یہ ایک درمیانے درجے کے ہوٹل کا کمرہ تھا جہاں کوئی نیچے زمین پر لیٹا اپنی بکھری ہوئی محبت کی کرچیاں سمیٹنے میں لگا ہوا تھا۔ محبت کے بچھڑنے سے زیادہ اعتبار ٹوٹنے کا ماتم کیا جا رہا تھا۔ جس انسان کو بچپن سے اپنے دل کے قریب رکھا جس کی شخصیت کے ایک ایک پہلو سے آپ کی واقفیت ہو ایسے میں اچانک ایک ایسی بات سامنے آئے جو آپ کے دل کو ٹکڑوں میں بانٹ دے اس وقت جو ایک انسان محسوس کرتا ہے وہی اس وقت فائز کی کیفیت تھی۔ وہ شہر سے باہر جانے کا بول کر یہاں ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ بار بار اسے وہ منظر یاد آرہا تھا جب صفدر علی شاہ کے غنڈوں نے اسے اٹھایا تھا۔
فائز ایمرجنسی کیس نمٹانے کے بعد پارکنگ میں آیا تھا کہ ایک آدمی بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا۔
” وہ ادھر گاڑی میں میری بیوی ہے اس کی طبیعت بہت خراب ہے پلیز آپ اسے آ کر ایک بار دیکھ لیں۔ آپ کا بہت احسان ہو گا۔ ”
وہ ہاتھ جوڑتا ہوا بولا۔
” دیکھیں آپ ہاتھ مت جوڑیں۔ میں دیکھتا ہوں آپ کی بیوی کو چلیں۔ ”
یہ کہہ کر وہ اس کے پیچھے چل دیا۔
” کہاں ہیں آپ کی بیوی؟ ”
وہ گاڑی کے پاس پہنچ کر بولا۔ تبھی اچانک پیچھے سے کسی نے اس کے منہ پر رومال رکھا۔ اس نے مزاحمت کرنی چاہی پر اس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوبنے لگا اور وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا۔
اسے جب ہوش آیا تو خود کو ایک تاریک کمرے میں کرسی پر موجودموجود پایا۔ اس کے دونوں ہاتھ کرسی کے ہتھوں سے بندھے ہوئے تھے جب کہ پاوں آپس میں بندھے ہوئے تھے۔ کمرے میں ایک گول روشن دان بنا ہوا تھا جس سے ہلکی سی روشنی کمرے میں آ رہی تھی۔
کہ ایک چرچراہٹ کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھلا۔ دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی پورا کمرا روشنی میں نہا گیا۔ ایک دم سے روشنی سے فائز کی آنکھیں روشنی سے مانوس نا ہو سکی۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ آنکھیں کھولنے کے قابل ہوا تو اس نے دیکھا سامنے صفدر علی شاہ ایک کرسی پر براجمان تھے۔ ان کے ساتھ چار پانچ گن مین کھڑے تھے۔
” آپ! آپ نے مجھے یہاں کیوں بلوایا ہے اور یہ مجھے ایسے کیوں باندھ رکھا ہے؟ ”
اس نے حیرت سے انہیں دیکھ کر اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔
” ہم نے یہاں تمہیں اپنی مرضی سے نہیں بلایا۔ تمہیں یہاں بلانے کا مقصد تمہارے کسی اپنے کو اس کی خوشی دلوانا ہے۔ ”
وہ اطمینان سے بولے۔
” آپ صاف صاف بتائیں کیا بات ہے پہیلیاں کیوں بجھوا رہے ہیں۔ ”
” تو ٹھیک ہے ہم صاف بات کرتے ہیں۔ تمہاری کزن زوہا اور میرا بیٹا داور علی شاہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ تم ان کے درمیان سے ہٹ جائو۔ ”
” دماغ خراب ہو گیا ہے آپ کا۔ زوہا تو داور کو جانتی تک نہیں۔ میں چھوڑوں گا نہیں آپ کے بیٹے کو۔ ”
وہ ایک دم طیش میں آکر بولا۔
” نہیں نہیں غصہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ بس یہ دعا کرو ہمیں غصہ نا آ جائے۔ ہمارے بیٹے کے خلاف بولنے کی پہلی غلطی تو ہم معاف کر رہے ہیں۔ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ اور زوہا کیسی تو اس کا ثبوت ابھی تمہاری مہمان نوازی کے لیے کچھ لوگ آ رہے ہیں وہ بتا دیں گے تمہیں۔ ”
