سوال میں چھپے معنی دھوندنے کی کوشش کر رہی تھی ھجستہ کے مرنے کے علاوہ کوئی بات ہوئی ہے تمھاری بات تمھاری اپنی زندگی کی کوئی بات وہ اپنے مستھکم انداز میں کہہ رہا تھا کہ وہ دھک سی رہ گی تھی۔
تم مجھے نہیں بتاو گی مجھ سے شئیر کرو گئی زوبیہ کیا ہوا ہے پلیز مجھے بتاو وہ اس کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ کر بڑے اصرار سے بول رھا تھا ۔وہ جواب میں اس سے بولنا چاہتی تھی
اپکو غلط فھمی ہو رھی ھے ۔میرے ساتھ کچھ نہیں ھوا کوی پرابلم نہیں ھے میرے ساتھ مگر بجاے یہ کہنے کہ اس کے منہ سے ایک مختلف جملہ نکلا تھا “میری خالہ امی مرگی” جملہ مکمل کرتے کرتے وہ رو پڑی تھی۔جوابا اس نے ایک گہری سانس لے کر آھستگی سے پوچھا تھا
کب؟
پانچ مہینے ھو گے اور مجھے چار روز پہلے پتا چلا کہ مجھ سے تھوڑی بہت مصلہت آمیزی سہی محبت کرنے والی واحد ھستی تھی اس دنیا سے رخصت ہو گی وہ گٹھنوں پر سر رکھ کر روتے ہوے بول رہی تھی۔اس نے تسلی دینے والے انداز میں اس کے کندھے پر ھاتھ رکھا تھا مگر اسے چپ کروانے کی کوشش نہیں کی تھی
میں ھر مہینہ انھیں پیسے بھیجا کرتی تھی کبھی ﮈاکڑر تاجدار سے منی آرﮈر کرواتی۔کبھی اسٹاف کے کسی اور بندے سے کہ سب کو پتا رھے کہ میں بے آسرا اور بے ٹھکانا نہیں۔پیچھے میرا ایک گھر ہے کچھ لوگ ہیں میرے اپنے جنہیں میری پرواہ ہے پچھلے پانچ مہینوں سے اس طرح میر ے بھیجے ھوے پیسے موصول ھوے جا رھے تھے۔خالہ امی پڑھی لکھی نہں تھی وہ شہلہ سے خط لکھواتی تھی اس کی شادی کے بعد ان کے خط انا بند ہو گے تو میں حیران نہیں ہوئ۔مینے اس دوران دوبارہ فون کیا تو بھابی نے کہا نہارہی ہیں یا بازار گی ہیں اور مینے ان کی بات سچ مان لی پھر اس روز جب مینے فون کیا تو بھائی کے بجاے ملازما نے فون اٹھایا اور میرے پوچھنے پر مجھے یہ خبر سنائ تھی
وہ زار وقطار روتے ہوے اسے بتا رہی تھی اس نے مزید کوئی سوال نہیں کیا تھا بلکہ اپنا ھاتھ بھی واپس ہٹا لیا تھا۔بہت دیر تک روتے روتے وہ خود ہی چپ ہو گئ تھی گٹھنوں پر سے سر اٹھا کر چہرہ ﮈوپٹے سے خشک کرتی وہ اپنے سچ بولنے سے زیادہ اس کے صحیح بات کھوج لینے پر حیران تھی
تمہیں حیرت ہو رہی ہے ک مجھے یہ کیسے پتا چلا بات یہ ہے زوبیہ خلیل کہ جن کی ھمیں بہت پرواہ ہوتی یے ھم ان کے چہرے پر لکھا ھر تحریر پڑھ لیتے ھیں تم خجستہ سے بہت پیار کرتی تھی مجھے پتا ھے مگر اس روز تمھارا ابنارمل رویہ دیکھ کر مجھے لگا شاید تم پہلے ھی کسی صدمے کے زیر اثر ھو اور دوسرا صدمہ تم سہ نہیں پا رھی مجھے ایسا لگا تھا کہ کوئی دو دکھ ھیں جو آپس میں مل گے ھیں اور جنھوں نے تمہیں اس طرح تور پھوڑ دیا ھے۔وہ اس کی طرف دیکھتے ہوے رسانیت سے کہہ رہا تھا
