لو جی تھوڑا سا اڑنا کیا سیکھ لیا ابا جی کو بھول ہی گئے
بڑی ہی نافرمان اولاد ہو تم تو
“نِک” کی استہزایہ آواز نے کانوں میں غصے کی گھنٹیاں بجانی شروع کر دیں
روشنی تو بجھ چکی تھی
ماہ نور کا ہیولہ ایک جگہ نظر آرہا تھا جیسے وہ دو زانوں ہو کر اٹھ بیٹھی ہو
وہ کالا آدمی کہیں نظر ہی نہیں آرہا تھا
شاید وہ زمین پر ہی گرا پڑا تھا
مجھے اپنی ہڈیوں کا جوڑ جوڑ ہلا ہوا محسوس ہورہا تھا
“نِک” کی آواز سن کر میں نے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی مگر سب بے سود نکلا
میری ٹانگوں نے جواب دے دیا
اسی دوران وہ میری طرف بڑھنے لگا تھا
میں نے جلدی سے خود کو فولاد بنانے والا منتر پڑھنے لگا
ابھی وہ منتر میرے منہ میں ہی ہوگا کہ اسکے ایک زور دار مکے نے میرے جبڑے کی بنیادوں میں زلزلہ برپا کر دیا
درد کی ایک لہر نے میری ریڑھ کی ہڈی کو سن کر کے رکھ دیا
ایک بار پھر اپنے ہواس مجتمع کرکے دوبارہ کوئی جادو کرنے کا سوچا ہی تھا
کہ
“نِک” نے اپنا ایک بازو میرے گلے میں حائل کر دیا
اور دوسرے ہاتھ سے اس بازو کا ہاتھ پکڑ کر زور سے اپنی طرف دبانا شروع ہوگیا
کوئی منتر تو خاک میری تو سانسیں ہی گلے میں اٹک گئی تھیں
میں دم لینے کے لیے زور لگا رہا تھا
پر میرا گلا تو جیسے فولادی ہاتھوں میں تھا
میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تھا کہ اسی دوران میں نے ایک سائے کو اپنی طرف لپکتے دیکھا
*
میں کچہری سے باہر نکل کر پریشان پریشان گھوم رہا تھا
جب شہناز کہیں نظر نہیں آئی تو یونیورسٹی کی طرف چل پڑا۔
تھوڑا سا ہی آگے گیا تھا کہ وہ ایک عمارت کے سائے میں اسی عمارت کی دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی تھی
اسکے ہاتھوں میں دو جوس کے گلاس تھے
اور ساتھ ہی ایک اور جوس کا خالی گلاس پڑا ہوا تھا
اتنی دیر کیوں لگادی
میرے شکوہ کرکے سے پہلے ہی اسنے پہل کر دی
میں نے تھوڑی سی ناراضگی سے اسے اپنی کارگزاری سنائی اور اس سے شکوہ بھی کیا
خیر اسنے بتایا کہ اسے پیاس لگی تو اسنے دو جوس کے گلاس لے لیے تاکہ میں باہر آؤنگا تو اکٹھے پیئں گے
لیکن میں تو کافی دیر بعد باہر نکلا تو اسنے ایک پینے کے بعد دوسرا گلاس بھی پینا شروع کر دیا تھا
اور میرے لیے ایک اور منگوایا ہوا تھا
اسکے دل میں اپنے لیے فکرمندی دیکھ کر
میرا دل تو اچھل کود مچا رہا تھا
کہا جاتا ہے مرد کو محبت بہت جلد ہوتی ہے
اور بہت جلد اترتی ہے
پر
کیا میں خود کو کبھی محبت کرنے سے روک پاؤنگا؟
یہ سوال اس وقت بھل بھلا گیا
اسکی ادائیں مجھے اسکا اسیر کر رہی تھیں
فارم جمع کرا دیے تھے
شہناز نے بتایا کہ اسنے ابھی ایک دو دن اپنی خالہ کے پاس رہنا ہے
جبکہ میں وہاں ہوٹل میں قیام پذیر تھا
اس لیے میں اسی دن ہی گھر روانہ ہونے کا سوچ رہا تھا
“کل کیوں نا لاہور گھومیں؟ ”
اسنے اشتیاق بھری نظروں سے میری طرف دیکھا
‘ہاں ہاں کیوں نہیں ‘
میرے منہ سے بے اختیار نکلا اور میں اپنے خیالات میں محبت کی تپش کو محسوس کر رہا تھا
اسنے مسکرا کر مجھے دیکھا
اور یوں کچھ ہی دیر میں نمبروں کے تبادلے ہوچکے تھے۔
رات بھر میں ہم ایک دوسرے کی پسند نا پسند سب کچھ جان چکے تھے
خیر اگلے دن صبح نو بجے ہی ہم جی سی یونیورسٹی سے میٹرو پر سوار ہوچکے تھے
وہاں سے داتا دربار ہوتے ہوئے
یادگار کی طرف جا نکلے
اور پھر بادشاہی مسجد، اور شاہی قلعہ گھوم پھر کے واپس کہیں جانے کا ارادہ کر رہے تھے
کہ اسکی فکرمندانہ آواز سنائی دی
