وہ دونوں کھانا کھانے کیلئے نیچے آچکے تھے آزر وہاں انکا ہی ویٹ کررہا تھا۔
“تم کہاں چلی گئی تھی فریحہ کب سے ڈھونڈ رہا تھا پھر نیشا آئی تو اسے کہا کہ تمہیں چیک کرلے”آزر نے اسکی طرف دیکھکر ناراضگی سے کہا۔
فریحہ اور نیشا نے اک دوسرے کو دیکھا اور خاموشی سے کرسی میں بیٹھ گئیں۔
بتاؤ چپ کیوں ہو”آزر نے اس سے پھر پوچھا۔
“میں زرا اوپر کام سے گئی تھی”وہ خود کو کنٹرول کرتے ہوئے بولی ورنہ اسکا دل کررہا تھا آزر کا گریبان پکڑ کر اس سے اسکے دھوکے کا پوچھے۔
“تو بتاکر جانا چاہئے تھا میں کتنا پریشان ہوگیا تھا”وہ پھر سے بولا۔
“اوپر ہی گئی تھی کہیں بھاگ نہیں گئی تھی جو اس طرح پریشان ہورہے ہیں”وہ اک دم غصے سے بولی۔
“بھابھی۔۔۔”نیشا نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر دبایا اور غصے کو کنٹرول کرنے کا اشارہ کیا۔
“تم اس طرح کیوں بات کررہی ہو ایسا بھی کیا پوچھ لیا میں نے”آزر نے اسکے بھڑکنے پر حیران ہوکر کہا۔
“سوری”اسنے خود پر کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔
“کوئی بات نہیں چلو کھانا شروع کرو تمھارا ہی انتظار کررہا تھا”اسنے مسکراکر کہا۔
اسکی بات پر ریحہ نےزبردستی مسکرانے کی کوشش کی۔
“فریحہ زرا چکن کڑاہی کا باؤل پکڑانا”آزر نے کھانا کھاتے ہوئے اسے کہا۔
اسکی بات پر اسنے باؤل اسکی طرف کیا اور کچھ سوچ کر جان بوجھ کے باؤل آزر کے کپڑوں میں الٹ دیا۔
“شٹ۔۔۔یہ کیا کردیا”وہ اک دم سے چیئر سے اٹھتے ہوئے بولا۔
“وہ غلطی سے ہوگیا”وہ گھبرانے کی اداکاری کرتے ہوئے بولی۔
“اب پھر ڈریس چینج کرنا پڑیگا”وہ ٹشو سے صاف کرتے ہوئے بولا۔
آپ کپڑے چینج کرکے آجائیں”وہ اسکی طرف دیکھکر بولی۔
“یہی کرنا پڑیگا تم دونوں کھانا کھاؤ میں آتا ہوں”وہ کپڑے کو ٹشو کی مدد سے صاف کرتے اٹھا اور اپنے روم کی طرف چلا گیا۔
“آپ نے جان بوجھ کر سالن انکے کپڑوں میں پھینکا ہے نا”نیشا نے اس سے پوچھا۔
“ہاں “وہ مختصر سی بولتی ہوئی آرام سے کھانا کھانے لگی۔
“کیوں؟”نیشا نے حیران ہوکر پوچھا۔
“کیوں کہ میں تمھارے بھائی کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی انکا جینا نا حرام کردیا تو میرا نام بھی فریحہ نہیں”وہ غصے سے دانت کچکچاتے ہوئے بولی۔
“چلو جو ٹھیک لگے آپ کرو میں آپکے ساتھ ہوں”نیشا نے مسکراکر کہا۔
اسکی بات پر ریحا بھی مسکرانے لگی اور کھانا کھانے میں مصروف ہوگئی۔
***
وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی سوچوں میں مگن تھی۔
آزر نے اسے خاموشی سے لیٹے ہوئے دیکھا اور اسکے قریب ہوکر لیٹ گیا۔
“میری جان کیا سوچ رہی ہے”آزر نے اسکے بال سائیڈ پر کرتے ہوئے پوچھا۔
“کچھ نہیں “اسنے بولتے ہوئے دوسری طرف منہ کرلیا۔
“اس طرف کیوں منہ کرلیا ہے ناراض ہو مجھ سے؟”آزر نے اسکے ایسا کرنے پر پوچھا۔
“کچھ نہیں نیند آرہی ہے مجھے”وہ کڑوے لہجے میں بولی۔
“ایسے کیسے نیند آرہی ہے میرا آج پوری رات جاگنے کا ارادہ ہے میں جاگا رہوں اور تم سوئی رہوگی ایسا تو نہیں ہوسکتا”وہ شرارت سے بولتا ہوا اسکے اوپر جھک گیا۔
“کیا کررہے ہیں ہٹے اوپر سے”وہ غصے سے بولی۔
