(Last Updated On: )
” پیاری دانی
مجھے معلوم ہے کہ یہ لیٹر جب تمہیں ملے گا تو میں تم سے بہت دور جا چکی ہوں گی۔ تم میری بہن ہو اس لیے مجھے تمہاری خوشیاں بہت عزیز ہیں مگر مجھے اپنے بھائی کو بھی خوش دیکھنا ہے۔ میرے بعد وہ بکھر جائیں گے۔ صرف ایک التجا ہے کہ زندگی کے کسی بھی مقام پہ ممکن ہو تو میرے بھائی کو سمیٹ لینا۔ میں جانتی ہوں کہ وہ ہمیشہ تمہارے منتظر رہیں گے۔ اپنا خیال رکھنا۔
تمہاری انیا “
آج میں نے انیا کا خط پڑھا جو ادیان نے مجھے دیا تھا۔ ایک طرف موحد ہے تو دوسری طرف ادیان۔ میرے دل میں ادیان کے لیے کچھ بھی سہی مگر موحد کے لیے جو محبت و عقیدت ہے، وہ سب سے الگ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں ادیان کی بات مان کر اس بچے کو خود سے دور کر دوں گی اور میں ایسا نہیں کر سکتی۔ کبھی نہیں۔ چاہے یہ کسی کو پاگل پن لگے یا کچھ اور۔ وہ میرا بیٹا ہے اور ماں اپنی اولاد کو کبھی اکیلا نہیں کرتی۔
تخیل سارے جھوٹے ہیں
محبت ماں کا بوسہ ہے
__________________________________________
“تم کل وہاں سے چلے کیوں گئے تھے؟ اور وہ لڑکا؟ تم پہلے سے جانتے ہو اسے؟”
“بلی یہ لائبریری ہے۔”
موحد نے آہستہ آواز میں کہا۔
“معلوم ہے مجھے اور بلی نہیں ہوں میں۔ علیشہ نام ہے میرا۔ علیشہ صفان۔”
علیشہ کا سپیکر اتنا اونچا تھا کہ موحد کا دل کیا کہ اپنا سر پیٹ لے۔
“اوکے علیشہ صفان آپ پلیز چپ کر جائیں ورنہ لائبریرین سر ہمیں باہر بھیج دیں گے۔”
“ہاں تو اس سے پہلے وہ بھیجے۔ آؤ ہم کیفے چلیں۔ مجھے بھوک لگی ہے۔”
موحد ہنسنے لگا۔
“تمہیں بھوک کے علاوہ کچھ اور لگتا بھی ہے؟”
علیشہ اسے گھورنے لگی۔
“تم بھی اب میرے کھانے کو نظر لگاؤ گے؟”
“نہیں۔ آپ جاؤ۔ مجھے کام ہے ابھی۔”
موحد واپس کتاب میں گم ہو گیا۔
“ارے عجیب نمونے ہو تم۔ ایک وہ تمہارا دوست مجھ پہ لائن مار رہا تھا اور تم ہو کہ۔۔۔”
موحد کی آنکھوں میں غصے اور خوف کا ملا جلا رنگ تھا۔
“وہ میرا دوست نہیں ہے اور آپ، آپ اس سے دور رہیے گا۔ وہ اچھا لڑکا نہیں ہے۔”
“اور تمہیں اتنی خوش فہمی ہے کہ میں تمہاری بات مانوں گی؟”
“نہیں مجھے یقین ہے کہ آپ میری بات مانیں گی۔”
علیشہ نے اسے دیکھا جو اپنی گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
“تم نے نام نہیں بتایا اپنا۔”
“موحد۔”
“پورا نام؟”
“صرف موحد۔”
“کیوں تمہارے بابا کا نام؟”
موحد نے اپنی بکس اٹھائیں اور کھڑا ہو گیا۔
“ایکس کیوز می۔ میری ماما آچکی ہوں گی۔ مجھے ان کے ساتھ لنچ کرنا ہے۔ سی یو۔”
علیشہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
“بدتمیز نہ ہو تو۔”
