’’بتائیے۔!میں وہ مرحلہ طے کر کے اپنے والدین سے ضرور باتیں کروں گی۔وہ کیسا مرحلہ ہوں۔۔میں اسے ضرور پار کروں گی۔۔‘‘
’’وہ کوئی نیا مرحلہ نہیں ہے۔ایک ہی ہے۔۔سیدھا راستہ۔۔اس پر چلتی چلی جاؤگی تو یہ مرحلہ بھی طے ہوتا چلا جائے گا۔بس تم میرے پاس آتی رہا کرو۔۔سارے مرحلے خود بخود طے ہوتے چلے جائیں گے۔‘‘انہوں نے کہا تواسے کچھ ڈھارس بندھی۔ایک ملال جو اس کے من میں بگولے کی طرح اٹھا تھا ۔وہ ایک دم ختم ہو کر رہ گیا وہ دونوں اس کی جانب ایک ٹک دیکھے چلے جا رہے تھے۔ان کے چہروں پر کسی قسم کے کوئی جذبات نہیں تھے۔نادیہ ان کی طرف دیکھتی رہی۔لیکن دل میں یہ خواہش نہیں ابھری کہ وہ آگے بڑھ کر انہیں چھو لے۔وہ یوں ہو گئی تھی کہ جیسے اس کے اندر سے ساری توانائی کشید کر لی گئی ہو اور وہ بے جان سی ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہو۔
’’میں آپ کے پاس آتی رہا کروں گی۔۔میری رہنمائی کرتے رہیے گا۔‘‘اس نے آہستگی سے کہا۔
’’ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔کسی انسان سے کچھ مت مانگنا۔۔۔مانگنا تمہاری سرشت ہی سے خارج ہو جانا چاہیے۔جوکچھ بھی لینا ہے ۔وہ صرف ایک ہی ہستی سے ،بس عرض کر دینا ہے،تمہارے لیے بہتر ہو گا تو مل جائے گا۔نہیں بہتر ہو گا تو نہیں ملے گا۔اب تم جاؤ۔‘‘سفید ریش بزرگ نے کہا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔اس کے ساتھ ہی اس کے والدین نے بھی آنکھیں بند کر لیں۔کچھ دیر مزید بیٹھنے کی اسے چاہت ہی نہیں ہوئی،وہ اٹھی اور محل سے نکلتی چلی گئی۔یہاں تک کہ روش اسے جزیرے کے کنارے تک لے آئی۔وہاں لہر اس کے انتظار میں تھی۔اس نے سمندر میں اپنا پاؤں ڈالا تو وہ پھر لہروں کے دوش پھر تھی۔یہاں تک کہ وہ ساحل تک آ پہنچی۔یہیں اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔تب وہ یہ محسوس کر رہی تھی کہ جزیرے پر جو خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔وہ یہاں اس کے کمرے میں بھی ہے۔وہ آنکھیں بند کر کے اس خواب کو کئی بار اپنے ذہن میں دہرا چکی تھی۔ہر بار انہی جزئیات کے ساتھ وہ اسے پوری طرح یاد تھا۔خوشبو تھی کہ اس کے کمرے میں اس خواب کو ماورائی بنا دینے کا بھر پور احساس دے رہی تھی۔کافی دیر تک یونہی بے خیالی میں بیٹھی رہی۔
’’یہ کیسا خواب تھا؟‘‘اس نے خود سے سوال کیا۔
’’جو بھی تھا،تم خود جانتی ہو۔میں تو صرف اتنا جانتی ہوں کہ خوابوں میں اشارے ہوتے ہیں ۔تمہیں خواب پوری طرح یاد ہے تو ان جزئیات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘
’’کون سمجھائے گا مجھے۔‘‘
’’تم سمجھنے کی کوشش تو کرو جس طرح یہ خواب تمہیں خود بخود آ گیا ہے ۔ویسے ہی سمجھنے سمجھانے کے سارے مرحلے طے ہو جائیں گے۔۔‘‘
’’اور وہ سیدھا راستہ۔‘‘
’’ایک ہی تو ہے ۔۔صراطِ مستقیم۔جو ہر ایک کے لیے ہے۔۔الو ہی پیغام۔۔پڑھنا ہے تو اسے پڑھو۔۔سب سنور جائے گا۔‘‘
’’ہاں۔!پڑھنا بھی ہے ۔۔مجھے سمجھنا بھی ہے۔۔خواب کی ایک ایک رمز کو جاننا ہے ۔میں سمجھ لوں گی۔۔‘‘اس نے عزم سے سوچا۔پھر اٹھ کھڑی ہوئی ،اس نے دیوار پر لگے کلاک کو بھی دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ وہ اٹھی اور وضو کر نے کے لیے بڑھ گئی۔وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔اسے اچھی طرح سمجھ آ گئی تھی کہ اسے اگر کچھ لینا ہے تو ایک ہی ہستی ہے ۔۔باتیں کرنی ہیں اپنے بارے میں کچھ کہنا ہے تو فقط اسی ایک ہستی سے جس نے اسے پیدا کیا ہے۔انسانوں کے ساتھ سارے معاملات میں کہیں نہ کہیں مانگنے کا عنصر پیدا ہو جاتا ہے۔زندگی کے گہرے راز کیا ہیں۔اسے یہ سمجھنے کی ضرورت نہیں تھی۔یہ راز سمجھے ،سمجھ میں نہیں آتے جس پر رحمت نازل ہو جائے تو پھر کائنات کے راز بھی عیاں ہونے لگتے ہیں۔یہ اس کی عنائت ہے جس پر ہو جائے ۔جب بات ٹھہری ہی اس کی رحمت پر تو پھر اس کی خوشنودی کیوں نہ حاصل کی جائے۔یہ نکتہ اسے الہام ہو گیا تو سارے تفکرات اس سے دور ہو گئے۔وہ پورے سکون سے جائے نماز پر آن کھڑی ہوئی ۔خوشبو کااحساس تیز ہو گیا تھا تو اسی قدر سکون اس کے اندر اتر گیا۔
***
مغرب کا وقت ختم ہو چکا تھا اور حویلی جگمگا اٹھی تھی۔رات بے تابی سے چھائی تو پھر بڑھتے ہی چلے جانے کو بے تاب ہو گئی۔ایسے میں پیر سائیں کھانے کی میز پر آ بیٹھے۔بہت دنوں بعد وہ حویلی میں یوں کھانے کے لیے آئے تھے۔ورنہ یہ وقت ان کا مردان خانے میں گذرتا اور دسترخوان وہیں لگایا جاتا تھا۔آج خاص طور پر کھانا حویلی میں کھانے کے لیے کہا تو خاصہ اہتمام کر لیا گیا۔اماں بی اور زہرہ بی وہاں موجود تھیں یا پھر حویلی کی خادمائیں جو ان سے ذرا فاصلے پر موجود تھیں۔
’’نادیہ بیٹی نہیں آئی۔؟‘‘
’’نہیں۔اس نے آنے سے منع کر دیا تھا۔‘‘اماں بی نے ہولے سے کہا۔
’’کیا اسے بتایا نہیں گیا تھا کہ آج۔۔۔‘‘پیر سائیں نے کہتے ہوئے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’بتایا تھا مگر اس نے اپنا کھانا کمرے ہی میں منگوالیا۔‘‘انہوں نے دوبارہ کہا تو پھر وہ نہیں بولا۔خاموشی سے کھانا کھاتا رہا۔سیر ہو گیا تو ڈرائنگ روم میں صوفے پر جا بیٹھا۔چائے اسے وہیں دے دی گئی۔تبھی اس نیدادی اماں سے کہا۔
’’نادیہ بیٹی کو ذرا بلوائیں۔کئی دن ہو گئے میں نے اسے دیکھا نہیں ہے۔‘‘
اس کے یوں کہنے پردادی اماں نے اپنی ملازمہ کو اشارہ کیا تو وہ چلی گئی۔وہ خاموشی سے چائے پیتے رہے لاشعوری طور پر نادیہ کے انتظار کرتے رہے۔کچھ دیر بعد وہ بڑی ساری سیاہ چادر میں لپٹی وہیں آ گئی ۔اور ایک طرف کھڑی ہوکر پیر سائیں سے بولی۔
’’جی پیر سائیں ،حکم،‘‘
’’آؤ بیٹھو بیٹا۔!میں نے تم سے کچھ باتیں کرنا ہیں۔‘‘پیر سائیں بولا تو وہ ایک طرف پڑے صوفے پر بیٹھ گئی۔اور خاموش رہی۔کتنے ہی لمحے خاموشی کی نذر ہو گئے تو وہ بولا۔’’نادیہ بیٹی۔!میں نہیں جانتا کہ تمہارے ذہن میں کیا ہے۔لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں بہت کچھ مثبت نہیں ہے ۔جس کا اظہار تم نہیں کر پاتی ہو مگر اپنے رویے سے اظہار بھی کر دیتی ہو۔میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخر ایسی کیا بات ہے ،جو تم کہنا چاہتی ہو مگر کہہ نہیں پاتی۔‘‘
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘وہ آہستگی سے بولی۔
’’نہ دلاور شاہ تمہیں کیااحساس ہے کہ ایسا سوچا تم نے۔‘‘اماں بی نے آہستگی سے پوچھا۔
