کار ڈرائیور کرتا زین بلیک ڈنر سوٹ میں مبلوس بال جیل سے ایک سائیڈ کیے کوٹ کی استین کو پیچھے موڑے سٹرپس والی ٹائی لگائے مسلسل مرہا کے خیال میں غم تھا
یار!!!!
کیا ہوتا اگر ایک بار اس دشمن جان کو دیکھ لیتا ہونہ ۔پر اسے تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا نہ ؟؟ دیکھ لونگا اسے کب تک بچتی پھرے گی آخر کبھی تو میری محبت کی تپش کو محسوس کرے گی ۔۔۔۔
زین نے دل میں تہںبہیہ کیا پھر مسکرا کر سر جھٹکا
کتنی حسین یہ ملاقاتعین ہیں “””
ان سے بھی پیاری تیری باتیں “”
باتوں میں تیری جو کھو جاتے ہیں ”
آؤں نہ ہوش میں ”
میں آؤں نہ ہوش میں ”
زین نے بلند آواز میں مسکرا کر گانا گایا
بھائی !!!!!!!ll
لاریب نےزین کو حیرت سے دیکھ کر چیخ ماری !!
زین نے جھٹکے سے گاڑی روکی
کیا ہوا۔۔؟؟
زین نے پریشانی سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھی لاریب سے پوچھا
آپ ٹھیک ہیں نہ ؟؟
لاریب نے زین کی پیشانی پر ہاتھ رکھا
ہاں میں ٹھیک ہوں ۔لیکن تم ۔۔کیون چیخی زین نے پھر سے سوال کیا
بھائی آپ نے ۔۔۔گانا گایا وہ بھی رومانٹک!! لاریب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ؛؛
تو اس میں تم چیخی کیوں ؟؟ میں گانا نہیں گا سکتا کیا ؟؟ جھلی کہیں کی زین نے سر جھٹک کر کار سٹارٹ کر دی
ہاں ہاں گا سکتے ہیں لیکن آپ تو کبھی اتنے رومانٹک نہیں تھے پہلے۔ ایک دم خڑوس ہیرو ہوتے تھے میری فرینڈز تو کہتی تھیں تمہارا بھائی ہنستا بھی سیریس ہوکے ہوگا ہونہ لیکن اب ۔ اب تو اتنا تیار ہونے لگے ہیں میوزک سننے لگے ہیں گانا گانے لگے ہیں یہ سب میں ایسے کیسے ہضم کرلوں؟؟
پنک اور بلیک میکسی میں بالوں کا جوڑا باندھے لائٹ سے مکیپ میں مبلوس لاریب نے سینے پر بازو لپیٹ کر مشکوک نظروں سے زین کو دیکھا
زین نے اپنے حلیہ پر ایک نظر ڈالی
یار ولیمہ ہے میرا۔۔۔
اگر میں ہی اچھا نہیں لگوں گا تو لوگ کیا کہیںگے بھلا۔۔؟؟؟ زین نے منہ بنا کر بے چارگی سے کہا
لوگ کہیںگے کے ۔۔دلہن کتنی پیاری ہے اور دولہا دیکھو منہ تک دلہا ہوا نہیں ہے ہائے بیچاری کی قسمت جو ایسا شوخا دلہا بیچاری کے پلے پر گیا ۔۔لاریب نے زین کو چیڑتے ہوے سر جھٹرک کر کہا
ویری فنی زین نے دائیں بائیں سر ہلایہ ۔۔۔
بھائی آج یسرا آے گی ؟؟؟
لاریب نے ڈرائیور کرتے زین کی طرف دیکھا !!
اہاں وہ پوھنچ جاۓگی !!!
بھائی یسرا آپ کے نکاح پر بھی نہیں آئ تھی۔ نہ ؟؟امی نے بتایا مجھے
لاریب نے سوالیہ نظروں سے زین کی طرف دیکھا
زین نے گہری سانس لی ۔۔۔یسرا نہیں چاہتی تھی کے میں مرہا سے شادی کروں زین نے سادگی سے بتا کر شانے اچکائے ۔۔۔۔
لاریب بس اپنے بھائی کو دیکھتی رہ گئی ۔۔۔
پھر سر جھٹک کر آگے دیکھنے لگی !!!
