آسمان پر گھٹا چھائی تھی۔۔کے بادلوں نے گھیرا ڈالا ہوا تھا۔۔
ہوا بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی۔۔
آسمان کو دیکھ پتا چل رہا تھا کہ آج بارش برسنے والی ہے۔۔
تبھی اسٹیشن پر ٹرین رکی۔۔
لوگوں کی کافی بھیڑ تھی۔۔
وہ ہینڈل کو پکڑتا۔۔۔کاندھے پر بیگ لٹکائے۔۔ٹرین سے اترا۔۔
اس نے یہاں وہاں نظر دوڑائی۔۔
داہنی طرف دور سے اسے اس کا عکس دکھائی دیا۔۔
جو سادہ سے کاٹن کے سفید جوڑے میں دوپٹہ کاندھوں پر ڈالے۔۔بال کھلے ہوا میں اڑ رہے تھے۔۔وہ مسکراتی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی۔۔
اسے دیکھ وصی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔
وہ کاندھے سے بیگ اتارتا۔۔اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا۔۔
تبھی اس لڑکی نے اپنی بانہیں پھیلائے اپنی طرف بلایا۔۔
اسے دیکھ وصی کے جوگرز نے جنبش کی۔۔
اور وہ بیگ زمین پر رکھتے ہی تیزی سے بھاگتا اس کی طرف جانے لگا۔۔
وہ اسی طرح مسکراتی اس کے لیے بانہیں پھیلائے کھڑی تھی۔۔
جیسے کتنی ہی دیر سے کھڑی اس کے آنے کا انتظار کر رہی ہو۔۔
اور دور کھڑی اس اپسرا کے عکس کو دیکھ اندھا دھند دوڑ رہا تھا۔۔
جیسے اس سے ملنے کو کچھ دن بھی صدیوں کی طرح تھے۔۔
اس کی محبت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔۔
وہ اس شدت سے بھاگ رہا تھا جیسے اس کی جدائی میں بہت تڑپا ہو۔۔ایک ایک پل سولی پر گزارا ہو۔۔
آنکھوں میں چمک لیے بھاگ رہا تھا۔۔
مگر وہ اسی پوزیشن میں کھڑی تھی۔۔۔
اور وہ چند ہی لمحوں میں بھاگتا وہ فاصلہ طے کر گیا۔۔
اس لڑکی کے قریب آکر ہانپتا ہوا رکا۔۔
نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
وہ ابھی بھی مسکرا رہی تھی۔۔
وصی کی آنکھ سے آنسوں گرے۔۔
جو محبت کی شدت اس کے دل میں تھی وہ آنکھوں سے چھلک رہی تھی۔۔
وصی نے کانپتا ہوا ہاتھ آگے بڑھایا۔۔
وہ اسے چھونا چاہتا تھا۔۔
مگر ڈر تھا کہیں اسے چھوتے ہی وہ غائب نا ہوجا ئے۔۔
اور ایسا ہی ہوا۔۔
وصی نے جیسے ہی اسے چھوا۔۔
وہ یک دم غائب ہوگئی۔۔اب وہاں کوئی نہیں تھا۔۔
بس وصی اور اس کے اندر پلتی تنہائی۔۔
“نور۔۔۔” اس کی زبان سے لفظ ادا ہوا۔۔
اور وہ اسے کھوجتا یہاں وہاں دیکھنے لگا۔۔مگر وہ نہیں تھی۔۔
چند لمحے وہ خاموشی سے وہیں کھڑا رہا۔۔۔
جانے اس کے دل میں کیا چل رہا تھا۔۔