’’دیکھیں دادی اماں،کل نادیہ بیٹی نے دربار شریف پر جانے کی اجازت چاہی،جو میں نے دے دی،میں یہ اہتمام کر دیا کہ جب تک یہ وہاں پر ہے،کوئی مرد دربار کے احاطے میں داخل نہیں ہو گا۔لیکن اس نے وہاں کی ایک ایسی روایت کو توڑ دیا ،جو وہاں نہیں ہوتی تھی۔‘‘آخر ی لفظ کہتے ہوئے وہ گڑبڑا گیا۔
’’میں مزار کے اندر چلی گئی تھی جہاں بڑے پیر صاحب دفن ہیں۔‘‘نادیہ نے آہستگی سے کہا۔
’’کیوں۔‘‘پیر سائیں نے تحمل سے پوچھا۔
’’بس۔میرا دل کیا اور میں چلی گئی۔‘‘وہ تیزی سے مگر دھیمی آواز میں بولی۔
’’بیٹا۔!اگر ہم ہی اپنی روایات کی پاسبانی نہیں کریں گے تو پھر دوسرا کون کرے گا۔یہ اور بات ،اصول و ضوابط اس لیے بنائے گئے ہیں کہ لوگ اپنی جگہ حصار میں رہیں ۔ان کی ایک حد مقرر کر دی گئی ہے کہ وہ جہاں رہیں ،وہیں تک محدود ہو جائیں۔انہیں یہ احساس ہو کہ ہم میں اور ان میں ایک فاصلہ ہے۔‘‘
’’مگر میں تو کسی سے نہ فاصلے کے بارے میں سوچتی ہوں اور نہ قربت کے بارے میں۔ مجھے ان باتوں سے کیا لینا دینا۔میں نے اب یہ سوچا کہ میں ہفتے میں ایک دن ضرور درگاہ پر جایا کروں ۔‘‘
اس نے کہا تو پیر سائیں نے چونک کر اسے دیکھا۔وہ بجائے اس کی بات کو سمجھ کر اس پرآئندہ عمل کرنے کا وعدہ کرتی۔وہ تو اپنا ارادہ ظاہر کرنے لگی تھی۔اسے ایک دم سے غصہ تو بہت آیا لیکن خود پر قابو پا کر بولا۔
’’دیکھو بیٹی۔!میں جو تمہیں سمجھا رہاہوں ۔اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔ان روایات کی حفاظت ہمی نے کرنی ہے۔اور یہ ہم پر کسی فرض کی مانند لاگو ہیں۔‘‘
’’پیر سائیں۔!آپ میرے ایک سوال کا جواب دیں ۔کیا سارے فرائض کی ادائیگی ہم عورتوں کے لیے ہی ہے۔ان کا حق کوئی نہیں ۔یا پھر ہم عورتوں کی مخلوق حقوق کے لیے بنی نہیں ، ان پر صرف فرائض ہی لادے جاتے ہیں۔‘‘
’’نادیہ۔!‘‘پیر سائیں نے ایک دم سے اسے جھڑک دیا۔’’میں اگر تم سے انتہائی تحمل سے بات کر رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں تم سے اپنی بات نہیں منوا سکتا۔تمہیں وہی کرنا پڑے گا،جو میں کہتا ہوں۔‘‘
’’لیکن مجھے اپنی زندگی گذارنے کا پورا پورا حق ہے اور میں حق کو پوری طرح استعمال کروں گی۔یا پھر آپ مجھ سے میری زندگی کا حق چھین لیں۔‘‘ اس نے آنکھیں نیچی کیئے بے خوف انداز میں کہہ دیا۔جس پر پیر سائیں نے شدید حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔وہ اس کے منہ پر ہی اس کا حکم ماننے سے انکار کر رہی تھی۔وہ کتنی ہی دیرتک خاموش بیٹھا رہا ،پھر اٹھتے ہوئے بولا۔
’’اگر یہ کرنا پڑے گا تو میں کر لوں گا۔لیکن یہ اچھا ہے کہ تم سنبھل جاؤ۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے پیر سائیں ۔میں نے کیا کرنا ہے۔میں اسی دن مر گئی تھی ،جب میں نے حویلی سے قدم باہر نکالا تھا۔یہ آپ ہی کی ضد ہے کہ میری زندہ لاش کو اس حویلی کے درودیوار میں قید کر لیا ہے۔لاشوں پر حکم نہیں چلا یا جاتا،انہیں دفن کر دیا جاتاہے یا پھر میری طرح درگور۔۔۔۔‘‘
پیر سائیں حیرت سے سنا اور پھرایک لفظ کہے بغیر باہر نکل گیا۔وہاں رہ گئی تو ان تینوں خواتین کے درمیان خاموشی ٹھہر گئی۔جس میں حیرت کے ساتھ خوف بھی سانس لے رہا تھا۔تبھیدادی اماں نے کہا۔
’’یہ تم نے کیا کیا بیٹی۔!دلاور شاہ کا عتاب اگر تم پر آ گیا تو بہت برا ہو گا۔‘‘
’’اب اس سے بڑا عتاب کیا آئے گادادی اماں۔یہ جانتے بوجھتے بھی آپ مجھے ڈرا رہی ہیں۔‘‘نادیہ نے کہا اور بنا اجازت کے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔اسے اب کسی کی پرواہ نہیں رہی تھی۔
پیر سائیں اپنے خاص کمرے میں بیٹھا ۔اپنے غصے اورحیرت پر قابو پا رہا تھا ۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نادیہ اس کے لیے اتنی مشکل پیدا کر دے گی۔وہ جس قدر ایسی اپنی راہ پر چلانا چاہتا ،اس قدر ناکامی ہو جاتی۔وہ سمجھ رہا تھا کہ نادیہ کا ایسا رویہ کیوں ہے؟ظہیر شاہ نے بھی توس اس کا دل جتنے کی کوشش نہیں کی تھی۔بلکہ اس کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنا کر پہلی رات اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔اب نادیہ کا یہ رویہ عین فطری تھا۔وہ سمجھ رہا تھا کہ بس ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ظہیر شاہ لو ٹ کر حویلی میں آ جائے ۔وہی اسے محبت اور پیار سے اپنی ڈگر پر لے آئے ورنہ نادیہ کا رویہ ایسا ہو جائے گا کہ سنبھالے نہیں سنبھلے گا۔ وہ کتنی ہی دیر تک ایسی ایک نکتے پر سوچتا رہا۔پھر اس نے ارادہ کر لیا کہ ظہیر شاہ کو واپس بلوائے گا۔اب اس کی تعلیم سے زیادہ یہاں پر ضرورت تھی،وہ تو پھر بھی مکمل ہو جائے گا۔اس نے فون اٹھایا اور ظہیر شاہ کے نمبر ملا دیئے۔
’’جی بابا سائیں۔!‘‘تمہیدی باتوں کے بعد اس نے پوچھا۔
’’تم ایسا کرو،فوراًواپس یہاں سلامت نگر آ جاؤ،یہاں تمہاری ضرورت ہے۔‘‘پیر سائیں نے کہا۔
’’بابا سائیں۔!اگر آپ مجھے نادیہ کی وجہ سے بلا رہے ہیں تو میں قطعاً نہیں آؤں گا۔میں ایسی کسی عورت کے ساتھ نہیں رہ سکتا جو انتہائی درجے کی بدتمیز ہو او ر اسے نہ خونی رشتوں کا پاس ہو اور نہ جیسے ادب و اداب چھو کر گذرے ہوں۔‘‘
’’میں یہ مانتا ہوں کہ وہ ایسی ہے لیکن تم نے اس کے لیے نہیں آنا،ہمیں اس کی ذات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔بلکہ اس سے متعلق جو ہمارے معاملات ہیں۔ان کے لیے آنا ہے۔تم آؤ اور اس کا دل جیتو،ہمارا مطلب نکل گیا تو پھر ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔‘‘
’’معاف کیجئے گا بابا سائیں۔وہ جس نہج پر آ گئی ہے ،اب اس کا بدل جانا یا ہمارے مطلب کے لیے تیار ہو جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔بلکہ وہ ہمیں خراب کرے گی۔‘‘اس نے صاف اور دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا۔
’’تم تو مایوس ہو گئے۔چلو تم ایسا کرو۔میری بات مانو اور آ جاؤ۔یہاں دیکھ لیں گے کہ کیا کرنا ہے۔‘‘پیر سائیں نے اسے پیار سے سمجھایا۔
’’بابا سائیں ۔!سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود اس کے منہ نہیں لگنا چاہتا۔وہ عورت اسی دن میرے دل سے اتر گئی جب وہ حویلی سے بھاگی تھی۔ایسی مفرور عورت کو میں اپنی عزت بناؤں ،میرا ضمیر گوارہ ہی نہیں کرتا۔ہمارے پاس زمین جائیداد کی کون سی کمی ہے۔آپ میری بات مانیں۔اسے اس کی جائیداد سے حصہ دے کر حویلی سے چلتا کریں۔میرا تھوڑا سا وقت رہتا ہے۔میں یہاں سے اپنی تعلیم مکمل کر کے آ جاؤں گا۔پھر میں سنبھال لوں گا سب کچھ۔‘‘
’’تم مجھے مایوس کر رہے ہو بیٹا۔‘‘پیر سائیں نے حتمی انداز میں کہا۔