‘چراغ تلے اندھیرا
سارا جگ گھومیا اور علامہ کے مزار پر نہیں گئے’
کچھ ہی دیر میں ہم وہاں فاتحہ پڑھ رہے تھے
میری توجہ فاتحہ سے زیادہ شہناز کے چہرے پر مرکوز تھی
کہ اسی دوران اسنے میری طرف دیکھا
مجھے ایسے لگا جیسے میری چوری پکڑی گئی ہو
میں نے نظریں چرا کر دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا
“آبان”
میں نے چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے اسکی طرف دیکھا
‘مان لو مجھ سے محبت کرنے لگے ہو’
اسکے چہرے پر شرارت اور معصومیت کی واضح جھلک تھی
میں ہکا بکا اپنی چوری پکڑی جانے پر شرمندہ اسے دیکھ رہا تھا
*
میری آنکھیں ماہ نور کے ہلانے جلانے پر کھلیں
وہ چلا چلا کر مجھے اٹھنے کا کہہ رہی تھی
میں نے آنکھیں کھولیں تو وہ مجھ سے کہنے لگی
“چلو آفتاب جلدی اٹھو، اگر “نِک” اٹھ گیا تو پھر ہم بھاگ نہیں سکیں گے”
اسے کیا ہوا
میں نے “نِک” کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
وہ جب تمہارا گلا دبا رہا تھا
تو میں نے پیچھے سے اسکے سر میں اینٹ دے ماری
اور وہ بے ہوش ہوگیا
اسی دوران میں اٹھ بیٹھا
مجھ سے تھوڑا دور “نِک” پڑا ہوا تھا
اندھیرے میں وہ واضح تو نظر نہیں آرہا تھا
مگر جس آڑھے ترچھے انداز میں وہ زمین پر لیٹا ہوا تھا
کوئی پہلی ہی نظر میں جان جاتا کہ یہ کوئی نارمل انداز نہیں ہے
میں نے کالے آدمی کی تلاش میں اردگرد سر گھمایا
تو وہ مجھے کہیں نظر نہیں آیا
ماہ نور جیسے میری نظروں کا مطلب جان کر بولی
کہ وہ کمینہ کہیں بھاگ گیا ہے یہاں نہیں ہے وہ،
میں نے ہمت جمع کر کے کھڑا ہونے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب ہوگیا تھا
لنگڑاتا ہوا “نِک” کے پاس جا رکا
گلے میں ابھی تک خراش محسوس ہو رہی تھی
“نِک” کے ساتھ پڑی ہوئی اینٹ دیکھی
اسے اٹھایا تو ماہ نور مضطرب انداز میں کھڑی ہوگئی
آفتاب کیا کر رہے ہو
چلو بھاگ چلیں یہاں سے
میں نے اسکا سوال نظر انداز کرتے ہوئے
فولادی جسم والا منتر پڑھا اور خود پر پھونک مارنے کے ساتھ اس اینٹ پر بھی پھونک مار دی
اب میرے زخم بھی ختم ہوگئے
اور ساتھ میں درد کا احساس بھی غائب ہوگیا
میں نے بنا سوچے سمجھے وہ اینٹ بے ہوش “نِک” کے سر میں دے ماری
‘نہیں ‘
ماہ نور کی چلاتی ہوئی آواز آئی
اور اسی وقت ایسے لگا جیسے زمین میں زلزلے کے جھٹکے لگ رہے ہوں
پھر ایک سخت چیز مجھ سے ٹکرائی
اور میں ہوا میں اچھل کر پیچھے جا گرا
کوئی سخت پتھر نما چیز مجھ سے آکر ٹکرائی تھی
لیکن مجھے کوئی چوٹ نہیں لگی تھی
کیونکہ میں نے فولادی منتر پڑھا ہوا تھا
میں نے ماہ نور کی طرف نظریں دوڑائیں
وہ ‘ نِک ‘ کی طرف تیزی سے بڑھ رہی تھی
“حرامزادے یہ تو نے کیا کر دیا”
میں حیرت سے گنگ اسے دیکھ رہا تھا
اسنے آگے بڑھ کر ‘ نِک ‘ کا سر اپنی گود میں لے لیا تھا
وہ میری طرف پیٹھ کر کے بیٹھی تھی
یہ سالوں تک میرا ساتھ دیتا رہا
اور تم نے اسے مجھ سے لمحوں میں جدا کر دیا
میری بے بسی کے میں وومرا ہو کر اسے نہیں بچا سکی
میں نے ہی اسے بےہوش کیا کہ ہمارا ڈرامہ کامیاب ہو اور تم نے اسے مار ڈالا
وہ بین کرنے والے انداز میں رو رہی تھی
میرے ذہن سے سارے پردے ہٹ چکے تھے
فوراً ہی بقا کی خواہش میرے دل میں جاگی
اور میں نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی
بیٹھے بیٹھے ہی اڑنے والا منتر پڑھا
اور اپنے گھر کا نام لیا
فوراً مجھے ایک جھٹکا لگا
اور میں ہوا میں اڑنے لگا تھا
کہ زور سے ایک آواز آئی
میڈم!