__________________________________________
موحد پڑھائی میں بہت اچھا ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ آرمی میں جائے مگر یہ اس کی مرضی پہ ڈیپینڈ کرے گا کہ وہ کیا پڑھنا چاہے۔ کچھ ماہ پہلے اس کے سکول میں ایک بچہ حیدر اسے اکثر میرے بارے میں غلط باتیں کہنے لگا تھا۔ وہ اکثر مجھ سے ایسے سوالات کرنے لگا کہ اس کے بابا کون ہیں؟ وہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟ کیا میں اس کی ماما نہیں؟ کیا میں نے اسے گود لیا ہے؟ ہر بار ایک نیا سوال میری پریشانی بڑھا دیتا تھا۔ میں وقتی طور پہ تو اسے کام کرنے کی کوشش کرتی مگر جوں جوں وہ بڑا ہو رہا تھا، بدتمیز ہوتا جا رہا تھا۔ پھر میں نے اس کا سکول چینج کروا دیا۔
__________________________________________
موحد بہت زیادہ نہ بولتا تھا مگر پھر بھی علیشہ کو اچھا لگا۔ وہ باقی لڑکوں کی طرح بدتمیز نہیں تھا۔ علیشہ نے بہت جلد اس سے دوستی کر لی تھی۔ کلاس میں تو وہ اکثر سوتی رہتی تھی۔ بہت سی دوسری عادات کی طرح اس کی یہ عادت بھی کسی سے ملتی تھی۔
ان کے پہلے سال کے اگزامز ہونے والے تھے۔ اب تیاری کے دوران جب بھی کوئی ٹاپک سمجھنا ہوتا تو وہ موحد سے سمجھ لیتی اور وہ اسے سمجھا بھی دیتا۔
__________________________________________
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
(جون ایلیا)
“چاچو ایک بات پوچھوں؟”
وہ لوگ ناشتے کی ٹیبل پہ تھے جب علیشہ نے پوچھا۔
“یہ علیشہ صفان کو کب سے کچھ پوچھنے کے لیے اجازت لینا ضروری لگنے لگا ہے؟”
وہ مسکرا رہا تھا۔ آج بھی اس کی مسکراہٹ جان لیوا تھی مگر اس مسکراہٹ کی نظر اتارنے والی اب کہیں نہ تھی۔
“چاچو آپ کبھی چاچی کے گھر کیوں نہیں جاتے؟ میرا مطلب ہے ان کی میکے؟”
اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔
“علیشہ تمہارا آج پیپر نہیں؟ چلو آج میں تمہیں ڈراپ کر دوں۔ زایان ہر روز کی طرح پھر سے لیٹ کر دے گا۔”
وہ ٹیبل سے چابیاں پکڑ کر اٹھا جب علیشہ نے اسے روکا۔
“چاچو وہ لوگ آپ کو غلط نہیں سمجھتے پھر آپ کیوں خود کو قصوروار سمجھ بیٹھے ہیں؟ تایا جان آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ اتنے سال گزر گئے مگر آپ آج بھی ان سے نہیں ملتے۔”
“علیشہ یہ وقت ان باتوں کا نہیں۔ چلو کالج دیر۔۔۔”
علیشہ نے اسے واپس کرسی پہ بٹھایا۔
“نہیں چاچو ابھی کافی ٹائم ہے۔ آپ پلیز آج مجھے بتائیں۔”
“میں پہلے بھی کئی بار تمہیں بتا چکا ہوں کہ میرے میں کبھی اتنی ہمت نہیں ہو گی کہ میں اس شخص کا سامنا کر سکوں کہ جس نے مجھ پہ بھروسہ کر کے کسی کو مجھے سونپا تھا اور میں اسے بچا نہ پایا۔”
