وہ چپکے سے کمرے میں واپس آگیا تھا
ابیہا کے پاس بیڈ پر لیٹتے اسکا ذہن عجیب سے مخمصے کا شکار تھا ۔
“”دل بچپن کے سنگ کے پیچھے پاگل ہے
کاغذ ڈور پتنگ کے پیچھے پاگل ہے””
یہ آواز جانی پہچانی سی تھی دل کو قرار دہتی روح کو سکون پہنچاتی سی جو بار بار اسکے کانوں مین گونج رہی تھی
“” یار ! اتنی سانولی اسے کیسے بھاؤں اسے
ہر کوئی گورے رنگ کے پیچھے پاگل ہے””
سعدیہ کا تو اسے پتا تھا کہ شعرو شاعری سے شغف رکھتی تھی لیکن یہ آواز انداز اور پھر یہ غزل نسائی نامی یہ عورت اسے ہر دن ایک نئے طریقے سے چونکاتی تھی اور چونکا تو وہ تب بھی تھا جب کچن کے دروازے کے ساتھ کھڑے اسکی آہٹ سعدیہ کی بجائے نسائی نے محسوس کرنے کے بعد بہت نا محسوس طریقے سے اپنے دوپٹے کا پلو ڈھلکایا تھا لیکن دروازے میں کھڑے شیر حیدر نے اسکی یہ حرکت جی جان سے نوٹ کی تھی
وہ اپنی سوچوں میں مگن تھا جبھی سعدیہ نے کمرے میں جھانکا اسے لیٹا پاکر ایک خوشگوار حیرت کے زیر اثر اندر چلی آئی
ارے آپ کب آئے اور فریش ہوکر بیٹھے ہیں مجھے پتا ہی نہیں چلا
بھوک لگی ہے تو کھانا لگا دوں؟
سعدیہ نے مسکراتے ہوئے ایک ہی سانس میں بات مکمل کرتے اسکے کپڑے اور باقی چیزیں سمیٹنے لگی تھی
میں کب آیا؟؟
(یہ تمہاری کیسی محبت ہے سعدیہ بی بی محبت کرنے والے تو قدموں کی چاپ لبادے کی خوشبو سے کسی کے آس پاس ہونے کا احساس پالیتے ہیں جیسے )
جیسے کے بعد اگلی بات پر اسکا دل بے اختیار رک کر دھڑکا تھا بلکہ دھڑکنوں کا حشر برپا کردیا تھا ایسے کہ وہ اپنی ہی دھڑکنوں میں کھو سا گیا تھا
اسکے متوجہ نا ہونے پر سعدیہ کو پاس آکر گھٹنا ہلانا پڑا
حیدر کہاں کھوئے ہیں
اپنی حشر برپا کرتی منہ زور دھڑکنوں کو لگام ڈال کر وہ فوراً حال میں پلٹا تھا
ہاں ! آن
کہیں نہیں یار تم بتاو کیا کہہ رہیں تھیں
میں نے پوچھا آپ جناب کب تشریف لائے؟
آج سعدیہ کا موڈ کافی دنوں بعد خوشگوار لگ رہا تھا جبھی شیر حیدر بھی مسکرا کر گویا ہوا
جب آپ جناب اپنی عمر رسیدہ دوست کے ساتھ شعر وشاعری کی محفل سجائے بیٹھی تھیں ویسے کافی باذق لگتی ہیں اماں نسائی عمر رسیدگی کے بعد نسائی کے ساتھ اماں کا لفظ اس نے جان بوجھ کر استعمال کیا تھا
چھ سات ماہ میں شیر حیدر نے پہلی بار اسکا ذکر کیا تھا سعدیہ کا چونکنا بنتا تھا لیکن وہ نجانے کسی موڈ میں تھی کھلکھلاتے ہوئے بولی
توبہ کریں وہ کوئی اماں شماں نہیں ہے آپ سے بلکہ مجھ سے بھی بہت چھوٹی ہے
( اتنا تو اسے اندازہ تھا بس اپنے شک کی تصدیق کرنا چاہ رہا تھا) ٹھرکی کمینہ.