“نہیں ہٹونگا ویسے بھی کل سنڈے ہے دیر تک سونگا اور کل ہم کہیں باہر گھومنے چلیں گے””وہ پلین کرتے ہوئے بولا۔
“مجھے نہیں جانا ہٹے آپ مجھے نیند آرہی ہے”وہ غصے سے اسے اپنے اوپر سے ہٹاتے ہوئے بولی۔
“چپ۔۔۔بلکل”وہ اسکے ہونٹوں میں انگلی رکھ کر اسے چپ کرواتے ہوئے بولا اور آہستہ سے اسکے گردن میں جھک گیا اور چومنے لگا۔
فریحہ نے ازیت سے اپنی آنکھیں بند کیں۔
آزر کی یہ محبت اب اسکے لئے کسی ازیت سے کم نہیں لگ رہی تھی۔
“آزر۔۔۔ب۔۔۔”وہ اسے پیچھے کرنے لگی لیکن آزر نے اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اپنی گرفت میں لے لئے اور اسکے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔
فریحہ کیلئے یہ سب کسی ازیت سے کم نہیں لگ رہی تھی اسنے اک دم سے اسے پیچھے دھکہ دیکر دور کیا تھا۔
“میں کہہ رہی ہوں مجھ سے دور رہیں میرا موڈ نہیں ہے پھر کیوں بار بار مجھ سے چپکے جارہے ہیں”وہ ہزیانی آواز میں چیخ کر بولی۔
آزر تو اسکے ایسے کرنے پہ پہلے شاکڈ ہوا پھر اسکے الفاظوں پر غصے سے اسکی طرف دیکھا اور خاموشی سے بغیر کچھ بولے روم سے باہر نکل گیا۔
فریحہ اسکو باہر جاتا دیکھتی رہی اسکے ہونٹوں پہ زخمی سی مسکراہٹ تھی۔
***
فریحہ نے اپنے طور طریقے بدل لئے تھے آزر سے ٹھیک منہ سے بات کرنا چھوڑدی۔
چھوٹی چھوٹی باتوں کا بتنگڑ بنانے لگتی اور لڑائی کرتی۔
آزر کیلئے اسکا اک دم سے بدل جانا تکلیف میں مبتلا کررہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔
ایسا کیا ہوا ہے جس کی وجہ وہ ایسی ہوگئی تھی۔
انکے بیچ کچھ بھی ٹھیک نہیں چل رہا تھا آج کل ریحہ کی حرکتیں بھی اسے مشکوک سی لگ رہی تھی۔
ہر وقت کسی سے کال میں باتیں کرتی اسکے آنے پر کال کاٹ دیتی۔
پوچھنے پر بتاتی دوست ہے اسکی یا کبھی اسکا جواب دینا بھی پسند نہیں کرتی۔
ابھی اسنے اپنے کانوں سے جو سنا اسے یقین نہیں آرہا تھا۔
“میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں مبشر تم بس تھوڑا صبر کرو میں کچھ دنوں تک آزر سے ڈائورس کیلئے کہہ دونگی مجھ پر بھروسہ کرو”وہ جو آفس سے تھکا ہارہ گھر میں داخل ہوا تھا اپنی جان سے پیاری بیوی کی آواز سن کر روم سے باہر رک گیا۔
ایک مہینے سے ریحہ بدل گئی تھی وہ جانتا تھا لیکن اسے وجہ نہیں معلوم تھا۔
لیکن آج اسے سب معلوم ہوگیا تھا فریحہ کس وجہ سے بدل گئی تھی۔
وہ خاموشی سے لاونج میں آگیا اور رونے لگا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اسکی محبت میں کیا کمی رہ گئی تھی جو ریحہ اسکو دھوکہ دینے پہ تل گئی۔
وہ اس وقت خود کو سمجھارہا تھا فریحہ اسے دھوکہ نہیں دے سکتی اسکی آنکھوں سے بے بسی سے آنسوں نکل رہے تھے۔
وہ مرد جو لڑکیوں کو رلاتا تھا وہ آج خود کسی کیلئے رورہا تھا۔
اسکے لئے اب فریحہ سے دور رہنا بھی سوہان روح تھا۔
وہ اس سے بے انتہا محبت کرنے لگا تھا۔
کجا کہ اسکی بےوافائی برداشت کرنا اسکو ہلانے کیلئے کافی تھا۔
“”تمھے کبھی معاف نہیں کرونگی مجھے چھوڑ کر جارہے ہو بڑا پچتاؤگے میری بددعا ہے اللہ تمھییں سب کچھ دیگا لیکن سچی محبت کبھی نہیں ملے گی اور تم پوری زند۔۔۔۔”اسے کسی کے الفاظ یاد آئے۔
