اگلے دن اس نے خود کو بہت روکا یونیورسٹی جانے سے مگر یہ ایک جملہ اس کے ذہن میں کوئی ہتھوڑے کی طرح مار رہا تھا۔
اس ایک جملے نے اس پر اتنا اثر کیا تھا جتنا اثر آج تک ڈھیرو کی کتابیں پڑھنے کے بعد بھی اس پر نہیں ہوا تھا۔
اس کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔
وہ اپنے آپ کو یونیورسٹی جانے سے روکنا چاہتی تھی لیکن یہ ایک “جادوئی” جملہ اسے کھینچ رہا تھا یونیورسٹی کی جانب.
ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ایک جملہ نہیں بلکہ شہیر شیرازی نے کوئی منتر پڑھ کر اس پر پھونک دیا ہو اور وہ اس کے زیر اثر آ چکی ہے اور اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔
اپنے دماغ کا گلہ گھونٹتے ہوئے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہ یونیورسٹی چلی آئی تھی۔
مقابل بے حد مطمئن ہوا تھا اسے دیکھ کر۔وہ جانتا تھا بہت اچھے طریقے سے جانتا تھا۔۔۔کہ جو منتر اس نے پڑھ کر عبیر پھونکا ہے عبیر اس سے بچ نہیں سکتی تھی اب۔
کلاس میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے شہیر شیرازی سوچ رہا تھا کہ یا تو وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہے جو آج یونیورسٹی آئی ہے کل والی بات کے بعد بھی۔۔۔ یا پھر وہ جملہ اسے کھینچ لایا ہے۔
وہ بھی کسی فیصلے پر پہنچ نہیں پا رہا تھا مگر اس کی باڈی لینگویج دیکھ رہا تھا اور اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ اس کی طرف دیکھنے کی بجائے نگاہیں نیچی کتاب پر جمائے رکھی ہوئی تھی۔اپنی شہادت کی اندھی والے ناخن سے رجسٹر کو رگڑتی جا رہی تھی۔وہ یقینا گھبراہٹ کا شکار تھی۔
اگر وہ مضبوط اعصاب کی مالک ہوتی تو اس سے نظر نہ چراتی۔ بلکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی اور اسے یہ پیغام دے دیں کہ “مجھے فرق نہیں پڑتا تمہاری بات سے”
لیکن اس کا نظر نہ ملانا۔۔۔ اور گھبرانا اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ اس جملہ کے زیر اثر ہے۔
شہیر شیرازی سوچ کر مسکرا دیا۔
اور سب سے بڑی آسانی اس کے لئے حریم کی غیر حاضری نے کر دی تھی۔
اس سے پہلے کہ اس کی چالاک سہیلی یونیورسٹی آنا شروع کر دے ۔۔۔ وہ اپنا کام کرنا چاہتا تھا۔
شہیر شیرازی آج کا کام کل پر کبھی نہیں چھوڑتا تھا۔۔۔
________________
کلاس ختم ہونے کے بعد وہ پھر سے ایک ایسے کونے میں آ کر بیٹھ گئی تھی جہاں وہ سب کی نظروں سے اوجھل رہے۔
اس میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ اگر حریم نہیں آرہی تھی تو وہ کسی اور لڑکی کو دوست بنا کر اس کے ساتھ رہتی۔
سالوں کی قید نے اس کی شخصیت کو مکمل طور پر مسمار کر کے رکھ دیا تھا۔
اس کونے میں چھپ کر بیٹھے ہوئے بھی وہ لاشعوری طور پر پر شہیر شیرازی کے انتظار میں تھی کہ شاید وہ آجائے۔اور ویسا ہی کوئی اور منتر پڑھ کر اس پر پھونک دے۔
وہ اسی کی سوچوں میں مستغرق تھی کہ وہ اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔
آج بھی اس کا سر جھکا ہوا تھا اور اس کی نظریں اس کے جوتوں پر تھی۔
عبیر کا دل کسی بے لگام گھوڑے کی مانند دوڑنے لگا تھا۔
بجائے کچھ کہنے کے وہ اس کے قریب بیٹھ گیا۔
” میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لونگا۔مجھے صرف ہاں یا ناں میں جواب دے دیں۔اگر ہاں میں جواب دیں گی تو میں بات آگے بڑھاؤں گا۔اور اگر نہ میں جواب دیں گی تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں دوبارہ کبھی آپ کو پریشان نہیں کروں گا آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھوں گا بھی نہیں۔ یہ میرا نمبر ہے آج رات میں آپ کے جواب کا انتظار کروں گا۔مجھے صرف ہاں یا ناں لکھ کر بھیج دیجئے گا آج رات۔میں کل تک کا بھی انتظار نہیں کروں گا اگر آج آپ نے کوئی جواب نہیں دیا تو میں کل کے بعد آپ کی طرف دیکھوں گا بھی نہیں۔”
اس نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر اپنا نمبر لکھا ہوا تھا وہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
عبیر سوچ میں پڑ گئی کہ وہ کیا کرے بالآخر اس نے وہ کاغذ کا ٹکڑا اٹھا لیا۔
_________________
وہ ویل ایجوکیٹڈ، ویل ڈریسڈ، پر اعتماد لڑکی پچھلے پندرہ منٹ سے اس کے سامنے بیٹھ کر روئے جارہی تھیں۔
برہان احمد اپنے میں رکھے ہوئے ٹشو پیپر سے تقریبا اب تک دس ٹشو پیپر اُسے دے چکا تھا آنسو صاف کے لئے۔
” مس ہانیہ، آپ کا ڈریس بڑا خوبصورت ہے کس نے پسند کیا ہے؟”
برہان احمد نے اس کے لباس کی تعریف کرتے ہوئے پوچھا۔
” میں نے خود پسند کیا ہے یہ جوڑا۔”
وہ لڑکی بولی۔
” اور آپ کا ہینڈ بیگ بھی بہت اچھا ہے یہ بھی آپ نے خود پسند کیا ہے۔؟”
برہان احمد نے اگلا سوال داغا۔
” جی یہ بھی میں نے خود پسند کیا ہے۔”
وہ لڑکی پھر بولی۔
” اور آپ کے جوتے بھی بہت اسٹائلیش ہیں یہ بھی ضرور آپ کی اپنی پسند ہونگے؟”
برہان احمد نے کہا۔۔۔ وہ لڑکی اس کے سوالوں سے الجھن کا شکار تھی۔وہ جس مقصد کے لیے یہاں آئی تھی یہ ماہرِ نفسیات اس سے ہٹ کر کیوں سوالات کئے جا رہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
” جی جوتے بھی میں نے خود پسند کیے ہیں۔ ”
اس لڑکی نے جواب دیا۔
” اور آپ نے خوشبو بھی بہترین لگائی ہوئی ہے یقیناً یہ بھی آپ کی اپنی پسند ہو گی۔۔۔”
برہان احمد نے کہا تو اس بار اس لڑکی کو غصہ آنے لگا لیکن اس نے ضبط کر لیا۔
” جی میری پسندیدہ خوشبو ہے۔”
وہ لڑکی رونا بھول کر اس کے سوالات کا جواب دے رہی تھی مگر بے زاری سے۔
” ماشااللہ ہر چیز میں آپ کی سلیکشن بہت زبردست ہے۔”
برہان احمد نے سراہتے ہوئے کہا۔
” جی شکریہ۔”
وہ لڑکی بولی۔
” لیکن میں بہت حیران ہوں مس ہانیہ۔۔۔ ہر چیز میں آپ کی سلیکشن بہت اچھی ہے۔ایک ایک چیز کا انتخاب کرتے وقت آپ نے بہت خیال رکھا ہے۔۔۔ تو پھر اپنے لئے لڑکے کا انتخاب کرتے وقت آپ کی عقل کہاں گھاس چرنے گئی ہوئی تھی مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے۔”
برہان احمد نے کہا تو وہ لڑکی حیران ہوئی۔
