وہ شکل سے تو نہیں پہچان پایا مگر آواز….
وہ اس آواز کو کبھی نہیں جھٹلا سکتا تھا وہ بلاشبہ شانزے کی آواز تھی….
باذل تو اک جھٹکا کھا کر رہ گیا…..
کہاں گیا وہ حسن…؟
کہاں گیا وہ مکمل وجود…..؟
جس پہ شانزے نے کبھی غرور کیا تھا…..
جس مکمل وجود کی بنا پہ وہ باذل کی معذوری میں اسکو چھوڑ کر گئی تھی…..آج باذل مکمل وجود اور وہی اپنی خوبصورت شخصیت کے ساتھ اسکے سامنے تھا اور اسکا یہ حال تھا کہ اس حسن کا نام و نشان تک نہیں تھا….. وہ مکمل حسن اور وجود آج کھوکھلا تھا…. باذل یک ٹک اسکو دیکھے جارہا تھا اور شانزے کی نظریں جھکی ہوئیں تھیں
شااان…زےےے…. تم….!!!! یہ…. یہ کیا حالت ہوگئی ہے تمہاری… کیا ہوا ہے یہ سب….؟
باذل نے بے یقینی کی کیفیت میں شانزے سے پوچھا اس کا اشارہ اسکے جلے ہوئے چہرے کی طرف تھا…..
شانزے نےنظریں اٹھائیں اور افسردہ لہجے میں کہا…
” لمبی کہانی ہے باذل…
لوگ کھڑے عجیب نظروں سے باذل اور شانزے کو دیکھ رہے تھے باذل کی گاڑی کا پنکچر لگ چکا تھا
اس نے شانزے سے کہا گاڑی میں بیٹھو وہ فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئی باذل نے مکینک کو پیسے دئیے اور جلدی سے گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اور گاڑی اسٹارٹ کرکے اک گلی میں لےجاکر روک دی…..
وہ گلی اس وقت تقریبا ویران تھی….
ہاں اب بتاؤ شانزے…..
باذل شانزے کے طرف متوجہ ہوا…..
شانزے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو مڑوڑنے لگی…..
باذل یہ کچھ نہیں بس مجھے میرے غرور کی سزا ملی ہے…..
میری خودغرضی کی سزا ہے یہ….
آج سے دس سال پہلے میں نے تمہارے ساتھ جو سلوک کیا اپنے معصوم بیٹے کے ساتھ جو زیادتی کی….
اپنی محبت سے اسکو محروم رکھا اسکی سزا ہے یہ کہ آج میں ہر چیز سے ہر نعمت، ہر آسائش اور ہر طرح کی محبت سے محروم ہوں…..
اتنا کہہ کر اسکی آنکھوں سےآنسو جاری ہوگئے
مگر باذل نے کچھ نا کہا….
اس نے پھر بولنا شروع کیا…..
باذل..تمہیں ساحر علی یاد ہے..؟
باذل کچھ دیر کو سوچتا رہا پھر اک دم جیسے یاد آنے پہ کہا کہ ہاں وہی جس نے تمہیں پروپوز کیا تھا……
ہاں وہی ساحر….
اسی کی وجہ سے میں آج اس حال میں پہنچی ہوں اور…….
اور۔۔۔۔۔
اسی نے ہی تمہارا ایکسیڈینٹ کروایا تھا….. مجھے حاصل کرنے کے لیے…..
باذل دم بخود رہ گیا….
اتنا بڑا انکشاف……
اور مجھے حاصل کرکے اس نے مجھ سے اپنی بےعزتی کا بدلہ لے لیا…..
وہ جانتا تھا کہ مجھے گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے اور تمہاری معذوری کی وجہ سے میں کہیں باہر گھومنے نہیں جا سکتی تو اس نے یہ سارا جال بچھایا….
پہلے اس نے میرے ساتھ کافی وقت گزارا اور جب اسنے یہ دیکھا کہ میں اسکے کافی کلوز ہوگئی ہوں تو اسنے مجھے پروپوز کیا…
میں نے اس وقت بھی اس پہ غصہ کیا مگر وہ میری کمزوری جانتا تھا اور اسنے اسی پہ وار کیا مجھے اکسایا اور میں تو ویسے ہی تمہیں یوں دیکھ دیکھ کے تنگ آگئی تھی….
