تین سو کے قریب مردوزن معرا ج کے گائوں سے ماڈل ٹائون لاہور جانے کے لیے تیار ہوئے تھے۔ اُن میں سے اکثریت نے منظوراں سے اپنے مالکوں کی تعریفیں سن رکھی تھیں۔ مزمل نے منظوراں کو کہا تھا، وہ جتنے لوگ لا سکتے ہیں لے آئیں۔ منظوراں نے اپنی طرف سے بھی بہت سارے مہمانوں کو مدعو کیا تھا۔ سارے مہمان باخیر و عافیت شادی ہال پہنچ گئے۔
ولیمے کی دعوت کے دوران مدیحہ کی مشتاق آنکھیں مزمل کے دیدار کے لیے بے قرار تھیں۔
وہ معصومہ کے طعنے سُن سُن کر تنگ آگئی تھی۔ کھانا کھانے کے دوران ہی آخر کار اُس نے مائرہ سے پوچھ لیا:
”مزمل نظر نہیں آرہا۔”مائرہ اُس کی بے تکلفی سے پوچھنے پر مسکرا دی۔ چند لمحے اُس نے مدیحہ کو غور سے دیکھا پھر بولی:
”تم مزمل بھائی جان کا پوچھ رہی ہو؟” مدیحہ نے اپنی پلکوں کو ہاں میں جنبش دی۔
”مزمل بھائی! وہ اسلام آباد گئے ہیں۔”مائرہ نے جواب دیا اور اپنی ہنسی چھپاتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
”تم تو کہتی تھی وہ تمہارے آگے پیچھے گھومے گا۔”معصومہ نے فرنی کھاتے ہوئے کہہ دیا۔ مدیحہ نے کھا جانے والی نظروں سے معصومہ کو گھوری ڈالی جو میٹھا کھاتے ہوئے بھی کڑوی باتیں کر رہی تھی۔
ماہ نور خود جا کر ممتاز بیگم سے ملی اور اپنا تعارف کروایا۔
”السلام علیکم! میر انام ماہ نور ہے۔” وہ ممتاز بیگم کے پاس دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی۔
”وعلیکم السلام! میں نے پہچانا نہیں بیٹی تم کون ہو؟”ممتاز بیگم نے متجسس ہو کر پوچھا۔
”ماہ جبین اور معید کی بیٹی ماہ نور۔”ماہ نور نے معصوم سی مسکراہٹ سے آگاہ کیا۔
ممتاز بیگم نے ماہ نور کے وجیہہ رُخِ روشن کو فصاحت سے دیکھا اور کافی دیر دیکھتی رہیں۔
”ماشااللہ،ماشااللہ اِدھر آئومیرے پاس۔” ماہ نور پاس آئی تو ممتاز بیگم نے اُس کی پیشانی چوم لی۔ ماہ نور کا سارا خوف ہوا ہوگیا۔اُسے ممتاز بیگم سے محبت کی سوندھی سوندھی خوشبو آئی ۔ وہ سوچ رہی تھی محبت سے بھرا بوسہ لا تعلقی کی گہری کھائی پر پُل کا کام کرتا ہے۔
”میں تو سمجھتی تھی آپ مجھ پر خفا ہوںگئیں۔”ماہ نور نے دھیمی آواز سے کہا۔
”تم نے خود ہی سمجھ لیا۔”ممتاز بیگم نے گردو نواح کا جائزہ لیتے ہوئے کہا، سب لوگ کھانے میں مصروف تھے۔ وہ چاہتی تھیں اُن کی اور ماہ نور کی باتیں کوئی نا سُنے۔
”تم نے کھانا کیوں نہیں کھایا؟ ممتاز بیگم نے اپنے سامنے پڑے کھانے کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”آپ نے بھی تو نہیں کھایا۔” ماہ نور نے بھی سامنے پڑے کھانے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”اس عمر میں دوائیاں زیادہ کھانی پڑتی ہیںاور کھانا کم۔تم کھائو شاب اش بعد میں کہیں تنہائی میں بیٹھ کر با تیں کرتے ہیں۔”ممتاز بیگم نے ماہ نور سے ایسے کہا جیسے ہم عمر بچپن کی سہیلی ہو۔
ممتاز بیگم اور ماہ نور کی ایک دم قربت کو مائرہ اور مومنہ سمجھنے سے قاصر تھیں، صرف اُن دونوں کی توجہ اُس طرف تھی۔ مائرہ اپنی ماں کی غیر موجودگی میں بیگم صاحبہ کا دل بہلا رہی تھی اور مومنہ کو ماہ نور کی سنگت میسر تھی۔ مومنہ کی معراج کے گائوں کی دوسری لڑکیوں اور اپنی تایا زاد مدیحہ سے کوئی خاص علیک سلیک نہیں تھی۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لڑکیوں کا فوٹو سیشن ایک بار پھر شروع ہوگیا۔ ادھیڑ عمر عورتیں خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ مرد حضرات ماڈل ٹائون پارک کی سیر کو نکل گئے۔ سیر کا تو بہانہ تھا۔ اصل میں معرا ج کے والے سوا سوا سیر کھایا ہوا شِیر خرما ہضم کرنا چاہتے تھے۔
بڑی بوڑھی عورتوں نے مسرت کے مکھڑے پر بکھری ہوئی خوشی سے خود ہی اندازہ لگا لیا تھاکہ لڑکی بہت خوش ہے۔دُلہن کی چند قریبی سہیلیاں جن میں مدیحہ اور معصومہ بھی شامل تھیں اُس کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔
دُلہا مبشر گائوں کے نوجوانوں کے ساتھ اشاروں ہی اشاروں میں بات چیت کر رہا تھا۔
کچھ ادھیڑ عمر مرد مبشر کو دور ہی سے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے آخر وہ اُن ہی کے گائوں کا سپوت تھا۔
ایک طرف چند خوش خوراک حضرات کھانے کی تعریف میں قصیدے پڑ ھ رہے تھے۔ممتاز بیگم نے ویٹر سے کہہ کر شادی ہال کے منیجر کو بلا کرالگ سے بیٹھنے کا بندوبست کروالیا تھا۔
شادی ہال کا منیجر ممتاز بیگم کی حیثیت سے اچھی طرح واقف تھا اُس نے اپنا کمرا انہیں بیٹھنے کے لیے پیش کر دیا تھا۔
معید فون پر بات کرتا ہے؟ممتاز بیگم نے سنجیدگی سے ماہ نور سے پوچھا ۔
”جی نہیں۔” ماہ نور نے گردن جھکائے ہی جواب دیاتھا۔
”اور ماہ جبین؟”
”وہ کرنا چاہتی ہیں،مگر!” ماہ نور نے رُ ک رُک کر کہا ۔
”کیا مسلم اور مہوش نے منع کیا ہے؟” ممتاز بیگم نے تشویش سے پوچھا۔
”نہیں…نہیں۔ابا امّاں نے تو کبھی منع نہیں کیا۔ میں خود ہی بات نہیں کرتی۔”
”اُن دونوں کی کبھی یاد آئی؟” ممتاز بیگم نے بغیر توقف کے پوچھا۔
”سچ کہوںیاد تو نہیں آتی۔ہاں جب یاد کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو دُکھ ضرور ہوتا ہے۔” ماہ نور نے بجھی ہوئی آواز سے اپنے دل کا احوال بتایا۔ ماہ نور نے آنسوئوں سے چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ممتاز بیگم سے پوچھا:
”میں آپ کو دادی کہوں یا نانی؟”
”سہیلی…”ممتاز بیگم نے ماہ نور کی چمکتی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ساتھ ہی اُسے گلے بھی لگا لیا۔گلے لگنے کی دیر تھی۔ماہ نور کے آنسو چھلک پڑے ۔ ماہ نور کی آنکھوں میں سالوں سے قید آنسوئوں کو آخر رہائی مل ہی گئی تھی۔ ممتاز بیگم نے ماہ نور کو خود سے الگ کیا اور بات بدلی۔
