وہ نقاب لگاے گیٹ کے پاس تیار گھوم رہی تھی آج اسکا پہلا دن تھا انگلش کلاس کے لئے۔۔۔۔
کلاس شروع ہونے میں کچھ ہی وقت رہ گیا تھا
آج اسے جلدی پہچنا تھا۔۔۔۔۔
مگر بھائی نے آنے میں کافی دیر کردی لگا دی تھی
باہر بھائی کی گاڑی کی آواز پے وہ تیزی سے اممی کو خدا حافظ کہتی ہوئی نکل گئی۔۔۔۔
“بی اے” کے پیپرز دینے کے بعد ماسٹرز کرنے کی ضد بیکار گئی تھی بابا جان صاف منا کر چکے تھے اور امی بھی اسکو کئی طرح سے سمجھا چکی تھی کے بیٹا اتنا پڑھ لیا بہت ہے زیادہ پڑھنے سے لوگ سمجھتے ہیں لڑکی کی عمر بہت زیادہ ہوگی۔۔۔۔(رشتے میں مسلہ ہوگا)
“تو کیا نہیں پڑھنے سے عمر سولہ سال پر رک جاتی ہے؟؟اسنے بھی ناراضگی سے اممی سے پلٹ کے پوچھا۔۔۔۔!
*اممی نے اسکے سوال کو نظر انداز کر کے مزید اپنی بات مکمل کی”
پڑھ لکھ کر اتنا کرنا بھی کیا ہے کونسا تمہیں نوکری کروانی ہے اچھا رشتہ آتے ہی اپنے گھر کا کر دیں گے تم اپنی بڑی بہن کو دیکھو بچوں نے کیسا پاگل کر رکھا ہے اور بیٹا یہی زندگی ہے عورت کی تم بھی گھر داری سیکھو اب۔۔۔۔۔!
اممی کی باتوں سے وہ ہار گئی تھی۔۔۔۔!!
پر گھر بھر کی لاڈلی جو تھی تو تھوڑی سی ضد مان لی گئی تھی اسے انگلش لینگویج کورس کرنے کی اجازت بہت مشکل سے بڑے بھائی کی وجہ سے ملی تھی وہ بہت خوش تھی شبینہ کے بھائی نے نا صرف اسکا ایڈمشن اچھے انسٹیٹوٹ میں کر وایا تھا بلکے اسے پک اینڈ ڈراپ کرنے کی ذمداری بھی خود لے لی تھی اممی بابا کے بعد شبینہ کو سب سے زیادہ پیار اسکے بڑے بھائی کرتے تھے۔۔۔!!
کلاس شروع ہوے ایک ہفتہ ہوچکا تھا شبینہ کا ایڈمیشن تھوڑا لیٹ ہوگیا تھا۔۔۔اور آج اسکا وہاں پہلا دن تھا چونکہ پک اینڈ ڈراپ بھائی شام کے بعد ہی دے سکتے تھے تو شبینہ کی کلاس ٹائمنگ بھی رات کی ہی تھی۔۔۔۔!!
کلاس میں انٹر ہوتے ہی وہ گھبرا گئی تھی کلاس لڑکوں سے بھری پڑی تھی اور لڑکے بھی کیا میٹرک کے لڑکے سے لے کر پینتالیس سال تک کے انکل موجود تھے وہاں زیادہ تر وہ لڑکے (آدمی) تھے جو کے ایبروڈ جانے کی تیاری کر رہے تھے۔۔۔۔۔!
دروازے پے ہی سب کی نظریں اس پر ٹک گئی تھی اور اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مردانہ وارڈ میں آگئی ہو۔۔۔۔!
وہ کوئی بولڈ لڑکی نہیں تھی ایک عام سی ڈرپوک سی لڑکی تھی پر وہ چاہتی تھی آج کے دور میں جینا وہ بھی دنیا دیکھنا چاہتی تھی پر بچپن سے اسکے اممی بابا نے اپنی بیٹیوں کو دنیا کی اونچ نیچ سے بچانے کے لئے انکی خاص تربیت کی تھی اس کو زبردستی قید نہیں کیا تھا پر اسکو باہر کی دھوپ چھاؤں سے بچا کر رکھا تھا یہی وجہ تھی کے اسنے اپنی پڑھائی پرائیوٹ مکمل کی تھی۔۔۔۔بلا شبہ وہ ایک ذہین لڑکی تھی اور پڑھائی کے ساتھ گھر کے کاموں میں بھی مہارت رکھتی تھی۔۔۔!!!
شبینہ کو ٹیچر نے ویلکم کے ساتھ ہی چیئر کی طرف اسے اشارہ کیا تو وہ نرویس سی ہو کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔۔!!
تھوڑی ہی دیر میں اسے انٹرو کے لئے بلا لیا گیا تھا سامنے۔۔۔۔!!