ہال آ چکا تھا باہر بہت سی گاڑیاں قطار میں پارک کی گئیں تھی رش بہت زیادہ تھا باہر سے بہت ہی خوبصورتی سے ہال ڈیکوریٹ کیا گیا تھا
ہر طرف پھول ہی پھول نظر آرہے تھے کم کموں سے ہال جگ مگ جگ مگ کر رہا تھا ۔۔۔ہر طرف لوگ گلاس ہاتھ میں اٹھائے ٹولیوں کی صورت میں کھڑے قهقے لگانے اور ہنسی مذاق کرنے میں مصروف تھے
ماحول بہت ہی خوشگوار تھا ۔۔۔۔
زین نے گاڑی پارکنگ ایریا میں پارک کی اور گردن کڑا کر سیدھ میں چلتا اندر داخل ہوا بہت سے لوگوں نے مسکرا کر مبارک بعد پیش کی زین نے مسکرا کر سر کو جنبش دی اور آگے بڑھ گیا
اسٹیج پر دو بڑی چیئرس رکھی گئیں تھیں
مرہا ابھی تک نہیں آئ تھی اسٹیج پر رکھی کپل چیئر میں سے ایک پر زین بیٹھ گیا
ہلکی ہلکی موسیقی نے موسم کو رومانٹک بنا دیا تہ زین کے لیے انتظار مشکل سے مشکل ترین ہوتا جا رہا تھا وہ دشمن جان ابھی تک نہیں آئ تھی زین کا موڈ خراب ہوتا گایا
بالاخیر انتظار اپنے اختتام کو پوھنچا
سامنے سے لاریب اور حمنہ بیگم کے ہمراہ وہ دشمن جان پوری طرف سج سنور کر زین کے قریب آتی جا رہی تھی ۔۔۔۔
وہ ایک لمحہ ایسا تھا کے زین آس پاس سے بے گانا ہوگیا اسکے حواس کام کرنا چھوڑ گئے پلکوں نے جھپنے سے انکار کر دیا دل دھڑکنا بند ہوگیا
پہلی مرتبہ زین نے ایسا حسن ایسی خوبصورتی دیکھی ہی ۔۔۔۔گولڈن کلڑ کے لہنگے میں مبلوس سر پر سرخ نیٹ کا دوپٹہ سلیقے سے جمائے بالوں کو کرل کر کے ایک کندھے پر ڈالے ماتھے پر مانگ ٹیکا سجاے مناسب سے مکیپ پر سرخ لپسٹک لگائے کلائیؤں میں سرخ اور گولڈن چھوڑیان پہنے وہ زین کے حواسوں کو بے قابو کر رہی تھی زین پلک جھپکنا بھول گیا دل عجیب حالت میں دھڑک رہا تھا وہ بے اختیار اٹھا ااور مرہا کو یک ٹک دیکھتا اپنا ہاتھ آگے بڑھایا
مرہا نے پہلے زین کے بڑھے ہاتھ کو پھر زین کو دیکھا ۔۔۔
اب وہ کیا کرے سب اس دونو کی طرف متوجہ تھے
زین کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی مرہا کو وہ مسکراہٹ زہر لگی
اس نے نہ چاہتے ہوے بھی اپنا ہاتھ دھیرے سے زیں کے ہاتھ میں دے دیا
زین کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی اسنے مرہا کا ہاتھ دھام کر اسے ہلکا سا دبایا
مرہا نے ہاتھ دبانے پر گھور کر زین کو دیکھا بدلے میں زین نے ایک سمائل پاس کر کے آنکھ ماری مرہا کا منہ حیرت سے کھلا اس نے سر جھٹکا اور چیئر پر بیٹھ گئی
دھڑا دھڑ پاس سے بہت سیتصویریں کلک کرنے کی آوازیں آئین ۔۔۔۔
“اچھی لگ رہی ہو”
زین نے خوبصورتی سے سجی سنوری مرہا کو دیکھ کر دل سے اسکی تعریف کی
پھر کیا کروں ناچوں مرہا نے ایک غصے بھری گھوری سے زین کو نوازا۔۔۔
جواب میں زین نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا اور ایک فلائنگ کس مرہا کو دی
سب آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے ان کی طرف کوئی متوجہ نہیں تہ زین نے موقع دیکھ کر چوںکا مار دیا
مرہا کوجیسے چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا لگا ہو وہ ہوںکون کی طرح منہ کھولے زین کو دیکھ رہی تھی
بدتمیز !!!
