بولو کیا کہا ہے بچی سے۔۔۔ کیا بولا تھا اُسے کہ اس کی یہ حالت ہو گی۔۔۔احتشام رضا نے سامنے کھڑی اپنی بیٹی سے پوچھا۔۔۔ پوچھنا نہیں بلکے پوری زور سے چیخے تھے۔۔۔
ہے کوئی جواب تمہارے پاس۔۔۔۔ بولو۔۔۔
پاپا۔۔۔ سچ میں، میں نے۔۔۔۔
جھوٹ ابھی بھی جھوٹ۔۔۔ ثانیہ بس کر دو۔۔اس سے پہلے میرے ہاتھ دوبارہ اٹھ جائے۔۔
آپ میرے پاپا ہو ہی نہیں۔۔ جس کو دیکھو بس نور۔۔۔ نور۔۔۔ کسی کو میں نظر ہی نہیں آتی۔۔ جب سے وه آئی ہے۔مجھے کوئی پیار نہیں کرتا سب کا سب کچھ نور ہے۔۔۔ ایسا کیا ہے اس میں جو مجھے میں نہیں۔۔۔
پتا نہیں کہاں سے آئی۔۔۔
کس کی اولاد۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔
بکواس بند۔۔۔ فضول مت بولو۔۔۔ کون کیا ہے یہ اللہ جانتا ہے۔۔۔ تم کون ہوتی یہ فیصلہ کرنے والی۔۔ بولو۔۔ اپنے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا۔۔۔ خود کا پتا ہے کون ہو؟؟
المیہ نے ایک دم آگے بڑھ کر رضا کے سامنے ہاتھ جوڑ دئے تھے۔ سر کو نفی میں ہلایا۔۔۔
رضا خدا کا واسطہ بس کر دے کچھ مت کہے، پلززز۔۔۔۔ میری جیتے جی ایسا کچھ مت بولے کہ میں برداشت نہ کر پاؤ۔۔۔المیہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔۔ کچھ نہ کہنے کا بول رہی تھی۔۔
میں نا بولو۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ آپ دعا کرے آپ کی بڑی بیٹی مصطفیٰ ولاز میں ہی رہے نہیں تو جو اس نے کل کیا ہے مجھے ڈر ہے کہی سارہ کو افنان گھر نا بیھج دے۔۔۔اس کو سمجھا لے ابھی بھی سدھر جائے نہیں تو کچھ نہیں بچے گا۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔ رضا صاحب پریشانی میں ہی گھر سے نکل گے۔۔
ثانیہ کچھ دیر پہلے کی گئے ہوئی باتوں پر غور کر رہی تھی۔ کچھ راز تھا۔۔ کچھ تھا جو بتایا نہیں گیا۔۔۔
پر کیا؟؟؟
ثانی۔۔۔ کیوں کیا میری جان ایسا۔۔۔ کیوں؟؟؟
وه اتنی بھولی بھالی سی بچی۔۔۔ جس کو آپ بُرا بھالا کہہ رہی تھی۔ وه نور پیلس والوں کی بیٹی ہے۔۔۔ وه تھی ہی شہزادی۔۔۔ نور پیلس والوں کی شہزادی۔۔۔۔
ثانی آخری بات پر حیرت سے منہ کھولے اپنی ماما کو دیکھ رہی تھی۔۔
ماما نور ۔۔۔۔مطلب۔۔۔۔
ہاں۔۔۔ نور آہینور کی بیٹی ہے۔۔ معاذ کی ٹوئن بہن۔۔۔ آپ نے بہت بُرا کر دیا۔۔ نور کی حالت بھی ٹھیک نہیں آپ کو پتا تھا نہ، وه ہارٹ کی مریض ہے پھر بھی۔۔۔۔المیہ افسوس سے اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھی۔
پر دھیان کہی اور ہی تھا۔۔
سوچیں کہی اور ہی تھی۔۔
کہی بہت دور۔۔۔۔
جبکہ ثانی کی سٹی اب سہی گم ہوئی تھی۔ ماما پر کیسے۔۔۔ ایسے نہیں ہو سکتا۔۔ وه ان کی بیٹی۔۔۔
المیہ نے پھر ساری بات بتائی۔۔۔۔جس کو سن کر چپ چاپ ثانی اپنے روم میں چلی گی۔۔ اپنی گلٹی کا احساس اب ہو رہا تھا۔۔ محمش۔۔معاذ اس کو کسی طور نہیں بخشے والے نہیں تھے۔۔ پر یہ بیوقوف لڑکی ابھی بھی بہت سی باتوں سے انجان تھی۔۔۔