’’نہیں بابا سائیں، میں مایوس نہیں کر رہا ہوں۔آپ کو حقیقت بتا رہا ہوں۔کیونکہ آپ ایک بہت بڑی غلطی کر چکے ہیں۔شعیب کے ساتھ فرح کی شادی۔۔وہ لوگ جو کبھی بھی جائیداد کے وارث نہیں بن سکتے تھے۔وہ بھی زندہ ہو گئے ہیں۔آپ کہاں کہاں کس کو قابو میں کریں گے۔کیا اب آپ فرح کا حق اسے نہیں دیں گے۔نہیں دیں گے تو وہ لے لے گی۔‘‘ظہیر شاہ نے حقیقت بتاتے ہوئے کہا۔
’’وہ تو بعد کی بات ہے ۔۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر وہ حویلی ہی میں آ کر رہنا شروع کر دیں تو زیادہ اچھی بات ہے۔نادیہ والا کانٹا نکلے تو شعیب ہمارے لیے بہت کار آمد ثابت ہو سکتا ہے ۔فرح اپنی ازدواجی زندگی میں بہت خوش ہے اور مجھے پوری امید ہے کہ وہ بہت جلد میری راہ پر آ جائے گا۔تم یہ سر دردی چھوڑو اور فوراً آ جاؤ۔نادیہ کا زہر نکالنا بہت ضروری ہے ۔‘‘پیر سائیں نے اسے تحمل کے ساتھ پھر سمجھایا۔
’’میں آپ کو کیسے سمجھاؤبابا سائیں۔!میں اس عورت سے نفرت کرتا ہوں۔خدا کے لیے مجھے مجبور نہ کیا جائے۔میری طرف سے اسے آج قتل کروا دیں۔جب تک وہ حویلی میں ہے ،میں نہیں آؤں گا۔۔اگر آپ مجھے اپنی جائیداد سے عاق بھی کردیں گے تو مجھے منظور ہے۔ اسے دفعان کریں تو میں آ جاتا ہوں۔‘‘اس نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا۔
’’کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے۔‘‘پیر سائیں نے غصے میں پوچھا۔
’’جی،یہ میرا آخری فیصلہ ہے ۔آپ مجھے اگر قبول نہیں کریں گے تو میں یہاں اپنی باقی زندگی گذار لوں گا۔یہ میری ضد سمجھ لیں یا میری انا۔۔۔ میں اسے حویلی میں برداشت نہیں کر سکتا۔اسی لیے میں نے اس رات حویلی کو چھوڑا تھا۔باقی جو آپ فیصلہ کریں۔۔‘‘
’’اب تو کوئی فیصلہ نہیں رہ گیا۔تم نے حکم عدولی کر کے اچھا نہیں کیا۔‘‘اس نے آرزدگی سے کہا۔
’’میں مجبور ہوں بابا سائیں۔!میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں لیکن اپنی ہتک نہیں۔اسے معلوم تھا کہ میں حویلی میں ہوں اور اگلے دن میری اس سے شادی ہونے والی ہے ۔صرف مجھے ذلیل کرنے کی خاطر وہ حویلی سے بھاگی۔۔میں نے اگر بھاگی ہوئی عورت کے ساتھ شادی کی ہے تو صرف آپ کی ضد کی خاطر۔۔۔ورنہ۔۔۔میں نے انکار کر دینا تھا۔۔۔لیکن میں نے سوچا ،میں نے کون سا یہاں رہناہے۔آپ مجھے مجبور نہ کریں ۔۔ورنہ میں اسے طلاق بھجوا دوں گا۔پھر میرا اوراس کا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے تم جیسا چاہو۔۔آؤ یا نہ آؤ۔۔مجھے تم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔‘‘پیر سائیں نے روہانسے انداز میں کہا اور فون بند کر دیا۔اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ ظہیر شاہ اس طرح جواب دے گا۔مایوسی اس کے اردگرد طواف کرنے لگی تھی۔اسے ظہیر شاہ ہی سے امید تھی ۔وہ ہی نہیں رہی ۔اب اسے کچھ اور ہی سوچنا تھا۔لیکن اب اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو چکی تھی۔
نادیہ کا وجود ا س کے لیے چیلنج بن گیا تھا۔وہ جس قدر اس کے بارے میں سوچتا،اس قدر اسے اپنی راہیں مسدود دکھائی دیتی تھیں۔وہ اس کے بارے میں جو بھی فیصلہ کرتا،اسی میں ناکام ہو جاتا۔ ایک کے بعد ایک فیصلہ اس کی نگاہوں میں گھومتا چلا گیا۔نادیہ کے معاملے میں اس کی ضد پوری نہیں ہو پائی تھی۔ورنہ اس نے جو بھی ارادہ کیا تھا،جو بھی فیصلہ اس نے کیا وہ پورا ہوتا چلا گیا تھا۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ظہیر شاہ اسے جواب دے دے گا۔اور اس قدر نفرت انگیز انداز میں کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔آخر اسی کے معاملے میں ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کے اندر کے ضدی انسان پر ایسی کاری ضرب تھی جس سے وہ حواس باختہ ہو گیا۔وہ بجائے یہ سوچنے کے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اسے اپنی ضد سے ہٹ جانا چاہئے۔وہ ان پہلوؤں پر غور کرنے لگا کہ اس سارے معاملے کو اپنے حق میں کیسے کیا جا سکتا ہے۔اس کے پاس آخری آپشن کے طور پر ظہیر شاہ ہی کا مہرہ تھا۔جسے چلتے ہوئے وہ نادیہ پر قابو پا سکتا تھا۔لیکن ایسا نہیں ہوااور اس کی سوچوں کے برعکس وہ ہوا جس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔یہ شرط اسے بہت خوف زدہ کردینے والی تھی کہ جب تک نادیہ حویلی میں رہے گی،تب تک وہ حویلی میں نہیں آئے گا۔اگر ایسا ہی ہو گیا تو پھر حالات اس کی دسترس میں نہیں رہیں گے۔اور نہ ہی کھیل اس کے قابو میں آئے گا۔ سب کچھ بگڑ جائے گا۔وہ ہی تو ایک سونے کی چڑیا تھی جیسے اس نے پنجرے میں قید کر رکھا تھا۔وہ تمام تر جائیداد میں سے آدھے کی اکیلی وارث تھی۔اس پر دباؤ کی صورت میں زبیدہ سامنے آ گئی،بلاشبہ اب وہ بھی وارث ہو گی۔وہ شعیب کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔مگر کیا تو بہت ٹوٹ پھوٹ ہو گی،تمام تر جائیداد کا اکیلا مالک ہونے کاجو خواب اس نے دیکھا تھا،وہ پورا نہیں ہوپا رہاتھا۔کیا ہو بچی کچھی جائیداد پر ہی اکتفا کرے ۔۔یا پھر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کچھ مزید سوچے،یہ وہ نکتہ تھا جس پر وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔نادیہ کو حویلی سے اگر چلے جانے کا بھی کہہ دیا جائے تو وہاں کہاں جائے گی۔یہ اچھا ہوتا کہ وہ شعیب کے ساتھ بیاہ دی جاتی اور وہ اپنی شرائط منوا لیتا۔مگر وہ موقعہ بھی تو ہاتھ سے نکل گیا تھا۔یہ فائدہ تو ہوا کہ وہ شعیب کے فرح کو بیاہ کر اب وہ اسے اپنے ساتھ شامل کر سکتا تھا۔اب اسے یہی امید کی کرن دکھائی دے رہی تھی۔
***
زندگی اس قدر خوبصورت بھی ہو سکتی ہے ،اس کا احساس اسے پہلے کبھی نہ تھا۔وہ جو مایوسی کے حصار میں بند ہو کر اپنی ہی ذات میں قید ہو گئی تھی،حویلی کی چاردیواری سے نکلی تو دنیا کے ہجوم میں آ گئی۔فرح کے لیے ہر منظر ہی نیا تھا۔اتنی تعداد میں انسان اس نے شاید زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔باہر کی دنیا اس قدر پر ہجوم اور پر شور ،کبھی کبھی تو اسے یوں لگتا کہ جیسے وہ خود ان مناظر میں تحلیل ہو گئی ہے۔پر شور ،پر ہجوم اور رنگین دنیا کے ساتھ ایک محبت کرنے والا شوہر اس کے ساتھ تھا۔اس لگا جیسے حویلی کی چاردیواری کے باہر جنت ہے ۔ شمالی علاقوں کی سیر کے بعد جب وہ لاہور پہنچے تو اس کے انگ انگ کی تھکن خوشی میں بدل چکی تھی۔وہ ایک ایک منظر کو اپنے ساتھ سمیٹ کر لے آئی تھی۔دن کے اجالے میں پہاڑوں کے درمیان سیر کرتے گذر جاتا۔بھوک لگتی تو قریبی ہوٹل میں گھس جاتے،رات آتی تو اپنے ساتھ زندگی حسین لمحات لے کر آتی۔جہاں دل چاہتا پڑاؤ کر تے اور پھر آگے نکل جاتے۔ اس طرح دس دن گھر سے باہر رہنے کے بعد وہ لوٹی تو اپنے ساتھ ڈھیروں یادیں لے کر آئی تھی۔وہ زندگی کے لمحے لمحے سے خوشیاں کشید کر لینا چاہتی تھی جو اس نے کیں۔ایک دن اور ایک رات تھکن اتارتے گذر گیا۔اس صبح جب وہ نماز سے فارغ ہوئی تو کچن میں جا گھسی جہاں زبیدہ پہلے ہی چائے بنا رہی تھی۔
