فجر کی اذان کے ساتھ ہی اسکی آنکھ کهل گئی تهی چند لمحوں تک تو اسے سمجھ نہ آیا وہ کہاں ہے دفعتا اسکی نگاہ اپنے برابر سوۓ شاہ میر پہ پڑی اور اگلے هی پل یاداشت کے پردے پہ رات کا منظر گهوم گیا سر جهٹک کر دهیرے سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکال کر غسل کی نیت سے واش روم کی جانب بڑهی
.
نماز پڑهکر دعا کے لئے ہاتھ اٹها دئیے
“یااللہ… تو رحم کرنے والا هے پس مجھ پہ بهی رحم فرما دے….. همت دے مجهے… تیری رضا میں راضی رهنے کی توفیق دے…… اپنے ماں باپ کی عزت کی لاج رکهنے کا حوصلہ دے مجهے مالک…..”
ہاتھ اٹهاۓ وہ محودعا تهی آنکهوں سے آنسو رواں تهے
¤ ¤ .¤ ¤ ¤ ¤
[پانچ ماہ بعد]
.
“بسم اللہ میری گڑیا آئی هے آؤ آؤ”
سلمہ بیگم نے دروازے سے داخل هوتی حریم کو دیکھ کر کہا
“اسلام و علیکم ماما”
آگے بڑھ کر سلام کیا
“وعلیکم اسلام”
اور پهر اسے ساتھ لگاۓ اندر داخل هوئی
ان پانچ ماہ میں بہت کچھ بدل گیا تها احسن اور احمد اسٹڈی کے لئے لندن جا چکے تهے دادی مزید گوشہ نشین هو گئیں تهیں
“ارے شاہ میر نہیں آیا کیا؟”
سلام کے بعد نے دادی نے پہلا سوال کیا
“دادو…. انہیں کام تهاکوئی تو مجهے چهوڑ کے گئے هیں شام کو آ جائیں گے لینے”
نظریں چرا کے بولی
“ماما بهوک لگی هے پلیز کچھ مزیدار سا بنا دیں”
جلدی سے بولی کہیں کچھ اور نہ پوچھ لیں
“هاں میں ابهی بناتی هوں تیری پسند کا کهانا”
سلمہ بیگم خوش تهی بیٹی کی شکل ایک ماہ بعد دیکهی تهی
“میں بهی تمهاری مدد کروا دیتی هوں”
حنا بیگم بهی اٹهه گئی
“حریم کیا بات هے پتر”.دادی کی جہاندیدہ نظروں نے کچھ هی دیر میں اسکا ایکسرے کرلیا تها سو انکے جانے کے بعد بولیں
“کچھ بهی نہیں دادو..”
اٹهتی هوئی بولی
“تو خوش هے نا وهاں”
اور وہ رک گئی پلٹ کر ایک نظر نزهت بیگم کو دیکها اور بنا کچهه کہے مسکرا کر باهر کو چل دی جبکہ نزهت بیگم نے دل تهام لیا
“یااللہ خیر کی خبر رکهنا”
.
.
.