تمہاری معذوری نے مجھے بیزار کردیا تھا بس اسلیے میں اسکے بہکاوے میں آگئی اور تم سے طلاق کا مطالبہ کردیا…….
تم سے طلاق لیکر میں پاپا کی طرف چلی گئی جب پاپا کو پتہ چلا تو وہ مجھ پہ پہلی دفعہ غصہ ہوئے کہ مجھے تمہارا ساتھ چھوڑنا نہیں چاہیے تھا…..
تم جلدی ٹھیک ہوجاتے….
مگر مجھ پہ تو اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے جینے کا جنون سوار تھا میں گھٹ گھٹ کے جینا نہیں چاہتی تھی…..
میں نے پاپا سے کہا کہ اگر آپ مجھے نہیں رکھ سکتے تو بتادیں میں کہیں اور انتظام کرلوں گی اپنا…..
پاپا مجھے کہاں جانے دیتے انہوں نے مجھے پھر کچھ نہیں کہا…..
انہی دنوں میں نے ساحر کو بھی پاپا سے ملوادیا….. پاپا اس سے ملنے کے بعد میرے پاس آئے وہ خوش نہیں تھے اس سے مل کے انہوں نے مجھے کہا کہ یہ شخص اچھا نہیں ہے کافی شاطر انسان لگتا ہے مجھے تم مت کرو اس سے شادی ورنہ یہ تمہیں برباد کردےگا……
انہوں نے مجھے بہت سمجھایا…. اور میں اپنی ضد پہ اڑی ہوئی تھی کہ ابھی جو میری زندگی برباد ہورہی تھی اسکی آپکو کوئی پرواہ نہیں اور ساحر کے ساتھ میں خوش رہوں گی تو آپکو لگتا ہے میری زندگی برباد ہوجائے گی.۔۔۔۔۔
ایسا نہیں ہوگا پاپا آپ دیکھ لیجیے گا….. پاپا چپ ہوگئے انہوں نے مجھے میرے حال پہ چھوڑ دیا…..
مگر میں بھول گئی تھی کہ وہ جو قادر ہے ہر چیز پہ وہ بہترین انصاف کرنے والا بھی ہے وہ کسی کے دل دکھانے پر اسکو خوشی نہیں دیتا بلکہ انسان جس کو اپنے لیے خوشی سمجھتا ہے وہ اس کی سب سے بڑی سزا ہوتی ہے…..
بس وہ سزا میرے لیے مقرر ہوگئی تھی
اور میں اپنی عدت کے دن پورے کرنے لگی
یا یوں کہوں تو غلط نا ہوگا کہ اپنی سزا کے قریب ہونے لگی…..
خیر وقت گزرتا رہا میری عدت پوری ہوگئی اور ساحر نے مجھ سے نکاح کرلیا اور میں اسکے ساتھ اسکے فلیٹ میں آگئی…..
جہاں ہر طرح کہ آسائش تھی ہر سہولت تھی….
ساحر نے بہت محبت مجھ پہ نچھاور کی…. ہم ہر روز باہر گھومنے جاتے…. کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا…..
مجھے لگتا تھا بس ہر سو میرے خوشیاں ہی خوشیاں ہیں….. ساحر میری ہر خواہش پوری کردیتا میں جو کہتی وہ فورا کردیتا…..
ساحر نے مجھے اپنی محبت کا اسیر کرلیا….
میں ہواؤں میں اڑنے لگی اور اڑتے اڑتے بہت بلندی پہ پہنچ گئی مگر میں یہ بات بھی بھول گئی تھی کہ جتنی اونچی اڑان ہو نیچے گرتے وقت اتنی زیادہ چوٹ لگتی ہے….
ہماری شادی کو تین مہینے ہوگئے تھے…..
سب ٹھیک چل رہا تھا میں نے مکرم پروڈکشن چھوڑ دی تھی اور کسی دوسری جگہ آڈیشن دے دیا تھا وہاں بھی مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا اور میں مقبولیت حاصل کرتے کرتے شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ گئی…..
مگر ساحر کو شاید میری یہ کامیابی برداشت نہیں ہوپارہی تھی…. اس نے مجھے منع کردیا کہ اب میں کسی بھی پروجیکٹ پہ کوئی کام نہیں کروں گی…..
