میں خود کو روند کے جاتا تھاس کی بستی میں
وہ ہجر دے کے مجھے ہی نڈھال رکھتا تھا
میں کتنے کرب سے گزرا ہوں تم نہ سمجھو گے
وہ شخص مجھ کو بہت پُرملال رکھتا تھا
”طلاق…کیا آفتاب نور مجھے طلاق دے سکتا ہے؟ مجھے وہ اپنا آئینہ کہتا تھا۔۔۔ اور کیا کوئی آئینے کو یوں توڑتا ہے؟ وہ کچھ تو درمیان میں رہنے دیتا۔ اسے سب کچھ ختم کرنے کی کتنی جلدی تھی۔میں اتنی ارزاں تھی اس کے لیے ۔۔۔میں کوئی ٹی شرٹ تھی جسے جب تک چاہتا سینے سے لگایا، تن کا پہناوا بنایا اور جب دل چاہا اتار کر پھینک دیا؟میں نے کیوں کی محبت؟ کیا میں نہیں جانتی تھی کہ مرد وقت گزاری کرتے ہیں؟ کیا مجھے اپنی عزت کا پاس نہیں تھا؟ سچ تو یہ ہے کہ اپنی عزت نفس کو میں نے محبت کی ٹرے میں بچھا کر پیش کیا۔میں نے خود اسے آسانی دی، اب اگر وہ پوری ٹرے پٹخ کر چلا گیا ہے تو مجھے اپنی روح کے برتن ٹوٹنے کا افسوس منانے کو کوئی حق نہیں۔۔۔!مجھے کوئی حق نہیں کہ میں زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالوں۔۔۔!میں نے خود اس کی مرضی کے رنگ پہننا شروع کیے تھے۔۔۔!مجھے زیبائش و آرائش پر بھی حق نہیں۔۔۔!مجھے تو نمازوں پر بھی حق نہیں۔۔۔ میں کس منہ سے نماز پڑھوں گی۔۔۔میں نے تو اپنی نمازیں بھی اس کے لیے گروی رکھ دی۔ وہ مجھ سے دور ہو گیا ہے، اتنا دور کہ مجھے تو اسے دیکھنے کا، سننے کا، محسوس کرنے کا حق بھی باقی نہیں رہا!
کچھ لوگوں کے لیے اللہ جی دنیا مختص کر دیتے ہیں، کچھ لوگوں کو آخرت میں حصہ دے دیتے ہیں، میری نہ دنیا رہی نہ آخرت، میرے نصیب کھوٹے نکلے۔۔۔!
میں آفتاب کے پاس جا کر اس کے پاؤں بھی پکڑ لوں تو اب ہمارے درمیان پہلے والا رشتہ قائم نہیں ہو سکتا،رشتہ وہ قائم کر بھی لے تو شاید اعتبار کبھی قائم نہیں ھو گا۔ایک طریقہ بچتا ہے کہ میں حلالہ کر لوں، لیکن حلالہ کرنے کی نیت سے نکاح کرنا بھی جائز نہیں۔۔۔کیا میں آخری حد تک چلی جاؤں… نہیں اگر مجھے آخری حد پر جانا تھا تو اس طلاق کے وبال سے پہلے جانا چاہیے تھا۔آخری حد یعنی وہ بورڈ جس پر میں نے لکھا ہوا پڑھا تھا کہ محبوب آپ کے قدموں میں…
کالے جادو ہی سے سہی، میں اسے اپنا بنا لیتی۔ لیکن نہیں، تب میرے اندر کچھ غلط ہوجانے کی گھنٹی بجنے لگ جاتی تھی۔مجھے یاد ہے میں نے اس دیوار سے فون نمبر دیکھ کر اس پر فون بھی کی تھی جس عامل نے فون اٹھایا تھا اس نے کہا تھا بی بی، پہلے اپنے سر پر دوپٹہ رکھو پھر اپنا مسئلہ بتانا۔اس وقت واقعی میرے سر پر دوپٹہ نہیں تھا۔۔۔ مجھے اس کی باتوں میں کچھ نہ کچھ سچائی لگی تھی۔ میں چاہتی تو آخری حد پار کر لیتی، کالے جادو کا سہارا لے لیتی لیکن اگر اب سہارا نہیں لیا تو پھر مجھے رونے کا بھی حق نہیں ہے۔ اب جب زمین مجھ پر تنگ ہو گی اور آسمان شعلے برسائے گا، اس کی دید میری آنکھوں کی ٹھنڈک بن کر مجھے نہیں ملے گی تو میں دیکھوں گی کہ کیسے میرے اندر واپس اس آخری کنارے پر جانے کی تمنا نہیں لوٹتی۔کاش مجھے ڈوبنا آتا۔۔۔تیر تو نہیں سکتی۔۔۔آخری حد پر جا کر ڈوب ہی جاتی لیکن اس سے دور تو نہ ہوتی۔
وہ آدمی نہیں ہے، وہ سرطان ہے ۔وہ میری رگ رگ میں ہے، وہ میری ہر تکلیف، ہردرد، ہر آہ میں ہے۔میری تنہائی بھی تنہا نہیں ہے۔وہ ہمیشہ سے دوسرا ہے، میرے سر پر سوار ہے۔ کاش وہ انسان نہ ہوتا، شیطان ہوتا۔۔۔وہ اتنا برا ہوتا کہ میں اس سے نفرت کر سکتی۔۔۔وہ کچھ تو اتنا برا کرتا میرے ساتھ کہ میری روح اس کی یاد آنے کے ڈر سے کانپ اٹھتی، اس کی کوئی برائی میری آنکھوں سے لہو بن کر ٹپکتی اور میں اپنی کلائیاں نوچ لیتی۔ وہ بے وفا تھا تو ڈھنگ سے ہی آہنی بے وفائی پر اکڑ جاتا۔وہ غرور کرتا، اپنے سارے پردے فاش کر کے میرے سامنے آنے باطن کے زہرسمیت آن کھڑا ہوتا۔میں اس کا نام بھی لینا گوارا نہ کرتی. لیکن نہیں۔۔۔! نہیں۔۔۔! اس نے تو ظلم کی انتہا کر دی.۔میرے ساتھ وہ حد بھی پار نہ کی جس سے آگے کھڑی ہو کر میں اسے تن کا پجاری ہونے کا الزام دیتی۔اس نے اپنی ضرورت کو مجھ سے اس سلیقے سے پورا کیا کہ میں اسے غلام ہونے کا طعنہ بھی نہیں دے سکتی۔ایک دو دفعہ کے علاوہ اس نے مجھے سختی سے چھوا بھی نہیں۔کبھی اپنے دوستوں کے سامنے میری نمائش نہیں کروائی،کبھی بند کمرے میں کسی کو آنے نہیں دیا، میں نے سارے اختیارات اس کو دئیے تھے لیکن وہ کبھی اندھا نہ ہوا۔۔۔اس حد کوہمیشہ دھیان میں رکھا جو ہمارے درمیان تھی۔
میں کیسے اس کی بے وفائی پر یقین کروں جس کی پارسائی کی گواہی مجھے میرا دل دیتا ہے، میں کیسے اس کے بغیر جینے کا ارادہ کر لوں جوہمیشہ مجھے تحفظ دیتا آیا ہے۔اس نے جانا ہی تھا توہر ہر چیز کی کرچیاں کر کے جاتا۔۔۔وہ آخری حد ہی توڑ دیتا، اس نے مجھے کنوارا کیوں رہنے دیا؟کنواری منکوحہ سے تو کہیں بہتر بیوہ ہوجانا ہے۔وہ مجھے مکمل اپنا کر کے مر جاتا لیکن یوں بیچ راستے میں تو نہ چھوڑتا۔وہ کسی ایک لمحے میں تو میرا ہوتا ،مکمل میرا ہوتا،فقط میرا ہوتا!
کیا میں اس کو ایک نظر دیکھ کر ٹھیک ہو جاؤں گی؟ وہ شخص جس سے میں نے ہر چھوٹے بڑے موقع پہ,ہر نازک لمحے میں وعدے لئے کہ وہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا.مجھے ہمیشہ ایسے ہی چاہے گا.ہر وہ پل جب کوئی بھی عام انسان جھوٹ نہیں بول سکتا.نیند کے خمار میں,تکلیف کی انتہا پہ میں نے اس ست ہزار بار پوچھا تم مجھ سے محبت کرتے ہو ناں؟ اس نے ہر ہر بار مجھ سے جھوٹ بولا.مجھے جھوٹا یقین دلایا کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں.میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا.تم جو فرض کرتی ہو میں اس کا اظہار کرتا ہوں اور بار بار کرتا ہوں کہ میں تم سے سچا پیار کرتا ہوں.اس مکار شخص کے جھوٹے چہرے میں ایسی کون سی کشش ہے کہ میں غصے سے ہی سہی اس کا چہرہ نہ دیکھوں تو مضطرب رہتی ہوں,میرا نشہ ٹوٹنے لگتا ہے.کوئی شے من کو نہیں بھاتی.کوئی موسیقی دل کو نہیں چھوتی.کوئی چیز مجھے اپنی طرف متوجہ نہیں کر پاتی.میرے ہاتھ شدتِ طلب سے کپکپانے لگتے ہیں.دل کے کونے سے بے سکونی چیخ چیخ کر پکارتی ہے کہ اس کو ایک دفعہ صرف ایک دفعہ ایک نظر دیکھ لو…اور بس دیکھنے کی دیر ہے.مدھم سی چلتی ہوئی یہ دھڑکن اپنی نارمل رفتار پہ آجاتی ہے.دماغ سوچنے سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے جیسے منشیات کے عادی کو ڈوز مل گئی ہو.میں اللّہ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ آخر اس کے چہرے میں میرے لئے ایسا کیا رکھ دیا ہے کہ میرا زخم خوردہ دل چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ میں اسے دیکھتے ہی ٹھیک ہوجاؤں گا؟ کیوں سب دوائیاں بے اثر ہوجاتی ہیں؟ کیوں نیند میری آنکھوں سے روٹھ جاتی ہے؟ کیوں یہ سوال میرے ہاتھوں پہ لرزش طاری کئے رکھتا ہے کہ کیا میں اسے دیکھ کر ٹھیک ہو جاؤں گی؟کیوں میں آپ اپنی بے چینی کو آزماتی ہوں اور ہر دفعہ اسے دیکھ کر جب سکون ملتا ہے تو آپ ہی فاتح اور آپ ہی مفتوح بن جاتی ہوں.میں بے وقوف نہیِں ہوں.میں بہت سمجھ دار ہوں.میں جانتی ہوں وہ نشہ ہے اور نشہ حلال نہیں……! لیکن پھر بھی مجھے وہ ایک نظر چاہیے۔
اب میں کہاں جاؤں؟ کس سے فریاد کروں؟ اپنے زخم کس کو دکھاؤں… زخم بھی ایسے کہ جو ملے ہی نہیں اور ہیں بھی اذیت ناک!ساری غلطی میری جلد بازیوں کی ہے۔۔۔سب گناہ قصور میرے کھاتے میں لکھا جانا چاہیے۔۔۔میں نے اس سے طلاق مانگی کیوں؟ مجھ بدبخت کو اس سے طلاق نہیں مانگی چاہیے تھی۔میں منحوس جانتی تھی کہ میں اس کو دیکھے بنا نہیں رہ سکتی تو پھر مجھے صبر کرنا چاہیے تھا۔مجھے صبر کے بدلے میں وہ مل جاتا۔اب تو میرے ہاتھ میں خاک ہے۔ دل کرتا ہے اس خاک کا اتنا اڑاؤں کہ میرا چہرہ مجھے ہی نظر نہ آئے۔۔۔اس خاک سے خود کو ڈھانپ لوںاور مر جاؤں۔۔۔ہاں یہی اچھا ہے! میرے لیے یہی اچھا ہے!خود کشی کرنے والے کی ویسے بھی یہ سزا ہے کہ اسے قیامت تک اس کے طرز خود کشی سے مارا جائے گا۔میں اگر زندہ رہی تو اسے یاد کر کر کے روز مرتی رہوں گی۔۔۔اس سے بہتر ہے میں مر ہی جاؤں۔۔!
کیا میرا مرنا اچھا ہے ؟میری توخاک بھی اس زمین کو آلودہ کر دے گی۔۔۔میں جہاں دفن ہوں گی وہاں صرف بے شمار خار دار جھاڑیاں ہی اگیں گی ۔سب کی سب بنجر ہوں گی۔ان پر کوئی ثمر کبھی نہیں آسکے گا۔خیر مجھے یہ سوچنے کی کیا حاجت کہ میرے مرنے کے بعد کیا ہوگا۔سچ یہی ہے کہ اب اس دنیا میں کسی کو نا میری ضرورت ہے نہ مجھے کسی اور کی۔۔۔یوں کیا جائے کہ اب سکون سے مر لیا جائے۔‘‘ وہ ایم ایس کیمسٹری کی ذہین طالبہ جب خود کلامی کر کے تھک گئی تو ہاتھ میں تھامی شیشی کھول لی، اگلے ھی لمحے وہ ساری دوائیاں منہ میں انڈیل چکی تھی۔ کانپتے ہاتھوں سے پانی کی بوتل کھول کر منہ سے لگائی۔ پاکیزہ کا سر اب کرسی سے ٹکا ہوا تھا۔آنکھیں موت کے انتظار میں گول گھومتے پنکھے پر جا لگیں تھیں۔آدھ کھلے دروازے پر خاموشی پہرہ دے رہی تھی۔کھڑکی سے باہر دکھائی دیتے درخت کی سب شاخیں ٹنڈ منڈ ھو چکی تھیں.. بس ایک شاخ پر ایک آخری پتہ جھول رہا تھا جوہوا کے جھونکے سے زمین برد ہونے والا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں
رُک کے اپنا ہی انتظار کیا
اس کے پاس مرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔جینے کا جو ایک جواز تھا وہ اس سے چھن چکا تھا لیکن کیا مرنا اتنا آسان ہوتا ہے؟موت کی تمنا کرنے پر موت آ جاتی تو ہر کوئی اپنی زندگی میں ایک مرتبہ تو ضرور مرتا۔۔۔وہ سوتی تھی، جاگتی تھی، کھاتی تھی، پیتی تھی ۔اسے اپنی زندگی کا خود بھی اعتبار نہ رہا تھا۔یونیورسٹی میں اس کے گرد جتنے بھی انسان تھے وہ اسے بھیڑیے نظر آتے تھے۔اس کا خول اپنی ذات تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔خود سے بھی وہ سو بار منہ چھپاتی۔۔۔خود کو حیرت سے دیکھا کرتی۔۔۔وہ تو بے وفا ہے مجھے چھوڑ کر جی سکتا ہے لیکن کیا میں اس کے بغیر جی کر بھی بے وفا ہونے کا ثبوت نہیں دے رہی؟مجھے تو اسی لمحے مر جانا چاہیے تھا جس لمحے اس نے مجھے چھوڑا۔۔۔!سوال جواب اپنی جگہ لیکن چلتی سانسیں اجازت لے کر نہیں چل رہی تھی۔ایک دل چاہتاکہ آفتاب نور کو فون کر کے اس سے پوچھے کہ ایک دفعہ بھی اسے ان لمحات نے نہیں روکا جو میرے اور اس کے درمیانے شدید قربت کے گواہ تھے۔۔۔ایک دفعہ بھی وہ چھوڑتے چھوٹے تحفے اس کے راستے میں نہیں آئے جو میں نے اپنے خلوص سے خریدے تھے۔۔۔وہ کیوں بھول گیا کہ اس کی تکلیف پر میری آواز بھرا جاتی ہے۔۔۔میرے آنسو بے مول کرنے کا فیصلہ اس نے کیسے کر لیا؟اگر اس کے اندر اتنی بڑی تبدیلی آ رہی تھی تو مجھے پتا کیوں نہیں چلا۔۔۔میں کہاں گم تھی۔۔۔میں کن وظیفوں اور منتوں میں کھوئی ہوئی تھی جب وہ میری ذات کا حصار توڑ کر باہر نکلا۔۔۔مجھ سا بے خبر بھی کوئی ہو گا؟یہ سب سوال بھی ساون کی بارش کی طرح اندر ہی اندر برستے.۔۔۔گھٹن کم نہ ھوتی،حبس اور بھی بڑھ جاتا۔۔۔
پہلے اگر وہ فون کرتی، رابطہ کرتی تو دل کی تسلی کے لیے نکاح کے نام پر رچایا ہوا ایک ڈرامہ ہی سہی اس کی تسلی کے لیے کافی تھا۔اب تو دلاسے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا تھا۔وہ فون کرتی تو خود سے نظریں کیسے ملاتی۔آنکھیں بے خواب تھی،ہونٹ بے رنگ۔راتوں کو چیخیں مارتی نیند سے اٹھ کھڑی ہوتی۔سانس تیز چل رہاہوتا اور زندگی متنفر ہوتی۔تسکین نے پوچھنے کی بہت کوشش کی لیکن پاکیزہ کی چپ نہ ٹوٹی۔وہی تھی جو دو دفعہ اس کا معدہ واش کروا چکی تھی لیکن چپ نہ توڑ سکی تھی۔چپ کا آکٹوپس جنون بن کر اس کی رگوں میں اتر آیا تھا۔کبھی اونچی آواز میں موسیقی سنتی، بال گلے میں ڈالتی اور جھولتی تھی۔اس لمحے اس کی آنکھیں زندگی سے عاری ہوجاتیں۔کبھی دوپٹہ لپیٹتی اور مصلے کی ہوکر رہ جاتی. سجدے پر سجدے کرتی لیکن دل کوسکون نہ ملتا۔رگوں سے خون نکالنا، ڈھیروں ڈھیر دوائیاں کھا لینا، ساری رات جاگتے رہنا، خود کو بھوکا رکھنا۔۔۔وہ ہر طرح کا ظلم کر رہی تھی لیکن آفتاب نور کی یاد سب مظالم سے زیادہ ظالم تھی!جب یاد آتی دل میں خراش سی پڑ جاتی،لہو رسنے لگتااور آنکھیں کسی غیر مرئی نقطے پرجامد ہو جاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہنے والوں کا کچھ نہیں جاتا
سہنے والے کمال کرتے ہیں
کھڑکی سے چاند کی روشنی اس کے بے رنگ وجود پر پڑ رہی تھی۔بال الجھے ہوئے گلے میں پڑے تھے،وہ آنکھیں کھولے چھت کو دیکھ رہی تھی،بازو بستر سے نیچے جھول رہا تھا۔
’’ کیا اسے میری یاد نہیں آتی ہو گی؟‘‘ اس نے خود کلامی کی۔۔۔رات کے دو پہر گزر چکے تھے۔سوال جواب کی تلاش میں سر پٹخنے لگا تھا۔اسی اثنا میں اس کا فون بجا۔
’’ہیلو ہیلو، پاکیزہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔” آفتاب کی بے چین آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔
تلخی حلق تک بھر آئی ’’تم نے ہمارے درمیان چھوڑا ہی کیا ہے آفتاب؟‘‘
’’میں کوئی نہ کوئی راستہ نکال لوں گا پاکیزہ۔پلیزتم میری بات سنو۔‘‘
’’تمہاری ہی تو سنتی آئی ہوں۔ راستے تو تم نکالتے رہے لیکن منزل نہ تمہیں نظر آ سکی نہ میں پا سکی۔‘‘
’’ایسے نہ کہو، بے وقوفی کے کسی فیصلے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دور نہیں جا سکتے۔۔۔ہم الگ نہیں ہو سکتے۔۔۔عزہ تم میری عزہ ہو ناں؟پلیز میری بات سنو۔‘‘وہ پھر اسے بچوں کی طرح پچکار رہا تھا۔
’’ سننے کے لیے کیا رکھا ہے؟ تم کہتے ہو چھوڑنا بے وقوفی تھی لیکن مجھے گزشتہ دو ماہ میں سمجھ آیا ہے کہ تمہیں اپنانا میری بے وقوفی تھی۔‘‘
’’ اچھا سچ بتاؤ میرے بغیر رہ سکتی ہو؟ میں تو تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘
’’اگر میری مرضی کی بات ہے آفتاب نور تو تم میرا چاند تھے اور میں چکور۔تمہارے بغیر میں بالکل نہیں رہ سکتی، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مجھے اب تمہارے بغیر ہی رہنا ہے۔‘‘
’’ عزہ مجھے تم تم کہہ کر ہرٹ نہ کرو۔مجھ سے پہلے کی طرح بات کرو۔‘‘