یہ کہہ کر وہ باہر چلے گئے۔
فائز نے جب وہ تصویریں دیکھیں تو اس کو رمشا کی بات یاد آ گئی جب وہ بول رہی تھی کہ زوار کی تائی زوہا کو بہو نا بنالیں۔ یعنی زوہا داور کو پہلے سے جانتی تھی اور وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حویلی پہنچنے پر جب وہ گاڑی سے اتری تو دونوں جانب ملازمائیں پھولوں کے تھال لے کر انکے استقبال کے لئے کھڑی تھیں۔
حویلی کے دروازے پر پہنچ کر ان دونوں سے کالے بکروں کو ہاتھ لگوا کر صدقے کے لیے بھیج دیا گیا۔
اس کے بعد وہ اندر داخل ہوئے۔
اندر سے حویلی کو اور بھی شاندار انداز میں سجایا گیا تھا۔
اسے لے جا کر لائونج میں رکھے صوفے پر بٹھایا گیا۔ مشعل نے اسکی چادر ہٹا دی۔
گائوں کی ساری عورتیں حویلی کی بہو کو دیکھنے کے لئے جمع تھی۔
زوہا کو دیکھ کر گائوں کی ساری عورتوں کی نظروں میں ستائش ابھری۔
ساری عورتیں حسرت سے خوبصورت لباس اور بیش قیمت زیورات پہنے اس مومی گڑیا کو دیکھ رہی تھیں۔
ان کے مسلسل دیکھنے پر اسے الجھن ہونے لگی۔
” مشعل یہ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں۔ مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔ ”
زوہا پاس بیٹھی مشعل کے کام میں آہستہ سے بولی۔
” یار تم لگ ہی اتنی حسین رہی ہو کہ وہ نظریں نہیں ہٹا پا رہی تم سے۔ ویسے سوچو جب انکا یہ حال ہے تو میرے بھائی کا کیا ہوگا۔ ”
مشعل نے اسے چھیڑا۔
” بدتمیزی مت کرو تم۔ ”
زوہا نے اسے گھورا۔
” اچھا یہ رسموں کے لئے بیٹھی ہیں وہ دیکھ کر ہی جائیں گی۔ میں بھائی کو دیکھتی ہوں۔ ”
یہ کہہ کر مشعل جانے لگی تو زوہا نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔
” یار مشعل میں تھک گئیں ہوں۔ بعد میں کر لیں گے یہ رسمیں۔ ”
وہ داور کا سن کے بولی۔
“زوہا بس تھوڑی دیر لگے گی۔ میں بس ابھی آئی۔ ”
یہ کہہ کر مشعل چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد داور کے ساتھ اسکی واپسی ہوئی۔
تب تک گلزار بیگم بھی آچکی تھیں۔
داور اسکے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔
صوفہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے دونوں کے کندھے آپس میں مل رہے تھے۔
زوہا دوپٹہ ٹھیک کرنے کے بہانے دوسری جانب کھسکی تو داور بھی نا محسوس انداز میں اس کے ساتھ اور زیادہ جڑ کر بیٹھ گیا۔
زوہا اب چاہ کر بھی دور نہیں ہو سکتی تھی ایک تو صوفہ چھوٹا تھا اور دوسرا اسکا دوپٹہ داور کے نیچے دب گیا تھا۔
اللہ اللہ کرکے رسمیں تمام ہوئیں تو داور کھڑا ہوا۔
” اماں سائیں میں دوستوں کے پاس جا رہا ہوں۔ تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔ ”
” داور بیٹے پر یہ کونسا ٹائم ہے جانے کا۔ ”
گلزار بیگم نے اعتراض کیا۔
” اماں سائیں وہ دوستوں نے میری شادی کی خوشی میں محفل رکھی ہے اگر نہیں گیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ بس تھوڑی دیر میں آ جاوں گا۔ فکر مت کریں آپ۔ ”
وہ ان کو مطمئن کرتا وہاں سے چل دیا۔
” مشعل جائو دولہن کو اسکے کمرے میں چھوڑ آئو اور کچھ دودھ پھل بھی دے دو اسے۔ ”
” جی اچھا۔ ”
مشعل اسے داور کے کمرے میں چھوڑ کر جا چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور سرشار سا اپنے کمرے کے باہر کھڑا تھا۔
ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا اور ہزار ارمان دل میں لئے کمرے میں داخل ہوا۔
بیڈ کی جانب دیکھا تو وہ دشمن جان کمبل لپیٹے سوئی ہوئی تھی۔
اسکے دل میں چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔
وہ جا کر صوفے پر بیٹھ گیا اور اس کو دیکھنے لگا جو اس کے ارمانوں کا خون کرکے خود خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔
وہ اٹھ کر اس کے پاس گیا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ زوہا ایک ہاتھ گال کے نیچے رکھے بچوں کے سے انداز میں سوئی ہوئی بہت معصوم لگ رہی تھی۔
بال سارے چہرے پر آئے ہوئے تھے۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکے بالوں کو پیچھے کیا اور اس پر جھکنے لگا پر پھر ایک جھٹکے سے اٹھا اور واش روم کی جانب بڑھ گیا کیونکہ وہ اسکی بے خبری کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ چینج کرکے باہر آیا اور بیڈ کی دوسری جانب جا کر لیٹ گیا۔
ابھی اسے لیٹے چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ وہ کچھ گیلا محسوس کر کے اٹھا تو دیکھا وہ پوری سائیڈ گیلی ہوئی تھی۔
اس نے زوہا کو دیکھا اسے حیرت ہوئی کہ یہ معصوم صورت ایسے کارنامے بھی انجام دے سکتی تھی۔
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ اپنا تکیہ اٹھا کر صوبے کی جانب بڑھ گیا۔
یہ تو شکر تھا کہ صوفہ بڑا تھا جو وہ آرام سے لیٹ گیا۔
وہ زوہا کے اس رویے کے پیچھے کی وجہ کو سوچنے لگا پر کوئی سرا اس کے ہاتھ نہ لگا۔
یہی سوچتے سوچتے نا جانے کب وہ نیند کی وادی میں اتر گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو دیر سے سونے کے باوجود زوہا کی آنکھ فجر کی اذان کے ساتھ کھل گئی۔
آنکھ کھلنے کے فورا بعد تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے آہستہ آہستہ اس کے حواس بحال ہوئے تو اسے سب یاد آگیا۔
کمرے میں چاروں طرف نظر گھمانے پر اس نے سوئے ہوئے داور کو دیکھا۔
وہ لمبا چوڑا مرد صوفے پر بے ترتیب انداز میں پڑا تھا۔
پھر وہ اٹھی اور وضو کرکے نماز ادا کرنے کے لئے کھڑی ہوگئی۔
کمرے میں روشنی ہوجانے پر اور شور سے داور کی آنکھ کھل گئی۔
وہ اٹھ کر بیٹھنے لگا کہ درد کی ایک لہر اسکی گردن سے ہوتی ہوئی ریڑھ کی ہڈی تک پہنچ گئی۔
وہ جو ہمیشہ نرم بستر پر سویا تھا اس صوفے کی بے آرامی کو اسکا جسم برداشت نہیں کر پایا تھا۔
خیر وہ اٹھا اور واش روم میں گھس گیا۔
واپس آیا تو زوہا اسے کہیں بھی نظر نہیں آیا کہ اسکی نظر گیلری کے کھلے ہوئے دروزے پر پڑی۔
وہ زوہا سے بات کرنے کے ارادے سے آگے بڑھا پر اسے یہ وقت مناسب نہیں لگا اور وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریبا سات بجے کے قریب داور واپس آیا۔
زوہا سادہ سا سوٹ پہنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔
” آپ کپڑے بدل کر تیار ہو جائیں پھر ہم ناشتے کے لئے چلتے ہیں۔ ”
داور اسے مخاطب کرکے بولا۔
” اتنی جلدی۔ ”
زوہا حیرانی سے اسکی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔
” یہ گاوں ہے۔ یہاں سب سحر خیز ہوتے ہیں۔ ”
داور نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا۔
پر زوہا کو اسکا لہجہ طنزیہ محسوس ہوا۔
وہ بغیر کوئی جواب دیئے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی۔