”سنا ہے تمہاری منگنی ہوگئی ہے۔”
”ہاںجی۔” ماہ نور نے ٹشو سے آنکھوں کے نیچے بکھرا کاجل صاف کیا۔
”تمہیں منگنی کروانے کی اتنی جلدی کیا تھی؟” ممتاز بیگم نے ایسے کہا جیسے وہ ماہ نور کی بچپن کی سہیلی ہو۔
”کیا مطلب…میں سمجھی نہیں۔” ماہ نور نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”میرے پوتے مزمل بیگ کو دیکھا ہے۔”
”جی ہاں۔ بہت وجیہہ ہیں مزمل صاحب۔”
”تمہارے منگیتر سے بھی زیادہ۔”ممتاز بیگم نے پرکھتی نگاہ ڈالی۔
”دادی کی طرح دیکھو تو ہاں۔اگر ماہ نور کی نظر سے دیکھو تو نہیں۔ماہ نور کی نگاہوں کو مجتبیٰ کے علاوہ کوئی جچتا ہی نہیں۔”
”خوشی ہوئی یہ جان کر تم اپنے ماں باپ جیسی نہیں ہو۔” ممتاز بیگم نے ماہ نور کے گال پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔
”مزمل بھی اپنے ماں باپ جیسا نہیں ہے۔”
”ٹھیک کہہ رہی ہو۔ منظوراں نے ٹھیک کہا تھا، تمہارے بارے میں کہ تم نے خود کو سنبھال لیا ہے، لیکن مزمل ابھی تک بکھرا ہوا ہے۔ کاش اُسے بھی کوئی تمہاری جیسی مل جائے۔”
”سمجھو مل گئی…سہیلی۔” اِس بار ماہ نور نے ممتاز بیگم سے ایسے بات کی جیسے وہ اُن کی سہیلی ہو۔
”کون ہے؟ کہاں ہے؟ کیسی ہے؟” یہ سنتے ہی جیسے ممتاز بیگم کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔ اُن میں بجھے دیپ جل اُٹھے تھے۔
”ماسٹر محمود کی بیٹی ہے۔ ہمارے گھر کے سامنے ہی رہتی ہے۔ بہت ہی خوبصورت ہے۔ کالے سیاہ گھنگھریالے بال، موٹی موٹی بلوری آنکھیں، دودھ کی طرح سفید رنگ۔ شرمیلی سی لڑکی ہے ماہم۔ میٹھی اور دھیمی آواز میں بات کرتی ہے۔”
ماہ نور کے منہ سے تعریف سن کر ممتاز بیگم خاموش ہو گئیں اور کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔ ماہ نور نے دیکھا تو پوچھا:
”کیا سوچ رہی ہیںآپ۔”
”مزمل نہیں مانتا شادی کے لیے کیا کروں؟”
”بس…اتنی سی بات۔”
”اتنی سی بات نہیں ہے…ماہ نور۔”ممتاز بیگم نے پریشانی سے کہا۔ ماہ نور مسکرائی اور برات والے دن کا آنکھوں دیکھا حال ممتاز بیگم کو سُنا دیا۔ ممتاز بیگم کا چہرہ ہشاش بشاش ہوگیا۔ اُس کے بعد ماہ نور نے ماہم کی بچپن کی منگنی کی روداد بھی سنائی۔ ممتاز بیگم کے چہرے پر پھر سے اُداسی براجمان ہوگئی۔
”سہیلی!پریشان نہ ہوں۔ماہم اپنے منگیتر کو بالکل پسند نہیں کرتی۔ وہ تو اپنے مرحوم باپ کی زبان کا پاس رکھے ہوئے ہے۔ وہ کہتی ہے میں شادی سے کبھی انکار نہیں کروں گی اور نا ہی آنٹی مریم کو کرنے دوں گی۔”ماہ نور نے اپنی طرف سے تشفی دینے کی پوری کوشش کی، لیکن ممتاز بیگم اُداس ہی تھیں۔
”ماہ نور بیٹی! زمانہ بُرا نہیں ہوتا،لوگ اچھے بُرے ہوتے ہیں۔میں غلط تھی جومیں پچیس سال سے زمانے کو ہی بُرا کہہ رہی تھی۔ پچیس سال بعد بھی زمانہ تو ٹھیک ہی ہے۔ اب ماہم کو ہی دیکھ لو اپنے مرحوم باپ کی زبان کا کتنا پاس ہے اُسے۔تم اُس کو یہ رشتہ ختم کرنے کے لیے کبھی مجبور مت کرنا ہاں اُس کے حق میں جو بہتر ہو اُس کی دعا ضرور کرنا۔میں مزمل کے لیے دُعا کروں گی۔”
کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی پھر ممتاز بیگم کو ایک اور فکر لاحق ہوئی”ماہ نور بیٹی! تم لوگوں کے متعلق گائوں میں کون کون جانتا ہے۔”
”ماسٹر صاحب کے بعد صرف آنٹی مریم جانتی ہیں۔”
”ماہم؟”
”وہ نہیں جانتی۔آپ بے فکر ہوجائیں۔”
جب تک معراج کے گائوں والے واپس نہیں چلے گئے ممتاز بیگم اور ماہ نور اکیلے میں ہی باتیں کرتی رہیں۔ ماہ نور نے ممتاز بیگم اور مزمل کا موبائل نمبر لے لیا ۔ آنے سے پہلے ممتاز بیگم نے اپنی کلائی سے سونے کاکنگن اُتار کر ماہ نور کو پہنا دیا تھا۔ ماہ نور نے لینے سے انکار کیا، تو ممتاز بیگم بولیں:
”مسلم اور مہوش سے کہنا میں اُن کی کچھ لگتی ہوں اور تم میری کچھ لگتی ہو۔”
٭…٭…٭
”کیا لگتی ہے وہ میری؟ اُس کا کیا رشتہ ہے مجھ سے۔”مزمل ہوٹل کے کمرے میں اپنے ہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا۔
دو بجے اُس کی جرمنی سے آئے ہوئے کلائنٹ کے ساتھ میٹنگ تھی۔ میٹنگ پوائنٹ ایک فائیو سٹار ہوٹل کی لابی تھا۔ مزمل نے اپنے کلائنٹ کو لیدر گلوز اور مین ویئر ٹریک سوٹ کے کچھ سیمپل بھی دیئے۔
میٹنگ سے فارغ ہونے کے بعد مزمل نے مارٹن کے ساتھ اُسی ہوٹل میں ڈنر کیا۔ اُس کے بعد پروٹوکول کی غرض سے مارٹن کو ائیرپورٹ ڈراپ کرکے آیا۔ جب وہ ہوٹل واپس آیا جہاں پر اُس کا سمیل باکس اور بریف کیس تھا۔ اُس وقت رات کے 9بج چکے تھے۔ تھکاوٹ سے اُس کا بُرا حال تھا۔ اُس نے کچھ دیر سوچا پھر دادی کو کال کرکے اطلاع دی کہ وہ کل آئے گا۔
اب ہوٹل کے کمرے میں بھی اُسے چین نہیں تھا۔ پچھلی رات بھی اُس نے آنکھوں ہی آنکھوںمیں کاٹی تھی۔
”ایک انسان ایک دن میں تقریباً ساٹھہزار خیال سوچتا ہے۔” مزمل نے کسی کتاب میں پڑھا تھا۔ پھر اُس نے سوچنا شروع کیا ، میں نے پچھلے چھتیس گھنٹوں میں کیا کیا سوچا۔ مارٹن کے ساتھ گزارے تقریباً سات گھنٹوں کے علاوہ اُس نے صرف ماہم کے متعلق ہی سوچا تھا۔
وہ بندہ جس نے لندن کی سرد راتوں میں بھی کسی لڑکی کو تو د ور کی بات کبھی اُس کے خیال کو بھی اپنے پاس پھڑکنے نہیں دیا ۔ آج خیالوں کے آگے بے بس تھا۔
”ایک خیال 3سے 13سیکنڈ انسان کے دماغ میں رہتا ہے۔ ”اُسے پڑھی ہوئی ایک اور بات یاد آئی تھی۔
”یہ خیال نہیں ہیںمزمل بیگ۔” مزمل بیگ نے ہوٹل کے کمرے میں لگے ہوئے بڑے سے شیشے میں خود کو دیکھتے ہوئے خود کلامّی کی۔
”کیا یہ اُس کا Auraہے؟”وہ پھر خود کو دیکھتے ہوئے مخاطب ہوا۔
”مگر Auraتو ساڑے آٹھ میٹر تک ہوتا ہے۔یہاں سے معراج کے کوئی پونے چار سو کلو میٹر تو ہوگا۔” مزمل نے خود سے اندازہ لگایا۔
”اور ماڈل ٹائون سے بہترکلو میٹر ہی تو ہے۔” اس بار اُس نے یقین سے کہا تھا۔