“نور۔۔۔” وہ چیخنے کے ساتھ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔
پاس سے گزرتے لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔۔
مگر وہ سب کی نظر سے بے پرواہ شدت سے رو رہا تھا۔۔
باش بھی تیز رفتار سے شروع ہوگئی تھی۔۔
جیسے آسمان بھی اس کے ساتھ رو رہا ہو۔۔
اس کے آنسوں بھی بارش کے ساتھ صلح کرنے لگے۔۔
“حور بیٹا اٹھ جاؤ سکول بھی جانا ہے میری جان” شائستہ بیگم نے کمرے میں آکر کہا۔۔
“جی مما” وہ یک دم اٹھ بیٹھی۔۔
“دیکھو بیٹا آٹھ بجنے والے ہیں اور آج تمہارا پیپر ہے” انہوں نے کہا
“جی مما یاد ہے” وہ کہتی بیڈ سے کھڑی ہوئی۔۔
“ساری رات پڑھتی رہی ہو تبھی آنکھ نہیں کھلی تمہاری” انہوں نے کمبل سمیٹتے ہوئے کہا۔۔
وہ واش روم میں گھس گئی۔۔اور شائستہ بیگم کمرے سے باہر نکل گئی۔۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ تیار ہوکر سکول جانے کے لیے ریڈی تھی۔۔
وہ جلدی جلدی ناشتہ کر رہی تھی۔۔
“آہستہ کرو حور۔۔ابھی ٹائم ہے” انہوں نے ٹوکا۔۔
“مما مجھے وہاں جا کر بلاک ڈھونڈنا پڑتا ہے روز” اس نے کہا۔۔
“بس آج آخری ہے پھر تو میری بیٹی کالج میں آجائے گی” انہوں نے خوش ہوکر کہا۔۔
“اچھا کل شفیع آنے والا ہے۔۔۔ہمیں چلنا ہے ابا کے گھر” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“مما آپ چلی جانا۔۔” اس نے ناگواری سے کہا۔۔
“ارے شفیع چھٹی آرہا ہے” انہوں نے کہا۔۔
“مما وہ نائٹ پاس ہی آتے ہیں۔۔۔اور ویسے بھی انہیں مجھ میں اور مجھے ان میں کوئی دلچسپی نہیں” حورین کہ کر کھڑی ہوئی۔۔
“حور….” انہوں نے پکارا مگر وہ ان سنی کرتی نکل گئی تھی۔۔
میرے پیپرز یہیں تو تھے۔۔۔ ؟” فاروق صاحب نے دراز کو ٹٹولتے ہوئے کہا۔۔
“میں کہ رہی ہوں یہاں نہیں رکھے تھے آپ نے” ساجدہ بیگم نے اکتاہٹ سے کہا۔۔
“میں نے یہیں رکھے تھے۔۔تم نے صفائی کرتے وقت اٹھائے ہوں گے” فاروق صاحب جھنجھلائے۔۔
“میں کیوں اٹھاؤں گی بھلا۔۔آپ کا دماغ اب کام نہیں کرتا” ساجدہ بیگم نے کہا
“میرا دماغ تم سے زیادہ کام کرتا ہے” وہ اونچی آواز میں کہنے لگے۔۔
“میجر صاحب اب آپ ریٹار ہوچکے اور آپ کا دماغ اب کام نہیں کرتا۔۔” انہوں نے پھر کہا۔۔
“میرا دماغ کام کرتا ہے۔۔۔تم لاپرواہ ہو” وہ غصہ سے بولے۔۔
“میں لاپرواہ ہوں؟….آج تک آپ کا گھر سمبھالا بچوں کو پالا اب پوتوں کی پرورش کی ابھی بھی۔لاپرواہ ہوں” وہ بھی غصہ کی انتہا پر تھی۔۔