کچھ راز تھے۔۔ کچھ تو تھا جس کی پردہ داری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور واپس نیند میں چلی گئے تھی پر اب چہرے پر کافی حد تک اطمینان تھا۔۔ ہارٹ بیٹ بھی کچھ حد تک نارمل ہو رہی تھی۔ جس پر محمش دل ہی دل میں خُدا کا شکر ادا کر رہ تھا۔ کبھی کوئی سورت پڑھ کر پھونکتا کبھی کوئی۔ اس کو ہر حل میں پری ہنسی مسکراتی چاہی تھی۔
۔
۔
۔
کچھ دیر بعد محمش ICU سے باہر آیا تھا۔ آہینور محمش کے پاس آئی۔
محمش میری بچی کیسی۔۔۔۔
جانی “الحمداللہ” ہماری پری اب کچھ بہتر ہے۔۔ “انشاءلله” بہت جلد ٹھیک ہو جائے گی۔محمش بھی اب کافی حد تک پرسکون نظر آ رہا تھا۔
۔
۔
۔
“کچھ خاص دلوں کو عشق کے الہام ہوتے ہیں
محبّت معجزہ ہے اور معجزے کب عام ہوتے ہیں”
م۔۔۔محمش میں عین سے می۔۔۔۔
بس۔۔۔ ایک لفظ اور نہیں۔۔۔ایک لفظ بھی نہیں افنان مصطفیٰ۔۔۔ بہت غلط کر دیا تم نے اور مصطفیٰ ولاز والوں نے۔۔۔ ایک ایک اس کا حساب دے گا۔۔۔ ایک ایک فرد جس کی وجہ سے میری پری روئی۔۔۔ وه تکلیف میں رہی۔۔۔ جس نے اس کو اذیت دی اس نے خود اپنے ساتھ برا کر لیا۔۔۔محمش بہت مشکل سے اپنا غصہ کم کر رہا تھا پر مصترا کی باتیں۔۔۔ حالت۔۔۔ ہاتھ سے بہت خون۔۔۔ ہارٹ کا ویک ہونا۔۔ ڈاکٹر کی باتیں سب بار بار یاد آ رہا تھا۔۔۔
پر ۔۔۔۔پلززز۔۔۔ ایک بار۔۔۔۔
آغا جان، پاپا اس سے کہے اپنے گھر والوں کو بھی یہاں سے لے جائے، نہیں تو کچھ بہت برا ہو جائے گا۔۔۔ ان سب کو میری نظروں سے دور کر دے۔۔۔ پلززز۔۔۔ میں بار بار مارتا ہوں، جب جب ان سب کو دیکھتا ہوں۔۔۔ مجھے میری نور کا روتا ہوا چہرہ نظر آتا ہے۔ مجھے اس کا خوفزدہ ہونا نہیں بھولتا۔۔ اس کا خون سے بھرا ہاتھ۔۔۔ اس کی سسکیاں۔۔۔ وه پہلے ہی بہت تکلیف میں ہے۔۔ ان کو کہہ دے چلے جائے یہاں سے میں اسے اور تکلیف نہیں دینا چاہتا نہ اور تکلیف میں دیکھ سکتا ہوں۔۔۔۔
محمش کا ضبط کمال کا تھا۔ خود کو مظبوط کر رہا تھا۔ ابھی تو اس کو اپنی پری کو بھی دیکھنا، سمبھالنا تھا۔ابھی اس کو ہمت نہیں ہارنی تھی۔۔۔۔
محمش کو ان سب کو یہاں دیکھ کر کسی پل قرار نہیں آ رہا تھا۔۔جبکہ مھین ان سب میں بری طرح رو رہی تھی۔۔۔
بیٹا آپ کو نہیں پسند تو کوئی بھی یہاں نہیں رہے گا۔۔۔ ہم سامنے بھی نہیں آئے گے۔۔ پر۔۔۔ پر۔۔۔ پلززز جانے کا نہ کہوں۔۔ میں۔۔۔میں مانتی ہوں، میں نے اسے پیدا نہیں کیا۔ پر میں بھی ماں ہوں۔ میں نے پالا ہے اسے۔۔۔ وه میرے بغیر نہیں رہتی۔۔ پلزز اسے میرے سے دور مت کرو میں جی نہیں سکوں گی۔۔۔ میری بچی ہے وه۔۔۔ ھمارے گھر کا سکون۔۔۔ سکھ۔۔۔ چین نور سے ہے۔۔۔ آخر میں مھین مصطفیٰ کی آواز مدھم ہو گی۔۔ آنسوؤں بہہ رہیں تھے۔۔۔ ہاتھ تک جوڑ دئیں تھے۔۔۔
