محبت کو قصوروار نہ ٹہراؤ صاحب
کہ تکلیف تو ہاتھ کی لکیریں دے جاتی ہیں
مجھے فوری طور پر کال کر کہ بلایا گیا تھا۔۔ جانے کیا وجہ تھی؟ مگر اس عجلت میں یقینا کوئی راز پوشیدہ تھا۔۔ تبھی جلد از جلد پہنچنے کو کہا گیا تھا۔۔ بیگ میں ضروری اشیاء؛ جیسے کتاب، قلم، موبائل اور اک آدھ کام کی چیزیں بھرتے میں گھر سے روانہ ہوئی۔۔
جانے جائے وقوع میں کون میرا منتظر تھا؟ ہسپتال سے میرا گھر محض چند منٹ کی ڈرائیو پہ واقع تھا جہاں پہنچ کر مجھے انہیں اپنی موجودگی کی خبر دینی تھی۔۔ کال ملاتے دوسری بیل پہ کال موصول کر لی گئی۔۔ اب مجھے چند اہم نکات اور مخصوص کمرہ نمبر بتایا جا رہا تھا۔۔
آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ میں کسی کہانی کو ڈھونڈتے ہسپتال پہنچی ہوں۔۔ مجھے اک نہایت ہی دلچسپ پریم کہانی کی تلاش تھی جس کا تذکرہ یوں ہی اک روز میں اپنی دوست سے کر بیٹھی تھی۔۔ اسکے والد صاحب ڈاکٹر تھے اور ہر روز ایسے کیسز کو ڈیل کرتے تھے۔۔ زندگی سے ہار چکے’ محبت میں ناکامی کے باعث موت کو پکارتے۔۔ اور آج ہسپتال میں مطلوبہ کمرے کے باہر کھڑے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اپنی اگلی داستان محبت تلاش کر چکی ہوں۔۔۔
میں کمرے میں بنا دستک دئے داخل ہوئی تھی جو ایک نہایت ہی غیرمہذب حرکت تھی اور اسکا احساس مجھے جلد ہی ہوگیا۔۔ میری نگاہوں کے سامنے پھیلے منظر میں ایک بائیس، تئیس سالہ نوجوان لڑکی بستر پہ لیٹی دور خلا میں گھور رہی تھی۔۔ اسکے پہلو میں اک ادھیڑ عمر خاتون سر پہ دوپٹہ اوڑھے بیٹھی کلام پاک کا ورد کرتی مکمل اس سحر میں کھو چکی تھیں۔۔ شاید وہ اس بیمار نوجوان لڑکی کی ماں تھیں۔۔ دونوں نے مضبوطی سے اک دوجے کا ہاتھ تھام رکھا تھا یوں کہ اگر یہ ہاتھ چھوٹا تو سانسوں کا تسلسل بھی ٹوٹ جائے گا۔۔
یک دم وہ کراہنے لگی۔۔ عورت نے کرب سے اس کا چہرہ دیکھا۔۔ وہ بلکنے لگی تھی۔۔ “امی۔۔” بلکتے وہ چیخ وپکار کرنے لگی۔۔ عورت نے اسے سینے سے لگاتے پیشانی چومی۔۔ “ٹھیک ہو جائے گا۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔” وہ اسے تسلی دے رہی تھیں، جبکہ وہ سر پہ ہاتھ ٹکائے درد سے کراہ رہی تھی۔۔
دفعتاً انہیں میری موجودگی کا احساس ہوا۔۔ سر کو جنبش دیتے انہوں نے مجھے قریب آنے کا اشارہ کیا۔۔ ان واقعات کو افسانوی کہانیوں میں تو کئی بار پڑھ چکی تھی، مگر بظاہر نگاہوں کے سامنے انہیں کراہتا دیکھ میری روح تک کانپ گئی تھی۔۔