میں اپنے کئریر کی بلندی پہ تھی اور بلندی پہ پہنچکے سب چھوڑ دیتی ایسا مجھے کسی طور قبول نہیں تھا
میں نے اسکی بات ماننے سے انکار کردیا اور یہیں سے میری بدنصیبی شروع ہوئی…
ساحر کو میرا انکار برداشت نہ ہوا اسنے مجھے مارا….
اور اتنا مارا کہ میں بےہوش ہوگئی پھر پتہ نہیں مجھے کتنے گھنٹوں کے بعد ہوش آیا…. ہوش میں آنے کے بعد مجھے اپنی قسمت پہ رونا آیا….
میں کافی دیر تک آنسو بہاتی رہی…. کچھ دیر بعد ساحر میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا…..” شانزے میری بات مان لو فائدے میں رہو گی ورنہ پھر سے انکار کی صورت میں بھاری نقصان اٹھاسکتی ہو…..
میں نے روتی آنکھوں سے ساحر کو دیکھا اور کہا….” نہیں ساحر میں تمہاری یہ بات نہیں مان سکتی یہ میرا پیشن ہے میرا شوق ہے میں اسکو نہیں چھوڑ سکتی اور تم سے شاید یہ برداشت نہیں ہورہا کہ میں اتنی شہرت حاصل کررہی ہوں….
مگر یاد رکھو میں بھی شانزے ہوں اپنی ضد کی پکی……
اور میرے شاید یہی الفاظ اسکو آگ لگا گئے وہ بہت غصے میں وہاں سے اٹھا اور باہر چلا گیا میں نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور میں بھی وہاں سے اٹھ گئی…..
تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا اور مجھ سے کہا…..
بہت غرور ہے ناتمہیں اپنے اس خوبصورت چہرے پہ اگر تمہارا یہ خوبصورت چہرہ ہی نا رہے تو پھر میں دیکھتا ہوں تمہیں کون رکھے گا…..
جتنی دیر مجھے کچھ سمجھنے میں لگتی اس نے اک بوتل نکالی اور کھول کر میرے منہ پہ تیزاب پھینک دیامیں تکلیف سے چیختی رہ گئی…مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا….
اسنے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھر سے باہر نکال دیا میں تڑپ کے رہ گئی….
دوہری تکلیف ہورہی تھی مجھے…. میں گھر سے باہر تھی کہ اک رئیس زادہ اپنی تیز رفتار گاڑی سے مجھے ٹکر مار کر آگے بڑھ گیا اسکے بعد مجھے کچھ خبر نا ہوسکی….
آنکھ کھلی تو خود کو ہسپتال کے اک بیڈ پہ پایا….
ڈاکٹرز کی زبانی اتنا سنا میں نے کہ یہ کوئی معجزہ ہی ہوا ہے جو میں ہوش میں آگئی ہوں….
مجھے حیرانی ہورہی تھی کہ کون سا معجزہ اور کیسے ہوگیا….
مجھے کچھ یاد نہیں آرہا تھا….
میں سن سب رہی تھی مگر کچھ بول نہیں پارہی تھی…..
میں حیران نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھ رہی تھی اتنے میں اک نرس آئی اسنے بھی مجھے مبارک باد دی…..
میں نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کہ مجھے کیا ہوا ہے…؟؟؟
نرس نے ڈاکٹر سے کہا کہ یہ بول نہیں پارہی….
ڈاکٹر نے میرا معائنہ کیا اور ایم آر آئی ہوا تو اس میں پتہ چلا کہ میرے دماغ میں گہری چوٹ لگی جس کی وجہ سے میری یاداشت متاثر ہوئی ہے میرے کچھ ٹیسٹ وغیرہ بھی ہوئے میری قوت گویائی بھی چلی گئی تھی…..
پھر میرا علاج ہونے لگا…… اور آہستہ آہستہ مجھ میں بہتری آنے لگی….