مرہا نے سرگوشی کی
وہ اس وقت کچھ نہیں کہ سکتی تھی سبھی ان دونو کو دیکھ کر دائمی خوشیوں کی دعائیں اور مبارک بعد دے رھے تھے
زین نے مرہا کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا
مرہا کو اس کو حالت پر شعبہ ہوا
کیا مسلہ ہے ؟؟
دماغ گھاس چرانے بھیجا ہے کیا،؟؟
مرہا نے غصے سے بھری آواز میں سر گوشی کی
زین نے گہری سانس لی
مریض عشق ہوں کر دے ذرا دوا زیں نے مسکرا کر آنکھیں ڈبٹین
اور تب مرہا کا دل کیا علاج کے بدلے زین کا سر پھاڑ دے جو کب سے اسے زچ کیے جا رہا تھا
یہ وہ زین بلکل نہیں تھا جس سے وہ پہلے ملی تھی مرہا اس کا یہ انداز دیکھ کر عجیب الجھن کا چکر میں پڑ گئی سمجھ نہیں آ رہا تھا کے اس کی حرکتوں پر غصہ کرے یا خاموشی سے برداشت کرے دو دں ہو گئے تھے لیکن زین نے اس کو کوئی اذیت نہیں دی تھی نہ لفظوں کی اذیت سے مرہا کو تکلیف دی تھی ایک عجیب تاثر تھا زین کی آنکھوں میں جو مرہا کو پریشان کر دیتا تھا
کچھ عجیب کچھ اپنا سا تاثر !!!
مرہا نے دل ہی دل میں سوچا
اسے زین کی نظریں خود پر محسوس ہوئیں اس نے ابرو اچکا کر زین کی طرف دیکھا
کیا۔ ۔۔؟؟؟
تم وہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔؟؟
زین نے دلچسپی سے ایک ہاتھ گال تلے رکھکر مرہا کو دیکھا
مرہا کے لیے ضبط کرنا مشکل ہوگیا جیسے ہی کوئی۔ مہمان ہٹتا زیں ایسے ہی اسےتنگ کرنے لگ جاتا
تو پھر کہاں بیٹھوں؟؟
آسمان پر ؟؟
مرہا کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑنے لگا
آسمان پر بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے نہ جانےمں !! تم میری گود میں بیٹھ جاؤ نہ ایسے سلفی بہت اچھی آے گی ہماری ۔۔۔زیں نے انتہائی محبت سے چور لہجے میں کہا
مرہا نے غصے سے دانت پیسے
کیا سبھا سبھا بھنگ چڑھا کر آے ہو تم ؟؟؟
مرہا کا دل کیا اپنا ہی سر پیٹ لے
بھنگ کی کیا ضرورت ہے؟ تم ہو نہ میری ۔۔۔عافیم!!!زین نے ہنوز مسکرا کر دیکھتے ہوے کہا
اور مرہا کا دل چاہا سچ میں اپنا سر پیٹ لے
ویٹر کولڈ ڈرنک کے دو گلاس لایا تو مرہا نے ایک گلاس تھام لیا اسکا گلہ خشک ہونے لگا تھا
ویٹر ہٹا تپ زین نے پھر سے بولا شروع کیا
میں پلا دوں ؟؟
کیا زہر؟ ؟؟
مرہا نے عاجز آتے ہوے سختی سے پوچھا
نہیں محبت سے بھرا جام
زین نے ہلکا سا قهقا لگایا ۔۔۔
اندھا پاگل کمینہ کہیں کا ہونہ مرہا نے دل ہی دل میں زین کو خوب تعریفوں سے نوازا !!!
روحیل کی پوری فیملی آئ تھی مرہا کو تو زیں سے مانو چھٹکارا پا کر صدیوں کا سکھ نصیب ہوگیا ہو صدا شکر کے اسنے سب کے سامنے کوئی حماقت نہیں کی تھی
شگفتہ بیگم اپنی بیٹی کو دیکھ کر اسکی دائمی خوشیوں کی دعائیں دینے لگیں عظیم صاحب بھی مطمئن تھے البتہ روحیل اتنا مطمئن نہیں تھا
لیڈیز اینڈ جینٹل میں ہیئر آئ ام پریزنٹنگ اے بیوٹیفل ڈانس فور مائے ۔۔۔لوولے وائف زین نے مائیک پر جھک کر اعلان کیا
مرہا کرنٹ کھا کر مڑی یہ کی بول رہا تھا اب ؟؟
مرہا دم سادہے زین کے الفاظ سن رہی تھی جیسے اپنی سماعتون پر اسے شک ہو
ہال میں خاموشی چہا گئی سب دم سادہے کھڑے تھے
وہ چھوٹے چھوٹے قدم چلتا مرہا کے قریب آیا اور اپنا ہاتھ مرہا کی طرف بڑھایا
اب وہ کیا کرے ڈانس اور اس کے ساتھ جو اسے سخت زہر لگتا تھا
لوگوں کا شور بلند ہوا تو مریا کو نہ چاہتے ہوے بھی اپنا ہاتھ زین کے ہاتھ میں دینا پڑا
زیں مسکرایا !!!
میوزک پلیز
کسی نے ہانگ لگائی
زین کا ایک ہاتھ مرہا کے ہاتھ میں اور ایک ہاتھ مرہا کی کمر پر تھا
مرہا کو جیسے کرنٹ سا لگا
زین نے اپنی ہنسی دبائی!!!