اسے اپنے مطلب کی بات پتا چل گئی تھی جبی سر جھٹکتے ہوئے بولا اچھا ہوگی چھوڑو اسے
تم یہ بتاو کھانے میں کیا بنایا ہے
کل بوا آئیں تھیں ساگ اور دوسری سبزیاں دے کر گئیں تو آج نسائی نے سپشل کھانا بنایا ہے جو وہ اپنے گاؤں میں بناتی تھی ۔۔۔
ہممم
“کیا نام ہے اسکے گاؤں کا” اٹھ کر کھڑے ہوتے اور بازو فولڈ کرتے اس نے یونہی پوچھا تھا
“” امرتسر “”
ہاتھ ڈھلکا کر وہ فوراً پلٹا تھا ایک تیز رفتار ٹرین تھی جو شیر حیدر پر خچے اڑاتی گزری تھی
اسکے چونکنے پر سعدیہ کو اپنی بے وقوفی کا احساس ہوا تو اپنی جلد باز طبعیت پر خودکو کوسنے لگی لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا کسی نا کسی طرح بات تو سنبھالنی ہی تھی
امرتسر سے کافی آگے موجودہ ہندوستانی پنجاب کی سرحد پر کوئی گاؤں تھا نام نا اس نے بتایا نا میں نے پوچھا
اچھا
چلو تمہاری نسائی کے ہاتھ کا بنا کھانا کھاتے ہیں
شیر حیدر اسکا پلو بچانا سمجھ گیا تھا لیکن اس نے بات کو ختم کرنا مناسب سمجھا تھا
———————
شیر حیدر کی آواز میں بچوں جیسا دکھ ہلکورے لے رہا تھا
( شہرِ محبت کے بھی اپنے اصول ہوتے ہیں جہاں ذاتی زندگی کے شاہ اپنی تمام تر دولت و وجہات سمیت کسی در کی گداگری کرتے نظر آتے تو کوئی کم حیثیت کم صورت شخص کسی محبت کی سلطنت کا بے تاج بادشاہ ہوتا ہے)
وہ جو شیر حیدر چوہدری تھا پورے امرتسر کا سوہنا گھبرو جوان جسکی بہادری کے قصے سننے والے والیاں بنا دیکھے صدقے جاتے تھے اسی شیر حیدر کو بدگمان ہوتی نفرتی کرتی دور جاتی محبت نے رُلا دیا تھا
رب سوہنا جانتا ہے تیرے سوا کسی کو ہاتھ لگایا ہو
کیڑے پڑ جائیں دوجا ساہ نا آئے
مجھے قبر تے کلمہ نصیب نا ہو
مہراں کو لگا اسکا دل بند ہوگیا ہے ساہ مک گئے اسکے پورے جسم میں کیڑے پڑ گئے ہوں لیکن وہ چلتی رہی اور کچھ دیر بعد تاریکی کا حصہ بن گئی تھی۔
شیر حیدر مہراں کے پیچھے جانا چاہتا تھا لیکن خون سے رنگین ہوئی زمین دیکھتے وہ سکتے کے سے عالم میں بے جان ہوتی ٹانگوں کے ساتھ بیٹھتا چلا گیا اور ہاتھ مہراں کے خون سے رنگی زمین پر رکھ دیے
بلونت جو کافی دیر سے شیر اور مہراں کے درمیان ہونے والی بات چیت سنتے مہراں کی محبتپر رشک وہ حسد میں ڈوبی بل کھا رہی تھی مہراں کے جاتے ہی فوراً شیر حیدر کے پاس آئی جو زمین پر بیٹھا زمین پر خشک ہوچکے خون کے دھبوں کو ٹٹول رہا تھا جسے اس سے اپنی مہراں کا خون واپس لینا چاہتا ہو
ہاہ ہ ہ آہ
بس یہی تھی تمہاری مہراں کی محبت؟؟
چہہ چہہ
اتنی بے اعتباری ایسی نفرت
سچ پوچھو تو چوہدری تمہارے ساتھ وہ کالی چوڑی سجتی ہی نہیں ہے
( ہائے یہ کچی عمر کی یکطرفہ محبت
کیسے عقل اور شعور پر پردے ڈال دیتی ہے انسان نفع نقصان گناہ ثواب کی سوچوں سے آگے بہت آگے جا کر خود کو پستیوں میں گرانے سے بھی گریز نہیں کرتا ایسا ہی کچھ بلونت نے بھی کیا لیکن اسے زرا برابر بھی احساس نہیں تھا)
