(Last Updated On: )
” مبار__ک ہو بھئی مبار__ک ہو۔” جب زرغم علی الحسن کے کمر__ے میں داخل ہوا تو سعیدہ اور قمر عباسی پہلے سے ہی موجود تھے۔
” تم کہاں رہ گئے تھے ؟” اس کو دیکھتے ہی علی الحسن اٹھ کر__ اس کی طر__ف لپکے لیکن اس کے پیچھے کھڑ__ی فاطمہ دیکھ کر__ ان کی گر__م جوشی ماند پڑ__نے لگی ساریہ نے سر__ جھکائے کھڑ__ی فاطمہ کو دیکھا تو حیریت زدہ زرغم کو دیکھتی اٹھ کر__ ان کے پاس پہنچی ۔ بیلہ وہاں سے نکلتی چلی گئی اور کسی نے نوٹ کیا یا نہیں لیکن زرغم کی نظروں سے اس کا اس طرح اٹھ کر چلے جانا بری طرح کھٹکا۔
” خیر اس سے تو نمٹ لوں گا پہلے ان سب کو تو سدھار لوں ۔” دھیمی مسکان کے ساتھ وہ خود کلامی کرتا ہوا فاطمہ کا ہاتھ پکڑے مجیدالحسن کے پاس جا رکا تو انہوں نے خشمگیں نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
” جب ساری کڑوی لسیلی گر ہیں کھل کر راہوں کو ہموار کر رہی تو اس کونے میں بل کیوں رہیں؟” فاطمہ کو ان کے ساتھ بٹھاتے ہوئے زرغم مجیدالحسن کو دیکھتے ہوئے بولا ۔ جن کی پیشانی پر نا گوار سلوٹوں سے گھبرا کر فاطمہ نے زرغم کو دیکھا اور دور کھڑی ساریہ ساکت و ششدر نظروں سے ان تینوں کو دیکھ رہی تھی۔
” انکل بعض دفعہ اتنی بڑی غلطی نہیں ہوتی جتنی طویل اس کو سزا ہو تی ہے لیکن ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ان کی دیواروں کو گرا کر ان الجھی ڈوروں کو سلجھانے کی کوئی سبیل نکالی جائے ۔” زرغم بولا تو مجیدالحسن نے اس کی طرف دیکھا۔
” انکل ادھر دیکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” زرغم نے سعیدہ اور قمر عباسی کی طرف اشارہ کیا جو کسی بات پر مسکرا رہے تھے۔ ان کے چہرے آسودہ مسکان سے کھل رہے تھے ۔ مجیدالحسن کی نظر ساریہ پر پڑی جو حسرت بھری نظروں سے سعیدہ اور قمر عباسی کو دیکھے جا رہی تھی۔
” پاپا کی غلطی زیادہ بڑی تھی انکل کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر چلے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھی آج مما نے ان کو معاف کر دیا تو کیا آپ اور آنٹی ایک نئی زندگی کی شروعات نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بیٹی کو تحفظ نہیں دے سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی حسرتوں کو نہیں مٹا سکتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بولیں انکل۔۔۔۔۔۔۔۔؟” زرغم بضد ہوا تو مجیدالحسن نے اثبات میں سر ہلاتے اس کو پیار کرنے لگے۔
ساریہ بھیگی پلکوں کے ساتھ مسکراتی ان کی طرف بڑھی اور فاطمہ اور مجیدالحسن کے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔
” ساریہ دیکھا ہیرو کا کمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” مجیدالحسن فاطمہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ زرغم شرارت سے بولا تو سب مسکرا نے لگے۔
” ہیرو اب ذرا اپنی ہیروئن کی بھی خبر لے لو ادھر معاملہ گڑ بڑ ہوا پڑا ہے ۔” ساریہ کب باز آنے والی تھی۔ اسی کے انداز میں شرارت سے بولی تو وہ اس کو گھورتا اٹھ کھڑا ہوا ۔
” کہا جا رہے ہو ؟” ساریہ مسکراہٹ دباتی اونچی آواز میں بولی۔
” اپنی ہیروئن کو لانے یہ نہ ہو واقعی معاملہ گڑبڑ ہو جائے۔” وہ بھی وہ بھی شوخ و شرارت سے بولتا باہر کی طرف بڑھا تو سب کے قہقہے نے اس کا پیچھا کیا۔
میں کہتا ہوں
بتاؤ بے سبب کیوں روٹھ جاتی ہو ؟
وہ کہتی ہے
ذرا مجھ کو مناؤ اچھا لگتا ہے
میں کہتا ہوں
میرا دل تم سے آخر کیوں نہیں بھرتا ؟
وہ کہتی ہے
محبت کی کوئی حد ہی نہی ہوتی
میں کہتا ہوں
بتاؤ میں تمہیں کیوں بھا گیا اتنا ؟
وہ کہتی ہے
میری جان حادثے تو ہو ہی جاتے ہیں !
