامنے آکر رک گئی
“کیسی لگی مجھے اگنور کی قیمت” بینش کے کہتے ہی فیضان کا ہاتھ اٹھا اور یہ اسکی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی بینش نے تلملا کر اپنے ہاتھ میں پکڑے بلیڈ سے اپنی آستین پھاڑی اور زور زور سے چیچنے لگی اور اسکی چیخیں سن کر سب اسکے کمرے میں آگئے فیضان اچانک افتاد پر گھبرا گیا
اور شایان بھی آفس سے آگیا اور نا سمجھی میں سب کو اپنے کمرے حیرانی سے دیکھنے لگا
“کیا ہوا بیٹا” تائی نے اسکو سینے سے لگا کر کہا بینش زار و قطار رو رہی تھی
” خالہ مجھے اس درندے سے بچالیں یہ مجھ سے زبردستی کر رہا تھا” بینش کی بات کر سب نے حیرانی سے اسکو دیکھ رہی تھی اور فیضان تو کاٹو بدن میں تو لہو نہیں کا مصداق بنا تھا
” تم تمہاری ہمت کیسے ہوئی گھر کی عزت خراب کرنے کی؟” تائی نے آگے بڑھ اسکا گریبان تھام کر کہا
” یہ یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہی میں نے کچھ نہیں کیا اس نے کہلوایا تھا کہ مجھے شایان بلا رہا ہے؟”
فیضان نے صفائی دینے کی کوشش کی
“کیوں تمہیں نہیں پتہ تھا میں اسوقت آفس میں ہوتا ہوں اپنی بہن کو دکھ دینے کا بدلہ لینے کا اچھا طریقہ تھا فیضان” شایان کی آنکھوں میں اپنے لئیے نفرت دیکھ کر وہ چونک گیا
” کم دکھ تھے جو تم نے بھی آج دکھ دے دیا” دادی کی نحیف آواز سن کر وہ حیرانی سے سبکو دیکھنے لگا تب اچانک اسکی نظر حوریہ پر گئی اور اسکو خاموش دیکھ کر فیضان نے صفائی دینا چھوڑ دی اب اسکی محبت میں جکڑی لڑکی بھی اعتبار نہیں کر رہی تھی تو اور وہ کس کو صفائی دیتا سب خاموش تھے بینش کی سسکیاں گونج رہی تھیں تب شہوار کی آواز آئی جو سب سے پیچھے کھڑی تھی
” آپ فیضی بھائی کر کیسے الزام لگا سکتے ہیں شایان آپ انکو بچپن سے جانتے ہیں ۔۔۔یہ دوستی تھی آپکی ؟؟؟ایک لمحے میں بھائی پر بدکاری کا الزام لگا دیا ” شہوار شایان کے سامنے آکر بولی تو شایان نے اسکو دھکا دے دیا
” تم بھی اپنے بھائی کی طرح ہوسکتی ہو ماما صحیح کہتی تھیں کھلا ثبوت سامنے ہے تب بھی بھائی کا ساتھ دیکر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو” شایان نے بینش کے کپڑوں کی طرف اور اسکے چہرے پر پڑے تھپڑ کے نشان کی جانب اشارہ کیا
اور شہوار مر گئی ہاں وہ مرگئی تھی اسکو اسکی محبت نے مار ڈالا لیکن یہ کیا اسکا جسم میں حرکت تھی روح نہیں تھی اور فیضان لمبے ڈگ لیتا ہوا کمرے سے چلا گیا اور شہوار اپنے کمرے میں اپنی قسمت کا ماتم کرنے گئی
شہوار کی روتے روتے نجانے کب آنکھ لگ گئی جب وہ اٹھی تو صبح کے دس بج رہے تھے بخار سے آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔۔رو رو حلق خشک ہو رہا تھا اس نے پانی لینے کیلئے ہاتھ سائیڈ ٹیبل کی طرف بڑھایا تو وہاں ایک کاغذ نظر پڑ اسکا ہاتھ پڑھا وہ چونکی اور کاغذ ہاتھ میں لے کر اٹھ کر بیٹھ گئی اور پڑھنے لگی
” شہوار میں جانتا ہوں میرے اس قدم سے تم بہت دکھی ہوگی لیکن اب مجھ سے زیادہ تم پر شایان کا حق ہے میں چاہتے ہوئے بھی تمہیں اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتا تھا تمہارا شناختی کارڈ پاسپورٹ کچھ بھی نہیں بنا ہوا تھا جبکہ مجھ سے اب ایک دن بھی اس گھر میں رہنا دشوار تھا میں جارہا ہوں پتہ نہیں کہاں پر بہت دور جانتا ہوں تم دکھی ہوگی۔۔بہت روگی۔۔مجھ سے ناراض بھی ہوگی۔۔پر میرے اختیار میں کچھ نہیں میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی وجہ سے خود سے بھی آنکھیں نہیں ملا پارہا۔۔۔