اتنی نزدیکییاں کہاں سے تھیں ان دونو۔ کے بیچ
میوزک آن ہوا ۔۔۔
میرے تو سارے سویرے باہوں میں تیری ٹھہرے
میری تو ساری شامیں تیرے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں
تھوڑا سا بھی شک نہ کرنا
تمسے میرا جینا مارنا
تم چل رھے ہو تو سانسیں میرے ساتھ چل رہی ہیں
اوہ ہمسفر اوہ ہمنوا
بے شرط میں تیرا ہوا
مرہا زین کے قدم سے قدم ملاتی رہی کبھی آگے کبھی پیچھے نہ چاہتے ہوے بھی وہ دونو قریب تھے بے حد قریب
ایک عجیب سا جذبہ اسے نہ چاہتے ہوے بھی زین کی آنکھوں میں دیکھ لیا تھا
ایک اپنا سا جذبہ
شاید بے پناہ محبت کا جذبہ
گانا ختم ہوا تو سب نے تالیاں بجائیں
زین نے ابھی بھی مرہا کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا
مرہا جانے لگی تو زین نے اسے روک لیا
مرہا نے اجنبھے سے زین کو دیکھا
زین نے زمین پر ایک گھٹنہ رکھا اور جیب سے ایک مخملی کیس نکلالا
جس میں ڈائمنڈ کی ایک خوبصورت رنگ تھی
زین نے مسکرا کر مرہا کی طرف دیکھا
جیسے کہ رہا ہو پہناؤں ؟
سے یس لوگوں کا شور پھر بلند ہوا
یس مرہا نے جھکے سر کے ساتھ دھیرے سے کہا
زین نے خوبصورت رنگ مرہا کی انگلی میں پہنا دی
سبھی نے جوش سے خوب تالیاں بجائین
فنکشن اختتام کو پوھنچا
مارے تھکن کے مرہا کا جسم ٹوٹ رہا تھا
جو بھی اج ہوا اس پر یقین کرنا مشکل تھا مرہا نے اس کے بارے میں کچھ بہی سوچنے سے گریز کیا
کوئی بعید نہیں اس شخص سے
پل میں تولا پل میں ماشا ہونہ
آج عریش کا نکاح تھا اس نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھاوائٹ شلوار کمیز پر مخمل کی واسکٹ پہنے وہ بجھا بجھا لگ رہا تھا
مجھے تو اپنی محبت نہیں ملی یہ تو قسمت کی بات ہے چلو کوئی بات نہیں ضروری نہیں کے ہر کسی کی محبت کا ایک خوبصورت انجام ہو ۔کبھی کبھی کچھ محبتیں ادھوری بھی رہ جاتی ہیں۔ چلو ایک ادھوری محبت میری بھی سہی
عریش پہیکا مسکرایا
نکاح پڑھا گیا سب عریش کی ہاں کا انتظار کرنے لگے
عریش کے آنکھوں کے سامنے بیتے لمحے چلنے لگے پھر اس کے سامنے مرہا کے نکاح کا لمحہ آیا عریش نے کرب سے آنکھیں بند کیں
قبول ہے تین بار اس نے دوہرایا
اور اس طرح ایکاور محبت کی کہانی ادھوری ہی رہ گئی
ایک اور محبت آج ادھوری رہ گئی اور اس ادھوری محبت کا باب بند ہوگیا
سینے میں اٹھتے ہیں ارمان ایسے
دریا میں آتے ہیں طوفان جیسے
کبھی کبھی خود ہی ماچی
اپنی کشتی ڈبوتا ہے
باہر کوئی ہنستا ہے اندر کوئی رو تا ہے
اے دل دل کی دنیا میں ایسا حال بھی ہوتا ہے
رات کا وقت تھا وہ ہونے کمرے میں بیٹھی چائے سے لطف اندوز ہو رہی تھی
تبھی دروازہ کھلا
