صبح سے رات ہو گئی تھی مگر ہائیسم ابھی تک واپس نہیں آیا تھا ۔پورے چھ بجے وہ گھر ہوتا تھا مگر آج دروازے کو دیکھ دیکھ کر ترتیل کی آنکھیوں کی پتلیاں انتظار کے پہروں میں تھک گئیں تھیں ۔
اس قدر بے رخی پر ترتیل کا دل کٹ رہا تھا ۔ایک اس کی زرا سی کوتاہی قابل معافی نہیں تھی ۔مگر وہ یہ جان نا سکی اگر کوئی زرا سی غلطی پر خفا ہو سکتا ہے تو معملولی سی بات پر فدا بھی ہو سکتا ہے ۔
بیڈ پر بیٹھی وہ دیوار کو ایک ہی زاویے سے گھور رہی تھی ۔جب نڈھال سی حالت میں وہ کمرے میں داخل ہوا ۔نظریں سیدھا اس دلبر سے ٹکرائیں جو غمگین سی سوگواریت کا مجسمہ بنی بیٹھی تھی ۔
نظروں کا تصادم ہوا مگر وہ بھی نظرانداز کرتا باتھ روم چلا گیا ۔ترتیل اس کے رویہ پر بیٹھی ہی رہ گئی ۔اتنی جلدی تو وہ معاف کرنے والا ہرگز نہیں تھا ۔کل رات کا واقعہ پوری جذبادیت سمیت آنکھوں میں سمٹ آیا تھا ۔۔
کپڑے چینج کرنے کے بعد لائیٹ آف کرکے خاموشی سے آنکھوں پر بازو رکھ کر لیٹ گیا البتہ اس کے سنجیدہ تاثرات سے وہ خائف ہوگئی ۔۔
” ہائیسم کھانا نہیں کھانا آپ نے ۔”
اس کا دھیما فکرمند لہجہ کانوں میں ٹکرایا ۔مگر وہ بھی بغیر توجہ دیئے یوں ہی چت لیٹا رہا ۔
کتنی ہی دیر ہونٹ چبا کر اس کے جواب کی منتظر رہی دو تین بار ہمت کرکے اس کا بازو بھی ہلایا پر دوسری طرف صرف اور صرف بے رخی تھی ۔
اس نے صبح کا ناشتہ کیا ہوا تھا اور ہائیسم کے انتظار میں اب تک بھوکی بیٹھی تھی ۔اس بے حس بنے محبوب کو تو آج اس کی پرواہ ہی نہیں تھی ۔
نا واپس آکر گلے سے لگا کر ماتھے پر بوسا دیا ۔نا چینج کروایا اور اب دوائی اور دودھ تو ایک طرف کھانے کی پرواہ بھی نہیں کی ۔۔
اس کے نظراندازی پر دلبرداشتہ ہو کر وہ بھی ایک طرف کروٹ بدل کر لیٹ گئی ۔مگر نیند تو اس کے سینے پر سر رکھ کر اس کی باہوں میں سما کر ہی مہربان ہوتی تھی ۔کتنے ہی پل بیت گئے ۔دونوں ہی جاگ رہے تھے ۔وہ بھی بھلا کہاں سو سکتا تھا اس کے بغیر ۔
تھوڑی دیر بعد ترتیل کی سسکی گونجی ۔ہائیسم نے چونک کر اس کی طرف سر گھما کر دیکھا جو رخ موڑے لیٹی تھی ۔مگر وقفے وقفے سے اس کے ہلتے وجود کو دیکھ کر ہائیسم کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں بھینج لیا تھا ۔
اس سے پہلے وہ آگے بڑھ کر اس کو اپنے قریب کرتا ترتیل خود ہی ہمت ہارتی ایک جھٹکے سے اس کے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی ۔
ہائیسم کا سانس رک گیا ۔ وہ ششدر سا اس کے عمل پر بے حس و حرکت لیٹ رہا ۔
” آپ ایسا کیوں کررہے ہیں ہائیسم ۔مجھے نیند نہیں آرہی ۔ایسے مت کریں ۔مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ”
روتے ہوئے وہ بےبسی سے اپنی حالت بیان کر رہی تھی ۔ہائیسم پہلے اس کے عمل اور اب اس کے الفاظ پر اپنے دل کی دھڑکنوں میں تیزی محسوس کر رہا تھا ۔