وہ بھاگ رہا ہے
یہ وہی کالا آدمی تھا
وومرا نے فوراً میری طرف دیکھا
میں کافی آگے جا چکا تھا
اسی وقت وومرا نے ہاتھ جھٹکا
اور اسکے ہاتھوں سے عجیب قسم کا کوئی مادہ نکلا
اور میری طرف بڑھنے لگا
میں نے ہوا میں ہی دو تین قلابازیاں لینے کی کوشش کی پر وہ اتنا تیز تھا کہ بچتے بچتے بھی میرا پاؤں اسکی زد میں آگیا
میں نے ہوا میں ہی کئی قلابازیاں کھا لیں
لیکن گرا نہیں تھا
اور وہ مادہ اذیت کی انتہا تھا
مجھے ایسا لگا کہ کسی ناقابل برداشت درد نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ہے
درد کی شدت سے میری چیخیں نکلنا شروع ہوچکی تھیں
میں درد سے چلاتے چلاتے
اپنا ہاتھ اپنے پاؤں کی طرف لے گیا
اس وقت میرے ہوش اڑ گئے
جب پتا چلا کہ میرا پاؤں اڑ چکا ہے
میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا
اسکے درد کی شدت دوگنا محسوس ہونے لگی
کچھ ہی لمحوں میں گھر پہنچ چکا تھا
صحن میں،
میں ایک پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتے لڑکھڑا کر گر پڑا
جادونگری سے اس صحن تک سفر کرتے مجھے زیادہ سے زیادہ دو منٹ گزرے ہونگے
پر اس دوران ٹھنڈی ہوا لگنے سے پاؤں سن ہوگیا تھا
اور جسم جیسے سکتے کی حالت میں آچکا ہو
دماغ میں دھند سی جم رہی تھی
ایسے لگ رہا تھا جیسے میں بے ہوش ہونے لگا ہوں
میں نے خود کو بمشکل ایک پاؤں پر کھڑا کیا اور آگے چھلانگ لگا لگا کر بڑھنے لگا
خواب گاہ میں ہی ایک کپڑا اٹھا کر پاؤں پر کس کر باندھ دیا
خواب گاہ سے تہ خانے تک سیڑھیاں گھسٹ گھسٹ کر اترا
اس وقت تک ہلکی سی ملگجی سی روشنی پھوٹ رہی تھی
یعنی صبح صادق کا وقت تھا
تہ خانے میں ہلکا ہلکا اندھیرا موجود تھا
لیکن وہاں بستر پر نظر پڑتے ہی اس طرف بھاگا پھر وہاں لمبا لیٹ گیا
اور پھر اپنے حواس کھو بیٹھا
پتا نہیں کرنی دیر لیٹا رہا
اس وقت ہوش آیا جب کوئی منہ میں پانی ٹپکا رہا تھا
میں جلدی سے اٹھ بیٹھا
سامنے ایک چھوٹے قد کی عجیب سی مخلوق موجود تھی
بلکہ بونا کہنا مناسب ہوگا
میرے پاؤں کا درد ختم ہوچکا تھا
میں نے پاؤں کی طرف ڈرتے ڈرتے دیکھا
جیسے رات میں خواب دیکھتا رہا ہوں
لیکن میرا پاؤں پٹیوں سے بھرا ہوا تھا
میرے سونے کے دوران ہی کسی نے سلیقے سے پٹی کر دی تھی
اب خون رسنا شاید بند ہوچکا تھا
کیونکہ پٹی بالکل سفید نظر آرہی تھی
پر ہاں وہ حقیقت تھی میں اپنے پاؤں سے محروم ہوچکا تھا
مجھے اب لیلی کی چالاکی سمجھ آرہی تھی
اس نے ایک طرف ” نِک” کے ذریعے مجھے ڈرانے کی کوشش کی تاکہ میں کمزور ہوجاؤں اور کوئی سہارا ڈھونڈنے کی کوشش کروں