”پھر یہ کیا ہے جس نے میرا سکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔” اُس نے خود کی پریشانی خود ہی سے پوچھی۔ آج اُس کی ملائم آواز میں خرخراہٹ آگئی تھی۔ اُس کا شانت رہنے والا رُخسار بے چین تھا۔
”کیا میں بیمار ہوں۔” اُس نے خود ہی سے اگلا سوال پوچھا ۔
”ضرور یہ کوئی سایا ہے یا پھر کسی نے تم پر کالا جادو کر دیا ہے۔”اُس کے دماغ میں ایک خیال یہ بھی آیااُس نے کچھ دیر سوچا ”ہو سکتا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں تو ایسا بہت کچھ ہوتا ہے۔”
”مزمل بیگ! تو اتنا ضعیف الاعتقاد تو نہیں تھا جو استھانوں ، جوتشیوں، نجومیوں اورکالے علم والوں کے پاس جاتا پھرے۔” اُس کے اندر سے آ واز آئی۔
”پھر یہ کیا ہے؟” وہ اپنی خود کی آ واز میں شکست و ریخت سے چلایا اور اس کا بلڈ پریشر ہائی ہو چکا تھا۔ دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اُس کے ماتھے پر شکنیں تھیں۔
دل نے موقعے کا فائدہ اُٹھایا اور ہولے سے بولا:
”مزمل صاحب! آپ کو محبت ہوگئی ہے۔ نا تو آپ اِس جذبے کو سائنسی پوائنٹ آف ویو سے سمجھنے کی کوشش کریں اور نہ ہی دیسی طریقے سے صرف مجھ سے پوچھیں اِس کا جواب صرف میرے پاس ہے۔”دل نے جلدی سے اپنی بات ختم کی۔ اُسے ڈر تھا کہیں دماغ کوہوش نا آجائے۔مزمل کھڑا تھا اُس نے سائیڈ ٹیبل سے پانی اُٹھایا اور ایک ہی سانس میں غٹا غٹ سارا پانی پی گیا ۔
تھوڑی دیر بعد وہ خود کو کافی بہتر محسوس کررہا تھا۔ اب وہ کافی حد تک پر سکون تھا، مگر نیند پھر بھی اُس سے کوسوں دور تھی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس نے اپنا سامان اُٹھایا اور ہوٹل سے چیک آئوٹ کر آیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ رات کے ڈیڑھ بجے وہ موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ سے سفر کر رہا تھا۔
اتنا لمبا سفر اُسے خود بھی پتا نہیں چلا کیسے طے ہوگیا۔ تقریباً 5بجے کے قریب اُس نے اپنی گاڑی سرامک کی بند پڑی فیکٹری کے ساتھ پارک کی تھی۔
فجر کی اذان کی ہلکی ہلکی آواز اُس کے کانوں میں پڑی۔ اُس نے گاڑی کا دروازہ کھولا،توآواز واضح سنائی دینے لگی۔ حکیم صاحب فجر کی اذان دے رہے تھے۔ وہ مسجد کے اندر چلا گیا۔ وضو کرنے کے بعد جب وہ مسجد کے ہال کے اندر داخل ہوا حکیم صاحب کی نظر اُس پر پڑی ۔
”مزمل بیگ۔ ” حکیم صاحب نے مزمل کو دیکھ کر صرف اتنا کہا۔ مزمل کے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ اُبھری پر وہ بولا کچھ نہیں ۔
مزمل فجر کی سنتیں ادا کرنے لگا۔ اِس دوران مسجد میں نمازی آنا شروع ہوگئے تھے۔ امامت حکیم صاحب نے کرائی، پانچ مقتدیوں میں سے پانچواں مزمل تھا۔ حکیم صاحب اور مہتاب خان اُس مسجد کے پکے نمازی تھے۔ فجر اور مغرب کی نمازوں میں دو چار افراد اور کچھ بچوں کا اضافہ ہو جاتا تھا۔ مہتاب خان نے غور سے مزمل کو دیکھا ہاتھ ملایا اور چلا گیا۔ حکیم صاحب کو تشویش ہوئی مزمل کو دیکھ کر، پھر بھی وہ خاموش ہی رہے۔ سارے نمازی جا چکے تھے صرف حکیم صاحب اور مزمل مسجد میں بیٹھے تھے۔ مزمل نے حکیم صاحب کو سلام کیا اور چل دیا۔
مزمل نے مسجد کے بیرونی دروازے سے نکلتے ہوئے نگاہ اُٹھائی ۔ ماہم پہلے سے کھڑکی کھولے کھڑی تھی۔ اُس کی بلوری آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔ وہ ایسے تڑپ رہی تھی جیسے ماہی بے آب۔مزمل نے اُسے صرف اِک نظر دیکھا ، تو اُس کی آنکھوں میں نور اُتر آیا تھا۔ دل کی دھڑکن تیز تھی پر اُسے قرار مل گیا تھا۔
مزمل نے اسی سرمستی میں گردن جھکائی اور اپنی گاڑی کی طرف چل پڑا اور بغیر اِدھر اُدھر دیکھے لاہور واپس چلا گیا۔
مزمل کے جانے کے بعد ماہم کی حالت جل بن مچھلی جیسی بالکل بھی نہیں رہی تھی بلکہ وہ تو محبت کی جھیل میں غوطہ زن تھی۔ ماہی کوآب سے نکال لیا جائے تو وہ تڑپ تڑپ کر جان دے د یتی ہے۔ ماہم کی حالت ماہی جیسی ہی تھی اور مزمل اُس کے لیے آبِ حیات جیسا بن چکا تھا۔ اِس سب کے باوجود وہ زبان سے انکار ہی کر رہی تھی۔ ماہم کے دل کو بھی مزمل کے دیدار سے قرار مل گیا تھا۔
لاہور پہنچ کر اُس نے پیٹ بھر کر ناشتا کیا اور لمبی تان کر سو گیا۔
٭…٭…٭
اب مزمل کا یہ معمول بن گیا۔ وہ سارا دن کام کرتااور رات کو جلد سو جاتا۔ رات کے دوسرے پہر اُٹھتا، گاڑی نکالتا اور معراج کے روانہ ہو جاتا۔ فجر کی نماز حکیم صاحب کے پیچھے ادا کرتا اور سب نمازیوں کے جانے کے بعد مسجد سے نکلتا، تو وہ کھڑکی میں نور بانٹنے کے لیے کھڑی ہوتی۔ مزمل آنکھوں سے آنکھوں میں نور اُتارتا پھر گردن جھکا کر واپس لاہور چلا آتا۔
ڈیڑھ ماہ کا عرصہ اِسی طرح گزر گیا۔ حکیم صاحب اور ماہ نور کو سب کچھ پتا چل گیا تھا۔ اُن کے توسط سے یہ خبر مہوش تک پہنچی تو اُسے کچھ فکر لاحق ہوئی۔
ماہ نور نے شروع ہی میں ممتاز بیگم کو موبائل پر ساری طوطا مینا کی کہانی سُنا دی تھی۔
ممتاز بیگم خوش بھی بہت تھیں ساتھ ہی ساتھ اندر سے ایک ڈر بھی تھا۔ مزمل کی ایک ڈھال ممتاز بیگم کی نظر میں حکیم مسلم انصاری بھی تھا۔ حکیم صاحب کے متعلق سوچ کر اُن کو تسلی ہو جاتی۔
علاقے کے لوگوں میں تشویش بڑھ گئی تھی۔ اب وہ سوچنے لگے کہ یہ لڑکا کیوں ہر روز ماڈل ٹائون لاہور سے معراج کے آتا ہے۔
پھر ایک دن علاقے کے لوگوں کو خبر ملی کہ سیٹھ مجیب کی بند پڑی فیکٹری مزمل بیگ نے خرید لی ہے۔ اعتراض کی جگہ عرضیاں ہونے لگیں۔ مزمل نے فیکٹری میں دوبارہ کام شروع کروادیا۔ علاقے کے نوجوانوں کو روز گار مل گیا۔ اُس علاقے میں لوگ اُس کی عزت کرنے لگے عزت کیوں نہ کرتے اُس نے کافی سارے گھرانوں کے بچوں کو کام پر جو لگا لیا تھا۔اُس کا اپنے ملازموں سے سلوک بھی بہت اچھا تھا اور سب سے بڑھ کر مناسب تنخواہ وہ بھی وقت پر ۔