جن لوگوں پر مجھے بھروسہ تھا مان تھا آج وہ بھی ٹوٹ گیا شہوار میں خود بھی ٹوٹ گیا میں مرد ہوں سالوں سے بہت کچھ برداشت کر رہا ہوں تمہیں بھی سنبھال رہا تھا اپنے آنسو چھپا کر تمہیں سینے سے لگاتا لیکن میں بھی تو انسان ہوں شہوار میرے سینے میں بھی تو دل ہے نا امید ہے تم کم از کم اپنے بھائی سے بد گمان نہیں ہوگی اور ہاں حوریہ کو بولنا اسکی خاموشی نے میرے اندر شور مچادیا اور بولنا محبت میں سب سے پہلے اعتبار ہونا ہوتا ہے جو اسکو مجھ پر نہیں تھا اور شایان سے میں جانتا ہوں تم بات نہیں کروگی لیکن کبھی بات ہو تو فقط اتنا کہنا کہ مجھے اسکی دوستی پر بہت مان تھا
اپنا خیال رکھنا
فیضان”
شہوار پڑھ کر بہت روئی اتنا روئی کی اسکو لگا اب وہ خود بھی آنسوؤں میں بہہ جائیگی
“شہوار” دروازہ ناک ہوا حوریہ کی آواز آئی پر اسکو سب سے نفرت ہورہی تھی
“شہوار دروازہ کھولو پلیز” حوریہ کی آواز پر اسکا سر گھوما وہ جھٹکے سے اٹھی اور دروازہ کھولا حوریہ اسکی شکل دیکھ کر حیران رہ گئی الجھے بال لال آنکھیں سوجا چہرہ وہ شہوار لگ ہی نہیں رہی تھی
“کیا ہوا شہوار” حوریہ اسکے قریب آنے لگی تب شہوار نے ہاتھ سے روک دیا
” کیوں آئی ہو یہاں دور رہو مجھ سے میرا تم سے کوئی تعلق نہیں دفع ہوجاو میری نظروں سے چلی جاؤ یہاں سے حوریہ” وہ ہذیاتی انداز میں چیخ رہی تھی نیچے کھڑے شایان کی کانوں پر شہوار کی آواز آئی تو وہ اوپر آگیا شہوار کی حالت دیکھ کر بھونچکا رہ گیا
” کہا ہوا ہے؟” وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا اور شہوار نے اسکی شکل دیکھتے ہی دروازہ بند کردیا اور آخری بار بس آخری بار آنسوؤں بہانے لگی
___________________
وہ بھی ایک فیصلہ کر چکی تھی۔صبح سے وہ کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی اسکو رات کا شدت سے انتظار تھا دروازہ بجا بجا کر سب تھک گئے تھے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی
رات کے دو بج رہے تھے اسکو جو کرنا تھا ابھی کرنا تھا وہ بیگ پیک کر چکی تھی اب بس ہمت کی ضرورت تھی وہ اٹھی ساتھ میں بیگ ک
لیا اپنے آپکو برقعہ میں اچھا طرح ڈھانپ لیا اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی گھر سے باہر آگئی
آج اسکی زندگی کا سب سے بڑا امتحان تھا وہ چلتی گئی چلتی گئی پاؤں شل ہوگئے لیکن وہ چلتی رہی فجر کے وقت اسکو اندازہ ہوا وہ بہت زیادہ دور نکل آئی ہے تب اس نے سکون کا سانس لیا اور قریبی پارک میں جاکر بیٹھ گئی
_______________
“شہوار پلیز آج تو دروازہ کھول لو” حوریہ دروازہ بجا بجا کر تھک گئی تھی شایان اور چھوٹی تائی بھی بہت کوششیں کر چکے تھے اور دادی بھی آچکی تھیں شایان نے ہینڈل گھمایا تو یہ کیا دروازہ کھلتا ہی چلا گیا اور سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دروازہ کھلا تھا اندر گھپ اندھیرا تھا شایان نے آگے بڑھ کر لائیٹس آن کیں تو بھونچکا رہ گیا سائیڈ ٹیبل پر فیضان اور اسکا خود کا لکھا ہوا خط اور باقی کمرہ سامان سے خالی تھا شایان حواس باختہ ہوکر آگے بڑھا شہوار کا خط اٹھایا اور پڑھنے لگا
“السلام علیکم
امید ہے کہ میرے جانے سے مصیبتیں ٹل گئی ہونگی جن لوگوں کیلئے ہم دونوں وبال تھے آج جشن منا لیں میں جارہی ہوں بہت دور بہت دور مجھے کوئی نہیں ڈھونڈ سکے گا میں شہوار مصطفی مر چکی ہوں اب نئی شہوار جنم لے گی