سب کچھ اسکی مرضی کے مطابق ہوا
میں کمزور ہوگیا تھا
اور اسنے خود کو مظلوم ماہ نور کے روپ میں پیش کر دیا تاکہ میں اسکی ذات میں اپنا سہارا ڈھونڈوں
اور وہ میری ہمدردی جیت کر مجھے توڑ دے
اس لیے ‘ نِک’ بھاگا تھا کیونکہ وہ بھی اسکے پلان کا حصہ تھا
پھر اسکا اکیلے مجھے ڈھونڈتے ہوئے آنا
اور اس کالے آدمی کو مرنے سے بچانا اور اس وقت ” نِک” کی آمد اور پھر وومرا کا اسے بے ہوش کرنا
بھی اسی منصوبے کا حصہ تھا
تاکہ وہ میرا بھروسہ جیت سکے
اور پھر مجھے ڈرا کر وہاں سے یہاں تہ خانے میں لے آتی
اور یہاں پر شاید وہ سکے اور کتاب سے محروم کر دیتی
اور دوبارہ بھی قیدی بنا لیتی
یا پھر اسنے مجھ سے سفید جادو چھیننے کا کوئی گر سیکھ لیا ہوگا
لیکن اسکا سارا پلان اس وقت چوپٹ ہوگیا جب میں نے اسکے منصوبے کے مطابق ڈر کر بھاگنے کی بجائے بے ہوش “نِک” کو اینٹ اٹھا کر قتل کر دیا تھا
اور اسکا سارا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا اور وہ مجبوراً میرے سامنے اپنی اصل حالت میں آشکار ہوگئی
لیکن اسے بے نقاب کرنا اور اسکے چیلے کے قتل کی مجھے بھاری قیمت چکانی پڑی
اور میں اپنے پاؤں سے محروم ہوچکا تھا
”
بڑی دیر سے میرے دل میں ایک سوال آرہا تھا کہ اگر آفتاب کا پاؤں کٹ چکا تھا تو وہ ٹھیک کیسے ہوا
آخر کار وہ سوال لبوں پر آہی گیا
آفتاب مسکرا کر بولا
آپ پوری کہانی سن لیں
امید ہے آپکو اپنے سوال کا تسلی بخش جواب مل جائے گا
”
پاؤں سے محرومی کا احساس اتنا شدید تھا کہ میری آنکھوں سے آنسوؤ گرنے لگے۔
اور وہ بونا جسے میں بھلا ہی چکا تھا
کہنے لگا آقا آپ پریشان نا ہوں
آقا؟
کون آقا میرے ذہن میں سوال ابھرا
جلدی سے اس کی طرف نظر دوڑائی
وہ بمشکل اڑھائی فٹ کا ہوگا
کون ہو تم
جناب میں آپکے سکے میں موجود تمام طاقتوں کا مجموعہ ہوں
میں سمجھا نہیں
اس سکے کو اگر آپ باہر رکھیں گے تو جو کام آپ مجھے کہیں گے وہ میں کرونگا
آپ کو کسی منتر پڑھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی
ہاں اگر اس سکے کو نگل لیا
تو ایک نگلنے کے لیے ایک منتر ہے
اور باہر نکالنے کے لیے بھی الگ منتر ہے
میں بس سکے میں موجود تمام طاقت کی انسانی شکل ہوں
میرا کوئی وجود نہیں ہے
جسے قابو کر لیا جائے یا قتل کر دیا جائے
ہاں اگر سکے کو توڑ دیا جائے تو میں ختم ہوسکتا ہوں
یا پھر سکے کو نگل لیا جائے تو میں غائب ہو جاؤں گا
تم کیا کر سکتے ہو
سکے میں موجود طاقت کے حساب سے ہر کام کر سکتا ہوں
وومرا کو قتل کر سکتے ہو؟
میں نے سلگتے ہوئے لہجے میں کہا
نہیں آقا!