اب اُس کے فجر کے وقت معراج کے آنے پر کسی کو حیرت بھی نہ تھی اور اُن کی تشویش بھی دور ہوگئی۔
ایک اور حیرت کی بات یہ تھی خاموش محبت کی اِس کہانی کا حکیم صاحب کے گھرانے کے علاوہ کسی کو علم نہیں تھا۔
ماہم کی کھڑکی پرانی وضع کی تھی جس کے اوپر ایک مخروطی چھجاتھا۔ لکڑی کے دو تختے جو گلی کی طرف کھلتے تھے۔ تختوں کے پیچھے لوہے کے سیدھے سریے ، ماہم جب کھڑکی میں کھڑی ہوتی تو لکڑی کے تختے، گلی کی طرف کھل جاتے جس سے وہ گلی میں سے گزرنے والوں کی نظر وںسے محفوظ رہتی ۔
اب لکڑی کے تختے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے، البتہ لوہے کے سریوں کے پیچھے کمرے کے اندر ایک موٹا پردہ ہمیشہ کھڑکی پر پڑا رہتا، ماہم اُس پردے کو صرف فجر کے وقت ہٹاتی تھی۔
وہ چوبیس گھنٹوں میں صرف چند منٹ کے لیے کھڑکی میں آتی وہ بھی۔ جب مزمل نے مسجد سے نکلنا ہوتا۔ معراج کے گائوں دور تھا۔ اڈے پر بہت کم لوگوں کی رہائش تھی فیکٹری کے پیچھے صرف آٹھ دس گھر تھے۔ وہاں سے آئے نمازیوں کے جانے کے بعد ہی مزمل مسجد سے نکلتا تھا۔
حکیم صاحب کو پتا اُن کی حکمت کی وجہ سے لگا تھا۔ انہوں نے پہلے دن ہی اندازہ لگا لیا تھا، جب ماہم نے مہتاب خان کے ہاتھ یہ کہہ کر مسجد میں چائے بھجوائی تھی۔
”خان چاچا! حکیم صاحب کا کوئی عزیز برات کے ساتھ آیا ہے اُسے مسجد میں چائے دے آئیں۔” ماہم نے مہتاب خان کو چائے دیتے ہوئے کہا تھا۔
”حکیم صاحب ماہ نور کو کیوں نہیں کہتا۔” مہتاب خان نے سوال کیا تھا۔
”ماہ نور شادی ہال میں ہے۔ مہوش چچی کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ میں گھر دوائی کھانے کے لیے آئی تھی۔ حکیم چچا نے مجھے دیکھا تو کہہ دیا۔”
”ٹھیک…ٹھیک۔اب ہم سمجھا۔ہم دے دیتا ہے چائے۔” مہتاب خان نے چائے پہنچا دی تھی۔
شروع شروع میں مسجد کے دوسرے نمازیوں کو بھی مزمل پر شک گزرا تھا۔ اُن کے شکوک و شبہات حکیم صاحب نے یہ کہہ کر دور کر دیے تھے کہ مزمل میرا رشتے دار ہے اس کا ایک گھر گوجرانوالہ شہر میں بھی ہے۔ وہ فجر کی نماز کے لیے یہاں آجاتا ہے اور نماز کے بعد لاہور چلا جاتا ہے۔
شروع شروع میں ایک دن مہتاب خان نے حکیم صاحب کو اکیلے میں پوچھا:
”حکیم صاحب! یہ تو ٹھیک ہے یہ لڑکا تمہارا رشتے دار ہے، لیکن مڑا اِس کا روز آنا…دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔” حکیم صاحب اور مہتاب خان بات کرتے کرتے مسجد کے احاطے سے باہر آچکے تھے۔
”مہتاب خان! بات دراصل کچھ اور بھی ہے۔ تمہارا شک بالکل ٹھیک ہے۔ یہ لڑکا یہ فیکٹری خریدنا چاہتا ہے۔ پر کسی نے اس کو ڈرایا ہے یہاں فجر سے پہلے جنات چکر لگاتے ہیں یہ اس لیے ہر روز فجر کے وقت خود آکر دیکھتا ہے۔”
”یہ بات تو سراسرجھوٹ ہے۔ ہم اتنا سال یہاں چوکیداری کیا ہے۔ ایسا تو کچھ نہیں ہے۔ ہم مزمل صاحب کو خود بتائے گا۔”
”نہیں نہیں مہتاب خان اُسے تصدیق کرنے دو۔”
ماڈل ٹائون میں مزمل کے گھر میں بھی ممتاز بیگم کے علاوہ سارے ملازم حیران تھے کہ مزمل صاحب فجر سے پہلے کہا جاتے ہیں۔
ممتاز بیگم نے سب کو سختی سے منع کیا تھا کہ وہ اس بارے میں مزمل سے کوئی سوال نہیں کریں گے۔
فیکٹری خریدنے کے بعد مزمل کی روٹین میں ایک فرق آیا تھا۔ وہ مسجد سے نکلتا ایک نظر ماہم کو دیکھتا کبھی لاہور واپس چلا جاتا اور کبھی اپنی فیکٹری ،مین گیٹ کی طرف سے جو مین جی ٹی روڈ پر تھا۔ دوپہر 12بجے تک فیکٹری کے معاملات دیکھتا پھر لاہور چلا جاتا۔
مزمل کے فیکٹری خریدنے کے بعد مدیحہ کو پھر سے اُس کا خیال گزرا۔ معصومہ نے اُسے سمجھایا پہلے بھی تم مزمل کے چکر میں فیس بک پر پتا نہیں کس کس سے بے وقوف بنتی رہی ہو مزمل کا خیال دل سے نکال دو۔
معصومہ کے پانی ڈالنے سے مدیحہ کے عشق کی جھاگ وقتی طور پر بہ گئی تھی۔
٭…٭…٭
مکلاوے کے تقریباً دو ماہ بعد مسرت اور مبشر پہلی بار گائوں آئے تھے۔ اُسی دن ماہ نور بھی کافی عرصے بعد ماہم سے ملنے اُن کے گھر گئی۔ وہ سیدھی ماہم کے کمرے ہی میں چلی گئی تھی۔” اِس دوران ماہم اور ماہ نور کی چند ملاقاتیں ہوئیں مگر مزمل کے متعلق ماہم نے کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔ اِسی بات کا غصہ ماہ نور کو تھا۔
ماہم نے ماہ نور کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو بول اُٹھی:
”تم کیسے آگئیں” ماہم نے خوش اخلاقی سے پوچھا۔
”جیسے وہ ہر روز آتا ہے۔ ” ماہ نور کے ایک ہی جملے نے ماہم کو چپ لگا دی۔ وہ نظریں جھکائے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
” ایسی خراشیں گھائو بن جاتی ہیںمیں نے کہا تھا نا۔” ماہ نور نے یاد دہانی کرواتے ہوئے کہا۔
ماہم نے اپنی کلائی کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا:
”کوئی گھائونہیں ہے۔” ماہ نور نے دیکھا، تو مسکراتے ہوئے کہنے لگی:
”ماہم چودھری! محبت کے گھائو نشان تھوڑی چھوڑتے ہیں…”
”ایسی ویسی کوئی بات نہیں تم غلط سمجھ رہی ہو۔”ماہم نے سنجیدگی سے اپنی صفائی پیش کی۔
”ویری فنی…روزانہ اُسے کھڑکی سے دیکھتی ہو،پر ایسی ویسی کوئی بات نہیں۔”ماہ نور نے ہلکا سا طنز کیا۔
”میرا یقین کروماہ نور!” ماہم نے زور دے کر کہا۔
”اوکے فائن کر لیا تمہارا یقین۔Can you explain this.کیوں دیکھتی ہو اُسے ؟” ماہ نور نے بغیر کسی لحاظ کے ماہم کو کہہ دیا۔ ماہم گردن جھکائے بیٹھی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں نمی آ چکی تھی۔
”ماہم چودھری! مجھے تم پر پورا یقین ہے۔ تم صرف اپنے دل کو یقین دلا دو کہ ایسی ویسی کوئی بات نہیں!”