شیر حیدر جو اب تک اسے بلکل فراموش کیے ہوئے تھا اپنے برہنہ کندھے پر اسکے ہاتھ دھرنے پر سلگتے جسم میں چنگاریاں بھرنے لگی تھیں
وہ ایک جھٹکے سے اٹھا تھا
میں بہت پسند ہوں تجھے؟
مجھے اپنانا چاہتی ہے؟
اس نے وحشت بھری آنکھوں سے ٹھنڈے زہریلے لہجے میں کہا تھا
ایک پل کو بلونت کی ریڑھ کی ہڈی سنسنا گئی لیکن آر یا پار کا سوچتے اس نے اثبات میں سر ہلا دیا
تو مہراں سے زیادہ چاہتی ہے مجھے؟
میرے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے؟
شیر حیدر کےلفظوں میں نفرت تھی حقارت تھی یا ترس تھا وہ سمجھ نہیں پائی لیکن اس نے اثبات میں سر ہلا دیا
(چل پھر میرے لیے اس کنوے میں کود کر مر جا)
اس بار اسکے لفظوں نے بلونت کو سچ میں دھلا دیا تھا
چل سوچ کیا رہی ہے کود نا کودتی کیوں نہیں
اووووووو
اچھاااااااااا
شیر حیدر کا لہجہ پر اسراریت میں بدلا تھا
مرنے سے پہلے تو سونا چاہتی ہے میرے ساتھ جیسے رات کو میری لاعلمی میں سوئی تھی ہے نا؟؟
بلونت کی ہتھیلیاں بھیگنے لگی تھیں اسے پہلی بار احساس ہوا کہ ہرمرد گندہ نہیں ہوتا
کبھی کبھی غلط عورت مرد کو گندہ بننے پر مجبور کرتی ہے
سوچ کیا رہی ہے ادھر آ
تب تو میں سویا تھا کوئی ہوش نہیں تھا
شیر حیدر کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ بلونت دو قدم پیچھے ہٹی تھی ایسا لگتا تھا شیر حیدر کی آنکھوں سے نکلتی نفرت کی لپٹیں اسے جلا کر راکھ کردیں گی
———————-
آآ. نا اب پاس تو آ دور کیوں کھڑی ہے
شیر حیدر روح کو جھلساتے لہجے میں اسکی طرف بڑھتا جارہا تھا
بلونت کو اپنا آپ جلتا محسوس ہوا وہ ڈر کر ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے لگی
پیچھے پیچھے کیوں جارہی ہے جو تو چاہتی ہے میں وہی تو کرنا چاہ رہا ہوں آ پاس آ؟
اس نے تیز قدموں سے آگے بڑھتے بلونت کی کلائی دبوچ لی
آہ گرو جی
نا ایسے نہیں
گرفت کی سختی نے اسے چیختے ہوئے رونے پر مجبور کیا تھا
لہہ دس
ایسے کیسے نہیں
جب عورت مرد کو مجبور کرتے ہوئے آخری حد عبور کرنے تک لے آئے بلونت کور صاحبہ تو پھر ایسے ویسے نہیں کہا جاتا وہ ہمیشہ اپنی مرضی کرتا ہے
( بے قصور مرد کو رسوا نہیں کرنا چاہئے کبھی ضد نہیں دلانی چاہئے کہ وہ اپنے نیک اوصاف و اخلاقیات بھلانے پر مجبور ہوجائے
عورت کی طرف سے رسوا و مجبور ہوا نیک سیرت مرد کسی بھی جنگلی درندے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے)
وہ ہاتھ چھڑانے کی سعی کررہی تھی
چٹاخ
کی آواز کے ساتھ اسکے چہرے پر زور دار تھپڑ پڑاایف یوں نی کیا سمجھا تھا نامرد ہوں میں تو جتنا بھی ذلیل کرے گی کچھ نہیں کہوں گا؟؟؟
مہراں تو گئی سو گئی اسے میں منا لوں گا لیکن تیری ساری چاہیں پوری کرکے تجھے عبرت کا نشان نا بنایا تو شیر چوہدری نام نہیں میرا