یہ سکہ تیسرے درجے کا ہے
اور وہ پانچویں درجے کی ہے
یہ میرے بس سے باہر ہے
میرے ہونٹوں پر استہزایہ ہنسی ابھری
لیکن! وہ دوبارہ بولنے لگا
میں چونگ گیا
لیکن کیا
آپ اسے قتل کر سکتے ہیں
میں کیسے کر سکتے ہوں؟
آپکے پاس سفید جادو کی طاقت ہے
وہ کوئی عام طاقت نہیں ہے
ایک کالے جادو کا چلہ کاٹنا پڑے گا
اس کی ساری تفصیل اس کتاب میں موجود ہے
اسنے میز پر پڑی ایک کالے رنگ کی ضخیم کتاب کی طرف اشارہ کیا
میں نے اسے اٹھا کر لانے کو کہا
اسنے کتاب مجھے لا کر دی
میں نے کتاب کھولی
تو اس میں مختلف درجہ بندی کے لحاظ سے مختلف جادو موجود تھے
اسنے آخری صفحات کھولنے کو کہا
میں نے آخری صفحات کھولے
وہ ایسے جادو تھے جنھیں کوئی بھی کر سکتا تھا
لیکن اسکی قیمت بہت بڑی تھی
میں نے ابھی تک اس بونے کا نام نہیں پوچھا تھا
مجھے مردوق کہہ سکتے ہیں
عجیب نام تھا
خیر مردوق نے جس چلے کا کہا تھا
وہ بہت ہی خوفناک تھا
ایک مردے کے ساتھ بیٹھ کر اسکے منہ میں ہاتھ ڈالنا تھا
اور
چودہ بار ایک منتر دوہرانا تھا
اور دوسرے ہاتھ سے اسکے منہ میں انسانی خون ٹپکانا تھا
مردے کے ساتھ رات کا نام سنتے ہی جھرجھری آجاتی ہے اور یہاں اسکے ساتھ رات بتانی تھی
اور ساتویں دن اس مردے کی آنکھیں روشنی سے جل اٹھیں گی
اس دن مجھے اپنا سفید جادو اس کے حوالے کر دینا تھا
اور جو کام لینے تھے وہ اسے بتا دیتا
اسکے بعد وہ مردہ خودبخود ختم ہوجاتا
وہ کالے جادو کے کسی بھی درجے کے جادوگر کو ختم کرنے کے لیے کافی تھا
لیکن اس دوران مزاحمت بھی ہونی تھی
سات دن کے اندر وہ جادوگر اپنی ساری طاقتیں لے کر ہم پر حملہ آور ہوسکتا تھا
حصار کے اندر وہ داخل نہیں ہوسکتا
پر ڈرا دھمکا سکتا تھا
اور کمزور دل لوگ باہر بھاگ نکلتے ہیں
میں یہ چلہ کاٹوں گا
آقا سوچ لیں قیمت بہت بھاری ہے
میں قیمت بھرنے کو تیار ہوں
تو آقا یہ چلہ آج شام سے ہی شروع کر دیں
وہ کیوں
کیونکہ یہ چلہ وومرا کے خلاف ہے
تو جیسے ہی آپ چلہ شروع کریں گے
وومرا کو پتا چل جائے گا
اور وہ اپنی پوری طاقت سے آپ کو روکنے کی کوشش کرے گی
لیکن آج سے شروع کیا تو وہ پہلی تین راتیں یہاں نہیں آئے گی۔
کیوں نہیں آئے گی؟
کیونکہ جادوئی دنیا میں جسم مرتے ہیں روحیں نہیں
یہ جادوئی دنیا کا اصول ہے کہ جو جادوگر جادوئی دنیا کا رکن ہوتا ہے اور مر جائے تو اسکی روح پر جادوئی دنیا کا قبضہ ہوجاتا ہے
اسکے مرنے کے تین دن بعد اسکی روح کی بولی لگائی جاتی ہے
کیونکہ ‘ نِک ‘ وومرا کا غلام تھا تو
اسکا اس بولی میں شریک ہونا لازمی ہے
اس لیے آپ کے پاس اگلے تین دن ہیں
اس دوران آپ آرام سے چلہ کاٹ سکتے ہیں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی
میں نے دوبارہ چلے کی تفصیلات پڑھیں
پہلے تو ایک مردے اور ویرانے کا بندوبست کرنا تھا
پھر سات دن تک حصار کے اندر رہنا تھا
اور انسانی خون کا انتظام کیسے کرنا ہوگا
اور سات دن حصار کے اندر رہنے کے لیے
اپنی خوراک اور پانی کا انتظام بھی تو کرنا پڑے گا
میں نے یہ سب مردوق کو بتایا
اسنے کہا کہ خون
کسی بھی بلڈ بینک سے چوری کیا جا سکتا ہے
جبکہ مردے کا انتظام ابھی کیا جا سکتا ہے
کیسے؟
رات آپ کے پرانے گھر والے گاؤں میں ڈکیتی کی واردات ہوئی ہے
ڈاکوؤں نے ایک مزاحمت کار کو قتل کر دیا ہے
پھر گاؤں والوں نے سب بندوقیں ڈنڈے لے کر ان کے پیچھے گھیرا ڈال لیا تھا
اب وہ ڈاکؤ لوٹے ہوئے سامان کے ساتھ گنے کی فصل میں چھپے ہوئے ہیں
ان میں سے ایک ڈاکؤ کو اٹھا کر یہیں لے آتے ہیں
واہ
تم ایسا کرو کہ جس ڈاکو نے گولی چلا کر قتل کیا ہے اسے یہاں لے آؤ جب باقی ڈاکوؤں کو کسی طرح گاؤں والوں کے حوالے کر دو
یہ سنتے ہی مردوق غائب ہوچکا تھا
تھوڑی دیر بعد دھڑام سے ایک آدمی تہ خانے میں گرا
ماتھے پر ایک ہلکا زخم کا نشان تھا
اور کپڑے وغیرہ پھٹے ہوئے تھے
ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ دیر پہلے ہاتھا پائی کرتا رہا ہو
اسنے جلدی سے ہلنا جلنا چاہا پر اسکے ہاتھ پیر دونوں آپس میں ملا کر بڑی مہارت سے بندھے ہوئے تھے
تم تو کوئی جادوگر ہو
اس بندے نے پوچھا
ہاں!
