شیری چلتا ہوا اُسکے قریب آیا اور مائک لے کر سب کو اپنی طرف متوجہ کیا، شیری کی آواز پہ سب ہلا گلا بھول کر اُسکی طرف۔ متوجہ ہو گۓ
آج یہاں آپ سب کو اکھٹا کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ میں اپنے دل کی بات آپ سب کہ سامنے رکھ سکوں۔۔آج ایک بہت اسپیشل انسان موجود ہے یہاں آپ سب کہ بیچ جیسے میں آج آپ سب کہ سامنے اپنے دل کی بات بتانا چاہتا ہوں۔۔۔ میں نے محبت کو سہی معنوں میں اگر جانا ہے سمجھا ہے تو صرف اس ایک انسان کی وجہ سے جس نے مجھے محبت کرنا سکھا دیا، محبت میں جینا سیکھا دیا۔ آج سے پہلے میں نے محبت کو کبھی سمجھا ہی نہیں تھا، بلکے بہت سے محبت کرنے والے دلوں کو توڑا تھا۔ ، کبھی کسی کی فیلنگز کی پروا نہیں کی لیکن آج احساس ہوا ہے کہ جب محبت ٹھوکر مارتی ہے اور محبت میں پاگل مجنوں جب منہ کے بل زمیں پہ گرتا ہے تو کیسا لگتا ہے۔۔۔ میں آج اُس انسان سے اپنی تمام غلطیوں کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔اور آج آپ سب کہ ہی سامنے میں اُسے اپنے دل کی بات کہنا چاہتا ہوں، مائک ایک طرف اُچھال کر وہ نین کی طرف آیا جو دم سادھے کھڑی ٹکر ٹکر اُسے ہی دیکھ رہی تھی، اُسکے قدموں میں بیٹھ کر پورے فلمی انداز میں پروپوز کیا تھا
نین سکندر میں شہریار ملِک پورے ہوش و حواس میں تمام دیکھنے اور سُننے والوں کہ سامنے دل کی گہرائی سے یہ علان کرتے ہوۓ کہتا ہوں کہ مجھے تم سے بے خد محبت ہو گئی ہے میری صُبح بھی تم ہو میری شام بھی تم ہو اور اداس راتوں کی راحت بھی صرف تم ہو، تم نے مجھ سے مجھ کو چُرا لیا ہے، میرا دل میرا نہیں رہا، دل تو کیا دل کی ایک ایک دھڑکن ایک ایک سانس تمیاری ہو گئی ہے، میری ویران زندگی میں چمکتا ستارہ بن کر آئی ہو، روشنی کی نوعد بن کر آئی روشن سویرا بن کر آئی اور میری زندگی کی ساری تاریکیوں کو دور بھگا دیا ہے۔
کیا تم میری اور صرف میری بن کر میری شریکِ سفر بنو گی، میں تھوڑا پاگل ہوں، لیکن اس پاگل کو صرف نین سکندر ہی ٹھیک کر سکتی ہے، بولو نین مجھ سے شادی کرو گی۔ ناجانے اتنی لمبی تقریر کا مقابل پہ کوئی اثر ہوا بھی تھا کہ نہیں؟شیری اپنی بات مکمل کر کے نین کہ تاثرات جاننے کی کوشش کرنے لگا۔
نین ابھی تک بے یقین سی کھڑی تھی، جب سارے اسٹوڈنٹس نے زور دار تالیاں بجانی شروع کیں اور ہر طرف سے ایک ہی آواز گونج رہی تھی
