آج جلدی آ گئی تم خیریت تو ہے طبیعت تو ٹھک ہے نہ ؟ ردا افہام اور زرینہ تینوں ٹی وی لونج میں بیٹھے تھے اسکے سلام کے جواب میں زرینہ بیگم نے فکر مندی سے پوچھا
جی امی کلاسز ختم ہو گئی تھیں اسی لئے ذرا جلدی آ گئی، افہام بھائی اپ آج افس نہیں گیے تھے ؟
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہووے پوچھا
گیا تھا پر کچھ خاص کام نہیں تھا اسی لئے جلدی آ گیا ویسے تم بجھی بجھی کیوں لگ رہی ہو”
نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں بس ذرا سر میں درد ہے”
” تو یہاں کیوں بیٹھ گئی ہو ردا اٹھو اسے سر درد کی دوائی دو اور زویا تم دوائی لے کر ذرا آرام کر لو”
ارے نہیں بیٹا خالی پیٹ دوائی نہیں دینی پہلے کچھ کھا لو زرینہ بیگم نے اٹھتے ہووے کہا
نہیں امی بلکل بھی دل نہیں ہے ہلکا سا درد ہے خود ہی ٹھک ہو جائے گا اپ سب پریشان نہ ہوں میں بس تھوڑی دیر سوؤں گی “
اچھا ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری مرضی”
وہ خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی ائی اور دروازہ اندر سے بند کر دیا کاش میں بتا سکتی کے میرا سر نہیں دل درد سے پٹھا جا رہا ہے امی!
وہ دروازے کے ساتھ لگی پھوٹ پھوٹ کر رو دی
———————————————————–
مناہل بریانی کی پلیٹ تھامے سیڑیوں سے نیچے اتر رہی تھی کے افہام کو آخری سیڑھی پر ہینڈ ریل کے ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑا دیکھ کر حیرانی سے رک گئی
افہام اسے دیکھ کر سیدھا ہو گیا
” ویسے تو صبح ہی صبح مونھ اٹھا کے چلی اتی ہو اور جب میں انتظار کر رہا تھا تو انے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی تم !
مناہل کا دل خوشی سے جھوم اٹھا
میں بریانی بنا رہی تھی اسی لئے نہیں آی یہ دیکھیں میں لائی بھی ہوں اس نے پلیٹ سامنے کی
اچھا ٹھیک ہے کچن سے چمچ لے کر میرے کمرے میں آ جاؤ چھکوں تو سہی کیسی بریانی بناتی ہے میری منگیتر”
وہ که کر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا جب کے مناہل حیرت سے اسکی پشت کو دیکھتی رہ گئی
———————————————
بریانی تو بہت لزیز بنی ہے تم نے خود بنائی ہے نا ؟ مناہل جو اس کے سامنے کھڑی انگلیوں کو چٹخا رہی تھی اس قسم کی تعریف پر دل مسوس کے رہ گئی
آپکو شک ہے تو امی سے جا کر پوچھ لیں بیشک، میں نے ہی بنائی ہے”
” نہیں خیر اب اتنی تفتیش کی بھی ضرورت نہیں ہے، تم کہ رہی ہو تو مان لیتا ہوں اس نے احسان کرنے والے انداز میں کہا
ہنہ کھا بھی دھڑا دھڑ رہے ہیں اور احسان بھی جتا رہے ہیں دل ہی دل میں وہ کلس رہی تھی
تم کھڑی کیوں ہو بیٹھو نہ افہام نے اسے سامنے پڑے بیڈ پر بیٹھنا کا اشارہ کیا
اف آج انہیں ہو کیا گیا ہے ضرور کوئی کام ہوگا مجھ سے وہ دل ہی دل میں سوچتی بیڈ کے اک کنارے پر ٹک گئی
کچھ دیر کمرے میں خاموشی چھائی رہی
مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی اس کا دل جو زور زور سے دھڑکے جا رہا تھا اس بات پر تھم سا گیا لو آ گئی بلی تھیلے سے باہر یعنی انکو کچھ کام ہی تھا مجھ سے اس نے اپنے شور مچاتے دل کو ڈانٹ کر چپ کرا دیا
جی کہئے”
میری بات سکوں سے سننا اور پلیز کسی قسم کا اعترض نہ کرنا “
لو جی اعترض کا حق بھی چھین لیا اک دفع پھر دل نے شور مچایا
” زویا کے لئے ارحم اور کسی طلال کا رشتہ آیا ہے پر مجھے ارحم کے رشتے پر اعترض ہے اور امی کو طلال کے رشتے پر کے وہ زویا کا ہاتھ خاندان سے باہر نہیں دینا چاہتی”