شام کو سب لوگ آفس سے لوٹے تو حریم کو دیکھ کر بہت خوش هوۓ رات کے کهانے کی تیاریاں ابهی سے سلمہ اور حنا بیگم نے شروع کر دیں تهیں آخر کو داماد جو آ رها تها
“همارے لئے کبهی اتنا اہتمام نہیں کیا اور اب بیٹی داماد کے لئے نجانے کیا کیا بن رها هے”
فاروق صاحب قدرے اونچی آواز میں بولے اور کچن میں بزی سلمہ بیگم مسکرا دیں
“چاچی کچھ جلنے کی بو آ رهی هے”
واسع بولا تو سب کیساتهه حریم بهیمسکرا دی
“حریم بیٹا یہ شاہ میر کب تک آۓ گا نو بجنے والے هیں”
مجید صاحب نے وال کلاک کی طرف دیکهتے هوۓ کہا
“پتہ نہیں تایا ابو”
“تو بیٹا کال کر کے پتہ تو کرو”
پیار سے بولے تو اس نے سر هلا دیا
جب سے آئی تهی اپنا فون جو شاہ میر نے دلایا تها آف کیا ہوا تها
تبهی لینڈ لائن کی گهنٹی بجی حنا بیگم جو قریب هی کهڑی تهیں
انہوں نے فون اٹهایا دوسری طرف شاہ میر تها
“میں حریم کو بلاتی هوں بیٹا”
“نہیں آنٹی بس آپ اسے بتا دینا میں ایک کیس کے سلسلے میں دو دن کے لئے پنڈی جا رها هوں اگر اسے گهر جانا هو تو جا سکتی هے اگر وہیں رهنا چاهے تو بهی مجهے اعتراض نہیں”
جلدی سے بولا جبکہ حریم اپنی جگہ فریز هوئی حنا بیگم کے چہرے کو دیکھ رهی تهی
“اچها بیٹا میں بتا دونگی”
اور دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی تهی
.
.
.
حنا بیگم نے سب کو اسکے نہ آنے کی وجہ بتا دی تهی شہر کا جانا مانا وکیل تها سو سب کو اسکے کام کی نوعیت کا اندازہ تها….
کهانا کهانے کے بعد کچھ دیر خوش گپیوں کے بعد سب نیند سے بوجهل آنکهیں لئے اپنے اپنے کمروں کی طرف چل دئیے تهے
.
.
ایک حریم تهی جسکی آنکهوں سے نیند کوسوں دور تهی کهانا بهی ڈهنگ سے نہ کهایا تها ایک عجیب سی بےچینی اور وحشت اسے محسوس هو رهی تهی دسمبر کی ٹهٹهرتی رات تهی اپنے گرد شال لپیٹ کر وہ باهر آئی سرد هوا کے جهونکے نے استقبال کیا نزهت بیگم کے روم کی لائٹ آن دیکھ کر انکی جانب چل دی
“دادو سو رهی هیں کیا”
قریب جاکر بولی
“ارے نہیں بڑهاپے میں کہاں آتی هے نیند…. تجهے نہیں آ رهی نیند”
اسے پاس بیٹهاتے هوۓ بولیں
“نہیں دادو….”
“پتر حنا نے بتایا تها مجهے.. شاہ میر نے تجھ سے بات نہیں کی.. کیا بات هے کوئی مسلہ هے تم دونوں کے بیچ”
“نہیں دادو ایسا کچھ نہیں هے”
جهنجهلا کر بولی
“پهر کیا بات هے بتا میرا بچہ”
“دادو میرے خواب…..”
انکی گود میں سر رکهتے هوۓ بولی
“اسکا مطلب میں بالکل ٹهیک سوچ رهی تهی ابهی تک تو نے دل سے قبول کیا هی نہیں هے اسے”
اور وہ چپ رهی
“دیکھ پتر میاں بیوی گاڑی کے دو پہیۓ هوتے هیں ایک اگر ٹهیک هو اور دوسرا ذرا سا بهی خراب هو تو گاڑی نہیں چل سکتی اسی طرح میاں بیوی کا رشتہ هوتا هے اور جہاں تک بات هے شاہ میر کی بات نہ کرنے کی تو اسکی بهی ذمہ دار تو هے”
اور حریم چونک کر انہیں دیکهنے لگی
“میں کیوں دادو… میں نے تو کچھ نہیں کیا”
“بیٹا یہ جو مرد هوتے هیں نا یہ بیوی سے پیار کی امید رکهتے هیںوہ چاهتے هیں جیسا پیار وہ دیں ویسا هی بدلے میں انہیں ملے ورنہ یہ بدگمان هونے میں وقت نہیں لگاتے اور پتر اگر مرد بدگمان هو جاۓ نا تو عورت کہیں کی نہیں رهتی”
اسکے بالوں پہ ہاتھ پهیرتے هوۓ بولیں
“اور یہ خواب خیال یہ سب فلموں ڈراموں کی باتیں هیں اگر رب نے تجهے گوری چمڑی دی هے تو شاہ میر کو بنانے والا بهی تو وهی هے نا… کیا هوا جو تهوڑا سا سانولا هے تیرے سے پیار بهی تو بہت کرتا هے نا”
اور حریم کی آنکهوں کے آگے اسکا والہانہ انداز گهوم گیا دل میں کہیں شرمندہ هوئی اسکے پیار کے بدلے اس نے کیا دیا تها اسے صرف سرد مہری روکها پهیکا رویہ… صرف اس لئے کہ وہ سانولا تها….