“ہاں۔۔تو کون سا احسان کردیا” وہ بھی تن کر بولے۔۔
وہ دونوں زورو شور سے لڑنے میں مصروف تھے۔۔
وہ بستر پر اوندھا پڑا سورہا تھا۔۔
اور نیند میں خلل تب پڑا جب دادا اور دادی کے اونچا اونچا لڑنے کی آواز اس کے کانوں کو چیرتی ہوئی گئی۔۔
اس نے تکیے کو کانوں پر رکھ لیا۔۔
تاکہ نیند خراب نا ہو۔۔اور ان کی آواز نا آئے۔۔مگر ایسا ہوا نہیں ان کے مسلسل لڑنے کی آوازوں نے اس کی نیند کو رفوچکر کردیا تھا۔۔
کتنی ہی دیر وہ کبھی تکیے کو منہ پر رکھتا کبھی کانوں پر کبھی اس طرف کروٹ لیتا تو کبھی اس طرف۔۔
مگر نا ہی تو نیند آئی نا ان کے لڑنے کا شور کم ہوا۔۔
وہ جھنجھلا اٹھ بیٹھا۔۔
چہرے پر ناگواری کے تعصرات لیے۔۔
“یہ ددا اور ددو صبح صبح شروع ہوجاتے ہیں” وہ بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
اور پیر پٹختا کمرے سے نکلا۔۔
وہ دونوں ویا ایک دوسرے کو الفاظوں کی مار مار رہے تھے۔۔
ددا۔۔۔۔” وصی نے جھنجھلا کر کہا۔۔
اسے دیکھ کر بھی وہ دونوں لڑنے میں مصروف رہے ۔۔
“ہاں۔۔۔ہاں میرے گھر میں کوئی کمی نہیں تھی۔۔ٹرک بھر بھر کر جہیز لائی تھی” ددو نے غصہ سے کہا۔۔
“ہاں تو میں نے مانگے تھے کیا۔۔۔” ان دونوں کا ٹوپک کہاں سے کہا پہنچ گیا تھا۔۔
وصی کھڑا ان کی لڑائی دیکھ رہا تھا۔۔
“ددا۔۔آپ ابھی تین لاق بولیں۔۔۔اور چلتا کریں ددو کو” وصی نے سنجیدگی سے مشورہ دیا۔۔
دونو نے رک کر اسے دیکھا۔۔
“میں کہ رہا ہوں طلاق بول دو تین بار۔۔۔فارغ کرو ” وصی نے پھر مشورہ دیا۔۔
“کیا؟ کمبخت تو مجھے طلاق دلوا رہا ہے؟ جیسا دادا ویسا پوتا” اماں نے ناگواری سے کہا۔۔
“جیسا دادا مطلب کیا ہے تمہارا۔۔بولو۔۔کیسا ہوں میں” وہ پھر شروع ہوگئے۔۔
“ددا میری بات مانو۔ تین طلاق منہ پر مارو۔۔۔بول دو۔۔۔بول دو طلاق۔۔طلاق۔۔۔طلاق۔۔ ” وصی بولتا جارہا تھا۔۔
“تو۔۔۔چپ کر۔۔۔” ددا دھاڑے۔۔
“کمبخت تو الٹے مشورے دے رہا ہے تجھے تو میں دیکھتی ہوں۔۔۔” ددو اس کے پیچھے لپکی۔۔اور وہ قہقہہ لگا کر کمرے کی جانب بھاگا۔۔
بارش کا موسم ہورہا۔۔کالی گھٹائیں چھائی تھی۔۔
چھٹی ہوئی تووہ بیگ کاندھے پر ڈالے کالج سے نکلا تھا۔۔کہ بارش شروع ہوگئی۔۔وہ سامنے درخت کی طرف بھاگا۔۔
اور اس کے نیچے رک کر کپڑے جھاڑنے لگا۔۔
جو ہلکے گیلے ہوگئے تھے۔۔بارش گرنے سے۔۔
تبھی اس کے کانوں میں رونے کی آواز آئی۔۔
جیسے کوئی لڑکی رو رہی ہو..