“کیا یہ سب میرے گناہوں کی سزا ہے جو میں نے بویا وہی آج کاٹ رہا ہوں؟”وہ روتے روتے بولا۔
“ہاں شاید میں دوسروں کے فیلنگز کے ساتھ کھیلتا تھا اور انکا دل توڑا کرتا تھا۔
آج میرا دل خود کسی نے توڑ دیا تو مجھے تکلیف ہورہی ہے انکو کتنا درد ہوا ہوگا میں محض ٹائم پاس کی خاطر دولوں کیساتھ کھیل جاتا تھا مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا” وہ دل میں سوچتے ہوئے بولا۔
اسے آج اپنے کئے پہ بہت پچتاوا ہورہا تھا وہ بری طرح رونے لگا تھا۔
وہ دوسروں کے اوپر گزری ہوئی فیلنگز خود پہ فیل کررہا تھا۔
پچتاوا تھا اک جو اسے تکلیف میں مبتلا کررہا تھا۔
“میں نے آج تک جن جن کا دل دکھایا ہے میں انسے معافی مانگ لونگا اور وہ معاف کردینگے تو شاید میری زندگی کے مسئلے بھی ٹھیک ہو جائے”وہ سوچتے ہوئے بولا۔
اسکی آنکھوں سے بے بسی کے آنسوں نکل رہے تھے اسکا دل تڑپ رہا تھا۔
“پر میری محبت میں کیا کمی رہ گئی تھی کیوں کیا اسنے ایسا کیوں”وہ اک دم سے غصے میں آگیا اور سیدھا بیڈ روم میں گیا۔
فریحہ جو کسی سے کال میں بات کررہی تھی آزر کو غصے سے اپنی طرف آتے دیکھا تو ڈر کر مبائل چھپانے کی کوشش کی۔
“کس سے بات کرہی ہو تم”اسنے اپنے غصے پہ کنٹرول کرتے ہوئے پوچھا۔
“ک۔۔۔کسی سے نہیں”وہ گھبرا کر بولی۔
“دکھاؤ مجھے فون”وہ اسکا مبائل چھین کر بولا اور اسکرین پر نظر دوڑائی۔
“یہ سب کیا ہے”نمبر پر “جان” لیکھا دیکھکر نام آزر نے ایک دم سے غصے سے چیخ کر پوچھا۔
“جب پتا چل ہی گیا ہے تو پوچھ کیوں رہے ہیں “وہ ڈھٹائی سے بولی۔
“تمہیں بجائے شرم آنے کی الٹا مجھسے بدتمیزی سے بات کررہی ہو شرم نہیں آتی تمہیں میری محبت میں کیا کمی رہ گئی تھی جو کسی اور کے ساتھ منہ کالا کررہی ہو “آزر نے غصے سے اسکا ہاتھ مروڑتے ہوئے کہا۔
“یہ سب آپ نے مجھے کرنے پر مجبور کیا ہے نفرت کرتی ہوں میں آپ سے”وہ اپنی تکلیف بلائے غصے سے بولی۔
“میں نے کیا مجبور کیا ہے ہاں تمھارا اتنا خیال رکھا جو بھی خواہش کی سب پورا کیا شادی کی رات تمھاری عاشقی کو جھجک کا نام دیکر اپنی خواہش روند دی اور تم نے بدلے میں کیا کیا میرے ساتھ “دھوکہ؟”وہ بولتے بولتے بے بسی سے رونے لگا تھا۔
“آپ نے بھی تو یہی کیا ہے نا دوسروں کیساتھ تو آج آپ کو یہ سب سہنا پڑرہا ہے تو دھوکہ ہوگیا اور آپ جو دوسروں کو دیتے آئیں ہیں وہ دھوکہ نہیں تھا؟”وہ بھڑک کر بولی۔
“کیا مطلب میں نے کیا دھوکہ دیا ہے تمہیں”وہ اپنے آنسوں پونچھ کر چونک کر بولا۔
“میں وہی فریحہ ہوں جس کو آپنے ساتھ آنٹھ مہینے پہلے چھوڑ دیا تھا جس نے آپ کو سامنے محبت کی بھینک مانگی تھی تڑپ رہی تھی کیا آپ نے رحم کیا تھا مجھ پر؟”وہ غصے سے بولی۔
آزر شاک میں کھڑا رہ گیا تھا اسکے گناہ اسکے سامنے یوں کھڑے ہوکے آئینگے اسنے کبھی نہیں سوچا تھا۔
“ر۔۔۔ریحہ؟”وہ شاک سے بولا۔
“جی میں ریحہ بشر یاد ہوں کہ نہیں”وہ دانت کچکچاکر بولی۔
آزر نے خاموشی سے اسے دیکھا اسکے پاس الفاظ نہیں تھے وہ اسے کچھ کہہ سکے۔
