صبح خوشی خوشی عون اپنے کام پر گیا اور عمر کو یہ گڈ نیوز سنائی کہ آرزو نے اس کی ساری خطاؤں کے لیے معاف کر دیا ہے
عمر کو خوشی ہوئی ۔
یہ تو بہت اچھی خبر ہے شکر ہے سب کچھ ٹھیک ہو گیا اب بس تو بھابھی کو لے کر میرے گھر ڈنر پہ آ۔
مصباح تو میرے پیچھے پڑی ہے ۔ہے کہ اُس کے عون بھائی کی شادی ہوگی اور اسے پتہ بھی نہیں چلا
خیر پتا تو مجھے بھی نہیں چلا عمر سرد آہ بھر کر بولا
ہائے میرے چھوارے ۔
باقی سب کچھ تو ٹھیک ہے لیکن اس ڈائن کا کچھ کر عون نے اپنے فون کی طرف اشارہ کیا جہاں تامیہ کا فون آ رہا تھا ۔
میرا خیال ہے اس لڑکی سے ایک بار مل کر میں سارا قصہ سیٹ کرلو مجھے اسے سمجھانا ہی پڑے گا
عون نےتنگ آتے ہوئے فون ایک بار پھر سے بند کر دیا ۔
لیکن فون پھر سے بجنے لگا اس نے کچھ سوچا
اور والی کال اٹینڈ کی
میں تم سے ملنا چاہتا ہوں کہاں ملنے آؤگی وہ پوچھنے لگا
تامیہ کو لگا جیسے اس کا مقصد کامیاب ہوگیا اس کی جان میں جان آگئی اس نے جلدی سے عون کو اپنے آنے کا پتہ بتایا
میں کل تم سے ملنے آؤں گا عون نے بس اتنا کہہ کر فون بند کر دیا
وہ گھر آ کر سب سے پہلے اسے دیکھنا چاہتا تھا وہ اسے ڈھونڈتے ہوئے سب سے پہلے کچن میں آیا اس کے اندازے کے عین مطابق وہ کچن میں ہی تھی
آرزو میں تمہارے لئے کچھ لایا ہوا وہ اس کے پیچھے آکر کہنے لگا ۔
اور اپنے ہاتھ سے ایک شاپر اسے دینے لگا ۔
جس میں بہت ساری چوڑیاں اور شاید پائل تھی ۔
آپ کو تو یہ نہیں پسند ۔۔۔آرزو کچھ سمجھنے کی کوشش میں بولی۔
میری جان مت یاد دلاؤ میری زندگی کے سیاہ ترین دن ۔تمہارے ہاتھ میں چوڑیاں بہت سجتی ہیں ۔
جلدی سے انہیں پہنواور مجھے میرے کپڑے نکال کر دو ۔
عون نے حکم دیا ۔
آپ کے کپڑے تو آپ کے الماری میں ہیں عون جی ۔آرزو نے کہا
اور اس کے عون جی کہنے پر عون نے ایک بار پھر سے اپنا دل تھاما ۔
جانتا ہوں میرے کپڑے میری الماری میں ہیں لیکن مجھے میرے کپڑے نکال کر تم دو گی انہیں استری کرکے تم دو گی۔
آج سے میرے سارے کام تم کرو گی ۔
جلدی آؤ میں کمرے میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔
وہ اس کا گال چوم کر بولا ۔جبکہ اس کی اس حرکت پر آرزو بوکھلا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی
ریلیکس میری جان ۔کسی نے نہیں دیکھا وہ اس کی حالت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بولا اور باہر نکل گیا ۔
جبکہ آرزو فورا باہر کچن سے باہر نکل کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی ۔
جہاں ہانیہ باہر کھڑی شرارتی نظروں سے دیکھ رہی تھی تھی
میں نے کچھ نہیں دیکھا وہ شرارت سے کہتی کچن میں چلی گئی جبکہ آرزو شرمندہ سی اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی
صبح عون تامیہ سے ملنے ریسٹورینٹ میں آیا تھا ۔
پہلے تو وہ کافی دیر اس کا انتظار کرتا رہا ۔پچھلی بار کی طرح وہ بالکل بھی ایکسائیٹڈ نہیں تھا ۔
وہ اسے دیکھنے کے لیے کتنا بے چین تھا اور اس دن وہ آئی ہی نہیں کاش وہ اس دن یہاں آجاتی اور عون کو سب اسی دن ہی پتہ چل جاتا ۔
اس کا انتظار کرتے کرتے وہ تھک چکا تھا جب ایک لڑکی اس کے سامنے آکر بیٹھی اس نے ایک منٹ نہ لگایا اسے پہچاننے میں یہ وہی لڑکی تھی جو اس رات اس لڑکے کے ساتھ کار میں کہیں جا رہی تھی ۔
تم۔ ۔ ؟عون نے سوالیہ انداز میں کہا تو کیا تم ہو تامیہ جس سے میں فون پر بات کرتا ہوں
ہاں میں ہی ہوں جس سے تم محبت کرتے ہو ۔اور میں کوئی غیر نہیں تمہاری ماموں کی بیٹی ہوں جانتی ہوں ہم پہلے کبھی نہیں ملے لیکن اس کے باوجود تم نے مجھے کہیں دیکھا ۔اور مجھ سے پیار کرنے لگے
ایک منٹ ایک منٹ پہلے میری بات سنو تم وہ لڑکی نہیں ہوجسے میں چاہتا ہوں اور دوسری بات تم نے سوچا بھی کیسے کہ تم جیسے گھٹیا ترین لڑکی سے میں پیار کروں گا ۔
وہ اس کی بات کاٹ کر بولا ۔
How Dare you to talk me like this
تامیہ تو بھرک اٹھی
او بی بی آواز کم کرو پہلے ایسی حرکتیں کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے تم وہ لڑکی وہ جو دوسروں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کام آتی ہو تم نے سوچا بھی کیسے کہ میں انسپکٹر عون نقوی تم سے پیار کروں گا ۔
تمہاری اوقات ہے ۔میرے سامنے بیٹھنے کی میری نظر میں تم وہ دو ٹکے کی وہ لڑکی ہوجو چند پیسوں کے لیے کسی بھی حدجا سکتی ہو جو چند نوٹوں کے لئے لوگوں کا ٹائم پاس بننے ہوئے فخر محسوس کرتی ہو اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ تم میری آرزو ہو ۔
تم تو میری آرزو کی جوتی کے برابر نہیں ہو۔
میں نہ تم سے پیار کرتا ہوں اور نہ ہی میرا تمہارے ساتھ کوئی تعلق ہے
تم یہی سمجھ لینا کہ عون نقوی بھی ان لوگوں میں سے ایک ہے جو تمہارے ساتھ ٹائم پاس کرتا ہے اور یہ رہی قیمت میرے اس ٹائم کی وہ اسکے سامنے چند نوٹ رکھ کر چلا گیا وہ شخص پل میں ایک لڑکی کو طوائف کے عہدے پر فائز کر گیا تھا
ایسی لڑکیوں کی شاید یہی اوقات ہوتی ہے ۔
آدھی رات کو فون پر باتیں کرنا ہر شخص کو اپنی محبت کا جھوٹا دکھاوا دے کر اس سے پیسے لینا اس کے پیسے سے شاپنگ کرنا اور بدلے میں اپنا قیمتی وقت اسے دینا ۔
اس کے پیسے پہ عیش کرنا اور اس کو محبت کے جال میں پھنسانا ایک طوائف کا نہیں تو اورکس کے کام ہے
ایسی عورت اور ایک طوائف میں کوئی فرق نہیں عون یہ بات اسے بتا کر گیا تھا ان چند نوٹوں سے جو اس کے سامنے میزپر پڑے تھے
میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی عون تمہیں اس کی قیمت چکانی ہوگی ۔ایک دن یہی پیسے میں تمہارے منہ ماروں گی