’’پھوپھو ۔اگر آپ بھی ہمارے ساتھ ہوتی نا۔۔تو مزہ آ جاتا۔۔‘‘اس نے یادوں کا لطف لیتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔! پھر تم دونوں کو ہر دم میرا خیال رہتا۔اب اگر زندگی رہی تو اگلے سال میں تم لوگوں کے ساتھ چلوں گی۔۔کیونکہ تب تم دونوں کو میری بہت ضرورت ہوگی۔‘‘زبیدہ نے پیار سے مسکراتے ہوئے پیار سے کہا۔
’’میں سمجھی نہیں ،ضرورت۔۔۔‘‘فرح نے کہنا چاہا،پھر ایک دم اسے سمجھ میں آیا تو شرما گئی۔
’’تم نے تو مجھے نہیں بتایا لیکن میں سمجھ گئی ہوں۔‘‘زبیدہ نے اس کے سرخ ہوتے ہوئے چہرے پر دیکھ کر کہا۔تب وہ بولی۔
’’میں نے چھپایا نہیں،بلکہ شعیب کہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر کے پاس چلیں گے،تصدیق ہونے پر امی کو بتائیں گے،تاکہ کسی قسم کی کوئی غلط فہمی نہ رہے۔‘‘وہ پروقار انداز میں بولی
’’اچھا تو یہ بات تھی۔۔کب جاناہے ڈاکٹر کے پاس۔۔۔؟‘‘ زبیدہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’آج کسی وقت۔۔۔‘‘وہ بولی تو زبیدہ نے جذبات بھرے لہجے میں کہا۔
’’اس کا پتہ نہیں وہ کب جائے،میں تمہیں خود لے کر جاؤں گی۔بس تم یہ ناشتہ وغیرہ بنا کر جلدی سے تیار ہو جانا۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے ۔میں تیار ہو جاتی ہوں۔‘‘فرح نے سعادت مندی سے کہا اور کچن میں ہاتھ بٹانے لگی۔زبیدہ تو چائے کا مگ لے کر باہر جا بیٹھی اور فرح انہونی سوچوں میں کھو گئی۔اسے خود پر یقین نہیں آ رہاتھا کہ وہ ماں جیسے مقدس رتبے پر فائز ہونے جا رہی ہے۔
دوپہر ہونے سے کافی پہلے وہ ایک مشہور لیڈی ڈاکٹر کے کلینک جا پہنچیں۔اگرچہ وہاں اتنا رش نہیں تھا مگر پھر بھی ڈاکٹر تک رسائی ہوتے انہیں تقریباً دو گھنٹے لگ گئے۔اچھی طرح تصدیق کے بعد جب وہ واپس لوٹیں تو ان کے ہمراہ یہ خوشخبری تھی کہ فرح ماں بننے والی ہے۔زبیدہ نے تو وہیں کلینک ہی میں شعیب کو بتا دیا۔اور پھر جب وہ گھر پہنچیں تو وہ مٹھائی لیے ان دونوں کا منتظر تھا۔وہ اپنے رب کی شکر گذار تھی کہ ا س نے اسے سب کچھ دے دیا تھا۔وہ اب جلد از جلد سلامت نگر پہنچ جانا چاہتے تھے۔ایک نئی زندگی کا احساس ان کے لیے بہت خوش آئندتھا۔بکھرا بکھرا سا خاندان ایک لڑی میں پرونے کے لیے بہانہ انہیں مل گیا تھا۔جذبات ایک خواہ مخواہ کی نرمی در آئی تھی۔اس وقت گہری ہوچلی تھی۔جب وہ سلامت نگر پہنچ گئے۔
اگلی صبح فرح کا دل بہت مچل رہا تھا کہ وہ حویلی جائے اور یہ خوشخبری انہیں بھی سنا دے۔اس کی ہمت نہیں پڑی تھی کہ انہیں فون ہی کر دیتی۔اسے یہ احساس اچھی طرح ہو گیاتھا کہ شعیب حویلی والوں سے رابطہ رکھنا اور تعلق بڑھانا پسند نہیں کرتا۔اس کی شدت تبھی سامنے آئی تھی جب وہ یہاں سے نکلنے لگے تھے۔راستے میں اس نے تہیہ کر لیا تھاکہ وہ خود حویلی والوں سے رابطہ نہیں کرے گی۔اور اب جو بھی تعلق ہو گا وہ شعیب کے ذریعے ہی سے ہو گا۔اب اس کی ترجیح شعیب تھا۔جس کے ساتھ اس نے اپنی زندگی بتانا تھی تب سے اگر اس نے رابطہ نہیں کیا تھا تو حویلی والوں نے بھی فون نہیں کیا تھا۔ممکن ہے انہوں نے شعیب کے ساتھ رابطہ کیا ہو،اگر ایسا ہواتھا تو اسے نہیں بتایا گیا تھا۔اس لیے وہ بھی یہ بھول گئی تھی اس نے خود حویلی والوں سے رابطہ کرنا ہے۔اب جبکہ وہ سلامت نگر آ گئی تھی۔تب نجانے ان فضاؤں میں کچھ ایسا تھا کہ حویلی جانے کو جی مچل گیا۔مگر اس نے لب پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔ناشتہ وغیرہ کروانے کے بعد جب شعیب کو تیار کروایا تو اس دوران اس نے اپنی خواہش کا اظہار جھجکتے ہوئے کیا۔
’’کیا آپ نے حویلی والوں کو نئے مہمان کے آنے کے بارے میں بتا دیا ہے۔۔‘‘
’’نہیں،میں نے تو نہیں بتایا،ممکن ہے امی نے بات کی ہو،ان سے پوچھ لو۔۔‘‘یہ کہہ کر اس نے غور سے فرح کے چہرے پر دیکھا اور بڑی نرمی سے کہا۔’’اگر تم جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ۔‘‘
’’لیکن آپ کیوں نہیں جاتے؟‘‘نجانے کیوں اس کے منہ سے سرسراتے ہوئے لفظ پھسل گئے۔تب پہلی بار شعیب نے اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔چند لمحے یونہی تکتا رہا ،پھر دھیمے لہجے میں انتہائی نرمی سے بولا۔
’’فرح یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی کوئی وجہ نہ ہوتے ہوئے بھی میرا حویلی جانے کو دل نہیں کرتا۔میں چاہنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو مطمئن نہیں کر پاتا۔ایسی جگہ،جہاں جا کر میں بے چینی محسوس کروں۔تم مجھے وہاں جانے کے لیے کہہ رہی ہو۔‘‘
’’جب آپ جائیں گے تو یہ بے چینی بھی دور ہو جائے گی۔‘‘یہ کہتے ہوئے اچانک وہ چونک گئی اور تشویش زدہ لہجے میں گویا ہوئی۔’’کہیں آپ نادیہ کی وجہ سے تو نہیں۔۔‘‘
’’ممکن ہے لاشعوری طورپر ایسی ہی کوئی وجہ ہو۔مگر میرے ذہن میں تمہارے باپ کا رویہ ہے ۔وہ حاکمیت پسند ہے،اور ایسی کوئی وجہ نہیں کہ میں اس کی حاکمیت اپنے اوپر مسلط کر لوں۔میں مانتا ہوں کہ میرا اس سے میری ماں کی وجہ سے رشتہ ہے ،لیکن یہ رشتہ کبھی بھی نہیں رہا۔میرے ہوش سنبھالے سے لے کر اب تک میرا دوسرا تعلق اسی سے یہ بنا کہ اس نے ناجائز کام کروانا چاہا۔اس وجہ سے اس نے مجھے بلیک میل کیا۔اور تیسرا تعلق تمہاری وجہ سے بنا،تم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہو،کیا اس نے اس تعلق کو بھی دل سے قبول کیا؟ اگر کیاہے تو کوئی ایک دلیل دو۔۔‘‘شعیب نے بڑے ٹھہرے ہوئے انداز میں اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں میرے پاس کوئی ایسی ایک دلیل نہیں ہے۔‘‘فرح نے صاف گوئی سے کہا۔
’’پھر بھی میرا حویلی جانے کا جواز بنتا ہے؟‘‘ اس نے اسی دھیمے لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں بنتا۔‘‘اس نے صاف لہجے میں کہا۔
’’دیکھو۔!میں تمہارے باپ جتنا امیر نہیں ہوں۔نہ ہی میرا وہ اسٹیٹس ہے جو اس کا ہے۔ میرے پاس مرید ین کی قوت بھی نہیں،مگر اس کے پاس ہے،وہ کل میرے خلاف سلامت نگر میں جلوس نکلوا دے اور میر ا تبادلہ ہو جائے۔مجھے کرپٹ اور بے ایمان ثابت کر دے ۔۔میں ۔۔۔‘‘