میں جھجھکتی اسکے سٹریچر کے قریب پڑی کرسی پہ جا بیٹھی۔۔ ذہن میں ترتیب دئے الفاظ اب بےترتیبی سے بکھر چکے تھے۔۔ کیا کہتی؟ کیا نہ کہتی؟ تھوک نگلتے الفاظ پھر سے ترتیب کئے میں ان سے گویا ہوئی۔۔
“مجھے یہاں آپ کے ڈاکٹر قمرالحق صاحب نے بھیجا ہے۔۔” میں سلام دعا کے بعد اصل مدعا بیان کرتی جلد از جلد اسکی حالت کی وجہ دریافت کرنا چاہتی تھی۔۔ “دراصل میں ایک لکھاری ہوں۔۔ آج کل اک نئی کہانی کی تلاش میں ہوں کیونکہ حال ہی میں میرا ایک ناول مکمل ہوا ہے۔۔ تبھی میری سہیلی کے ابو نے آپ کے بارے میں بتایا۔۔ کیا آپ مجھے اپنی سرگزشت بتا سکتی ہیں؟”
نوجوان لڑکی نے نگاہوں کا رخ میری جانب موڑتے زخمی سا مجھے گھورا۔۔ “کیا آپ اپنے آپ کو اس قابل تصور کرتی ہیں کہ میرے جذبات اپنے لفظوں میں بھر کر تحریر کر سکیں۔۔؟” میں اپنی جگہ ساکت رہ گئی۔۔ وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی؟ کیا میری قابلیت پہ شک کیا جا رہا تھا؟ مجھے بےیقینی میں گھرا چھوڑ وہ مزید کہنے لگی۔۔ “وہ کرب، وہ اذیت جو میں پچھلے کئی سال سے جھیلتی آ رہی ہوں۔۔ کیا آپ وہ کرب ان کاغذوں کے ٹکڑوں پہ تحریر کر سکتیں ہیں۔۔؟ کیا ان میں اتنی تکلیف سمٹ آئی گی کہ لوگ میری تکلیف کو خود پہ محسوس کر سکیں؟”
“شاید آپکو میری قابلیت پہ شک ہے۔۔ میرا شمار نامور لکھاریوں کی فہرست میں ہوتا ہے۔۔ میری کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔۔ مجھے کسی بھی منظر کو لفظوں میں ڈھال کر لکھنا باخوبی آتا ہے۔۔” میں اس پہ برس پڑی تھی۔۔ مگر وہ عجیب لڑکی تھی۔۔ اسکے چہرے پہ سپاٹ سا تاثر تھا۔۔
“کیا گارنٹی ہیں کہ لوگ میری کہانی پڑھ کر آپکو تنقید کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔۔” وہ کہہ رہی تھی۔۔ پہلو میں کھڑی خاتون کبھی اسے تو کبھی مجھے دیکھتیں۔۔ انہوں نے ہنوز اسے سینے سے لگا رکھا تھا۔۔ “تنقید لازمی ہے۔۔” کیونکہ یہ تو لازم ہے۔۔ میرے مطابق تنقید انسان کو تکبر سے دور رکھتی ہے۔۔ کوئی شے پرفیکٹ نہیں۔۔ کوئی افسانوی داستان پرفیکٹ نہیں ہوتی کیونکہ یہ انسانی قلم سے درج کی جاتی ہے۔۔ محض الله کے درج کئے گئے قسمت کے فاصلے درست اور پرفیکٹ ثابت ہو سکتے ہیں، انسان کے نہیں۔۔ تنقید ایک لکھاری کو قلم پہ غرور کرنے سے بچائے رکھتی ہے مگر اس لمحے یہ بات میں اس نوجوان لڑکی کو سمجھانے سے قاصر تھی۔۔