مگر یاداشت ابھی پوری طرح سے ٹھیک کام نہیں کررہی تھی…. میں کچھ بولنے کے قابل ہوئی تو میں نے ڈاکٹر سے پوچھا…. ” ڈاکٹر صاحب مجھے کیا ہوا تھا…..؟ ڈاکٹر نے جو کہا مجھے اس پہ بہت حیرانی ہوئی یہ واقعی اک معجزہ تھا کہ میں ہوش میں آگئی تھی…..ایکسیڈینٹ سے میرے دماغ میں بہت گہری چوٹ لگی تھی جس وجہ میں کوما میں چلی گئی تھی مجھے نو سال بعد ہوش آیا تھا….. ڈاکٹرز ناامید ہوگئے تھے۔۔۔۔ ڈاکٹرز کو لگتا تھا کہ میں ہوش میں نہیں آؤں گی جب میری حالت کافی بہتر ہوئی تو انہوں نے مجھ سے میری پچھلی زندگی کے حوالے سے پوچھا…… میں نے یاد کرنے کی بہت کوشش کی مگر مجھے کچھ یاد نہیں آرہا تھا علاج تو چل رہا تھا جب یاداشت تھوڑی اور بہتر ہوئی تو مجھے آہستہ آہستہ سب یاد آتا گیا اور میں بتانے لگی….. ڈاکٹرز کی ٹیم نے پولیس کو بلوالیا انہوں نے میرا بیان دیکارڈ کیا اور ساحر کا اسکیچ بنوایا جس سے اسکو ڈھونڈنے میں آسانی ہوسکتی تھی…. ساحر نے دسری شادی کرلی تھی اور وہ مزے سے اپنی زندگی گزار رہا تھا وہ شاید اسی گمان میں تھا کہ میں تو مرگئی ہونگی تو اس تک کون پہنچے گا وہ اسی اطمینان کے ساتھ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہ رہا تھا…. میں پولیس کو اس فلیٹ کا پتہ بھی بتاچکی تھی پولیس آسانی سے وہاں پہنچ گئی اور اسکو گرفتار کرلیا….. میں نے پولیس سے کہا تھا کہ مجھے ساحر یہاں چاہیے مجھے اس سے اپنے پہلے شوہر کے ایکسیڈینٹ کے حوالے سے بھی پوچھنا ہے… پولیس ساحر کو ہسپتال لےکر آئی….. اس کو دیکھ کر میں غصے سے پاگل ہونے لگی اوراس نے بھی مجھے دیکھ کر نفرت سے منہ دوسری طرف پھیر لیا….
میں نے اس سے پوچھا…”باذل کا ایکسیڈینٹ تم نے کروایا تھا…..؟؟؟؟؟
اس نے اک دم گھبراکر مجھے دیکھا اور کہا…..
” مم..میں کیوں کروانے لگا…
میں نے پولیس سے کہا اس سے جیسے چاہیں اگلوائیں مجھے اس پہ شک ہے….
پولیس اسکو لے گئی اور اسکو جب مارا پیٹا تو اسنے فورا اگل دیا کہ اسی نے تمہارا ایکسیڈینٹ کروایا تھا اور اسکا مقصد مجھے حاصل کرکے مجھ سے اپنی بےعزتی کا بدلہ لینا تھا…..
مجھے خود پہ افسوس ہوا اور اس پہ غصہ بھی آیا مگر مجھے احساس ہوا کہ دل دکھانے کی، محبت کو ٹھکرانے کی سزا تو ملنی ہی تھی مجھے…. اس پہ کیس چلنے لگا تو میں عدالت بھی گئی وہاں میں نے عدالت سے درخواست کی کہ اسکو کڑی سے کڑی سزا دی جائے….