اس میں اتنا حوصلہ نا تھا کے وہ ایک ساتھ اتنی نگاھوں کا سامنا کر پاتی۔۔۔۔۔وہ بہت خوفزدہ تھی مگر چونکہ اسے خود کو کونفیڈینٹ شو کرنا تھا تو وہ پوچھے گئے سوالوں کے جواب دے رہی تھی۔۔۔۔۔!!
پر باڈی لینگویج صاف بتا رہی تھی کے وہ خود کو سیکیور محسوس نہیں کر رہی ہاتھ کو مسل مسل کر اسنے اچھا خاصا سرخ کر لیا تھا۔۔۔
اچانک نمرہ کلاس میں ائی تو اسکی جان میں جان آگئی تھی کے اللّه نے مدد کے لئے بیجھا تھا شاید نمرہ کو اسکے پاس۔۔۔۔نمرہ کا آج تیسرا دن تھا
نمره سے شبینہ کو بہت ہمّت ملی تھی نمرہ ایک خوش مزاج لڑکی تھی اور کافی بولڈ بھی وہ کلاس کے ہر لڑکے سے ایک عام سے انداز میں بات کر لیتی تھی پر شبینہ ایک خاموش طبیعت کی مالک تھی ہاں مگر گھر میں وہ سارا دن چہکتی رہتی تھی۔۔۔۔!
ویسے تو وہ شرعی پردہ نہیں کرتی تھی پر پہلے دن وہ اتنا گھبرا گئی تھی کے نقاب ہی نہیں ہٹایا چہرے سے۔۔۔(فرسٹ امپریشن یعنی لاسٹ)
اور پھر روز تین گھنٹے وہ اپنے چہرے کو نقاب سے چھپا کے رکھتی تھی۔۔۔۔لیکن جب اسسے سب کے سامنے پرسنٹشن کے لئے اٹھایا جاتا تو سب کی نگاہ خود پر محسوس کر کے وہ کچھ بھی ٹھیک سے نا بول پاتی۔۔۔اور منچلے ہوٹنگ شروع کر دیتے۔۔۔۔اس سے وہ اور کمزور ہوجاتی تھی۔۔۔۔کیوں کے مسلسل عبایا اور چہرہ کور کرنے کے بعد بھی وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی پر جب نمرہ کی پرسنٹشن دیکھتی تو اس میں بھی جوش پیدا ہوتا کے وہ بھی بہتر کر سکتی ہے
وقت گزر رہا تھا اور اس طرح ٹیسٹ قریب آرہے تھے کورس مکمل ہونے والا تھا۔!!
آج نمرہ اے وی (آڈیو ویڈیو) کلاس لئے بنا جلدی چلی گئی تھی۔۔۔!!
کلاس میں موجود عرفان کن انکھیوں سے اسے دیکھتا تھا وہ بےخبر تھی اسے تو سب کی آنکھیں ویسے ہی لگتی تھی اور ویسے بھی اسکے گھر والوں نے اسے پڑھنے بھیجا تھا اور وہ صرف پڑھنے ائی تھی خود نمائی کا اسے ذرا بھی شوق نا تھا اور نا ہی اسکو یہ سب پسند تھا۔!
کلاس ختم ہونے کے ساتھ ہی اسے پہلے وہ باہر نکلتی اسے اکیلا دیکھ کر عرفان نے اسکے اگے رجسٹر بڑھا دیا تھا۔۔۔
“شبینہ یہ رکھ لو اس میں پہلے دن سے سارا کام موجود ہے”۔۔۔پپرز میں تھیوری بھی آے گی کاپی کر لینا۔۔!
شبینہ نے شکریہ ادا کر کے لے لیا اس نے جذبہ انسانیت یہ کام کیا تھا وہ سمجھ رہی تھی پر دوسرے دن رجسٹر کھولتے ہی محبت نامہ اسکامنتظر تھا۔۔
شبینہ عرفان
پورے صفحے پر بڑا سا دل دونوں کے نام کے ساتھ بنایا گیا تھا (نیچے لکھا تھا)
“تمہارے جواب کا انتظار کروں گا”
ساتھ موبائل نمبر موجود تھا
*ایک پل کو شبینہ کا دل دھڑکا تھا پر دوسرے ہی پل اسے عجیب سی کوفت ہوئی تھی۔۔۔۔کتنا چھچورا سا انداز تھا نا کوئی جذبہ محبت میں کہے گئے دو بول نا کوئی احساس موجود تھا ڈائریکٹ دل میں تیر گھوپ دیا گیا تھا عرفان کو شاید لگا تھا کہ جواب میں محبوبہ کے لپسٹک کے نشان یا پھر تڑپ کر اسکا فون آےگا۔۔!!