’’تم کتنے نازک ہو۔ایک تم سے ہرٹ ہو جاتے ہو اور میں حیوان ہوں کہ مجھ پر گالیاں سن کر بھی اثر نہیں ہوتا۔مجھے تمہارا طلاق دینا بھی ہرٹ نہیں کر سکتا۔‘‘وہ کتنا ہرٹ ہوئی تھی اس کا لہجہ بتا رہا تھا۔
’’پاکیزہ میں نے تمہیں غصے میں طلاق دی تھی۔میں تمہیں فتوی۔۔۔‘
’’ بس آفتاب نور بس !مذہب کو مزید کھلونا نہ بناؤ۔یہ تمہارا کھیلنا ہی تھا جس نے ہمارے درمیان سو کالڈ رشتے کو بھی تباہ کیا اور خود مجھے بھی۔۔۔میں کیا تھی اور تم نے کیا کر دیا؟کبھی سوچا نے؟ ‘‘
’’ دیکھو اب زیادہ نہ بولو۔۔۔مجھے غصہ آ جائے گا!میں نے تمہارے ساتھ کچھ نہیں کیا۔جو کچھ ہوا ہے تمہاری مرضی سے ہوا۔میں نے کبھی جبر نہیں کیا۔‘‘
’’اگر سب کچھ میری مرضی سے ہورہا تھا تو مجھے چھوڑنے سے پہلے بھی میری مرضی پوچھ لیتے۔میں تو محبت کے آگے سر جھکاتی رہی تم آخر میں دامن جھاڑ کر محبت کے حصار سے ہی نکل گئے۔‘‘
’’میں اب بھی تم سے پہلے جیسی محبت جتا سکتا ہوں۔‘‘پاکیزہ کولہجے میں خباثت عیاں لگی۔
پاکیزہ جو اتنی دیر سے امید کا سرا تھامے بیٹھی تھی ،پھٹ پڑی۔’’ محبت کا نام نہ لو، محبت کو کیوں بدنام کرتے ہو، محبت یہ نہیں کہ ایک دوسرے کو دیکھا جائے، محبت یہ بھی نہیں کہ ایک دوسرے کو چھوا جائے،محبت عبادت کا دوسرا نام ہے۔محبت عزت کا پہلا روپ ہے۔محبت خباثت اور منافقت کے بہروپیوں کے پاس بھی نہیں بھٹکتی۔محبت روحانیت کا لبادہ ہے۔ آفتاب کاش تم یہ بات سمجھ سکتے۔‘‘
’’میرے سامنے زیادہ فلاسفر بننے کی ضرورت نہیں ہے۔تم بھی جانتی ہوتمہاری محبت کے تن پر کتنے کپڑے سلامت ہیں۔‘‘
’’بس آفتاب نور بس۔۔۔!مجھے اپنا وہ روپ نہ دکھاؤ کہ میں تم سے نفرت بھی نہ کر سکوں۔‘‘
’’نفرت، محبت پرانی صدی کے قصے ہیں۔اب سارا مدعا ضرورت ہے۔‘‘
’’اور تم جیسوں کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہوتی۔۔۔‘‘
محبت اب اور نہیں، اب بہت جلد کتابی شکل میں شائع ہو کر محبت کی خوشبو میں رچے صفحات کی صورت آپ کے روبرو ہو گا۔ مصنفہ کے آٹوگراف سے مزین جلد کے حصول کے لئے تفکر ویب سائیٹ پہ ابھی رابطہ فارم سے آرڈر بک کیجئے۔
’’انسان کی بچی تو بنتی ہی نہیں ہو۔میں نے سوچا شاید سدھر گئی ہوگی لیکن تمہارے نفسیاتی دماغ پر سے محبت اور عزت کا بھوت اترتا ہی نہیں ہے۔‘‘
’’تمیز سے بات کرو۔‘‘
’’ بکواس بند کرو اور سڑتی مرتی رہو۔‘‘
فون اللہ حافظ کے بغیر بند ہوچکا تھا۔آفتاب نے بے شک صلواتیں سنائی تھیںلیکن اتنے عرصے بعد اس کی آواز سن کر پاکیزہ کو سکون مل گیا۔آنکھیں بند ہوئی تو نیند نے آ لیا۔کیسا شخص ہے خنجر سے وار کرتا ہے اور مجھے پھول بن کر لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف احساس ہے یہ ،روح سے محسوس کرو
پیار کو پیار ہی رہنے دو،کوئی نام نہ دو
کتنی بڑی بد نصیبی تھی نیندیں چرا لینے کا الزام جس پر تھا اسی کی آواز سن کر چین ملتا تھا،اسی کی آواز سن کر نیند آتی تھی۔نمازیں تھیںکہ جاری تھیں اور شاید نمازوں کا ہی اثر تھا کہ وہ چاہ کر بھی خود سے آفتاب سے رابطہ نہیں کر پا رہی تھی۔موبائل فون ہاتھ میں ہوتا،سکرین سے سر ٹکرانے کا دل کرتا لیکن جس نے سر کو جھکا دیا تھا اس کوٹوٹا ہوا دل کیسے دکھاتی۔ دل کرتا کہ اپنے رابطے اتنے وسیع کرلے کہ آفتاب اسے کسی اور کے ساتھ دیکھ کر جھلس اٹھے۔ کبھی دل کرتا اپنی ہڈیوں کا سرمہ بنائے اور زندگی کی چوٹی پر رکھ دے ۔۔۔حالات کی ہوا لے اُڑے اور دنیا اس لڑکی کو ہی بھول جائے جسے دنیا کو یاد رہ جانے کا شوق تھا!
بے بسی کی انتہا تھی۔ اگر کچھ مثبت تھا تو یہ کہ وہ رابطے میں پہل نہیں کر رہی تھی۔ رابطہ پھر بھی برقرار تھا، ناامیدی جیسی ایک امید دل کے اندر خنجر کی طرح گڑی ہوئی تھی، اس نے نہیںآنا تھا لیکن وہ شا ید ا ٓجائے شاید کوئی راستہ نکال لے۔ زہر کو زہر کاٹتا ہے ، لوہے کو لوہا کاٹتا ہے تو میرا ستمگر ہی میرا ہمدرد بن جائے!کوئی ایسا معجزہ لے کرا ٓئے کہ زندگی کے سارے گل مہک اٹھیں، سارے رنگ جی اٹھیں۔۔۔!
خواہشوں کی انگڑائیوں کی کوئی حد نہیںہوتی ۔ یہ سستی کے سندیسے زندگی کی صبح تک لاتی ہی رہتی ہیں۔ طلاق جیسے جاں گسل مقام سے ذرا پہلے تک کچھ دوستوں نے بہت سمجھایا تھا تھوڑا سا فاصلہ لے ا ٓؤ۔ اپنی زندگی جینا سیکھو، اسے اس کی زندگی جینے دو۔ اس کے پیچھے بھاگو گی تو وہ تمھارے ا ٓگے آگے بھاگے گا۔ اس سے تھوڑا سا فاصلہ رکھو تاکہ اس کاتم میں تجسس باقی رہے۔ وہ فاصلے کی وجہ جاننے کو ہی سہی تمھارے پاس توا ٓئے لیکن پاکیزہ کو تو محبت کے طلسم پر اندھا اعتبار تھا۔ بھلا جو محبت کر سکتی ہے وہ فاصلہ کیسے کر سکتا ہے؟محبت نے پھر کیا کیا تھا۔۔۔ اسے درگاہوں پر بھٹکتا ہوا چھوڑ دیا تھا۔۔۔ اس کے پیروں میں گھنگھرو باندھ دئیے تھے۔۔۔ اسے محبت نے آنکھوں کی وحشت اور درد کی لذت دی تھی!
محبت جسے وہ فاتح عالم سمجھ بیٹھی تھی۔۔۔ اسی کو فتح کر کے اس کی قبر پر اپنی تختی لگائے ہنس رہی تھی۔ وہ روز جی رہی تھی اور روز مر رہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں ا ٓتی تھی کہ ا ٓفتاب کی پسند کے کپڑے پہنے یا انہیں آگ لگائے۔ کسی نوکری کو حاصل کرنے کی کوشش کرے یا پردے میں بیٹھ جائے۔آ ٓفتاب کے ساتھ جن جگہوں پر جاتی رہی ان مناظر کو کن آنکھوں سے دیکھے۔۔۔ عرصہ ہوا وہ تو اپنا دماغ استعمال کرنا چھوڑ چکی تھی۔ آفتاب کی ا ٓنکھوں سے دیکھتی ،اس کے کانوں سے سنتی آرہی تھی۔
جب اذیت پسندی کی انتہا پر پہنچتی تو چیخ چیخ کر رب سے سوال کرتی کہ ااس کے دل میں میرے لیے نیکی ڈالی ہی کیوں تھی؟اسے وحشی بنانا ہی تھا تو اسے مکمل درندہ بنا کرمیری زندگی میں بھیجتے؟ وہ مجھے رو ند کر چلا جاتا مجھے کوئی ایسا دکھ دیتا کہ میں اسے بددعا دے سکتی۔ اے محبت تو نے مجھے ادھورا غم کیوں دیا؟ محبت تونے مجھے بیچ راستے میں اکیلا کیوں چھوڑ دیا؟ محبت تو فاتح عالم تھی کیسے مجھے مفتوح بنا کر چھوڑ دیا؟ محبت تونے کتبہ نفرت کے ملبوں پر لگانا تھا میرے زندہ وجود پر کیوں ٹھوک دیا؟ محبت تو اپنے ہونے کو ثابت کر۔۔۔ مجھے یوں نشان عبرت نہ بنا۔۔۔ محبت اور ظلم نہ ڈھا۔۔۔ بس کر محبت اب نہیں۔۔۔ محبت ا ب اور نہیں!
وہ سب کچھ داؤ پر لگا چکی تھی۔ دل واپس جانے کو چاہتا تھا۔ اگر واپس اس راستے پر جانا تھاتو صحیح طریقے سے جانا تھا۔ مزید کھلونا بننے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ دوسری طرف آفتاب جیسی بھی نیت کا مالک تھا عادی ہوچکا تھا۔ تین چار دن بعد ایک پیغام بھیج دیتا۔ کبھی مسڈ کال ا ٓجاتی۔ یہ چھوٹے چھوٹے پیغام اور نہ اٹھانے والی کال ہی تھی جن کی بدولت پاکیزہ زندہ تھی۔ یہ احساس موجود تھا کہ وہ اکیلی نہیں تڑپ رہی ، کہیں کوئی اور بھی بے سکون ہے۔ بے چینی حد سے سوا ہوجاتی تو پھر وہ اندازہ لگاتی کہ اگلا فون کب ا ٓنا ہے۔ فون کو پاس رکھتی اور جیسے ہی بجتا اٹھا لیتی۔ صرف آواز سننے سے ہی افاقہ ہوجاتا، اللہ سے اس سے دور جانے کی جتنی دعائیں مانگتی ۔۔۔اتنی کوششیں نہ کر سکتی!
’’ـپاکیزہ کیسی ہو؟‘‘
’’میں بہت خوش ہوں۔‘‘ وہ زبردستی ٓواز میں کھنک پیدا کرنے کی کوشش کرتی۔
’’تم میرے بغیر خوش نہیں رہ سکتی۔‘‘
’’ایسے بہت سے یقین مجھے بھی تمہاری ذات پر تھے۔ وہ ٹوٹ گئے تو کیا یہ نہیں ٹوٹ سکتے؟‘‘
’’نہیں ٹوٹ سکتے۔ ‘‘وہ ابھی بھی پریقین تھا۔
’’یہ کیوں نہیں ٹوٹ سکتے؟‘‘
’’کیونکہ میںا ٓفتاب ہوں میں طلوع ہوتا ہوں تو غروب بھی ہوسکتا ہوں لیکن تم پاکیزہ ہو اور تم عزہ ہوسکتی ہو اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ‘‘
’’بے تکی وضاحت! کبھی مجھے تم پر حیرت ہوتی ہے۔ تم کیسے مجھے فون کرلیتے ہو؟‘‘
’’بالکل ایسے ہی جیسے پہلے کرتا تھا۔ ‘‘
’’پہلے کی بات اور تھی آفتاب نور۔ اب میں تمھاری کچھ نہیں لگتی۔‘‘
’’بات وقت کی نہیں ہوتی۔ احساس کی ہوتی ہے۔ میرے دل میں تمھاری ٓج بھی ویسے ہی قدر ہے جیسی پہلے تھی۔‘‘
’’غلط بات مت کرو۔ بات احساس کی نہیں بات رشتے کی ہوتی ہے۔ میں تمہارے ساتھ اسی لیے تھی کہ ایک رشتہ تھا اب تو کوئی رشتہ نہیں رہا۔ ‘‘
’’پاکیزہ اگر تمھیں آنکھیں کھولنے کی توفیق ملے تو تمھیں پتہ چلے کہ رشتہ تو پہلے بھی نہیں تھا۔۔۔ محبت تھی! جس کے وجود سے تم اب انکاری ہوگئی ہو۔‘‘
’’تمہارے کہنے کا کیا مطلب ہے آفتاب ؟رشتہ نہیں تھا؟ رشتہ ہی تو تھا۔۔ رشتے کی وجہ سے ہی میں تم سے ملتی رہی، رشتے کی وجہ سے ہی میں تم پر اندھا اعتماد کرتی رہی۔ ‘‘
’’اپنے آپ سے پوچھو کیا وہ رشتہ سچا رشتہ تھا؟ اْس وقت مجھے بھی اپنی کم علمی میں یہی لگا کہ شاید ایسے نکاح ہوجاتا ہو لیکن آج ایک مولوی صاحب سے پوچھا تو انھوں نے اس نکاح کی سختی سے تردید کی۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو تم آفتاب؟ ایک کے بعد دوسرا اتنا بڑا دکھ نہ دو کہ میرا دل پھٹ جائے۔ ‘‘
’’پاگل لڑکی یہ دکھ نہیں ہے یہ خوشی ہے۔ پہلے جو گناہ ہوا وہ بھول جاوْ ۔ ٓوْ نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔ ‘‘
’’آفتاب جس امید پر میں اپنی زندگی گزار بیٹھی ہوں تم اسی امید کو جھوٹا کہہ رہے ہو؟ میں جسے عبادت سمجھ کر کرتی رہی تم نے اپنی کم علمی سے اسے میرے لیے گناہ ثابت کر دیا۔ ‘‘
’’دودھ پیتی بچی تو تم بھی نہیں تھی۔ تم نے صرف میرے کہے پر اعتبارکیوں کیا؟ خود بھی تحقیق کرتی ناں۔‘‘
ٓ’’آفتاب روز نئی باتیں لے کر نئے الزام لے کر کہاں سے ا ٓجاتے ہو؟ مجھے ایک دفعہ ہی ا ٓئینہ دکھا دو، میں روز اپنا ٹکڑوں میںگھناؤنا چہرہ دیکھ پاگل ہوتی جا رہی ہوں۔ ‘‘
’’نفسیاتی تو تم پہلے بھی تھی۔۔۔ اب پاگل ہورہی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘
’’نفسیاتی تھی تو اب رابطہ کیوں کرتے ہو؟‘‘
’’عادت ہوگئی ہے۔ عادت ختم ہوجائے گی تو چھوڑ دوں گا۔‘‘
’’تم ایک دفعہ پھر میرے پاس مجھے چھوڑنے کے لیے ا ٓرہے ہو؟ اس نکاح کو جھٹلا رہے ہو جو نکاح ہم دونوں کے تنہائی میں ملنے کی وجہ تھا۔
تم نے کہا تھا نکاح کی بنیادی شرط رضامندی ہے۔ ‘‘
’’ہاں لیکن اس کا سر عام اعلان بھی تو کرنا چاہیے۔ نکاح کو خفیہ رکھنا جرم ہے۔ اخفاء اس بات کی نشانی ہے کہ نکاح نہیں کیا گیا گناہ کیا گیا ہے جسے چھپایا جا رہا ہے۔‘‘
ٓ’’آفتاب میں نے تو چھپایا ہی نہیں۔ جس سے زیادہ قریبی ہوئی ان کو بتایا بھی۔ تم ہی کہتے تھے صحیح وقت آنے پر سب کو خود علم ہو جائے گا۔تم ہی محبت کی تشہیر سے بچتے تھے۔میں تو چاہتی تھی کہ سب کو معلوم ہو۔یہ جو میرا مذاق بنتے ہیں ۔ہمارے درمیان کے معاملات سے واقف ہو جائیں۔تمہارے دوستوں کو بھی تو پتہ تھا۔‘‘
’’اور وہ ابھی تک اس بے وقوفی پر میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ میری بے وقوفی تھی پاکیزہ وہ نکاح نہیں تھا۔ ایسے نکاح ہوتا تو ساری دنیا کرلیتی نکاح۔ یہ نکاح واقعی نکاح ہوتا تو اپنا ٓپ منوا لیتا۔‘‘
پاکیزہ فون رکھ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسم کی ٹھنڈی سی
تاریک سیہ قبر کے اندر
نہ کسی سانس کی آواز،نہ سسکی کوئی
نہ کوئی آہ ،نہ جنبش،نہ ہی آہٹ کوئی
ایسے چُپ چاپ ہی مر جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں
قصور کس کا تھا؟ قصور صرف اسی کا تھا۔ آفتاب جو کہتا گیا وہ یقین کرتی گئی۔۔۔ لڑکو ں کا کیا ہے وہ تو کہتے رہتے ہیں۔ یقین لڑکوں کا نہیں کرنا چاہیے ۔آفتاب کو تو کہنے سے فرق نہیں پڑا تھا۔۔۔ پاکیزہ کو پڑا تھا! اسے ایک شخص کے لیے خود کو پریشانی میں نہیں ڈالنا چاہیے تھا ۔ جب آفتاب اس سے کہہ رہا تھا کے تم لیٹے لیٹے تھک جاؤگی تو میں تمہارے پاؤں بھی دباؤں گا تب پاکیزہ کو سننا نہیں چاہیے تھا،اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آفتاب کو سر نے چھڑی ماری تھی تو پاکیزہ کو دو جوس نہیں لینے چاہیے تھے ۔بار بار اس کی نشست کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔ پاکیزہ کو حمزہ سے آفتاب کے گھر کا نمبر نہیں لینا چاہیے تھا۔ اگر نمبر لے لیا تھا تو اس پر فون نہیں کرنا چاہیے تھا پاکیزہ کو تسکین کی باتوں سے اپنی مرضی کے مطلب نہیں لینے چاہیے تھے ۔وہ اب تسکین کو الزام کیسے دے سکتی تھی ؟اس نے پہلے کب تسکین کی ہر بات سنی تھی جو اب ہر الزام تسکین پر رکھ کر بری الذمہ ہو جاتی۔۔۔ جو کیا تھا اس نے خود کیا تھا ۔کوئی دوسرا اس کے جسم میں داخل ہو کر اس کے اعضاء سے اپنی مرضی کا کام نہیں کروا سکتا تھا ۔اگر اس کے ماں باپ نہیں تھے اور اس کے دل کے اندر محرومیاں ہی محرومیاں تھیں تو تب بھی یہ اس کا اپنا قصور تھا کے وہ ان محرومیوں سے اپنی سمت خراب کر بیٹھی۔ اس کو کوئی حق نہیں تھا کہ محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی بھی راستہ چن لے۔ لڑکیوں کا کیا ہے ؟ وہ تو بلاتے رہتے ہیں بہکاتے رہتے ہیں۔ وہ لڑکی تھی اسے ثابت قدم رہنا تھا۔ اس کے بستے سے جب hawks اکیڈمی کے نوٹس نکلے تھے تو اسے واپس کر دینے چاہیے تھے۔ اس مہربانی سے دل میں نرم گوشہ پیدا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ رویا تھا تو ہر شے پاکیزہ کے لیے کیوں ساکت ہوئی تھی ؟کیا کوئی بھی رو کر اپنی ٹھیک غلط بات منوا سکتا ہے ؟کیا رونا بہترین ہتھیار ہے ؟ کیا صرف رونا کافی ہے؟ کسی پر یقین کرنے کے لیے ا س کے آنسو کافی ہیں؟ آنسو تو کسی بھی بات پر آ سکتے ہیں۔۔۔ جب کوئی اور رشتہ جوڑنے کی ضرورت نہیں تھی تو دوستی کیوں کی ؟ دوستی بھی تو رشتہ ہے۔۔۔ لڑکے لڑکی کی دوستی تو تباہی کا دہانہ ہے پاکیزہ نے صرف ایک ’’اُن ‘‘ کہنے سے سمجھ لیا کہ وہ عزت کرتا ہے۔۔۔ عزت ایسے کی جاتی ہے ؟
پاکیزہ کی سب سے بڑی غلطی تو یہ تھی کہ وہ خود کو کسی افسانے کی ہیروئن سمجھتی رہی۔ وہ سمجھ رہی تھی جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہا ہے وہ آج سے پہلے کبھی کسی کے ساتھ نہیں ہوا ۔جتنی محبتیں آفتاب نچھاور کر رہا ہے ویسے کوئی کسی پر نہیں کرتا ۔یہی اس کی غلطی تھی !خوشنما لفظ اور خوبصورت وعدے دھوکہ ہیں یہ ہر لڑکی کو خوشبودار پھولوں کی صورت دئیے جاتے ہیں۔ لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ یہ خوشبو صرف ان کے لیے ہے حالانکہ خوشبو کو بھی کبھی قید کیا جا سکتا ہے۔