اسکی سماعتوں. میں سیسہ انڈیلتے وہ آگے ہوا تھا
بلونت خوف اور دھشت سے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی جارہی تھی یہ وہ شیر حیدر تو نہیں تھا جو کچھ دیر پہلے مہراں کے لیے مرا جا رہا تھا یہ تو کوئی ظالم سفاک مرد تھا
نہیں نہیں بلونت کے سارے منہ زور جذبے بھک سے اڑے تھے یاد رہا اتنا تو بس یہ کہ وہ ایک لڑکی ہے
یاد رہا اتنا کہ اس نے غلطی نہیں گناہ کیا ہے
یاد رہا اتنا کہ وہ عزت دار باپ کی بیٹی خود دار بھائی کی بہن ہے
یاد رہا اتنا کہ اسکی اسکے گھر والوں کی آنیوالی زندگی مکمل تاریک ہو جائے گی
( ایک تو لڑکیوں کو اچھی بات ہمیشہ وقت ہاتھ سے نکل جانے کے بعد کیوں یاد آتی ہے
خدا کی قائم کردو حدود کو پھلانگ کر ہی کیوں اپنے باپ کی عزت بھائی کی غیرت کا احساس ہوتا ہے کیوں آخر کیوں؟
کاش اپنے لیے نئے زمانوں کے خوش رنگ سویروں کو ڈھونڈنے نکلنے والی بچیاں یہ جان لیں کے ہر رنگ ہر صبح تب تک چمکیلی ہوتی ہے جب تک ہم رب کی رحمت اور باپ بھائی کی چھاؤں تلے ہوتے ہیں
محرم محبتوں کے سوا سب رنگ کچے ہوتے. نا محرم کی محبت گھٹیا سستے رنگوں جیسی ہوتی جو وقت کی زرا سی دھوپ پڑنے پر بے رنگ ہوجاتے ہیں
پتا ہے کیوں؟؟؟
کیونکہ ناشکرے لوگوں سے من و سلوی چھین لیا جاتا ہے)
———————–
شیر حیدر نے آگے بڑھ کر اسکا منہ دبوچا پھر اسکے چہرے کی طرف جھکنے لگابالون کو اس کی انگلیاں اپنے چہرے میں گڑتی ہوئی محسوس ہوئیں اس نے خوف سے آنکھیں بند کرلیں
بے حیا عورت کوئی بھی غیرت مند مرد پکے پھل کی طرح گود میں آ گرنے والی عورت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تمہارے قرب کی خواہش تو دور کی بات میں تم پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا اور ایک بات بتاؤں اگر گزرے وقتوں میں کبھی بھولے سے تمہارے اس خوبصورت نظر آنے والے بدصورت چہرے کی طرف میری نظر اٹھ بھی جاتی تھی تو اپنی نظروں کو پاک کرنے کے لیے میں باربار مہراں کے کا طواف کرتا تھا اور کرتا رہوں گا
شیر حیدر نے اسے ایک جھٹکے سے کسی غلیظ چیز کی طرح جھٹک کر دھکا دیتا واپس پلٹ گیا تھا
وہ چاہ کر بھی گرومیت سنگھ کی بہن کے ساتھ برے سے برا رویہ اختیار نہیں کرپایا تھا
بلونت نے دیکھا جاتے ہوئے اسکے کسی ہارے ہوئے انسان کی طرح شکستہ تھے
———————–
گرومیت جانے کے لیے اٹھا تو کثرت شراب نوشی کی وجہ سے لڑکھڑا گیا ق اسی لیے میزبان نے اپنے ایک نوکر کو سائیکل اے کر اسے گھر پہنچانے کی ذمہ داری سونپی تھی انکا رخ چوہدریوں کی حویلی کو لگتی انکی زمینوں میں پوری شان سے کھڑے برگد کے درخت کی طرف تھا جہاں شیر حیدر سویا تھا
ڈیرے پر پہنچتے ہی اسے شیر حیدر اپنی حویلی کی طرف جاتا ہوا نظر آیا باوجود شراب نوشی کہ ہوش میں تھا