’’نہیں وہ ایسا نہیں کریں گے۔۔‘‘فرح تیزی سے بولی۔
’’میں جانتا ہوں کہ وہ نہیں کرے گا۔۔اس وقت تک نہیں جب تک میں کرپٹ نہیں ہو جاتا۔خیر۔میں کہنا تم سے یہ چاہ رہا تھا کہ اسٹیٹس کا فرق اس نے رکھا۔وہ پیر سائیں ہے،جاگیرر دار ہے،سیاست دان ہے ،لیکن ایک بیٹی کا باپ نہیں ہے۔ورنہ وہ اب تک ایک بار ہی سہی یہاں ضرور آتا۔کیا میں غلط کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’نہیں آپ غلط نہیں کہہ رہے ہیں۔‘‘فرح نے بات سمجھتے ہوئے کہا۔
’’اب تم خود بتاؤ۔جب اس نے وہ فرق رکھا ہو اہے ۔جس میں تمہاری تضحیک ہو تو کیا مجھے حویلی جانا چاہئے۔کیا اس تضحیک کو میں قبول کر لوں اورتمہارے باپ کے حضور جا کر گڑگڑاؤں کہ مجھے اپنا داماد دل سے تسلیم کر لیں۔‘‘اس بار اس کے لہجے میں سختی آ گئی۔جس پر وہ خاموش رہی تب وہ بولا۔’’دیکھو فرح۔!میں نے وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ جب میرے پاس کچھ بھی نہیں تھاا ور وہیں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی ترس جایا کرتا تھااور ایسا وقت بھی دیکھا ہے ،جب میری ضروریات سے اتنا زیادہ مل جایا کرتا تھا کہ کوئی خواہش نہیں رہتی تھی۔یاد رکھو۔!لالچ اور خواہش میں بڑا فرق ہوتا ہے۔لالچ بڑھتا ہی چلا جایا کرتا ہے اور خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں۔میرے خیال میں تم میری بات سمجھ گئی ہو گی۔‘‘آخری لفظ کہتے ہوئے شعیب کے لہجے میں پھروہی نرمی اور تحمل در آیا تھا۔فرح کچھ نہیں بولی اور خاموشی کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔کچھ دیر بعد وہ بھی آفس چلا گیا۔
فرح سارادن شعیب کی باتوں کو سوچتی رہی۔اس دن وہ زبیدہ کے پاس بھی بہت کم بیٹھی۔زیادہ تر اپنے کمرے میں بند رہی۔زبیدہ نے بھی اسے نہیں پوچھا۔اس کے ذہن میں تھا کہ ممکن ہے تھکن ہو۔یا پھر طبعیت ٹھیک نہ ہو۔اس نے خود ملازمین سے کہہ کر دوپہر کا کھانا بنوالیا۔دوپہر سے تھوڑی دیر قبل وہ ہونقوں کی طرح اپنے کمرے سے نکلی اور سیدھی زبیدہ کے پاس آئی۔وہ کافی شرمندہ سی لگ رہی تھی۔
’’سوری پھوپھو۔!میری آنکھ لگ گئی تھی۔۔کھانے کو دیر ہو گئی۔۔‘‘
’’تم جاؤ،نہاؤ دھو اور تیار ہو جاؤ۔کھانے کی فکر نہ کرو۔وہ بن جائے گا۔‘‘زبیدہ نے پیار سے کہا تو اسے اطمینان ہو گیا۔وہ پلٹ کر اپنے کمرے میں چلے گئی۔
شام کب کی ڈھل گئی تھی۔شعیب کچھ گھر آ کر دوبارہ نکل گیا تھا۔پوچھنے پر یہی بتایاتھا کہ کوئی ضروری کام ہے۔پھر انتظار بڑھتا گیا اور وہ اس وقت واپس پلٹا جب رات کافی گہری ہو گئی تھی۔وہ اس کے انتظار میں جاگ رہی تھی۔لیکن ڈھلتی شام سے رات گہری ہو جانے تک عجیب قسم کے وسوسوں کا شکار ہو گئی۔اگرچہ شعیب نے اسے بڑے تحمل سے سمجھایا تھا ۔لیکن آج ہی اس نے بات کی اور آج ہی اس کے معمولات میں فرق آ گیا۔بلاشبہ اس نے جوگھر میں وقت نہیں گذارا،اسے میرا پوچھنا اچھا نہیں لگا ہو گا۔وہ جس قدر ممکن ہے مجھ سے دوررہ کر اس بات کو بھلانے کی کوشش کر رہا ہو گا۔کیا میں اپنے ہی ہاتھوں اپنے چمن کو آگ لگا رہی ہوں۔کیا یہ میرا عمل درست نہیں تھا۔ایسا تو تب ہوتا ہے کہ جب وہ کسی سے شدید قسم کی نفرت کر رہا ہو۔کیا اسے حویلی والوں سے نفرت ہو چکی ہے۔،کیا وہ محض نادیہ کی وجہ سے نہیں جا رہا یا بابا سائیں کی وجہ سے۔۔اس نے جھوٹ بولایا پھر سچ کیا۔وہ ان سوچوں کا اظہار زبیدہ پھوپھو سے بھی نہیں کر پا رہی تھی۔اس کے لیے نفرت ایک معمولی سی بات تھی لیکن کیا محبت میں بدگمانی کا زہر گھل گیا ۔کیا اب شعیب مجھ سے متنفر ہو گیا۔کیا اب اس کا رویہ پہلے جیسا نہیں وہا۔کیا میں اپنی بنتی سنورتی زندگی کو شک اور بدگمانی کی بھینٹ چڑھا دوں گی۔ میں نے اگر ضد کی توکیا وہ مزید مجھ سے دور ہو جائے گا۔ایسے ہی نجانے کتنے سوال اس کے ذہن میں گردش کر تے رہے اور وہ خوف کے مہیب سناٹوں میں یوں پھیلتی گئی کہ خود کو روکنا بھی چاہا تو نہ کر سکی۔او رجس وقت وہ پلٹ کر گھر میں آیا تو وہ انتہائی خوف زدہ ہورہی تھی۔وہ ٹائی کی گرہ کھولتے ہوئے اس کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔پھر تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’کیا ہوا ہے تجھے۔تمہارا رنگ اتنا پیلا کیوں ہو رہا ہے؟‘‘
چاہتے ہوئے بھی وہ جواب نہ دے سکی۔لفظ اس کے منہ ہی سے نہیں نکل پائے تھے۔وہ بہت کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن پوری کوشش کر کے بھی نہ کہہ پائی۔پھر اس نے مزیدکچھ ہو نہ سکا تو وہ شعیب کے سینے سے جا لگی۔آنسو تھے کہ ساون بھادوں کی مانند برسنے لگے۔اس نے بڑے پیار سے اسے تھام لیا اور پھر اسے تھپکتے ہوئے پر سکون لہجے میں پوچھا۔
’’فرح پلیز۔!بتاؤ کیا بات ہے۔امی نے کچھ کہا۔‘‘
’’نہ۔۔۔نن۔۔۔نہیں۔۔انہوں نے کچھ نہیں کہا۔‘‘
’’تو پھر کیا بات ہے۔۔‘‘اس نے اسے کاندھوں سے پکڑا اور بیڈ پر بٹھا لیا۔وہ اس وقت تک خود پر قابو پا چکی تھی۔اس نے دھیرے دھیرے اپنے ذہن میں چلنے والی شک کی آندھیوں کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔وہ کہتی چلی جا رہی تھی اور وہ آہستہ آہستہ مسکراتا چلا جا رہا تھا۔وہ جب کہہ چکی تو شعیب نے اس کے سر پر ہلکی سی دھپ مارتے ہوئے کہا۔
’’اتنی سے بات پر خود کو ہلکان کر رہی ہو۔۔صبح کی بات تو میں اسی وقت ختم کر کے چلا گیا تھا۔وہ تو میرے ذہن میں بھی نہیں۔ہاں بس آج اتفاق ہی تھا جو میں اتنی دیر گھر سے باہر رہا،اب تو کئی دن تک ایسا چلے گا۔اتنی چھٹیاں بھی تو گذار کر آئے ہیں ۔میں نوکر پیشہ بندہ ہوں۔اس طرح کیا تم روزانہ ہلکان ہوتی رہو گی۔‘‘
’’مجھے بس آپ کا اعتماد چاہئے ۔۔۔ میں۔۔۔اور کچھ نہیں چاہتی۔۔۔‘‘وہ لرزتے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’اب بتاؤ۔۔تمہیں کیسا اعتماد چاہے۔اب اس سے زیادہ تجھے اور اعتماد کیا دوں۔۔کہ تم اب میرے بچے کی ماں بننے والی ہو۔۔‘‘وہ مسکراتے ہوئے بولا تو فرح کو اس پر ڈھیروں پیار آ گیا۔وہ س کے کاندھے سے لگ گئی۔’’اچھا ۔!اب مجھے کپڑے بدلنے دو۔تم جاؤاور اچھی سی چائے بنا کر لاؤ۔پھر دونوں مل کر پیتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں۔‘‘
’’میں ابھی لے کر آتی ہوں۔‘‘وہ جلدی سے اٹھ گئی۔
’’نہیں یہاں نہیں۔اوپر چھت پر ۔آج چاندنی بہت زیادہ ہے۔‘‘اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور اٹھ کر شرٹ بدلنے لگا۔وہ بڑے اعتماد کے ساتھ کچن کی جانب چل دی۔