عدالت نے اس کو عمر قید کی سزا سنائی مگر میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے ہاتھوں سے اسکو پھانسی دےدوں جس نے میری زندگی برباد کردی…. مگر مجھے اپنے پاپا کی بات بھی یاد آئی کہ یہ بہت شاطر انسان ہے تمہیں برباد کردے گا ۔۔۔ میرے پاس اب صرف پچھتاوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا…. مجھے جیسے جیسے سب یاد آرہا تھا آنکھوں سے آنسو کی لڑیاں بہتی جارہی تھیں….. ڈاکٹر نے مجھ سے پلاسٹک سرجری کروانے کو کہا مگر میں نے انکار کردیا اور کہا….. میں اس جلے ہوئے چہرے کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہوں تاکہ مجھے احساس ہوتا رہے کہ مجھے میرے غرور کی سزا ملی ہے اور میرا حال دیکھ کر کبھی کوئی اپنے آپ پہ غرور نا کرے….. ڈاکٹر نے مجھے فورس نہیں کیا اور کچھ مہینوں کے علاج کے بعد میں جسمانی اور ذہنی طور پہ بلکل ٹھیک ہوگئی تو مجھے ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا…. میں سالوں بعد باہر کی دنیا دیکھ رہی تھی…. سب بہت عجیب لگ رہا تھا…. میں جاؤں کہاں اب….؟ یہ سوال میرے دماغ میں سر اٹھانے لگا…. مجھے راستے یاد نہیں آرہے تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے سب کچھ بدل گیا ہے…. لوگ مجھے دیکھتے مجھ سے خوف کھانے لگتے…. میں خود کو اسی کی حقدار سمجھتی تھی میں نے اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا جو اک نرس نے مجھے کپڑوں کے ساتھ دی تھی میں مختلف دکانوں پہ گئی اور پوچھتی پوچھتی آخر اس رستے پہ نکل آئی جہاں میرے پاپا کا گھر تھا مگر وہاں پہنچنے کے بعد مجھے چوکیدار نے بتایا کہ صاحب تو ملک سے باہر جاچکے ہیں….. کوئی پتہ نہیں کب آئیں…..پھر مجھے تمہارا خیال آیا کہ تمہارے پاس جاؤں تم سے معافی مانگوں شاید تم معاف کردو مگر شرمندگی اتنی تھی کہ کس طرح آتی تمہارے پاس…. تمہیں ٹھکرا کر آئی تھی مجھے اپنے بیٹے کا خیال آیا کہ وہ بھی اب بڑا ہوگیا ہوگا… میرے دل میں خواہش جاگی کہ اس سے ہی مل لوں نہیں تو اس کو دیکھ ہی لوں…..تمہاری ماما کے الفاظ بھی مجھے یاد تھے…. مجھ میں ہمت نہیں تھی تم سب کا سامنا کرنے کی…. یہ سب سوچتے سوچتے مجھے پتہ ہی نا چلا اور میں سڑک کے دوسرے کنارے پہ پہنچ گئی وہ بہت چھوٹی سی بستی تھی فقیروں کی….. سب ہی میلے کچیلے اور گندے حلیے میں تھے…. میں وہاں کھڑی دیکھتی رہی اک عورت سامنے سے آتی دکھائی دی اسکا حال بھی کچھ مختلف نہیں تھا وہ بھی اسی گندے حلیے میں تھی…. وہ میرے پاس آئی اور مجھ سے اپنی زبان میں کچھ پوچھنے لگی مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا پوچھ رہی ہے…. وہ اک لڑکی کو بلا کر لائی شاید وہ اردو جانتی تھی اس نے مجھ سے پوچھا…. کون ہو تم…..؟؟ اور یہاں کیوں آئی ہو…؟؟؟ وہ کچھ دیر انتظار کرتی رہی میرے جواب کا پھر میرے چہرے سے چادر ہٹائی تو اکدم ڈر کے پیچھے ہٹ گئی پھر پوچھنے لگی یہ کیا ہوا تمہارے چہرے کو….؟ مگر میں خاموش تھی… اسنے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اک جھگی میں لے گئی وہاں اک آدمی تھا اس سے وہ کچھ اپنی زبان میں کہنے لگی اور وہ مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھنے لگا…. اس آدمی نے اس سے کچھ کہا تو وہ مجھ سے پوچھنے لگی…” کیا تم یہاں رہوگی ہمارے ساتھ ہمارے لیے کام کروگی…..؟؟؟
میرے پاس کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کہاں جاتی….؟؟ میں نے اقرار میں سر ہلادیا…. پھر انہوں نے مجھے وہیں اپنے پاس رکھ لیا…. دو چار دن میں وہیں رہی انکی عادتوں کو دیکھتی رہی انکا طرز زندگی کیا تھا… بھیک مانگنا…. اسی سے ہی وہ لوگ اچھا خاصہ کمالتے اور اپنے بچوں کو پال رہے تھے…… میں یہ سب دیکھتی اور سوچتی اپنی قسمت پہ افسوس کرتی…. محل میں رہنے والی شانزے آج اک گندی سی جھگی میں رہنے لگی ہے جو غریبوں سےبات کرنا تو دور انکی طرف دیکھنا بھی اپنی توہین سمجھتی تھی آج اسکی کیا اوقات ہے کہ وہ غریب تو کیا فقیروں کی بستی میں انکے ساتھ رہ رہی ہے…. ہائے قسمت….
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...