ہاں دو دکھ تو ہیں ایک خجستہ کے مرنے کا اور دوسرا زوبیہ خلیل کے مرنے کا اور وہ پہلی بار نہیں مری اس سے پہلے بھی کئ بار مر چکی ھے اپکو پتا ھے زوبیہ مر گئ اس دن خجستہ کی لاش دفن ھوئی اور اس کی ہر آس ھر امید ھر خواہش سب دفن ھو گئ اب میرا کوئی گھر نہیں میں اکیلی ھوں میرا کوئی نہیں بلکل تنہا میں سوچتی تھی کہ کوئ مشکل پڑی کوئی الجھن آئی تو کم از کم خالہ امی کا گھر تو مجھے ضرور پناہ دے گا وہ بھی ختم ہو گئ اور کسی نے بتایا تک نہیں میں اتنی قابل نفرت تھی اتنی بیکار ھستی تھی کہ مجھے کسی نے اطلاع دینا بھی ضروری نہیں سمجھا وہ تاحد نگاہ پھیلی ہوئی جھیل پر نظریں مرکوز کیے عجیب سی بے بسی میں گھرے بول رہی تھی۔
تم اکیلی نہیں ھو زوبیہ میں تمھارے ساتھ ہوں اس کا ہاتھ تھامے ھوے اس نے یقین دلایا تھا۔آپ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے ﮈاکڑر اسفند کچھ نہیں اگر میری سچائی جان لیں تو دبارہ شاید کبھی
اس نے بات کاٹ دی تم کل کیا تھی تمارا کیا ماضی تھا۔مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑھتا اس لیے کے جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو اسے خامیوں خوبیوں سمیت قبول کر لیتے ہیں محبت میں سورے بازی نہیں ہوتی۔وہ بے چینی سے اسے دیکھ
رہی تھی ۔اتنا اندھا اعتماد اتنا اندھا بھروسہ اس کے دل کی عجیب کیفیت تھی ۔
آپ بس مجھے پچھلے ڈیرھ سال سے مجھے جانتے ہیں پھر بھی یہ سب کہہ رہے ہیں ۔آپ کو کیا معلوم میری زندگی کے پیچھے کتنے باب سیاہ تھے میں نے آپ لوگوں سے کیا کیا جھوٹ بولے۔آپ کو پتہ چلے تو حیران رہ جائیں ۔بظاہر ایماندار سچی لڑکی کتنی دھوکے باز ہے ۔میں نے آپ لوگوں سے کہا میرے ماں باپ مر چکے ہیں ساری دنیا میں ایک خالہ کے علاوہ کوئی نہیں مگر نہ وہ میری سگی خالہ تھی نہ میں کراچی تنہا رہنے کے ڈر سے ان کے پاس پشاور گئ۔کیا آپ سوچ سکتے ہیں میرا کراچی میں ایک گھر ہے جہاں میرے دو بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔
وہ گھر جہاں پیدا ہوئی پلی بڑھی جوان ہوئی ایسا کیا ہوا کے باپ کا گھر چھوڑ کر خالہ کے پاس آ گئی ۔وہ بہت بے رحمی سے بول رہی تھی ۔
میں یہ بات بہت پہلے سے جانتا ہوں ۔وہ اطمنان سے بولاوہ اسکی طرف دیکھتی رہ گئی ۔
تم نے گھر کیوں چھوڑا وجہ نہیں پتہ مگر جب سے تم نے جوائن کیا تب سے سب جانتا ہوں ۔کہ تمہارے دو بھائی اچھے گھر میں ہیں باپ کا گاڑیوں کا شو روم تھا ۔جسے اب تمہارے بھائی چلا رہے ہیں ۔انٹرویو کے وقت جیسے کے بتا چکا آپ بہت پرخلوص لگی تمھارا اس بات پر گڑ بڑا جانا کے تم کیوں یہاں جاب کرنا چاہتی ہو مجھے کھٹکا ایسے جیسے بہت کچھ چھپا رہی ہو ۔تمہارے ڈاکومنٹس سے کراچی کا لینا کوئی مشکل نہیں تھا ۔تمہارے بارے میں درست معلومات لینا چاہتا تھا اور لی بھی ایک لڑکی اپنا گھر چھوڑ کر اپنی باتیں چھپاتی ہے پھر بھی میں نے تمہیں اپائنٹمنٹ میں رہنے کی اجازت دی۔اتنے ٹائم میں جو میں نے جانا میرا اندازہغلط ثابت نہیں ہوا۔
وہ شروع دن سے اس کے جھوٹ کو جانتا تھا ۔
اس سے زیادہ تو آپ یقینا کچھ نہیں جانتے ۔میرے ماضی کے بارے میں اس نے سر اٹھا کر سنجیدگی سے کہا ۔اسفندیار خاموش بیٹھا رہا ۔
پھر آج آپ زوبیہ خلیل کا ماضی جان لیں۔اور میں سب سچ بتاؤں گی اس لیے نہیں کے آپ مجھے جرت مند سمجھیں اس لیے کے کوئی اگر بتائے گا کن الفاظ میں بتائے وہ میں سہہ نہیں پاؤں گی ۔