آفتاب چالیس منٹ تک اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا رہا تھا تو یہ پاکیزہ کی اپنی دہ ہوئی شہ تھی ۔اسے آواز بلند کرنی چاہیے تھی۔وہ اوپر سے سمجھدار بنتی تھی۔۔۔ اندر سے بے وقوف تھی۔۔۔ ازلی بے وقوف تھی! ہر لڑکی کی طرح اس کا باہر کا خول ہی بس پکا تھا ، اندر چڑیا جتنا دل تھا۔ جب آفتاب نے ہاتھ پکڑا تھا تو پاکیزہ کو خاموش نہیں رہنا چاہیے تھا ۔ایک تھپڑ کھینچ کر اس کے منہ پر مارنا چاہیے تھا۔ اسٹینڈ اس نے لینا تھا اگر ا س نے اسٹینڈ نہیں لیا تھا تو اسے کوئی حق نہیں تھا کہ حالات پر سارا ملبہ گرائے ،آپ کو کوئی کھڑا نہیں کرتا ۔۔۔لوگ صرف دھکادیتے ہیں ۔کھڑا تو خود ہونا پڑتا ہے۔ آفتاب اسے دھکا دیتا رہا تھا اور وہ گرتی رہی تھی اس نے کبھی اٹھنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔
لڑکوں کا کچھ نہیں جاتا لڑکیوں کی زندگی برباد ہو جاتی ہے ۔ پاکیزہ نے اس بات کو بہت بار سنا تھا لیکن خود پر بن پڑی تو اسی بات کو سمجھ نہ سکی۔ اللہ نے اگر اسے ماں نہیں دی تھی تو اسے صبر کرنا تھا۔ اسے اس گھر سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں تھی جس میں ماں رہتی ہے۔ جب آفتاب کیک کی کریم انگلی پر لگا کر اس کے گال پر لگا رہا تھا تب پاکیزہ کو آنکھیں میچنی نہیں چاہیے تھی آنکھیں کھولنی چاہیے تھی اور وہ انگلی ہی توڑ دینی چاہیے تھی۔ اگر آفتاب نے گرم گرم چائے پی لی تھی تو کوئی بڑا کام نہیں کیا تھا ۔۔۔ اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے۔ وہ زہر بھی پی لیتا تو پاکیزہ پر اثر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ آج اثر لے کر وہ کہاں بیٹھی تھی وہ یہ سن کر بیٹھی تھی کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اتنا احساس ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اسے کہہ چکا تھا میرا تھوکا چاٹنے والی میرے آگے بولتی ہے ۔
حساس ہونا یا نہ ہونا انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا اپنے احساسات کا اظہار انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اسے اپنی حساسیت کو کمزوری ثابت نہیں ہونے دینا تھا لیکن اب ۔۔۔ اب کیا ہو سکتا تھا ؟ اب تو زندگی بے مقصد ہو گئی تھی اب تو زندگی کے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں تھا وہ مرنا چاہتی تھی ۔
نیند کے جھونکے قریب سے بھی نہیں گزر رہے تھے اگر کچھ قریب تھا تو افسوس۔۔۔! اگر وہ یہ برداشت نہیں کر سکتی تو کوئی ارادتاََ اسے دیکھنے اس کے سکول کے باہر آئے تو وہ اپنے پاؤں پر چل کر آفتاب سے ملنے کیسے جاتی رہی؟ اگر وہ اس کے سامنے کھڑا گولیاں نگل رہا تھا تو نگلتا رہتا ۔وہ مدر ٹریسا نہیں تھی۔ اسے کوئی ضرورت نہیں تھی ا سکا بازو تھام کر اسے سنک تک لے جائے ۔
’ ’ ا ٓفتاب نورــ‘‘
پاکیزہ نے دوبارہ فون کیا تھا۔ نام نہاد طلاق کے بعد یہ پہلا فون تھا جو پاکیزہ نے کیا تھا۔ کچھ تھا جو اس سے ہضم نہیں ہورہا تھا۔ کچھ تھا جو اس کے اندر لاوے کی طرح اچھال چھکا بنا ہوا تھا۔
’’ ہاں بولو پاکیزہ آگئی یاد؟‘‘ آفتاب کا انداز استہزائیہ تھا بالکل ویسا جیسی پاکیزہ کو امید تھی۔
’’ہاں آفتاب نور مجھے یاد آگئی۔ مجھے یاد آگئی کہ اگر پہلے میں تمہارے ہاتھ کا کھلونا بنی تو صرف اس وجہ سے کہ مجھے تمہارے مسلسل پیچھے نے چونکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جب میں نے تم سے ثبوت مانگے تو تم نے اسلام کے احکامات کو محبت کی پیکنگ میں پیک کر کے پیش کیا۔ ہاں یہ میری غلطی تھی کہ میںنے تم پر یقین کیا۔ مجھے خود تحقیق کرنی چاہیے تھی! مجھے دیکھنا چاہیے تھا کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔ بہکنے والا راستہ میں نے خود منتخب کیا۔ یہ میرا تحقیق نہ کرنا ہی تھا جس نے میری عبادت کو گناہ بنا دیا۔ میرے نو سال مجھ سے چھین لیے۔ یہ میری غلطی تھی کہ جب کسی نے مجھ سے نمازوں کی قسم اٹھانے کو کہاتو میں اٹھا بیٹھی اور پھر تمہاری محبت۔۔ تمھاری اندھی محبت میں اُس قسم کو بھی ارزاں سمجھ کر توڑ دیا۔ میں نے اپنی جان پر خود ظلم کیا لیکن اب مجھے یاد آگیا ہے کہ میری جان میری اپنی ہے۔ میں جو ضائع کر چکی سو کر چکی۔ محبت کے نام پر اب مزید عزت داؤپر نہیں لگاؤں گی۔ مجھے یہ جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں کہ میرا تم سے تعلق بحال ہوسکتا ہے یا نہیں لیکن یہ جاننے کے بعد کہ تم اسلام کی سب ہی باتوں کو اپنے پیدا کرنے والے کے احکامات کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کر سکتے ہو میں تم سے مزید کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔ ایسا شخص جسے اللہ تعالیٰ کے قانون سے ڈر نہیں لگتا اسے اللہ کے کلام نے کیا بدلنا ہے۔ میں تمھاری عادتیں تبدیل کرسکوں یا نہ کرسکوں تمھاری فطرت نہیں بدل سکتی۔ تم نے محبت کو مذاق سمجھا، عزت کو ارزاں جانا۔ مجھے قصہ کہانی بنایا پھر میں کیسے امید کروں کہ ہماری داستان امر ہوگی؟
ایسا کام جو دو زندگیوں سے متعلقہ ہووہ دونوں کی باہم رضامندی مانگتا ہے۔ میں خود کو رضامندی کی انتہا تک لے جا کر دیکھ چکی ہوں لیکن تمھارے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اب میں تمہیں مزید رضامندی کی طرف لانا بھی نہیں چاہتی۔ لیکن اگر دو میں سے ایک کو بدلنا ہی ہے تو اب میں بدلوں گی۔ اس دن تم نے مجھے طلاق دی تھی آج میں تمھیں اپنی زندگی سے بدر کرتی ہوں۔ جاؤ اس بھری دنیا میں آزاد ہو تم۔ چاہو تو پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرو یا سمندر کی تہہ میں اتر جاؤ۔ میں اپنی سچی محبت کا اکلوتا خزا نہ تمہیں دے کرا ٓج تم سے چھین لینے کا دعویٰ کرتی ہوں۔ اب تم کہیں بھی سر پٹخو خزانہ تو دور کی بات آفتاب نور تمھیں سکون بھی نہیں ملے گا۔ میری طرف سے تمہارے لیے انکار ہے۔ انکار سمجھتے ہو تم؟ انکار کا درد جانتے ہو؟ہونہہ! کاش کوئی زہریلی گفتگو تمہاری بھی سماعتوں سے اتری ہوتی تو تمھیں معلوم ہوتا کہ ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بلانے والا جب پیچھے دھکیلتا ہے تو قدم کتنی بری طرح لڑکھڑاتے ہیں،دل کی کرچیاں کتنی ہوتی ہیں اور راتوں کا آسیب کیسے جینا دوبھر کر دیتا ہے؟ تم کیا جانو آفتاب نور جس درد کی میں بات کر رہی ہوں تم اس کی دال سے بھی واقف نہیں لیکن اب ہوگے۔۔۔ اب ضرور ہوگے! پاکیزہ نے آج تمھیں اپنی زندگی، اپنے وجود، اپنی محبت، اپنے حصار، اپنی ذات کے بندھن، تمہارے ساتھ گزارے لمحوں اور شدتوں سب سے آزاد کیا۔جاؤ آفتاب نور میں نے تمھیںا ٓزاد کیا‘‘۔ وہ ضبط کی آخری انتہا ؤں پر تھی۔ خزاں کے موسم نے پیڑ بے رونق کر دئیے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج خوابوں نے اس کی دہلیز سے منہ موڑا تھا۔
’’ تمھیں اپنی لفاظی پر خود ہنسی نہیں ٓتی؟ کیسی بہکی بہکی باتیں کرتی ہو؟ نفسیاتی مریضہ ہو؟ میری مانو یہ محبت وحبت کچھ بھی نہیں۔ چار دن کی زندگی ہے اچھے دوستوں کی طرح گزار لو۔ ‘‘وہ کہہ رہا تھا جب اسے جواب نہ ملا تو کان سے ہٹا کر فون کو دیکھا۔ فون کب کا بند ہوچکا تھا۔
ہواؤں نے نے رخ بدلا۔۔۔ موسم شاید بدلنے والا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کون باغ میں خنجربدست پھرتا ہے
یہ کس کے خوف سے چہرہ بدل رہی ہے ہوا
پاکیزہ کہانی ختم کرچکی تھی۔اس کے خیال میں جو نو سالہ تکلیف کا دور تھا وہ اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ آفتاب نور کے دونوں نمبر بلاک لسٹ میں ڈال کر وہ پرسکون ہوگئی تھی۔ اپنا نمبر تبدیل کرنے کا خیال تو آتا لیکن مردہ محبت کے مرجھائے ہوئے پھول اپنی خوشبو تاحال مقید کیے بیٹھے تھے۔وہ آفتاب نور سے جھوٹ بول سکتی تھی کہ وہ اس سے پیار نہیں کرتی۔ لیکن پیار تو اس نے کیا ہی کب تھا؟یہ بدبخت پیار تو اسے ہوا تھا۔ اب اس کی قبر ہمیشہ اس کے دل میں رہنی تھی بالکل ایسے ہی جیسے کانٹیکٹس میں موجود آفتاب نور کے بلاکڈ نمبر تھے۔
ایم ایس میں تھیسس شروع ہوچکا تھا۔ وہ مکمل طور پر مصروف تھی۔ اس نے کوشش کی تھی کہ وہ ریجیکشن کی تہمت ماتھے پر لگا کر بکاؤ مال بن جائے لیکن مسئلہ روز اوّل والا تھا وہ عام لڑکی نہیں تھی۔ جس طرح کوئی بھی لڑکی عام نہیں ہوتی وہ بھی عام نہیں تھی۔ زندگی کے اس مقام پر اسے اس کی محبت نے خاص بنایا تھا۔ محبت اگر اس کو غلط راستوں پر دل کی مرضی کے شخص کے ساتھ جانے نہیں دے سکتی تھی تو محبت کو صحیح شخص کہاں نظر آتا تھا۔ محبت کی بازگشت سے بچنے کے لیے اس نے خود کو بے حد مصروف کرلیا۔
وہ سوچتی میں عام سی لڑکی نہیں تھی کہ کسی کے ساتھ کہیں بھی چلی جاتی.میں بے وقوف بھی نہیں تھی کہ لچھے دار باتوں میں آجاتی.میں تو بہت سمجھدار تھی.مجھے تو اپنی عقلمندی پر بہت زعم تھا.یہ زعم یہ ناز سب ناک کے راستے نکلتا ہے.آزمائش جب سر پر آتی ہے تو ہوش نہیں رہتا.مجھے ہوش نہیں رہا.میں سمجھدار ہو کر بھی عام سی حرکت کر بیٹھی.سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی اس کی فرمائشوں پر لبیک کہتی گئی.میں مانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوئی.غلطی نہیں شاید گناہ کہنا چاہیے.میرا یہ اعتراف کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.میری غلطی نے بھی تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا.بس اتنا ہوا ہے کہ میں آدھی رہ گئی ہوں.میں نامکمل ہوگئی ہوں.کسی بھی کام کو پوری توجہ سے نہیں کر سکتی.بات کرتے کرتے بات بھول جاتی ہے.سوتے سوتے آنکھ کھل جاتی ہے.سکون کی تلاش میں جتنا آنکھوں کو موندے اپنے اندر کو کھوجتی ہوں اتنی بے چینی سے ملاقات ہوتی ہے.لڑکیوں کی غلطیوں سے دنیا میں کچھ نہیں بدلتا.بس دل کی دنیا بدل جاتی ہے……خالی اور ویران ہوجاتی ہے.کیسی ہی بہار دستک کیوں نہ دے,کتنے ہی پھول کیوں نہ کھلیں,سچی مسکراہٹ ہونٹوں پر نہیں اترتی.کبھی نہیں اترتی!
ایم ایس کے ساتھ ساتھ ایک این جی او بھی جوائن کر لی جو خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی تھی۔ اب وہ تب گھر داخل ہوتی جب اس کا جوڑ جوڑ دکھنے لگتا اور آنکھیں بند ہونے کو بہانہ مانگتیں۔ ساری رات تکیہ بھگوتی اور صبح دھنسی ہوئی آنکھیں لیے دماغ اور جسم کو ایک دفعہ پھر سے تھکانے لگ جاتی۔ اسے یقین ہوگیا تھاکہ وہ بنجر ہے۔ وہ جان گئی تھی کہ محبت کا اس سے اب کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ محبت نے جتنی تباہی پھیرنی تھی پھیر چکی ہے۔ وہ محبت کے مرجھائے پھول یادوں میں لیے رکھتی اور اپنی کبھی نہ رنگ پاسکنے والی بے رنگ دنیا کے مناظر کو دھندلا کرتی رہتی۔ ٹہراؤ سا آگیا تھا۔ یہ سارا ٹہراؤ اس دن رخصت ہوا جس دن رات کے دو بجے اس کے فون نے وائبریٹ کیا۔ سکرین ان لاک کر کے وہ واٹس ایپ میں جیسے ہی گئی اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔
محبت کے مردہ پھول چرمرا کر رہ گئے اور ٹہراؤ میں طوفان آگیا۔ یہ ایک واحد چیز تھی جو اس نے نہیں سوچی تھی۔ اس کے خیال میں سب ہوسکتا تھا بس یہ نہیں ہوسکتا تھا۔ کسی صورت نہیں ہوسکتا تھا۔ ناممکنات میں سے ایک امکان حقیقت کا روپ دھارے اسے ڈنگ مارنے کو بے قرار تھا۔ گھٹی گھٹی سی چیخ اس کے گلے سے نکلی جسے اس نے اپنے منہ میںاپنا ہی دوپٹہ دے کر روکنے کی سعی کی۔
چاند آج ماتم کر رہا تھا۔ جانے چاند کا زمین میں بسنے والوں سے کیسا تعلق ہے۔ جیسی آنکھیں اسے دیکھتی ہیں ویسا آئینہ بن جاتا ہے۔ کبھی خوش، کبھی اداس اور کبھی ماتمی۔۔۔ افسوس کی چاندنی نے اپنے پر پاکیزہ کے کمرے کی کھڑکی تک پھیلائے ہوئے تھے اور اندھیرا مسلسل بڑھ رہا تھا۔
وہ انتہائی قابل اعتراض ویڈیو تھی جو پاکیزہ کے موبائل پر بھیجی گئی تھی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس ویڈیو میں کوئی اور نہیں خود پاکیزہ تھی۔ وہ لمحات جو کبھی پاکیزہ کی محبت کے شاہد تھے اب سانپ بنے پاکیزہ کو ڈس رہے تھے۔
پاکیزہ آفتاب کے کان کی لُو کو انگلی سے چھو رہی تھی۔ وہ اُس کے خوبصورت ہاتھوں پر مہرِ مُحبت ثبت کرہی تھی۔ وہ اُس کے پیروں پر سر رکھ رہی تھی۔ وہ اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی۔ وہ محبت پاش نظروں سے دیکھ رہی تھی۔وہ اپنے دوپٹے سے بے نیاز تھی۔کتنی حیرت کی بات تھی۔۔۔ پاکیزہ ان پیروں کو، اس کان کی لُو کو،ان بالوں اور ان ہاتھوں کو کروڑوں میں بھی پہچان سکتی تھی لیکن ان ویڈیوز میں وہ شخص خود نظر نہیں آرہا تھا۔ صرف پاکیزہ نظر آرہی تھی۔ پاکیزہ کا دِل پھٹنے والا تھا۔
آفتاب نے جب اسے کہا تھا ’’مجھے تمہیں دیکھے بغیر نیند نہیں آتی میرا دل کرتا ہے کہ تمہاری ویڈیو بنالوں تاکہ تم سے ملنے کے بعد گھر جا کر تمہیں دیکھ کر سکون سے سو تو سکوں۔‘‘
جواب میں پاکیزہ نے کہا تھا ’’جانِ پاکیزہ آپ کو اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
تب آفتاب کی مغرور مُسکراہٹ پر وہ دل و جان سے صدقے واری گئی تھی۔اب دل چاہتا تھا کہ ان ویڈیوز میں جا گھسے اُس شخص کو بھی دیکھے جو اُس وقت محبت کا خراج وصول کررہا تھا۔ کتنی اندھی تھی پاکیزہ؟ وہ محبت محبت کہہ کر اپنی ہوس پوری کرتا رہا۔ ضرورت پوری کرنے کو ویڈیوز بناتا رہا اور پاکیزہ اسے اجازت دیتی رہی۔اتنا اندھا یقین تھا کہ ایک دفعہ یہ بھی نہیں سوچاکہ وہ ویڈیوز دیکھ لے۔
آج وہ کہاں کھڑی تھی؟ اپنے کمرے میں اپنے بستر پر چادر اوڑھے لیٹے ہوئے بھرے بازار میں ننگی ہو گئی تھی۔ ایسے ہی تو نہیں کہتے لڑکیوں کی عزت کانچ سی نازک ہوتی ہے۔ایک دراڑ بھی پڑے تو نظر آجاتی ہے۔ یہاں تو سارا کانچ ہی ٹوٹا ہواتھا۔آج وہ رونا چاہتی تھی اُسے رونا نہیں آرہا تھا۔ اسے وہ داغ مل گیا تھا جو اسے درکار تھا،آفتاب نے اپنی اصل اوقات دکھا دی تھی وہ انتہا تک چلا گیا تھا۔ پاکیزہ نے محبت کی انتہا کی تھی اور اس نے اوقات دکھانے کی ۔۔۔!