وہ چونکا۔۔یہاں اتنی بارش میں رونے کی آواز وہ بھی کسی لڑکی کی۔۔۔
اس نے نظر دوڑائی یہاں وہاں دیکھا۔۔
مگر کوئی دکھائی نہیں دیا۔۔
پھر اسے محسوس ہوا جیسے درخت کے پچھلی طرف سے آواز آرہی ہے۔۔
وہ گھوم کر درخت کی دوسری طرف گیا۔۔
اور دیکھ کر اسے جھٹکا لگا۔۔
ایک لڑکی درخت کے پاس گھاس پر بیٹھی۔۔بارش سے بے خبر رو رہی تھی۔۔
اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔۔
اور وہ بس روئے جا رہی تھی۔۔آنسوں بہ رہے تھے۔۔
وہ جھجھکتے ہوئے اس کے پاس گیا اور نیچے پنجوں کے بل بیٹھا۔۔
وہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔گندمی رنگت تیکھے نین نقوش۔۔اور آنسوؤں سے دھلا چہرہ۔۔
وہ اس کی ہم عمر ہی لگ رہی تھی۔۔
“کیا ہوا۔۔آپ رو کیوں رہی ہیں؟” وصی نے ہمت کر کے پوچھا۔۔
“کیوں کہ وہ مر گیا” اس نے روتے ہوئے کہا
وصی کو یک دم جھٹکا لگا۔۔
وہ لمحہ بھر خاموش رہا۔۔
“کون؟” وصی نے پھر پوچھا۔۔
“اسے۔۔۔اسے۔۔۔ نہیں مرنا چاہیے تھا۔۔اسے کیوں مارا۔۔کیوں؟”
وہ سسکیوں سے رونے لگی۔۔
“ویسے مرنے والا آپ کا قریبی تھا۔۔آئی مین کون تھا وہ؟” وصی نے پھر پوچھا
” وہ مر گیا” وہ کہتی پھر سے رونے لگی۔۔
“کون۔۔۔؟”
“عمر جہانگیر۔۔۔” اس نے ہچکی لی۔۔
“دیکھو یہ اللہ کی مرضی ہوتی ہے۔۔موت زندگی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔آپ صبر سے کام لیں” وصی نے حوصلہ دیا۔۔
“نہیں یہ رائیٹر نے مارا ہے۔۔۔اسے نہیں مرنا تھا۔۔اسے کیوں مارا” وہ پھر رونے لگی۔۔
“رائیٹر۔۔کیا مطلب” اس نے حیرت سے پوچھا۔۔
“ناول کی رائیٹر۔۔اس نے ہیرو کو مار دیا اس نے عمر کو مار دیا” وہ دھ سے کہنے لگی۔۔
“تو آپ ناول میں ہیرو مرنے کے دکھ میں رو رہی ہیں؟” وہ بد مزہ ہوا۔۔
“ہاں۔۔” اس نے اثبات میں گردن ہلائی۔۔
اور وصی کے حلق سے زوردار قہقہہ نکلا۔۔
“ددو ایک لڑکی ملی مجھے۔۔۔” وہ ریموٹ سے ٹی وی کو بند کرتے ہوئے ددو سے مخاطب ہوا۔۔
“کیا۔؟ دیکھ وصی ابھی تیری عمر لڑکیوں کے چکر میں پڑنے کی نہیں ہے” ددو نے ٹوکا
“ارے ددو پوری بات تو سن لیں۔۔۔وہ لڑکی کوئی پاگل تھی۔۔
پتا ہے درخت کے نیچے بیٹھی رو رہی تھی۔۔اور میں نے پوچھا کیوں رو رہی ہو تو کہتی عمر مر گیا۔۔۔اور بعد میں پتا چلا۔۔وہ عمر ناول کا ہیرو تھا۔۔۔جس کے مرنے پر وہ سائیکو ٹسوے بہا رہی تھی۔۔” وصی نے ہنستے ہوئے بات پوری کی۔۔
“ہیں۔۔ہیرو کے مرنے پر رو رہی تھی؟” ددو بھی حیران ہوئی۔۔
“ہاں۔۔ددو وہ لڑکی مجھے تو پاگل لگ رہی تھی۔۔میں تو چپ چاپ اٹھ کر آگیا۔۔” وصی نے کہا۔۔
اور ددو بھی ہنسنے لگی۔۔
وہ گھر میں داخل ہوا کاندھے پر بیگ لٹکائے۔۔آہستہ قدموں سے چلتا ہوا یہاں وہاں دیکھنے لگا۔۔