“لیکن یہ میری زندگی ہے۔۔ جس تکلیف۔۔ جس کرب سے میں گزری وہ کوئی افسانوی کہانی نہیں ہے کہ جسے پاپ کارن پھانکتے پڑھنا پسند کیا جائے۔۔ یہ حقیقی جذبات ہیں۔۔ جو۔۔ تنقید کے لئے نہیں ہیں۔۔” آنکھیں سرخ انگارہ بنیں کمرے میں حدت پیدا کر رہی تھیں۔۔ اس کے اشکوں سے لبریز چہرے پہ نگاہیں ڈھوراتے میرا سارا غصّہ ذائل ہو گیا۔۔ کندھے ڈھلک گئے۔۔
“دیکھیں۔۔۔ میں مانتی ہوں آپ اپنی زندگی میں یقینا کسی برے حادثے سے گزری ہیں۔۔ لیکن از روئے یقین آپ کی کہانی میں کوئی سبق ہوگا۔۔ کیا آپ نہیں چاہیں گی کہ سب آپ کی زندگی سے کوئی سبق حاصل کریں؟ اور وہ غلطی نہ دوہرائیں؟ کتابیں ہمیں سبق ہی تو پڑھاتی ہیں۔۔ لیکن بہت کم لوگ اس سبق کو سمجھ پاتے ہیں۔۔ جو نہیں سمجھتے وہ تنقید کیلئے وجوہات تلاش کرتے ہیں۔۔ ایسے لوگ کم عقل ہوتے ہیں اور ان کی تنقید کا اثر نہیں لیتے۔۔” اس کے چہرے پہ کرب کی لکیریں چھٹنے لگیں تھیں۔۔
میں مزید کہنے لگی۔۔ “کم عقل لوگ زندگی میں کبھی آگے نہیں بڑھ پاتے۔۔ ان کی ‘میں’ انہیں زندگی میں کامیاب نہیں ہونے دیتی۔۔ لیکن تم یقینا کم عقل نہیں ہو۔۔”
میں کہہ رہی تھی اور وہ سانس روکے مجھے سن رہی تھی۔۔ اسکے چہرے سے واضح جھلک رہا تھا، وہ قائل ہو چکی تھی۔۔ اس سے قبل کہ وہ اپنے ہونٹوں پہ لگی چپ کی مہر توڑ، اپنی آپ بیتی میرے گوش گزارتی، دروازے کا ناب گھماتے سفید لیب کوٹ پہنے ایک وجیہہ شخص کمرے میں داخل ہوا۔۔
“گڈ ایوننگ! مس ایمان۔۔۔ اب کیسا فیل کر رہی ہیں آپ؟؟” چند کاغذات پڑھتا وہ ہاتھ میں تھامے قلم سے ان پہ دستخط کر رہا تھا۔۔ گاہے بگاہے وہ سٹریچر پہ لیٹی لڑکی، شاید ایمان نام تھا، کو دیکھتا مصروف سا اس کی خیریت دریافت کر رہا تھا۔۔
“پھر سے مائگرین” خاتون نے ڈاکٹر کے علم میں اضافہ کیا۔۔ قلم کاغذات پہ رکھے نرس کی جانب بڑھائے، پھر کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے مکمل ایمان کی جانب متوجہ ہوا۔۔
“یہ ٹھیک بات نہیں ہے مس ایمان۔۔ آپ اپنی بلکل بھی کیئر نہیں کرتیں۔۔ کچھ خیال کریں۔۔ آپ کی وجہ سے کتنے لوگ پریشان ہیں۔۔ ہم اس دنیا میں اپنے لئے جیتے ہوتے تو آج آدھی سے زیادہ دنیا ختم ہو چکی ہوتی۔۔ پریشانیاں سب کی زندگی کا حصّہ ہوتی ہیں لیکن ہم پھر بھی جیتے ہیں۔۔ اپنوں کی خاطر۔۔” خاتون کی جانب اشارہ کرتا وہ کہہ رہا تھا۔۔ میری نگاہیں اسی کے چہرے پہ ٹکیں تھیں جو فلسفے جھاڑتا نہایت ہی سمجھدار لگ رہا تھا۔۔ دفعتاً اسکی نگاہ مجھ سے ٹکرائی۔۔
“آپ؟؟؟” پیشانی پہ بل ڈالے وہ الجھ کر پوچھنے لگا۔۔ گلا کھنگارتے میں الفاظ ترتیب دینے لگی۔۔ اس سے قبل میں لب کھولتی، خاتون نے میرا تعارف کروانا بہتر سمجھا۔۔