پاکیزہ نے ویڈیوز فوراَ ڈیلیٹ کی لیکن اب تصویریں آرہی تھیں دھڑادھڑ تصویریں۔۔ سب کی سب پاکیزہ کی۔۔ایک سے ایک عجیب۔وہی تصویریں جو بھیجتے ہوئے قابلِ اعتراض نہ لگی تھیں اب واپس ملی تو کالک سی محسوس ہونے لگی۔ پاکیزہ کے ذہن میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی بہت سی لڑکیوں کی تصاویر گھوم گئیں جن پر لاکھوں لوگوں کے نازیبا کمنٹس آتے رہتے تھے۔کیا وہ بھی اُن میں سے ایک بن جائے گی؟
اس کے ذہن میں بہت سی خبریں گھوم گئیں جو اکثر لوگ چسکے لے کر سُنایا کرتے تھے۔
مشہور یونیورسٹی کی گولڈ میڈلسٹ نے چوتھی منزل سے کود کر جان دے دی۔
فلاں کی بہن پنکھے کے ساتھ پھندا لگا کر مر گئی۔
لڑکی نے اپنے باپ کے پستول سے خود کُشی کرلی۔
کم عمر لڑکی گولیاں نگل کر اس جہانِ فانی سے رُخصت ہوگئی۔
کیا وہ بھی خبر بننے والی تھی؟
اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتی تھی؟ اُس نے تلخی سے سوچا۔
’’بڑی آئی دنیا میں نام بنانے والی۔۔۔ بڑی آئی بڑی بڑی بڑی باتیں کرنے والی۔۔ جب مرد کے پیچھے چلی ہو۔۔ ۔اپنا راہبر آج کے زمانے کی محبت کو بنایا تھا تو پھر انجام بھی سہو۔۔۔ اپنے ہاتھوں کی کرنی بھی خود بھگتو۔ لوگ تمہیں یاد رکھیں گے ضرور یاد رکھیں گے لیکن تمہاری پہچان کیا ہوگی؟ اکیلے کمرے میں ملنے والی، نت نئی گاڑیوں میں بیٹھنے والی،چند سو کی گھڑی کے عوض بکنے والی، گندی تصاویر پھیلانے والی، فحاشی پھیلانے والی، ناجائز تعلقات رکھنے والی۔۔۔ لوگ ایسے لوگوں کو بھی یاد رکھے ہیں اور ان پر تھو کتے ہیں۔ تمہیں دھتکارنے کے لیے یاد رکھا جائے گا۔پاکیزہ تم نے اپنے نام کی لاج تو رکھ لی ہوتی۔‘‘وہ خو د سے نفرت کر رہی تھی۔ زہر خند خود کلامی جاری تھی، جب اگلے میسج نے چونکا دیا تھا۔
’’میرے نمبر ابھی اَن بلاک کرو۔‘‘ وہ دیکھ چکا تھا کہ سارے میسج پڑھے جاچکے ہیں، بڑے آرام سے حکم بھیج رہا تھا۔
پاکیزہ کے پاس اور کیا چارہ تھا؟ کوئی بھی چارہ نہیں تھا۔ وہ شخص جو حساب رکھتا تھا کہ پاکیزہ نے مہینے کی کس تاریخ کو بیلنس ڈلوایا تھا اپنے معاملات میں کتنا با اختیا ر تھا۔ اس کے پاس موجود سم یا موبائل کی تعداد کیا ہے آج پاکیزہ جاننے کا دعوٰی نہیں کرسکتی تھی۔
’’تمہیں مجھ سے ملنا ہوگا ہر صورت ورنہ تمہاری تصویریں گلی میں آویزاں ہوں گی۔‘‘ یہ وہی آفتاب تھا جس کی آنکھ کے اشارے پر پاکیزہ نے اپنے گھر کی دہلیز چھوڑی تھی، اپنی ذات کے اصول توڑے تھے۔
’’اگر اپنی اور اپنے مرے ہوئے والدین کی عزت سلامت چاہتی ہو تو میں جب اور جہاں کہوں ملنے آجانا۔‘‘ وہ مشورہ نہیں دے رہا تھا، فیصلہ سنا رہا تھا۔
پاکیزہ کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔اگر وہ کر دیتا جو وہ کہہ رہا تھا تو پھر پاکیزہ کیا کرتی، پاکیزہ کم از کم پاکیزہ نہ رہتی۔ اس کی بنجر آنکھیں پھر آباد ہوئی تھی، وہ سچ میں آباد تھی۔ اس دفعہ آنکھوں کو آباد کرنے والی وحشت تھی۔ ایک بے نام سا خوف تھا۔ہلکی سی آہٹ پر دل پوری جان سے کانپ جاتا۔ وہ کچھ نہیں کر رہی تھی صرف منتیں کر رہی تھی۔
’’پلیز ایسے نہیں کرو۔ تم تو مجھ سے پیار کرتے تھے ناں۔ میں تم سے آج بھی پیار کرتی ہوں۔ تمہیں اللہ کا واسطہ ہے میری زندگی برباد نہ کرو۔‘‘
’’اچھا پیار کرتی ہو؟ اس دن تو پتا نہیں کس کس شے سے مجھے آذاد کردیا تھا اور آج پیا ر کرتی ہو۔۔۔ واہ!‘‘
’’آفتاب پلیز مجھے ایسے برباد نہ کرو۔‘‘
’’میں تمہیں برباد نہیں کر رہا۔ تم پہلے کی طرح مجھ سے ملتی رہو۔ میں اپنی حدود سے باہر نہیں نکلوں گا۔ جہاں تک آخری مرتبہ تمہیں چھوا تھا بس وہیں تک۔۔۔‘‘
’’آفتاب نہ گندا کرو خود کو۔ مجھے نہ گندا کرو۔ تم ایسے نہیں تھے تم ایسے نہیں ہو سکتے۔‘‘ وہ باقاعدہ رو پڑی تھی۔
’’تم بھی تو میری جان ایسی نہیں تھی۔ چپ چاپ میری مان لو۔ میں بھی پہلے کی خاموش محبت کرتا رہوں گا۔‘‘
’’آفتاب مجھے گندی لڑکی نہ بناؤ۔ تم پر خدا کا قہر نازل ہو گا۔‘‘
’’نیچ عورت پھر مجھے بد دعائیں دے رہی ہے۔؟ میں نے تجھے کوئی گالی نہیں دی خود کو خود ہی گالیاں دے کر میرا دماغ نہ خراب کر۔ جب تجھ سے کہوں گا مجھ سے ملنے آ جاناورنہ تیری سات نشستیںیاد رکھیں گی کہ تو نے میری نافرمانی کی ہے۔‘‘
’’آفتاب! آفتاب!‘‘وہ پکارتی رہ گئی اور وہ فون بند کر چکا تھا۔آج کا رونا صحیح معنوں میں رونا تھا۔محبت و حبت ڈھکوسلہ ہے آج پاکیزہ کو یقین آ گیا۔
اس دنیا میں ہم جتنی بھی دنیائیں بناتے ہیں وہ اسی دنیا سے جڑی ہوتی ہے۔کسی نہ کسی طور وہ مکمل تصویر میں اپنا کردار ضرور نبھاتی ہیں۔آج پاکیزہ کی دنیا بھی جب بڑی دنیا میں نظر آئی تو پاکیزہ کا ہی دل چاہا کہ وہ منظر سے غائب ہو جائے لیکن ایک یہی تو معجزہ ہے جو کسی پیغمبر کو اللہ نے اس کے ہاتھ میں نہیں دیا۔انسان کو ہر صورت میں اپنا لکھا پڑھنا ہے،اپنا بویا کاٹنا ہے،اپنے کیے پر پچھتا نا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرندے سہمے ہیں د رخت خوف ذدہ
یہ کس ارادے سے گھر سے نکل رہی ہے ہوا
پہلے کی طرح ملنا ہوتا تو وہ خوب بن سنور کر جاتی۔آفتاب کو وہ ویسے بھی سادگی میں بھاتی تھی۔لیکن اچھا جوڑا پہننا،سلیقے سے بال باندھنااور آنکھوں میں کاجل کی گہرئی لکیر کھینچنا پاکیزہ کے لیے سنگھار سے کم نہیں تھا،ہر دفعہ محبت کے بلانے پر وہ گئی تھی۔آج وہ عزت دائوپر رکھ کر اسے بلا رہا تھا،وہ صرف ارزاں نہیں ہوئی تھی بلکہ نام نہاد محبت کے لیے بک گئی تھی۔دل کرتا تھا کہ اپنے پائوں کاٹ لے،بھلا ایک شریف زادی کے پیر ایسے کسی راستے پر کیسے قدم رکھ سکتے ہیں۔کیا میں ضرورت کا نشانہ بن جانے والی غیر ضروری شے ہوں؟میں پاکیزہ جس نے ایسی محبت سے اپنے نام کو کافی حوالہ بنای کہ وہ اس لیے ہوں کہ ایک آفتاب جس سے ایک دفعہ میں امتحان پاس نہیں ہوتا وہ اپنی انگلیوں کے اشارے پر مجھے نچائے؟پاکیزہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ساری دنیا کو تہس نہس کر دے۔وہ اس دنیا کو آگ لگا دے جس میں وہ آفتاب نور سے ملی ۔آفتاب تو پھر آفتاب ہی نکلا ۔۔۔جھلسا کر رکھ دیا اور پل بھر کے لیے بھی رحم نہ آیا !پاکیزہ صرف سوچ سکتی تھی۔سوچتے سوچتے وہ وقت بھی آگیا جب وہ کٹھ پتلی اُس کے سامنے بیٹھی تھی۔
’’میں تم سے پیار کرتا ہوں۔‘‘وہ بالوں میں انگلیاں چلاتے جال پھینک رہا تھا،دام میں آئی چڑیا اس جال کی بدبو سے واقف تھی لیکن کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔
آنے سے پہلے پاکیزہ نے کتنا سوچا تھاکہ وہ آفتاب نور کے بڑھنے والے ہاتھ کاٹ دے گی۔کوئی خنجر لے کر اپنے پیٹ پر وار کرے گی اور موت کا الزام آفتاب کے سر پر دھر جائے گی۔زہر کی چڑیا کسی بہانے اس قاتل کو چٹا دے گئی جس نے اس کے ارمانوںکا خون بھایا،لیکن وہ اس سب میں سے کچھ نہ کر سکی،کچھ بھی نہیں!
وجہ وہی کہ وہ ایک لڑکی تھی،اسی دنیا میں رہتی تھی،اسی معاشرے کا حصہ تھی،جسے مردوں کا معاشرہ کہا جاتا ہے ۔قصور چاہے آفتاب کا ہو،دو لاشوںمیں سے زیادہ بدنامی اس لاش کے لواحقین کی ہوتی ہے جو لڑکی کی ہو،کوئی سکھ تو پاکیزہ نے پھپھو کو دیا نہیں تھا،اب ڈھلتی عمر میں یہ دکھ بھی نہیں دینا چاہتی تھی۔
’’آفتاب اللہ کا واسطہ ہے مجھ پر رحم کرو۔‘‘خود کو استعمال ہونے دینے کی ذلت آنسو بن کر بہہ پڑی۔
’’تمہیں لگتا ہے مجھے تمہارے رونے سے فرق پڑے گا تو اور رو لو‘‘۔وہ خباثت کی انتہا پر تھا،دِست درازی بڑھ رہی تھی،پہلے اسی دست درازی پاکیزہ کو دیوانگی سمجھتی تھی ،آج حیوانیت محسوس ہو رہی تھی۔
’’آفتاب پلیز نہیں ناں،ایسے نہیں کرو۔‘‘وہ سسکیاں بھرنے لگی۔
’’اگر ایسے روئوں گی تو کل پھر بلائوں گا،روز بلائوں گا۔‘‘وہ قطعی پن سے بولا۔
پاکیزہ نے بامشکل اپنی سسکی قابو کی۔وہ حد سے بڑھ رہا تھا۔دیوانہ ہو رہا تھا۔
’’آفتاب بس پلیز بس۔تمہارے گھر بھی بیٹیاں ہیں۔تمہارے بھائی کی بچیاں ، بہن کی بیٹی۔۔میرے ساتھ یہ سلوک نہ کرو۔‘‘نجانے کیسے اس کی زبان کھلی تھی۔
’’چٹاخ‘‘ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے کنول چہرے کو داغدار کر گیا۔پانچ انگلیاں ثبت ہوئی اس کے بعد بھی ہاتھ نہ رُکے وہ اپنی مرضی سے سفر طے کرتے رہے۔وہ اپنی عادت کے مطابق سب کچھ کر چکا تھا لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ تھا کہ آخری حد اب بھی نہیں توڑی تھی۔
روتی ہوئی پاکیزہ کی آنکھوں میں سوال تھا’’اتنے ہی وحشی ہو تو آخری حد کیوں نہیں پھلانگتے؟‘‘
پاکیزہ کو بس سٹاپ پر چھوڑتے ہوئے اس نے بڑی سرد مہری سے جواب دیا تھا۔
’’میں اپنے خلاف کوئی ثبوت نہیں چھوڑنا چاہتا۔‘‘
پاکیزہ دنگ رہ گئی۔پاکیزہ جسے محبت کی پاکیزگی سمجھتی رہی وہ عیاری کی انتہا تھی۔اُف!یہ شخص میرے ساتھ تب سے کھیل رہا تھامیں جب سے اس سے محبت کر رہی تھی،چلنا دو بھر ہوا تھا۔وہ بس کے بجائے ٹیکسی کو ہاتھ دے کر اس میں بیٹھ گئی،سٹاپ پر بہت سے چہرے گھور رہے تھے۔آج پاکیزہ کو پتہ چلا تھا کہ دیکھتے تو سب ہیںلیکن محبت ہمیں اتنا اندھا کر دیتی ہے کہ ہمیں لوگوں کا دیکھنا بھی دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
پاکیزہ اب مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی آج سے پہلے تک اُسے اپنا آپ مظلوم نظر آ رہا تھا لیکن اب ماضی کے آئینے میں اپنا کردار بھی واضح ہو چلا تھا۔اس نے خودکہاں کہاں بے وقوفی کی تھی سب یاد آ رہا تھا۔آج وہ مان رہی تھی کہ لڑکی بڑھاوانہ دے تو لڑکے کو شہہ نہیں ملتی۔
میں نے خود آفتاب کو کہا تھا کہ کل کسی اور کے پیچھے مجھے چھوڑ دوگے۔اتنی عقل کی بات منہ سے تو کہہ دی لیکن دماغ کی اتنی کچی نکلی کہ اپنی کہی بات پر خود ہی یقین نہ رکھا۔جو آفتاب تیز روشنی سے کمرہ جماعت میں داخل ہو کر کچھ دیکھ نہیں پاتا تھا وہ اگر کسی لمحے سچی محبت میں غلطی سے مبتلا ہو بھی گیا تھاتو کیا دنیا کی چکا چوند اس کی آنکھیں خیرہ نہیں کر سکتی تھی؟ایک اعتبار کی کمی کا شکار لڑکے سے میں نے کیسے رشتہ مانگنے کا سوچ لیا؟ میں نے کہا تھا کہ میں کسی بے عزت کر کے رکھ دینے والے تعلق کا ساتھ لے کر نہیں جی سکتی پھر اس وقت ہی کیوں نہ چھوڑدیا اس کو جس دن وہ فون کال پر جھوٹا ثابت ہوا۔جس دن اس نے مجھے منزل نہیں بلکہ اپنی کئی راستوں میں سے راستہ کہا۔
میں جانتی تھی کہ رشتے ہمیشہ سابقہ کا کارڈ گلے میں لٹکا کر سامنے کھڑے ملتے ہیں تو پھر میں کیوں نہ ڈری کہ اگر کل کو آفتاب نے مجھے نہ اپنایا تو وہ میرا ’’آشنا‘‘کہلائے گا۔کسی لڑکی کے لیے آشنا کا ہونامعتبر حوالہ نہیں ،میں نے خود کو معتبر کیوں نہ رہنے دیا۔
آفتاب نے مجھے ایک دفعہ کہا تھا کہ جو جل نہیں سکتے وہ پگھل جاتے ہیں۔میں کیوں نہیں سمجھتی وہ مجھے خاکستر کرنا چاہتا ہے یا پھر میرا روپ بدلنا چاہتا ہے۔وہ مجھے موم بھی کر سکتا تھا۔مجھ سے صرف دوستی رکھ کر بھی اتنا عرصہ رابطے میں رہ سکتا تھا لیکن نہیں پہلے میں پگھلی اور آخر میں اس نے مجھے خاکستر کر دیا اس نے مجھے جلادیا۔غلطی اس کی نہیں میری ہے،کسی کا کلاس فیلو ہونا اس کی سچائی کی بڑی دلیل نہیں ہے۔جو بھی تھا وہ نا محرم تھا،میں نے اللہ کی حدود کو اس کے لیے توڑا،اللہ جی مجھے کیسے ثابت چھوڑ دیتے؟انہوں نے مجھے اسی انسان کے ہاتھوں ریزہ ریزہ کر دیا۔
میں سمجھتی تھی کہ وہ فون سے باہر نہیں نکل سکتا اور نہ ہی مجھے کھینچ کر نکال سکتا ہے ۔اس نے دونوں کام کیے لیکن میں خاموش رہی میں کٹھ پتلی بنی رہی،میں محبت کا تماشا دیکھتی رہی وہ ضرورت کا پجاری بن گیا۔کہا جاتا ہے کہ بچپن کے دوست کبھی دھوکا نہیں دیتے،میں نے بھی اسی ایک بات پر یقین کیا،کیا میں نہیں جانتی تھی کہ آج کل خون سفید ہو گیا ہے،دوستی تو بہت بعد کی بات ہے۔
مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا کرتے۔اس نے پہلی بار ڈسا تو میں نے اپنا وجود دوسری مرتبہ کے لیے خود پیش کیا،اُس رات اگر وہ کانچ کی بوتل اپنے گلے پر پھیر کر مرتا تو بے شک مر جاتا۔میں کیوں بھول گئی میں صرف اپنے کیے کی ذمہ دار ہوں ۔اس کے کیے کا بوجھ مجھ پر نہیں پڑتا۔میں اللہ جی سے دعائیں مانگنے والی کہ میں صُمُ بُکم عمیُ نہیں ہونا چاہتی مجھے ایک انسان کا کر کے نشان عبرت بنانا اور میں خودہی اس انسان کی ہوتی گئی۔میں نے اپنے اردگرد موجود سب رشتوں کو ٹھکرایا۔
سب سے پہلے تو میں نے اللہ جی کو اپنے لیے کافی نہ جانا اس کے بعد وہ کرتوت جو میں نے اپنے ہاتھوں سے کیے اس کا ملبہ پھوپھو پر گرانا چاہا۔اگر پھو پھو نے موبائل دیا تھا تو ساتھ کہا تھا کہ میں اعتبار بھی دے رہی ہوں۔میں نے موبائل یاد رکھا اعتبار بھول گئی،اعتبار توڑ دیا۔پھوپھو نے صرف اسلام دعا رکھنے کو کہا تھا اور میں خود حدیں عبور کرتی گئی،اتنی حدیںکہ میں آخر میں بد لحاظ ہو گئی،بد زبان ہو گئی۔یہ میری ہی ناہنجار زبان تھی کہ جس نے ’’وقت کی مار خُدا یاد کروا دیتی ہے‘‘کے جواب میں کہا تھا’’کسی بہانے ہی سہی وہ یاد توآئے گا ناں!‘‘اب وہ یاد آتا ہے تو میں روتی کیوں ہوں۔میری تو ہر بات پوری ہوئی ہے۔
میں نے اپنی یتیمی کو اپنی محرومی بنایا۔اللہ کی عطا پر کبھی نظر نہ کی۔ویسے تو واسطے دینے کے لیے فوراً رسولﷺ یاد آتے ہیں۔اللہ جی کے رسولﷺ کا واسطہ ! لیکن ان ﷺکا بچپن دکھا ئی نہیں دیتا۔کیا وہﷺ یتیم نہیں تھے؟ان ﷺکے اوپر جو ظلم اپنوں نے ڈھائے ان کونبی آخر الزمانﷺ ہونے کے باوجود جیسے جھٹلایا گیا اس کے باوجود آزمائشیں پڑنے سے پہلے ہی ہمارے پائوں زمین سے اکھڑ کیوں جاتے ہیں؟
جب میں نے خود کو بربادی کے لیے خود پیش کیا تو اب میرا رونا نہیں بنتا۔قصور وار آفتاب نہیں قصور وار میں خود ہوں۔اب مجھے اپنا کیا خود کاٹنا ہے۔مجھے اپنا سامنا کرنا ہے۔وہ خود کو مکمل آئینہ دکھا کر وضوکرنے گئی تھی۔اس کے بعد اسے توبہ کے نفل پڑھنے تھے،ایسی تو بہ جس کے بعد گناہ نہیں کیا جاتا۔
وہ نہیں جانتی تھی آگے کیا ہو گا،وہ کہاں سے کوئی راستہ پائے گی،لیکن آج اس نے سچائی کو جان لیا تھا۔آج اس نے ثابت کر دیا تھاکہ وہ واقعی عام سی لڑکی نہیں ہے۔اس کے اندر ہمت ختم ہو گئی تھی ،وہ مسخ شدہ کتبے کی طرح تباہ حال تھی لیکن اس کے باوجود اُسے رب کے حضور جھکنا تھا۔وہ کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکتی تو بیٹھ کر پڑھتی لیکن آج کی رات توبہ گو یا فرض ہو چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ وعدہ ہے کوئی تم سے،کوئی رشتہ نبھانے کا
نہ کوئی اور ہی دل میں تہیہ یا ارادہ ہے!