میرے گھر میں ابو بہت پیاری امی تھی میرے ابا کراچی یونیورسٹی میں پڑھے ایم کیا ہوا تھا مگر تعلیم ہونے کے باوجود انتہا پسند تھے بہت سخت ظالم شوہر تھے ۔امی ہر وقت ڈرتی کے کوئی بات ان کے مزاج کے خلاف نہ ہو جائے ۔
ان کے مزاج کے خلاف بات ہو جاتی زمین آسمان ایک کر دیتے ۔امی کا کسی کے گھر جانا ملنا خاص کر مرد رشتہ داروں کا انا جانا برداشت نہیں ہوتا تھا
۔ان کے رویے سے خائف ہوکر لوگوں نے خود ہی ہمارے گھر آنا چھوڑ دیا ۔امی بازار نہیں جاسکتی تھیں ۔وہ امی کی اور ہم بہن بھائیوں کی ساری خریداری خود کرکے لے آیا کرتے تھے۔ہمارے گھر میں روپے پیسے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا،ابی کا شوروم بہت اچھا چل رہا تھااس کے علاوہ ان کی طارق روڈ پر تین دوکانیں تھیں،جہاں سے ہر ماہ ٹھیک ٹھاک کرایہ آجایاکرتا تھا ،گھر میں تین تین گاڑیاں تھیں مگر اس کے باوجود امی بہت چپ چپ اور بجھی ہوئی رہتی تھیں ۔ انہوں نے شوہر کی خدمت میں خود کو مٹا ڈالا تھا مگر ابی پھر بھی معمولی سی بات پر انہیں زلیل کر کے رکھ دیا کرتے تھے ۔ہم بہن بھائیوں کے سامنے کسی آئے گئے کے سامنے،جب وہ کسی کے سامنے شدید طیش کے عالم میں چیخ چیخ کر امی کو برا بھلا کہتے تو وہ مجھےبہت برے لگتے تھے۔
امی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ صرف ہم تینوں بہن بھائیوں کی سے ہی آیا کرتی تھی ۔وہ ہم لوگوں سے بہت پیار کرتی تھیں ، مجھ سے تو بہت ہی زیادہ،میں اپنے بھائیوں سے بہت چھوٹی تھی،میں سات سال کی تھی جب ابی نے ریحان بھائی کی شادی طے کردی تھی،امی ان دنوں بہت بیمار رہنے لگی تھیں،
جب شیمابھابھی رخصت ہو کر ہمارے گھر آگئی تھیں۔ابی کے لئے ان کی بیماری ڈرامہ بازی اور ڈھکوسلہ تھی،وہ ابی سے چوری چھپے کبھی ریحان بھائی ،
کبھی فرمان بھائی کے ساتھ ڈاکٹر کو دکھا آتیں۔ڈاکٹر مختلف ٹیسٹ بتاتا،دوائیں دیتا وہ دوائیں تو کھالیتیں،مگر ٹیسٹوں وغیرہ کیطرف توجہ نہ دیتیں۔شایدابی کے نظر اندازکرنے کی سزاوہ اپنے آپ سے لی رہی تھیں،مگر پھر ایک روز ایساآیا جب ابی کو بھی یہ مانناپڑا کہ وہ ڈرامہ نہیں کر رہی ہیں،مگر جب انہونے یقین کیااس روز میری ماں سفیدکفن اوڑھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر جاچکی تھی
چند دن ابی کے ندامت میں گزرے،انہیں تھوڑا بہت ملال ہواکہ بیوی کے علاج معالجے پر مناسب توجہ کیوں نہ ری۔ امی سے جو خدمتیں کروانے کی عادت ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ سے بھی ان کی کمی بہت محسوس ہوئی،مگر پھر آہستہ آہستہ انہوں نے اس ماحول میں ایڈجسٹ کرلیا۔
شیما بھابھی جنہیں بیاہ کر آئے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئےتھے،امی کے بعرگھر کا سارا نظم ونسق ابی نے ان کے ہاتھ میں سونپ دیا تھا۔وہ ابی کے خوب اگے پیچھے پھرتی تھیں ۔انکا بہت خیال رکھتی تھیں اسی لیے کچھ ہی عرصے میں ان کی پسندیدہ ترین شخصیت بن گئی تھیں ۔