”زندگی کے فیصلے دماغ سے کیے جاتے ہیں، دل سے نہیں” ماہم نے اپنی طرف سے مدلّل دلیل پیش کی تھی۔
”شٹ اپ! کسے دھوکا دے رہی ہو۔ خود کویا مجھے!جو تم کہہ رہی ہواگر یہ سچ ہے تو محبت کی اِس کھڑکی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردو اور ماجد سے شادی کرلو۔” ماہم نے ماہ نور کی باتیں سُنی تو اُس کے آنسو بغیر آواز کے ٹپکنا شروع ہوگئے۔
”زیادہ اموشنل مت ہو، بی پریکٹیکل میں سمجھتی ہوںتمہاری یہ ڈف اینڈ ڈم سی محبت یہ سوسائٹی نہیں سمجھے گی۔ کوئی دیکھے گا تو کہے گا، لڑکی کی شادی کی عمر ہو گئی ہے اِس کی فوراً شادی کردو ۔وہ بھی پاگلوں کی طرح دو ماہ سے آرہا ہے ۔یہ لو موبائل اور اُسے حقیقت بتا دو۔”
”کیسی حقیقت؟”ماہم نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
”یہی کہ تمہاری منگنی ہو چکی ہے۔”
”یہ تو مجھے بھی پتا ہے کہ میری منگنی ہو چکی ہے۔ ”ماہم نے گھائل آواز کے ساتھ اقرار کیا۔
”پھر مت بنو ایڈیٹ۔ ”ماہ نور نے یہ کہا ہی تھا۔ ماہم نے کھلی کھڑکی کا پردہ پیچھے ہٹایا اور کھڑکی کے پاس پڑی ہوئی ایزی چیئر پر گردن جھکا کر بیٹھ گئی۔ ماہم چند منٹ اُسی حالت میں بیٹھی رہی ماہ نور کی نظریں اُس پر مرکوز تھیں۔ ماہم کچھ کہنا چاہتی تھی پھر اُس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور صرف شکایتی نظروں سے ماہ نور کی طرف دیکھا۔ماہ نور اُٹھ کر اُس کے پاس گئی اور معذرت خوانہ انداز میں بولی:
”ماہم! سوری غصے میں پتا نہیں کیا کیا کہہ گئی۔یار مجھے تمہاری فکرہے۔ آئی ہوپ تم سمجھ رہی ہو میری فیلنگز۔”
بند دروازے پر دستک ہوئی ماہم ایزی چیئر سے اُٹھی ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں خود کو دیکھا اپنے بال سیدھے کیے چہرہ ٹشو سے صاف کیا۔
”کھول دو دروازہ۔” مومنہ نے دروازہ پیٹتے ہوئے آواز لگائی۔ ماہم نے ماہ نور کو اشارہ کیا اُس نے جلدی سے دروازہ کھول دیا۔
”اتنی دیر لگا دی دروازے کھولنے میں۔” مومنہ نے اندر داخل ہوتے ہی کہہ دیا۔
”بس کچھ بات کر رہے تھے۔” ماہ نور نے جلدی سے جواب دیا۔
”باتیں سننی ہیں تو نیچے آجائو۔ مسرت باجی لاہور سے آئی ہوئی ہیں امّی کے پاس بیٹھی ہیں۔ جب سے آئی ہیں اپنے سسرال کے قصے سنائے جا رہی ہیں۔امّی نے بلایا ہے جلدی آجائیں چائے بنا رہی ہوں۔” مومنہ نے جاتے جاتے ایک ہی سانس میں ساری باتیں کہہ دیں۔
٭…٭…٭
”کیا بتائوں… ممانی جی! بیگم صاحبہ بڑی اچھی ہیں ابھی دس دن پہلے کی بات ہے۔ کام والی ماسی نے کام چھوڑ دیا۔ مائرہ کے پرچے ہونے والے ہیں۔ مزمل صاحب اُسے کام نہیں کرنے دیتے۔ خالہ منظوراں سے اتنا کام ہوتا نہیں اور مجھ سے دیکھ کر رہا نہیں گیا۔ پھر میں شروع ہوئی اور جھٹ پٹ سارے کام ختم کر دیے۔ بیگم صاحبہ نے دیکھا تو ہزار کا نوٹ اور ایک سوٹ اُسی وقت انعام میں دیا پھر کہنے لگی۔” مسرت اچھا نہیں لگتا کہ تو بیٹھی رہی اور تیری ساس کام میں لگی رہے ”
”مسرت! یہ بتا، مزمل صاحب کو کیا تکلیف ہے جو مائرہ کو کام نہیں کرنے دیتے۔ ماہ نور نے مسرت کی باتوں کے نا تھمنے والے سلسلے کو روکا اور اُسی کے انداز میں اُس سے پوچھا۔
”مزمل صاحب! تو بہت اچھے ہیں جی۔ مائرہ سے چھوٹی بہنوں کی طرح پیار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں تمھیں ڈاکٹر بنائوں گا۔”
”چائے…” مومنہ ٹرے اُٹھائے کھڑی تھی ۔
”مسرت اِسے بتائو کہ مائرہ کتنا پڑھتی ہے۔” ماہم نے مومنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مومنہ نے میز پر چائے کی ٹرے رکھی اور باری باری سب کو چائے پیش کی۔ اس دوران بھی مسرت کی باتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ مریم بی بی نے چائے پی اور نماز کے لیے چلی گئی مومنہ کو بھی ماہم نے پڑھنے بھیج دیا۔
”تمہارے مزمل صاحب کیسے ہیں؟” ماہ نور نے ماہم کی طرف دیکھتے ہوئے مسرت کی پھر سے چابی گھما دی۔
”مزمل صاحب تو بڑے اچھے ہیں۔ کام سے سیدھا دوسری منزل پر اپنے کمرے میں۔”
”تم گئی ہو اُس کے کمرے میں۔” ماہ نور نے بات کاٹتے ہوئے جلدی سے پوچھا۔
”دیکھنا تو چاہتی تھی پر مبشر نے منع کیا ہے۔ صرف مائرہ کو جانے کی اجازت ہے اُن کے کمرے میں۔”
”ایسا کیا ہے وہاں۔” ماہ نور نے اشتیاق سے پوچھا۔