نین ہاں بول دو، نین اسے زیادہ کوئی تمہیں چاہ نہیں سکتا، نین ہاں بولو ہاں، یہ بندہ تمہاری محبت میں پاگل ہے اسکی محبت کا مزید امتحان مت لو، مان جاؤ، ہر طرف سے ایسی سدائیں آ رہی تھیں،،،، نین قدم قدم پیچھے ہٹتی چلی گئی یہاں تک کہ سٹیج کی سیڑیوں تک آن پہنچی، شور ایک دم سے تھما تھا، لِنڈا نے نین کو دیکھا تھا، شیری بھی اُٹھ کھڑا ہوا، نین نے آؤ دیکھا نا تاؤ دیوانا وار بھاگتی چلی گئی، ہر کوئی نین کے اس رویہ سے ناراض ہو رہا تھا، ہر طرف ایک دم سناٹا چھا گیا، نین سب کے سامنے اُسکی محبت کو رسوا کر گئی تھی۔شہریار نے بے بسی سے انگوٹھی کو مُٹھی میں دبا لیا اور آنسوؤں کا سیلاب اندر ہی اُتارتا چلا گیا اور پھر غصے سے آگ بگولہ وجود تقریباً گھسیٹ کر سٹیج سے نیچے اُترا اور وہاں سے غائب ہو گیا۔
نین نین رکو، لِنڈا نین کہ تعاقب میں تھی، اتنی سردی میں بھی نین سکندر پسینا پسینا ہو رہی تھی اور تیز تیز قدم اُٹھاتے فٹ پاتھ پہ چل رہی تھی لِنڈا نے بیچ میں ہی اُسے جا لیا
نین بات تو سُنو،اُسکا بازو پکڑتے ہوۓ روکا۔ پلیز لِنڈا مجھے اکیلا چھوڑ دو اُسنے اکتا کر کہا بولا۔ نین تمہیں اندازا بھی ہے تم نے کیا حرکت کی ہے تم تو ایسی کبھی نہیں تھی، کسی کی احساسات کا مزاق اُڑایا ہے تم نے کسی کی پاک محبت کی تذلیل کی ہے تم نے، اور تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔لِنڈا کو چپ تب لگی جب نین نے آنسوؤں سے تر آنکھیں اُٹھا کر لِنڈا کو دیکھا تھا۔
نین تم رو رہی ہو آئی ایم سوری اگر میری کوئی بات بُری لگی ہے تو، تم تم چلو میرے ساتھ وہ سامنے کیفے ہے وہاں آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور ساتھ ہی نین کا ہاتھ تھام کر اُسے کیفے گریں کہ نام سے کوئی کیفے تھا وہاں لے آئی اور قافی آڈر کر کے نین کی طرف متوجہ ہوئی۔نین ایک بات پوچھوں؟
ہاں یا نا میں جواب دینا بس، اُس کہ بعد کیوں کب کسے، جیسا کوئی سوال نہیں پوچھوں گی۔ نین کا گداز روئی سے بھی زیادہ نرم ہاتھ تھام کر کہا تھا۔ نین نے آنکھیں اُٹھا کر لِنڈا کو دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا تھا۔
کیا تم شہریار سے محبت کرتی ہو؟سوال غیر متواقع تھا نین نے سرعت سے لِنڈا کو دیکھا لِنڈا جواب طلب نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔نین نے کوئی جواب نا دیا اور نظریں جھکا لیں، اور لِنڈا کو اُسکے سوال کا جواب مل گیا
نین کا خمیر تو مٹھاس کی چاشنی میں محبت سے کوندھا گیا تھا، بچپن سے اب تک اُسے محبت ہی تو ملی تھی، ہر کوئی اُسکی شخصیت کا گرویدہ تھا،یہاں آ کر وہ یہی تو دیکھنا چاہتی تھی، کہ اتنی ساری محبتوں کہ بنا وہ چل سکتی ہے یاں نہیں، یہاں آ کر چند دنوں کی نفرت جو بنا کسی قصور کہ اُس نے سہی تھی،وہ لمحے بہت مشکل تھے۔نین نے یاسیت سے سوچا تھا، درد خد سے سوا تھا، کوئی اُسکا دل دیکھتا تو پتہ چلتا کے کتنا دُکھ اور تکلیف بھڑی پڑی تھی۔ نین کی آنکھیں درد سے بوجھل ہو رہی تھی اس وقت وہ صرف آرام کرنا چاہتی تھی، اُسے اپنا نرم بیڈ اور پیلو چاہیے تھا جس پہ وہ اپنا تمام درد بہا سکتی۔