محمش نے ایک نظر سب کو دیکھا آہینور اشاروں سے اجازت دے چکی تھی۔۔
یہ آپ کیا کر رہی ہے آنٹی۔۔۔ ایسا نہیں کرے۔۔ کیوں مجھے گناہ گار کر رہی ہے۔۔ آپ یہاں جب چاہے آئے۔۔۔ بےشک روک جائے۔۔۔ پر افنان مصطفیٰ نہیں۔۔۔ اس نے بہت ہرٹ کیا ہے میرا یقین توڑ دیا۔۔ مجھے جب پتا چلا تھا کہ نور ہی ہماری مصترا نور شاہ ہے میں تو تب بھی نہیں آیا اس کو لینے۔۔۔ صرف اس وجہ سے کہ وہاں آپ سب کے پاس بھی خوش ہے۔ افنان بہت خیال رکھتا ہے۔ اس کی شادی کے بعد سب مل کر بتاؤں گا۔۔۔ پر اس نے ایک ماہ میں اپنی لاپرواہی بے رخی دیکھا دی۔۔۔ جس کی سزا کس کو مل رہی۔۔۔؟؟
وه جو اندر ہے اس کو۔۔۔ میری پری کو۔۔ وه تو معصوم سی ہے اس کا خیال اس کو رکھنا تھا نہ۔۔۔ پھر کیوں نہیں رکھ پایا یہ؟؟۔۔۔۔ کیوں نہیں؟؟؟
مھین نے آگے بڑھ کر محمش کو گلے لگایا تھا۔
“اگر ایک ماں اپنے دوسرے بیٹے سے معافی مانگے گی تو معافی مل سکتی ہے۔۔”
“آنٹی آپ کیوں مجھے گناہ گار کرنا چاہتی ہے۔ کیوں ایسی باتیں کر رہی ہے۔مائیں معافیاں مانگتی نہیں، دعائیں دیتی اچھی لگتی ہے۔آپ بھی بس دعا دے وه ٹھیک ہو جائے مجھے بھی سکون آ جائے گا۔”
پر افنان، سارة ،میره، غازی ماہم کو اپنے ساتھ لئے گھر کے لئے نکل گیا۔ اس میں اور ضبط نہیں تھا اور صبر نہیں تھا۔ وه اکیلے رہنا چاہتا تھا۔۔۔ رونا چاہتا تھا۔۔۔ اپنی غلطی پر رب سے معافی مانگنا چاہتا تھا۔
جبکہ نائل اور مھین یہاں ہسپتال میں ہی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ باہر نہیں جاؤ۔۔
پلزز آج لسٹ بار۔۔۔ لسٹ میچ ہے جانے دو نہ پری۔۔ پھر نہیں جاؤ گا۔۔۔ پکا پرومس
نہیں جاؤ نہ۔۔ ہم جہاں خیلتے ہے۔۔۔( ہم یہاں کھلتے ہے)
اففف۔۔۔ میری بلی سوری۔۔۔ پر آج جانا ہی ہے آپ چاہتی ہو میں ہار جاؤ۔۔
نہیں چاہتی۔۔ پر ہمارا دل نہیں ہے کہ آپ جاؤ۔
اتنے میں باہر سے محمش کے دوستوں کی آوازیں آئی۔۔
سو سوری میری ڈول۔۔۔ آ کر مناؤ گا آپ کو۔ رات میں بات ہو گی۔۔ محمش نے پری کے ماتھے پر بوسہ لیا اور یہ دیکھے بغیر باہر نکل گیا کہ اس کی پری کی آنکھوں میں نمی آ چکی ہے۔۔
پری ناراض تھی۔۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اتنا وقت گزر چکا تھا۔ پر محمش ابھی نہ گھر آیا اور نہ ہی پری سے بات کی۔۔۔اور پھر اس رات ہی پہلی بار محمش اپنی پری کو ناراض کر کے سویا تھا۔۔ پر صبح آنکھیں کھلتے ہی اس پیلس میں طوفاں آیا تھا ،جو سب کی خوشیاں اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔۔۔اس پری کا ظالم باپ ارحم اس کو رات کے اندھیرے میں اپنے ساتھ لے گیا۔۔
سوئی ہوئی نور کو ایک ایک چیز نیند میں بھی صاف نظر آ رہی تھی۔۔ ظالم باپ کا عکس۔۔۔ اپنے شہزادے کا چہرہ۔۔۔سب کچھ۔۔۔