فیضی بھائی نے مجھے چھوڑ دیا سب نے مجھے چھوڑ دیا جب جان سے پیارا بھائی چھوڑ سکتا ہے اپنی محبت الزام لگا سکتی ہے بچپن کی دوستی کسی کام کی نہیں اپنے پرورش پر دادی کو اعتبار نہیں تو اب اس گھر میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں
حوریہ تمہاری چپ اور شایان کے الزام نے بھائی اور مجھے اندر تک مار ڈالا ہم دونوں کی زندگیاں اجاڑ ڈالیں برے تو برے ہوتے ہیں اچھے بھی برے بن جائیں تو دل ٹوٹ سا جاتا اور اسکو سمیٹنا بہت مشکل ہوتا ہے میں اپنی ٹوٹی ذات اور بکھرا وجود لے کر اس گھر اور آپ سب سے بہت دور جارہی ہوں لیکن یہ یقین سے کہ سکتی ہوں میرے جانے کے بعد لوگوں کو بہت پچھتاوا ہوگا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی
شہوار
خط پڑھ کر شایان بیٹھتا چلا گیا چھوٹی ٹائی کی حالت بھی شایان سے کم نہیں تھی اور حوریہ سے اسکے آنسوؤں روکنا مشکل ہورہا تھا
شایان ایک دم سے اٹھا اور گاڑی کی جانب چل دیا
_____________
“ارے یہ تو شہوار ہے” مسز زبیر پارک میں واک کرنے آتی تھیں اور شہوار کو اپنے بیگ اور اکیلا بیٹھے دیکھ کر حیران رہ گئیں اور خود اسکے پاس جانے سے روک نہ پائیں
“شہوار یہاں کیا کر رہی ہو” وہ آواز سن کر چونکی اور سر اٹھا کر دیکھا تو میم کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں نمی آنے لگی لیکن اب اسکو آنسو چھپانا آگئے تھے اس نے سر جھکا کر نفی میں سر ہلادیا میں اسکے پاس بیٹھ گئیں اور اسکو بازوؤں میں بھر کر اسکے ماتھا پر بوسہ دیا شہوار انکے اس رد عمل سے حیران رہ گئی
“مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے گڑیا،” میم کا نرم لہجہ انکا پیار دیکھ کر وہ ضبط کھو بیٹھی اور سب کی دیا ساری دل کی بھراس نکال دی
حساس لوگوں کی یہی تو عادت ہوتی ہے اپنے آپ کو کتنا بھی سخت بناکیں لیکن جہاں نرمی ملے ضبط کھو بیٹھتے ہیں
“چلو تم میرے ساتھ میرے گھر چلو” وہ اسکو اٹھاتے ہوئے بولیں
“نہیں میم” اسکو عجیب لگ رہا تھا
” میری کوئی بیٹی نہیں نہ بیٹا ہے میرے ہزبینڈ بھی تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہونگے چلو شاباش ” وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اٹھانے لگیں اور اپنے ساتھ لے آئیں انکا بس نہیں چل رہا تھا تقدیر کے اس پھیر پر خوشی سے ناچیں
والدین کو کھوئی ہوئی اولاد مل جائے اور کیا چائیے؟؟؟؟
___________________
شایان دن بھر اسکو ڈھونڈتا رہا لیکن وہ ہوتی تو ملتی۔نا آج وہ آفس بھی نہیں گیا اسکو اپنے کئے پر بہت پچھتاوا ہو رہا تھا اپنے آپکو مار ڈالنے کا دل کر رہا تھا رات کو وہ تھکا ہارا گھر آیا اور آخر سیدھا اپنے کمرے میں گھس گیا کسی سے بات تک نہیں کی
“شایان بیٹا کھانا کھالو” بڑی تائی اسکی اجڑی حالت دیکھ کر اسکے پاس آئیں
“بھوک نہیں مجھے” لہجہ میں حد درجہ سختی تھی
” ایسا کیا تھا اسمیں جو تم اتنے پاگل ہورہے ہو اچھا ہے دونوں آفتیں ٹل گئیں اب تم اور بینش خوش رہو” تائی نروٹھے پن سے بولیں
“ماما پلیز کچھ تو خدا کا خوف کریں یتیم تھی وہ آپ نے کتنے دکھ دئیے اسکو ڈریں اس وقت سے کہ کہیں اللہ کا قہر نہ نازل نہ ہوجائے چلی گئی ہے وہ چھوڑ کر سنا آپ نے چلی گئی ہے وہ مجھے چھوڑ کر اور پلیز اپنی بھانجی کو اپنے ساتھ سلائیں میرے کمرے میں نہ آئے وہ اور اب مجھ سے کوئی بات نہ کرنے آئے” شایان کی آواز دکھ سے پھٹنے والی تھی تائی نے کچھ نہ کہنا ہی مناسب سمجھا اور باہر چلی گئیں البتہ بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر افسوس کر رہی تھیں