اپ ارحم بھائی کو معاف کر دیں نا پلیز زویا انکے ساتھ بہت خوش رہے گی اس نے دوستی کا فرض نبھانا بھی ضروری سمجھا
میں نے تمھیں یہاں ارحم کی حمایت کرنے نہیں بولایا افہام نے ڈپٹ کر کہا مناہل شرمندہ سی ہو کر چپ ہو گئی
میں چاہتا ہوں کے زویا کا رشتہ اسفند سے ہو جائے”
پر اسفند بھائی زویا سے شادی کیسے کر سکتے ہیں زویا تو …”
کیا زویا تو ؟ میںحائل اس دفع میں اپنی بہن کا رد کیا جانا برداشت نہیں کروں گا اگر میں اپنی سگی خالہ سے اپنی بہن کی وجہ سے رشتہ توڑ سکتا ہوں تو تم سے بھی توڑنا میرے لئے مشکل کام نہیں ہے”
میںحائل اسکی بات سن کر پوری طرح سکتے میں آ گئی
وہ اس شخص سے اور اس رشتے سے کیا کیا امیدیں نہ لگائی بیٹھی تھی اور وہ ہرجائی رشتہ ہی ختم کرنے کی بات کر رہا تھا
تمھیں کچھ نہیں کہنا ؟
اعترض کا حق تو اپ نے دیا ہی نہیں تھا اور اب مشورہ دینے کے قابل بھی نہیں چھوڑا اس کے علاوہ میں اپ سے کیا کہوں اسکی آواز آنسوں کی وجہ سے رندھ گئی
وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی
مجھے معاف کر دینا مناہل میں تمہارا دل نہیں دکھانا چاہتا تھا تم میرے لئے خاص ہو پر میری بہن بھی میرے لئے اہم ہے
————————————————————-
کیا ہوا زویا تمہارا سر درد ابھی تک گیا نہیں؟ ردا نے کمرے میں داخل ہو کر پوچھا
وہ جو گھٹنوں پر سر جھکاۓ بیٹھی تھی ردا کی آواز پر سیدھی ہو گئی
کیا ہوا ہے تمھیں ؟ تم روتی رہی ہو کیا” ردا اسکی سرخ ناک اور آنکھیں دیکھ کر اسکے پاس ہی بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی
زیادہ درد ہو رہا ہے کیا ؟
نہیں میں ٹھیک ہوں وہ ضبط کی اتنہا پر تھی پر ردا مطمئن نہیں ہوئی ابھی وہ مزید کچھ پوچھتی کے مناہل روتی ہوئی صوفے پر آ کر بیٹھ گئی
اب تمھیں کیا ہوا ہے ردا اس کے پاس اٹھ کر آ گئی
مناہل کے رونے میں مزید شدت آ گئی یہاں تک کے اسکی ہچکی بندھ گئی زویا کا دل تو ویسے ہی بھرا ہوا تھا اسکے آنسو بھی بہنے لگ گئے
اف یار اب روتی ہی رہو گی یا کچھ بتاؤ گی بھی ردا جھنجلا گئی
” وہ… افہام نے کہا ہے کے میں اسفند بھائی کی شادی زویا سے کرواؤں ورنہ … آنسوں کی شدت نے اسے مزید کچھ بولنے ہی نہ دیا
زویا کے آنسو خود بخود تھم گیۓ وہ حیرانی سے مناہل کا مونھ تک رہی تھی
کمرے میں صرف مناہل کی سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی
اک طرف زویا کے دل کی دھڑکن تھمی تھی تو دوسری طرف ردا کا دل دھڑکنا بھولا تھا
بہت سے منظر ردا کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے جب اس نے اسفند کو اسکی دوست کے گھر چھوڑنے کا کہا تھا لیکن وہ اسے دوست کے گھر لے جانے کی بجاۓ اک بہت ہی شاندار ریسٹورانٹ میں لایا تھا اور وہاں اس خواب ناک ماحول میں اسے پروپوز کیا تھا کتنا غصہ ہوئی تھی وہ اس دن اسفند پر مگر آہستہ آہستہ اسکے دل کا جھکاؤ بھی اسفند کی طرف ہوتا گیا اور ابھی کل ہی تو اس نے اسفند کو اجازت دی تھی رشتہ لانے کی کس قدر خوش ہوا تھا اور آج یہ سب ہوگیا
اگر تم میری وجہ سے دکھی ہو تو فکر نہ کرو مجھے کوئی اعترض نہیں اس رشتے پر” زویا کی مظبوط آواز نے ردا کو ہوش کی دنیا میں لا کھڑا کیا
جہاں اک طرف زویا کی اس بات نے مناہل کو حیران کیا وہیں دوسری طرف ردا کی آخری امید نے بھی دم توڑ دیا
پر زویا تم تو ارحم … “
حماقت تھی وہ میری اب اس کا نام بھی سننا نہیں چاہتی اپنے ساتھ ”
پر ایسا بھی کیا ہوگیا یار مناہل کو اسکی فکر تھی