لِنڈا میرے خیال سے اب ہیمیں چلنا چاہے میری طبیعت کچھ خراب سی ہو رہی ہے، وہ بیگ شولڈرز پہ ڈالتے ہو کھڑے ہوتے ہوۓ بولی تھی، اُسے دیکھتے لِنڈا بھی کھڑی ہو گئی پر بولی کچھ نا اور نین کہ پیچھے چل دی۔
****======****
وقت گزرنے لگا آہستہ آہستہ سب لوگ اس واقع کو بھول گۓ تھے ما سواۓ نین سکندر اور شہریار ملِک کہ،دوسرا سال بھی پلک چھپکتے گزرتا جا رہا تھا۔،اے۔ جے سے نین کو پتہ چلا تھا کہ شہریار نے اُنسے اپنے رویے کی معافی مانگ لی تھی، اور اُسکہ بعد اُسکا رویہ ایک دم سے بدل گیا تھا وہ اے۔ جے کا بہت خیال کرنے لگا تھا محبت سے بات کرنے لگا تھا۔ نین کو یہ سب سن کر از خد شرمندگی ہوئی تھی۔
اُس دن کہ بعد سےشہریار ایسا غائب ہوا کہ دو ماہ گزر گۓ تھےلیکن اُسکا کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔نین نے بہت بار پیٹر اور ہیری سے بھی چوچھا جواب میں عینی نے جل بھن کر کہا تھا۔ جب اُسنے ساری دنیا کہ سامنے چیخ چیخ کر اپنی محبت کا علان کر رہا تھا۔،تب تو تم نے اُسکا دل توڑنے میں اُسکی محبت کی تذلیل کرنے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی تھی، پھر اب بار بار اُسکا پوچھ کہ کون سا حق جتا رہی ہو؟
اچھا خاصا تھا میرا شہریار (میرے پہ زور دیا تھا) نجانے تم نے کیا جادو کیا اُس پہ کہ وہ ہم سب کو ہی بھول گیا۔ اب بھی پتہ نہیں کہاں ہے کسی کو کچھ نہیں بتایا اُسنے، تمہارے دیۓ گۓ دُکھ کو پتہ نہیں کیسے برداشت کیا ہو گا اُس نے عینی چڑتے ہوۓ برہمی سے بولی تھی۔جبھی ہیری نے فوراً اُسے ٹوکا، بس کرو عینی کیا ہو گیا ہے،تمہیں پتہ ہے نا شیری کتنی محبت کرتا ہے نین سے ؟اُسے بلکل اچھا نہیں لگے گا تمہارا نین سے ایسے بات کرنا۔نین عینی کی طرف سے میں سوری کرتا ہوں۔ ہیری نے بات سمبھالتے ہوۓ سوری کر کہ بات ختم کر دی تو نین بھی خاموشی سے پلٹ آئی۔
شہریار کتنے ظالم ہو تم،نا تمہارے ہونے سے قرار ملتا ہے اور نا تمہارے جانے سے سکون، کیوں نہیں سمجھتے تم اسی میں ہم دونوں کی بھلائی ہے۔
****======****
اُسی کہ نام کہ جگنو سفر کی شام میں ہیں
کہ جس کہ نام کہ دو حرف میرے نام میں ہیں۔
وہ سر پٹ دوڑنے والے انداز میں چلتی جا رہی تھی۔ جیسے کوئی پیچھے لگا ہو، پسینے میں نہائی ہوئی خود سے بھاگتی ہوئی نجانے کہاں چلتی جا رہی تھی۔ ، اے۔جے کہ الفاظ اُسکی سماعت سے ٹکراۓ تھے ۔نین پتہ نہیں شیری کہاں چلا گیا ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں، پتہ نہیں یہ بے رحم قسمت اور کتنا آزماۓ گی مجھے، ابھی تو