***
حویلی میں بھونچال آ گیا تھا۔اماں بی سکتے میں تھی۔زہرہ بی کی خاموشی طویل ہو گئی اور پیر سائیں کی تو جیسے دنیا ہی اندھیر ہوگئی تھی۔نادیہ نے جب سنا تو ایک لمحے کے لیے اس کے من میں دکھ کی لہر اٹھی اور پھر وہ پہلے کی مانند وہی سکوت اس پر طاری ہوگئی۔ظہیر شاہ سے نادیہ کے لیے طلاق بھجوا دی تھی۔
’’یہ تم نے کیا کیا بے وقوف اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لی۔۔‘‘پیر سائیں نے فون پر چیختے ہوئے کہا۔
’’میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ اسے الگ کر دیں۔حویلی نے نکال دیں۔۔تب میں آؤں گا۔‘‘وہ عام سے لہجے میں بولا۔
’’وہ حویلی میں رہتی ہے یا نہیں رہتی۔مگر اس کا طلاق سے کیا تعلق ہے۔‘‘اس پر اسے شدید غصہ آ گیاتھا۔
’’ وہ میری دنیا میں آئی ہی نہیں تھی۔میرا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے تو پھر میں اسے باندھ کر کیوں رکھوں ۔۔جب تک وہ میرے نام سے بندھی رہتی،آپ اسے حویلی سے نکال ہی نہیں سکتے تھے۔اب یہ آپ کا امتحان ہے ،آپ نے مجھے اپنے پاس بلانا ہے تو اسے حویلی سے نکالنا ہو گا۔ورنہ میں نہیں آؤں گاحویلی میں۔‘‘اس نے انتہائی سخت انداز میں کہا تو پیرسائیں کو ہوش آیا۔ظہیر شاہ کی بات کو اس نے اہمیت ہی نہیں دی تھی،محض اپنی ضد منوانے کے لیے اسے حکم پر حکم دیتا چلا جا رہا تھا ،جس کا نتیجہ اس کے سامنے آ گیا۔
’’تو اتنا ہی کمزور ہے کہ ایک عورت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔اسے اپنے سامنے نہیں جھکا سکا۔‘‘پیرسائیں ڈھاڑا۔
’’میرا اس سے مقابلہ بنتا ہی نہیں ہے تو کیا جیت اور کیا ہار۔۔۔مجھے اس سے کوئی اعتراض ہی نہیں ہے۔اور پھر جس کے ساتھ میں نفرت کرتا ہوں۔میں اسے اپنی زندگی میں نہیں رکھ سکتا۔‘‘اس نے واقعتا نفرت انگیز انداز میں کہا۔
’’یہ تو نے اچھا نہیں کیا ظہیرشاہ ،تمہارے اس فیصلے کا نتیجہ بہت غلط بھی ہو سکتا ہے تمہارے حق میں۔‘‘پیر سائیں نے اسے احساس دلایا۔
’’میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔میں جانتا ہوں کہ آپ مجھے عاق بھی بھی کر سکتے ہیں تو کر دیں۔جب تک وہ حویلی میں ہے ،میں وہاں قدم نہیں رکھوں گا۔میں یہیں رہ جاؤں گا۔‘‘اس نے تحمل سے کہا۔
’’تم صرف اپنے اکلوتے ہونے کا فائدہ اٹھا رہے ہو۔مت سمجھنا کہ میری حکم عدولی کر لو گے تو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔اب تم چاہوبھی تو حویلی میں نہیں آ پاؤ گے۔یہ میری حتمی فیصلہ ہے۔۔‘‘پیر سائیں نے کہا اور فون بند کر دیا۔وہ بے جان سا ہو کر دیوار کے ساتھ لگ گیا۔وہی خاص کمرہ جو اس کے لیے بہت پر سکون ہو اکرتا تھا، اس دن وہی اسے قید خانہ لگ رہا تھا۔اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ زندگی بھر کی کمائی وہ لٹا چکا تھا۔زندگی میں پہلی بار اس نے بڑے مان اور اعتماد کے ساتھ جس کے لیے سب کچھ کرنے کی کوشش کی تھی،وہی سے یوں دھوکا دے جائے گا۔یہ تو اس نے سوچا نہیں تھا۔پہلی بار اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اور یہ شکست اس لیے بھی زیادہ دکھ دے رہی تھی وہ اسے اپنے بیٹے ہی کے ہاتھوں ملی تھی۔جس کا سب کچھ چھین لینا چاہتا تھا۔وہ اب بھی پورے وقار اور طمطراق کے ساتھ حویلی میں موجود تھی اور جس کے لیے چھین لینا چاہتا تھا ،اس پر حویلی کے دروازے اس نے خود ہی بند کر دہیے تھے۔پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ صیاد اپنے دام میں خود ہی آ گیا تھا۔اس نے جو چاہا تھا اس کے برعکس ہو گیا تھا۔اپنوں کے ہاتھوں سے لگا ہوا زخم کاری ہوتا ہے۔جو بندے کو سلب کر دیتا۔پھر ایسا وار جس سے بندہ تہی داماں ہو جائے۔ہار جانے کا دکھ،اکلوتا بیٹا کھو جانے کا دکھ اور پھر سب سے بڑی بات تہی داماں ہو نے کا دکھ،اسے سانس نہیں لینے دے رہا تھا۔یہ کیا ہو گیا تھا۔اسے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی۔اس سے اچھا تھا کہ نادیہ کو شعیب ہی کے ساتھ بیاہ دیتا،اس کی بیٹی تو بچ جاتی۔اب وہ بھی اس نے زبیدہ کے ہاتھ میں دے دی تھی۔وہ جو چاہے اس سے انتقام لے۔اب چاہے تو وہ بھی اسے چھوڑ دے ۔کیا ہو گا۔؟ یہ سوال اس کے لیے سوہان روح بن گیا تھا۔وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ حویلی سے بلاوا آ گیا۔دیوان نے انتہائی ادب سے کہا۔
’’اماں بی حویلی میں یاد کر رہی ہیں۔‘‘
اسے معلوم تھا کہ وہ کیا کہیں گی۔اس سے یہی سوال ہو گا کہ ظہیرشاہ نے کیا کیا۔بیٹے کے عمل کا جواب دہ وہ خود تھا۔حالانکہ وہ یہ نہیں چاہتا تھا۔ وہ اٹھا اور حویلی کی طرف جانے کے لیے تیار ہو گیا۔واضح طور پر اس نے محسوس کیا کہ اس کے وجود میں جان نہیں رہی ہے۔وہ جوہر وقت خود کو زندگی سے بھر پور خیال کیا کرتا تھا،بیٹے کے ساتھ ایک فون کال کے بعد خود کو انتہائی ناتواں محسوس کرنے لگا تھا۔وہ حویلی کی جانب چل پڑا۔حویلی میں داخل ہوتے ہوئے وہ پہلی بار شرمندگی کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔کیا منہ دکھا ئے گا وہ جاکر۔جس کے لیے اتنا کچھ کیا،اس کا نتیجہ کیا نکلا۔؟
اماں بی صوفے پر بیٹھی ہوئیں تھیں۔پیر سائیں خاموشی سے ان کے برابر والے صوفے پر بیٹھ گیا۔چند لمحے یونہی گذر گئے۔ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی جیسے وہ ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے خود کو تیار کر رہے ہوں۔آخر اس خاموشی کودادی اماں نے ہی توڑا۔
’’یہ بہت ظلم ہوا نادیہ پر دلاور شاہ۔۔۔‘‘
وہدادی اماں کا لہجہ سن کر چونک گیا۔اس میں آگ ہی آگ تھی۔پہلی بار ایسا لہجہ جس میں آگ کے ساتھ تذلیل کر دینے والی انتہا تھی۔اس نے پوری قوت صرف کرتے ہوئے جواباً کہا۔
’’ہاں واقعی ،ظلم ہوا۔۔۔‘‘
’’یہ ظلم تم نے کیا ہے دلاور شاہ۔۔اس یتیم بچی کے ساتھ جو تم نے کیا۔اس کا بدلہ وہ کمزور تو نہیں لے سکتی اس کا بدلہ تو تم سے خدا ہی لے گا۔لیکن میں تمہیں معاف نہیں کروں گی۔۔بالکل بھی نہیں کروں گی۔۔‘‘
’’اماں۔!میں نے تو ان کی بھلائی ہی چاہی تھی۔آپ بھی سمجھتی ہیں کہ میری نیت ٹھیک تھی۔‘‘اس نے صفائی پیش کرنا چاہی تودادی اماں نے دھاڑ تے ہوئے کہا۔
’’غلط۔!بالکل غلط کہہ رہے ہودلاور شاہ۔تمہاری نیت ہی تو ٹھیک نہیں تھی۔اس بچی کی جائیداد ہتھیانے کی خاطر تم نے یہ سارا کھیل رچایا تھا۔کیا انجام ہوا اس کا۔۔۔تمہارے ہی بیٹے نے طلاق بھیج دی۔میں پوچھتی ہوں کیا جرم تھا اس بن ماں باپ کی بچی نے۔آج اگر اس کا باپ زندہ ہوتا۔۔۔تو میں دیکھتی تیری اور تیرے بیٹے کی جرات کیا ہوتی کہ تم لوگ ایسا کر سکتے۔۔۔‘‘