”پتا نہیں۔مائرہ بتا رہی تھی مزمل بھائی کو بالکل پسند نہیں کہ کوئی اُن کی چیزوں کو ہاتھ بھی لگائے۔ مائرہ نے یہ بھی بتایا تھا اُن کے کمرے کا سارا سامان باہر کے ملکوں کا ہے۔”
”اچھایہ تو بتائوتمہارے صاحب کو کھانے میں کیا کیا پسند ہے۔”
”پھل اورر ڈاری فروٹ چاٹ اور کوفی بڑی پیتے ہیں۔” ماہم جو اب تک خاموش تھی، اطمینان سے بولی:
”مسرت ! تم نے سب کے بارے میں بات کی، سوائے مبشر بھائی کے۔” مبشر کا نام سُن کے وہ چہکتے ہوئے بولی:
”ماہم باجی! مبشر کی کیا بتائوں۔وہ تو اتنا اچھا کہ میں بتا ہی نہیں سکتی۔”
”تم سے محبت کرتا ہے۔” ماہ نور نے فوراً پوچھا۔
”بہت محبت کرتا ہے مجھ سے ۔ بڑا خیال رکھتا ہے میرا۔”
”محبت کا اظہار کیسے کرتا ہے ؟ وہ تو بول نہیں سکتا۔”ماہ نور نے یک دم پوچھ لیا۔
”ماہ نور باجی! تم بھی ایویں ہو۔ تمہیں کس نے کہہ دیا محبت جتانے کے لیے بولنا ضروری ہے۔ محبت تو جیسے تختی پر لکھتے ہیں، ویسے ہی بندے کے منہ پر لکھی ہوتی ہے۔ محبت میں نہ پوچھتے ہیں اور نہ بتاتے ہیں بس اندرو اندر ہی پتا چل جاتا ہے۔”
مسرت تھوڑی دیر بیٹھی پھر معراج کے گائوں چلی گئی اپنے میکے۔ ماہم تو ویسے ہی کم گو تھی۔ مسرت کے جانے کے بعد ماہ نورکو بھی چُپ لگ گئی تھی۔
٭…٭…٭
”آج تم چپ چپ سی ہو۔” مجتبیٰ نے Skypeپر بات کرتے ہوئے ماہ نور سے پوچھا۔
”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔” ماہ نور نے اپنی دونوں ہتھیلیوں سے چہرہ صاف کیا۔
”جو محبت میں چہرہ نہ پڑھ سکے وہ محبت کی آزمائش میں فیل ہو جاتا ہے۔”مجتبیٰ نے LCDپر ماہ نور کے چہرے پر نظریں ٹکاتے ہوئے جواب دیا۔
”کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟” ماہ نور نے LCDسے گردن موڑ کر پوچھا۔
”یہ سوال میں نے تو تم سے کبھی نہیں پوچھا۔ تم نے پوچھا ہے تو جواب یہ ہے! اپنے دل سے پوچھ لو۔ تم مجھے اصل بات بتائو جس کی وجہ سے تم ڈسٹرب ہو۔کم آن ماہ نور! ٹیل می۔”
”ڈسٹرب تو ہوں۔ تمہیں کیسے پتا چل جاتا ہے۔” ماہ نور نے شرماتے ہوئے پوچھا۔
”انسان کا چہرہ اُس کے اندر کا آئینہ ہوتاہے جس میں سب کچھ صاف نظر آتا ہے جس وجہ سے تم ڈسٹرب ہو وہ تم نے ابھی تک نہیں بتائی۔”
”بتاتی ہوں،مزمل بیگ ہے نا۔”
”کون مزمل بیگ؟”
”وہی ماڈل ٹائون والا ! بتایا تو تھا۔”
”یس…یس…آئی نو، کیا ہوا اُسے؟ کہیں پھر سے تو Exchangeوالا چکر نہیں ہوگیا۔” مجتبیٰ نے ماہ نور کو تنگ کرنے کے لیے شرارت کی۔
”شٹ اپ مجتبیٰ!”
”تمہاری انگلش تو بڑی بہتر ہو گئی ہے۔ اب تو شٹ اپ کہہ کر چپ کرواتی ہو۔” مجتبیٰ نے بات لگائی ۔
”ارے کہاں سپوکن انگلش والے ٹیچر کہتے ہیں گھر جا کر انگلش میں بات کرو۔ ابّا امّاں سے کیا بات کروں۔ ماہم سے بات کرتی ہوں تو انگلش کے لفظوں کا استعمال کرتی ہوں۔ آج مسرت نے تو بالکل دیسی بنا دیا تھا۔ ایک نئی بوڑھی سہیلی بنی ہے۔ اُن سے بھی اُردو میں ہی بات کرنی پڑتی ہے۔”
”بوڑھی سہیلی کون؟” مجتبیٰ کو تجسس پیدا ہوا۔
”مزمل بیگ کی دادی ممتاز بیگم۔”
”تم نے مزمل بیگ کی بات شروع کی تھی۔”
”وہی تو، تم میری سُنتے کہاں ہو بیچ میں ہی ٹوک دیتے ہو اور بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے۔” ماہ نور نے اکتاہٹ سے کہا۔
”تم بات کرو میں بیچ میں نہیں بولوں گا۔ پرامس۔”
”دو ماہ پہلے مزمل بیگ برات کے ساتھ آیا۔ وہاں اُسے ماہم سے محبت ہوگئی۔ ماہم کو بھی اُس سے محبت ہے پر وہ مانتی نہیں۔ وہ ماڈل ٹائون سے روزانہ معراج کے پچھلے دو ماہ سے آرہا ہے۔ فجر کی نماز کے بعد ایک نظر اُسے دیکھتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ تمہیں پتا تو ہے، ماہم کی منگنی ماجد سے طے ہے جو وہ توڑنا نہیں چاہتی۔ کہتی ہے اپنے ابّو کی زبان کا پاس رکھوں گی۔ میں چاہتی ہوں جیسے تیسے مزمل اور ماہم کی شادی ہو جائے جائز یا ناجائز کسی بھی طریقے سے۔ ”
”تم یہ کیوں چاہتی ہو؟”
”ماہم کے لیے یاشاید مزمل کے لیے۔ میں چاہتی ہوں میرے ماں باپ کی وجہ سے جس محرومی میں اُس نے زندگی گزاری ہے اُس کا ازالہ ہو سکے۔ میرے ماں باپ نے اُس کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔”
”وہی کچھ اُس کے والدین نے تمہارے ساتھ بھی تو کیا تھا۔”
”مجھے تو امّاں ابّا نے اتنا پیار دیا کہ اپنے ماں باپ سے نفرت سی ہو گئی ہے مجھے۔”
”میں کچھ کہوں۔”
”کہو!”