کئی دن سے مگر دل میں
عجب الجھن سی رہتی ہے!
نہ تم اس داستاں کے سرسرسی کردار ہو کوئی
نہ قصہ اتنا سادہ ہے!
تعلق میں جو سمجھا تھا کہیں اس سے ذیادہ ہے!!
صبح کی روشنی نے جب کمرے میں قدم رکھے تو پاکیزہ مشینی انداز میں آئینہ کے سامنے کھڑی بال سنوار رہی تھی۔بہت دیر بعد وہ اس گھر کے دوسرے کمرے میں گئی تھی،بستر پر چادر تہہ ہوئی پڑئی تھی،اور کمرہ خالی تھا۔پاکیزہ کو عرصہ ہوا پھوپھو کے آنے جانے کا علم نہیں تھا۔ایک طائرانہ نظر کمرے میں دوڑائی تو سب کچھ پہلے جیسا ملا۔
کتنا عرصہ محبت میں آنکھیں بند کیے ہم سالوں پر سال گزارتے چلے جاتے ہیں،جب آنکھیں کھولتے ہیں تو ہر چیز ویسی ہی ہوتی ہے لیکن ہماری عدم تو جہی کا شکار ہو کر اسے ہماری عادت نہیں رہتی۔ لگتا تھا اب اس کمرے کو بھی پاکیزہ کی عادت نہیں رہی ،ہوا کے زور دار جھونکے نے سائیڈٹیبل پر پڑی ایک فائل کو نیچے گرا دیا۔پاکیزہ نے آگے بڑھ کر کھڑکی بند کرنے کی کوشش کی ،پرانی کھڑکیاں بند کرنے کا فن ہاتھ سے رُخصت ہو چکا تھا۔اس نے ٹیبل پر پڑا گلدان کھڑکی بند کر کے آگے رکھ دیا۔فرش پر پڑی فائل کو اٹھایا تو چونک گئی ،باہرڈاکٹرکے نام کے ساتھ بریکٹ میں Oncologistلکھا ہوا تھا۔وہ بڑ بڑا گئی،فائل اس کے ہاتھ سے پھر گر گئی۔’’کیا اس نے واپسی میں اتنی دیر کر دی تھی؟‘‘سوال نے منہ چڑایا۔فائل کھولی تو وہی ہوا جس کاڈر تھا۔مریض کا نام تسکین تھا۔پہلی رپورٹ انہی تاریخوں کی تھی جب پاکیزہ پر شادی کازور ڈالا تھا۔وہ وہیں فرش پر بیٹھ گئی۔
اور پھر اللّہ نے مجھ سے ایک جھٹکے میں منوا لیا کہ وہ اللّہ ہے.بھری دنیا میں کون ہے میرا….کوئی بھی تو نہیں.میں خود بھی اپنی نہیں.میں نے خود اپنی جڑوں میں اینٹیں رکھی ہیں.میں نے سوچا تھا میں اس کے دل پر نقش ہوگئی ہوں.اللّہ نے مجھے بتایا وہ دل میں اتارنا بھی جانتا ہے وہ دل سے اتارنا بھی جانتا ہے.کیا اس نے نہیں کہا تھا کہ تم زمین میں جتنا ہے چاہو تو خرچ کر لو لیکن کسی کے دل میں محبت پیدا نہیں کرسکتے لیکن میں کرسکتا ہوں.میں کیسے بھول گئی.مجھے اس کا نام رحیم یاد رہا,قہار بھول گیا.اسے اگر بغیر حساب کے نوازنا آتا ہے تو وہ واپس چھین لینا بھی جانتا ہے.یقین کرو وہ اللّہ ہے,یہ اس کے لئے ذرہ برابر بھی مشکل نہیں ہے.اس نے مجھے میری اوقات بتائی.مجھے بتایا کہ میں انسان ہوں,انسانوں میں رہتی ہوں.سانپوں کو انسانوں سے ڈسوانے والے موسم میں انسانوں میں رہتی ہوں.وہ انسان جنہوں نے کبھی میری
خوشی کو مقدم نہیں جانا.وہ انسان جنہوں نے مجھ پہ ان الزامات کا بوجھ لگایا جنہیں کرنے کا میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا.میں کیسے اپنی آنکھیں اور کان بند کر کے خوابِ غفلت میں مدہوش ہوسکتی ہوں.میں خود کو Jackle of all trades سمجھنے لگی.دنیا کی ذہین فطین بندی جاننے لگی.جو ایک انگلی کے اشارے سے اپنی دنیا کے منظر نامے کو بدل سکتی ہے.از میں موجود انسانوں کو کٹھ پتلی کی طرح نچا سکتی ہے. میں بھول گئی کہ کٹھ پتلی تو میں خود ہوں…..اور وہ مجھے تگنی کا ناچ نچا سکتا ہے.کیا میں اللّہ کو بھول کر دنیا دنیا کروں گی اور پھر بھی اللّہ میری مدد کرے گا….. نہیں! ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا.اس نے مجھے شروع سے اپنی طرف متوجہ کئے رکھا.میں اس سے راز و نیاز کرتی رہی.جیسے ہی مجھے کوئی چھونے والا انسانی دوست ملا میں اسے بھول گئی.میں نے اس انسان کی دوستی کو اوپر رکھا.پھر اللّہ نے اسی دوستی سے مجھے نیچے دکھایا.پاتال کی سیر کروائی.انسان کو اللّہ سے محبت کرنی چاہیے…..ہاں! بالکل کرنی چاہیے لیکن انسان کو اللّہ سے ڈرنا بھی چاہیے.وہ اپنے ساتھ کسی کو شریک ٹہرانا پسند نہیں کرتا.دنیا کو اس کے مقابل نہیں لانا چاہیے ورنہ وہ بس ایک جھٹکا دیتا ہے….صرف ایک جھٹکا اور انسان مان جانتا ہے کہ وہ واقعی اللّہ ہے.
اس اللہ نے آج مجھے اس انسان کا چہرہ دکھایا اور ساتھ ہی ساتھ اب واحد رشتہ بھی دور کرنے کا امکان دکھا دیا۔پھر کون بچا؟ وہی جو اللہ ہے!
اپنی اوقات پہچاننے کے بعد اپنی اوقات اچھی لگنے لگتی ہے۔اسے فرش آرام دہ لگ رہا تھا۔وہ گھر میں رہ کر پھو پھو کا انتظار کرنا چاہتی تھی لیکن ان کے آنے کا وقت بھی تو نہیں معلوم تھا۔یہ طے تھا کہ اب وہ یونیورسٹی نہیں جا سکتی۔تحقیقی کام دماغ کبھی نہ کرتا۔وہ متحیر سے جذبات لیے گھر سے باہر نکل آئی،اب اسے این او جی او میں جانا تھا شاید کچھ سکون ملتا۔
کارڈ بورڈ کی بنی گئی دیواروں کے ذریعے ایک ہال کو تین چار کمروں میں تبدیل کیا گیا تھا،ہال کے پیچھے باغیچہ تھا اور اس کے بعد پھر رہائشی کمروں کی دو قطاریں تھیں،انتظامیہ آگے ہال نما کمرے میں موجود ہوتی جو گیٹ سے اندر داخل ہو کر پارکنگ کے بعد موجود تھا،وہ آج یہاں آرام کرنے کی غرض سے آئی تھی،رات کوکی گئی توبہ میں شاید تاخیر ہو گئی تھی ورنہ صبح اتنی بُری خبر نہ ملتی،آنکھیں بند کر کے اس نے سر کرسی کی ٹیک سے لگا دیا۔ابھی تک وہ بس فائل ورک کر رہی تھی۔
ساتھ کے کیبن سے چھن کر آتی آواز یں مشاورت اور رہنمائی کا شاخسانہ لگ رہی تھیں۔کیا وہ بھی کبھی نا صح بن سکے گی؟اس نے تاسف سے سوچا۔جواب جانتی تھی۔دل ہی لتے لینے پر تیار تھا’’دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت‘‘
ساتھ والے کمرے سے آنے والی آوازیں اب دلچسپ ہو گئی،لگتا تھا اسی کی ذات کو،اسی کے مسئلے کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔
’’ڈرتی رہو گی تو وہ ڈراتا رہے گا۔تم ایک باہر پھر اسے شہ دے رہی ہو،بے وقوف لڑکی وہ لڑکا جو سیدھا کام نہیں کر سکا وہ الٹا کیا خاک کرے گا؟اس کے اندر اتنی ہمت ہوتی تو اور کیاچاہے تھا؟وہ تمہیں بلیک میل کر رہا ہے اور تم ہو رہی ہو۔اس کے پاس جو ثبوت ہیں وہ انہیں سوشل میڈیا پر دے کر اپنے لیے خندق کیوںکھود ے گا۔اسے تمہاری چھوٹی عقل کا ادراک ہے اس لیے تمہیں دبا رہا ہے۔جائو اسے کہہ دو جو کرنا ہے کر لو،جہاں تصاویر لگانی ہیں لگا دو،جہاں ویڈیو اپلوڈ کرنی ہے کر دو۔ساتھ ہی ساتھ اسے یہ نمبر بھی بھیج دینا۔‘‘
’’کون سا نمبر باجی؟‘‘ایک مری ہوئی آواز آئی تھی۔
’’سائبر کرائم کا نمبر ہے یہ۔سائبر کرائم کے تحت اگر کوئی شخص آپ کی تصاویر یا ویڈیو کسی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر لگاتا ہے تو اس شخص کو پانچ سے سات سال کی قید اور پانچ لاکھ ہرجانہ ادا کرنا ہو گا۔‘‘
’’لیکن باجی ان ویڈیوز میں تو میں۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں ذاتی ویڈیو ز کی ہی بات ہو رہی ہے۔اس شخص کو معلوم ہے کہ تم اس قانون سے ناواقف ہو اسی لیے تمہیں دبا رہا ہے۔ایک دفعہ اس کے سامنے شیرنی بن کر آئو گی تو تمہیں چوہیاسمجھنا چھوڑ دے گا۔سائبر کرائم کا صرف نام لے لینا۔جس میں گھر والوں کو بھی معاشقے بتانے کی ہمت نہیں وہ بھی لڑکیوں کی کم علمی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔آج کے بعد سلائی کے جمع شدہ پیسے اُس کو دینا چھوڑ دو۔‘‘
’’وہ ہر دفعہ رقم کا مطالبہ کر کے کہتا ہے کہ پھر تصویریں ختم کر دے گا۔‘‘
’’اور تم ہر دفعہ اس کی باتوں میں آجاتی ہو؟پاگل لڑکی بس کرو۔جائو دستکاری کے کورس کافارم لے کر ریسپشن پر دے جائو۔‘‘
ساتھ والے کمرے سے اب آوازیں آنا بند ہو گئیں تھیں۔
’’میں کتنی بڑی بے وقوف ہوں۔ایم ایس کر رہی ہوں اور استعمال ہو رہی ہوں۔‘‘پھر اس نے اپنے گریبان میں جھانکا۔’’کیا مجھے ہی تو استعمال ہونے کا شوق نہیں؟‘‘رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔
آواز یں آنا بند ہوئی تو ساتھ والے کمرے کا رخ کیا۔کبھی کبھی آتی تھی اس لیے سب کا نام معلوم نہیں تھا۔میز پر فرزانہ کے نام کی تختی پڑی تھی۔پاکیزہ نے خوشدلی سے سلام کیا۔جس کا پرتپاک جواب ملا۔غالباًوہ سب والنٹئیرز کوجانتی تھی۔
’’آپ ابھی کسی کو بہت اچھے سے سمجھا رہی تھی،مجھے لگا تعریف بنتی ہے لہذا آپ کے پاس آگئی۔‘‘
’’تعریف اُس خدا کی جس نے یہ جہاں بنایا۔انسان کو انسان بنایا۔بس لڑکیاں بے وقوف زیادہ ہو گئی ہیںتو سمجھانا بھی کھل کر پڑتا ہے۔کبھی کبھی تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ خراب عورتیں سائبر کرائم کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد نہ پورے کرنے لگ جائیں۔جب تک کیس کی ہسٹری مکمل نہ پتہ ہومیں سائبر کرائم کا مشورہ نہیں دیتی ۔یہ بے چاری تو اپنے سابقہ منگیتر کے ہاتھوں عرصے دراز سے بلیک میل ہو رہی ہے،اُس منگیتر کے دو بچے بھی ہو گئے لیکن وہ اس کی کمائی پر نظر رکھے بیٹھا ہے۔‘‘
’’اچھا ۔۔۔اس طرح کے کیسز بھی آتے ہیں؟‘‘
’’اب تو زیادہ تر غیر شادی شدہ خواتین کے کیسز ہی آ رہے ہیں،جو اصل میں بچیاں ہیں۔رونا کسی اور چاہیے کہ وہ محبت نہ نبھا سکا لیکن روتی یہ خود ہیں۔وہ کیوں نہ مرے،یہ کیوں محبت بھی کریں اور یہی مریں؟‘‘
’’آپ کی تو لفاظی بھی کمال ہے۔‘‘وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’لفاظی میری نہیں میم کی ہے۔وہ جو دو چار لفظ بولتی ہیں دماغ میں رہ جاتے ہیں،آج تو وہ آئی ہوئی ہیں۔اب شہر میں تین ادارے بن گئے ہیں تو اس ادارے میں کم ہی آتی ہیں۔آج بس رہائشی کمروں کا جائزہ لینے آئی ہیں،وہ آئیں تو میں آپ سے ملواتی ہوں۔ان سے ملنے کے بعد آپ والنٹئیرلی مستقل کارکن بن جائیں گی،مجھے یقین ہے،لیجئیے میم تو آگئی۔‘‘اتنا کہہ کر فرزانہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی۔
فرزانہ کی دیکھا دیکھی پاکیزہ نے بھی کرسی چھوڑی اور مُڑ کر کھڑی ہو گئی،سامنے وہی مریضہ تھی،جس کی فائل وہ گھر میں دیکھ کر آرہی تھی،پاکیزہ نے بمشکل کر سی کا سہارا لیا،اوسان پاکیزہ کے ساتھ ساتھ حیرت نے تسکین کے بھی خطا کر دئیے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مدوجزر دنیا کھیل ہے سانپ اور سیڑھی کا
یہاں سے اور آگے استعارا جا نہیں سکتا
گھونسلے میں شور بڑھ گیا تھا،ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اچھے موسم نے ان پر ہی اپنا اثر ڈالا ہے ،چہچہاہٹ سے فضا کی موسیقی میں اضافہ ہوا تھا،کمرے میں سب رنگ ہی تبدیل ہوئے تھے،پاکیزہ تسکین کی گود میں سر رکھ کرسکڑرہی تھی۔’’آپ نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا۔کبھی نہیں بتایا۔مجھے اس قابل سمجھا ہی نہیں۔‘‘
’’تم نے بھی تو کبھی کچھ نہیں پوچھا پاکیزہ۔میں نے جب جب تماری بہتری کے لیے کچھ کہنا چاہا تمہیں میں اپنی دشمن لگی۔‘‘پھوپھو نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’میں غلط تھی پھو پھو،مجھ سے غلطی ہو گئی ،مجھے معاف کر دیں،آپ جو کہتی تھی میرے بھلے کے لیے کہتی تھی۔میں نے آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا،پتہ ہے پھو پھو وہ بھی مجھے چھوڑ گیا ہے۔‘‘پاکیزہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگ گئے تھے بیمار پھو پھی کو وہ تفصیلات نہیں بتا سکتی تھی لیکن کم از کم دل کا بوجھ تو ہلکا کر سکتی تھی دل آج بھی اتنا ہی نادان تھا کہ اتنی ذرا سی بات پر ہلکا ہو جاتا تھا۔
غیروں سے جب التفات بڑھتی ہیں تو اپنے سگے رشتے بھول جاتے ہیں،غیر جب چھوٹ جائیں تو دوبارہ کبھی پہلے کی طرح نہیں ہو سکتے،چھوٹی سی غلطیاں غیروں کے معاملے میں گناہ بن جاتی ہیں۔اپنوں سے لاکھ شکوے شکایتیں ہو بس ایک دفعہ گلے لگنے کی دیر ہے واپس رابطے بحال ہو جاتے ہیں،اپنا خون اپنا ہی ہوتا ہے ۔ذرا سی کانٹ چھانٹ کرو تو پودے تازہ ہو جاتے ہیں۔
’’نہیں میری جان معافی مانگنی کی ضرورت نہیں ہے،میں نے بھی بہت عرصہ خود ترسی میں گزارا،مجھے لگاکہ جتنے ظلم مجھ پر ہوئے ہیں شاید اس دنیا میں کسی پر نہیں ہوئے ،گزرتے وقت اور تمہاری باتوں نے احساس دلایا کہ اگر میں دنیا سے یونہی چلی گئی تو میں نے اپنے آنے کا مقصد بھی پورا نہیں کیا۔اپنے سے جڑے رشتوں سے بھی میں محبت و اپنا ئیت کا سلسلہ قائم نہیں رکھ سکی۔بس شکوے شکایتیں کرتی رہی۔۔۔میں نے تمہارا عزم بہت بلند دیکھا تھا۔میں نے جب عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا تو میری بڑی خواہش تھی کہ تم میرے کاندھے سے کاندھا ملائو۔تمہاری اپنی مصروفیت تمہیں مجھ سے دور کرتی گئی۔تم اس وقت کوئی بات سننے پر آمادہ ہی نہیں تھی۔اگر سنتی تو جان جاتی کہ میری آسودگی کی وجہ دوسروں کی تکالیف دور کرنا ہے۔میں کسی ایک عورت کا مسئلہ حل کرتی تو میرا اطمینان مزید بڑھ جاتا۔دن رات کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔میرے ادارے کو حکومت نے بھی رجسٹر ڈ کر لیا اور مزید دو عمارتیںبنانے کے لیے معاونت بھی کر دی۔اس وقت تین ادارے میرے زیر سایہ چل رہے ہیں لیکن میری خواہش ہے کہ اب یہ سب تم دیکھو،میں تو پل دو پل کی مہمان ہوں۔‘‘
پھوپھو کی آنکھوں سے آنسو ٹپِ ٹپِ گرنے لگے،پاکیزہ نے اٹھ کر ان کے گال صاف کیے اور گلے سے لگا لیا۔
’’ایسے نہیں کہیں پھوپھو،میرا آپ کے علاوہ کون ہے،آپ نہ رہی تو میرا کیا ہو گا؟آپ کو ابھی بہت جینا ہے۔ابھی مجھے آپ کی خدمت کرنی ہے،جو آپ چاہیں گی فلاحی ادارے کے حوالے سے وہی ہو گا۔‘‘
تسکین کے گلے لگی پاکیزہ کو احساس ہوا کہ وقت کتنی تیزی سے آگے بڑھ گیا ہے۔تسکین کمزور ہو گئی تھی اور پاکیزہ کی گرفت مضبوط تھی۔
’’میرا وہ دکھ جو اللہ جی نے مجھے رسوا کرنے کے لیے دیا میں اسے بدنامی کا ذریعہ نہیں بنائوں گی،اگر اللہ جی نے پردہ رکھا ہے تو میں پردہ چاک نہیں کروں گی،میں پھوپھو کو آفتاب سے متعلق ایک لفظ مزید نہیں بتائوں گی۔‘‘پاکیزہ نے پکا ارادہ کر لیا ۔
اس کی سوچوں کا سمندر وسیع ہوتا جارہا تھا۔اپنے کمرے میں آکر وہ خود کلامی کر رہی تھی۔’’میں نے اس سے الگ ہو کر بھی اللہ کو نہیں چھوڑا.ہاں میں تھوڑا سا ڈگمگائی تھی….ہاں میرے قدم لڑکھڑائے تھے.جتنی مضبوطی سے میں نے اللہ کی رسی پہلے تھام رکھی تھی اتنی طاقت میرے ہاتھوں میں نہیں رہی تھی.ٹوٹا پھوٹا سا تعلق بن گیا تھا لیکن میں نے اس تعلق کو کبھی ماضی نہ بننے دیا ہمیشہ اسے اپنا حال رکھا.روئی تب بھی اللہ کو یاد کیا.گناہ کیا تو اس سے دور نہیں ہوگئی اسی کی بارگاہ میں سر رکھا اور اپنے دل کا قرار مانگا.میں ضدی بچہ بن گئی….آپ نے وہ نہیں دیا تو قرار تو دیں ناں!