ڈیرے پر اتر کر اس نے سائیکل والے کو اپنی حویلی کی طرف بھیجا تاکہ وہ رات یہیں رک کر صبح واپس چلا جائے خود وہ ابھی اسی وقت شیر حیدر سے ملنا چاہتا تھا
ابھی وہ برگد سے تھوڑا آگے گیا تھا جب کسی کے سسک کر رونے کی آواز اسے سنائی دی
وہ پل کے ہزارویں حصے میں سمجھ گیا تھا کہ یہ بلونت. کی آواز ہے
جلدی سے پلٹ کر برگد کے نیچے جھکاتو بغیر دوپٹے کے اجڑے بالوں اور ٹوٹی چوڑیوں کے ساتھ روتی بلونت اسے کسی بھیانک حقیقت کا ہتا دے رہیں تھیں
بلونتے
کیا ہوا پتر
وہ تڑپ کر آگے بڑھا
بلونت اسے دیکھ کر سکتے میں آگئی تھی
بول بلونتے کیا کررہی ہے یہاں یہ کیا حال بنایا
میت چیخ پڑا تھا
ویر جی
وہ شیر حیدر
نے میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی میں نے بڑی مشکلوں سے بچایا خود کو
بلونت نے سکتے سے نکلتے شیر حیدر کا نام لیا
گرومیت کے سارے خدشے سچ نکلے تھے وہ بلونت کی حالت درست کرتے اسے گھر لے آیا تھا آتے ہی اس نے سائیکل والے لڑکے کو واپس بھیجا اس پیغام کے ساتھ کہ کل رات چوہدریوں کی دونوں لڑکیاں اسے اپنے ڈیرے پر چاہیں اور ساتھ چوہدریوں کے سر بھی
————–
شیر حیدر جب تک واپس ڈیلی میں آیا مہراں اپنی طرف جا کر کمرے میں بند ہو چکی تھی
اس کی بہت کوشش کے بعد بھی جب مہران دروازہ نہ کھولا تو وہ تھک ہار کر دروازے کی چوکھٹ کے ساتھ بیٹھ گیا ۔
صبح جب آنکھ کھلی تو اس نے خود مہراں کے دروازے کے ساتھ بیٹھے پایا اچانک رات کا سارا منظر اسے یاد آیا پھر اس سے پہلے کہ اسے کوئی اس حصہ میں مہراں کے کمرے کے باہر دیکھ کر لچھ غلط اندازہ لگاتا
وہ اٹھ کر اپنے گھر آگیا تھا جہاں ایک نئی قیامت اسکی تھی
اسکے والد کے پاس چچا تیجا سنگھ بیٹھے رو رہے تھے انکا کہنا تھا کہ وہ اب تک کسی کو بھی اس حویلی کی طرف میلی نظر اٹھا کر دیکھنے سے روکتے آئے ہیں لیکن اب چونکہ انکا جوان بیٹا بھی دشمنوں کے ساتھ مل گیا ہے تو وہ کچھ نہیں کرسکیں گے
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گاؤں میں انلے علاوہ موجود اخری چار خاندان بھی رات کو لاہور کہ طرف ہجرت کرگئے ہیں
اب انہیں بھی یہاں سے جانا چاہئیے کیونکہ سکھ بلوائیوں کا آج رات انکی حویلی پر شب خون مارنے کا منصوبہ ہے
دوستی کا حق نبھاتے ہوئے وہ انکے سارے خاندان لو اندھیرا ہوتے ہی لاہور لی سرحد تک چھوڑ آئیں گے
یہ سب سنتے ہی شیر حیدر کے خون میں ابال اٹھا جسکا اس نے اظہار بھی کیا لیکن باپ کے بعد ماں اور چچی کے سمجھانے پر اس نے خاموشی اختیار کرلی ویسے بھی آس پاس کے قصبوں میں ہونے والی خونریزی کے متعلق وہ جانتا تھا
عقل کا اور وقت کا تکازہ یہی تھا کہ وہ لوگ ہجرت کرجائیں
تیجا سنگھ کے جاتے ہی سب نے مختصر سامان سمیٹنا شروع کردیا تھا
مہراں فلحال منظر سے غائب تھی
——————-