’’میں نے اسے سزا دے دی ہے۔میں نے اسے حویلی میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔‘‘پیر سائیں نے دھیمے لہجے میں بتایا۔
’’تم نے نہیں،اس نے خود حویلی آنے سے انکار کر دیاہے۔ابھی اس نے اپنی ماں سے ساری بات کر لی ہے۔یہ سب تیرے کیئے کا پھل ہے۔ تیری اکلوتی اولاد تجھے چھوڑ گئی۔ابھی تو تیرے ساتھ پتہ نہیں کیا کچھ ہونا ہے۔تو دیکھتا جا۔۔‘‘
’’اماں آپ مجھے ہی قصور وار ٹھہرا رہی ہیں۔یہ ان دونوں کے درمیان ہونے والے جھگڑے کا نتیجہ ہے۔‘‘پیر سائیں چیخ پڑا۔
’’اس جھگڑے کی بنیاد کون ہے۔وہ بچی بے چاری چیختی رہی۔چلاتی رہی۔اس نے منع بھی کیا۔لیکن۔۔۔لیکن کیا تم اس سے انکار کر سکتے ہو کہ تم نے ضد نہیں کی۔۔تم نے اس شادی کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔تم نے ہر وہ جائز وناجائز کوشش نہیں کی جو تم کر سکتے تھے۔۔اب کیا ہوا۔۔تیرا ہی لالچ تیرے منہ پر آن پڑاہے۔‘‘اماں بی شعلہ جوالہ بن گئی تھیں۔
’’اب کیا ہو سکتا ہے اماں ۔۔مجھے بتاؤ اس کا حل کیا ہے۔‘‘پیر سائیں نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔
’’حل ۔!میں کیا بتا سکتی ہوں حل۔۔۔اب تو فیصلہ ہو چکا۔۔اب جو کچھ بھی کرے گی،نادیہ ہی کرے گی۔میری طرف سے تو یہی سزا ہے تمہیں کہ تم فوراً سے پیشتر یہ حویلی خالی کر کے چلے جاؤ۔میں تمہیں یہاں برداشت نہیں کر سکتی۔یا پھر میں اپنی پوتی کولے کر کہیں بھی چلی جاؤں گی۔‘‘اماں بی نے شعلہ برساتی ہوئی آواز میں جب حتمی لہجے میں کہا تو وہ چونک گیا۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ عتاب اس پر آ جائے گا۔حویلی چھوڑنے کا مطلب کوئی معمولی بات نہیں تھی۔وہ کوئی بھی چھوڑتا،وہ خود اپنی بیوی کو لے کر جاتا تو سارے زمانے میں ،مریدین میں ،سیاست دانوں اور جاگیر داروں میں اس کی کیا وقعت رہ جاتی۔اور اگر اس کی ماں،اماں بی اور بھتیجی جو اب اس کی بہو بھی تھی۔وہ اگر حویلی چھوڑ کر چلی جاتی ہیں تو پھر وہ کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہتا تھا۔وہ ایک ایسی صورت حال میں پھنس گیا تھا کہ نہ نگلنے بنتی تھی اور نہ اگلتے۔لمحہ بھر میں جو اس نے چشم تصور میں آئندہ آنے والے دنوں کے بارے میں سوچا تو کانپ کر رہ گیا۔اب تک کی بنی بنائی ساری عزت خاک میں مل جانے والی تھی۔وہ جو ایک عقیدت مندی کا تصور اس کے ساتھ جڑ گیا تھا،اب کہاں رہتا۔یہی وہ وقت تھا جیسے سنبھالنا بہت ضروری تھا۔اس نے اپنے لہجے میں حد درجہ درد بھرتے ہوئے کہا۔
’’اماں بی۔!ظہیر شاہ کی غلطی کی سزا آپ مجھے کیوں دے رہی ہیں۔میں نے تو کبھی ایسا نہیں چاہا تھا اور نہ ہی چاہ سکتا ہوں۔‘‘
’’تم نے اگر اتنی ضد کر کے ،اپنی اناکا مسئلہ بنا کے ظہیر کی شادی نادیہ سے کی تھی تواس کے ذ مہ دار تم ہو۔وہ بے چاری ایک رات کی سہاگن نہیں اور اسے طلاق یافتہ بنا کر رکھ دیا۔اس نے کیا جرم کیا تھا تیرا۔ کیا قصور ہے اس بچی کا ،کیوں مسلسل اسے ظلم کا شکار کر رہے ہو۔‘‘اماں بی پھٹ پڑیں۔
’’اماں۔!مجھے معاف کردیں۔میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘اس نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
’’مجھ سے کیا معافی مانگنا ہے تم نے ۔۔اس یتیم سے معافی مانگو جس پر تم نے ظلم کیا۔۔۔وہ اگر معاف کر دیتی ہے تو کر دے۔۔۔لیکن اگر اس نے تمہیں معاف نہیں کیا تو میں ہر حال میں اس کے ساتھ کھڑی ہوں۔۔یہ یاد رکھنا۔۔جو میں کہا ہے ۔۔اب وہی ہونا ہے۔۔‘‘
’’آپ نادیہ کو بلائیں۔!میں آپ کے سامنے اس سے معافی مانگتاہوں۔‘‘پیر سائیں نے انتہائی لجالت سے کہا۔
ایساکہتے ہوئے اس نے کچھ فاصلے پر کھڑی نوکرانی کو اشارہ کر دیا کہ وہ نادیہ کو بلا لائے۔وہ فوراً ہی وہاں سے چلی گئی۔ان دونوں میں خاموشی چھا گئی۔کسی نے ایک لفظ بھی کچھ نہ کہا جیسے کچھ کہنے کے لیے ان کے پاس لفظ نہ ہوں۔کتنا ہی وقت یونہی گذر گیا۔تبھی سفید لباس اور سفید آنچل میں ملبوس نادیہ وہاں آ گئی۔اس نے کافی حد تک اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا۔اس نے آتے ہی کہا۔
’’جی پیر سائیں۔!‘‘
’’بیٹی۔!میں ظہیر شاہ کے رویے پر ہاتھ جوڑ کر تم سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔اس نے جو کیا ،غلط کیا۔ میں نے اسے حویلی میں قدم رکھنے سے منع کر دیاہے۔میں اب اسے عاق بھی کر دوں گا۔۔‘‘ پیر سائیں انتہائی دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’یہ تو آپ کا فیصلہ ہے نا۔۔۔آپ جو چاہیں کریں۔۔‘‘نادیہ نے ستے ہوئے چہرے سے کسی بھی جذبے سے عاری لہجے میں کہا۔
’’کیا مطلب بیٹی۔!میں جو تم سے معافی مانگ رہا ہوں۔۔‘‘وہ تیزی سے بولا۔
’’کیا اس طرح معافی مانگنے سے میرا طلاق یافتہ ہونے کا داغ مٹ جائے گا۔؟‘‘اس نے پر سکون لہجے میں کہا توایک دم سے بھونچکا رہ گیا۔اسے امید نہیں تھی کہ نادیہ اس سے ایسا سوال کرے گی۔جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا۔وہ حیرت اور اذیت سے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر دھیمے سے شرمندگی بھر ے لہجے میں بولا۔
’’میں مانتا ہوں بیٹی کہ اس نے بڑا ظلم کیا۔۔اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔اسے یہ۔۔۔‘‘
’’نہیں چاہے تھا کہ حویلی کی روایات کو توڑنا۔۔۔اس نے ان روایات کو توڑا۔۔آپ کے بیٹے نے مجھے آزاد کر دیا۔۔۔اور خود بھی آزاد ہو گیا۔پیر سائیں ۔!میں یہ جانتی ہوں کہ اسے آپ نے آنے سے منع کیا ہے یا نہیں کیا۔۔۔لیکن وہ اس وقت یہاں نہیں آنا چاہتا تھا جب تک میں یہاں پر ہوں۔۔۔کیا آپ اس سے انکار کرتے ہیں۔۔؟‘‘اس بار نادیہ کے لہجے میں کافی حدتک غصہ اتر آیا تھا۔تب وہ بولا۔
’’میں سمجھا شاید وہ صرف اپنی بات منوانے کے لیے ایسی بات کر رہا ہے۔۔‘‘
’’اس نے جوکر دیا۔یہ اس کا فیصلہ تھا اب جو میں کروں گی۔یہ میرا فیصلہ ہو گا۔یہ ٹھیک ہے کہ آپ میرے چاچا ہیں۔اس رشتے سے میں انکار ی نہیں ہوں۔لیکن جو سلوک آپ نے اور آپ کے بیٹے نے میرے ساتھ کیا ۔اب اس کے بعد آپ کو مجھ پر کون مان نہیں رہا۔اب آپ مجھ پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتے ۔اماں اگر جانا چاہتی ہے تو میرے ساتھ چلے ،ورنہ میں نے تو یہاں سے جانا ہی ہے۔ایک طلاق یافتہ عورت اپنے سسرال کیسے رہ سکتی ہے۔‘‘اس دفعہ نادیہ کے لہجے میں اعتماد تھا جیسے وہ انتہائی پختہ ارادہ کر چکی ہو۔
’’یہ کیا کہہ رہی ہو بیٹی۔!تم اسی طرح حویلی کی بیٹی ہو۔جیسے پہلے تھی،تم کیوں حویلی چھوڑ کر جاؤ گی۔‘‘پیر سائیں نے سارے جہاں کی شفقت اپنے لہجے میں بھرتے ہوئے کہا۔