”ماہ نور! دیکھو تم گلٹی فیل مت کرو تم نے مزمل کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔ جہاں تک ماہم ا ور اُس کی شادی کا سوال ہے اُسے وقت پر چھوڑ دو۔ تمہارے قصوں میں اپنی لو اسٹوری تو گم ہو گئی ہے۔ میں جون میں آرہا ہوں حکیم صاحب کو بتا دینا۔ نکاح کرکے ہی واپس جائوں گا۔”
٭…٭…٭
”چودھری جی! بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دو اِس کے لچھن ٹھیک نہیں ہیں۔” منیرہ بی بی نے فکر مند ہوتے ہوئے چودھری مقصود سے کہا۔
”نا ہو ا کیا ہے منیرہ ؟” چودھری مقصود نے حقے کا کش لگاکر ناک اور منہ سے دھواں نکالتے ہوئے پوچھا۔
”جب دیکھو اُس خصماں نو خانے پوٹے والے موبائل پر ٹھونگے مارتی رہتی ہے۔”
”دھی نمانی ہے کھیڈن دے چار دہاڑے … مجھے بھی فکر ہے۔ میں نے ملک وال میں ایک لڑکا دیکھا ہے اپنی مدیحہ کے لیے لڑکے کا سیلر ہے۔” چودھری مقصود نے حقے کی نلی رکھی اور اپنی وہیل چیئر چلاتا ہوا۔پلنگ کے پاس پہنچا۔ منیرہ بی بی نے دیکھا، تو فوراً اپنے پلنگ سے اُتری اور چودھری مقصود کو بیڈ پر لٹانے میں مدد کی۔
”چودھری جی! ایسے ہی ہاں مت کر دینا میں نے لڑکا دیکھنا ہے۔ ماجد کا رشتہ بھی خود ہی طے کر دیا تھا۔”
”مقدر والا ہے تیرا بیٹا جو ماہم جیسی لڑکی اُس کی زندگی میں آئے گی۔”
”ہاں جی بڑے مقدر ہیں ! کہیں سے لگتا ہے زمینداروں کی دھی ہے۔”
”ذات ملوک نہیں ریت ملوک ہوتی ہے۔ چودھری جی! آپ کے بھائی اور بھابی نے کڑیوں کو پڑھائی ہی کی طرف لگائے رکھا۔ دس بندوں کا کھانا پکانا پڑ جائے تو دونوں بہنوں کو موت پڑجاتی ہے۔”
”منیرہ سمجھا کر ماہم کے ساتھ 5مربعے زمین بھی تو آئے گی پتر ہی ایک تھا ورنہ میں تو چھوٹی کو بھی باہر نا جانے دیتا۔”
”مٹھو بتا رہا تھا مہر مجید کی بہن ہے منزہ میاں چنوں میں نانکوں کے گھر رہتی تھی۔ پورے چھے مربعے ہیں اُس کے نام پر مجھے تو اپنے ماجد کے لیے وہ پسند ہے۔”
”منیرہ بی بی ! تیری تو مت ماری گئی ہے ۔ میں نے سنا ہے وہاں کسی لڑکے کے ساتھ پکڑی گئی تھی۔نانی نے ہاتھ جوڑ کر واپس بھیجی ہے۔”
”چودھری جی! ایسے ہی افواہ ہے۔ کوئی ایسی ویسی بات نہیں۔ میاں چنوں میں اپنی مجیدہ رہتی ہے، اُس سے میں نے سب پتا کروایا ہے۔”
”بلّے وئی بلّے منیرہ بی بی ! تیریاں پھرتیاں ،ایک بات کان کھول کے سُن لے تو ۔ماجد کی شادی صرف و صرف ماہم ہی سے ہوگی۔”
٭…٭…٭
ابّے نے ملک وال میں میری شادی طے کر دی ہے۔” مدیحہ نے منہ بناتے ہوئے معصومہ کو اطلاع دی۔
”یہ تو خوشی کی بات ہے۔ تیرے منہ پر یہ بارہ کیوں بجے ہیں۔” معصومہ نے پوچھا۔
”میں تو مزمل بیگ سے محبت کرتی ہوں۔ وہ بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔” مدیحہ نے اپنی پریشانی بتائی۔
”ایسا مزمل نے خود کہا کہ وہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔” مدیحہ کی بات سن کر معصومہ کو تعجب ہوا تھا۔
”فیس بک والے مزمل بیگ نے۔ میں اِس فیکٹری والے کی بات نہیں کر رہی۔”
”اچھا اچھا۔فیس بک والا مزمل۔شکر کرو بے وقوفوں کے سر پر سینگ نہیں ہیں۔”
”تم میرا مذاق اُڑا رہی ہو۔” مدیحہ نے منہ پھلاتے ہوئے شکوے کے انداز میں کہا۔
”میں دیکھنا چاہتی ہوں…تمہارا مزمل۔” معصومہ نے جلدی سے کہا۔ مدیحہ اُٹھی اپنے کمرے سے باہر جھانکا دروازہ بند کیا اور اپنے موبائل پر مزمل کی تصویر معصومہ کو دکھائی۔ معصومہ نے تصویر دیکھنے کے بعد پوچھا:
”جس سے تمہارا رشتہ ہوا ہے اُس کی بھی کوئی تصویر گھر والوں نے تمہیں دکھائی ہے۔”مدیحہ نے اثبات میں سر ہلایا اور سامنے شوکیس سے ایک تصویر نکال کر معصومہ کے سامنے کر دی۔
اُدھر معصومہ کی نظر تصویر پر پڑی ساتھ ہی مدیحہ کی زبان چل پڑی:
”مقبول حسین نام ہے اِس کا۔ ملک وال میں سیلر ہے۔ دو بڑی بہنیں تھیں، اُن کی شادیاں کر دیں۔ باپ مر چکا ہے۔ گھر میں ماں بیٹا دو ہی جی ہیں۔”
”میری بات مان اور جلدی سے مقبول کو قبول کر لے۔”
”اپنے مزمل کو دیکھا ہے نمونہ لگتا ہے مقبول کے سامنے فیس بُک کھول اور جلدی سے اپنے مزمل کو ان فرینڈ کر اور مقبول کو سرچ کرکے فرینڈ ریکویسٹ بھیج دے اور ساتھ ہی میسج بھی کردے تمہاری منگیتر مدیحہ !”
”مگر معصومہ میرا شروع سے خواب تھا۔ میرا منگیتر ماہ نور کے منگیتر کی طرح ہو یا پھر فیکٹری والے کی طرح یہ تو عام سی شکل و صورت کا ہے۔ ابّے کو مجھ سے پوچھنا تو چاہیے تھا۔ میں تو مقبول سے بہت ہی خوبصورت ہوں جوڑ تو برابر کا ہونا چاہیے جیسے ماہ نور اور مجتبیٰ۔”
”تو ماہ نور اور مجتبیٰ کو مت دیکھ ۔ اپنے بھائی ماجد اور ماہم کو دیکھ کیا وہ برابر کا جوڑ ہے؟ تو ماہم سے زیادہ خوبصورت تو نہیں ہے۔ مقبول حسین تیرے بھائی سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔ میرا تو مشورہ ہے مقبول حسین سے شادی کر لے آگے تیری مرضی۔”
”مگر ،وہ…”مدیحہ نے سوچتے ہوئے اتنا ہی کہا تھا ۔معصومہ نے جلدی سے اُس کی بات کاٹ دی اور کہنے لگی:
”اگر مگر چھوڑو، تو ابھی تک ڈگر سے ہٹی نہیں۔ہاں کردے! میری بڑی ماسی ایک دن کہہ رہی تھی اپنے سے کم سوہنے بندے سے شادی ہو جائے تو بندہ ساری حیاتی تابعداری کرتارہتا ہے۔”
”معصومہ تو میری بات تو سُن، مقبول کی ماں اگلے مہینے کی تاریخ مانگ رہی ہے۔” مدیحہ نے معصومہ کو جھنجوڑتے ہوئے اپنی بات سنائی۔
”میں تو کہتی ہوںاگلے مہینے کی بجائے اگلے ہفتے شادی کا کہیں، تو پھر بھی انکار مت کرنا۔ آج بڑھیا مر گئی توکل تو گھر کی اکیلی مالکن۔ مدیحہ میں جا رہی امّی نے بڑی مشکل سے آنے دیا تھا۔” معصومہ وہاں سے چلی گئی۔ مدیحہ کسی گہری سوچ میں تھی اُس نے منہ میں کہا:
”اگلے مہینے کی بجائے اگلے ہفتے”
٭…٭…٭
دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلنے لگے۔ مزمل کی روٹین میں کوئی فرق نہ آیا۔ موسم بدلا مگر مزاج نہیں بدلا۔ سردی کے بعد خزاں پھر بہار بھی آکے چلی گئی۔ گرمی اپنے پورے جوبن پر تھی مائرہ اور مومنہ کے سیکنڈ ائیر کے امتحان ہو چکے تھے۔
مدیحہ کی ملک وال میںشادی ہوگئی تھی۔ مبشر اور مسرت ننھے مہمان کے آنے کی خوشی میں دن گِن گِن کر گزار رہے تھے۔
مجتبیٰ مانچسٹر سے ماہ نور کے ساتھ نکاح کے لیے آگیا تھا۔