میری بےقرار ممتا کی پیاس بھی نا بُجھی تھی کہ ایک بار پھر سے میرا شیری مجھ سے روٹھ کہ کہیں چلا گیا ہے، نین اُسے ڈونڈھ لاؤ ورنہ میرا سینا پھٹ جاۓ گا۔ اے۔ جے کی بے بس کیفیت، اُن کہ آنسو کہیں چین لینے نہیں دے رہے تھے۔اُسے ایسا لگتا تھا ایک بار پھر سے ایک بیٹے کو ماں سے دور کرنے کی ذمہ دار وہی ہے۔گھر بیٹھے بیٹھے دم گھٹنے لگا تھا، جبھی تازہ ہوا کہ لیا وہ باہر آئی تھی، فوڈ سٹریٹ کراس کرتے ہوۓ اُسے شیری نظر آیا لیکن پھر اپنا وہم سمجھ کر جھٹک دیا، لیکن یہ اُسکا وہم نہیں تھا شیری اُسکی آنکھوں کہ سامنے سے گزر رہا تھا اور دوبارہ غور سے دیکھنے پڑ نین کو اچھو لگے تھے اور وہ سر پٹ شہریار کہ پیچھے لپکی۔ تیز تیز بلکے دوڑ کر بھی وہ اُسکا مقابلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ وہ لمبے لمبے ڈاک بھرتا تیزی سے جا رہا تھا یاں شاید وہ بھی چھپ رہا تھا تاکہ کوئی اُسے دیکھ نا لے، لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ دشمنِ جانا اُسکا تعاقب کر رہی ہے
وہ روڈ کراس کر کہ دوسری روڈ پہ چڑھ کر ساتھ ایک سٹریٹ میں مُڑ گیا۔ نین اُسکہ پیچھے تھی وہ بس اُسکی مقامی رہائش دیکھنا چاہتی تھی اور وہ،،، ،وہ باخوبی دیکھ چکی تھی۔
شیری ناب گھمانے والا تھا جب نین نے اپنا گداز ہاتھ اُسکہ ہاتھوں پہ رکھا تھا۔ اور شہریار نے سر اُٹھا کر نین کو دیکھا تھا۔ دو پل کہ لیے نظریں ملی تھیں نجانے ان دو پلوں میں کتنے راز افشاں ہوۓ تھے۔وہ کہیں سے بھی پہلے والا شہریار نہیں لگ رہا تھا، پھیکی رنگت، بڑھی ہوئی شیو،آنکھوں کا غرور تو کہیں کھو گیا تھا۔نین نے نظریں جھکا دئیں اور بازو باندھ کر ایک طرف کھڑی ہو کر دوبارہ سے اُسے دیکھنے لگی جو ابھی تک بے یقینی سے نین کو دیکھ رہا تھا۔
“کیوں آئی ہو یہاں اب کیا باقی رہ گیا کہنے کو”،وہ برہمی سے بولا تھا۔
“شہریار کیوں کر رہے ہو یہ سب” وہ بس اتنا ہی بول پائی تھی یاں شاید اب بولنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا۔
“مجھے میرے ہال پہ چھوڑ دو نین خُدا کہ لیے”۔ وہ اُسکہ سامنے ہاتھ جوڑتے ہوۓ بولا ۔
“کیا خال بنایا ہو ہے تم نے اپنا، کیوں اے۔ جے کو تکلیف دے رہے ہو، میں تمہاری مجرم ہوں مجھے سزا دو، اے۔جے کا کیا قصور ہے ان سب میں”وہ روہانسی ہو کر بولی ۔
“تمہیں تو میں ایسی سزا دوں گا نین سکندر کہ تم یاد کرو گی، میری محبت میں جنون ہے تو میری نفرت میں بھی شدت ہے” غصیلے انداز میں کہہ کر اندر جانے لگا جب نین نے اُسے دوبارہ رکا۔
“محبت ہو جانا یا مل جانا اہم نہیں ہوتا محبت کو زندہ رکھنا اور عزت دینا اہم ہوتا ہے، تبھی رشتے مضبوط ہوتے ہیں شہریار” وہ یاسیت سے بولی تھی۔