“چاچو وہ اللہ کی امانت تھیں۔ آپ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں اسی وقت پہ جانا تھا اس دنیا سے۔”
اس کی آنکھوں میں آج بھی وہی درد تھا۔
“وہ بچ سکتی تھی علیشہ۔ اگر بلڈ ارینج ہو جاتا تو وہ بچ جاتی۔ وہ بچ جاتی۔ میں، میں اسے نہیں بچا سکا اور وہ چلی گئی۔ وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ میں نے سب کے سامنے کہا تھا کہ میں اسے کبھی کوئی خراش بھی نہیں آنے دوں گا مگر میں نے تو اسے مرنے دیا۔ میں نے اسے مرنے دیا علیشہ۔”
وہ اب بچوں کی طرح ٹیبل پہ سر رکھے رو رہا تھا۔
__________________________________________
ڈیل کے مطابق اگلے روز وہ گراؤنڈ میں موجود تھا۔ اس نے گراؤنڈ کے وسط میں ایک چھوٹا سا گول سٹیج بنوا کر اس پہ بہت خوبصورت فلورل ارینجمنٹ کروایا تھا۔ غالیہ ابھی یونیورسٹی نہیں آئی تھی۔ ریعان نے اسے کال کی۔ غالیہ ابھی تک سو رہی تھی۔ نیند میں ہی بغیر نمبر دیکھے فون اٹھایا۔
“گڈ مارننگ مس غالیہ۔”
“ہمم کون؟”
“ارے ابھی سے میری آواز بھول گئی ہیں آپ تو۔ ابھی تو اگلے ہفتے۔۔۔”
“آپ؟”
وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔
“جی میں آپ کا ہونے والا۔۔۔”
غالیہ نے اس کی بات کاٹی۔
“اس وقت فون کیوں؟”
“وہ کیا ہے کہ اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا کی میری ہونے والی بیوی اتنی بھلکڑ ہے تو میں۔۔۔”
“ایکس کیوز می۔ ابھی آپ نے معافی۔۔۔”
“اسی لیے تو میں نے آپ کو کال کی ہے کہ آپ ذرا اٹھنے کی زحمت کریں اور یونی تشریف لے آئیں۔”
“مگر”
“آئی ایم ویٹنگ غالیہ۔ یو ہیو اونلی ففٹین منٹس۔”
ریعان نے فون بند کر دیا۔
‘نہیں ایسا کیسے ہو سکتا یے۔ وہ، وہ سب کے سامنے کیسے اور پھر اگلے ہفتے۔ نہیں غالیہ تم خواب دیکھ رہی ہو۔ ویک اپ ویک اپ۔’
وہ اپنے چہرے پہ تھپڑ مارنے لگی۔ اسے اریج کا خیال آیا۔
‘جیری۔ ہاں جیری ہی قاشی بھائی سے کہہ کر اسے منع کروا سکتی ہے۔’
“جیری”
اس نے سوئی ہوئی اریج کو ہلایا۔
“جیری اٹھو نا۔ بہت گڑبڑ ہو گئی ہے۔”
“کیا ہے؟ اب اور کیا ہونا رہ گیا؟”
“جیری وہ ریعان۔”
غالیہ روہانسی ہوئی۔
“کیا ہوا سر کو؟”
“کچھ ہو ہی نہ جائے اس بندر کو۔”
“شرم کرو۔ تمہاری ان سے ہی شادی ہونی ہے۔”
“یہی تو مسئلہ ہے۔ وہ، وہ نیکسٹ ویک ہی۔۔۔نہیں جیری تم قاشی بھائی سے کہو کہ اسے سمجھائیں۔ میں نے اس سے شادی نہیں کرنی۔ مطلب اتنی جلدی نہیں۔”
“کیا بول رہی ہو؟ کیا ہوا ہے؟”
غالیہ کا فون بجا۔
“ہے۔۔ہیلو۔۔۔”
“وہ میں نے بتانا تھا کہ اگر پندرہ منٹ سےایک سیکنڈ بھی اوپر ہوا تو بغیر کچھ کیے ڈیل میرے حق میں جائے گی۔”
فون بند ہو چکا تھا مگر وہ ابھی بھی فون کان سے لگائے بیٹھی تھی۔ اریج نے اسے پکڑ کر ہلایا۔