“کبهی حبشی لوگوں کی طرف دیکھ اور شکر کر رب کا”
واقعی وہ کتنی ناشکری هوگئی تهی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“رافع بهائی مجهے گهر تک ڈراپ کر دیں گے پلیز”
ناشتہ کی ٹیبل پہ حریم بولی
فاروق اور مجید صاحب واسع کے ساتھ آفس کے لئے نکل چکے تهے جبکہ رافع بهی تیار تها
“کیوں شاہ میر نے تو پرسوں آنا هے نا تم نے کیا کرنا هے جاکر”
رافع حیرانی سے بولا
جبکہ دادی حنا اور سلمہ بیگم حریم کو دیکهکر مسکرا رهی تهیں
“بس میں جاؤں گی کپڑے وغیرہ بهی نہیں لائی اور گهر بهی اکیلا هے”ایک رات میں هی سمجھ دار هوگئی تهی
“فکر مت کرو گهر کو اکیلے ڈر نہیں لگ رها بیٹهی رهو ادهر هی چپ کرکے”
“رافع لے جا بیٹا کیوں ستا رها هے”
دادی بولیں
“مگر دادو..”
“حریم جاؤ بیگ وغیرہ لے آؤ اپنا”
حنا بیگم بولیں اور سلمہ نے بهی تائید کی
“لو جی یک نا شد تین شد… چلیں جی کر دیتا هوں ڈراپ”
رافع ٹهنڈی سانس بهر کے بولا
.
.
.
.
اپنے گهر آ کر اسے یکایک سکون کا احساس هوا رات والی بے چینی اور وحشت غائب هوگئی تهی
یہاں آ کر اس نے اپنا موبائل فون آن کیا چارجنگ پہ لگایا اور گهر کے کاموں میں جت گئی ماسی صبح شاید گهر کو لگا تالا دیکهکر جا چکی تهی سو بارہ بجے تک سارے کام نبٹاۓ کاموں سے فارغ هوکر شاور لیا کهانا کها کے تهوڑی دیر آرام کی نیت سے لیٹی آنکھ کهلی تو مغرب کی اذانیں هو چکی تهیں
نماز سے فارغ هوکر موبائل دیکهکر کوئی میسج کوئی کال نہیں
دل کو عجیب سا لگا
“کہاں هیں آپ کب تک آئیں گے”
میسج سینڈ کیے دومنٹ هی هوۓ تهے کہ سکرین پہ شاہ میر کا نام چمکنے لگا
“هیلو”
جلدی سے بولی
“هیلو بی بی آپ کون”
دوسری طرف سے ایک اجنبی کی آواز ابهری
“جی میں حریم یہ میرے هیسبینڈ کا نمبر هے پلیز انکو فون دیں”
دل کو کچھ هوا
“ایڈوکیٹ شاہمیر شاہ نام هے آپکے هیسبینڈ کا؟”
“جی هاں پلیز انکو فون دیں”
“بی بی انکی گاڑی کا یہاں هائی وے پہ ایکسیڈنٹ هوگیا هے انکو زخمی حالت میں سٹی هاسپٹل لے گئے هیں”
دوسری طرف سے اطلاع دی گئی تهی
ادهر حریم کے هاتھ سے موبائل فون چهوٹ کر ماربل کے فرش پہ گر پڑا
اور وہ ننگے پاؤں ننگے سر روتی هوئی باهر کی جانب دوڑی
حواس ساتھ چهوڑتے جا رهے تهے گیٹ تک پہنچتے پہنچتے وہ هوش و حواس کی دنیا سے بیگانہ هوچکی تهی
.