“کس محبت کی بات کر رہی ہو تم ہاں ؟ وہ محبت جس کی ہزاروں لوگوں کہ بیچ تمنے تزلیل کی تھی ؟ تو سُنو میری بات غور سے وہ محبت اُسی روز ختم ہو گئی تھی، اب اسے پہلے کہ میں کچھ سخت سرد سنا دوں تمہیں چلی جاؤ یہاں سے، آئی سیڈ کیٹ لوسٹ”۔۔۔۔۔ وہ غصے سے بولا تھا اور دروازہ نین کہ منہ پہ بند کرتے ہوۓ اندر چلا گیا۔ نین کی محبت میں وہ جنونی خد پار کر رہا تھا۔ جبھی تو ہر ایک سے تعلق ختم کر کہ سر منہ لپیٹ کر ایک کمرے میں خود کو بند کر کہ سزا دے رہا تھا۔ اور یہ سزا وہ اکیلا نہیں نین بھی اُسکہ ساتھ بھگت رہی تھی۔۔۔۔
*****=======*****
“چھوڑو یہ وفاؤں کہ قصے یہ عمر بھر کا رونا ہے
نا پہلے کوئی اپنا تھا۔نا اب کسی نے ہونا ہے”
وہ کسی کام سے باہر نکلا تھا، دروازا لاک کر کہ مُڑنے لگا تھا جب اُسکی نظر دروازے کہ ساتھ بنی سیڑھی پہ بیٹھی نین پہ پڑی، وہ جلدی سے نین کی طرف آیا اور ہاتھ بڑھا کر اُسکا ماتھا چھوا ۔ وہ بخار میں تپ رہی تھی۔ اُسے لگا تھا دروازہ بند کر دینے کہ بعد نین واپس پلٹ جاۓ گی لیکن شاید وہ وہیں رک کر شہریار کا ویٹ کر رہی تھی، اور شہریار سر منہ لپیٹ کر ایسا سویا کہ شام کہ ہلکے ہلکے ساۓ لہرانے لگے تھے جب اُسکی آنکھ کھلی تھی۔ قافی کی شدید طلب محسوس ہوئی تو اُٹھ کھڑا ہوا۔
نین کو بستر پہ ڈال کر اُسنے فوراً ہیری کو فون پہ ساری صورتِ خال بتا کر جلدی ڈاکٹر کو لانے کا کہہ کر خود واپس نین کہ قریب بیٹھ گیا، اور اُسکا ہاتھ اُٹھا کر اپنے ہونٹوں سے لگا لیا تو پلک سے ایک موتی ٹوٹ کر نین کی ہتھیلی میں جزب ہو گیا۔
“کتنی ضدی ہو تم نین، مان کیوں نہیں لیتی کہ تمہیں بھی مجھسے محبت ہے، تم مانو یاں نا مانو لیکن آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو، پھر قبول کیوں نہیں کرتی کیا مشکل ہے”اُسکا نرم ہاتھ سہلاتے ہوۓ دیوانا وار بول رہا تھا۔ “میرے دل سے تمہاری محبت کبھی ختم نہیں ہو سکتی سنا تم نے کبھی بھی نہیں” وہ شدید تکلیف میں بولا تھا۔ بیل کی آواز پہ وہ فوراً اُٹھا اور باہر گیا۔
ڈاکٹر کہ تسلی بخش الفاظ سننے کہ بعد اُسے قرار آیا تھا۔ ورنہ تب سے اب تک وہ اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں تڑپ رہا تھا۔
رات کہ پچھلے پہر نین کی آنکھ کھُلی تھی، وہ اضطراب سے اُٹھ بیٹھی چاروں طر نظر گھوما کر دیکھا، پہلے تو اُسے سمجھ نا آیا کہ وہ کہاں ہے لیکن پھر دماغ پہ زور ڈالنے کہ بعد اُسے سب یاد آنے لگا کہ وہ باہر سردی میں بیٹھی بنا شال کہ شیری کا انتظار کر رہی تھی اور شاید انتظار کرتے کرتے سردی کی وجہ سے اُسے بخار ہو گیا تھا، مئی کا مہنہ تھا دن بھر موسم گرم رہتا لیکن رات کا موسم سرد ہی رہتا تھا رات کہ وقت بھی کمبل اوڑھ کہ سونا ہڑتا تھا۔