” کیوں نہیں آرہی ؟؟ کل تو بہت اچھی نیند آئی ہوگی تمہیں ۔اور آج بھی واپس آنے کی کوئی ضروت نہیں تھی تمہیں ۔اپنے بھائی کے پاس ہی رہنا تھا ۔آخر کو اس سے تمہارا خونی رشتہ جو ہے ۔”
کل سے آج تک کی ساری بھڑاس نکل رہی تھی ۔۔ترتیل بھی خاموشی سے جلتی آنکھوں سے روتے ہوئے اس کی ہر شکایت سننے لگی ۔
” میں ایک گھنٹے کے بعد ہی واپس آگئی تھی ہائیسم۔میں وہاں رات نہیں رکی ۔”
اس کے سینے سے سر اٹھا کر بولی تھی۔
” جھوٹ۔سفید جھوٹ ”
بغیر اس کے سسکنے کی پرواہ کیے وہ سلگ کر بولا تھا۔
” میں کیسے آپ کو یقین دلاوں ۔نانا سے خود پوچھ لیں آپ ۔ان کے ساتھ ہی واپس آئی تھی ۔اگر ان پر بھی یقین نہیں ہے تو چوکی دار پوچھ لیں ۔”
بچوں کی طرح ہونٹ باہر نکال کر بے چارگی سے بولی ۔
” کمرے میں کیوں نہیں آئی پھر ۔جانتی ہو ساری رات تمہیں سوچ سوچ کر جلتا کڑھتا رہا ہوں ۔مگر تمہیں کیا پرواہ ہے میری ۔تم رہو اپنے بھائی کے پاس ۔”
وہ مزید کٹھور بنا ۔ترتیل نے تڑپ کر اس کو دیکھا ۔مگر اب وہ اپنے بازو آنکھوں پر رکھ چکا تھا ۔
” میں کیسے آتی آپ نے کمرے کو لاک کیا ہوا تھا ۔میں نے ناک بھی کیا پر آپ نے نہیں کھولا ۔سوری آج کے کبھی بھائی کے ساتھ نہیں جاوں گی آپ کہیں گے تو بات بھی نہیں کروں گی ان سے ۔”
مصلحانہ انداز اپنا کر بولی تھی۔وہ بغیر کوئی توجہ دیئے دل پر بند باندھے اپنی شرٹ کو بھیگتا ہوا محسوس کرنے لگا ۔
” تم اور تمہارے بھائی جیسا بے حس نہیں ہو ۔کہ اب خونی رشتوں میں دراڑ ڈالوں گا ۔تم ملو اس سے کب روکا ہے میں نے مگر کم ازکم رشتوں میں اعتدال رکھنا تو سیکھوں ۔چھوٹی بچی تو نہیں ہو اب تم شادی شادہ ہو ۔وہ الگ بات ہے کہ اب تک مجھے بھی محسوس ہو سکا کہ میں شادی شدہ ہو ۔”
آخری جملہ جل کر کہتا منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا کر دوبارہ سونے کی جدوجہد کرنے لگا ۔
” ترتیل اگر اب مجھے تمہارے رونے کی آواز آئی تو میں خود تمہیں سراج انکل کے گھر چھوڑ کر آوں گا ۔۔سو جاو اور مجھے بھی دو گھڑی سو لینے دو ”
اس کے ڈپٹنے کی دیر تھی وہ سہم کر اس کے سینے میں مزید منہ کھسا کر چپ ہو گئی ۔اس وقت اپنے بے لگام جذبات کو قابو کرنا ہائیسم کے لیے حد درجہ کٹھن تھا۔
” سارے نمونے میرے ہی قسمت میں لکھے ہیں ۔دونوں بھائی بہن عقل سے پیدل ہو ۔”
اس کے سو جانے کا اطمینان کرکے دل کے پھپھوڑے پھوڑنے لگا ۔جب مزید برداشت نا ہوا تو اپنے سینے پر پڑے ہاتھ کی ہتھیلی چوم لی ۔ساتھ ہی جھک کر اس کے شفاف ملائم بے داغ سفید گال کو ہونٹوں سے چھوا ۔۔
” اتنی جلدی تو میں بھی بخشنے والا نہیں ۔اگر ایسے ہی روٹھ روٹھ کر میکے جانے لگی تو میری تو ہوگیا بیڑہ غرق ۔”
سر جھٹک کر لائٹ آف کرکے ترتیل کے سر تلے دبے اپنے سن ہوتے بازو کی پرواہ کیے بغیر لیٹا رہا ۔۔