مردانہ وجاہت، چوڑا سینا، چہرے پر سنجیدگی، ہلکی سی Beard, شرٹ کی بازو کو رول کیا ہوا۔۔ وہ لگ بھگ22 سال کا لڑکا تھا
وہ جوگرز کو آگے رکھتا چلتا جا رہا ٹھا۔۔
وہ لاؤنج کے دروازے پر پہنچا۔۔
جہاں سے وصی اور ددو کی زور زور سے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھی۔۔
اس نے جھٹ دروازہ کھولا۔۔
اور اندر بڑھا۔۔
وہ دونوں اسے دیکھ چونکے۔۔
“شفی۔۔۔” ددو کھڑی ہوئی۔۔
“سرپرائز ددو۔۔۔” وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھا۔۔
“میرا۔۔۔بچہ۔۔کیسا ہے” انہوں نے اسے پیار کیا۔۔
“ہے برو۔۔۔” وصی آگے بڑھا اور گلے ملا۔۔
“تجھے تو کل آنا تھا آج ہی کیسے آگیا۔۔؟” ددو نے پوچھا۔۔
“آج نہیں آتا تو آپ کو سرپرائز کیسے دیتا؟” وہ بیگ سائیڈ پر رکھتے ہوئے صوفے پر بیٹھا۔۔
“ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔۔” ددو بھی اس کےپاس بیٹھی تھی
“کتنے دن کی چھٹی ملاحظہ فرمائی ہے آپ کے فوج والوں نے” وصی نے پوچھا۔۔
“تو کتنے دن میں بھگانا چاہتا ہے مجھے؟” اس نے الٹ سوال کیا۔۔
“نہیں میں کیوں بھگاؤں گا؟ وہ مجھے حور۔۔کو بتانا تھا۔۔” وصی نے ہنسی دبائی۔۔
“ددو۔۔یہ۔۔۔اسے سمجھا لو یہ پٹ جائے گا مجھ سے” وہ یک دم تپ گیا۔۔
“وصی۔۔۔” ددو نے گھورا۔۔
“کیا ددو۔ اس کی منگیتر ہے وہ۔۔ایک دن شادی بھی ہوجائے گی۔۔اس میں چڑنے کی کیا بات ہے؟” وصی نے کہا۔۔
“میں چڑ نہیں رہا” وہ روہانسی ہوا
“تم چڑ رہے ہو” وصی نے کہا
“چل ٹھیک ہے، جب تجھے پتا ہے میں چڑ جاتا ہوں تو کیوں تو چھیڑتا ہے مجھے؟” شفی نے کہا
“سچ بتاؤں؟” وصی اٹھ کر کھڑا ہوا۔۔
وہ اسے گھور رہا تھا۔۔
“مزہ آتا ہے” وہ کہتے ساتھ ہی باہر بھاگا اور شفی بھی اس کے پیچھے لپکا۔۔
اور ددو کے چہرے پر مسکان ابھری۔۔
وہ پانی کی باتل ہاتھ میں لیے کھڑی تا نہیں کن سوچوں میں گم تھی۔۔
کہ دروازہ بجا ۔۔اور اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا۔۔
وہ بوتل کو ٹیبل پر رکھ کر دروازے کی طرف بڑھی۔۔
دروازہ کھولا تو سامنے وصی کھڑا تھا۔۔
“کیسی ہو حور؟” وہ کہتا اندر داخل ہوا۔۔
“جی۔۔ٹھیک ہوں” وہ سادگی سے کہتی آگے بڑھی۔۔
“پھپھو کہاں ہے؟” اس نے پھر پوچھا۔۔
“اندر ہیں روم میں۔۔میں بلاتی ہوں” وہ کہتی روم کی طرف بڑھی۔۔
اور وصی صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے براجمان ہوا۔۔
تھوڑی ہی دیر میں شائستہ بیگم آگئی۔۔
“اسلام علیکم پھپھو ” وہ کھڑا ہوا۔۔
“وعلیکم السلام۔۔کیسا ہے وصی؟ اور اماں ابا کیسے ہیں؟” وہ حال حوال لیتی بیٹھی۔۔
“سب ٹھیک ہیں ددا نے بلایا ہے آپ کو۔۔مجھے لینے بھیجا ہے۔۔” وصی نے کہا۔۔
“اچھا کیوں خیریت؟” انہوں نے پوچھا
“ویسے ہی۔۔بہت دن سے آپ نے چکر نہیں لگایا۔۔اور شفی بھی آگیا۔۔” وصی نے مسکرا کر کہا۔۔