پچھلے دو گھنٹے سے مسلسل اس کا فون بج رہا تھا
جبکہ وہ اپنے لیپ ٹاپ میں گھساباربار فون کاٹ رہا تھا
آرزو ابھی اپنا کام ختم کر کے کمرے میں آئی تھی ۔
اسے آتے دیکھ کر اس نے فورا اپنا کام بند کردیا ۔
اتنی دیر سے کیا کر رہی تھی کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔
سارے نوکر مرگئے ہیں کیا جو کام تم کر رہی ہو یا ایسا کرتا ہوں تمہارے لیے الگ نوکر رکھ لیتا ہوں
میری بیوی کو نوکر ہی بنا دیا ہے صبح اندھیرے میں کمرے سے نکلتی ہو اور اندھیرے میں رات کو واپس آتی ہو ۔
وہ اس کے قریب آکرکھڑا ہوا
ارےنہیں نہیں کون سا کوئی زبردستی مجھ سے کام کرواتا ہے یہ سب کچھ تو میں خود اپنے شوق کیلئے کرتی ہوں
آرزو نے مسکرا کر کہا
کام کون شوق سے کرتا ہے میری جھلی بیوی وہ کہتے ہوئے چہرے پر جھکا ۔اس سے پہلے کہ وہ کوئی گستاخی کرتا آرزو ذرا سا پیچھے ہٹی ۔
کیا یار سارا موڈ خراب کر دیا ۔اب کیا میں اپنی بیوی کو ایک کس بھی نہیں کرسکتا عون منہ بنا کر پیچھے ہوا
میرا وہ مطلب نہیں تھا آرزو نے فورا گھبرا کر کہا
مطلب کرسکتاہوں عون فورا کے قریب آیا ۔
وہ ابھی تک سوالیہ انداز میں اس کے چہرے پر دیکھ رہا تھا وہ اس کی مرضی کے خلاف اسے نہیں چھونا چاہتا تھا ۔
جواب دو ۔۔۔عون نےس کی کمر میں ہاتھ ڈال کے اسے مزید اپنے قریب کرتے ہوئے کہا ۔
میں کیا کہوں آرزو منمنائی تو عون مسکرایا
جبکہ اس کی قربت آرزو کے ہوش اڑا رہی تھی ۔
مطلب تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔وہ اس کے مزید قریب ہوا اس کی بات سن کے آرزو کاننھا سا دل کانپنے لگا ۔
جبکہ عون کا سارا دھیان اسکے کپکپاتے ہونٹوں پے تھا۔
اگر تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہے تو تمہیں نہیں لگتا کہ ہم وقت ضائع کر رہے ہیں ۔
عون نےمسکراتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر جھک کر اپنی پیار کی پہلی ثبت کرنے لگا ۔
جبکہ وہ آنکھیں بند کیے اس کی شرٹ کو مضبوطی سے اپنے مٹھیوں میں دبوچے اس کے لمس کو محسوس کر رہی تھی ۔
جب عون نے اس کی حالت پر ترس کھا کر اس سے دوری بنائی آرزو ابھی تک اسی حالت میں کھڑی اس کی شرٹ کو پکڑے ہوئے تھی ۔
آج کے لیے اتنا ڈوز کافی ہے ۔باقی تمہاری اجازت کے بعد وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا اس سے دور ہوا ۔
ویسے تمہیں دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے تم مجھے دل سے اجازت دے رہی ہو ۔وہ مسکراتے ہوئے بولا تو آرزو فورا اس سے دور ہو کر بستر میں گھس گئی۔
جبکہ اب دل کے ساتھ پورا جسم لرز رہا تھا ۔
جب عون نے بالکل اس کے قریب آ کر لیٹتے ہوئے اس کاہاتھ پکڑ کر اپنے قریب کھنچا ۔