ڈرائینگ روم میں اس وقت داماد اور سسر آمنے سامنے ایک دوسرے کو سلگتی نظروں سے گھورنے میں لگے ہوئے تھے ۔ہائیسم کبھی عالم کو دیکھتا تو کبھی فودیل کو ۔
” آپ نے کہہ دیا اور میں نے جی حضوری میں گردن ہلا کر ان پر ستخط کر دیئے۔”
تنفر سے خلاء کے کاغذات کو دیکھتا بولا ۔عالم نے لب پویست کیے سرد نگاہوں سے اسے دیکھا ۔
” کیوں اب کیا تکیف ہے تمہیں ۔پیچھا چھڑانا تھا نا روفہ سے تو لو اپنے آزادی کے پروانے پر قلم گھسیٹ کر جان چھوڑو میری بیٹی کی ۔”
” نہیں چھوڑتا میں جان ۔بالکہ اب تو وہ میری جان بن چکی ہے ۔جو ہوتا ہے کر لیں آپ ۔میں بھی دیکھوں کیسے زبردستی میرے ستخط کروائیں گے سسر جی ۔”
ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بولتا ہوا عالم کو وہ زہر سے بھی برا لگا ۔ہائیسم نے بھنویں اچکا کر اس کے تیور دیکھے وہ تو آج کسی اور ہی موڈ میں تھا۔
” زیادہ میرے سامنے بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔سائین کرو ان پر اور چلتے بنو ۔پتا نہیں کون سی منحوس گھڑی میں تمہیں اپنا داماد بنانے کا سوچا تھا میں نے ۔”
عالم غصیلے لہجے میں کاغذات کی طرف اشارہ کرکے بولے ۔
” بس دیکھ لیں اب تو میں جان نہیں چھوڑوں گا آپ سب کی ۔بلاوجہ اپنا بی پی نا بڑھائیں اور رہی بات ان کی ۔”
پیپرز کی طرف دیکھتا ان کو اٹھ کر غور سے پڑھنے لگا ۔اگلے ہی پل ان کے ٹکرے ٹکرے کرکے ہوا میں اچھال دیئے ۔
” نکاح آپ کی مرضی سے ضرور ہوا تھا مگر ختم آپ کی منشا پر ہرگز نہیں ہوگا ۔آپ کی بیٹی ہوگی آپ کی فرمانبردار اولاد ۔پھر وہ کیا ہے نا مجھے تو میرے نانا بھی بہت بدلحاظ اور سر پھرا کہتے ہیں تو اس لیے مجھ سے تو کسی بھلائی کی توقع ہی مت رکھیں ۔سالے پلس بہنوئی صاحب فادر ان لا کو ٹھنڈی ٹھنڈی کوکا کولا پلاو کہیں طبیعت نا بگڑ جائے ۔”
طنزیہ کہتے اس نے عالم کا پارہ ہائی کرنے میں کوئی کسر نا چھوڑی تھی ۔ہائیسم نے عالم کو دیکھا جن کی سرخ رنگت اس کی ضبط کی گواہ تھی ۔
” بہتر ہو گا تم چلے جاو یہاں سے ۔بابا کو بہت تپا چکے ہو۔اب بہت ہو گیا ”
ناگواری سے بول کر ہائیسم اٹھ کر عالم کے پاس صوفے پر بیٹھا ۔
” ترتیل سے مل کر جاوں گا میں ۔اور جہاں تک بات ہے ان کو تپانے کی تو فکر مت کرو جب تک میرا خون جلا جلا کر مجھے مار نا دیا ان کو چین نہیں آئے گا ۔”
چبا چبا کر بولتا سر ہوا میں مار کر عالم کی لال انگارہ آنکھوں کو دیکھنے لگا ۔
” وہ کالج ہوتی ہے اس وقت شاہد بھول گئے ہو تم مہربانی کرکے تم بھی اب جاو ادھر سے ۔”
جبڑے بھینجے ہائیسم بھڑک کر بولا ۔فودیل بھی ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا ۔
” امید ہے آپ دوبارہ مجھے اس سلسلے میں بلا کر اپنا اور میرا خون خشک نہیں کریں گے کیونکہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں میں کتنا ڈھیٹ ہوں ۔”
زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بول کر شرٹ کو جھٹک کر باہر کی طرف چلا گیا ۔
” بڑی کوئی ذلیل اولاد ہے زکی کی ۔پتا نہیں کس پر چلا گیا ہے خبیث ”
برہمی سے بول کر پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں پی گئے ۔۔
” آپ کی ہی چوائیس ہے ۔اب بھگتیں ۔”
کندھے اچکا کر بولتا وہ بھی ڈرائیبگ روم سے نکل گیا ۔
” میری اپنی اولاد بھی کم نہیں ۔”
بڑبڑا کر گلاس شیشے کی میز پر پٹخ کر ماتھا مسلنے لگے ۔فودیل نامی بلا سے جان چھڑانا فلحال ان کو ناممکن ہی لگ رہا تھا ۔
طیش میں گاڑی سے نکل کر ہائیسم تیز تیز قدم اٹھاتا گارڈن سے ہوکر گھر میں داخل ہوا لاونج میں فضا اور عالم بیٹھے کوئی ٹاک شو دیکھ رہے تھے ۔آج فضا کی طبیعت بہتر تھی تبھی باہر نظر آرہی تھیں ۔۔ان دونوں کو سلام کرکے بے حد سنجیدگی سے سیڑھیاں چڑھ گیا ۔
عالم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا جس ہر فضا نے شانے اچکا کر لاعلمی کا اظہار کیا ۔وہ پہلے اس کے دیر سے گھر آنے پر کچھ حیران تھے اور اب اس کے تاثرات سے پریشان بھی ہوگئے تھے ۔
ایک ہی جست میں دروازہ کھول کر وی کمرے میں داخل ہوا حسب توقع ترتیل اوندھے منہ بیڈ پر لیٹی رونے میں مصروف تھی
” کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ ۔کیوں رونا دھونا مچا رکھ ہے ۔کھانا کیوں نہیں کھا رہی تم مرنے کے ارادے ہیں ؟؟ اوپر سے کالج میں کیا بےوقوفی کرکے آئی ہو ۔اگر کوئی تمہارا مذاق اڑائے گا تو تم کلاس چھوڑ کر گھر بھاگ آو گئی ۔”
سختی سے اس کا بازو پکڑ کر سیدھا کیا ۔ غصے میں بولتے ہوئے آخر میں وہ دھاڑا تھا ۔ایک پل کو ترتیل کانپی تھی ۔مگر دوسرے ہی لمحے وہ بھی غصے سے اپنا بازو چھڑا کر دور ہوئی ۔
” اب کیوں آئے ہیں آپ میں کھانا کھاوں یا نا کھاوں ۔جیوں مروں آپ کو اس سے کیا ۔؟؟ آپ کو بس اپنا کام عزیز ہے ۔میری کوئی پرواہ نہیں ہے ۔اب جائیں یہاں سے نہیں تو میں چلی جاوں گی ۔”
وہ چینخ کر بولی ۔ہائیسم اس کے انداز اور تیور دیکھ کر دنگ تھا ۔پہلی بار وہ اس طرح سے بھڑک رہی تھی ۔
” تم جا کر دیکھاو مجھے اس کمرے سے باہر ۔ٹانگیں توڑ دوں گا ۔میری نرمی کا ناجائیز فائیدہ مت اٹھاو ۔ پہلے تم ہر کام نجمہ سے کروانے کے لیے میری منت کرتی تھی اور اب میں خود تمہارا کام نہیں کرنا چاہتا تو اس میں بھی تمہیں اعتراض ہے ۔کالج سے آکر یونیوفورم چینج کیوں نہیں کیا تم نے ابھی تک ۔”
ماتھے پر سلوٹیں ڈالے وہ بھی جوابا غرا کر بولا ۔ترتیل نے آنسوں بھری نگاہوں سے اس کو دیکھا ۔
” میں جب منع کرتی تھی تو اب کو زبردستی میرا ہر کام کرنا ہوتا تھا ۔اور اب جب میں عادی ہوگئی ہوں تو اپنا پیچھا چھڑا رہے ہیں ۔کیوں کررہے ہیں میرے ساتھ ایسا ۔ہائیسم میری غلطی اتنی بڑی ہے جس کی سزا اپنی بے رخی سے دے رہے ہیں ۔آپ بہت برے سفاک انسان ہیں پتھر دل ۔”