میں کہتا ہوں
اچانک میں تمہیں یوں ہی رلا دوں تو ؟
وہ کہتی ہے
مجھے ڈر ہے کے تو بھی بھیگ جائے گا
میں کہتا ہوں
بتاؤ بارشوں کی کیا حقیقت ہے ؟
وہ کہتی ہے
کہ یہ تو بادلوں کی آنکھ روتی ہے
میں کہتا ہوں
تمھارے خواب سارے کیوں ادھورے ہیں ؟
وہ کہتی ہے
میری جان تم انہیں تکمیل دے دو نا۔
میں کہتا ہوں
بتاؤ چوڑیاں کیسی لگیں تم کو ؟
وہ کہتی ہے
مجھے یہ ٹوٹ کر تکلیف دیتی ہیں
میں کہتا ہوں
کروں جب فون سننے کیوں نہیں آتی؟
وہ کہتی ہے
تیری آواز سن کے ضبط روتا ہے
میں کہتا ہوں
کہ اتنی بے یقینی کس لیے آخر ؟
وہ کہتی ہے
کہ اتنی بے یقینی ، سکھ میں رکھتی ہے
میں کہتا ہوں
اداسی پر کبھی کچھ لکھ کے دکھلا دو
وہ کہتی ہے
میرے آگے کرو شیشہ ، میں لکھتی ہوں ! ! !
میں کہتا ﮨوں
ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ ،
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﻮﻡ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﮯ
ﺗﭙﺶ ﺑﺪ ﮔﻤﺎﻧﯽ ﮐﯽ
ﮐﮩﯿﮟ ﭘﮕﮭﻼ ﻧﺎ ﺩﮮ ﺍﺱ ﮐﻮ ؟
وہ کہتی ہے
ﺟﺲ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯽ ﮨﻮ
ﻭﮨﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮨﻮ
ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ
میں کہتا ﮨوں
ﺳﺪﺍ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ
ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﻮ گی ؟
کہ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ
ﮔﻮﺍﺭﮦ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ سکتا
وہ کہتی ہے
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔؟ ﯾﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ
ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ۔
میں کہتا ہوں
ﺟﺪﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ
کہ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﭧ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ
ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﺏ
وہ کہتی ہے
ﯾﮩﯽ ﺧﺪﺷﮯ ﺑﮩﺖ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺳﺘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﺳﭻ ﮨﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ
ﺟﺪﺍﺋﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ
میں کہتا ہوں
ﺑﺘﺎﺅ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻦ ﺟﯽ ﺳﮑﻮ گی ﺗﻢ ؟
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺗﯿﮟ ، ﻣﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩﯾﮟ ، ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ،
ﺑﮭﻼ ﺩﻭ گی ؟
وہ کہتی ہے
ﮐﺒﮭﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺳﻮﭼﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮏ ﭘﻞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﺗﻮ
ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺭﮐﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ہیں
میں کہتا ہوں
ﺗﻤﮭﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ ؟
کہ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻡ سا ﻟﮍکا
ﺗﻤﮭﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺧﺎﺹ لگتا ﮨﻮﮞ ؟
وہ کہتی ہے
ﮐﺒﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻢ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﻣﯿﺮﯼ ﺩﯾﻮﺍﻧﮕﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﺅ گے
میں کہتا ہوں
ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﺭﻓﺘﮕﯽ ﺳﮯ ﺩیکھتی ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮ ؟