شبینہ نے اطمینان سے صفحے پلٹ کے مشکل سے رائٹنگ سمجھ کر کچھ کام کاپی کیا اور رجسٹر بند کر دیا اسنے دوبارہ اس نمبر پر نگاہ بھی نا ڈالی تھی۔۔۔۔!!!
وہ اپنے بھائی اپنے بابا کا مان تھی کیسے بہکاوے میں آسکتی تھی۔۔
وہ جانتی تھی کے اسے یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں اسکے گھر والے اسکے لئے لڑکا دیکھنے کا سلسلہ شروع کر چکے تھے
“”عرفان نے کبھی اسکا چہرہ تک نہیں دیکھا تھا وہ کیسے محبت کی بات کر سکتا ہے۔۔۔۔۔””
دسرے دن اس نے کلاس میں عرفان کو تھینک یو کے ایک نارمل انداز میں رجسٹر واپس کیا اور جا کر نمرہ کے برابر اپنی سیٹ پے بیٹھ گئی کلاس میں تنہائی میں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی جگہ جگہ لگے ہائی سیورٹی کیمرے سے پل پل کی کوریج سٹاف کو رہتی تھی اس لئے ہر انسان سیکیور رہتا تھا
کلاس کے آخری دن تھے جب سر نے اچانک اس دن کہا!! “آپ کا ڈیبیٹ کومپیٹیشن دوسرے سیکشن سے ہوگا اور تھوڑی دیر میں دوسری ہائی لیول کی کلاس بھی اسی کلاس میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔۔۔۔جنگ شرع ہوچکی تھی اور شبینہ کا دل زور زور سے دھک دھک کر رھا تھا۔۔۔۔۔کہ تھوڑی ہی دیر میں شبینہ کا نام بھی لیا جانے والا تھا ۔۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر میں اس کا نام پکارا گیا تو نمرہ نے اسے سپورٹ کیا اور اسکو اٹھنے اشارہ کیا تو وہ پلیٹ فارم پر آگئی تھی ساتھ ہی “سر” نے دوسرے سیکشن سے ایک لڑکا جو شاید سیلون سے ابھی ابھی مرغے جیسا ہیئر سٹائل بنوا کر کلاس لینے آیا تھا اسے سر نے میدان میں شبینہ کے روبرو لا کر کھڑا کر دیا تھا اسکا جوش بتا رہا تھا کے لڑکی کے روبرو آ کر بہت خوش ہوا ہے ٹاپک مل چکا تھا! “”لڑکے زیادہ قابل ہوتے ہیں یا لڑکیاں””
بحث جاری تھی شبینہ سے بحث میں وہ کچھ زیادہ اوور ریئکٹ کر گیا تھابات کہیں کی کہیں لےجا کر پوری کلاس کے سامنے اس نے لڑکیوں کی ذات پے ایسی بات کہی کہ۔۔۔۔۔
“”اگر لڑکیاں اتنی نیک ہیں تو ڈسکو کیوں بھرے پڑے ہیں تم بھی جاؤ اگر سہی ہو تو۔۔۔۔۔””
اسنے اس انداز میں چوٹ کی تھی کے کلاس میں سب ہنس پڑے تھےوہ حجاب میں کھڑی یہ سب سننے کی مستحق کب تھی بھلا۔۔۔۔وہ کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔۔۔
سر نے اسکو صرف اتنا کہا کے اپنے پوائنٹ کی بات کیجئے پر شبینہ کو ایسا لگا جیسے اس نے اسکے ساتھ ہر لڑکی کا مذاق بنایا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔شبینہ نے پہلی بار نظر اٹھا کر آنکھ بھر کر عرفان کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے لگا تھا کے اسے برا لگا ہوگا پر وہ بےغیرتی سے مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ پہلی اور آخری نظر تھی اسے مرحوم دادی جان کی بات یاد آگئی تھی۔۔۔۔
کہ بیٹیا۔۔۔۔۔۔
سجن غریب ہووے
پر بے غیرت نا ہووے۔۔۔۔
ایک نظر میں وہ یہ بات جان گئی تھی کہ مرد غیرت مند تو ہوتے ہیں پر انکی غیرت صرف تب ہی جاگتی ہےجب بات اپنی بیٹی، اپنی بہن اور اپنی بیوی کی ہو۔۔۔۔!
دوسروں کی بہن بیٹی دیکھنے اور انجوئے کی چیز ہے۔۔۔۔!!
شبینہ کے تن بدن میں آگ لگ چکی تھی منچلے لڑکوں کی ہوٹنگ اپنے ساتھی کو سپورٹ کرنے کے لئے تھم چکی تھی۔۔۔۔۔۔!