آج میرا پورا دن بہت برا گزرا ہے تم نے ایک بار بھی نہیں کہا عون جی ۔وہ شرارت سے اس کے بال سہلاتے ہوئے بولا ۔
اس کی بات کے جواب میں آرزو کچھ نہیں بولی ۔
دیکھو اب تم چپ رہ کر مجھے مزید شرارتوں پر مجبور کر رہی ہو ۔
میں کیا بولوں ۔۔۔۔؟اس بار وہ فوراً بولی تھی
میرا نام لو۔ ایسا لگتا ہے تمہاری زبان سے ادا ہونے کے لیے میرا یہ نام لکھا گیا ہے۔وہ اس کے لبوں کو اپنے انگوٹھے سے سہلاتے ہو ئے مزید اس کے قریب ہوا ۔
عون جی ۔۔وہ ایک ہاتھ اس کے سینے پےرکھتی اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی
ہائے میں صدقے ۔ تم تو مار ڈالے گی ۔مسکرا کر لائٹ آف کرکے وہ آنکھیں موند گیا ۔
جب کہ اسے اس طرح سےسوتے دیکھ کر آرزو نے سکون کا سانس لیا اور آنکھیں بند کر لی۔
نہ جانے رات کا کون سا پہر تھا کہ اس کا فون بجنے لگا ۔
عون کی نیند تھی یا نہ جانے کیا وہ سوئے جا رہا تھا لیکن جبکہ بار بار فون بجنے کی وجہ سے آرزوکی نیند خراب ہوچکی تھی ۔
ایک بار اس کا دل چاہا کہ عون کو جگادے لیکن پھر اس کی بے باکیاں یاد کرتے ہوئے اس کا سونا ہی بہتر سمجھا
وہ اس کی اوپر سے ہاتھ لے کے جا تے ہوئے فون اٹھا چکی تھی ۔
فون پر تامیہ نام جگمگا تھا ۔
اس کا دل اچانک ہی دکھ سے بھرنے لگا رات بھی خوش فہمیوں کے زہر اثر وہ سوئی تھی
فون پے یہ نام دیکھ کر اس کی ساری خوش فہمیاں ہوا ہوگئی
پہلے سوچا فون واپس رکھ دے ۔
پھر عون کی نیند خراب ہونے کے ڈر سے اس نے فون اٹھا لیا ۔
اور اپنے آپ کو تامیہ کی باتیں سننے کے لیے بھی تیار کرلیا
ہیلو ۔۔۔آرزو نے بڑی مشکل سے یہ لفظ ادا کیا تھا
ہیلو آرزو ۔۔تامیہ فون پر روتے ہوئے محاطب ہوئی۔
ہیلوآپی آپ رو کیوں رہی ہیں آپ ٹھیک تو ہیں آرزو نے فکر مندی سے پوچھا
آرزو پلیز عون سے کہو کہ مجھ سے بات کرلے ۔پلیز اسے بتاؤ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی میں مر جاؤنگی اس کے بغیر اس سے کہو بس ایک بار مجھ سے بات کرلے ۔
تامیہ فون پر مسلسل روئے جا رہی تھی ۔
آپی پلیز آپ ایسے نہ روئیں۔ آرزو فکر مندی سے بولی ۔
کیسی نہ روّوں آرزو وہ کہتا ہے کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کرسکتا ۔وہ تمہاری جیسی معصوم لڑکی کو دھوکا نہیں دے سکتا ۔
وہ کہتا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ اس شادی کو نبھانے کے لئے اپنی محبت کی قربانی بھی دے سکتا ہے ۔
اور اگر اس نے ایسا کیا اور آرزوتو میں خودکشی کر لوں گی میں اپنی جان دے دوں گی ۔
آرزو میں مر جاؤں گی اس کے بغیر خدا کے لئے اس سے کہو کہ مجھ سے بات کرلے میں ایک دن اس سے بات کیے بغیر نہیں رہ سکتی اور وہ کہتا ہے کہ ساری زندگی کے لیے مجھے چھوڑ رہا ہے میں کیسے رہوں گی اس کے بغیر ۔تامیہ روتے ہوئے بولی ۔