“جب میری شادی آپ سے ہوئی تو میں خود کو خوش قسمت سمجھنے لگی تھی خوش تھی آپکے ساتھ لیکن جب سے مجھے پتا چلا آپ کون ہو تب سے میں نفرت کرنے لگی ہوں آپسے اور جلد آپ کو چھوڑ دونگی”وہ تمخسر سے بولتی ہوئی روم سے باہر جانے لگی۔
“اس مبشر کیلئے؟”آزر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکتے ہوئے پوچھا۔
“مبشر نام کا آدمی میری زندگی میں نا کبھی آیا تھا نا کبھی آئیگا”وہ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی۔
“یع۔۔۔نی تم مجھے دھوکہ نہیں دے رہی تھی؟اہ گاڈ میں نجانے کیا سمجھ رہا تھا فریحہ میں معافی مانگتا ہوں میں نے جو بھی کیا لیکن مجھے چھوڑ کر مت جاؤ پلیز فریحہ تم جیسا کہوگی میں سب بات مانونگا لیکن مجھے چھوڑ کر مت جاؤ میں مرجاونگا تم سے بہت پیار کرتا ہوں تم جانتی ہو”وہ اک دم سے اسکے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا اسکی آنکھوں میں جدائی کا خوف صاف نظر آرہا تھا۔
“یہ بھینک کبھی میں نے بھی مانگی تھی آپ سے کیا آپ نے مجھ پر رحم کیا تھا؟ تو آپ کس سوچ میں ہیں کہ میں آپ پر رحم کرونگی”وہ اسکی حالت پر خود کو کنٹرول کرتے ہوئے پتھریلے لہجے میں بولی۔
ورنہ اسکا دل کررہا تھا آزر کو معاف کرکے اسے اپنے گلے لگالے۔
لیکن اسنے سوچ لیا تھا وہ اسے اتنی آسانی سے معاف نہیں کریگی۔
“پلیز فریحہ سب باتیں بھول کر مجھے معاف کر دو مجھے احساس ہے میں نے غلط کیا دل توڑا لیکن یوں مجھے چھوڑ کر مت جاؤ تم نے کہا تھا نا “بڑا پچتاؤگے” تو میں آج سچ میں پچتا رہا ہوں میں نے جن جن کا دل توڑا میں سب سے معافی مانگ لونگا لیکن پہلے تم مجھے معاف کردو”وہ پھر سے اسکا ہاتھ پکڑ کر روتے ہوئے بولا۔
اسکے لہجے میں ندامت تھی درد تھا تکلیف تھی کیا کچھ نہیں تھا۔
“ٹھیک ہے کردیتی ہوں میں معاف آپکو لیکن میں آپکے ساتھ رہنا نہیں چاہتی آپکی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی نفرت ہوگئی ہے آپ سے مجھے, مجھے جانے دیں آپ “وہ اسکا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی اور اپنے کپڑے پیک کرنے لگی۔
“پلیز ریحہ بس اک بار موقع دیدو پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ”وہ تڑپ کر اسے ہاتھ سے کپڑے لیکر دور پھینکتے ہوئے بولا۔
“پلیز احمد مجھے مجبور نا کریں میں اب آپکے ساتھ رہنا نہیں چاہتی”وہ پہلی دفعہ اسکا فرضی نام لیتے ہوئے بولی۔
“ٹھیک ہے اگر تمہیں جانا ہی ہے تو مجھے بھی اب اس دنیا میں نہیں رہنا تم مجھے چھوڑ دوگی تو میرے جینے کا کیا فائدہ”وہ اک دم پتھریلے انداز میں بولتا ہوا الماری کے لوک آپ سے پستول نکالتا ہوا بولا اور پستول اپنے ماتھے پر رکھ دی۔
فریحہ اسکے جنونی انداز پر ایک دم شاک رہ گئی تھی اور ڈر گئی تھی۔
“آزر۔۔۔احمد۔۔۔پلیز اسے واپس رکھیں”وہ گبھراکر بولی۔
“تم پہلے بولو مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گی “اسکی بات پر فریحہ نے بےبسی سے آزر کو دیکھا تھا۔
وہ بھی اپنے ماتھے میں پستول رکھے آنسوں بھری آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...