اس لڑکی کا محبوب اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا پانچ سال تعلق کے بعد ۔۔۔ پانچ سال تک وہ شادی کا وعدہ اس لڑکی سے کیے ہوئے تھا اور اچانک اسے چھوڑ کر چلا گیا اور اب وہ لڑکی ماہرِ نفسیات کے پاس بیٹھی رو رہی تھی کہ وہ کہاں جائے وہ اس وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوگئی ہے۔
” اس نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا تھا۔ میں نے سچ سمجھا۔اس پر اندھا اعتماد کیا۔۔۔ اور آج وہ اپنی بات سے مکر گیا۔”
لڑکی کہہ کر پھر رونے لگ گئی۔
” آپ سے شادی کا وعدہ کرتے وقت اس نے پہلا جملہ کیا بولا تھا مجھے بالکل وہی الفاظ بتائیں۔”
برہان احمد نے کہا۔
” اس نے کہا تھا وہ مجھ سے “نکاح” کرنا چاہتا ہے۔”
وہ لڑکی بولی۔
” یہی بات۔۔۔۔ بالکل یہی بات۔۔۔ یہ ایک ایسا جملہ بالکل نیا تیار کر دیا گیا ہے لڑکیوں کو بیوقوف بنانے کے لیے۔۔۔ دوسرے الفاظ میں لڑکیوں کو پھنسانے کے لیے۔۔۔ کہ “میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔” یہی جملہ۔۔۔۔ مس ہانیہ ۔۔۔۔ یہ ایک نیا ایجاد کردہ جملہ ہے ۔۔۔ جو کسی منتر کی طرح ۔۔۔ ایک شخص سامنے والی لڑکی پہ پھونک دیتا ہے۔۔۔ اور اسے سو فیصد یقین کرتا ہے کہ یہ جملہ سیدھا جاکر اس لڑکی کے دل پر لگے گا۔۔۔ یہی وہ سمجھنے کے ایک حصار بن جائے گا اس لڑکی کے ارد گرد۔۔۔ اور یہ جملہ بولنے والا پرامید ہوتا ہے کہ وہ لڑکی اب اس جملہ کے حصار سے کبھی نہیں نکل سکتی۔”
برہان احمد نے کہا تو وہ لڑکی سوچ میں پڑ گئی۔
” یقیناً یہ جملہ جدید طریقے سے آپ پر حاوی ہوگیا ہوگا… یہی بات ہے نا؟؟؟”
برہان احمد نے کہا۔
” جی مجھے اس کا یہ جملہ بہت اچھا لگا تھا اور میں اسی جملے سے اٹریکٹ ہوئی تھی اور تعلق آگے بڑھا۔”
ہانیہ نے کہا۔
” اگر وہ کہتا کہ آئی وانٹ ٹو میری یوں تو یقیناً آپ کو اچھا نہیں لگتا۔۔۔ اگر وہ کہتا کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں پھر بھی مزہ نہیں آتا۔۔۔ لیکن یہ لیٹیسٹ جملہ جو دھوکہ بازوں نے تیار کر دیا ہے آج کل کی لڑکیوں کو بیوقوف بنانے کے لیے۔۔۔ کہ ” میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔۔” یعنی کہ نکاح کا الفاظ استعمال کر کے آپ کے شرعی جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہوئے۔۔ آپ کو دھوکہ دے گیا وہ شخص۔۔۔”
برہان احمد نے کہا۔
” لیکن میں تو نکاح کی بات سن کر خوش ہوگئی تھی۔وہ لڑکا اتنا خاص نہیں تھا لیکن اس نے بات ہی ایسے انداز میں کی تھی۔۔۔ سارا سحر دوست کی باتوں کا تھا۔۔۔ وہ اتنا گڈ لکنگ نہیں تھا۔۔”
ہانیہ نے کہا۔
” جو لوگ دیکھنے میں بہت زیادہ خوبصورت نہیں ہوتے نہ وہ اپنے الفاظ پر محنت کرتے ہیں۔۔۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ان کی شکل میں جادو نہیں ہے۔۔۔ یہ وہ اپنے لفظوں میں جادو بھر دیتے ہیں۔۔۔ ظاہر سی بات ہے انہونے وار تو کرنا ہے نا ۔۔۔ جب شکل سے بات نہیں بنتی تو الفاظوں سے کام چلا لیتے ہیں۔۔۔ ”