کھانے کے دوران وہ سعدیہ کو بتاتا رہا کہ ایک دو دن میں چھت پر بننے والے پورشن مکمل ہوجائے گا جسکے بعد شفٹنگ ہوگی
گھر کے اوپر کا ہورشن شیر حیدر اپنے کسی دوست کے لیے جدید انداز میں بنوا رہا تھا
ساگ کے پراٹھوں کے ساتھ نمکین لسی تھی شیر حیدر بہت مزے سے دو پراٹھے اور لسی کے دو گلاس پینے کے بعد پاؤں پسار کر وہیں بیٹھ گیا
اسکے ہاتھ میں اچار کی سبز مرچ تھی
اے مائی تمہاری بیگم صاحبہ بتا رہی ہیں تم امرتسر کے آس پاس کہیں رہتیں ؟؟
کیا نام تھا تمہارے گاؤں کا
اس سے پہلے کہ نسائی کوئی جواب دیتی شیر حیدر کھانستا چلا گیا مرچ اسکے گلے میں اٹکی تھی
سعدیہ جو بھاگ کر فریج پانی نکال کر لارہی تھی اس سے پہلے نسائی نے شکر کا بھرا چمچ شر حیدر کے سامنے کیا تھا
ایک پل کو سب تھم گیا نسائی کی نظریں اپنے ہاتھ پر شیر حیدر کی نظریں گھونگھٹ میں چہرہ چھپائے کھڑی نسائی پر سعدیہ کی ان دونوں پر تو وقت اس سارے منظر پر تھم سا گیا تھا
آں ہاں
پپ پانی
کچھ دیر بعد اس نے شکر چمچ اور گھونگھٹ والی کو نظر انداز کرتے سعدیہ سے پانی مانگا تھا
سعدیہ چونکتے ہوئے آگے بڑھی شیر حیدر کو پانی دے کر برتن سمٹنے لگی
کچھ دیر بعد شیر حیدر کی ٹہری ہوئی آواز گونجی
ہاں جی تو یہاں کچھ دیر پہلے شاعری کی محفل سجی تھی ہمیں بھی کچھ سنانے کی اجازت دی جائے
ہاہاہاہاہاہاہا
اجازت کی کیا بات آپ سنا دیں جو دل کر رہا
نسائی تم جاو آرام کرو باقی میں کر لوں گی
سعدیہ نے ہنستے ہوئے شیر حیدر کو اجازت دیتے نسائی کو وہاں سے جانے کا کہا تھا
“”ایسے ٹُوٹا ہے تمناؤں کا پندار کہ بس
دل نے جھیلا ہے محبت میں وہ آزار کہ بس”
شیر حیدر کا لہجہ اثیر کرتا ہوا تو پرسوچ نظریں کسی کے قدموں سے لپٹی تھیں سعدیہ نے دس سالوں میں اسکے لہجے میں ایسی محبت بھری تپش پہلی بار دیکھی تھی
تو دروازے کی طرف جاتے نسائی کے قدم بھاری ہوتے گئے تھے
“ایک جھونکے میں زمانے میرے ہاتھوں سے گئے
اس قدر تیز ہوئی وقت کی رفتار کہ بس”
وہ بھاری قدموں کو سرکاتے ہوئے باہر چلی گئی تھی
“تُو کبھی رکھ کے ہمیں دیکھ تو بازار کے بیچ
اس قدر ٹُوٹ کے آئیں گے خریدار کہ بس”
اس شعر پر شیر حیر نے شوخی بھری آنکھوں سے سعدیہ کی طرف دیکھا جس نے شرما کر سر جھکا لیا تھا ایک پل کی نظر کے بعد اسنے رخ پھر سے دروازے کی طرف موڑ لیا وہ جانتا تھا کہ دروازے کی چوکھٹ کے ساتھ کوئی کھڑا ہے
“کل بھی صدیوں کی مسافت سے پرے تھے دونوں
درمیان آج بھی پڑتی ہے وہ دیوار کہ بس””
چوکھٹ کے اس پار کسی نے پہلو بدلا تھا شیر حیدر کے دل کو نسائی کے بارے الہام سا ہوا تھا لیکن وہ پر یقین نہیں تھا یہ غزل تو اس نے یونہی سنا دی تھی
“یہ تو اک ضد ہے کہ محسن میں شکایت نہ کروں
ورنہ شکوے تو ہیں اتنے میرے یار کہ بس””
واہ ہ ہ ہ
آخری شعر کے بعد سعدیہ کی تالیوں نے اسے چانکایا تھا تو دوسری جانب کسی نے چوکھٹ چھوڑی تھی