ہیلو انسپکٹر مصطفی ہمدانی۔۔۔کیسے ہیں آپ؟ وہ بیکری میں سوئیٹس لینے آیا تھا۔۔۔اور ماریہ اقبال اسے دیکھ چکی تھی- اسی لیے اسکی طرف چلی آئی-
ٹھیک ہوں آپ سنائیں اور آپکے والد صاحب کیسے ہیں؟ مصطفی زبردستی کی مسکراہٹ سجائے بول رہا تھا-
ٹھیک ہیں۔۔۔بس کچھ پریشان ہیں- آپکو بتایا بھی تھا انھوں نے-
کیا بتایا تھا؟ وہ انجان بنتے ہوئے بولا-
یہی کہ وہ شاہ انڈسٹری لینا چاہ رہے ہیں پر وہ لڑکی بیچنے کیلئے نہیں مان رہی تو اب۔۔۔۔ماریہ نے بات ادھوری چھوڑی-
تو کیا؟؟ مصطفی ہمدانی کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہورہا تھا جبھی فوراً بولا-
نہیں کچھ نہیں۔۔میں چلتی ہوں- پھر ملاقت ہوگی- بائے۔۔۔۔وہ اسے کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر فوراً جا چکی- اور سجل ان دونوں کو ساتھ دیکھ چکی تھی- وہ ماریہ کو نہیں جانتی تھی اور نہ ہی اسنے انکی باتیں سنی تھیں- اسے بس مصطفی ہمدانی کو دیکھ کر نفرت ہوئی تھی اور وہ اب سمجھی کہ مصطفی ہمدانی ہر لڑکی کے ساتھ پہلے ہنس ہنس کر باتیں کرتا ہے اور پھر اسکی ساری زندگی کانٹوں سے بھردیتا ہے-
وہ سوچتے ہوئے باہر نکلی تھی جب مصطفی اسے دیکھ چکا تھا- وہ فوراً گاڑی سے اتر کر اسکے پاس چلا آیا-
سجل مجھے تم سے بات کرنی ہے- مصطفی ہمدانی اسکے راستے میں آگیا- اور آج پورے ایک سال بعد اس سے مخاطب ہوا تھا-
اچھا۔۔۔انسپکٹر مصطفی ہمدانی اب بھی کوئی بات رہ گئی ہے تمہاری- وہ طنزیہ انداز میں بولی-
ہاں سجل میں بہت۔۔۔۔
بس بہت ہوگیا مصطفی ہمدانی۔۔۔اب میں تمہاری کسی باتوں میں نہیں آنے والی کیونکہ تم ایک گھٹیا انسان ہو- لڑکیوں کو اکیلا دیکھ کر ان سے باہر ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہو اور پھر انکو ساری دنیا کے سامنے بدنام کردیتے ہو- دیکھ لو میں پہلی لڑکی ہوں جو بدنام ہونے کے بجائے آج شہرت کی بلندیوں پر پہنچی ہوئی ہوں- وہ اسے طیش دلا کر خود بول کر چلی گئی- اور مصطفی ہمدانی اپنی مٹھیاں بھینچتا گاڑی میں آبیٹھا تھا–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
بھائی آپ اس سے بات کیوں نہیں کرتے ہیں- وہ تو اب تک کچھ جانتی ہی نہیں ہے– نورالعین آج پھر اپنے بھائی کے پاس چلی آئی۔۔۔
وہ مجھے دیکھنا نہیں چاہتی سننا دور کی بات ہے نور۔۔۔اور کون لڑکی ایسے شخص سے بات کرنا پسند کرے گی جس نے اسکی زندگی برباد کردی ہو- مصطفی ہمدانی نورالعین کو سب کچھ بتا چکاتھا- اسی لیے بے جھجک اپنی بہن سے بات کر رہا تھا-
آپ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہے بھائی- وہ آج بھی پاکیزہ لڑکی ہے۔۔۔آپ نے صرف بابا کا انتقام لیا ہے-