برہان احمد جیسے جیسے باتیں کرتا جا رہا تھا ہانیہ کی دماغ کی گرہیں کھلتی جارہی تھی اسے پانچ سالوں کا وقت یاد آ رہا تھا۔
” ہانیہ اگر وہ آپ سے شادی کرنا چاہتا۔۔۔ تو آپ سے کہتا کہ میں اپنی ماں کو آپ کے گھر بھیج رہا ہوں۔پھر وہ اپنی ماں کو بھیجتا۔۔۔ اور اس کی شکل کو دیکھتے ہوئے آپ انکار کر دیتی کیونکہ وہ شکل و صورت میں خاص نہ تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ صرف شکل کو دیکھ کر آپ نے انکار کرنا ہے۔۔۔ تو پہلے اس نے الفاظوں سے وار کیا۔۔۔ پھر پانچ سال تک آپ سے تعلق رکھ کے خون انجواۓ کیا۔۔۔ اور جب دل بھر گیا تو چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔ مختصر یہ کہ وہ جادوگر آپ کی زندگی کے قیمتیں پانچ سال کھا گیا۔۔۔ تب آپ کی عمر پچیس سال تھی ۔۔۔ اور اب آپ کی عمر تیس سال ہو گئی ہے۔۔۔ اگر پچیس سال کی عمر میں آپ کی شادی ہو جاتی تو یقیناً یہ مناسب عمر تھی ایک لڑکی کی شادی کیلئے۔لیکن اس نے پانچ سالہ کے ضائع کروا دیے اور اب آپ کی عمر زیادہ ہو گئی ہے۔۔۔ اتنی زیادہ تو نہیں ہوئی لیکن اب تک ہو جانی چاہیے تھی شادی آپ کی۔ ”
برہان احمد نے کہا تھا ہانیہ سوچ میں پڑ گئی۔
” صحیح کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔ لیکن اب وہ میرا فون نہیں اٹھا رہا ہے مجھے ہر جگہ سے بلاک کر دیا ہے اس نے۔۔۔ واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام ہر جگہ سے۔اور یہ بات مجھے دکھ دے رہی ہے۔مجھے اپنا آپ حقیر محسوس ہو رہا ہے۔”
ہانیہ نے کہا۔
” یقیناً کو چھوڑتے ہوئے اس نے ایک زہریلا جملہ بھی بولا ہوگا۔۔۔”
برہان احمد نے کہا۔
” ہاں آخری پیغام اس نے مجھے بھیجا تھا۔۔۔ اس میں لکھا تھا کہ… “ہانیہ تم ایک بدکردار لڑکی ہو۔”
ہانیہ کہہ کر پھر سے رونے لگ گئی۔
” لڑکی کو چھوڑنے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔۔۔ جب ایک لڑکا کسی مجبوری میں لڑکی کو چھوڑتا ہے تو اچھے طریقے سے جانتا ہے تاکہ اسے دکھ نہ ہو۔۔۔ لیکن ایک برا انسان جو احساس کمتری کا پہلے سے ہی شکار ہوتا ہے۔۔۔ پر وہ یہ بات بہت اچھے طریقے سے جانتا ہے کہ لڑکی اس سے ہزار درجے بہتر ہے۔۔۔ تو لڑکی کو وقت صرف ایک زہریلا جملہ بولتا ہے۔۔۔ اور لڑکی اگلے پانچ سال تک اس زہریلے جملے کے زیر اثر ہوتے ہوئے ۔۔۔ مزید آنے والے پانچ سال تباہ کر دیتی ہے۔ کیا آپ بھی ایسا ہی کریں گی؟”
فرحان احمد نے کہا تو ہانیہ نے حیرت سے دیکھا۔
” مس ہانیہ۔۔۔ اس کے اس زہریلے جملے سے خود کو نکالیں۔وہ کون ہوتا ہے یہ فتوٰی دینے والا کے آپ بد کردار ہیں۔۔۔ لیکن آپ تو بہت اچھے طریقے سے جانتی ہیں کہ آپ کا کردار کیسا ہے۔۔۔ بدکردار وہ خود ہے ۔۔۔ تھا ۔۔۔ اور ۔۔۔ رہے گا۔۔۔ یہ سوچ کر۔۔۔زندگی میں آگے بڑھ جائیں۔ بھول جائیں اس ذلیل انسان کو۔ وہ نہ آپ کی محبت کے قابل تھا۔۔۔ نہ شادی کے قابل تھا۔۔۔ نہ عزت کے قابل تھا۔۔۔ وہ کسی لائق نہیں تھا اور آپ اس شخص کے لیے تین ہزار روپے کی فیس بھر کر۔۔۔ میرے سامنے بیٹھ کر۔۔۔ آدھے گھنٹے سے روئے جارہی ہیں۔۔۔ اپنے قیمتی آنسو برباد کر رہی ہیں۔۔۔ اس انسان کے لیے۔۔۔ جو تھوکنے لائق بھی نہیں تھا۔۔۔ اس کا خیال اپنے دل سے نکالنے کے لیے آپ نے اپنے تین ہزار روپے ضائع کر دیے۔۔۔ اگلی بار یہ تین ہزار روپے کسی غریب کو صدقہ کر کے دے دیجئے گا۔۔۔ آپ بہت قیمتی لڑکی ہیں۔ اپنے آپ کو اس ذلیل انسان کے پیچھے ضائع نہ کریں۔ شکریہ۔”