سلیولیس ٹاپ پر ٹائٹ جینس پہنے بالوں کی اونچی پونی بنائے وہ چہرے پر نفرت اور غصے کے آسر لیے مرہا کی طرف بڑھی
کون ہو تم ؟اور میرے کمرے میں بنا اجازت کیسے آگئی ؟؟
مرہا کے تیوری چڑھا کر یسرا سے پوچھا
تمہارا کمرہ ؟؟ میرے گھر میں رہ کر تم مجھسے سوال کر رہی ہو یسرا نے انگلی سے اپنے طرف اشارہ کیا
مرہا نے اجنبھے سے اس مغرور اور بد زبان لڑکی کو دیکھا
اوہ ! تو تم ہو یسرا مرہا نے سر سے پاؤں ٹک یسرا کا جائزہ لیا
مجھسے سوال کرنے کا حق کس نے دیا تمہیں یسرا نے بد لحاظی سے پوچھا
چہ چہ چہ تمہیں نہیں اپتا تم سے زیادہ تو میرا حق ہے اس گھر پر آخر کو نکاح کر کے لایا ہے تمہارا بھائی مجھے یہاں۔ مرہا نے اس کے غصے کو کسی خاطر میں لاے بنا کہا
ویسے ٹھیک ہی۔ کیا میرے بھائی نے تمہارے ساتھ کتنا دکھ ہوا ھوگا نہ تمہیں ؟؟
جب اسنے تمہیں ریجیکٹ کیا ہوگا چہ چہ چہ بیچاری تبھی تو سوسائٹ کرنے کی کوشش کی تھی تمنے مرہا نے سینے پر بازو لپیٹ کر افسوس سے سر جھٹکا
یسرا غصے سے مرہا پر جھپٹی اور مرہا کے گال دبوچ لیے
کیا کہا تمنے؟؟ تمہارا بھائی ریجیکٹ کرے گا مجھے مجھے؟ ؟ یسرا آفتاب کو ؟؟ بھول گئی مینے تمہیں اگوا کرایا تھا تمہاری عزت پر اگوا ہونے کا داغ مینے لگایا تھا اب بھی تمہاری اور تمھرے بھائی کی اکڑ گئی نہیں ؟؟
مرہا نے دھکا دے کر یسرا کو پیچھے دھکیلا !!!
تمہاری اتنی ہمت کے تم نے مجھے دھکا دیا
یسرا نے مرہا کے گلے میں ہاتھ ڈالے
پہلے میرے بھائی کو پھنسایا اب تم مجھ پر روب چلاوگی
مرہا کا سانس اٹکنے لگا آنکھوں میں گرم پانی بھر آیا آنکھوں میں سرخی اتر نے لگی
یسرا کی گرفت سخت ہوتی گئی
یسرا چھوڑو ایسے کیا پاگل ہو گئی ہو
تبھی لاریب کمرے میں بھاگتی ہوئی آئ اور یسرا کا ہاتھ ہٹانے لگی
تم دور ہٹو مجھسے۔۔ میں اس کو قتل کر دونگی سمجھتی کیا ہے یہ خود کو؟ میرے بھائی کے بل پر یہ سب تم کر رہی ہو نہ جبھی اتنی ہمت ا گئی ہے نہ تم میں ۔۔آج تمہارا قصہ ہی ختم کر دیتی ہوں
مرہا کی آنکھیں ابلنے لگی بے اختیار اس کو کھانسی آئ
یسرا چھوڑو بھابھی کو۔۔۔۔۔ لاریب نے یسرا کو دور دھکیلا !!
یسرا لڑکھڑا کر پیچھے ہوئی
شور سن کر حمنہ بیگم بھی بھاگتی ہوئی اوپر آئ
مرہا گردن میں ہاتھ ڈالے زور۔ زور سے کھانسنے لگی اس کو سانس بہت مشکل سے آ رہا تھا
حمنہ بیگم نے حواس پاختا ہوکر کھانستی ہوئی مرہا سمبھالا
کیا پاگل پن تہا یہ یسرا؟؟؟ انسانیت نام بھی تمہارے دل سے ختم ہوگیا ہے کیا
لاریب یسرا پر برس پڑی
حمنہ بیگم نے بے اختیار مرہا کو تھام کر اسے بیڈ پر بٹھایا
لاریب نے اسے پانی کا گلاس پکڑایا
مرہا نے گٹا گٹ پانی کا گلاس خالی کیا