ہاں وہ پاکیزہ لڑکی ہے نور لیکن صرف ہم دونوں کی نظر میں۔۔۔باقی ساری دنیا کے سامنے وہ میری بیوی بن کر یہاں آئی تھی- اور بابا کے انتقام میں اب میں خود جل رہا ہوں۔۔۔اس نے مجھے کہا تھا کہ میں اس کو ساری زندگی نہیں بھول پاؤں گا اور ایسا ہی ہوگیا ہے-
بھائی آپ ٹینشن نہ لیں۔۔۔سب ٹھیک ہوجائے گا- اللہ بہتر کرے گا- نورالعین اسے دلاسہ دے رہی تھی-
میری راتوں کی نیند حرام ہوچکی ہے۔۔۔ساری رات اسی کو سوچتے گزادیتا ہوں پر وہ اب تک مجھ سے نفرت کرتی ہے- مصطفی اپنا سر دباتے ہوئے بولا-
تبھی تو کہہ رہی ہوں اس سے بات کریں۔۔۔ایسا کریں آپ اسکے گھر چلیں جائیں- شاید وہ آپکی بات سن لے- نورالعین مشورے دے رہی تھی اور مصطفی ہمدانی نے کچھ سوچ کر سر اثبات میں ہلا دیا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل باجی وہ آدمی آج بھی آیا تھا۔۔۔انور صاحب نے اسے بھگا دیا- نوری اسکے باپ کے دوست اور انڈسٹری کے ہیڈ کا نام لیتے ہوئے بولی-
کون۔۔۔کون آیا تھا ؟ سجل کو لگا تھا کہ مصطفی آیا تھا- اسکی راتوں کی نیند اور دن کا چین اڑ چکا تھا- اسے ہر وقت یہی لگتا تھا کہ مصطفی اسکا آفس اور گھر دیکھ چکا ہے تو واپس آکر اسے زبردستی اپنے ساتھ لے جائے گا-
باجی وہ کل صاحب جو آپکے پاس آئے تھے۔۔۔نام مجھے نہیں یاد ہے- نوری کی بات پہ وہ سر تھام کر بیٹھ گئی۔۔۔۔اقبال ملک اسکی جان نہیں چھوڑ رہا تھا اور دوسری طرف وہ مصطفی ہمدانی کی وجہ سے ٹینشن میں تھی۔۔۔اسی سمجھ نہیں آرہی تھی کیا کرے- ہر طرف اسکے لیے مسائل کھڑے تھے-
باجی آپ نورالعین باجی کے بھائی سے بات کریں۔۔۔وہ آپکی مدد کریں گے اور اس بڈھے کو عقل دلائیں گے جیسے میرے شوہر کو پیٹ پیٹ کر اسکا بوتھا ہی ٹھکانے لگا دیا- وہ اسے مشوروں سے نواز رہی تھی۔۔۔اگر وہ جانتی ہوتی کہ سجل شاہ کا سب سے بڑا دشمن ہی مصطفی ہمدانی ہے تو کبھی یہ بات اسکے سامنے نہ کرتی-
مجھے کسی کی مدد نہیں چاہیے نوری۔۔جاؤ تم اپنی بیٹی کو لے کر آؤ سکول سے– وہ اسے جانے کا کہ کر خود نیچے انڈسٹری میں آگئی-
انور انکل میں اس شخص اقبال ملک کا کیا کروں۔۔۔جان نہیں چھوڑ رہا ہے- وہ اپنے باپ کے دوست کے پاس آگئی تھی جو فائل دیکھنے میں مصروف تھے-
ہاں بیٹا۔۔وہ دھمکیاں دے کر گیا ہے- انور صاحب بھی پریشان تھے-
کیسی دھمکیاں انکل؟؟
یہی کہ وہ کچھ بھی کرے گا اس کمپنی کو حاصل کرنے کیلئے اور بتارہا تھا کہ وہ انسپکٹر مصطفی ہمدانی سے بھی مدد لے گا۔۔۔وہ ہمیشہ سے انکی مدد کرتا آیا ہے اور بیٹا آپ تو جانتی ہیں کہ انسپکٹر مصطفی ہمدانی کوئی عام شخصیت نہیں ہے- وہ تو بڑے سے بڑے آدمی اور دشمنوں کو عدالتوں میں گھسیٹتا آیا ہے اور ہم عام لوگ کبھی بھی اسکا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں- سجل کو انکی بات سن کر دھچکا لگا تھا-
