دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے دروازے کی طرف دیکھا اور اسے لگا اس کے آس پاس کے سارے مناظر رک سے گئے ہیں۔
اس کی برسوں کی تلاش اس کے سامنے کھڑی اس چھوٹی سی لڑکی پر آ کر ختم ہو گئی ہے۔
وہ یک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا۔
اسے خود کو اس طرح تکتا پا کر زوہا نے اسے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ
پیچھے سے مشعل کی آواز آئی۔
” ارے داور بھائی آپ ! وہاں کیوں کھڑے ہیں اندر آئیں ناں۔ ”
مشعل کی آواز سے وہ حوش کی دنیا میں واپس لوٹا۔
” آں ! ہاں ! آیا۔ ”
زوہا نے ایک طرف ہو کر اسے راستہ دیا۔
اس نے اپنے قدم اندر کی جانب بڑھائے۔
زوہا بھی کمرے میں ایک جانب رکھے صوفے پر بیٹھ گئی۔
داور مشعل کے قریب پہنچ کر بولا
” اماں سائیں تمہیں باہر بلا رہی ہیں۔ ”
”
آپ چلیں ہم مشعل کو لے کر آتے ہیں۔ ”
جواب رمشا کی جانب سے آیا ۔۔۔۔۔
” ٹھیک ہے۔ ”
وہ رمشا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
اور ایک بھرپور نظر زوہا پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
” ٹھرکی ، چھچھورا ، نظر باز۔ ”
زوہا اس کو دل ہی دل میں مختلف القابات سے نوازتی ہوئی بیڈ پر بیٹھی رمشا اور مشعل کی جانب بڑھ گئی۔
“چلو باہر چلنے سے پہلے سیلفی ہو جائے۔ ”
زوہا ان کے قریب پہنچ کر بولی۔
” ہاں کیوں نہیں ” رمشا نے جواب دیا۔
اور تینوں سیلفی کے لئے پوز کرنے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشعل کو بائیں جانب سے رمشا اور دائیں جانب سے زوہا تھام کر باہر لائیں۔
ابھی انہوں نے لان میں قدم رکھا ہی تھا کہ ان پر پھولوں کی بارش ہونے لگی۔
سارے کیمروں کا رخ ان کی جانب ہو گیا۔
داور نے آگے بڑھ کر دائیں جانب سے مشعل کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس کا ہاتھ تھام کر اسے اسٹیج پر کے پاس لے گیا اور اس کا ہاتھ اسٹیج پر موجود زوار کے ہاتھ میں دے دیا۔
زوار نے اسے اوپر اسٹیج پر لے جا کر بیٹھا دیا اور خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
پھر اس کے بعد دو ملازمائیں پھولوں سے سجے تھال میں انگوٹھیاں رکھ کر اوپر اسٹیج پر لے کر گئیں۔
ایک نے زوار کو انگوٹھی دی اور دوسری نے مشعل کو۔
اس کے بعد سب کی تالیوں کے شور میں انہوں نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائی۔
سب گھر والوں نے دونوں کو باری باری پیار دیا اور اسکے بعد زوار اٹھ کر مردوں والی سائیڈ چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد وہ دونوں اسٹیج پر بیٹھی مشعل کے پاس جا کر بیٹھ گئیں اور اسے مبارک باد دینے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” نجمہ یہ مشعل کے ساتھ دو بچیاں کون ہیں ؟؟؟؟ پہلے تو کبھی نہیں دیکھا انہیں۔ ”
گلزار بیگم نے پوچھا۔
” ارے وہ اپنے زوار کا شہر والا دوست ہے نا فائز اس کی بہنیں ہیں۔ آئیں ملوائوں آپکو۔ ”
نجمہ بیگم ان کی بات کا جواب دے کر انہیں لے کر اسٹیج کی جانب بڑھ گئیں۔
” داور بھائی کہاں ہیں نظر نہیں آرہے۔ ”
فائز نے زوار سے پوچھا۔
” یار آج سارے انتظامات انہیں ہی دیکھنے پڑ رہے ہیں تو مصروف ہونگے کہیں۔ وہ دیکھو وہ آرہے سامنے سے۔ ”
زوار سامنے کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔
” داور بھائی۔ ”
زوار نے آواز لگائی۔
” ہاں بولو کیا کام ہے۔ ارے فائز کیسے ہو تم۔ ”
داور ان کی طرف آتا ہوا بولا۔
” میں ٹھیک ہوں ابھی زوار سے آپ ہی کا پوچھ رہا تھا۔ ”
فائز نے جواب دیا۔
” ہاں بس آج کچھ زیادہ مصروف ہوں میں۔ ”
داور نے کہا۔
زوار کا یہ پولائٹ سا کزن فائز کو بہت پسند تھا۔ جس میں غرور نام کو نہیں تھا۔ وہ بھی زوار کی طرح اسکی دل سے عزت کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” زوہا ، رمشا ان سے ملو یہ ہیں مشعل کی اماں اور زوار کی تائی۔ ”
نجمہ بیگم نے اسٹیج پر پہنچ کر ان کا تعارف گلزار بیگم سے کروایا۔
دونوں نے کھڑے ہو کر انہیں سلام کیا۔
گلزار بیگم نے دونوں کو باری باری گلے لگا کر پیار دیا۔