اب اسکی حالت سمبھلی ہوئی لگ رہی تھی
تم ٹھیک ہو نہ میری بچی؟ حمنہ بیگم نے مرہا کے ہاتھ سہلاتے ہوے پوچھا
مرہا نے جھٹسے حمنہ بیگم کو گلے لگایا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی
حمنہ بیگم اور پاس کھڑی لاریب کی آنکھیں بھی آب دیدہ ہوگئیں
بس کرو میری بچی بس کرو !!حمنہ بیگم نے مرہا کے بال سہلاتتے ہوے پیار سے اسے بچکارہ مرہا ہنوز روتی رہی
بھابھی خدا کے واسطے بس کریں آپ کی طبیت خراب ہو جاۓگی لاریب نے پریشانی سے مرہا کو چپ کروانا چاہا
چھوڑوںگی۔ نہیں میں تمہیں یسرا خود سے بڑبڑائے جا رہی تھی جبھی زین سے اس کا ٹکر ہوا
ارے ارے آرام سے ایسے اندھی طوفان کی طرح کہاں جا رہی ہو زین نے اسے کندھوں سے تھامتے ہوے کھا
کیا ہوا تمہیں زین نے یسرا کا لال بھبہکودہ چہرہ دیکھا تو ٹھٹھک کر پوچھا
اپنی اس محبوب بیوی سے جا کر پوچھ لینا یسرا نے زین کو ہاتھ سے پرے دھکیلا اور تن فن کرتی سیڑیان اتر نے لگی
زین نے اجنبھے سے یسرا کی پشت کو دیکھا
اسے کیا ہوا وہ شانے اچکاتا اندر مرہا کی طرف بڑھ گیا
اسلام و علیکم ایوری ون””
تبھی خوش باش لہجے میں زین اندر داخل ہوا
مرہا نے جلدی سے حمنہ بیگم سے الگ ہوکر اپنے آنسوں صاف کیے
اس کی ابتر حالت دیکھ کر زین کا دماغ بھگ سے اڑ گیا
بے اختیار وہ مرہا کے قریب بڑھا
کیا ہوا مرہا ؟؟؟
تمہاری کنڈیشن ایسی کیوں ہے زین نے تشویش سے مرہا کا ہاتھ تھام لیا
مرہا نے اپنا ہاتھ جھٹ سے واپس کھینچا
دور رہیں مجھسے سمجھے آپ؟؟ مجھے تکلیف دے کر پوچھتے ہیں کے مجھے کیا ہوا
مرہا نے کہ کر پھر سے زار و قطار رونا شروع کر دیا
مرہا !!!
زین نے بے بسی سے اتنا ہی کہا
تبھی اسکی نظر مرہا کی گردن پر پڑی جو بے تحاشا سرخ ہو گئی تھی جس پر انگلیؤں کے نشان بنے ہوے تھے
زین کے ماتھے پر بل پڑے
امی یہ۔۔۔ ؟؟ زین نے انگلی سے مرہا کی گردن کی طرف اشارہ کیا
یہ مرہا کی گردن پر ایسے نشان کس ۔۔۔کس نے کیا ہے یہ؟؟ زین دبا دبا سے چیخا
حمنہ بیگم نے کوئی جواب نہیں دیا
امی میں کچھ پوچھ رہا ہوں اس کی آواز میں۔ سختی در آئ ماتھے کی رگیں تن گئیں
زین نے کوئی جواب نہ پا کر پاس والی ٹیبل پر پڑا گلداں ہاتھ مار کر زور سے زمین پر مارا
باہر چلو تم بتاتی ہوں میں۔۔۔ حمنہ بیگم نے سختی سے زین کو باھر جانے کا کہا
زین کے جبڑے تک بہیںچ گئے اسنے زور سے بیڈ کو ٹھوکر ماری اور کمرے سے باہر نکل گیا
حمنہ بیگم نے پیار سے مرہا کے آنسو صاف کیے
بس کرو بیٹا چپ کر جاؤ حمنہ بیگم نے اپنائت بھرے لہجے میں مرہا سے کہا
تم آرام کرو اب حمنہ بیگم نے پیار سے کہا
مرہا نے نفی میں سر ہلایا
مرہا سو جاؤ ضد نہیں کرتے بیٹا !!