امی کی جن خدمتوں کو وہ درخوراعتنا نہیں سمجھتے تھے،بھابھی انکا نصف بھی کرتیں تو وہ تعریفوں میں زمین آسمان ایک کردیتے۔شایداس لئے کہ وہ تو بیوی تھیں،بیوی جو پیر کی جوتی ہوتی ہےاور شیما بھابھی تو انکا خون تھیں ،ان کی سگی بھانجی،لاڈلی بہن کی اولاد، ابی گھر کا ہر کام شیما بھابھی کے مشورے سے کرنا پسند کرتے تھے۔میرے ساتھ شیما بھابھی کے تعلقات نارمل سے تھے۔میرا اپنا لگا بندھا روٹین تھا،جس سے ہٹنے کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتاتھا۔میں ان کے لیے کسی بھی قسم کی تکلیف کا باعث نہیں تھی۔ساڑھے سات،آٹھ سال کی بچی سے انہیں پرخاش ہو بھی کیا سکتی تھی۔
ابی کا ہم لوگوں پر غیر معمولی احسان یہ تھا کہ ہم بہن بھائیوں کو اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی تھی،مگر ریحان بھائی اور فرمان بھائی دونوں ہی کو پڑھنے کا زیادہ شوق نہیں تھا۔اس لیے گریجویشن کر کے ان کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو گئےتھے۔میں بھی کوئی بہت اچھی زہین طالبہ نہیں تھی،بس گزارے لائق پاس ہو جایا کرتی تھی۔ہر بار رپورٹ کارڈ ریکھتے ہوئےابی کا پارہ آسمان پر چڑھ جایا کرتا تھا۔
ساری کی ساری اولاد کندزہن ہے،کسی ایک کو بھی تعلیم کا شوق نہیں ۔
میں بڑی ہو رہی تھی،ابی کےخوف ک باوجود میرے اندر بہت سی معصوم معصوم سی خواہشیں جنم لینے لگی تھیں۔میرا دل چاہنے لگا تھاکہ میں بھی اپنی دوستوں کی طرح اپنی شاپنگ اپنی پسند سے کیا کروں،میری وارڑروب کپڑوں سے بھری ہوئی تھی مگر ان میں میری پسند کاایک بھی کپڑا نہیں تھا۔سارے کے سارے ابی اور شیما بھابھی کے پسند کے کپڑے تھے،اسکول کے علاوہ مجھے کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔میری کسی روست کے گھر کوئی فنکش ہوتا یا اسکول میں کوئی پکنک،پارٹی ہوتی میرے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا۔ایک بار میری۔ بیسٹ فرینڈ کرن کی برتھ ڈے پارٹی تھی۔اس نے بڑے اصرار اور خلوص سے مجھے انوئیٹ کیا۔میں نے اس کے اصرار سے مجبور ہو کر،جب اسے یہ بتایا کہ مجھے کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تو میرے پیچھےلگ گئی کہ وہ ابی سے خود بات کر کے مجھے اجازت دلوائےگی۔جب وہ ہمارے گھر دعوت دینے آئی اپنی ممی ڈیڈی کے ساتھ تو ابی ان لوگوں سےجتنے روکھے پھیکے اور سردانداز میں ملے اسے دیکھتے ہوئےوہ لوگ تھوڑی دیر ہی ٹھہرے تھے۔ان کے جاتے ہی ابی جو میرے اوپر چیخے چلائے اور برا بھلا کہا تو جب تک شیما بھابھی نے آکر بیچ بچائو نہیں کرایا چپ نہیں ہوئے۔اں کی طرح سیرسپاٹوں کی شوقین ہے۔اسکول پرھنے بھیجتا ہوں یارشتےداریاں کرنے،آج کے بعرکسی دوست کے گھرجانے کی بات کی یا کوئی ہمارے گھر آیاتو گھر بٹھالوں گا۔”انہونے وارننگ دینے والے انداز میں کہا تھا۔
مجھے اس سب کا پہلے ہی اندازہ تھا۔اگلےروز میں اسکول گئ تو کرن نے بات چیت تو درکنار مجھ سے ہاتھ تک نہیں ملایا تھا۔اس کی اور اس کے والدین کی ہمارے کی ہمارے گھر جو عزت افزائی ہوئیتھی اس کے بعد اس کا ناراض ہونا بالکل جائز تھا،میرےبہت معزرت کرنے پر بھی اسکا دل صاف نہیں ہوا تھا،مجھے چھوڑ کر اس نے دوسری فرینڈز بنالی تھیں ۔