روتے روتے آخر میں بے سبی سے چلا کر بولی ۔ہائیسم کچھ دیر اس کو یوں ہی سرد نگاہوں سے دیکھتا رہا ۔
” ہاں میں تو تمہیں اس دنیا کا سب سے فضول اور برا انسان لگوں گا ہی ۔تمہارے اس دل پر دوسرے مرد کا راج جو ہے ۔آ رہا ہے کل جلیس اب تم اس نیک دل انسان کے آگے پیچے گھومنا جیسا پہلے کرتی تھی ۔میں تمہارے قابل کہاں ۔نا تو اب تک تمہیں مجھ سے محبت ہو سکی نا مجھے شوہر تسلیم کر سکی ہو ۔ اب بھی وہ ہی ہے تمہارے دل میں دماغ میں یہاں تک تمہاری سوچوں میں بھی ۔”
سپاٹ انداز میں کہہ کر دل کی کھولن کم کرنے کے لیے کوٹ اتار کر بیڈ پر پھینکا ۔ترتیل کو اس کے الفاظ تازیانے کی طرح لگے تھے ۔جانے انجانے میں بڑی کاری ضرب ہائیسم نے اس کے دل پر لگائی تھی۔
” کیا میں نے آپ کو بولا تھا مجھ سے شادی کرنے کو ۔ایک معذور بٹی ہوئی عورت سے شادی کرنے کو کس نے کہا آپ کو ۔جب جانتے تھے میں کسی اور کو چاہتی ہوں ۔آپ مجھے خود سے زیادہ جاننے کا دعوا کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ آپ یہ جان نہیں سکے میں جلیس سے محبت نہیں کرتی تھی صرف وقتی طور پر اپنی کم عمری کی وجہ سے اس کی طرف مائل ہوگئی تھی ۔
مگر مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں ہے کہ آج آپ نے اپنے کم ظرف ہونے کا ثبوت دیا ہے مجھے ۔خود مرد باہر منہ ماری کرے افئیر چلائے وہ تب بھی پاک ہے کیوں کے وہ مرد ہے اس کے پاس یہ سب کچھ کرنے کا اختیار ہے ۔اور عورت کی کم عمری کی ایک غلطی اس کے عمر بھر کا طعنہ بن جاتی ہے۔
نا تو میری کوئی ماں تھی نا بہن جو مجھے سمجاتی عقل دیتی ۔صرف بھائی تھا جو سب جان کر بھی مجھے سمجھا نہیں سکا ۔مگر آپ بھی آخر کب تک برداشت کرتے مجھے ایک دن آپ کو مجھ سے اکتا جانا تھا میں جانتی تھی مگر بہانہ میرا خود کا بھائی بنے گا یہ نہیں جانتی تھی ۔جلیس سے تو محبت نہیں تھی مجھے مگر آپ سے محبت کرنا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی ۔”
سرد انداز میں کہتی ہائیسم کو ساکت چھوڑ کر دروازے کی طرف بڑھ گئی جس کی رنگت ترتیل کے شکوے اور خاص کر انکشاف پر بدل چکی تھی ۔
بے دردی سے آنسو صاف کرتے ہوئے اپنے پہلے کمرے میں آکر نجمہ کی مدد سے چینج کیا ۔ایک نظر ہائیسم کے کمرے کے دروازے پر نظر ڈال کر سڑھیاں اتر گئی ۔
” اشرف انکل نانا کے گھر چلیں ”
رات کے دس بجے ڈرائیور کچھ حیران ہوا ۔مگر پھر سعادت مندی سے ترتیل کے لیے پچھلی پیسنجر سیٹ کا دروازہ کھول دیا ۔اس سے پہلے وہ بیٹھتی اس کا بازو مضبوط گرفت میں آچکا تھا ۔
” کمرے میں چلو تالی ۔”
ہائیسم نے نرمی سے اس کا رخ اپنی جانب کرکے نرم لہجے میں کہا ۔غصے میں وہ ترتیل کا کتنا دل دکھا گیا تھا اس بات کا اس کو اندازہ تھا ۔ ترتیل کے اعتراف محبت نے سرشار کیا تھا ۔