پر شبینہ کے اندر جیسے کسی سپر پاور نے جگہ بنائی تھی وہ آج سب کو نظر انداز کر کے اس لڑکے سے مخاطب تھی۔۔۔۔۔
تمہاری بہن کس ٹائم میں جاتی ہے ڈسکو؟؟؟؟
کلاس میں سناٹا چھا گیا تھا
لڑکے کے چہرے کا رنگ اتر گیا تھا سر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوے تھے۔۔۔۔۔!!!
پر آج شبینہ رکنے والی نہیں تھی
دنیا کی ہر لڑکی تمہیں شیلا کی جوانی اور مننی کی بدنامی لگتی ہے ہر راہ چلتی لڑکی ایک آئٹم لگتی ہے
اپنی آنکھوں کو زم زم سے غسل دے کر پاک کر کے دیکھو مسٹر تمہیں ہر لڑکی میں آج بھی زہرا زینب اور حضرت عائشہ جیسی پاک بیبیاں نظر آے گی۔۔۔۔انگلش ایک ذبان ہے یہ اتنی ضروری نہیں جتنی تمہیں تہذیب سیکھنے کی ہے۔۔۔۔۔۔!!!
غصے میں ٹیچر کو نظر انداز کر کے وہ جا چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔!!
دو دن غائب رہنے کے بعد نمرہ کے کال کرنے پر واپس آگئی تھی شاید اسکے پیچھے سر نے سب کو ڈانٹا تھا جبھی کلاس میں اسسے کسی نے اس دن کی بات نا کی تھی مگر اب بھی عرفان کی نظروں کی تپیش اسے محسوس ہورہی تھی مگر شبینہ نظر انداز کرکے ٹیچر کی طرف متوجہ رہی۔۔۔۔عرفان کو اکیلے میں کچھ کہنے سننے کا موقع نا شبینہ نے کبھی دیا تھا نا اسے خود مل پایا تھا۔۔۔۔کلاس کا لاسٹ ڈے تھا نمرہ نے دوستی نا توڑنے کا عہد کیا تھا اور شبینہ کو فیسبک پے اپنے ساتھ کنیکٹ کر لیا تھا۔۔۔۔!!!
نمرہ کلاس میں سب سے بہت فرینک تھی اسنے کلاس کے چند لڑکوں کو بھی اپنی فرینڈ لسٹ میں ایڈ کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔
شبینہ اور نمرہ کورس مکمل ہونے کے بعد فیسبک پے بات کرنے لگی تھیں ”
رات شبینہ آنلائن ہوئی تو اچانک عرفان کا مسیج ان باکس میں موصول ہوا۔۔۔۔۔!!
کسی ہو؟؟؟؟؟
ناراض ہو مجھسے؟
پروفائل پک دیکھ کر وہ عرفان کو پہچان گئی تھی۔۔۔۔!!
اور عرفان نے اسے نمرہ کی فرینڈ لسٹ میں اس کے نام سے پہچان لیا تھا
شبینہ نے جواب لکھا “ٹھیک ہوں۔۔۔”
عرفان پے قسمت مہربان تھی کے وہ اب دل کی بات کہہ سکتا تھا۔۔۔!!
تو وہ شروع ہوچکا تھا۔۔”
*میں تم سے بہت سی باتیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔پر تم نے کبھی مجھے دیکھا تک نہیں ایسا کیوں کرتی تھی تم۔۔۔۔۔؟
*جب تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو مجھے تم بہت اچھی لگی تھیں
“شبینہ نے اس بار حیرانی سے لکھا”
اپنے مجھے کب دیکھا میں نے تو کبھی نکاب تک نہیں ہٹایا۔۔۔۔
“عرفان نے اپنا اگلا وار کیا تھا”
تمہاری آنکھیں بہت پیاری ہیں
لائٹ جانے کی وجہ سے بات وہی رک گئی تھی۔۔۔۔۔اور وہ پریشان سی لیٹے لیٹے سوگئی۔۔۔۔
صبح اٹھتے ہی ناشتہ کرنے کے بعد اس نے کپڑے دھونے کا ارادہ کر لیا تھا اور مشین لگا کر ساتھ ساتھ گھر کے کام نپٹاتے ہوۓ اسے دوپہر ہوگی۔۔۔۔۔
پڑھائی سے مکمل ہوتے ہی اس نے اپنی پوری توجہ گھر میں وقف کر دی تھی۔۔۔۔!!!
اور آج وہ گھر کو چمکانے کے بعد شاور لے کر کمرے میں آئ تھی کے بھابی نے آواز دے دی۔۔۔۔
“””شبینہ بڑی باجی آئی ہیں۔۔۔””
بڑی بہن کے آنے کا سن کر وہ بال سلجھاے بنا ہی انکے پاس جا کر بیٹھ گئی تھی اور پھر باتوں میں مگن ہوگئی۔۔۔۔۔
کچن میں برتن دھوتے ہوے اسے باجی کی آواز سنائی دے رہی تھی وہ کسی رشتے کا ذکر کر رہی تھیں۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...