“یہ مس آئمہ حسن ہیں۔۔ لکھاری ہیں۔۔ ایمان کی سرگزشت شائع کرنے کی خواہش لئے یہاں آئی ہیں۔۔”
“اوہ۔۔ تو شاید آپ یوں ہی ہسپتال کے چکر کاٹ کاٹ کر کہانیاں تلاش کرتی ہیں اور پیسے کماتی ہیں۔۔” میرے بولنے سے قبل ہی وہ لفظوں کے تیر چلاتا میرا سینہ چھلنی کرنے لگا۔۔ میرے ان گناہوں کی یاد دہانی کروانے لگا جو ابھی سرزد بھی نہیں ہوئے تھے۔۔ “ہم یہاں انہیں صحت یاب کرنے کی کوشش میں خوار ہو رہے ہیں اور آپ انہیں بیتا کل یاد کروا کر پھر سے مینٹلی سک کرنا چاہتی ہیں۔۔”
اور بس میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔۔ مجھے بنا قصور کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا۔۔ الزامات کی بوچھاڑ کی جا رہی تھی۔۔ میں چپ رہ کر مظلوم بننے والوں میں سے ہرگز نہ تھی۔۔
“پہلی بات مجھ سے اس لہجے میں بات مت کیجئے۔۔ دوسری بات مس ایمان صحت یاب ہونگی۔۔ انشاء الله۔۔ لیکن اس ہسپتال میں تنہا بیٹھے بیتے کل کو یاد کر کہ نہیں، بلکہ اپنا دکھ درد بانٹ کر ٹھیک ہونگی۔۔ آپ نے ابھی چند منٹ پہلے ٹھیک کہا کہ ہر انسان کی زندگی میں تکلیفیں آتی ہیں مگر افسوس پھر بھی ہم دوسروں کی تکلیف کو نہیں سمجھ سکتے۔۔
ہم اپنی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات اور تکلیفوں سے صرف تبھی ابھر سکتے ہیں جب ہم دوسروں کے ہمدرد بنیں۔۔ اپنے اطراف کے لوگوں کی زندگیوں میں سکون بھریں نہ کہ انہیں بات بے بات مجرم گردان کر کٹہرے میں کھڑا کر دیں۔۔”
ڈاکٹر کا چہرہ احساس توہین سے سرخ پڑھ چکا تھا۔۔ اس نے کچھ کہنے کی غرض سے لبوں کو جنبش دی کہ ایمان نے روک دیا۔۔ “انہیں قمر انکل نے بھیجا ہے۔۔” ضبط سے مٹھیاں بھینچے وہ کٹیلی نگاہوں سے مجھے گھورتا کمرے سے روانہ ہو گیا۔۔
خاتون اب ایمان کی پشت پہ جا بیٹھی تھیں۔۔ ماں کے کندھوں سے ٹیک لگائے اس نے کرب سے آنکھیں موند لیں۔۔ میں اس کے بولنے کی منتظر تھی اور بلآخر وہ بولی۔۔ “میرا نام ایمان ہے۔۔ والد کا نام احمد اور امی(عقب میں اشارہ کیا) طاہرہ۔۔ ہم ایک چھوٹی سی فیملی ہیں۔۔ دو بھائی بھی ہیں۔۔” وہ سانس لینے کو رکی۔۔ سر میں شاید درد کی لہر اٹھی تھی۔۔ “وہ بھی اسی فیملی کا حصّہ تھا۔۔”
اسے خاموش دیکھ مجھے تجسس نے آن گھیرا۔۔ “کون؟؟؟”
“شاہان۔۔” اس کے حلق میں ڈوب کر ابھرتی گلٹی میں واضح دیکھ سکتی تھی۔۔ “ڈاکٹر قمر الحق کا بیٹا۔۔ ہمارا فیملی فرینڈ۔۔”
* * * * * * *