“کیا ہوا ہے غالیہ؟ کس کا فون تھا؟”
“ہاں؟ وہ، وہ ریعان۔ وہ گراؤنڈ میں۔۔۔”
پھر اس نے ایک دن پہلے ریعان سے ہونے والی ساری بات بتا دی۔
“دیکھو تم نے خود اپنے پیر پہ کلہاڑی ماری ہے۔ کس نے کہا تھا ایسی بکواس ڈیل کرنے کو؟ سر کا تو تمہیں پتا ہی ہے۔ اب اللہ جانے کون روکے گا انہیں۔ ایسا کرو تم شادی کے لیے شاپنگ سٹارٹ کر دو۔ ہنس کر یا رو کر شادی تو سر سے ہی ہو گی تمہاری۔”
“تم پاگل ہو گئی ہو کیا؟”
“دیکھو غلطی تمہاری اپنی ہے۔ تم انہیں آرام سے قائل کر سکتی تھی۔ سر تو تمہیں اتنا پسند کرتے ہیں پھر وہ تمہاری بات کیسے نہ مانتے؟”
“ہاں جیسے آج تک تو اس نے میری ہر بات سنی ہے نا۔ جتنا اس نے مجھے آج تک تنگ کیا ہے نا، میں گن گن کے بدلے لوں گی اس سے۔ مجھے تو ابھی تک اس یونیورسٹی میں اپنا پہلا دن نہیں بھولا جب اس نے میرے اوپر وہ گندے مرے ہوئے مینڈکوں کا شاپر انڈیلا تھا۔”
“ہا ہا ہا ہا ویسے کتنا مزہ آیا تھا نا۔”
“شٹ اپ جیری۔ ادھر میری جان پہ بنی ہے اور تم۔”
“اچھا اچھا اب بتاؤ کیا کرنا ہے تم نے؟”
“کرنا کیا ہے؟ تم قاشی بھائی سے کہو۔”
“او ہیلو۔ میں ان سے ایسا کچھ نہیں کہنے والی۔ تم خود ہی بھگتو سر کو۔”
“پلیز جیری۔ دیکھو آٹھ منٹ رہ گئے ہیں۔ وہ ایسے ہی جیت جائے گا۔”
“اچھا کرتی ہوں کال۔”
اریج نے شائق کا نمبر ملایا مگر وہ بند تھا۔
“دیکھو غالیہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ شائق خود ہی بعد میں ہینڈل کر لیں گے۔ کم از کم تم اس سے سب کے سامنے معافی تو منگوا ہی لو گی۔ آؤ چلتے ہیں۔”
“ہاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ قاشی بھائی تو بعد میں بھی اسے سیدھا کر سکتے ہیں مگر اس کا فالودہ تو بار بار نہیں بنے گا نا۔”
“فالودہ؟”
“میرا مطلب ہے ویڈیو۔ دیکھو جیری جب وہ مجھ سے معافی مانگے گا تو تم نے سائیڈ پہ جا کر ساری ریکارڈنگ کرنی ہے۔ ٹھیک ہے؟”
“کیا مطلب؟ ارادے کیا ہیں تمہارے؟”
“ارے بھئی فیس بک کا زمانہ ہے۔ اپنے ‘پرانے دشمن’ اور ‘ہونے والے شوہر’ کی تھوڑی سی تواضع کروں گی۔”
غالیہ نے اسے آنکھ مارتے ہوئے بتایا۔
“باز نہ آنا تم اپنی حرکتوں سے۔”
__________________________________________
جن کے جانے سے جان جاتی تھی
ہم نے ان کو بھی جاتے دیکھا ہے
(نصیر الدین شاہ نصیر)
آج اس کی بیٹی سترہ سال کی ہو گئی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی فالحہ کی سالگرہ یونہی گزر جاتی مگر اس بار اس کے دادا نے خاص اہتمام کیا تھا۔ چند رشتے داروں کو بھی دعوت نامہ دیا گیا جن میں علیشہ اور زایان بھی شامل تھے۔ سب اس کی خوشی میں خوش تھے سوائے اس کے باپ کے جو کیک کٹتے وقت بھی وہاں موجود نہ تھا۔