تو مطلب اب یہ شخص مجھے ایسے برباد کرے گا- وہ سوچتے ہوئے واپس اوپر چلی آئی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اقبال صاحب کیا بات ہے؟ کھانا بھی نہیں کھایا آپ نے۔۔۔۔مسز اقبال انکے پاس آکر دودھ کا گلاس دیتی ہوئیں بولیں-
میں ٹھیک ہوں بس تھوڑا سا پریشان ہوں۔۔۔۔اس لڑکی نے تو قسم کھا لی ہے اپنی انڈسٹری نہ دینے کی اور یہ مصطفی بھی اب کہیں نہیں ملتا ہے- اقبال صاحب غصے سے بولے-
چھوڑیں نا آپ اس انڈسٹری کو اور بھی بہت جگہیں ہیں جہاں آپ اپنی کمپنی کھول سکتے ہیں- مسز اقبال انکو سمجھارہی تھیں-
آپ کچھ نہیں جانتی ہیں ورنہ یہ بات کبھی نہ کہتیں- شاہ انڈسٹری کی عمارت جس جگہ کھڑی ہے وہ بہت شاندار جگہ ہے اور وہ عمارت بہت اچھی بنائی ہے اس لڑکی نے 6 مہینے میں۔۔۔جو کام ہمارے ورکرز دو ، تین سالوں میں کرسکتے ہیں وہی کام اس لڑکی نے دن رات کرکے 6 مہینے میں کروایا ہے-
اوہ اب مجھے سمجھ آیا کہ کیوں آپ پیچھے پڑے ہیں اس جگہ کے- تبھی آپ ایک فلور بھی لینے کیلئے تیار ہیں-
جی بلکل پر وہ لڑکی مان نہیں رہی ہے- ٹھیک ہے نا مانے۔۔۔ہمارا نام بھی اقبال ملک ہے۔۔۔گھی سیدھی انگلی سے نا نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے- اقبال ملک مسکراتے ہوئے بولے تھے اور مسز اقبال انکو نا سمجھی سے دیکھنے لگیں-
کیا مطلب آپکا؟ آپ اس لڑکی کے ساتھ زبردستی کریں گے–
ہاں یہی سمجھ لو بیگم۔۔۔۔اقبال صاحب کھڑے ہو کر کمرے سے جاچکے تھے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
آج موسم بے حد سرد تھا۔۔وہ کمبل میں دبکے آفس فائلیں دیکھ رہی تھی جب ہی ﮈور بیل بجی-
اس وقت کون ہوسکتا ہے؟ وہ گھڑی کی طرف دیکھ کر خود سے بولی- رات کے 12 بجے کون آسکتا ہے- وہ سوچتی ہوئی اٹھی اور شال اچھی طرح سے لپیٹ کر باہر آگئی-
کون ہے۔۔۔اس نے دروازہ کھولنے سے پہلے احتیاطاً پوچھ لیا پر باہر سے کوئی آواز نہ آئی-
کون ہے؟؟ اس نے دوبارہ پوچھا پر کسی نے کوئی جواب نہ دیا-
وہ اب دروزے کے درمیانی سراخ میں سے دیکھنے لگی پر اسے کوئی نہ نظر آیا- اسے اپنے آپ پر غصہ آرہا تھا کہ گارﮈ کو کیوں اس نے بھاگا دیا تھا-
وہ واپس مڑنے لگی تبھی دوبارہ ﮈور بیل بجی۔۔۔اس نے غصے میں آکر دروازہ کھول دیا پر سامنے کھڑی ہستی اسکے ہوش اڑانے کیلئے کافی تھی-
میں ہوں انسپکٹر مصطفی ہمدانی– یاد ہوں نا سجل شاہ- وہ اندر آچکا تھا اور سجل کے اتنی سردی کے باوجود پسینے چھوٹ گئے-
اتنے پسینے تو تمہیں اپنے گھر سے میرے ساتھ جاتے ہوئے بھی نہیں آئے تھے پر اب کیوں آرہے ہیں– مصطفی ہمدانی دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولا اور سجل کا دل سچ میں جل کر راکھ ہوگیا-