برہان احمد نے کہہ کر سیشن ختم کردیا۔۔۔
ہانیہ جب وہاں سے اٹھی ۔۔۔ تو اس کے دماغ کی تمام گرہیں کھل چکی تھیں۔۔۔ اس نے ایک جھرجھری لی۔۔۔ اور سوچ لیا ۔۔۔ کہ اب اس کے بارے میں سوچنا ہی نہیں ہے۔۔۔
_______________
عبیر سونے کیلئے لیٹی تھی۔
اس کے ہاتھ میں وہی کاغذ کا ٹکڑا تھا۔
وہ کتنی دیر سے اس کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھتی جارہی تھی لیکن کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔
شہیر شیرازی نے اسے مشکل میں ڈال دیا تھا۔
سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ اس نے وقت ہی نہیں دیا تھا عبیر کو سوچنے کے لئے۔اس کے پاس صرف آج رات تک کا وقت تھا اور یہ بہت مشکل تھا۔
وہ نہ نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ ایک نئے جذبے سے گزر رہی تھی۔یہ جذبہ ایک خمار کی جیسا تھا جو اس پر چڑھتا جا رہا تھا۔ یہ خمار اُسے مزہ دے رہا تھا۔
اگر وہ نہ کہتی تو۔۔۔ یہ خمار ٹوٹ جاتا۔۔۔ اور ہاں کرنے کی اس کی ہمت نہیں تھی۔۔۔ لیکن آج رات اگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا تو کل کے بعد وہ اُسے دیکھے گا بھی نہیں۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔ پھر تو مزہ ہی نہیں آئیگا۔۔۔ شروع ہونے سے پہلے سب ختم ہو جائیگا۔
( نکاح ہی تو کرنا چاہتا ہے وہ ۔۔۔ اور ۔۔۔ کتنا اچھا ہے۔ سحر انگیز شخصیت کا مالک ۔۔۔ )
عبیر پہلو پر پہلو بدل رہی تھی۔
اس نے نمبر اپنے موبائل میں محفوظ کر دیا۔
پھر بہت سوچنے کے بعد پیغام بھیجا۔
” عبیر ۔۔۔” صرف اتنا ہی لکھا۔
پیغام پڑھ کر شہیر شیرازی کی کوئی خوشی کی انتہا نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا وہ میسیج کرے گی۔
پیغام کا جواب پیغام سے دینے کی بجائے اُس نے سیدھا کال کی۔
کال دیکھ کر عبیر پریشان ہوئی۔ اُس نے کال کاٹ دی۔۔۔ لیکن مقابل ڈھیٹ تھا۔
” سر آپ میسیج میں بات کریں۔ میں کال پر بات نہیں کر سکتی۔”
عبیر نے لکھا۔
لیکن کوئی جواب نہیں ۔۔۔ پھر سے کال پر کال۔۔۔ عبیر پریشان ہوئی۔
کافی سوچنے کے بعد اس نے اپنے کمرے کا دروازہ لاک کیا اور بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔
دھڑکتے دل کے ساتھ اُس نے کال اٹھائی۔
” عبیر۔۔۔” آگے سے اُس نے اپنی گھمبیر آواز میں اُس کا نام پُکارا تو عبیر کا دل جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تھا۔
” عبیر ۔۔۔ کچھ بولو۔ میں تمہاری آواز سننا چاہتا ہوں۔” وہ ایک دم آپ سے تم پر آگیا تھا۔
لیکن عبیر کی تو سیٹی بیٹی ہی گم ہوگئی تھی وہ کیا بولتی۔