مجھے بھی یہ جادو سکھاؤ
ابھی سکھاتا ہوں
مردوق! اسے جادو سکھاؤ ذرا شاباش
طے شدہ طریقہ کار کے مطابق مردوق نے اسکی گردن دبوچ لی اور کچھ ہی دیر میں وہ غنڈہ اسکے ہاتھوں میں جھول رہا تھا
چلو اسکو یہیں لٹا دو
ادھر ہی حصار بنائیں گے
یہ کمرہ محفوظ ہے
یہاں لیلہ بھی اندر نہیں گھس سکے گی
نہیں آقا! یہ چلہ کسی چھت کے نیچے بیٹھ کر نہیں کیا جا سکتا
اس کے لیے کھلا آسمان ضروری ہے
پھر کھلے آسماں تلے تو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے
نہیں آقا ایک تو آپ ویرانے میں بیٹھیں گے
اور دوسرا حصار قائم کرتے ہی آپ باہر کے عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں گے
اور خوراک آپ کو حصار کے اندر ہی رکھنا ہوگی
اور خون کے تھیلے بھی اندر رکھنا ہونگے
چودہ بار منتر پڑھنا ہوگا
اور چودہ قطرے خون کے اس مردے کے منہ میں گرانے ہونگے
چلو تم جاؤ اور خوراک وغیرہ اور ضروری سامان لے آؤ
اور کوئی ویرانہ ڈھونڈ کر آنا
جہاں سات دن آرام سے رہا جا سکے
وہ وہاں سے چلا گیا
میں نے دوبارہ سے وہ جادوئی منتروں والی کتاب اٹھا لی
اس میں بہت سارے منتر دیکھ کر دل کرتا تھا کہ سارے منتروں کی طاقت حاصل کر لی جائے
وہ ہاتھ سے لکھی گئی کتاب تھی لیکن لکھائی نہایت صاف ستھری اور عمدہ تھی
میں نے چلے کی تفصیل پھر سے ذہن نشین کیں
اور ساتھ ہی حصار باندھنے کا طریقہ دیکھا
وہ سفید چونے سے ایک دائرہ کھینچنا تھا
زیادہ سے زیادہ قطر نو فٹ کا ہو
اور کم از کم تین فٹ قطر کا حامل ہو
یعنی حصار ہر چلے کے لیے ایک جیسا تھا
میں نے حصار باندھنے والا منتر اور چلہ کے دوران پڑھا جانے والا منتر دوہرانا شروع کر دیا
کچھ ہی دیر میں وہ مجھے وہ ذہن نشیں ہوچکے تھے
اب میں نے سفید جادو کی منتقلی کا منتر ذہن نشیں کیا
ایک بار کتاب بند کر کے دوبارہ سے سب منتروں ذہن میں دہرایا اور کوئی غلطی نا پا کر کتاب کو ایک تھیلے میں رکھ لیا
اور سکے کو جیب میں ڈال لیا
تھوڑی دیر بعد مردوق ظاہر ہوا
اسنے کئی شاپر بھرے ہوئے تھے
ڈرائی فروٹس سے لے کر ٹن پیک خوراک اور منرل واٹر کی بوتلیں بھی اس کے اندر موجود تھیں
اور ایک شاپر میں سات خون کی بوتلیں موجود تھیں
ایک بات بتاؤ
سات دن میں تو لاش خراب ہوجائے گی اور خون بھی خراب ہوجائے گا
نہیں! منتر پڑھنے کے باوجود اگر ایسا ہوا تو ہمارا چلہ ٹھیک نہیں ہے
منتر پڑھنے کی وجہ سے نا ہی لاش خراب ہوگی اور نا ہی خون کی بوتلیں خراب ہونگی
آپ ابھی سے وہ منتر ان پر پڑھ کر پھونک دیں
ورنہ خون بہت جلد خراب ہوجائے گا
میں نے جلدی سے چلے والا منتر پڑھا اور خون اور لاش پر پھونک دیا
ویرانہ کونسا ہونا چاہیے پھر؟
میں نے سوال پوچھا
میرے خیال میں جہاں پر یہ ڈاکو چھپے ہوئے تھے وہ بھی بہترین رہے گا
کیا مطلب؟
مطلب وہ گنے کے کھیت کے درمیان چھپے ہوئے تھے