کیوں آئے ہو تم یہاں۔۔۔۔کس حیثیت سے۔۔۔کرنا تھا نا بدنام مجھے– اب کردیا ہے تو دفعہ کیوں نہیں ہوجاتے تم میری زندگی سے مصطفی ہمدانی– وہ گلہ پھاڑ کر چیخی-
آہستہ بولو سجل۔۔ورنہ میرا ہاتھ اٹھ سکتا ہے- مصطفی کو اسکے چیخنے پر غصہ آگیا- وہ اسکا ہاتھ دبوچ کر اسے لاؤنج میں لے آیا-
میرے گھر میں اب تم میرے ساتھ ہی زبردستی کروگے مصطفی ہمدانی- سجل کا چہرہ غصے سے لال ہوچکا تھا-
سجل میں صرف بات کرنے آیا ہوں تم سے۔۔۔تم کیا آدھا گھنٹہ بیٹھ کر تحمل سے میری بات نہیں سن سکتی ہو- مصطفی اب اپنے غصے پر قابو رکھتے ہوئے بولا-
بلکل بھی نہیں مجھے تمہاری شکل نہیں دیکھنی اور تم کہ رہے ہو کہ آدھا گھنٹہ بیٹھ کر تحمل سے تمہاری باتیں سن لوں- وہ طنزاً بولی-
سجل پلیز۔۔۔۔۔ وہ التجائیہ انداز میں بولا-
مصطفی ہمدانی اگر تم میرے گھر سے نہ گئے تو میں پولیس کو کال کردوں گی۔۔۔پھر تمہارا ہی کردار مشکوک ہوجائےگا۔۔۔جس سے مجھے بلکل بھی فرق نہیں پڑے گا- وہ موبائل ہاتھ میں لے کر اب نمبر ﮈائل کرنے لگی تھی-
ٹھیک ہے ۔۔۔۔میں جا رہا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں اس گھر سے ہمیشہ کیلئے رخصت کرکے لے جاؤں گا۔۔۔۔خدا حافظ- وہ کہ کر جا چکا تھا اور سجل اسکے الفاظوں پر غور کرتی سر تھام کر بیٹھ گئی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
جی کہیے اقبال صاحب کس سلسلے میں آپ نے مجھے یہاں بلوایا ہے؟ مصطفی ہمدانی انکے بلوانے پر کافی شاپ میں اب انکے ساتھ بیٹھا تھا-
مصطفی بیٹا آپ میری مدد کریں گے؟ اقبال ملک اصل موضوع کی طرف آچکے تھے-
جی ضرور کہیے کیسی مدد چاہیے آپکو؟ مصطفی نا سمجھی سے انکی طرف دیکھتے ہوئے بولا-
بیٹا میں آپ سے شاہ انڈسٹری کے بارے میں پہلے بھی بات کرچکا ہوں- وہ انڈسٹری جس لڑکی کی ہے وہ خود اس کو نہیں چلا رہی ہے بلکہ اسکے باپ کا دوست چلا رہا ہے اور اس نے مجھ سے ایک ہفتے پہلے ایڈوانس پیسے لے لیے تھے پر اب وہ مکر رہا ہے- میرے کہنے پر پیسے بھی واپس نہیں دے رہا اور نہ ہی انڈسٹری میرے حوالے کررہا ہے- اقبال ملک اپنی چال چل چکے تھے اور اب آگے کا کام انھوں نے مصطفی ہمدانی پر تھوپ دیا-
اقبال صاحب کوئی ایسے کیسے کرسکتا ہے- آپ نے اس لڑکی سے بات کی کہ وہ آدمی آپکے پیسے لے چکا ہے اور آپکو دے نہیں رہا ہے- مصطفی ہمدانی جانتا تھا کہ وہ انڈسٹری کس کی ہے۔۔۔پر اقبال ملک کے سامنے انجان بن گیا-
اس لڑکی کا کہنا ہے کہ میں جھوٹا ہوں- اس نے مجھے اپنے سارے ورکرز کے سامنے بے عزت کرکے نکلوایا تھا۔۔۔۔اسکے بعد دوبارہ جانے کی ہمت نہ ہوئی- اسی لیے میں نے تم سے مدد مانگی ہے-