” آئی لو یو عبیر” شہیر شیرازی بولا تو عبیر کا دل ڈوب کر اُبھرا تھا۔
” سر ۔۔۔پلیز ۔۔۔ ” اپنی دھڑکنوں پر قابو پاتے ہوئی عبیر بولی۔
” نہیں عبیر ۔۔۔ مجھے کہہ لینے دو ۔۔۔ اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرنے دو۔۔ ” وہ مجنون سا ہو کر بولا۔
” سر ۔۔۔ آپ نے کہا تھا کے آپ نکاح ۔۔۔” عبیر سے مکمل جملہ بھی بولا نہیں جا رہا تھا۔
” تم نکاح کی بات کر رہی ہو عبیر؟؟؟ تم تو میری روح میں بس چکی ہو۔ میری رگوں میں خون کی جگہ دوڑنے لگی ہو۔ ساری رات ۔۔۔ عبیر ساری رات تمہارا یہ حسین چہرہ میری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے ۔۔۔ تمہارا یہ خالص حسن مجھے سونے نہیں دیتا عبیر ۔۔۔ میں مر جاؤں گا۔۔۔ قسم سے مر جاؤں گا تمہارے بغیر۔۔۔ تم کہو تو صبح ہی چلتا ہمیں قاضی کے پاس۔۔۔ تم سے نکاح کر کے اپنی محبت ثابت کرتا ہوں۔” وہ خمار بھرے لہجے میں بولا۔
عبیر کو اُس کی باتوں کا نشا ہونے لگا تھا۔ اُس کی آواز کا ۔۔۔ اس کے انداز کا ۔۔ اُس کے الفاظ کا۔۔۔
” آپ ۔۔۔ اپنے گھر والوں کو بھیج دیں میرے گھر ۔۔۔ اُن سے کہیں میرے گھر آکر میرے والد سے میرا ہاتھ مانگیں۔”
عبیر نے ہمت کرتے ہوۓ ہری جھنڈی دکھائی۔
” تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے شاید ۔۔۔ ” وہ بولا۔
” نہیں ، میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا ۔۔۔ میں تو بس کہہ رہی تھی کہ۔۔۔” عبیر نے کہنا چاہا لیکن شہیر نے اس کی بات آدھے میں کاٹ دی۔
” نہیں ۔۔۔ تمہیں لگ رہا ہے کے میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ دھوکا دے رہا ہوں تمہیں۔۔۔ اسی لیے تم نے ایسی بات کی ۔۔۔ ورنہ نہ کرتیں۔”
وہ بولا تو عبیر پریشان ہوئی ۔۔۔ آگے سے شہیر نے کال کاٹ دی۔
” اففف ۔۔ یہ تو ناراض ہوگئے۔” عبیر نے کہا اور ہمت کر کے کال ملائی۔
شہیر نے کال کاٹ کر خود فون کیا ۔
” مجھ پر اعتبار کرتی ہو تو میں بات کروں گا۔ ورنہ اس بات کو یہیں پر ختم سمجھو۔” وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولا۔
” مجھے آپ پر اعتبار ہے۔ میں تو بس اتنا کہہ رہی تھی کہ آپ اپنے گھر والوں کو بھیجیں میرے گھر ۔۔۔ اگر آپ واقعی مجھ سے اتنی محبت۔۔۔”
عبیر نے پھر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
” محبت کی پہلی شرط اعتبار ہے۔ ” وہ بولا۔
” جی میں جانتی ہوں۔” عبیر نے کہا۔
” تو تم مجھ پر اعتبار کرو۔ میں اپنے گھر والوں کو تمہارے گھر ضرور بھیجوں گا یہ میرا وعدہ ہے۔ مگر اس وقت میں ایک فیملی کرائسس سے گزر رہا ہوں۔ اس وقت یہ ممکن نہیں ہے۔ میرا اعتبار کرو عبیر۔ میں اپنے گھر والوں کو ضرور بھیجوں گا۔مجھے بس تھوڑا سا وقت دو ” اُس نے کہا تو عبیر نے یقین کر لیا۔
” ٹھیک ہے۔” عبیر نے کہا۔
” اور ہاں میرا ذکر اپنی سہیلی سے نہ کرنا۔ ورنہ میرا تم پر سے اعتبار اٹھ جائیگا۔ ”
شہیر نے اُسے مشکل میں ڈالتے ہوۓ کہا۔ کیوں کے آج تک اُس نے کوئی بات حریم سے نہیں چھپائی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...