” مجھے نہیں جانا آپ کے کمرے میں ۔نا آپ کے پاس رہنا ہے ۔اب میں نانا کے گھر جاوں گی آپ کی ہربات ان کو جاکر بتاوں گی ۔۔”
اشرف کی موجوگی کا لحاظ کیے بغیر تیز لہجے میں بول کر اپنا بازو چھڑایا ۔ہائیسم اس کے سخت ردعمل پر پریشان ہوا تھا ۔
” آپ جائیں جاکر اپنا کام کریں ۔۔”
اشرف کو بھیج کر دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوا جو غصے مین بغیر سوچے سمجھے اب گیٹ کی طرف جا رہی تھی ۔
” تالی پلیز کمرے میں چلو ۔آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔کہاں جا رہی ہو ۔یار ایم سو سوری ایک بار بات تو سنوں ۔”
دوبارہ اس کے دونوں کو گرفت میں لیتا ملتجی ہوا ۔ترتیل نے شکوے بھری نگاہوں سے اسے دیکھ کر پھر بازو چھڑانے چاہے ۔
وہ سمجھ گیا تھا وہ کبھی خود سے نہیں جائے گی ۔
تبھی گہرا سانس بھر کر اس کو باہوں میں اٹھائے اندر کی جانب بڑھنے لگا ۔
” چھوڑیں مجھے آپ کے ساتھ کسی قیمت پر نہیں جاوں گی ۔آپ ایک فضول انسان ہیں ۔کوئی پرواہ نہیں ہے میری ۔مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ ۔”
دونوں ٹانگیں ہلا کر بائیں ہاتھ سے اس سے کندھے پر مکے جڑتے چلا رہی تھی ۔وہ بھی بنا توجہ دئیے کان لپیٹ کر چلتا رہا ۔
پاوں سے کمرے کا دروازہ کھول کر دوبارہ پاوں سے دھکیل کر بند کیا ۔ایک نظر اسے دیکھا جو خونخار نگاہوں سے لب بھینجے دیکھ رہی تھی ۔
” اب بتاو کیا کہہ رہی تم ۔کہ مجھے پرواہ نہیں ہے ۔تو بتاو مجھے اپنی تالی کی پرواہ نہیں ہوگی تو پھر کس کی ہو گی ۔”
نیچے اتار کر مدھم لہجے میں کہہ کر اس کی ٹھوڑی پکڑ کر اٹھائی ۔ترتیل نے ناگواری سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔ہائیسم کو اس کی حرکت بری لگی پھر بھی وہ برداشت کر گیا ۔
” پیچھے ہوں باہر جانا ہے مجھے ۔”
ایک دم ہی بھڑک کر بولی ۔ہائیسم نے ایک جھٹکے سے اس کا بازو کھینچ کر اپنے سینے میں زور سے بھینج لیا ۔وہ پھڑپھڑا کر رہ گئی ۔کافی دیر تک مزاہمت کرتی رہی ۔پھر تھک ہار کر ہانپتی ہوئی اس کے سینے سے پیشانی لگا کر پر سکون ہوگئی ۔۔
” بس یا اور بھی کوشش کرنی ہے ۔”
اس کی مسکراتی سرگوشی پر ایک بار پھر ترتیل کا خون ابلا تھا
اچانک ہی اس کے بازو ہر اپنے تیز دانت گاڑھ دئیے ۔ہائیسم ہکا بکا اس کی حرکت کو دیکھ کر رہ گیا ۔جو پورے جوش سے اپنے دانت اس کی مضبوط کلائی پر گاڑھے کھڑی تھی ۔
درد کی شدت پر وہ لب آپس میں پیوست کیے اس کے ٹھنڈے ہونے کا انتظار کرنے لگا ۔۔
” اور کچھ ۔۔اگر کوئی تھپڑ مکا یا پھر کوئی اور تشدد کرنا ہے تو کر لو۔بعد میں موقع نہیں دوں گا ۔”
سنجیدگی سے کہتے آخر میں معنی خیزی سے بولا ۔ترتیل نے غصے سے منہ موڑ لیا ۔۔
صوفے پر بٹھا کر خود بھی اس کے سامنے بالکل پاس بیٹھ گیا ۔اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر انگوٹھے سے اس کے ہاتھ کی ہشت سہلانے لگا ۔