جی میں ضرور کروں گا آپکی مدد۔۔۔چلیں ابھی میرے ساتھ- اسی وقت ان سے بات کرتے ہیں- انسپکٹر مصطفی ہمدانی کھڑا ہوچکا تھا۔۔۔اقبال ملک کو اپنا منصوبہ کامیاب ہوتا دکھائی دینے لگا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
آپ دوبارہ کس لیے آئے ہیں۔۔۔آپکو ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ مجھے یہ انڈسٹری نہیں بیچنی ہے- سجل انور صاحب کے بلانے پر نیچی آئی تھی جبھی اقبال ملک دوبارہ آگئے۔۔۔۔لیکن اکیلے نہیں ان کے ساتھ انسپکٹر مصطفی ہمدانی بھی تھا پر وہ پہلے باہر کھڑا انکی باتیں سننا چاہتا تھا-
بیٹی آپ غصہ کیوں ہورہی ہیں۔۔میں اپنے پیسے لینے آیا ہوں- اقبال صاحب جانتے تھے مصطفی ہمدانی باہر کھڑا ہے تبھی اپنے لہجے کو پیار میں سموتے ہوئے بولے-
کونسے پیسے اقبال صاحب۔۔۔آپکا دماغ تو نہیں چل گیا ہے- سجل کو انکی باتوں پر غصہ آگیا-
وہی پیسے جو انور صاحب مجھ سے لے چکے ہیں- اور یہ بات آپ بھی اچھے سے جانتی ہیں۔۔۔انجان مت بنیں- اقبال ملک انور صاحب کی طرف اشارہ کرکے بولے جو چپ چاپ بیٹھے تھے-
بکواس بند کریں۔۔۔آپ جھوٹ بول کر کیا سمجھتے ہیں کہ ہم سے ہماری انڈسٹری چھین لیں گے تو یہ ناممکن ہے۔۔۔میں اگر اسے بیچنا چاہوں بھی تو آپ جیسے شخص کو کبھی نہیں بیچوں گی اور نہ ہی اتنی گڑی ہوی ہوں کہ آپ کے پیسے لوٹ کر کھا جاؤں- سجل غصے سے بولتی چلی گئی- تب ہی مصطفی اندر چلا آیا اور سجل اسکو دیکھ کر اپنے حوش و حواس کھونے لگی تھی پر اسے اپنے آپ پر قابو رکھنا پڑا۔۔۔آج وہ اگر اس شخص کے سامنے کمزور پڑ جاتی تو کبھی اٹھ نہ پاتی-
انور صاحب جائیے کافی اور سنیکس کا انتظام کیجئے۔۔۔آج انسپکٹر مصطفی ہمدانی خود چل کر آئے ہیں- سجل ہیڈ کی کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے بولی اور مصطفی جو سمجھ رہا تھا کہ وہ اسے دیکھ کر چیخے گی۔۔چلائے گی- پر وہ تو بلکل نارمل تھی جیسے پچھلے کئی سالوں میں ان کے درمیان کچھ بھی نہ ہوا ہو-
تشریف رکھیے انسپکٹر مصطفی ہمدانی۔۔۔آپکا کیسے آنا ہوا- اسکے اعتماد کے آگے مصطفی کو اپنا اعتماد کمزور پڑتا محسوس ہوا-
میں انکے ساتھ آیا ہوں- اقبال صاحب کا کہنا ہے کہ آپ انکے پیسے لے کر ان سے وعدے کرچکی ہیں کہ یہ انڈسٹری انکو دے دیں گی اور اب نہ انکو پیسے واپس دے رہی ہیں اور نہ ہی یہ انڈسٹری انکے نام کر رہی ہیں-
اوہ۔۔۔چلیں میں مانتی ہوں کہ میں نے ایسا کیا ہے تو آپ بتائیں کیا ثبوت ہیں آپکے پاس کہ میں نے ان سے ایسا معاہدہ کیا ہے اور اب میں اپنے معاہدے سے مکر رہی ہوں- سجل بہت ﺫہین تھی اور یہ بات مصطفی ہمدانی کو آج پتہ لگی تھی۔۔۔یہی ﺫہانت اور اسکا کانفیڈنٹ اسے یہاں تک لے آیا تھا ورنہ کوئی لڑکی اپنے ساتھ اتنا برا ہونے کے بعد بھی اتنی بہادر نہ ہوسکتی تھی جتنی سجل تھی- آج مصطفی ہمدانی کو اپنی محبت پر رشک آرہا تھا- اس نے اپنی 28 سالہ زندگی میں ایسی لڑکی نہ دیکھی تھی-