اسی اثناء میں رمشا کا موبائل بجا اس نے دیکھا تو فائز کا میسج تھا وہ انہیں باہر بلا رہا تھا۔
” اچھا آنٹی اب ہم چلتے ہیں فائز بھائی بلا رہے ہیں۔ ”
رمشا بولی۔
تو گلزار بیگم نے کہا
” بیٹا تھوڑی دیر اور رک جاتی ہمیں اچھا لگتا۔ ”
” آنٹی پھر کبھی۔ ابھی دیر ہو رہی ہے۔ ویسے ہمیں بہت اچھا لگا یہاں آکر۔ ”
زوہا نے متانت سے جواب دیا۔
” بیٹا ہمیں بھی بہت اچھا لگا آپ یہاں آئے۔ ”
گلزار بیگم بولیں۔
“اچھا اب ہم چلتے ہیں۔ آپ بھی آئیے گا ہمارے گھر۔ ”
زوہا نے انہیں دعوت دی۔
” جی ضرور بیٹا۔ ”
پھر وہ سب سے مل کر باہر گاڑی میں آکر بیٹھ گئیں جہاں فائز انکا انتظار کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” کتنی اچھی بچیاں تھی۔ گھلنے ملنے والی۔ لگتا ہے بہت اچھے ہاتھوں میں تربیت ہوئی ہے ورنہ آج کل کے شہری بچوں کو تو جیسے بھول ہی گیا ہے بڑوں کا ادب واحترام۔ ”
گلزار بیگم ان کے جانے کے بعد بولیں۔
” کہہ تو آپ سہی رہی ہیں۔ ”
نجمہ بیگم نے بھی ان کی تائید کی۔
” بس اللہ نصیب اچھے کرے۔ ”
گلزار بیگم دعا دیتے ہوئے بولیں۔
” آمین ”
جوابا نجمہ بیگم نے بھی قبولیت کی دعا بخشی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” یار کتنے اچھے لوگ تھے لگ ہی نہیں رہا تھا ہم پہلی بار ملے ہیں۔ اسپیشلی گلزار آنٹی کتنی پولائٹ خاتون تھی۔ ”
گاڑی میں رمشا کی آواز گونجی۔
گلزار آنٹی کے نام پر اس کے ذہن کے پردے پر داور کی تصویر لہرائی۔
( ہنہ یہ جاگیر دار ہوتے ہی ٹھرکی ہیں۔ اپنے پیسے کا کچھ زیادہ ہی گھمنڈ ہوتا ہے)
وہ اپنی سوچوں میں میں مصروف تھی کہ پیچھے مڑ کر رمشا نے اسکا ہاتھ ہلایا۔
” کہاں کھوئی ہو؟ زوہا تم سے بات کر رہی ہوں میں۔ ”
“آں ہاں۔ ”
وہ ہڑبڑا کر اپنی سوچوں سے باہر نکلی اور بولی۔
” ہاں مجھے بھی گلزار آنٹی بہت پسند آئی۔ ”
” ہاں اور انہیں تم جس طرح سے تمہیں دیکھ رہی تھیں ! لگتا ہے تمہیں اپنی بہو بنا کر ہی چھوڑیں گی۔ ”
رمشا نے اسے چھیڑا۔
اس سے پہلے زوہا کوئی جواب دیتی فائز نے اسے ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔
” رمشا !! اب مجھے تمہاری آواز نہ آئے۔ ”
فائز نے اتنے غصے سے رمشا کو ڈانٹا تھا کہ وہ آگے سے کچھ بول ہی نہ پائی۔
رمشا کی بات نے فائز کا موڈ بہت بری طرح آف کردیا۔ باقی کا سارا راستہ تینوں نے اپنی سوچوں میں مگن گزارا۔
فائز اس بات پہ کڑھتا رہا کہ وہ اسے وہاں لے کر ہی کیوں گیا۔
رمشا یہی سوچتی رہی کہ اس نے ایسا بھی کیا کہہ دیا جو فائز اتنا غصے میں آگیا۔
جبکہ زوہا کی سوچوں کا محور ” داور علی شاہ ” کی ذات تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور رات گئے سارے مہمانوں کو فارغ کر کے اپنے کمرے میں آیا ۔
شال اتار کر صوفے پر رکھی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر واچ اتارنے لگا کہ کسی کا چہرہ اس کے تصور میں آیا اور اس کے لب خود بخود مسکرادیئے۔
جس کے دل کو آج تک کوئی تسخیر نہیں کر پایا تھا وہ آج ایک چھوٹی سی لڑکی کے آگے ہار گیا تھا۔
شادی کا فیصلہ جو وہ اماں سائیں کے بار بار اصرار پر بھی نہیں کر پایا تھا آج وہ اتنی آسانی سے ہو گیا تھا۔
کپڑے بدل کر اماں سائیں کو صبح خوشخبری دینے کا ارادہ کرکے بستر پر دراز ہو گیا اور اس پری پیکر کے خیالوں میں کھو گیا۔
پھر کچھ یاد آنے پر اپنے والٹ سے ایک چھوٹا سا کارڈ نکالا جو اسے فوٹوگرافر دے کر گیا تھا اور اپنے موبائل میں ڈالا۔
اس نے فوٹوگرافر سے خاص طور پر بول کر زوہا کی الگ سے تصویریں بنوائی تھی۔
تھی تو یہ ایک غیر اخلاقی حرکت۔
پر وہ کہتے ہیں ناں
” محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔”
پھر وہ اطمینان سے اس کی ایک ایک تصویر زوم کرکے دیکھنے لگا۔ کہ نیند تو اسے ویسے بھی نہیں آنی تھی۔
“” کیونکہ آج تو محبت کی پہلی رات تھی اور محبت تو نام ہی محبوب کے حسین خیالوں میں کھو کر راتوں کو جاگنے کا ہے۔ “”
اور اسے تو ابھی ایسی بہت سی راتیں جاگ کر گزارنی تھیں۔
“کہیں ممکن ہوا
کہیں واجب
کہیں فانی
کہیں بقا دیکھا
یار کو ہم نے جا بجا دیکھا”!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...