پیچھے موجود داور کی سوچوں کی ڈور کو مزید الجھا گئی۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس کمرے میں آئی تو اسکن اور پنک امتزاج کا کڑھائی والا سوٹ پہنا ہوا تھا۔
ہونٹ پنک لپ اسٹک سے سجے تھے۔
داور کی نظر جب اس پر پڑی تو پلٹنا بھول گئی۔
” چلیں۔ ”
زوہا کی آواز اسے ہوش میں لائی۔
” ہاں چلو۔ ”
یہ کہہ کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔ زوہا بھی اسکے پیچھے چل دی۔ پھر کچھ یاد آنے پر وہ ایک دم سے رہا اور بولا۔
” ایک منٹ! میرے ساتھ آئیں یہاں۔ ”
یہ کہہ کر وہ اس کا ہاتھ تھام کر ڈریسنگ کے پاس لے گیا۔ پھر اس کا ہاتھ چھوڑ کر دراز میں سے کچھ نکالنے لگا۔
” یہ آپ کی منہ دکھائی۔ دینی تو رات کو ہی تھی پر آپ نے موقع نہیں دیا۔ اس لیے ابھی دے رہا ہوں۔ ”
وہ اس کا بایاں ہاتھ تھام کر اس کے کچھ سمجھنے سے پہلے اسے انگوٹھی پہنا چکا تھا۔ زوہا نے جواب دیئے بغیر جلدی سے ہاتھ چھڑایا اور باہر کی طرف چل دی۔ داور بھی بالوں میں ہاتھ پھیرتا اس کے پیچھے ہو لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں آگے پیچھے لائونج میں داخل ہوئے۔
مشعل اور گلزار بیگم وہاں موجود تھیں۔
” اسلام و علیکم اماں سائیں۔ ”
داور نے بلند آواز میں سلام کیا۔
اور گلزار بیگم کے آگے جھکا۔
” وعلیکم اسلام۔ ہمیشہ خوش رہو۔ ”
گلزار بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
زوہا بھی داور کی تقلید میں گلزار بیگم کو سلام کرتی ہوئی انکے سامنے جھکی۔
انہوں نے زوہا کی پیشانی چومتے ہوئے اسے دعائوں سے نوازا۔
اسکے بعد جا کر وہ مشعل کے ساتھ بیٹھ گئی۔
لاشعوری طور پر وہ اپنے گھر والوں کا انتظار کر رہی تھی۔
دل میں ابھی بھی امید تھی کہ اسکے گھروالے سسرال میں اسکا مان رکھیں گے۔
ابھی وہ سوچوں میں گم تھی کہ ملازمہ نے ناشتہ لگ جانے کی اطلاع دی۔
” چلو ناشتہ کرلیں۔ ”
گلزار بیگم بولتی ہوئی کھڑی ہوئیں۔
زوہا یہ بھی نا کہہ سکی کہ میرے گھر والوں کا انتظار کرلیں اور چپ چاپ ناشتہ کرنے چلدی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیمے میں وہ سلور کلر کی میکسی پہنے ماہر ہاتھوں کے گئے میک اپ میں بہت حسین لگ رہی تھی۔
تقریب عروج پر تھی پر اسکے گھر والے ابھی تک نا پہنچے تھے۔
تقریب کا انعقاد حویلی کے لان میں ہی کیا گیا تھا۔
لان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ مردوں اور ایک حصہ عورتوں کے لئے مختص کر دیا گیا تھا۔
گلزار بیگم اور مشعل سب مہمانوں نے زوہا کا تعارف کروا رہی تھیں۔
داور مردوں کی سائیڈ پر تھا۔
ابھی ملنے ملانے کا سلسلہ جاری تھا کہ اسکے گھر والوں کی آمد ہوئی۔
انوار صاحب کی فیملی سے صرف وہی شریک ہوئے تھے۔ اظہار صاحب اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر مردوں والے حصے کی طرف بڑھ گئے۔
نسرین بیگم نے اسے گلے لگایا۔ زوہا کی آنکھوں میں میں آنسو آگئے جنہیں بڑی مشکل سے اس نے چھپایا۔
” اللہ نظر بد سے بچائے۔ ”
انہوں نے زوہا سے الگ ہو کر اسے دعا دی۔
اور پھر گلزار بیگم انہیں لے گئیں مہمانوں سے ملانے کے لئے۔
واپسی پر کسی نے بھی زوہا کو ساتھ چلنے کا نہیں بولا اور اظہار صاحب تو اس سے ملے بغیر ہی چلے گئے۔
اسی طرح ولیمے کی تقریب بھی اختتام کو پہنچی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...