اقبال صاحب آپ معاہدہ نامہ دکھائیں جو آپ نے اس لڑکی کے ساتھ کیا تھا- مصطفی اب اقبال ملک کی طرف مڑا تھا جن کے چہرے پہ ہوائیاں اڑی ہوی تھیں-
مصطفی بیٹا جس نے پیسے کھانے ہو وہ معاہدہ نامہ نہیں بناتے ہیں- اقبال ملک بمشکل بولے پر انکی بات سجل سن چکی تھی-
اچھا۔۔۔اقبال ملک صاحب آپ جب اس انڈسٹری کے کڑوڑوں پیسے دے رہے تھے اس وقت آپکی عقل نہیں چلی تھی کہ آپ معاہدہ نامہ بنوا لیتے- یا یوں کہیے کہ جھوٹے لوگ صرف جھوٹ بول سکتے ہیں ہر چیزکو نہیں سوچ سکتے- وہ استہزایہ انداز میں ہنستے ہوئے بولی-
انسپکٹر مصطفی ہمدانی آپکی ﺫہانت کے تو چڑچے ہیں۔۔۔انکی بات سنتے وقت آپکی ﺫہانت گھاس چڑھنے گئی تھی- سجل اب اسکی طرف مڑی-
ہاں شاید چڑھنے گئی تھی تبھی میں ان سے پوچھنا بھول گیا۔۔۔خیر آپکا وقت ضائع کیا اس کیلئے معذرت- اب مجھے اجازت دیجئیے- مصطفی ہمدانی اٹھ کھڑا ہوا تھا-
اوہ ہو میرا وقت کے ساتھ ساتھ آپ پیسے بھی ضائع کرکے جارہے ہیں- میں محنت سے کماتی ہوں اسلیے آپ دونوں کھا کر جائیں پلیز۔۔۔وہ خود اٹھ چکی تھی اور انور صاحب اسکی کرسی پر آکر بیٹھ گئے-
کھا کر جائیں پلیز اقبال صاحب اور آپ بھی انسپکٹر مصطفی ہمدانی کیونکہ آپ پہلی دفعہ میرے آفس آئے ہیں۔۔۔اور مجھے اچھا نہیں لگے گا آپکو ایسا جاتا دیکھ کر- وہ مصطفی ہمدانی کے روبرو آکر کھڑے ہوکر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی تھی- اور مڑ کر آفس سے نکلتی چلی گئی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اقبال صاحب آپکو جھوٹ بولتے ہوئے ﺫرہ برابر بھی شرم نہ آئی۔۔۔۔اب میں آئندہ آپکی کوئی مدد نہیں کروں گا اور اگر آپ نے اب اس لڑکی کو تنگ کیا تو میں اسکی مدد کرنے کیلئے کھڑا ہوں گا- ویسے تو اس جیسی لڑکی کو میری مدد کی بھی ضرورت نہیں ہے۔۔۔آج سے آپکی میں کبھی بھی مدد نہیں کروں گا خدا حافظ- وہ انکو سنا کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جاچکا تھا اور اقبال ملک کو اپنے پلان کی ناکامی پر غصہ آرہا تھا- اب انکے پاس انسپکٹر مصطفی ہمدانی بھی نہیں رہا جو انکی مدد کرسکتا- انھوں نے خود اپنے پیروں پر کھلاڑی ماری تھی- اب انہیں ہر ایک ایک چیز کو ﺫہن میں رکھ کر منصوبہ بنانا تھا ورنہ وہ کبھی بھی یہ انڈسٹری حاصل نہ کرپاتے- وہ رشک بھری نظروں سے اس عمارت کو دیکھ کر جا چکے تھے کیونکہ انھوں نے اپنا منصوبہ جلد ہی پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اسلام علیکم۔۔۔ کیسی ہیں آپ؟ سجل نے آج کافی دنوں بعد نورالعین کو کال کی تھی- اسے مصطفی ہمدانی کی وجہ سے اسکے ساتھ برا بی-ہیو کرکے بہت افسوس ہورہا تھا اسی لیے اسنے معافی مانگنے کیلئے کال کی-