تب زندگی میں پہلی مرتبہ میرے دل میں ابی کے لیے نفرت پیدا ہوئی تھی ۔ابی،اپناگھر اور گھر کا ماحول مجھے سب سے سخت نفرت محسوس ہونے لگی تھی ۔
مجھے ایسا لگتا میں کسی قید خانے میں زندگی گزار رہی ہوں ۔جس سے چند گھنٹوں کے لیے چھٹکارا مجھےصرف اسکول جاکر ہی نصیب ہو تا تھا۔میری دوستیں فلموں،ڈراموں،فیشن،کپڑوں،کرکٹرز،فلم ایکٹرز اور ان کے اسکنڈلز کے بارے میں باتیں کرتیں اور میں ایک طرف خاموش بیٹھی انہیں دیکھتی رہتی۔
“کیوں زوبیہ! تمہیں عامرخان کیسا لگتا ہے؟” ایک کلاس فیلو پوچھتی تو دوسری اسے ٹہوکا دیتے ہوئے کہتی۔
“ارےاس سے کیا پوچھ رہی ہو،وہ سمجھ رہی ہوگی کہ شاید عامرخان تمہارے کسی کزن کا نام ہے۔”
اس کے کومنٹس پر سب کھلکھلا کر ہنس پڑتیں۔میرے ایک دفعہ کے بتادینے پرکہ ہمارے گھر ٹی وی نہیں،اب وہ لوگ اسی طرح میرا مزاق اڑاتی تھیں،کافی کچھ انہیں کرن نے بھی بتادیا تھا۔وہ لوگ پیٹھ پیچھے تو میرا اور بھی مزاق اڑایا کرتی تھیں ۔میں دن بدن احساس کمتری کا شکار ہوتی جا رہی تھی،ٹین ایج میں انسان یوں بھی اتنا با شعور تو ہوتا نہیں اس لیے میں کلاس فیلوز کے معمولی معمولی مزاق کو لے کر بھی گھنٹوں کڑھا کرتی ۔
کورس کی کتاب کے علاوہ کوئی کتاب اگر ابی کو غلطی سے بھی میرے ہاتھ میں نظر آجاتی تو وہ شاید مجھے قتل کر دیتے۔ایک مرتبہ انہوں نے مجھے کامک بک پڑھتے ہوئے ریکھ لیاتھا،جو میں اسکول کی لائبریری سے ایشو کروا کے لائی تھی تو انہوں نے کتاب تو اٹھا کر دور پھینکی ہی تھی۔میرے منہ پر بھی ایک زوردار تھپٹر مارا تھا۔تب سے ہی میں نے کورس کی کتابوں کے علاوہ کسی دوسری کتاب کو ہاتھ لگانے سے توبہ کر لی تھی۔
فرمان بھائی کی شادی ہوگئی اور نجمہ بھابھی ہمارے گھر آگئیں تو میرے ان تمام احساسات کو اور ہوا ملی۔وہ ہمارے رشتے داروں میں سے نہیں تھیں،بلکہ ابی کئ دوست کہ بیٹی تھیں ۔اور انکے آتے ہی ہمارے گھر کےرنگ ڈھنگ میں بہت سی تبدیلیاں آگئی تھیں ۔وہ ٹی وی جہیز میں لائی تھیں ۔جو ان کے کمرے میں چلتا تھا۔اور ابی نے اس بات پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا تھا۔میرا دل چاہتا تھا میں بھی ابی سے چوری چھپے ان کے کمرے میں جا کر ٹی وی دیکھوں ۔مگر وہ مجھے،جینا اور فرخ کو باکل منہ نہیں لگاتی تھیں ۔شیما بھابھی کو دیکھ کر بھی ان کی تیوری پر بل ہی پڑے رہتے تھے۔شیما بھابھی یہ کیسے برداشت کر سکتی تھیں کہ دیورانی سے پیچھے رہ جائیں،فورا” ہی انہوں نے ابی کو پتا نہیں کس طرح رام کیا تھا کہ ریحان بھائی ان کے لیے بھی ٹی وی لے آئے تھے۔اب وہ اپنے بچوں اور ریحان بھائی کے ساتھ آرام سے کمرے میں بند ہو کر فلمیں دیکھتیں،گانے سنتیں یعنی ساری پابندیاں اور تمام اصول صرف میرے لیے تھے۔ہماری ایک رشتے کی پھپھو جو زرا منہ پھٹ قسم کی تھیں،انہوں نے یہی بات ابی کے منہ پر بول کر میرا دل خوش کردیا تو ابی بڑے مطمئن انداز میں بولے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...