کمرے میں اندھیرا تھا، چاند کی روشنی سے ہلکی ہلکی روشنی کمرے میں جھانک رہی تھی جسے کمرہ نیم روشن تھا، نین کو اندھیرے سے بہت ڈر لگتا تھا۔وہ آہستہ سے گرم بستر چھوڑ کر اُٹھ کھڑی ہوئی دو قدم چلی ہی تھی کہ کسی چیز کہ ساتھ پاؤں اٹکا اور وہ لڑکھڑا کر گرنے لگی جبی شیری جو ہاتھ میں کینڈل لیے کمرے میں داخل ہو رہا تھا نے آگے بھڑ کر اُسے تھام لیا،نین ڈر کہ مارے فوراً شیری کہ ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی اُسے اندھرے سے ڈر لگ رہا تھا۔،شیری نے کینڈل نین کہ چہرے کہ سامنے کی تھی، نین کی خوف میں ڈوبی گہری آنکھین نظر آئیں، چہرے کہ تاثرات بھی خوف میں لپٹے اپنی کہانی آپ بیاں کر رہے تھے۔ وہ اب اسکے ساتھ سمٹی کھڑی تھی۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے کہ چہرے کا طواف کر رہی تھیں، لیکن دونوں اپنی اپنی جگہ بے بس تھے۔محبت دونوں طرف تھی لیکن بے بسی بھی مقدر میں ہی لکھی تھی، تقدیر نے کیا فیصلہ کر رکھا ہے اس بات سے انجان دونوں ساکن کھڑے تھے۔
وہ والہانا انداز میں نین کو دیکھے جا رہا تھا اور پھر ہاتھ بڑھا کر نین کہ چہرے سے لٹ کو پیچھے کیا تھا۔ نین فوراً پیچھے ہٹی تھی شاید حواسوں میں لوٹ آئی تھی۔
“مجھے گھر جانا ہے” ایک طرف سرکتے ہوۓ مدھم آواز میں گویا ہوئی۔
“نین تمہاری طبعت ٹھیک نہیں۔ رک جاؤ صبح میں چھوڑ آؤں گا”
“نہیں مجھے گھر جانا ہے۔ پلیز مجھے گھر چھوڑ آؤ” وہ لجاجت سے گویا ہوئی
نین کتنی ضدی ہے اس بات کا یقین اب تو شیری کو ہو چکا تھا۔اسی لیے خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ نین بھی سر جھکا کر فوراً پیچھے چل دی۔
وہ گاڑی کا دروازہ کھولے کھڑا تھا نین خاموشی سے اندر بیٹھ گئی شہریار نے آہستہ سے دروازہ بند کیا اور پھر ساتھ بیٹھ کر سٹیرنگ سنبھال لیا۔ باقی کا سفر خاموشی سے کٹا تھا وہ ایک دوسرے سے بے نیاز بیٹھے تھے۔ نین ونڈاسکریں سے باہر دیکھنے لگی، روڈ پہ رات کہ اس پہر بھی رش کافی تھا، رنگارنگ روشنیاں پھیلی ہوئ تھیں، صاف شفاف سڑک پہ اُن کی گاڑی دوڑ رہی تھی۔
“آئی ایم سوری نیں” شیری نے پہلی بار مخاطب کیا تھا۔
“کس لیے” وہ ناسمجھی سے شیری کو دیکھتے ہوۓ بولی
“مجھے تم سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی، نا’ میں ایسے بی ہیو کرتا ‘نا’ تم بیمار ہوتی”۔ وہ شرمندگی ظاہر کرتے ہوۓ بولا تھا۔
“کوئی بات نہیں، اب تو مجھے تمہارے اس رویے کی عادت سی ہو گئ ہے۔ کیوں کہ تم پہلے درد دیتے ہو اور پھر مرہم لگانے بھی آتے ہو، اس لیے اب تمہارا دیا ہوا درد سہنے سے پہلے میں مرہم کا انتظام کر لیتی ہوں”۔ وہ نا چاہتے ہوۓ بھی تلخ ہو گئی تھی۔ شیری نے بے چینی سے اُسے دیکھا اور پھر باہر دیکھنے لگا۔ نین کو اُتار کر وہ فوراً آگے بھڑ گیا۔۔۔۔
******=======******
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...