آپ اگر اسی جگہ چلہ کاٹیں تو بہترین رہے گا
ابھی گنے کچے ہیں
تو کاٹنے کا ڈر نہیں ہے اور ساتھ میں اتنا اندر کوئی بھی نہیں آنے والا۔
پانی لگا دیا گیا تو؟
پانی ایک تو ابھی لگایا ہوا
دوسرا میں آگے بند بنا لونگا
دس پندرہ فٹ کا تو ہوگا سارا،
وہ جگہ اچھی ہے
بہتر رہے گا
ٹھیک ہے رات کو پھر وہیں چلیں گے
تم جا کر سامان وہاں رکھ دو
ابھی شام ہے
رات کا کھانا یہیں کھائیں گے
اسکے بعد چلنا ہے
چلہ بارہ بجے کے بعد شروع کرنا ہوگا
جو حکم آقا!
یہ کہہ کر وہ پھر سے غائب ہوگیا
تھوڑی دیر بعد وہ لوٹا تو
اسنے بتایا کہ اسنے جگہ بنا دی ہے
اب آرام سے وہاں ہم سات دن گزار سکتے ہیں
ہم؟
تم کیا کروگے
جہاں سکہ وہاں میں ہونگا
سکہ حصار کے اندر تو میں بھی اندر ہونگا
اور اگر باہر رکھ دیا تو میں باہر رہوں گا
حصار کے اندر یا باہر جانا میرے بس سے باہر ہے
رات کو میں نے اکیلے کھانا کھایا
مردوق کے مطابق وہ کھانے پینے سے عاری ہے
خیر میں نے اسے کہا کہ میرے پاؤں کی پٹی کر دے
پاؤں کی طرف دیکھا تو دل میں ایک ہوک سی اٹھی
اور آنکھوں میں آنسوؤں آگئے
خیر اسنے پٹی کی اور کوئی عجیب سے دوا لگائی
اسکے مطابق یہ اس زخم بار ایک بار اور لگانی پڑے گی
پھر زخم تقریباً بھر جائے گا
کیونکہ سفید جادو کی طاقت ویسے ہی کسی زخم کو نہیں رہنے دیتی اور یہ دوائی بھی کسی جادوئی محلول سے تیار شدہ تھی۔
ہلکی سی تکلیف ہورہی تھی مگر وہ دوا لگاتے ہی ایسے لگا جیسے کبھی پاؤں تھا ہی نہیں
یعنی کوئی تکلیف نہیں ہوئی پھر،
اسکے بعد اسنے مجھے جادو کے زور سے اٹھایا
میں نے سامان میں ایک اعصاء بھی منگوا لیا تھا جن کے ذریعے معذور افراد چلتے ہیں
باہر سیڑھیوں سے نکالتے ہی
اسنے انگلیاں چٹکائیں اور لمحوں میں ہی ہم گنے کے کھیتوں کے اندر تھے
میں ایک پاؤں پر کھڑا تھا، جلدی سے وہ اعصاء نکالا اور اسے اپنا دوسرا پاؤں بنا لیا
اسی دوران مردوق نے ایک تھیلا مجھے دیا اس میں سفید چونا بھرا ہوا تھا
آقا یہ آپکو ہی منتروں کے ورد کے ساتھ حصار بنانا پڑے گا
میں اتنی دیر میں لاش کو لے آتا ہوں
ٹھیک ہے جاؤ
وہ چلا گیا اور میں نے کتاب کے مطابق حصار بنانا شروع کر دیا
وہ تقریباً دس فٹ کے قطر میں ہوگا
تھوڑی دیر منتر پڑھتے ہوئے چونا گراتا
پھر لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے آگے بڑھتا اور پھر اسی طرح چونا ڈالنا شروع ہوجاتا
ابھی تیسرا حصہ ہی مکمل ہوا ہوگا کہ مردوق، لاش کو لے کر آچکا تھا
اسے ڈھانپ دو کسی چیز سے
اسنے اسے کسی کالے کپڑے سے ڈھانپ دیا
یہ اس طرح کیوں کر رہے ہیں آپ؟
تو کیا کرنا چاہیے
آپ ہوا والا منتر پڑھ کے اڑتے ہوئے چونا گرا دیتے
اب میں مدد کرتا ہوں
اسکی انگوٹھا اور شہادت کی انگلی چٹکائی اور میں ہلکا سا اوپر بلند ہوگیا
اسنے آہستہ آہستہ گھمانا شروع کر دیا