وعلیکم اسلام۔۔میں ٹھیک ہوں سجل- آپ کیسی ہیں- دوسری طرف نورالعین حیران تھی کہ سجل نے اسکو کال کی ہے-
میں بھی ٹھیک ہوں نورالعین۔۔۔۔ میں نے آپ سے بہت برا بی- ہیو کیا پلیز مجھے معاف کردیجئے گا- وہ اس سے معافی مانگ رہی تھی-
نہیں اٹس اوکے سجل- آپکا یہ سلوک بنتا تھا کیونکہ میں آپکے گناہ گار کی بہن ہوں- اب بھی آپکا ظرف بڑا ہے کہ آپ نے مجھ سے کال کرکے معافی مانگی ورنہ آپکی جگہ کوئی اور ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتا- نورالعین مسکراتے ہوئے بولی-
معافی مانگنی اور معاف کرنے سے کسی کی عزت میں کوئی فرق نہیں آجاتا ہے- اسیلیے میں نے آپ سے معافی مانگ لی اور دیکھ لیں میری عزت میں کوئی فرق نہیں آیا-
ٹھیک ہے پھر اسی خوشی میں آپ اور نوری میری بیٹی کی سالگرہ پر آرہی ہیں- نورالعین اسے دعوت دے رہی تھی-
نہیں نورالعین۔۔۔ نوری آجائی گی پر میں نہیں آسکوں گی- سجل مصطفی ہمدانی کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی تھی اسیلیے جانا بھی نہیں چاہتی تھی-
پلیز سجل میری خاطر۔۔۔میں آپکے کہنے پر کسی ہوٹل میں پارٹی رکھ لوں گی پر پلیز آپکو آنا پڑے گا- نورالعین منت بھرے لہجے میں بولی تو وہ مان گئی تھی-
ٹھیک ہے۔۔۔کب ہے سالگرہ-
پرسوں ہے۔۔۔میں آپکو ہوٹل کا نام اور ٹائمنگ میسج کردوں گی- پلیز ضرور آئیے گا-
جی ضرور۔۔خدا حافظ- نورالعین نے بھی رابطہ منقطع کردیا- اب وہ مصطفی ہمدانی کو کال کرنے لگی-
کیا ہے۔۔۔کیوں کال کی ہے اتنی رات کو؟ مصطفی ہمدانی جو سٹڈی میں بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا- نورالعین کی کال آتے دیکھ کر فوراً اٹھا کر بولا-
ہنہہ بنیں مت۔۔۔سچ سچ بتائیں کیا بات ہوئی تھی سجل سے۔۔۔جو اس نے آج مجھے کال کی- نورالعین سمجھی تھی مصطفی ہمدانی اور اسکے بیچ سب کچھ اب ٹھیک ہوچکا ہے-
کیا مطلب؟ کونسی بات ہوئی ہے ہم دونوں کے بیچ- مصطفی ناسمجھی سے بولا-
وہی جو آپ اس سے کرنے والے تھے- تبھی تو آج سجل نے مجھ سے معافی مانگی ہے- نورالعین حیرانگی سے بولی-
کوئی بات نہیں ہوئی ہے نور۔۔۔کیوں آدھی رات کو سر پکارہی ہو- مصطفی غصے سے بولا-
تو پھر انھوں نے مجھ سے معافی کیوں مانگی اور منی کی سالگرہ پر بھی آنے کا وعدہ کیا ہے-
میں نہیں جانتا اور نہ ہی اسکے پاس ہوتا ہوں کہ اسکے دماغ میں پکتی کھچڑی کا پتہ ہوگا مجھے- اب چپ کرکے سوجاؤ- مصطفی موبائل پٹخ چکا تھا- اسے غصہ آرہا تھا کہ سجل اسکی شکل دیکھنے تک تو راضی نہیں تھی اور اسکی بہن سے دوستیاں بڑھارہی تھی- وہ ساری رات اسی کو سوچتا رہا اور دوسری طرف سجل بھی اسی کو سوچے جا رہی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اقبال صاحب یہ کیا کہ رہے ہیں آپ؟ اقبال ملک کی بات پر انکی بیوی سر پکڑ کر بیٹھ گئیں-