مرہا کو نہ چاہتے ہوے بھی حمنہ بیگم کی بات ماننا پڑی
حمنہ بیگم نے مرہا کے اوپر لیہاف ڈالا اور اسکا ماتھا چومتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئیں
لاریب بھی انکے ساتھ ہو لی اسے سمجھ نہیں آیا تھا کے یسرا نے ایسا کیوں کیا؟ مرہا اور زیں کے بیچ تلخیان کیوں ہیں؟ وہ کیوں میاں بیوی کے رشتے میں ببندھ کر بھی ایک ساتھ نہیں ہوتے
حمنہ بیگم غصے سے زین کے کمرے کی طرف بڑھیں
وہ جو کمرے میں بے بسی اور غصے کی حالت میں چکر کاٹ رہا تھا حمنہ بیگم کو اپنی طرف آتا دیکھ کر بے اختیار ان کی طرف بڑھا
امی کیا ہوا ہے ؟؟؟ مرہا کی یہ حالت ؟؟؟ وہ کیوں رو رہی تھی ؟؟؟ زیں نے یکا یک سوال کی بوچھاڑ کر دی حمنہ بیگم نے تھکی ہوئی سانس لی اور بے بسی سے زیں کو دیکھا
تمنے مرہا سے شادی کیوں کی زین ؟؟؟ حمنہ بیگم نے الٹا سوال کیا
امی !!!یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے زین نے ضبط کرتے ہوے کہا
یہ میرے بھی سوال کا جواب نہیں ہے زین۔
کیوں تمنے شادی کی تھی مرہا سے؟ بولو اور اگر شادی کر ہی لی تھی تو تم اس کے محافظ کیوں نہیں بنے ؟؟؟ کیوں تمنے اسے زمانے کی سرد گرم سے نہیں بچایا ؟؟؟ تم نے شادی کر کے اسے چھوڑ دیا ایک کمرے میں یہ سوچے بنا کے اسکے ساتھ تمھارے جانے کے بعد کیا ہوتا ہے کون اسکو تکلیف دیتا ہے کون اسکو قتل کرنے کی۔ کوشش کر تا ہے
حمنہ بیگم نہ چاہتے ہوے بھی تلخ ہو گئیں
امی زین نے کچھ کہنا چاہا
حمنہ بیگم نے ہاتھ اٹھا کڑ اسے روک دیا
میری بات ختم نہیں ہوئی ابھی
تم مجھے جواب دو کے تم نے اس لیے اسے اپنی زندگی میں شامل کیا کے کوئی بھی آے اور اسے تکلیف پوھنچا کر چلا جاۓ ؟؟؟ بولو زین تم نے مرہا سے نکاح کیوں کیا حمنہ بیگم نے زور دے کڑ پوچھا
پیار کرتا ہوں میں اسے ۔۔۔۔زین نے جذباتی ہوکر وہ کہ دیا جو شاید وہ کبھی نہ کہ پاتا
کمرے میں خاموشی چھا گئی ساری آوازیں آنا بند ہوگئیں
حمنہ بیگم اور لاریب نے بے یقینی سے ایک دوسرے کو دیکھا
زین نے گہری سانس لی اور بے بس سا بیڈ پر بیٹھتا چلا گیا
ہاں امی اچھی لگنے لگی ہے وہ مجھے ۔۔۔مجھے اچہا لگتا ہے اسے دیکھتے رہنا ۔اچھا لاگتا ہے اس کا میرے پاس ہونا ۔مجھے نہیں پتا یہ میرے ساتھ کب ہوا لیکن امی مرہا مجھے اپنی لگتی ہے اب وہ میری زندگی میں ہی نہیں میرے اندر بسنے لگی ہے
مجھے محبت ہوگئی ہے اس سے لیکن اپنے لیے اسکی آنکھوں میں نفرت نہیں دیکھ سکتا میں ۔میں ٹوٹ جاتا ہوں جب وہ کہتی ہے کے مینے اسے اگوا کیا تھا ۔ امی میرے اندر کیا طوفان چلتا ہے میں کیسے اسکو بتاؤں ؟؟ جب وہ کہتی ہے کے مینے اسکی زندگی زہر بنا دی ہے نہ چاہتے ہوے بھی زین ٹوٹ گیا اسنے جذبات میں ہی سہی لیکن اپنے دل میں چھپی۔ محبت کا تذکرہ سارے عام کر دیا تھا ۔۔ہاں اسنے قبول کیا تھا کے وہ ۔مرہا سے محبت کرنے لگا ہے
حمنہ بیگم زین کی طرف بڑھی اور اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا
نہیں میری جان !!
تمنے مرہا کو اگوا نہیں کیا ۔ تم نے تو اسے داغدار ہونے سے بچایا ہے
۔ہاں میرے بچے تم نے تو اس کی زندگی سیاہ ہونے سے بچائی ہے اسے اگوا تو یسرا نے کیا تھا ۔۔۔جب کے تم تو اس معاملے سے بے خبر تھے تمہیں تو خود بعد میں پتا چلا تھا کے یسرا نے یہ سب بدلہ لینے کے لیے کیا ہے
اور تب تم نے یسرا کا گناہ چھپا کر مرہا کو عزت کے رشتے میں باندھ دیا ۔۔تم غلط نہیں ہو۔ میرے بچے وہ غلط تھی اور ایک دں تمہیں تمہاری محبت ضرور ملیگی زیں۔۔ میرا یقین کرو جب مرہا کو پتا چلےگا کے تم نے اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا بلکے تم نے تو اس کے ساتھ غلط ہونے سے اسے بچایا تھا تو میرے بچے دیکھنا وہ تمہاری محبت کو ضرور قبول کریگی حمنہ بیگم نے پیار سے زین کو۔ سمجھایا