“علیشہ بیٹا آپ کے چاچو نہیں آئے۔”
یہ فالحہ کے دادا تھے۔
“دادا جی آپ کو پتا تو ہے ان کا۔ پھر بھی آپ کو امید تھی کہ وہ آئیں گے؟”
“پتا نہیں کب اسے اس خود اذیتی سے نجات ملے گی۔”
“آپ فکر نہ کریں دادا جی۔ ایک دن وہ ضرور آئیں گے یہاں۔ تایا جان کہاں ہیں؟”
“کہاں ہو سکتا ہے وہ۔ آفس سے آکر اسے اپنے کمرے سے باہر نکلنے کا ہوش نہیں ہوتا۔ ابھی بھی وہیں ہو گا۔ یہ بھی نہیں احساس کہ کسی ایک کی محبت میں کسی دوسرے کو اپنے پیار سے محروم کر کے غلط کر رہا یے۔”
دادا جی نے فالحہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو اداس بیٹھی تھی۔ آج بھی اس کے باپ نے اس کے سر پہ ہاتھ تک نہیں رکھا تھا۔
“وہ جس کی امانت تھی، اس نے لے لی۔ میری بیٹی تھی۔ مجھے ہی معلوم ہے کہ میں نے کیسے صبر کیا ہے۔”
دادا جی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ علیشہ ان کے گلے جا لگی۔
“دادا جی آپ چاچو کو سمجھائیں۔ وہ ہر روز اسے ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں۔ اتنے سال ہو گئے ہیں۔ وہ کب تک یوں خود کو اذیت دیں گے؟”
“وہ دیوانہ ہے علیشہ۔ اسے میری بیٹی ایسا بنا گئی ہے۔ وہ بے بس یے۔ وہ جب تک ڈھونڈ نہیں لے گا، اسے چین نہیں آئے گا۔ جن سے محبت و عقیدت کے رشتے جڑ جاتے ہیں نا، ان کی کہی گئی بات پتھر پہ لکیر کے مترادف ہوتی ہے۔ اس نے بس ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ وہ اس کی تو جان نہیں بچا پایا مگر جسے وہ اس کو سونپ کر گئی تھی، اسے اپنی جان گنوا کر بھی کچھ نہیں ہونے دے گا۔”
“مگر دادا جی اگر وہ کبھی نہ ڈھونڈ پائے تو؟”
“علیشہ تم ابھی چھوٹی ہو بہت۔ تمہیں نہیں پتا۔ کسی سے عقیدت آپ کو ایسا یقین عطا کرتی ہے کہ پھر چاہے ظاہری طور پہ بھی کچھ ممکن نہ دکھائی دے رہا ہو تو بھی ممکن ہو جاتا ہے۔”
“میری دعا ہے کہ ان کی تلاش مکمل ہو جائے۔ مجھ سے چاچو کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔”
دادا جی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
“چلو اب میں اندر چلتا ہوں۔ تم لوگ انجوائے کرو۔”
“اوکے دادا جی۔”
“آپ کو نیچے آنا چاہیے تھا۔ اسے اچھا لگتا۔ اب وہ چھوٹی نہیں رہی۔”
“ہاں معلوم ہے مجھے مگر میں کیا کروں؟ اسے دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آ جاتا ہے جب وہ مجھ سے چھین لی گئی تھی۔”
کسی کا تصور اس کا لہجہ بھگو گیا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ پاس بیٹھی عورت نے اپنے شوہر کو دیکھا جو ویسا بالکل نہیں رہا تھا جیسا سترہ سال پہلے تھا۔
__________________________________________