ایسا بھی کوئی انھوکا کام نہیں کررہا ہوں- ہزاروں لوگ آجکل ایسا کرتے ہیں اور اس عمارت کو حاصل کرنے کیلئے میں اس لڑکی کو مار بھی سکتا ہوں پر نہیں میں اتنا سفاک نہیں ہوں- اقبال ملک اپنا پلان ترتیب دے چکے تھے اور اب اپنی بیوی کو آگاہ کررہے تھے-
کسی لڑکی کو اغوا کرکے اس سے زبردستی اسکی پراپرٹی چھین لینا یہ سفاکی نہیں ہے تو اور کیا ہے اقبال صاحب؟ مسز اقبال اب غصے میں آگئیں-
بیگم میں بحث نہیں کرنا چاہتا ہوں- آپ کل کی تیاری کریں بس۔۔۔ہمیں کل مصطفی ہمدانی کی بھانجی کی سالگرہ میں جانا ہے اور رات کو اپنا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے تاکہ مصطفی اسکی کوئی مدد نہ کرسکے- وہ کہ کر جاچکے تھے اور مسز اقبال اپنا فون لے کر دوسرے روم میں جاکر مصطفی ہمدانی کو کال ملانے لگیں پر شاید اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا تبھی مصطفی ہمدانی کا موبائل آف جارہا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
آج اتوار کا دن تھا- نوری صبح سے اسکے پاس آئی ہوئی تھی اور اب وہ نہاکر نکلی تو نوری کو اپنی الماری میں گھسا دیکھا-
باجی۔۔یہ کالا سوٹ آپ پر بہت جچے گا یہی پہن لیں- نوری اسکے کپڑے استری کرنے کیلئے الماری سے نکال رہی تھی-
نہیں نوری اور کوئی دیکھ لو- سجل کو اب کالے کپڑوں سے نفرت ہوچکی تھی- اور نوری اسے وہی جوڑا پہننے کو بولی جو مصطفی ہمدانی نے اسے دلایا تھا-
باجی۔۔۔اتنا پیارا ہے- اسکے علاوہ کوئی اچھا جوڑا نہیں ہے- نوری منہ بناتے ہوئے بولی-
کوئی بھی نکال دو۔۔۔۔بس یہ نہیں پہنوں گی میں- سجل کہ کر روم سے جاچکی تھی- پر نوری کو کوئی جوڑا سمجھ نہ آیا تو وہی استری کرنے چلی گئی-
نوری لے بھی آؤ کپڑے۔۔۔۔اتنی دیر ہوچکی ہے- سجل بال بناتے ہوئے اسکو آواز لگا رہی تھی-
یہ لیں باجی۔۔۔اور بتائیں میں کیسی لگ رہی ہوں- نوری اسکے ہاتھ میں کپڑے پکڑاتے ہوئے بولی-
بہت پیاری۔۔۔پر تم نے میرے لیے یہ کیوں استری کیا ہے- منع کیا تھا نہ میں نے – سجل غصے سے سوٹ بیڈ پر پھینکتے ہوئے بولی-
باجی یہ ایک ہی سوٹ پیارا لگا تھا مجھے- باجی پہن لیں نا۔۔۔نوری کے آنسو بہہ نکلے اور سجل ان آنسوؤں کو دیکھ کر پگھل گئی-
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔پر ساتھ میری شال بھی نکال دو ورنہ میں نہیں پہنوں گی- وہ سوٹ لے کر واش روم میں جاگھسی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...