اس پر ہوا ظلم اتنے سالوں پہلے کیا گیا تھا پر آج بھی خواب میں یہ ڈر رہی تھی۔۔ چہرے پر بےچینی تھی۔۔۔ خوف تھا۔۔۔
پاس بیٹھا محمش غور سے اس کے چہرے کے اتر چڑھاؤ دیکھ رہا تھا۔ اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا تھا۔ پاس آ کر سرگوشی بھی کی تھی۔ اپنی مجودگی کا احساس دلایا تھا۔
۔
۔
۔
نہ۔۔۔۔۔ نہیں پلزز۔۔۔ مت مارو۔۔۔ چھوڑ دو۔۔۔ ماما۔۔۔۔ ایش۔۔۔۔ افی بھائی۔۔۔۔ گندا ہے یہ۔۔۔ مجھے ڈر۔۔۔ ڈر لگتا۔۔۔۔ ایش۔۔۔ نہیں مارو۔۔۔
سوئی ہوئی مصترا نور ڈر گی تھی۔۔ پر نیند میں بھی اتنی زور سے چیخ کر اٹھی تھی اور اب محمش کے قابو میں نہیں آ رہی تھی۔۔۔
پری۔۔۔ جان۔۔۔ میں ہوں یہاں دیکھو۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔ ڈول۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔۔
نہیں وه مارتا ہے۔۔ وه۔۔۔۔ آ گیا پھر سے۔۔۔
نہیں یہاں۔۔۔ میں ہوں آپ کے پاس آپ کا ایش۔۔۔۔ ہمممم۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔۔۔محمش اس کو اپنے ساتھ لگائے بیٹھ گیا۔۔ سرگوشیوں میں بار بار اپنی مجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔۔
پر وه اب بھی ڈری سہمی سی اس کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ اس کی شرٹ کو روز سے اپنے ہاتھوں میں دبوچا ہوا تھا۔ چہرہ پسینے سے بھرا ہوا تھا۔۔ اس وقت اس کو کوئی ہوش نہیں تھی کے جس کے اتنی قریب بیٹھی ہے۔ وه کون ہے۔ اور اس کا، اس سے کیا رشتہ ہے۔کچھ پروا نہیں تھی۔۔۔ پر نور اب بےچین نہیں تھی۔ چپ چاپ محمش کے ساتھ لگی سسکیاں لے رہی تھی۔ جبکہ محمش کا ایک ہاتھ اس کی کمر پر تھا اور دوسرا ہاتھ اس کے بالوں کو سہلا رہا تھا۔۔۔
پری کچھ بھی نہیں ہوا۔۔ میں ہوں نہ آپ کے پاس۔۔یہاں کوئی نہیں آئے گا اب۔ نا میں آپ کو چھوڑ کر کہی جاؤ گا۔محمش اس کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پر وه اب بھی اس کے ساتھ لگی ہوئی کبھی سسکیاں لیتی کبھی رونے لگ جاتی۔۔۔
ابھی اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی کہ اس طرح اٹھ کر اتنی دیر بیٹھ سکتی۔ ڈاکٹر نے ابھی چلنے پھرنے سے زیادہ بیٹھنے سے مانا کیا تھا۔۔۔
۔
۔
۔
محمش نے اٹھ کر کھڑا ہونے کی کوشش کی ہی تھی کہ نور کی آواز نے اس کی کوشش کو ہی ختم کر دیا۔۔۔
ہم گندے ہے ۔۔۔ تو آ۔۔۔پ۔۔آپ بھی ہمیں چھوڑ دے گے؟؟ م۔۔۔یرا۔۔۔ میرا کوئی بھی نہیں۔۔۔ سب نے چھوڑ۔۔۔۔۔اتنی سی بات پر نور کا سانس پھول گیا۔۔ لمبے لمبے سانس لینے کی کوشش کی۔۔
محمش نے آکسیجن ماسک ٹھیک سے لگایا۔ جس کو اس کی پری بار بار اتارنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کو بیڈ پر لٹا کر خود نور کا ڈرپ والا ہاتھ اپنھے ہاتھ میں لیا۔۔۔