اس کے اس طرح سے پھوٹ پھوٹ کر رونے سے آرزو کی آنکھوں میں بھی آنسو آنے لگے ۔
وہ لڑکی جو کبھی کسی پر ترس نہیں کھاتی تھی اس کے شوہر کی محبت کے لئے رو رہی تھی ۔
آرزو کا دل چاہا کہ ابھی عون کو گریبان سے پکڑ کر اٹھائے اور کہے کہ کرلو تامیہ سے شادی ۔۔۔میں کبھی تمہارے اور اس کے بیچ میں نہیں آؤں گی ۔لیکن کہاں سے لاتی وہ اتنی ہمت ۔عون کے سامنے آنکھیں اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں تھی تو اس سے یہ بات کرنے کی ہمت کہاں سے لاتی۔
ابھی وہ تامیہ کی بات سن رہی تھی کہ عون کی آنکھ کھل گئی ۔
اس کے ہاتھ میں اپنا فون دیکھ کر وہ سمجھ چکا تھا کہ اس وقت کس کا فون ہوسکتا ہے ۔
فون رکھو وہ غصے سے بولا ۔
عون جی پلیز آپی ہیں آپ بات کرلیں ۔آرزو روتے ہوئے فون اس کی طرف بڑھایا
میں نے کہا کہ فون بند کرو ابھی اسی وقت وہ چلا کر بولا تھا ۔
جبکہ اس کے اس طرح سے چلانے پر آرزو نے فون کاٹ کر رکھ دیا ۔
یہ بات تو تامیہ ریسٹورنٹ میں ہی بتا چکی تھی کہ وہ اس کے ماموں عثمان کی بیٹی ہے پھر ظاہری سے بات ہےآرزو اسی گھر کی بیٹی تھی ۔ اسے آرزو کے منہ سے آپی کی سن کر حیرانگی نہیں ہوئی تھی ۔
اس روتے ہوئے دیکھ کر عون نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔
تم کیوں رو رہی ہو ایسی چیپ لڑکی کے لئے ۔
تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے وہ کتنی گھٹیا اور گری ہوئی ہے وہ اسے اپنے سینے سے لگایا آہستہ آہستہ بول رہا تھا
آج کے بعد ایسی لڑکی کے لئے تمہاری آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں نکلنا چاہیے ۔
چلو اب آرام سے سو جاؤ ۔کل ہم نے کہیں جانا ہے ۔
صبح صبح نکلنا ہوگا ۔
وہ اس کے کان میں آہستہ آہستہ بول رہا تھا ۔
آرزو نے کچھ نہیں پوچھا ۔
وہ تو ابھی تک یہ سوچ رہی تھی کہ اور اس کی آپی کو اتنے گندے لفظوں سے کیوں پکار رہا ہے ۔
صبح ہوتے ہی آرزو کمرے سے نکل گئی ۔
آرزو بیٹا اتنا وقت ہوگیا ہے عون ابھی تک کام پر نہیں گیا زبیدہ نے عون کی گاڑی باہر کھڑے دیکھ کر پوچھا
نہیں میرے خیال سے وہ ابھی جگاے نہیں ہیں ورنہ تو کب کے چلے گئے ہوتے آرزو نے کہا
آرزو بیٹا جاؤ ذرا دیکھ کے ہو دیکھو 10 بج رہے ہیں ۔
زبیدہ بیگم نے اسے کمرے کی طرف بھیجتے ہوئے کہا ۔عون کا آدھی رات والا غصہ یاد کرکے اسے ڈر لگ رہا تھا نہ جانے وہ ابھی تک اسی موڈ میں نہ ہو ۔
وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اپنے کمرے میں آئی جہاں عون اپنے چھوٹے سے بیگ میں کپڑے رکھ رہا تھا ۔
جلدی قدم چلاؤ وہ اسے دیکھ کر بولا اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوگیا ۔
آرزو جلدی سے قدم کمرے کے اندر رکھیں اور اس کے پاس آئی
جلدی سے اپنے دو تین ڈریسز پیک کرو ہم کہیں باہر جارہے ہیں ۔