’’وہ اس لیے پیر سائیں کہ مجھے اب اپنے والدین کا سوال بھی کرنا ہے۔۔۔مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ انہیں قتل کیوں کیا گیا۔۔۔؟‘‘ نادیہ کے لہجے میں چٹانوں جیسی سختی تھی۔اس کا اتنا کہنا ہی تھا کہ پیر سائیں یوں چونکا جیسے اس نے اپنے سامنے زہر یلا ناگ دیکھ لیا ہو۔
’’تمہارے ذہن میں یہ زہرکس نے بھر دیا نادیہ۔۔!وہ تو ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔اور یہ ایک ایسا المیہ تھا کہ۔۔۔‘‘
’’جھوٹ بولتے ہیں آپ۔۔۔وہ حادثہ نہیں تھا،انہیں قتل کیا گیا ہے۔اگر چہ اس وقت میرے پاس ثبوت نہیں ہے۔لیکن بہت جلد میں اپنے ماں باپ کے قاتل کے گلے میں پھندا ڈال دوں گی۔۔اور آپ مجھے ایسا کرنے سے نہیں روک سکتے۔۔۔‘‘نادیہ نے تیز لہجے میں کہا۔
’’میں تمہیں کہہ رہا ہوں نا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘‘پیر سائیں نے چیخ کر کہا۔
’’آپ کس ناطے سے مجھے یہ بات کہہ رہے ہیں؟‘‘اس نے انتہائی طنزیہ انداز میں پوچھا۔ تو پیر سائیں کو چپ لگ گئی۔اس سے ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتار ہ گیا۔چند لمحے خاموشی کے بعد وہ بولی۔’’سنو پیر سائیں۔!میں نے اپنی عدت کے دن گذارنے ہیں۔وہ میں کہیں بھی گذار لوں گی۔اس کے بعد میں نے اپنے والدین کے قاتلوں کی تلاش میں لگ جانا ہے۔میں بڑی آسانی کے ساتھ شعیب سے شادی کر سکتی تھی۔میں لاہور ہی سے نہ آتی۔اور اگر میں لاہور زبیدہ پھوپھو کے پاس نہ پہنچ جاتی تو شاید مجھے معلوم ہی نہیں ہونا تھا کہ میرے والدین کو قتل کیا گیا ہے ۔میں بھی اسے حادثہ ہی تصور کرتی رہتی۔میرا سوال یہ ہے کہ مجھے یتیم کیوں کیا گیا؟ کیا مجھے یہ سوال پوچھنے کا حق نہیں ہے؟ میں نے شعیب کو انکار ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ مجھ سے شادی نہ کرے اور میں اپنے والدین کے قاتلوں کی تلاش کر سکوں۔یہ میراحق ہے اور میرے اس حق سے مجھے کوئی بھی دستبردار نہیں کر سکتا۔‘‘نادیہ جس طرح لفظ کہتی چلی گئی تھی۔پیر سائیں کا رنگ فق ہوتا چلا گیا۔اسے یہ بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ جواب میں کیا کہے۔ان کے درمیان خاموشی طاری ہو گئی تھی۔وہ جس سے معافی کا طلب گار تھا۔وہی اسے تعزیر سنا رہی تھی۔بڑی مشکل سے اس نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا۔
’’نادیہ بیٹی۔!کیا تم یہ سب بھول نہیں سکتی۔تم جو چاہو۔میں ہی ماننے کو تیار ہوں۔ دیکھو۔اب تک جوحویلی کی عزت و وقار بن چکا ہے۔خدا کے لیے اسے داؤ پر مت لگاؤ۔ تمہیں اس میں کچھ حاصل ہو یا نہ ہو۔ قاتل مل سکیں گے یا نہیں،اس سے ہٹ کر دشمن اسی تک میں ہیں کہ ذرا سی کمزوری ملے تو وہ اس کا فائدہ اٹھائیں۔بنا بنایا بھرم ختم ہو جائے گا۔۔۔ظہیر شاہ کی نادانی ہمارے گھر کا معاملہ ہے۔۔اسے ہم خود ہی حل کر لیں گے۔۔حویلی کا بھر م مت توڑو۔۔۔‘‘
’’آپ نے اس حویلی کی روایات کو نہیں توڑنے دیا۔سانس تک سلب کر لیں۔میں نے آپ کے ہر فیصلے کر تسلیم کیا۔لیکن کیا میں اپنا حق مانگ سکتی ۔۔کیا آپ میرا حق بھی اب سلب کر لیں گے۔میں قانون کی مدد تو لوں گی۔۔اب مجھے انصاف ملتا ہے یا نہیں ملتا۔۔یہ اللہ جانے۔۔کیا آپ شرماں مائی کے قتل سے انکار کرتے ہیں ؟‘‘نادیہ نے کہا تو پیر سائیں کی جیسے جان ہی نکل گئی۔وہ کچھ نہ کہہ سکا اور اس قدر حیرت سے اپنی ماں کے چہرے پر دیکھا۔جیسے ایک آگ میں جلتا ہوا بچہ اپنی مامتا سے مدد کا طلب گارہوتا ہے۔اماں بی نے ایک بار یگی اس کی طرف دیکھا،اسی لمحے اس کی نگاہ حسرت ویاس کی تصویر بنی نادیہ پر پڑھی۔تب اس نے نفرت سے منہ پھیر لیا۔پیر سائیں اٹھا اور حویلی سے نکلتا چلا گیا۔وہ بالکل مایوس ہو چکا تھا۔اسے بالکل بھی امید نہیں تھی کہ حویلی میں بغاوت اس قدر ہو جائے گی کہ اس کا سب کچھ خش و خاشاک کی مانند بہہ جائے گا۔زندگی میں بہت سارے معا ملات ،انتہائی گھٹن حالات اور نازک ترین ، مسائل سے بھی اس کا واسطہ پڑا تھا۔لیکن یہ وقت اس پر آن پڑاتھا۔یہ اس کی اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔اس کا دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔ وہ بڑی مشکل سے اپنے کمرہ خاص میں آیا۔اور اس معاملے کر سوچنے لگا۔جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا ۔!لیکن اب آنے والے وقت کو وہ کیسے اپنی دسترس میں کرے گا۔اس کا شعور اسے خوفناک ترین منظر دکھانے لگا تھا۔نادیہ اوردادی اماں اگر حویلی سے چلی جاتی ہیں تو کیا ہو گا؟ انہوں نے اگر قانون کی مدد لے لی تو پھر رسوائی کس حدتک جائے گی۔قتل کی تفتیش یا اگرحویلی تک آگئے تو کیا ہو گا؟ مریدین کا ایک حلقہ جو اس کی عقیدت میں جان دینے کو تیار رہتا ہے،اس کا کیا ہو گا؟حویلی کی شان و شوکت مٹی میں مل جائے گی۔جس حویلی کی خواتین نے کبھی باہر قدم نہیں نکالا تھا،وہ اگر تھانے اور عدالتوں میں کھڑی ہو کر اسے کٹہرے میں لا کھڑا کریں گی تو وہ منظر کیا ہو گا؟ وہ نادیہ کو ہی نہیں جواب دہ نہیں ہو سکا تھا تو شرماں مائی کے لواحقین کے سامنے کیا جواب دہ ہو گا۔وہ چشم تصور سے خود کو عدالت کے کٹہرے میں دیکھ رہا تھا۔اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی تھی اور نادیہ اس پر الزام لگارہی تھی ،اور اس کی ماں،وہ اس کے خلاف گواہ کے طور پراسی عدالت میں بیٹھی تھی۔ایک ایک کر کے وہ سارے چہرے اس کی نگاہ میں آ گئے جن کی آواز دبانے کے لیے اس نے ظلم کئے تھے۔اس حویلی کی آن بان شان بڑھانے کے لیے جو کچھ اس نے کیا تھا۔وہی اس کے گلے کاپھندا بن کر اس کے سامنے جھول رہا تھا۔اچانک اس کے بائیں پہلو میں درد کی شدید لہر اٹھی۔جس سے اس کا دماغ مفلوج ہو کر رہ گیا۔ساری سوچیں بس ایک نقطے پر مرتکزہو گئیں۔زندگی کا رنگین پرندہ اس کے ہاتھوں سے چھوٹنے لگا۔ہوس سے بندھے سارے دھاگے ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگے۔حیاتی کے منصوبہ پر موت کی لکیر پھرنے لگی۔اس نے چاہا کہ دیوان کو آواز دے۔پوری کوشش بھی کی۔لیکن حسرت لفظ میں تبدیل نہ ہو سکی۔لفظ منہ میں ہی سے نہ نکل سکا۔بس سانس سرسراکر رہ گئی۔آنکھوں کے سامنے منظر دھندلانے لگے۔پھر اسے یوں لگا کہ سارے منظر پگھل گئے ہیں۔رنگوں کی شناخت ختم ہو گئی۔سانس کی جوڈوری تھی اس کو جھٹکے لگنے لگے۔اس نے ہوا میں سہارا تلاش کرنے کی لاشعور کوشش کی مگر اس کا بے جان ہاتھ زمین پر آ رہا۔اس کی روح قفس عنصری سے پروازگئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...