” میں آج بہت پریشان ہو گیا تھا ۔پہلے تمہارے پروفیسر کا فون آیا مجھے کہ تم ایک گروپ کے مذاق اڑانے پر روتے ہوئے بغیر کسی کو کچھ کہے گھر آگئی ہو اور پھر نجمہ کا فون آیا تم چینج کیے بغیر بھوکی پیاسی بیٹھی ہو نا اس کی بات مان رہی ہو نا ماما بابا کی ۔اس لیے مجھے فکر پریشانی اور غصہ سب ساتھ ہی آگیا یار ۔ایم سوری ۔”
مدھم پشیمان لہجے میں کہہ کر اس کے ہاتھ کی پشت پر ہونٹ رکھے ۔
” جلیس کے بارے میں جو کہا اس کے لیے میں خود کو بھی معاف نہیں کروں گا ۔ پتا ہے یہ بات جان کر کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے میرا دل کتنی زور سے دھڑکا تھا ۔اگر مجھے جھوڑ کر جاو گی تو کیسے رہوں گا میں ۔مجھ تو سانس بھی نہیں آئے گی ۔نیند بھوک پیاس تو بہت دور کی بات ہے۔ ”
بے چارکی سے کہتے آخر میں اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ۔۔
” سوری نا سویٹی ۔معاف نہیں کرے گی مجھے میری پیاری سی سویٹ جان ۔”
اس کے مسکینیت بھرے انداز پر ترتیل نے خفگی سے دیکھا جو اب کان پکڑے زیر لب اس کو سوری کہہ رہا تھا ۔ترتیل آنسو پیتی اس کے سینے سے لگ کر سسکنے لگی ۔
ہائیسم اس کو صوفے سے بیڈ پر لے آیا ۔اس کا ڈوپٹہ اتار کر سائیڈ کر رکھا ساتھ ہی بالوں سے کلپ اتار کر کھول دیئے ۔اب اس کے بال کافی حد تک کمر پر آنے لگے تھے ۔
” رویا نا کرو یار ۔چھوٹی چھوٹی بات پر رونے لگو گی تو میرے بچے تم پر چلے جائیں گے پھر میں کس کس کو چپ کرایا کروں گا ۔بتاو مجھے۔ ”
لائیٹ بند کر کے ترتیل کو اپنی گرفت میں کر اس پر جھک کر سنجیدگی سے کہنے لگا ۔
ترتیل کو سمجھ نا آیا وہ سنجیدہ ہے یا مذاق کر رہا ہے تبھی ٹکر ٹکر اس کو دیکھنے لگی ۔
ہائیسم نے مسکراہٹ دبا کر اس کی کالی آنکھوں پر نرمی سے ہونٹ رکھے جو تھوڑی تھوڑی سوج بھی گئی تھیں ۔۔
” بچے ؟؟ ہمارے بچے ؟؟ ”
وہ ہونق پن سے بولی ۔
” ہاں ترتیل اور ہائیسم کے بچے ۔ہم دونوں کی محبت کی نشانیاں ۔۔”
کھل کر مسکراتے ہوئے اس کے دونوں گالوں کو چوما ۔۔
ترتیل نے سٹپٹا کر دو ہونا چاہا مگر ہائیسم کی گرفت نے اجازت نہیں دی ۔
” تو کیا خیال ہے ؟؟ جلیس کو ماموں بنا دیں ۔؟؟”
شرارت سے کہتے اس کی کان کی لو کو لبوں سے چھوا ۔ترتیل نے جل کر اس کے کندھے پر مکا جڑ دیا ۔
ہائیسم کا قہقہہ پورے کمرے میں گونجا ۔
” مذاق کر رہا ہوں ۔میری میٹھی سی جان ۔تم پر رب کی ذات کے بعد سب سے زیادہ اعتبار ہے مجھے ۔اور اب تو بے حساب ہے آخر کو ہم بھی آپ کے دل پر قبضہ جما کر محبوب کے عہدے پر فائیض ہو چکے ہیں ۔”
اس کے گمبھیر لہجے پر ترتیل نے مسکرا کر ہائیسم کے کندھے کے گرد اپنے ہاتھ لپیٹ کر آنکھیں بند کر لیں ۔
اس کی پیاری سی مسکراہٹ پر ہائیسم نے بھی مسکرا کر اس کے گرد اپنا محبت بھرا شدتوں سے لبریز حصار کھینچ لیا ۔