کہ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ
ﻗﯿﻤﺘﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮتا ﮨﻮﮞ
وہ کہتی ہے
ﻣﺘﺎﻉ ﺟﺎﻥ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﻤﻮﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺟﺐ ﺩیکھتی ﮨﻮﮞ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮتی ﮨﻮں۔♡
وہ ہاتھ باندھے کھڑکی کے آگے کھڑی باہر پھیلی چاندنی پر نظریں جمائے کھڑی تھی زرغم اس کے مقابل آکھڑا ہوا تو باہر چمکتا چاند اس کی نظروں سے اوجھل ہونے لگا۔ اب اس کے وجود پر چاند کا نہیں زرغم کا سایہ تھا۔ وہ ٹکٹکی باندھے یونہی کھڑی دیکھتی رہی۔
” تو اب ان ہاتھوں پر میرے نام کی ہی مہندی لگے گی۔” مدھم فسوں خیز سرگوشی کے ساتھ اس کے گرم ہاتھ کا لمس اس کا دل دھڑکا گیا۔
” مل گئی فرصت۔” ہاتھ چھڑا کے قدرے فاصلے پر ہوتے وہ نروٹھے لہجے میں بولی۔
” یہ تو خالصتا بیویوں والا سوال ہے۔” بلند قہقہے کے ساتھ معنی خیز بات پر بیلہ سٹپٹا کر رخ موڑ گئی۔
” جاؤ اب کوئی ضرورت نہیں آپ کی۔”
” اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ بول رہی ہو کیا۔” وہ ہنستا ہوا شریر لہجے میں بولا۔
” جی ہاں سچ۔”
” تم جھوٹ بول رہی ہو یہ چاند گواہ ہے تم میرے لئیے روئی ہو یہ آنکھیں زرغم عباسی کے لیے جاگی ہیں۔”
وہ دھیمی مسکان کے ساتھ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مدھم فسوں خیز لہجے میں بولا۔
” ز۔۔۔۔۔۔۔زرغم۔”
” جھوٹ بولنا نہیں آتا تو کیوں بولتی ہو؟ یہ آنکھیں ان لبوں سے نکلے لفظوں کا ساتھ دینے سے انکاری ہیں بیلہ لاکھانی تو کیوں؟ یہ ظلم کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
وہ اس کے قریب کھڑا سرگوشی کر رہا تھا۔ اس کے جسم سے اٹھتی خوشبو ، سانسوں کی مہکار , معنی خیز انداز ، یہ قربت بیلہ کے اوسان خطا کر دینے کو کافی تھے۔ کچھ پل یونہی خاموشی میں گزر گئے۔
” ویسے میرا خط پڑھا تھا۔” زرغم کو یک دم ہی یاد آیا تھا۔
” خط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خط تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جا رہا ہوں جلدی واپس آؤں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوری اس وقت موڈ آف تھا اس لیے غصے سے بات کی پھر ملاقات ہو گی بہت جلد ان شاءاللہ۔” وہ تیوری چڑھا کر اس خط میں لکھی عبارت اس کو سنا رہی تھی۔ وہ ہنستا چلا گیا۔
” مجھے رومانٹک خط لکھنے نہیں آتے ناں اس لیے ایسا تھا۔” وہ مسکراہٹ دبائے ہوئے اب اس کو چھیڑ رہا تھا۔
” میں نے کب کہا کہ روما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھاگو زرغم یہاں سے نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” بات کرتے کرتے بیلہ نے اس کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں شوخی و شرارت لیے اس کو دیکھ رہا تھا تو یک دم ہی وہ پاس رکھے کشنز میں سے ایک کشن اٹھاتے ہوئے اس کی طرف بڑھی تو اس سے پہلے کہ وہ اس بوچھاڑ کی زد میں آتا ہنستا ہوا بھاگ کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ کشن واپس رکھتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر پھیلی آسودہ مسکراہٹ اس کے دل کے اطمینان کو ظاہر کر رہی تھی۔
لاکھانی لاج ایک بار پھر اپنی رونقوں کے حصار میں تھا جو برسوں پہلے اس کا حصہ تھیں۔ ایک بار پھر بہار آئی اپنے جوبن پر تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ میں شوخی تھی اور پھولوں سے نکلتے ست رنگی لشکاروں سے آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