قرار کہاں ملنا تھا پھر آزمائش آگئی….ایک اور آزمائش….ایک بڑی آزمائش….. قریب تھا کہ شیطان مجھے مایوس کر دیتا اور میں اندھیروں میں بھٹکتی پھرتی لیکن مجھے اسی اندھیروں میں سے روشنی تلاشنی تھی.میں حبس ذدہ ہوا میں گہرے گہرے سانس لینے لگی اور مجھے زندگی کی کوک سے تازہ ہوا ملی.وہ بہت چھوٹا سا اشارہ تھا.موم بتی کی روشنی سا چھوٹا اشارہ….میں نے موم بتی کی روشنی کو اپنا سورج بنایا اور پھر سورج کے رب سے اپنا قرار مانگا.شاید میری برداشت ختم ہو چکی تھی.اور وہ میرے پیارے اللّہ جی کسی کو اُس کی برداشت سے ذیادہ تو نہیں آزماتے ناں؟
بس جیو یا مرو…اللّہ جی سے اپنا ذاتی رشتہ قائم رکھو.یقین جانو یہ رشتہ ہی زندگی ہے.یہ رشتہ ہی زندگی کا اصل ہے.یہ رشتہ کہیں بھی نماز کی طرح فرض نہیں کیا گیا لیکن یہ کسی بھی فرض سے ذیادہ ضروری ہے.اللّہ جی سے راز و نیاز کرتے رہو.اپنے دل کی باتیں اچھی بری سب کہتے رہو.جس طرح خود سے خود کو چھپا نہیں سکتے اللّہ جی سے بھی نہ چھپاؤ.وہ پھر تم پر تمہاری برداشت سے ذیادہ نہیں بوجھ ڈالیں گے….یہ اُن کا وعدہ ہے…انہوں نے قرآن میں فرمایا ہے…!‘‘
محبت جب یک طرفہ ہو جائے اور دوسری طرف سے کوشش نام کی کوئی چڑیا اپنے پر نہ پھڑ پھڑائے تو محبت مردہ چڑیا کی طرح اپنی منڈیر پر پڑی رہتی ہے،ہوائیں لاکھ اس کی بے حرمتی کریں،ذلت کا احساس بے شک ہوتا رہے لیکن یقین جانیں نبض نہیں چلتی ۔۔۔دل واقعی مردہ ہو جاتا ہے اور کوئی خواہش نہیں کرتا !محبت پہلے دوسرے فریق کے ہاتھ چھڑانے پر حیرت ذدہ ہوتی ہے،اور پھر یک طرفہ ہو کر مردہ ہو جاتی ہے،جب چیل کوے نوچنے آتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے مگر آہ نہیں نکلتی!اگر آپ بھی تنہا کوشش کر رہے ہیں تو یقین جانیں یہ مقام ضرور آئے گا دل مردہ ہو جائے گا۔
پاکیزہ کا دل مردہ ہو گیا تھا،یہ بھی پاکیزہ نے نہیں کیا تھا،بالکل اسی طرح جیسے اس نے محبت نہیں کی تھی،پہلے محبت خود ہوئی تھی اور اب دل کی موت بھی خود ہی ہوئی تھی۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت ایسا پودا ہے
جو تب بھی سبز رہتا ہے
کہ جب موسم نہیں ہوتا
محبت ایسا رستہ ہے
اگر پیروں میں لرزش ہو
تو یہ محرم نہیں ہوتا
آفتاب تاحال پاکیزہ سے ملنے پر مصر تھا۔پاکیزہ تسکین کی تیمارداری میں مصروف تھی۔جب تک تسکین کو سمیٹنے والا کوئی اپنا نہیں تھا وہ مضبوطی سے زمین پر قدم گاڑے کھڑی رہی لیکن جیسے ہی کاندھا ملا ۔۔۔وہ ختم ہونے لگی۔دیمک تو کب کی لگ چکی تھی۔لکڑی اب بھر بھرانے لگی۔وہ کمزور تر ہوتی جا رہی تھی۔
پاکیزہ بالکل بدل گئی تھی سر سے پیر تک۔اپنا تھیس فریز کر دیا تھا۔سارا دن تسکین کی خدمت گزاری میںلگی رہتی ۔برسوں کی دھنددنوں میں چھٹ گئی تھی۔تسکین کی آنکھوں میں ممنونیت جھلکنے لگی تھی۔پاکیزہ کی انسیت بڑھتی جا رہی تھی۔کیمو تھراپی سے کوئی خاص فرق نہیںپڑ رہا تھا،بال تقریباً آدھے رہ گئے تھے۔فلاحی ادارہ دوسروں کے رحم و کرم پر تھا،پاکیزہ کو آخری کیل ٹھونکنا تھی۔
وہ تسکین کو دوا دے کر اپنی الماری کھولے کھڑی تھی۔
یہ گھڑیاں۔۔۔جو صرف ایک شخص کے کہنے پر پہنی تھی۔
موتیوں کی مالا۔۔۔جس کے شایان شان کبھی کوئی سوٹ نہیں لگ سکا ۔
اپنی اور اس کے نام کی کی چینز۔۔۔دونوں ایک دوسرے میں بری طرح الجھی ہوئی تھی ۔۔۔پاکیزہ نے بمشکل الگ کی۔
گلاب کی کلیاں جنہیں باقاعدہ دھوپ میں خشک کر کے کتابوں میں رکھا گیا تھا۔
بہت خوبصورت سی شال۔۔۔جس کے رنگ پھیکے نہیں پڑے تھے۔
ٹشو پیپر میں لپیٹ کر رکھی گئی پہلی تنخواہ۔۔۔!
پاکیزہ کا ضبط جواب دے رہا تھا۔وہ ٹٹول کر سب چیزیں شاپر میں ڈال رہی تھی۔کوئی اس کے مردہ دل کو بری طرح نوچ رہا تھا۔
’’آفتاب میں نے تم سے ملنا ہے۔‘‘اس نے فون کر کے پہلی بات ہی یہی کہی تھی۔
’’زہے نصیب زہے نصیب،کوئی فلیٹ دیکھوں یا کوئی کمرا؟‘‘اس کی ڈھٹائی عروج پر تھی۔
’’اس دفعہ کسی ریسٹورنٹ میں ملو بعد کی بعد میں دیکھیں گے۔‘‘وہ پرواہ کرنے والی نہ رہی تھی،
’’ریسٹورنٹس کا بل بھرنے کی میری جیب اجازت نہیں دیتی مادام۔‘‘غربت ایک دفعہ پھر خود رو پودے کی طرح اُگ آئی تھی۔
’’بل تم نے نہیں میں نے دینا ہے ،شام تک میں ریسٹورنٹ کا نام بھیجتی ہوں۔‘‘اپنی بات مکمل کر کے فون رکھ دیا۔
کوئی سلام نہیں کوئی اللہ حافظ نہیں ۔۔۔رشتے کیسے بدل جاتے ہیں۔۔۔انسانوں کی طرح ۔۔۔ان کے رویوں کی طرح!
سلامتی وہ اس شخص کی چاہ نہیں سکتی تھی اور رحیم اللہ کے حوالے بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔کیسا شخص تھا کل تک سب کچھ تھا اور آج سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہے۔شام چار بجے جب اس نے آفتاب کو ریسٹو رنٹ کانام اور ملنے کا وقت چھ بجے کا بھیجا تو ایک عالی شان ریسٹورنٹ کا نام دیکھ کر وہ چونکا تھا۔عرصہ ہوا فاصلے مٹانے کے لیے وہ تنہائی میں ملنے لگ گئے تھے۔آفتاب کو شاید اس سے اتنی اچھی جگہ کا نام سننے کی بھی اُمید نہیں تھی۔وہ کب کے اس کے پر کتر کر اُسے مینڈکی بنا چکا تھا،گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک کر رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیراہنِ غم سیا ہے کس نے!
خوابوں کو کفن دیا ہے کس نے!
جب گھر میں رکھی ہوئی ہو میت
پھر جشن بپا کیا ہے کس نے!
پاکیزہ نے سرمئی رنگ کا ٹرائوزر پہن رکھا تھا اور ساتھ کالر والا سفید کرتا،ٹرائوزر کے ہم رنگ بٹن کرتے پر اپنی بہار دکھا رہے تھے۔دوپٹہ کندھوں سے بار بار پھسل رہا تھا۔بالوں کو سیدھا کر کے کچھ لٹیں آگے سے اٹھا کر پیچھے ایک پن میں کیچ کر لی تھی۔آنکھیں کھول کر ٹھنڈے پانی کی ڈھیروں ڈھیر چھینٹیں ماری تھیں،چہرہ کافی حد تک نکھر گیا۔سن بلاک چہرے پر لگا کر اس نے ہاتھوں کو بھی موئسچرائز کیا۔خوبصورت پلکوں کو مسکارے سے مزید جاذب نظر بنایا،باریک سا آئی لائنر آنکھوں کو نمایاں کرنے کے لیے لگایا اور کاجل کی دبیز تہہ آنکھوں کے اندر بٹھائی۔اب وہ چاہتی بھی تو رو نہیں سکتی تھی ،ہلکے گلابی سے رنگ کا بلش آن لگا کر ہونٹوں پر شہد کی ایک تہہ جمائی۔اب چمک باقی رہنی تھی،وہ مکمل طور پر تیار تھی۔ہاتھوں میں سن گلاسز بھی اٹھا لیے۔چال میں ایسا اعتماد تھا جو بچپن میں اسٹیج پر جا کر پہلا انعام وصول کرتے وقت آتا تھا۔
سو اچھے بجے کے قریب آفتاب کا پیغام آیا تو وہ ریسٹورنٹ کے قریب پہنچ چکی تھی۔اس نے پیغام کا جواب نہیں دیا،ریسٹورنٹ کے باہر گاڑی رُکی تو اس نے پیسے دے کے ٹیکسی والے کو فارغ کیا۔دوپٹے کو کندھے پر پن لگا چکی تھی۔پارکنگ میں آفتاب کی گاڑی کو دیکھا تو سن گلاسز اتارلی۔وہ پا کیزہ کو اس حال میں دیکھ کر چونکا تھا،عرصے بعد اس کی کلائی گھڑئی کی قید سے آزاد تھی۔
’’اچھی لگ رہی ہو۔‘‘آفتاب نے بڑے محتاط انداز میں تعریف کی۔
’’میں ہمیشہ سے اچھی ہی لگتی آئی ہو۔‘‘اس نے عرصے بعد حق سمجھ کر تعریف وصول کی تھی۔
’’آج کیسے مجھے کھانا کھلانے کی یاد آئی۔‘‘آرڈر دینے کے بعد اس نے بہت ہلکے پھلکے لمحے میں پاکیزہ سے پوچھا تھا ایسے جیسے ان دونوں کے درمیان کبھی کوئی تلخی آئی ہی نہیں۔
’’کھانا کھلانے کی یاد تو نہیں آئی۔ اتنے پیسے میرے پاس ہیں نہیں کہ دوسروں پراڑاتی پھروں۔میں بس دیکھناچاہتی تھی کہ محبت کو ٹھکرا کر چہرے پر پھٹکار پڑتی ہے یا نہیں۔‘‘وہ دانستہ طور پر نظر یں چرائے بیٹھی تھی۔
’’ہاہاہا اور تمہیں پتہ چلا ہو گا محبت ٹھکرا کر بندہ حسین ہو جاتا ہے،ایک بات بتائوں پاکیزہ میں نے جتنی بچیاں چھوڑی ہیں،وہ بعد میں اور بھی پیاری ہو گئی ہیں۔‘‘آفتاب نے مذاق اڑایا تھا۔
’’تمہارا یہ یقین تو میں کبھی نہیں توڑوں گی،تمہارا یقین سلامت رہے گا کہ تمہارا منحوس سایہ دور ہونے کے بعد خوبصورتی واقعی بڑھ جاتی ہے۔‘‘پاکیزہ نے ہنستے ہوئے اسی پر چوٹ کی۔
’’یہ بکواس کرنے کے لیے مجھے بلایا ہے؟‘‘اپنے بارے میں وہ ایک بھی لفظ کیسے سن سکتا تھا۔
’’ٹیک اٹ ایزی آفتاب نورٹیک اٹ ایزی ۔۔۔میں نے تو بس تمہیں تمہاری امانتیں لوٹانے کے لیے بلایا ہے۔‘‘اس نے شاپر تھوڑا سا آفتاب کی طرف سرکایا،مہنگے ہوٹل کا ماحول پاکیزہ کو جرات دے رہا تھا۔
’’ایسا کیا ہے اس میں؟‘‘آفتاب کو تجسس ہوا۔
’’تمہارے دئیے ہوئے جھوٹے تحفے۔۔۔‘‘سارے جواب پاکیزہ کی زبان کے نوک پر تھے ۔
آرڈر پر آئے چاولوں کو پاکیزہ نظر اُٹھا کر نہیں دیکھ رہی تھی،وہ کانٹے سے شامی کباب کھا رہی تھی۔
’’تم سب استعمال کر چکی ہو،میرے کس کام کے؟ میں کسی اور کو دے ہی نہیں سکتا استعمال ہوئی چیزیں۔‘‘آفتاب نے سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا،وہ مسلسل چاول کھا رہا تھا۔
’’استعمال ہوا انسان، استعمال ہوئے جذبات دے سکتے ہو تو استعمال ہوئی چیزیں کیوں نہیں دے سکتے؟اینی ویز میری طرف سے کچرے میں پھینک دو یہ چیزیں مجھے نہیں چاہیے۔‘‘پاکیزہ نظر بچاکر نظریں چرا رہی تھی۔
’’تمہیں لگتا ہے اس طرح میں تمہیں بھول جائوں گا؟‘‘آفتاب کو اتنا یقین پاکیزہ کی بے لوث محبت نے ہی بخشا تھا۔
’’تم مجھے بھولو یا نہ بھولو میں تمہیں یاد نہیں کروں گی،خود سے تو کبھی بھی یاد نہیں کروں گی۔‘‘پاکیزہ کا خود پر تھوڑا سا سہی اعتبار باقی تھا۔
’’اگر خواب میں آگیا تو؟‘‘وہ چمچ روک کر پاکیزہ کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
’’بُرے خواب تو آتے رہتے ہیں۔‘‘پاکیزہ نے کولڈ ڈرنک کی سپ لیتے ہوئے کہا۔
’’کب ملو گی‘‘؟وہ آنکھ مار کر بولا تھا،خباثت کے اظہار کے بغیر رہا نہیں جا رہا تھا،یہ اور بات کہ یہ خباثت اس خوب صورت چہرے پر بالکل بھلی نہیں لگ رہی تھی۔
’’کبھی نہیں۔‘‘پاکیزہ نے ٹشو سے ہونٹوں کو نزاکت سے صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’کیا مطلب؟کیوں بڑی بڑی باتیں کرتی ہو جبکہ جانتی ہو کہ تم میرے بغیر نہیں رہ سکتی؟‘‘محبت کا یقین ایک دفعہ پھر سر اٹھانے لگا۔
’’اب رہ سکتی ہوں۔‘‘پاکیزہ نے پھن اُٹھائے سانپ کو کچلنا چاہا۔
’’اب ایسا کیا ہو گیا ہے؟عزت پیاری نہیں رہی؟مشہور ہونا چاہتی ہو؟‘‘انداز انتہائی استہزائیہ تھا۔
’’چلو تم مشہور کر کے بھی دیکھ لو،یہ میرا وعدہ ہے کہ میں تم سے آخری دفعہ مل رہی ہوں۔‘‘وہ کان پر جوں کو رنگینے نہ دے رہی تھی۔
’’شادی تو نہیں کر رہی؟‘‘وہ مکمل طور پر متوجہ ہوا۔
’’ابھی تو نہیں مگر ضرور کروں گی،جیسے ہی کوئی انسان ملا جس کا تن نہیں من پیارا ہو۔‘‘اس نے بھی مکمل توجہ سے جواب دیا