“اچھا۔۔شفی آگیا؟ مگر اسے تو کل آنا تھا نا؟”
“جی۔۔کل ہی کا بتایا تھا ہمیں تو پر آج ہی ٹپک پڑے۔۔” وصی نے کہا۔۔
اور شائستہ بیگم ہنسنے لگی۔۔
“اچھا اب جلدی چلیں۔۔رات ہونے والی ہے۔۔ہمیں پلاؤ کھانی ہے آپ کے ہاتھ کی” وصی نے ہنس کر کہا
“ہاں ہاں کیوں نہیں اور آج تو شفی بھی آگیا۔۔ضرور بناؤں گی” شائستہ بیگم خوش ہوئی۔۔
“ہاں بھئی داماد کے لیے بنے گا ہم کس کھیت کی مولی ہیں” وصی نے شرارت سے کہا۔۔
“تمہارے لیے بھی بناتی ہوں اب ایسی بھی بات نہیں۔۔ڈرامے باز” انہوں نے اس کے گال کھینچے۔۔
“آہ۔۔پھپھو۔۔اب اپنی لاڈلی کو بھی بلالیں تیار ہوجائے۔۔” وصی نے گال سہلاتے ہوئے کہا۔۔
“ہاں۔۔بس دس منٹ ابھی تیار ہوکر آتے ہیں ہم” انہوں نے کہا اور کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔
“اب یہ منٹ جانے کب ختم ہوں گے۔۔یا اللہ جلدی کردینا ختم” اس نے خود کلامی کی۔۔
“حور۔۔حور جلدی تیار ہونا ہمیں ابا کے گھر چلنا ہے وصی لینے آیا ہے” شائستہ بیگم نے بتا۔۔
” کیوں؟” اس نے پوچھا۔۔
“شفی آیا ہے” انہوں نے چہک کر بتایا۔۔
“مجھے نہیں جانا آپ چلی جائیں” اس نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“کیوں تم کیوں نہیں جارہی؟”
“مما پلیز” اس نے منت کی۔۔
“نہیں اکیلی کیسے رہو گی۔۔رات بھر۔۔۔اٹھو جلدی” انہوں نے اسے اٹھایا۔۔
اور وارڈ روب سے اس کے ڈریس نکالا۔۔
“یہ پہن لو۔۔” انہوں نے اس کی طرف بڑھایا۔۔
“مما۔۔” اس نے منہ بنایا
“جلدی جاؤ۔۔شاباش” انہوں نے زبردستی تھمایا۔۔
اور وہ اسے لے کر چینج کرنے چلی گئی۔۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگ تیار ہوکر باہر نکلی۔۔
وصی اپنے موبائل میں گم۔تھا۔۔
“چلیں” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔
سامنے ہی شائستہ بیگم ہاتھ میں پرس لیے چادر پہنے کھڑی تھی۔۔
اور ان کے پیچھے وہ یلو اور وائٹ کلر کے کے کومبینیشن میں سادہ سی لیفٹی چٹیا بنائے۔۔گلے میں نیٹ کا دوپٹہ ڈالے۔۔واقع اپنے نام کی طرح لگ رہی تھی۔۔
وصی اسے دیکھ مسکرایا۔۔
“جی چلیں۔۔” وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“میں تو کب سے انتظار کر رہا تھا۔۔” وہ باہر نکلتے ہوئے کہنے لگا۔۔
“ددو کیا بنا رہی ہیں ڈنر میں؟” شفی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
“شائستہ آرہی ہے۔۔پھر بنائیں گے ۔۔تمہیں جو کھانا ہو بتا دینا۔۔آج وہی بنائیں گے” ددو نے کہا۔۔
“پھپھو آرہی ہیں؟” اس نے پوچھا
“ہاں وصی لینے گیا ہے۔۔” ددو نے بتایا
“ددو ایک بات کہوں؟” وہ صوفے پر لیٹتا ان کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔
“کہو”
“کیا آپ نہیں لگتا یہ حور کے ساتھ زیادتی ہے؟” شفی نے سنجیدگی سے کہا