.
.
.
هوش آیا تو وہ اپنے کمرے کے نرم و ملائم بیڈ پہ تهی تبهی اسے شاہ میر کا خیال آیا اور ایک جهٹکے سے اٹھ کر کهڑی هوئی مگر اسکے مسلسل گهومتے سر نے اسے دوبارہ بیٹهنے پہ مجبور کر دیا
“شاہ میر”
پهوٹ پهوٹ کے رو دی
.
.
“حریم کیا هوا حریم یہاں دیکهو میری طرف”
شاہ میر نے دودهه کا گلاس سائیڈ ٹیبل پہ رکها اسے اسطرح روتا دیکهکر وہ پریشان سا هوگیا تها
اور جب اس نے نظر اٹها کر شاہ میر کو دیکها تو ایک دم روتے هوۓ اسکے گلے لگ گئی
“شاہ میر مجهے چهوڑ کے مت جانا پلیز ”
اسکے گلے لگی وہ اسکی شرٹ کو اپنے آنسوؤں سے بهیگو رهی تهی
“حریم ریلکس میں کہیں نہیں جا رها یہیں پہ هوں سنبهالو خود کو کیا هو گیا هے تمهیں”
اسے خود سے الگ کرکے اسکاسفید چہرہ جو اس وقت هلدی کی مانند زرد هورها تها اپنے مضبوط ہاتهوں کے هالے میں لے کر بولا
اور وہ اسے نم آنکهوں سے بے یقینی سی کفییت میں دیکهے گئے
“ریلکس هو جاؤ میں یہیں هوں ریلکس”
شاہ میر نے آگے بڑهه کر پانی کا گلاس اٹها کر اسکے لبوں سے لگا دیا
“اب بتاؤ کیا هوا هے میں آیا تو تم گیٹ پہ بے هوش پڑی تهی کیا هوا تها تمهیں”
اور پهر جواب میں حریم نے فون کال اور ایکسیڈنٹ کا بتا دیا اور پهر رو پڑی
“حریم رو مت پلیز… میرا فون کار والٹ سب چوری هوگیا تها میرا کام آج ختم هوگیا تها تو اس خیال سے کہ تم مجهے کال کروگی اور فون بند ملے گا تو پریشان هو جاؤ گی اس لئے لفٹ لے کر آیا هوں میرا کوئی ایکسیڈنٹ نہیں هوا میں بالکل ٹهیک هوں”
اسکے آنسو پونچهتا هوا بولا
“پلیز مجهے چهوڑ کے مت جانا”
ایک بار پهر رودی
“اچها بابا نہیں جاؤں گا یہ دودھ پیو ڈاکٹر نے کہا هے بہت ویکنیس هے اور اس حالت میں ویکینس بالکل نہیں ٹهیک”
شاہ میر اسے اپنے ساتھ لگا کر دودھ کا گلاس دیتا هوا بولا
“کیا مطلب…؟”
اسکی بات پہ وہ چونکی
“مطلب کہ آپ ممی اور میں پاپا بننے والا هوں”
وہ حیران تهی خوش بهی تهی قدرت اسکے قدموں کے نیچے جنت سجانے والی تهی
“تهینک یوحریم تم نے مجهے زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی هے ائی لو یو”
اسکے ماتهے پہ اپنی محبت کی مہر ثبت کرتے هوۓ بولا اور اسے اپنے مضبوط بازوں میں چهپا لیا
دوسری طرف حریم سوچ رهی تهی وہ کن خوابوں کن سیرابوں کے پیچهے دوڑ رهی تهی جبکہ درحقیقت اسکے خواب تو شاہ میر سے جڑے تهے
.
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...