’’یعنی اب تمہیں لنگور چاہیے۔ میرے جیسے خوبصورت آدمی کے ساتھ رہ کر کر اب تم کسی عام سے لڑکے کے ساتھ گزارا نہیں کر سکو گی۔‘‘پاکیزہ کے کانوں میں گول بالیوں کو دیکھتے ہوئے وہ بولا،اُسے یہ بالیاں بالکل نہیں پسند تھی۔
’’آفتاب تم سے عام کوئی ہونہیں سکتا اور اس سے خاص کوئی ہو گا نہیں جس کا نام میں اپنے نام کے ساتھ جوڑوں گی۔‘‘پاکیزہ نے انگلی سے بالی کو خصوصی طور پر چھوا۔
’’بہت بول رہی ہو،زبان کاٹ کر پھینک دوں گا۔‘‘وہ پھنکارا۔
’’سوری ٹوسے تمہارے ماں باپ کی دی ہوئی تربیت تو ہے نہیں کہ جسے کاٹ کر پھینکا جاسکے اور اپنی مرضی کے پر پرزے نکالے جا سکیں۔‘‘پاکیزہ نے کانٹا زور سے پلیٹ میں رکھا تھا،آواز سے کافی لوگ متوجہ ہوئے۔
’’ماں باپ تک نہ آئو۔‘‘وہ مجبوراًًآہستہ بولا۔
’’کیوں تمہیں اجازت ہے اور مجھ پر پابندیاں ہیں؟آفتاب تم میری زندگی سے نکل چکے وہ ایک دفعہ تھی جب میںتمہارے دبائو میں تھی اوروہی آخری تھی،بالکل آج کی ملاقات کی طرح‘‘پاکیزہ واپس نارمل ہو گئی۔
’’پاگل ہو گئی ہو؟‘‘اب اس نے فتوی صادر کرنا لازمی سمجھا۔
’’جو بھی سمجھ لو۔‘‘پاکیزہ نے بڑے مزے سے کاندھے اچکائے ۔کھانا ختم ہو چکا تھا۔پاکیزہ نے ثابت نوٹ بل بُک میں رکھے اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔
’’آئو تمہیں گھر چھوڑ دوں۔‘‘پاکیزہ کو بغور دیکھتے ہوئے اس نے آفر کی۔
’’تم مجھے چھوڑ چکے ہو آفتاب۔۔۔ میں خود چلی جائو گی!‘‘ہنستے ہوئے پاکیزہ نے اسے لاجواب کیا۔
وہ شاپر گاڑی میں رکھ رہا تھا،پاکیزہ قریب ہی کھڑی تھی،وہ خاموش ہو گیا تھا بالکل خاموش۔
’’یہ لڑکوں والی چیزیں ہوتی تو میں اپنے پاس رکھ لیتی شاید میرے کام آجاتی۔‘‘وہ بے وجہ ہنس رہی تھی،آفتاب نے چونک کر اس کی آنکھوں میں جھانکا، یہ لمحہ نہیں پاکیزہ کی آزمائش تھی۔۔۔اس نے اپنی مسکراہٹ قائم رکھی اور آنکھوں میں لاپرواہی کا تاثر بھی۔آفتاب تھوڑا سا ہل گیا۔
’’آئو ٹیکسی کروا دو‘‘ایک دفعہ پھر آفر ہوئی تھی۔
’’میں ٹیکسی بھی خود کروا سکتی ہوں۔‘‘گیٹ کی طرف قدم بڑھاتے پاکیزہ نے ایک ادا سے کندھے پر آئے بالوں کو پیچھے جھٹکا۔
’’چلو میں بھی کچھ کر لوں،تمہارے مطابق اگر یہ آخری ملاقات ہے تو تھوڑا سا حصہ مجھے بھی ڈالنے دو۔‘‘وہ پر سکون ہو گیا تھا،شاید اس کے خیال میں کسی ملاقات کا آخری ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔
’’آج کے بعد مجھے میسج کرنے کی زحمت نہ کرنا۔‘‘بات سخت تھی مگر لہجہ نارمل تھا۔ وہ ناک سے مکھی اڑا رہی تھی۔
’’اور تمہارے خیال میں مجھے کون تمہیں میسج کرنے سے روکے گا؟‘‘وہ ایک دفعہ پھر پاکیزہ کی بے وقوفی پر ہنسا۔
’’میرا آخری میسج!‘‘وہ اسے چیلنج کرتی کھڑی ٹیکسی کے قریب گئی۔
آفتاب کے قدم وہیں رُک گئے تھے،سفر پاکیزہ نے ختم کیا تھا۔وہ پحچھلی سیٹ پر بہت آرام سے بیٹھی تھی ،سن گلاسز ہاتھ میں رکھے آنکھیں کھولے پرسکون مسکراہٹ لیے یک ٹک آفتاب کی طرف دیکھ رہی تھی۔اس نے دایاں ہاتھ ہوا میں بلند کرکے فرینڈ فار ایور کو ب ائے بائے فار ایور کہا تھا،آفتاب متحیر تھا بہت متحیر!
جب تک پاکیزہ کی ٹیکسی آنکھ سے اوجھل نہیں ہوئی ۔پاکیزہ نے اپنی آنکھیں نہیں جھکائی۔۔۔۔اس کی مسکراہٹ بھی ختم نہیں ہوئی تھی۔۔۔آفتاب فقط اسے دیکھ کر رہ گیا!
اگلی سڑک پر پہنچتے ہی پاکیزہ نے سن گلاسز آنکھوں پر چڑھالیے۔سائبر کرائم کا ڈھونڈا ہوا لنک آفتاب کو واٹس ایپ کیا۔گھر جا کر اس نے وائس میسج بھیجا
میں نہیں مروں گی….میں کسی صورت کسی انسان کے لیے نہیں مروں گی.مرنا ہے تو تم مرو,کسی ٹرین کے نیچے جا کر سر دو,کسی پُل سے جا کر کودو,تمہارے کرتوت ہیں مرنے والے.میں نے منہ چھپانے والا کام کیا ہے لیکن میں نادم ہوں.مرنے کا مقام تو تمہارے لیے ہے جسے ندامت بھی نہیں ہے.تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تمہارے بغیر مر جاؤں گی…میں کوئی جوگ لے لوں گی…دنیا سے کٹ جاؤں گی.نہیں! کبھی نہیں! میں تمہارے سامنے کھڑی ہو کر زندگی کو تم سے بہتر جی کر دکھاؤں گی.میں تم سے بہتر طور پر زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالوں گی اور آنے والی مشکلات کو پچھاڑ دوں گی.تم ابنِ آدم ہو تو کیا ہوا تمہاری ماں بنتِ حوا ہی ہے.تم ایک لڑکی ہونے کی وجہ سے مجھے ڈرا نہیں سکتے.تم اپنی کھوکھلی دھمکیوں سے مجھے پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر سکتے.میں ثابت کرو گی تم جیسے بہت ہیں…میرے جیسی کوئی نہیں ہے!
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں تمہاری بے وفائی کا راگ الاپتے ہوئے تمہارا نام لے لے کر اپنی زندگی ختم کرلوں گی…تمہاری بھول ہے! میں زندگی کو مکمل طور پر جیوں گی.میں گھر بھی بساؤں گی لیکن کسی مرد کے ساتھ….ایسا مرد جو واقعی مرد ہو.جانتے ہو مرد کی تعریف کیا ہے؟مرد وہ نہیں ہے جس کا نام لے کر ڈر لگے, مرد وہ بھی نہیں ہے جس کا تصور ہیبت ناک ہو, جس کی گرج سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں,مرد تو وہ بھی نہیں ہے جو گلی,چوبارے یا گھر کے صحن میں اونچی آواز میں گالیاں بکتا اپنی جنس تولنے کی کوشش کرتا ہے.مرد وہ ہے جو سر ڈھانپتا ہے,جو محبت سے اپنے سارے حقوق لیتا ہے اور نرمی سے اپنے فرائض کی ادائیگی کرتا ہے,مرد وہ ہے جس کو دیکھ کر تحفظ کا احساس ہو,جو ہر وقت عورت کو یہ احساس نہ دلوائے کہ وہ بس ایک عورت ہے بلکہ وہ عورت کے عورت ہونے پر مان کرے,اسے لمحہ لمحہ اونچائیاں سر کرنے کی ترغیب دے,اس کا ہاتھ تھام کر بے شک نہ چلائے لیکن اگر وہ گرنے والی ہو تو اس کو ضرور تھام لے.مجھے اب ایسے مرد کی تلاش ہے اور ایسا مرد کبھی میرے ماضی میں نہیں جھانکے گا.میں اسے تمہارا باب پڑھنے کا دوں گی وہ ایک بار دیکھے گا اور بند کر دے گا.ایسا مرد ملنا بھی مشکل نہیں ہے.اگر تمہارے جیسے شیطان پائے جاتے ہیں تو اللّہ دنیا میں فرشتے بھی اتارتا ہے.میں ایک مرد کے ساتھ خوش رہو گی لیکن تم کسی عورت کے ساتھ خوش نہیں رہو گے کیونکہ تمہاری فطرت میں ہے عورت کو عورت ہونے کا احساس دلوانا.تم آج ہنس رہے ہو کل روؤں گے.میں آج خاموش ہوں کل قہقہے لگاؤں گی.تمہاری ہنسی آج بھی جھوٹی ہے اور میرا قہقہہ کل بھی سچا ہو گا.جب جب تم تک میرے قہقہوں کی گونج پہنچے گی تم کان بند کر لو گے….تم اونچی آواز میں چلاؤں گے….
نہیں!
محبت اب اور نہیں!
ذیادہ نہیں بس اتنا عرصہ جو میں نے انتظار میں گزارا,جو میں نے صبر کرنا سیکھنے میں گزارا…اتنا عرصہ تو تم پر بھی مشکل ہو گا.جب تم اس مشکل سے نکل جاؤ گے….ہاں میں مانتی ہوں کہ تم نکلو گے….کیونکہ ہر انسان نے اتنا ہی بھگتنا ہے جتنا اس نے کرم کیا, اس وقت تم کسی قابل نہیں رہو گے.تمہاری ساری عمر محبت کا تاوان ادا کرتے گزر جائے گی.تب بھی تمہیں سکون نہیں ملے گی.تم بیتے دنوں کو یاد کرو گے اور فریاد کرو گے….
محبت مجھے تیرے ماتھے پر کلنک لگانے کی پاداش میں اور سزا نہ دے,محبت میں تیرا مجرم ہوں لیکن مجھے یوں خوابوں میں آکر نہ ڈرا,محبت واہموں وسوسوں کا لبادہ نہ اوڑھ…مجھ سے میرا سکون نہ چھین…محبت مجھے معاف کر دے…محبت بس کر! محبت نہیں! محبت اب اور نہیں!
اس میں سب سے Worst پتا ہے کیا ہے؟
تمہاری آواز سننے کو میں بھی نہیں ہوں گی تب تم جانو گے تم نے کیا کھویا ہے!
تم میری محبت کے قابل نہیں تھے آفتاب لیکن اُمید کرتی ہوں نفرت کے مستحق بھی نہیں ٹہروگے۔اس کے باوجود بھی جو کرنا ہے کر لو۔میں محبت کے نام پر بلیک میل مزید ہو سکتی تھی لیکن جو عزت تک آئے اُس محبت پر سو بار لعنت!جائو میری طرف سے آزاد ہو۔جو کرنا ہے کر لو،میری عزت چو بارے پر لانے کی کوشش کی تو تمہاری عزت کومیں خود رسوا کروں گی،تمہارا معاملہ میرے تمہارے وکیل اللہ جی کے حوالے!
یہ پاکیزہ کا آخری میسج تھا جسے لکھتے ہوئے کاجل پھیل گیا تھا۔ضبط انتہائوں پر پہنچ گیا تھا۔۔۔دونوں ٹِک جیسے ہی سبز ہوئے پاکیزہ نے سم موبائل سے نکال کر توڑی اور باہر پھینک دی۔
ماڈرن محبت کا ماڈرن انجام!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے مسافر!
میں جانتی ہوں
ابھی سفر ابتداہوا ہے
ابھی مسافت کی حد بھی لکھی نہیں گئی ہے
ابھی تو جنگل میں راستہ ڈھونڈنا پڑے گا
ابھی تو رستے میں شام ہوگی
تم لڑکیاں لڑکوں کو جاننے والا کہتی ہو،کبھی محلے والا بتاتی ہو،کبھی پھوپھی کا بیٹا بتا کر عزت بناتی ہو لیکن ان کے لیے تم ہمیشہ لڑکی رہتی ہو۔۔۔صرف اور صرف لڑکی! لفظ لڑکی لیتے ہی لڑکوں کے ذہن میں جو خاکہ بنتا ہے وہ لڑکیاں کبھی سوچ نہیں سکتی۔آپ بے شک لڑکوں کو جو مرضی کہیں ،آپ ان کے لیے خالہ یا چاچو کی بیٹی ہو کر بھی فقط لڑکی ہی ہیں۔آپ ان کی سوچ نہیں بدل سکتی۔آپ لاکھ ان کی آنکھیں پڑھنے کا دعوی کریں ان کی سوچ نہیں جان سکتی۔ان کے ارادوں تک نہیں پہنچ سکتی۔اس لیے بہتر ہے کہ آپ لڑکوں کو لڑکا ہی رہنے دیں۔اگر کوئی کیٹگری بنانی ہے تو محرم اور نامحرم کی بنا لیں۔اگرچہ آج کے معاشرے میں محرم بھی محترم رہے مشکل ہی ہے لیکن کم از کم آپ کو اپنی حدود کا خیال تو رہتا ہے۔
جو لڑکا آپ سے ملنے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے لیکن رشتہ بھیجتے ہوئے اسے موت پڑنے لگتی ہے تو اسے اپنی زندگی سے فوراً بے دخل کردیں اس سے پہلے کے ہوس اس کو بالکل اندھا کردے۔ایک بات میں نام نہاد عاشقوں کو بھی کہنا چاہوں گی جو محبوباؤں کی شادی کے بعد روتے ہوئے راتیں گزارتے ہیں ۔اگر وہ اتنے ہی سچے ہوتے ہیں تو پہلے کیوں اپنے قدم مضبوطی سے نہیں رکھتے؟پہلے کیوں آواز بلند نہیں کرتے؟اگر وہ پہلے اس لڑکی کو اپنا نہیں سکے تو پھر انہیں رونے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔وہ مرد نہیں ہے جو اپنی محبت کو کسی دوسرے کے پہلو میں دیکھ سکے۔۔۔ اگر وہ دیکھ رہا ہے تو اس کے جذبے کھوکھلے تھے۔قربانیوں اور دانستہ قسم کی بے وفائیوں میں بہت ذرا سا فرق ہے۔بس آنکھیں کھلتی ہیں تو قربانیوں کی حقیقت بے وفائی کی صورت عیاں ہوجاتی ہیں۔
جو لڑکے کہتے ہیں حاصل کرنے کا نام محبت نہیں تو محبت اس چیز کا بھی نام نہیں کہ کسی کو دیکھا جائے،اس سے رابطے میں رہا جائے،اس سے بات کی جائے،اس سے ملا جائے۔اگر محبت حاصل کرنے تک نہیں پہنچ سکتی تو پھر محبت کو پاکیزہ ہونا چاہیے پھر محبت کو خاموش ہونا چاہیے۔آپ کسی کی منزل نہیں بن سکتے تو آپ کو اس کا راستہ کھوٹا کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے!