وہ جلدی جلدی اپنا سامان کیا کرتے ہوئے اسے دیکھ کر بولا ۔
کہاں آرزونے پوچھا۔۔۔۔
سوال مت پوچھو جو کہا ہے وہ کرو ۔
لیکن پھر بھی وہ ہلکا سا منمنائی نہ جانے اس کے سامنے اس کی آواز کہاں چلی جاتی تھی ۔
تم سمجھ لو ہم ہنیمون پے جا رہے ہیں عون شررات سے آنکھ دبا کر بولا
لیکن اس کے ماتھے پر پسینہ دیکھ کر ہنسنے لگا ۔
یار ایک کام ہے جس کی وجہ سے شہر سے باہر جانا پڑے گا
ڈی سی پی سر نے میری کوئی بھی بات نہ ماننے کی قسم کھا رکھی ہے لیکن جب ان کو بتایا کہ ابھی ابھی میری شادی ہوئی ہے تو انہوں نے مجھ پر تھوڑا سا ترس کھاتے ہوئے اپنی بیوی کو ساتھ لے جانے کا آرڈر دے دیا ہے ۔
اب جلدی سے اپنا سامان پیک کرو اور تم سمجھ لو کہ تمہیں دیا ہوا میرا وقت ختم ہوگیا ۔
ویسے بھی میری جان تمہاری اٹھاریں برتھ ڈے گزرے ہوئے بھی آج آٹھواں دن ہے ۔
اور تمہیں دیکھتے ہوئے میں نے یہی اندازہ لگایا ہے کہ تم خود سے مجھے اپنے پاس نہیں بلاؤگی مجھے یہ کام بھی خود ہی کرنا ہوگا ۔
اب تمہاری اجازت مجھے بڑھاپے میں ملے گی اور اتنی دیر میں تمہارے بغیر رہ نہیں سکتا ۔
عون کے کہنے کی دیر تھی کہ آرزو کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔
آرزو تم ٹھیک تو ہو تمہارے ماتھے پے اتنا پسینہ کیوں آ رہا ہے وہ اس کا پسینہ اپنے ہاتھ سے صاف کرتے ہوئے پوچھنے لگا ۔
او اچھا اب میں سمجھا ۔۔ میری جان اب میں کیا کرو ں۔ تم خود تو مجھے اپنے پاس کبھی بلاؤ گی نہیں اور میرے آنے پہ تمہارے اس طرح سے پسینے چھوٹ رہے ہیں ۔
اب اگر مجھے تھوڑی سی بھی امید ہوتی تمہاری طرف سے کسی بلاوے کی تو میں صبر کرتا ۔لیکن تمہاری یہ شرم و حیا میری ساری امیدوں پر پانی پھیر رہی ہے ۔
سوبی ریڈی ۔ ۔ وہ آنکھ دبا کر پھر سے سامان پیک کرنے لگا ۔
گھر والوں سے کیا کہیں گے آرزو نے اپنی طرف سے بہانہ سوچا تھا
میں کسی کا جواب دہ نہیں ۔وہ مسکرا کر کہتے باہر جانے لگا ۔
میں کچھ چیزیں لے آؤں تب تک تم اپنی تیاری کر کے رکھنا ۔تمہارے پاس ٹھیک پندرہ منٹس ہیں جب میں آؤں تو مجھے گیٹ پرملو۔ وہ جاتے جاتے بھی اس کے لبوں پر اپنی پیار کی نشانی چھوڑ گیا ۔
اب اس کی وجہ سے 15 منٹس یہی ویسٹ مت کر دینا اس کا اشارہ اس کے لبوں پر اپنی محبت کی مہر پرتھا ۔
جبکہ آرزو کی حالت پندرہ منٹس ضائع کرنے والی ہی ہو گئی تھی
پھوپھو پلیز میری مدد کریں عون جی مجھے اپنے ساتھ پتہ نہیں کہاں لے کر جا رہے ہیں ۔
آرزو نے عون کے آنے سے پہلے ہی زبیدہ بیگم کو کچن میں جالیا
کہاں لے کے جا رہا ہے وہ تمہیں زبیدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے پوچھا
پتا نہیں بس ابھی کہ کے گئے ہیں اپنا سامان پیک کرو ہم کچھ دنوں کے لیے باہر جارہے ہیں ہنی مون پر