اسے مجھ سے کبھی بھی محبت نہیں تھی اور نہ ہی ہوگی اسی لئے بہتر ہے میں بھی اپنی زندگی اس کے لئے برباد نہ کروں مجھے تمہارے بھائی سے شادی پر کوئی اعترض نہیں ہان اگر تمھیں یا تمہارے بھائی کو اعترض ہے تو وہ دوسری بات ہے”
ہمیں بھلا کیا اعترض ہو سکتا ہے لیکن زویا تم غصے میں ہو کہیں بعد میں تمھیں پچھتانا نہ پڑے”
پچھتا تو میں رہی ہوں ارحم سے محبت کر کے ضبط کے باوجود دو آنسو اسکی آنکھوں سے برس ہی پڑے
مناہل نے اٹھ کر اسے گلے لگا لیا
ردا خاموشی سے وہاں سے اٹھ ای اسے خود کو مظبوط بنانا تھا کیوں کے اس نے اپنی بہن کی خاطر اپنی محبت کو قربان کرنا تھا
زہے نصیب اپ آج یہاں کا راستہ کیسے بھٹک گیں ورنہ روز تو ہمیں نیچے آنا پڑتا ہے” اسفند جو ٹی وی لونج میں بیٹھا فون چلا رہا تھا اسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا
مجھے ضروری بات کرنی تھی اسی لئے آ گئی”
کیا بات ہے تم پریشان سی لگ رہی ہو سب ٹھیک ہے نا “
مجھے تم سے اکیلے میں بات کرنی ہے باقی گھر والے کہاں ہیں اس نے اک نظر ادھر ادھر دیکھا
آؤ وہ اسے لے کر بالکنی میں آ کھڑا ہوا
اب بتاؤ کیا بات ہے جس نے تمھیں اتنا پریشان کر دیا ہے ؟
اپ نے تائی سے ہمارے بارے میں بات تو نہیں کی نہ ابھی ؟
” نہیں ابھی تو نہیں کی لیکن میں شام کو ہی پاپا اور مما دونوں سے بات کر لوں گا “
میری اک بات مانیں گے اس نے اسفند سے نظریں چراتے ہوا کہا
اگر میرے بس کی بات ہوئی تو ضرور مانوں گا لیکن بتاؤ تو”
اسکی نظریں ردا کے پریشان چہرے پر ٹکیں تھی جو مسلسل اسے کسی گڑبڑ کا اندیشہ دے رہا تھا
“افہام بھائی تمہاری اور زویا کی شادی کرانا چاہتے ہیں اور میں چاہتی ہوں کے تم انکی بات مان لو”
اسکی نظریں مسلسل فرش پر ٹکیں تھیں
ردا تم ہوش میں تو ہو، جب جانتی ہو کے میں تم سے پیار کرتا ہوں تو بھلا میں زویا سے شادی کیوں کروں گا”
کیوں کے بھائی ایسا چاہتے ہیں اور اگر اپ نے انکی بات نہ مانی تو یقیناً وہ مناہل سے شادی کے لئے انکار کر دیں گے”
وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے “اسفند کا غصے سے برا حال تھا
” وہ ایسا ہی کریں گے پلیز اپ ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں ہماری محبت کی وجہ سے کئی رشتوں میں دراڑ آے گی تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کے ہم اس محبت کو اپنے اپنے دلوں میں دفن کر دیں اور ویسے بھی زویا پہلے ہی ارحم کی ریجکشن سے دکھی تھی اب اپ نے بھی اسے ٹھکرا دیا تو وہ احساس کمتری کا شکار ہو جائے گی اس نے ڈگمگاتے لہجے میں اسے سمجھایا
میں تمہاری بات نہیں مان سکتا ردا پلیز کچھ اور مانگ لو کچھ بھی بس یہ نہیں اس کے لہجے میں التجا تھی
” اسفند پلیز میری بہن سے شادی کر لیں پلیز! ردا کا چہرہ آنسوں سے تر ہو گیا
تم اچھا نہیں کر رہی ردا نہ میرے ساتھ نہ اپنی بہن کے ساتھ اور نہ اپنے ساتھ ”
پلیز اسفند مجھے معاف کر دیں پر شائد ہماری قسمت میں ہی یہی کچھ لکھا تھا”
کیا کہیں کوئی گنجائش نہیں ہے ردا ؟
نہیں اسفند اب بس اختتام ہے ہماری محبت کا اختتام”
تم میری اور میری محبت کی توہین کر رہی ہو لیکن اگر تم نے یہ سوچ ہی لیا ہے کے تم مجھے اپنی زندگی سے نکال کر رہو گی تو ٹھیک ہی پھر آئندہ مجھے اپنی شکل مت دکھانا میں ضبط نہیں کر پاؤں گا خود پر سمجھی !
ردا کا دل اسکی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر کانپ گیا
اب کھڑی کیوں ہو جاؤ یہاں سے” وہ دھڑا ردا روتی ہوئی وہاں سے چلی گئی
———————————————–
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...