میں منتر پڑھتے ہوئے
حصار باندھ دیا
جونہی حصار مکمل ہوا
چونے کا رنگ سفید سے سرخ میں تبدیل ہوگیا
‘اب یہاں پر نا کوئی اندر آسکتا ہے
اور نا ہی کوئی باہر جا سکتا ہے’
مردوق نے بتایا
تھوڑی دیر میں ہم وقت گزرنے کا انتظار کرتے رہے
بارہ میں ابھی دو تین منٹ بچے ہونگے کہ مردوق نے مجھے کہا کہ اب سکہ نگلنا پڑے گا
مگر کیوں
دو طاقتیں ایک ہی حصار میں نہیں رہ سکتیں
چلے کے دوران مجھے آپ کے پیٹ میں رہنا ہوگا
اور چلے کے بعد آپ سکہ اگل سکتے ہیں
اور آقا ایک بار چلہ شروع کرنے سے پہلے دوبارہ سوچ لیجیے۔ آپ کو سفید جادو اسکے حوالے کرنا ہوگا
اور
آپ جانتے ہیں نا سفید جادو دینے سے کیا ہوگا
آپ نے اگر سفید جادو نہیں دیا تو وومرا اس مردے کو جلا کر راکھ کر دے گی
اور پھر حصار ختم ہوجائے گا
اور حصار ختم ہوتے ہی وومرا آپ پر حاوی ہوجائے گی
یہ کوئی چھوٹی سی قربانی نہیں ہے
بہت بڑی قربانی ہے
ابھی وقت ہے
ایک بار چلہ شروع کر دیا تو پھر پہلے بھاگنا موت بنے گا
میں نے اسکی تنبیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے
جیب سے سکہ نکالا منہ میں رکھا اور نگلنے والا منتر پڑھ کے نگل لیا
ایسے لگا جیسے میں نے کسی جلتے انگارے کو پیٹ کے اندر ڈالا ہو
میں جلن سے تڑپنے لگا
میرے کٹے ہوئے پاؤں میں جلنے کے مارے جیسے آگ لگ چکی تھی
کچھ دیر میں جلن کم ہوئی تو خوشی سے میری چیخ نکل گئی
میرا پاؤں ٹھیک ہوچکا تھا
میرا دل کر رہا تھا کہ میں خوشی کے مارے ناچنا شروع کر دوں
پر ابھی حصار کے اندر رہنا تھا
اور چلہ شروع کر دینا تھا
میں نے لاش کے منہ سے کپڑا اٹھایا
اتنی رات کو اس ویرانے میں ایک لاش کے ساتھ چلہ کاٹنے کا خیال آتے ہی جھرجھری سی آگئی تھی
چاروں طرف گنے کے کھیتوں میں ہوا کی وجہ سے سرسراہٹ سے لگ رہا تھا جیسے مختلف روحیں آپس میں مجھے مارنے کے لیے مشورہ کر رہی ہوں
اندھیری رات اور پھر سردیوں کی رات نے ہاتھ پاؤں جما دیے تھے
سکہ نگلنے کی وجہ سے بننے والا پاؤں ٹھنڈ سے جم چکا تھا کیونکہ اس میں تو کوئی جوتا بھی نہیں تھا
آقا یہ منتر پڑھیے
مجھے اپنے اندر سے آواز آئی
میں حیرت اور خوف کے مارے اچھل پڑا
ڈریے مت! یہ منتر پڑھیے
جوتا آجائے گا
اسنے منتر دوہرایا
میں نے وہی منتر پڑھا مگر کوئی جوتا نہیں آیا
ایک دو بار پھر پڑھا لیکن پھر بھی جوتا ندارد،
میں جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگا تو مردوق کی آواز سنائی دی کہ آقا منتر ٹھیک پڑھ رہے ہیں
حصار کے اندر کوئی جادو کام نہیں کرنے والا
میں نے غصے سے زمین پر پاؤں مارا اور پھر ایک کپڑا پاؤں کے گرد لپیٹ لیا تاکہ ٹھنڈی ہوا اور نیچے ٹھنڈی زمین سے ہلکی سی بچت ہوجائے
پھر اس مردے کی طرف دیکھا
اسکے منہ کا دہانہ کھلا ہوا تھا۔
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...