“کیسی زیادتی؟” ددو نے چونک کر پوچھا
“ددو۔۔حور سولہ سال کی بچی ہے اور میں بائیس سالہ۔۔۔ہمارا جوڑ نہیں ہے۔۔لیکن آپ لوگوں نے یہ زبردستی کا رشتہ ہم دونوں پر تھوپ دیا” شفی نے سنجیدگی کا اظہار کیا
“لڑکا تو بڑا ہی ہوتا ہے شفی۔۔اور وہ بچی نہیں ہے خیر سے اب کالج میں آگئی ہے۔۔” ددو نے کہا۔۔
“پھر بھی ددو۔۔”
“شفی۔۔۔ شائستہ اور حور کا ہمارے سوا ہے ہی کون۔۔اور گھر کی بچی اگر گھر میں ہی رہ جاتی ہے تو کتنی اچھی بات ہے۔۔” ددو نے سمجھایا
“تو وصی سے کیوں نہیں کردیتے۔۔وہ اس سے زیادہ بڑا بھی نہیں”
“تمہارے ماں باپ نے یہ فیصلہ کیا تھا بیٹا۔۔اور وصی۔۔وہ تو من موجی ہے کہیں کسی اور لڑکی کو پسند کر آئے تو ہم کیا کرلیں گے اور تم کیا کرلوگے” ددو نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔
“مگر ددو۔۔۔۔” وہ کچھ کہتا اس سے پہلے ہی وصی اندر داخل ہوا، شائستہ پھپھو اور حور بھی پیچھے ہی تھی۔۔
وہ یک دم اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“اسلام علیکم پھپھو” شفی نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔۔
“وعلیکم السلام۔۔شفی کیسے ہو بیٹا؟” انہوں نے اس کو پیار کیا۔۔
“میں ٹھیک ہوں آپ بتائیں؟” شفی نے کہا۔۔
“تم نے ہمیں اچھا سرپرائز دیا۔۔کل کا کہا تھا اور آج ہی آگئے” انہوں نے چادر اتار کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
حور بھی کونے میں بیٹھی رہی۔۔اس نے ایک غلط نظر بھی اٹھا کر سامنے بیٹھے شخص کو نہیں دیکھا۔۔
وہ سب لوگ باتوں میں لگے ہوئے تھے۔۔مگر وہ اسی طرح خاموش بیٹھی رہی۔۔
“کیسے کھلے یہ پزل؟” وہ سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔
“نور۔۔۔” کمرا کھول کر اس کا بھائی اندر آیا۔۔
“کیا ہے؟” اس نے بے رخی سے پوچھا۔۔
“مما بلا رہی ہیں۔۔۔” نومی نے کہا
“کیوں؟”
“پتا نہیں۔۔۔”
“تجھے سب پتا ہے۔۔”
“اب اس ناول کا پیچھا چھوڑ دے۔۔۔”
“ایسے کیسے چھوڑ دوں۔۔ایک تو پہلے ہی پریشان ہوں میں” اس نے اکتا کر کہا۔۔
“کیوں پریشان ہے؟”
“پزل بوکس نہیں کھل رہا ۔۔۔کوڈ کیا ہوگا۔۔۔؟” وہ پھر سوچنے لگی۔۔
“لا مجھے دکھا میں ہیلپ کرتا ہوں کون سا پزل ہے؟” نومی نے سنجیدگی سے کہا۔۔
” میرے پاس ہوتا تو خود نہیں کھول لیتی” اس نے منہ بنایا
“تو کہاں ہے؟” اس نے پوچھا۔۔
“ناول میں ہے یار۔۔حیا کو کھولنا ہے وہ بوکس۔۔” وہ پھر سے سوچنے لگی۔۔
“کیا؟ تونے پھر ناول اسٹارٹ کرلیا۔۔؟”
“ہاں۔۔۔مگر یہ بوکس کیسے کھلے گا؟”
“مما۔۔۔مما۔۔نور پھر نہیں آرہی۔۔کہ رہی ہے میں ناول پڑھ رہی ہوں” نومی آواز لگاتا باہر نکلا۔۔
“اوئے۔۔نومی کے بچے۔۔۔” وہ کہتی پیچھے بھاگی۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...