شششس۔۔۔۔۔۔۔ بس۔۔۔ کوئی گندہ نہیں ہے۔ میری پری بہت اچھی ہے۔۔۔ پاک صاف۔۔۔ کوئی اب آپ کو کچھ نہیں کہے گا میں ہوں نا آپ کا۔۔ آپ کے پاس رہو گا۔۔
نور آکسیجن ماسک کی وجہ سے اپنا سانس بحال کر رہی تھی۔ جو کہ بلی آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ اور سوجی ہوئی تھی۔۔ آنکھوں کے نیچے حلقے۔۔۔ زرد رنگ۔۔۔ محمش کو اپنی پری کی یہ حالت دیکھ کر رونا آ رہا تھا۔۔ اتنی سی عمر میں اتنی تکلیف برداشت کر رہی تھی۔
محمش کی باتوں پر محض سر کو ہلایا۔۔
اچھا آپ کو ایک بات باتوں، آپ سن کر بہت خوش ہو گی۔۔
سر کو ثبت میں ہلایا۔۔۔
معاذ اصل میں آپ کا ٹوئن بھائی ہے۔ اور میری آنی ہی آپ کی ماما ہے۔۔ میں آپ کا کزن ہوں۔۔ آپ کے بڑے پاپا کا بیٹا۔۔۔ محمش بتا رہا تھا۔ساتھ ہی نور کے چہرے کے ایکسپریشن بھی چیک کر رہا تھا۔ جو بس رونے والی ہی تھی۔۔
پر آپ کو آنی کے شوھر مطلب آپ کے پاپا آپ کو ہم سے چھین کر لے گے تھے۔ پھر آپ مصطفیٰ ولاز والوں کو مل گی۔۔۔ اس میں کسی کی غلط نہیں تھی۔۔۔ سب نے بہت ڈھونڈا آپ کو پر آپ نہیں ملی۔۔۔
آپ میری پری ہے۔۔ معصوم سی، پاکیزہ۔۔۔ اب کوئی آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔۔میں ہوں آپ کے ساتھ اور ہمیشہ رہوں گا۔۔۔ محمش نے نور کی آنکوں سے بہتے ھوے آنسوؤں اپنے ہاتھ کی پوروں سے صاف کیں۔۔۔
نور سکون میں تھی۔ دل میں جو درد تھا اب ختم ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ ثانیہ کی باتیں جو اس کے دل کو چیر گی تھی۔ اب وہ باتیں یاد بھی نہیں کرنا چاہتی۔ اس کی اپنی فیملی تھی۔ اس کے اپنے تھے۔۔پھر کیوں روتی؟؟
محمش نے ایک بوسہ اس کی پیشانی پر کیا جس پر اس کی پری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد کھلتی بند ہوتی آنکھیں سکون کی نیند لے رہی تھی۔۔۔
۔
۔
۔
“میں نے معصوم بہاروں میں تمہیں دیکھا ہے
میں نے پرنور ستاروں میں تمہیں دیکھا ہے
میرے محبوب تیری پردہ نیشنی کی قسم
میں نے اشکوں کی قطروں میں تمہیں دیکھا ہے ”
۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
محمش یہ سوچ رہا تھا کہ لوگ کیوں ایسے کرتے ہے ۔ سب جانتے ھوے بھی دوسروں کو ہرٹ کر جاتے ہے۔ ہم اپنی خوشی کے لئے کسی کی آنسوؤں کی وجہ بن جاتے ہے۔ اپنی تسکن کے لئے بہت سے پاک دلوں کو، اپنی خوشیوں اپنے غرور کے تلے روند دیتے ہیں۔۔۔
ایسا کیوں کرتے ہے؟؟؟
کیوں ہم دوسروں کو خوش نہیں دیکھ سکتے؟؟ کیوں ہم اپنے علاوہ کسی کو خوش دیکھنا نہیں چاہتے۔۔ جانے انجانے میں بہت سی آہوں کا سبب بن جاتے ہے۔۔۔۔۔گہری سوچیں تھی۔۔ گہری باتیں پر محمش خوش تھا اس کی پری اب اس کے پاس تھی۔ٹھیک ہو رہی تھی۔۔۔دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر ادا کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...