مجتبیٰ اور ماہ نور کے نکاح سے ایک دن پہلے حکیم صاحب جمعہ پڑھنے کے لیے نکلنے ہی لگے تھے کہ اُنہیں اچانک ماہ نور کا خیال آیا تو وہ گھر کے بیرونی دروازے سے پلٹ کے ماہ نور کے کمرے میں گئے۔ ماہ نور اُس وقت کپڑے استری کر رہی تھی کمرے کا دروازہ کھلا ہی تھا پھر بھی حکیم صاحب نے ماہ نور سے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت مانگی:
”ماہ نور بیٹی! اندر آسکتا ہوں۔”
”ابّا! آپ بھی نا۔آپ کیوں مجھ سے اجازت مانگتے ہیں۔” ماہ نور نے خفا ہوتے ہوئے کہا۔
”جہاں اجازت مانگی جائے یا اجازت دی جائے وہاں بغاوت نہیں ہوتی۔” حکیم صاحب نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے بتایا۔
”بغاوت! میں سمجھی نہیں۔” ماہ نور نے حیرانی سے پوچھا۔ استری کرتے ہوئے اُس کے ہاتھ رُک گئے تھے۔ اُس نے سوالیہ نظروں سے حکیم صاحب کو دیکھا۔
”کبھی بتائوں گابغاوت کے بارے میںبھی۔ابھی تم یہ بتائوکچھ اور تو نہیں منگوانا شہر سے۔میں جمعہ پڑھنے جا رہا ہوں۔”حکیم صاحب نے حلیمی سے پوچھا۔
”ابّا! مجھے تو کچھ نہیں چاہیے۔امّاں سے پوچھ کر آتی ہوں۔” ماہ نور نے استری کا پلگ نکالتے ہوئے کہا۔
”تمہاری امّاں سے میں پوچھ چُکا ہوں۔” حکیم صاحب یہ کہتے ہوئے ماہ نور کے پاس آگئے اُس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا پھر بولے:
”کوئی خواہش جو میرے بس میں ہو۔”
”ایک خواہش ہے۔میں اپنی ایک سہیلی کو نکاح پر بلانا چاہتی ہوں۔”
”مریم بہن کو میں نے کہہ دیا ہے۔” حکیم صاحب نے اطمینان سے جواب دیا۔
”ابّا ! میں دادی ممتاز کی بات کر رہی ہوں وہ بھی ہیں میری سہیلی!” حکیم صاحب نے گہری نظروں سے ماہ نور کو دیکھا اُس کی آنکھوں میں سچائی تھی۔ اُس نے حکیم صاحب سے آنکھیں ملاتے ہوئے بڑے ادب سے عرض کی:
”ابّا! آپ نے خود مجھے ماڈل ٹائون بھیجا تھا، آپ کے کہنے پر ہی میں نے اُن سے ملاقات کی تھی۔ دو باتوں کا میں نے آپ سے ذکر نہیں کیا اُس کے لیے مجھے معاف کر دیں۔”
حکیم صاحب نے آنکھوں کے اشارے ہی سے سوال پوچھ لیا۔
”میں اُن سے موبائل پر اکثر بات کرتی ہوں۔” ماہ نور نے کہا اور گردن جھکا لی۔ حکیم صاحب اب بھی اُس کے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔
”دوسری بات؟” حکیم صاحب نے تشویشی انداز سے پوچھا ۔ ماہ نور لوہے کی الماری سے ممتاز بیگم کا دیا ہوا کنگن نکال لائی۔
”یہ دادی ممتاز نے مجھے دیا تھا میں نے امّاں کو اُسی دن اِس کنگن کے بارے میں بتا دیا تھا۔ آپ کو بتانے سے ڈرتی تھی۔ ابّا آپ کی قسم میں یہ نہیں لینا چاہتی تھی اُن کے خلوص اور محبت کے آگے میری ایک نہیں چلی۔” ماہ نور حکیم صاحب کویقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی انہوں نے ماہ نور کو گلے لگا لیا اور جذباتی انداز میں بولے:
”ماہ نور بیٹی! مجھے تم پر فخر ہے۔تم اپنی سہیلی کو بلا لو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔” حکیم صاحب نے یہ کہا اور چل دیے کمرے کے دروازے میں پہنچ کر وہ رُکے اور مڑ کر ماہ نور کو دیکھا۔
”ابّا ! آپ میرے کمرے میں بغیر اجازت کے آئیں گے تو مجھے زیادہ خوشی ہوگی۔” حکیم صاحب چمکتی آنکھوں سے جذباتی مسکراہٹ کو دبائے وہاں سے چلے گئے۔
٭…٭…٭
اُن کے جاتے ہی ماہ نور نے خوشی میں جھومتے ہوئے ممتاز بیگم کو کال ملا دی۔
”السلام علیکم ماہ نور بیٹی!” ممتاز بیگم نے کال رسیو کی تھی۔
”سہیلی! کل آپ نے میرے نکاح پر آنا ہے۔ میں نے ابّا سے اجازت لے لی ہے۔ اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ اگر آپ نہ آئیں تو میری آپ کی فرینڈ شپ ختم!” ماہ نور تیز گام کی طرح چھک چھک بولے جا رہی تھی نا تو اُس نے سلام کا جواب دیا اور نہ ہی ممتاز بیگم کو بولنے کا موقع۔
”میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ میں آج کتنی خوش ہوں۔” ماہ نور نے لمبا سانس لیتے ہوئے کہا، تو ممتاز بیگم ہنستے ہوئے بول پڑیں:
”بتانے کی کوئی ضرورت نہیں بیٹی ! مجھے سب پتا چل گیا ہے۔”
”آپ کو کس نے بتایا ہے۔۔۔؟” ماہ نور نے فوراً پوچھا۔
”تمہیں خوش دیکھ کر مجھے پتا چل گیا ہے۔”
”واہ جی واہ! آپ تو بڑی پہنچی ہوئی سرکار ہیں۔” ماہ نور اُسی رفتار سے بولے جا رہی تھی۔
”کہاں کی سرکار؟ ماہ نور بیٹی! تم نا ہوتی تو مجھے مزمل کے بارے میں کیسے پتا چلتا۔میں کل ضرور آئوںگی۔بس مزمل سے بات کر کے تمہیں اطلاع دیتی ہوں۔”
”آپ کو مزمل سے اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اُس کی دادی ہیں وہ آپ کا داد ا نہیں۔” ممتاز بیگم یہ سُن کر ہنس پڑیں۔
”اجازت نہیں لینی ماہ نور بیٹی! اُسے بتانا ہے، مسلم اور اپنے رشتے کے بارے میں۔معراج کا ذکر کروں گی، تو اُسے لگے گا جیسے اُس کی اور ماہم کی بات کر رہی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ ماہم کا مجھ سے خود ذکر کرے۔”
”دادی! یہ نا ممکن ہے۔ماہم میری بیسٹ فرینڈہے ۔ اُس نے آج تک مجھ سے کوئی بات نہیں چھپائی اِس کے باوجود مزمل اور خود کی محبت مجھ سے ڈسکس نہیں کرتی۔مزمل بھی آپ سے بات نہیں کرے گا۔”
”کرے گا ضرور کرے گا،مگر وقت آنے پر۔”
”کس وقت کی بات کر رہی ہیں۔چھے ماہ ہو گئے ہیں، اِس طوطا مینا کی کہانی کو اِس عرصے کے دوران میں نے خود ایک دفعہ ماہم سے بات کی تھی، وہ تب بھی انکار ہی کر رہی تھی۔ مجھے غصہ آگیا اورمیں نے اُس کی اچھی خاصی مرمت کر دی۔ ”
”ماہ نور!سہیلی کی مرمت کرنے سے الفت ختم ہو جاتی ہے۔”
”دادی! آپ کی بات ٹھیک ہے، پر مجھے غصہ اِس بات کا تھا کہ جب مجھے مجتبیٰ سے محبت ہوئی تھی، تو میں نے سب سے پہلے اپنے دل کا حال ماہم کو ہی سنایا تھا۔ ابّا کو راضی کرنے کی بات آئی تو پھر بھی میں نے ماہم ہی سے کہا تھا۔ ابّا میری طرح ماہم سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اُسے مجھ پر اعتماد کرنا چاہیے تھا۔”
”اعتماد کسی کسی پر کیا جاتا ہے اور اعتقاد اپنا اپنا ہوتا ہے، ماہ نور بیٹی!”
”دادی! آپ تو ابّا کی طرح ہی مشکل مشکل باتیں کرنے لگیں۔”
”آسان بات یہ ہے ماہ نور! تم نے بھی تو اپنی زندگی کا سب سے بڑا راز اُس سے چھپا کر ہی رکھا ہے ۔کیا تمہیں ماہم پر اعتماد نہیں؟ وہ بے چاری تو اپنا راز بھی نہ چھپا سکی صرف ماننے سے انکاری ہے۔ بیٹی اُسے تمہاری ضرورت ہے اُس کا خیال رکھو۔” ممتاز بیگم کی باتوں سے ماہ نور کسی گہری سوچ میں گم ہو گئی۔ چند منٹ پہلے والی شوخی سوچوں کے سمندر میں ڈوب گئی تھی۔۔۔