وہ تیز تیز بولتی اینڈ پےسلو ہوگئی ۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے اور تم ایسے گھبرا کیوں رہی ہو ۔
جاو اپنا سامان پیک کرو ۔
لیکن پھوپھو میرا کالج میری پڑھائی آرزو نے جلدی سے بہانہ بنانے کی کوشش کی ۔
کل سرکاری چھٹیاں ہو جائیں گے ۔ہانیہ جلدی سے بولی ۔
آرزو نے ایک نظر اپنی بے رحم جیٹھانی کی طرف دیکھا۔
پھوپھو پلیز آرزو نے معصوم بے بس شکل بنا کر اپنی پھوپھو کو دیکھا ۔
جب باہر سے عون کے گاڑی کی آواز آئی ۔
پھوپھو پلیز کچھ کریں عون جی واپس آگئے ہیں ۔
آرزو نے زبیدہ بیگم کے دونوں ہاتھوں سے بازو پکڑتے ہوئے کہا ۔توزبیدہ بیگم مسکرانے لگی۔
جلدی جاؤ آرزوعون باہر انتظار کر رہا ہے ۔
زبیدہ بیگم نے کہا
ظلم پھوپھو وہ منہ بناتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف جانے لگی
تقریبا دس منٹ کے بعد وہ اپنا سامان پیک کر چکی تھی
اتنی دیر لگا دی آرزو میں نے صرف دو جوڑےپیک کرنے کا بولا تھا ۔
عون نے اس کا بیگ اٹھاتے ہوئے اسے نیچے آنے کا اشارہ کیا تو وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتے نیچے آئی ۔
میں آپ کو اس چیٹنگ کے لیے کبھی معاف نہیں کروں گی ہانیہ آپی۔ وہ منہ بنا کر باہر جا رہی تھی ۔
بس مجھے میرے دیور کا بہت خیال رہتا ہے ۔ہانیہ شرارت سے کہتی ہوئی اندر چلی گئی ۔
وہ پھوپھو کے سامنے رکی جب عون نے اس کا ہاتھ تھام لیا
ہم صرف دو دن کے لیے جا رہے ہیں کوئی آنسو بہانے کی ضرورت نہیں ہے میں تمہاری رخصتی نہیں کر رہا یہاں سے ۔
عون اونچی آواز میں کہتے اسے اپنے ساتھ لے گیا ۔
عون نے اسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور اس کا بیگ ڈگی میں رکھ دیا ۔
اتنی گھبراہٹ کیوں رہی ہو میرے ساتھ آنے پر میں شوہر ہوں تمہارا ۔اس طرح سے تم مجھ سے ڈر کیوں رہی ہو آرزو۔
اب تو ہم میں سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے نہ اس سے زیادہ خود کو یقین دلاتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔
جی عون جی میرا ایسا کوئی۔وہ بس اتنا ہی بول پائی
ہاں جانتا ہوں تمہارا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا ۔
عون ہنستے ہوئے بولا
سفر کے دوران وہ بار بار اس سے کبھی کچھ کھانے کا بولتا تھا کبھی کچھ۔
لیکن اس نے کچھ نہیں کھایا یہاں تک کہ لنچ تک نہیں کیا
ہم بس تھوڑی دیر میں پہنچ جائیں گے
دراصل ہم کراچی جارہے ہیں۔ ویسے تو میں فلائٹ میں جانے والا تھا لیکن تمہارے پاس پاسپورٹ نہیں ہے اسی لئے اس طرح سے جا رہے ہیں ۔
آپ اکیلے چلے جاتے ۔۔آرزو نے حل پیش کیا
اب اکیلے جانے میں کیا مزا اب بندہ شادی شدہ ہے عون مسکراتے ہوئے بولا ۔
ویسے بھی جس کے پاس اتنی حسین بیوی ہو اسے اکیلے بالکل نہیں رہنا چاہیے۔