لاریب منہ کھولے مان بیٹے کی گفتگو سن رہی تھی ساری گتھیان سلجھ گئیں تھیں اسے پتا چل گے تھا کے کیون زین اور مرہا ایک ہو کر بھی ایک دوسرے سے الگ تھے ۔بس ایک بات اسے سمجھ میں نہیں آئ کے یسرا نے مرہا سے کس بات کا بدلہ لیا تھا ؟؟ وہ سوال لیے اپنے روم کی طرف بڑھ گئی
لیکن امی مینے تو اسے کہ دیا تھا کے مینے اس کے ساتھ یہ سب کیا تھا ۔۔اپنے لیے مینے خود اس کے اندر نفرت بھری تھی اسے کیسے پتا چلیگا ؟؟
۔نہیں وہ کبھی مجھسے محبت نہیں کریگی نہ ہی وہ میری محبت قبول کریگی زین نے نفی میں سر ہلایا
اس کو تھوڑا وقت دو بیٹا وہ ٹھیک ہو جاۓگی سب ٹھیک ہو جایگا نفرتیں تو پہلے ہی دنیا میں بہت ہیں بیٹا تم اپنی۔ محبت سے اسے قائل کرو دیکھنا وہ ضرور تمہاری ہو جاۓگی
حمنہ بیگم نے زین کے بالوں میں ہاتھ پھیرے ۔۔۔۔
اور تب دیوار کی پشت سے لگی مرہا کے قدم جامد ہو گئے تھے روح کوبری طرح زین کی باتوں نے نچوڑ لیا تھا لیا تھا اس حقیقت نے کے جس شخص نے اسے داغ دار ہونے سے بچایا اس کو تو وہ اپنا گنہگار سمجھتی تھی اس شخص سے تو وہ بے تحاشا نفرت کرتی تھی اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکی کو روکا اور بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی
اندر آئ تو اس نے دروازہ بند کیا اور دروازے کی پشت سے کمر ٹکا کر نیچے زمین پر بیٹھتی چلی گئی
ساری غلط فہمیان دور ہو چکی تھیں ۔سب کچھ واضح ہو چکا تھا زین نے مرہا کو اگوا نہیں کیا تھا
یسرا نے یہ سب کیا تھا وہ تو مسیہا بنا تھا اور مرہا نے کتنی دفع اس کے ساتھ نفرت کا اظہر کیا تھا بھلا اپنے ساتھ نیکی کرنے والے کے ساتھ ایسا کیا جاتا ہے جو وہ کار گئی تھی
کیوں زین ؟؟ کیوں تم نے مجھے حقیقت نہیں بتائی ؟؟ کیوں تم نے مجھے حقیقت نہیں بتائی آخر کیوں ؟؟ مرہا بے اختیار رونے لگی
مرہا رو رہی تھی کیوں کے نہ چاہتے ہوے بھی وہ اس شخص سے نفرت کر بیٹھی تھی
تمہیں ایسا نہیں کرنہ چاہیے تھا زین ! کیا تھا اگر ایک بار مجھے تم سب سچ بتا دیتے ! سچ چھپا کر یوں مجھے اپنی نظروں میں تو نہ گراتے
کاش !! کاش !! تم بتا دیتے کے تم نے وہ سب نہیں کیا جس کا قصوروا ر مینے تمہیں ٹھہرایا ہے اور بار بار ٹھہرایا ہے
ایک بار بتا دیتے تو یہ مجبوری کا رشتہ جو تم نبھا رھے ہو تم اس میں نہ بندھے ہوتے زین کاش !!!
نیچے کارپٹ بچھے فرش پر وہ بیٹھا تھا کسی گہری سوچ میں غم کسی غیر معرقی شے کو گھورتا ذہن میں مرہا کی باتیں چل رہیں تھی زین نے کرب سے آنکھیں موند لیں
کچھ بھی ہو جائے بس محبت نہ ہو وہ محبت بہت تکلیف دیتی ہے مرہا بہت زیادہ دل دکھاتی ہے بہت تکلیف ہوتی ہے جب آپ کسی سے محبت کرتے ہیں اور سامنے والا اسے جان کار بھی قبول نہیں کرتا یک طرفہ محبت بہت درد دیتی ہے ایسا درد جو روح تک کو زخمی کر دیتا ہے میں بھی درد میں ہوں مرہا کیوں کے مینے بھی تمسے یک طرفہ محبت کی ہے
کاش !!کاش!!
مجھے یہ محبت نہ ہوتی اب تو میں تمہیں اپنے آپ۔ سے الگ بھی نہیں کر سکتا میں جانتا ہوں تم اس رشتے کو مجبوری میں نبھا رہی ہو لیکن۔ پھر بھی میں تمہیں خود سے جدا نہیں کر سکتا
کاش ایک بار میں تم سے کہ پاتا کے میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں تم ضروری۔ سی ہوگئی ہو مجھے
کاش مرہا کاش !!!!
زین بس سرد آہ بھرتا رہ گیا