آپ سمجھتی ہیں کہ یہ جو لوگ آپ کو سمجھا رہے ہیں یہ طنز کر رہے ہیں یا آپ سے دشمنی رکھتے ہیں۔ایک آپ اور اس شخص کی محبت ہی دنیا میں سچی ہے تو جان لیں کہ وہ وقت بھی دور نہیں جب آپ کے نزدیک سچ کی تعریف ہی بدل جائے گی۔اس رشتے سے دور رہیں جو آپ کی عزت اتار لے اور آپ کو کوئی نام نہ دے سکے۔ایسا حوالہ ہمیشہ ماضی میں رہ جاتا ہے کبھی مستقبل نہیں بن سکتا۔
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لڑکا کہتا ہے کہ میں مجبور ہوں تو آپ یقین کیسے کر لیتی ہیں۔یہ معاشرہ مردوں کا ہے وہ مجبور یا محکوم نہیں ہو سکتے۔وہ اگر کوئی اسٹینڈلینا چاہیں تو لے سکتے ہیں۔ہم انیس سو ساٹھ میں نہیں رہ رہے جہاں ماں باپ کی دی گئی دھمکیاں لڑکوں پر اثر کرجاتی تھی۔آج کے دور میں والدین بچوں سے عزت بچاتے نظر آتے ہیں۔وہ بچوں کی خوشیوں میں خوش ہیں لیکن یہ بچے بھی تو کسی ایک جگہ پر ٹکیںناں۔اگر کسی لڑکے نے آپ کے لیے اسٹینڈ نہیں لیا تو اس لڑکے کی مجبوریاں بڑی نہیں تھی بلکہ اس کی نظر میں آپ کی وقعت بہت چھوٹی تھی جو اس کو آپ کو اپنانے کی جرات نہ دے سکی۔جتنی جلدی آپ یہ جان جائیں گی اتنی ہی سکھی رہیں گی۔اب اس بات پر پریشان ہونے رونے کی کوئی ضرورت نہیں کہ آپ کو قدر دان نہیں ملا۔ہر کسی کو قدر دان مل جاتا ہے لیکن صحیح وقت پر۔کھوکھلی دیواروں پر سر مارنے سے چوٹ ملتی ہے بالکل اسی طرح کم ظرف لوگوں سے رشتہ مانگتے ہوئے بس وقعت گھٹتی ہے اور کچھ نہیں ہوتا۔
یہ جو سب سے چھوٹی چوری ہے ناں؟جس سے دل تھوڑا سا مطمئن ہوجاتا ہے ،ایک وقتی سہارا مل جاتا ہے۔جسے ہم نظر کی چوری کہتے ہیں۔وہی حقیقت میں سب سے بڑی چوری ہے۔کچھ لمحے چھپ چھپ کر دیکھنے کا جو میٹھا میٹھا مزہ جو لذت ہے وہ بعد میں مصیبت بن جاتی ہے۔یہ لمحے ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔آپ بے شک یہ چوریاں بھول جائیں ۔۔۔زندگی میں بہت آگے نکل جائیں ۔۔۔یہ لمحے آپ کو نہیں بھولتے۔۔۔خواب بن کر آپ کو ستانے لگتے ہیں!ایسے بُرے خواب جو آپ کا حلق خشک کر سکتے ہیں لیکن آپ کو ہمت نہیں دے سکتے کہ آپ زندگی میں اتنا آگے آکر ان خوابوں کو کسی کو بتا سکیں۔آپ ڈرتے ہوئے اٹھتی ہیں اور بس یہ کہتی ہیں کہ بہت برا خواب تھا۔حالانکہ اگر آپ کے بس میں ہو تو اپنی آنکھیں نکال کر وہ چوری کے لمحے بھول جائیں۔
میں آپ کو یہ نہیں کہتی کہ محبت نہ کریں۔۔۔محبت آپ کے اختیار سے باہر شے ہے! جس طرح آپ دل کی دھڑکن کو اپنے اختیار میں نہیں رکھ سکتے اسی طرح محبت بھی آپ کے اختیار سے باہر ہے۔آپ چاہیں نہ چاہیں محبت آپ کے اندر پیرا سائٹ کی طرح پلتی رہے گی۔آپ کو نچوڑتی رہے گی،آپ کو نوچ کھاتی رہے گی مگر ایک منٹ بات سنیں کیا شو آف بھی آپ کے اختیار سے باہر ہے؟محبت کا اظہار تو آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے ناں؟محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر آپ جو خود کو گرانے کی حرکتیں کرتے ہیں وہ تو آپ کے اختیار میں ہیں ناں؟محبت کرنی ہے تو کرتے رہیں۔۔۔سو مرتبہ کریں لیکن شو آف نہ کریں،اوچھی حرکتیں نہ کریں،خود کو نہ گرائیں۔محبت کو محبت رہنے دیں،اپنی ذات پر ظلم نہ بنائیں۔جتنی محبت کا دم کسی اور سے بھرتے ہیں اس کا چوتھائی حصہ صرف چوتھائی حصہ اپنے آپ سے بھی کر لیں۔
اگر کوئی آپ کو بلیک میل کر رہا ہے تو آپ کی اپنی وجہ سے کر رہا ہے ۔آپ نے خود اسے اجازت دی ہے۔پہلے اپنی کمزوریاں اس کے ہاتھ میں دی ہیں اور پھر خود کو کمزور ہی رہنے دیا ہے۔کوئی آپ کا تب تک کچھ نہیں بگاڑ سکتا جب تک آپ خود اسے اجازت نہیں دیتے۔جس میں سیدھا کام کرنے کا دم خم نہیں ہے وہ الٹا کام کیسے کرے گا؟خود کو گرانے کی کوشش مت کریں.اپنے آپ کو مضبوط رکھیں.اسے کہیں جاؤ جو کرنا ہے کر لو۔ایک دفعہ اسے ڈھیل دے کر دیکھیں وہ اپنی ہی ڈور سے الجھ کر آپ کٹ جائے گا۔ظلم کو برداشت کرنا خود پر مزید ظلم کرنے کے مترادف ہے۔کسی کو اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کے دل ودماغ یا جذبات سے کھیل سکے۔اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں میں رکھیں۔
یہ چند بٹنوں کے دبانے سے اپنے آپ کو کسی دوسرے کے حوالے کر دینا ایسا ہی ہے جیسے خود کشی کرنا!یہ خود کشی بہت دھیرے دھیرے ہوتی ہے۔اس میں موت دیر سے آتی ہے اور تکلیف ذیادہ ہوتی ہے۔آپ بے شک اسے محبت کا نام دیں۔میں اسے موت کہتی ہوں اور موت پھر درخواست نہیں سنتی۔آپ لاکھ کہیں اب نہیں۔۔۔موت ابھی نہیں ! وہ نہیں سنتی۔۔۔بس ایک جھٹکے میں یہ پھندا اپنے گلے سے نکالیں اور اتار پھینکیں۔اس سے پہلے کہ پھندا خود بخود تو نکل جائے لیکن آپ میں چلنے پھرنے کی سکت بھی باقی نہ رہے۔جائے موت کو خود کہہ دیں اب نہیں! محبت اب اور نہیں!
خود کو یاد کروائیں کہ آپ بھی انسان ہیں۔اگر کوئی دوسرا انسان آپ کے لیے اہم ہے تو لاکھ بار ہو لیکن آپ سے کم اہم ہو۔اپنی اہمیت کا خود ادراک کر کے ایک جھٹکے سے اپنا دامن چھڑانا ہو گا۔آپ پر فی الوقت خراشیں تو بہت پڑیں گی لیکن سب زخم مندمل ہوجائیں گے.۔اگر آپ نے آہستہ آہستہ ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو آپ کے ہاتھوں پر لمس رہ جائے گا،حواس پر خوشبو باقی رہے گی۔اگر چھوڑنا ہے تو فوراً چھوڑنا ہے ابھی اور اسی وقت چھوڑنا ہے! بغیر بتائے چھوڑنا ہے۔۔۔کوئی وضاحت،کوئی الوداعی نوٹ نہیں دینا۔ایک کسک تو اس کے دل میں بھی رہنے دیں۔تھوڑی تکلیف تو اس کو بھی ہونے دیں۔اس نے آپ کو یاد نہیں کرنا لیکن کم از کم وہ اس وجہ کی تلاش میں تو رہے جس وجہ سے آپ نے اسے چھوڑ دیا۔وہ وجہ اسے ساری زندگی نہیں مل سکے گی اور یہ ادھورا پن کب آپ کی یاد میں بدلے گا یہ اسے خود بھی نہیں پتہ چلے گا۔جو آپ چاہتی ہیں وہ ہوجائے گا لیکن تب جب آپ اس کی امید نہیں کریں گی۔اپنی اہمیت پہچان لیں گی.اگر اپنی اہمیت خود نہیں جان سکیں گی تو یقین جانیں وہ کبھی نہیں جانے گا۔کیا آپ اپنے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتی۔۔۔؟
کیا آپ خود سے اتنا بھی پیار نہیں کر سکتی کہ ایک شخص جس کے لیے آپ کچھ نہیں ہیں اُس پر فاتحہ پڑھ لیں۔۔۔اگر فاتحہ نہیں پڑھ سکتی تو پھر اپنے دل کی مردنی کے لیے تیار ہوجائیں۔خود کو زندوں میں نہ شمار کرنے والوں کے دل مردہ ہوجاتے ہیں اور مردہ دلوں میں کبھی سُچا پن نہیں سما سکتا۔اگر وہ آپ کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتا تو آپ دونوں میں سے ایک کو بدلنا ہے۔۔۔جسے آپ آواز اٹھانے پر مجبور نہیں کر سکی اسے بدلنا تو ناممکن ہے پھر خود کو بدلیں۔ابھی اور اسی وقت بدلیں۔شروع میں مشکل لگتا ہے ہو اداس گیت پر آنکھیں نم ہونے لگ جاتی ہیں،اداس شاعری دل میں گھر کرتی ہے،تنہائی پیاری ہوجاتی ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ وقت مرہم بنتا ہے اورسب بھول جاتاہے۔
اگر آپ اس راستے سے واپس پلٹنا چاہتی ہیں تو میں،میرے لفظ یا کسی اور کی نصیحتیں کچھ بھی نہیں کر سکتی۔جو کرنا ہے آپ نے خود کرنا ہے۔آج کے دور میں رابطے بنانا بھی آسان ہے اور قطع تعلق کرنا بھی۔سب سے پہلے آپ کو اپنے دل کو مضبوط کرنا ہوگا۔یہ سمجھنا ہوگا کہ آپ کی عزتِ نفس سے ذیادہ قیمتی کچھ نہیں ہے۔آپ کوئی پکوان نہیں ہیں جسے پلیٹ میں ڈال کر اگلے شخص کی بار بار منتیں کی جائیں کہ ہاتھ دھو کر مجھے کھا لو۔آپ ایک جیتا جاگتا وجود ہیں۔اپنی حدود اور اپنے اصولوں کو از سر نو تازہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی نہ پردہ گراؤ،ٹہرو،کہ داستان آگے اور بھی ہے
ابھی نہ پردہ گراؤ۔ٹہرو۔۔۔
ابھی تو ٹوٹی ہے کچی مٹی،ابھی تو بس جسم گرے ہیں
ابھی تو کردار ہی بجھے ہیں
ابھی سلگتے ہیں روح کے غم،
ابھی دھڑکتے ہیں درد دل کے
ابھی تو احساس جی رہا ہے۔۔۔
یہ لو بچا لو،جو تھک کے کردار کی ہتھیلی سے گر پڑی ہے
یہ لو بچا لو،یہیں سے اٹھے گی جستجو پھر بگولا بن کر
یہیں سے اٹھے گا کوئی کردار پھر اسی روشنی کو لے کر
کہیں تو انجام و جستجو کے سرے ملیں گے
ابھی نہ پردہ گراؤ،ٹہرو!۔۔۔
’’آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ آپ نے ایک لڑکی ہو کر اتنا بڑا اسٹیپ کیسے لیا؟یہ سارا ادارہ کیسے مستحکم کیا؟‘‘سوال پوچھنے والا حیران تھا۔
پاکیزہ نے ٹیبل پر پڑی تصویر ان کی طرف موڑی اورہاتھ میں تھامے پن کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولی’’یہ ہیں تسکین فاطمہ میری پھو پھو جنہوں نے اس ادارے کی بنیاد رکھی۔میں نے صرف ان کے نقش قدم پر چلنا شروع کیا۔ویسے آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ آپ یہ سوال کیسے پوچھ لیتے ہیں کہ ایک لڑکی ہوتے ہوئے؟مطلب لڑکی ہونا کیا کوئی کمزوری ہے؟‘‘
’’کمزوری نہیں ہے لیکن معاشرہ تو مردوں کا ہے۔‘‘
’’مرد بھی آسمان سے نہیں آتے،انہیں عورتیں ہی جنم دیتی ہیں۔لڑکیوں کے خواب بڑے اور آنکھیں چھوٹی تب تک ہوتی ہیں جب تک وہ اپنی سوچ کو غلام رکھتی ہیں،اگر ان کے عزم میں ملاوٹ نہ ہو تو کوئی خواب ایسا نہیں جسے وہ سچ میں نہ ڈھال سکیں۔‘‘
’’لڑکوں کے ہاتھوں بلیک میل ہونے والی لڑکیوں کے لیے الگ ادارے کا قیام تو آپ نے خود کیا،اس کا کریڈیٹ آپ کسی اور کو نہیں دے سکتی،ایک دنیا آپ کی موٹیویشنل سپیچز کی دیوانی ہے،آپ کے لیکچر میں بیٹھی ہوئی لڑکیوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے،آپ کو کیسا لگتا ہے ؟یہ آئیڈیا آپ کو کہاں سے آیا تھا؟‘‘انٹرویو کرنے والے نے ستائشی نظروں سے بے داغ چہرے اور چمکتی آنکھوں کو دیکھا۔
پاکیزہ نے دائیں گال پر پڑے نشان پر اپنے بال دوبارہ سیٹ کیے اور تلخ سی ہنسی کو بمشکل روکا۔
’’خواب پورے ہو جائیں تو اچھا لگتا ہے لیکن خواب آنے والوں کو کوئی بھی خواب آخری نہیں آتا،میری منزل ابھی دور ہے،اور جیسا میں نے کہا کہ میں خواب دیکھتی ہوں تو سمجھ لیجئے کہ یہ آئیڈیا بھی مجھے خواب میں آیا تھا۔‘‘
دماغ نے زیر لب’’بھیانک خواب‘‘کی سر گوشی کی تھی۔ٹیبل اتنا آرام دہ تھا کہ سامنے انٹرویو کرنے والی ٹیم اس کے پیر نہیں دیکھ سکتی تھی۔وہ جوتے اتار کر فرش پر تلوے مسل رہی تھی’’بھیانک خواب‘‘۔
’’آپ مزید کیا کرنا چاہتی ہیں؟‘‘ایک سوال اور آیا۔
’’ابھی میں نے کچھ نہیں کیا۔میں اس بیداری کو آج کی لڑکی کے دماغ میں پہنچانا چاہتی ہوں۔لڑکیاں کسی بھی وجہ سے الٹے سیدھے راستے پر چلنا شروع کرتی ہیں اور ان کو راہ نمائی نہیں ملتی تو وہ واپسی کا راستہ بھول جاتی ہیں۔میں چاہتی ہوں کہ لڑکیوں کے ہاتھ میں ہمیشہ وہ چاقو رہے ،جو لڑکوں کے پھیلائے ہوئے جال کو کاٹنے کی طاقت رکھتا ہو۔‘‘
’’کیا صرف ہمیشہ ہی لڑکیاں بے قصور ہوتی ہیں؟‘‘
’’نہیں لیکن صرف لڑکیوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے اور اکثریت لڑکیوں کی ہی خود کشی کرتی ہے۔‘‘
’’آپ کا شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں؟‘‘
’’میں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا۔‘‘
’’انٹر نیٹ پر آپ کا ہر چھوٹا بڑا لیکچر وائرل ہو جاتاہے ،بہت سے لوگ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں،کچھ لوگ سر عام شادی کے خواہاں ہیں،اگر آپ کا شادی کرنے کا ارادہ ہے تو ابھی تک کیوں نہیں؟۔
’’میں اگر لڑکیوں کو سہارا دینا چاہتی ہوں تو چاہے وہ لفظوں کا سہارا ہی کیوں نہ ہو مجھے کسی مرد کی مدد سے آزاد ہونا چاہیے یہ میرا خیال تھا ۔اگر میں ایسا نہ کرتی تو یہ لڑکیاں کبھی لڑکوں کی طاقت کو ختم ہونے والا سمجھ نہیں سکتی تھی۔میں چاہتی تھی کہ میں جو کروں خود کروں ۔ایک مثل جو عام ہے اس کو غلط ثابت کروں کہ عورت کی دشمن عورت ہے۔میں عورت سے دوستی کرنا چاہتی تھی اس لیے بس کچھ عرصہ عورتوں کے لیے خود کو وقف کیا۔‘‘
’’پھر آپ شادی کر نے والی ہیں ؟‘‘
’’جی ضرور۔‘‘
’’کیا ہم خوش نصیب کا نام جان سکتے ہیں؟‘‘
’’وہ ہی جو مرد ہو گا۔‘‘
پاکیزہ کی پی اے نے انٹرویو ٹیم کو سرو کیے برتن اُٹھا دئیے تھے اور پاکیزہ کا لنچ اس کے سامنے رکھا تھا۔
’’ایکسکیوزمی پلیز‘‘پاکیزہ نے ہاتھ اپٹھا کر پیشہ ورانہ مسکراہٹ سے کہا۔
انٹرویو ٹیم میں شامل لڑکیاں مصافحہ کر کے باہر چل دیں،کمرے میں اب پاکیزہ اکیلی تھی،اس کے کانوں میں گول بالیاں تھیں جو کسی کو بالکل پسند نہیں تھی اور پاکیزہ ہمیشہ انہیں انٹرویو کی تصاویر کے لیے ضرور پہنتی تھی۔چمچ بھر کر چاول اس نے منہ میں ڈالے،دئیے گئے جواب پاکیزہ کو ماضی میں لے گئے تھے ۔
کچھ چیزیں انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی،انہیں وقت پر چھوڑ دینا چاہیے ۔۔۔ہو سکتا ہے مناسب وقت پر وہی چیزیں اختیار میں آجائیں۔پاکیزہ نے اختیار سے باہر چیزوں کو چھوڑ دیا تھا،وہ خیانت کرنے والوں میں سے نہیں تھی۔۔۔وہ خیانت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی ۔ ٹھیک وقت کی منتظر تھی۔اس نے کسی اور کو ہم سفر بھی بنانا تھا یہ بھی طے تھا۔اگر وہ غلط نہیں تھی تو اسے یقین تھا اس کے ساتھ غلط نہیں ہوگا۔اس نے نظر اُٹھا کر سامنے گھڑی کی طرف دیکھی اور بے ارادہ چمچ بھر کر رائتہ منہ میں ڈال لیا۔
وہ تھوڑا سا پیٹ بھر کر ہی لیکچر کی ویڈیو ریکارڈ کرنے لگی تھی۔اسے لوگوں سے کہیں ذیادہ خود کو تسلی دینی تھی۔
’’اگر تمہیں خدا یاد نہیں آتا، اگر تمہارا دل اس کی عبادت میں نہیں لگتا، اگر تم اپنے رب سے جھگڑنا چاہتے ہو، تمہارا ایمان ڈگمگا گیا ہے، تم کن پڑھتے ہو لیکن فیکون پہ یقین نہیں رکھتے تو ایک دن اذان فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک آسمان کا نظارہ کرو۔۔۔دیکھو! وہ کیسے آسمان کے رنگ بدلتا ہے، دیکھو! وہ کیسے ہٹا دیتا ہے اندھیرے کو، دیکھو! وہ کن کہتا ہے تو سارا عالم فیکون کی تشریح بن جاتا ہے۔
کیا وہ رب قادر نہیں کہ تم جو چاہتے ہو وہ تمہیں عطا کر دیتا؟ کیا وہ رب قادر نہیں کہ تمہیں نظر آنے والے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیتا؟ کیا اس رب کو نہیں معلوم کالک کیسے مٹائی جاتی ہے؟ کیا وہ دلوں کے داغ دھو نہیں سکتا؟ کیا وہ تمہیں وہ گھٹیا سی چیز نہیں دے سکتا جس کے لیے تم نے طویل سجدے کرنا چھوڑ دیے؟ اس ذات کے ہر حکم پر اپنے دل کو بند کر لیا۔۔۔تمہاری یہ ذلیل سی خواہشیں اس کے بس ایک کُن کی مار ہیں لیکن اس نے کن نہیں کہا۔۔۔ تم اس کا شکر ادا کیوں نہیں کرتے۔۔؟ وہ نا اہل ماں کی طرح اپنے بندوں کی خواہشوں پہ کن نہیں کہتا۔۔سوچو! اگر وہ تمہاری دعاؤں کی آمین کو قبول کر کے تمہیں وہ عطا کر دے جو تم مانگ رہے ہو اور پھر تمہاری دعا کو تمہارے لیے بددعا بنا دے تو تم کیا کرو گے؟ تم کہاں جاؤ گے؟ اس آسمان اور زمین میں اور کون ہے جو تمہیں تمہاری قبول ہوئی دعا سے پھر بچائے گا؟ کیا وہ اللہ بہتر نہیں جانتا۔۔؟ کیا اس نے تم سے تمہاری خواہشیں لے کر تمہارے لیے بہترین نہیں سوچ رکھا ہو گا؟ وہ تو اپنے دیے گئے مال میں سے جب لیتا ہے تو کہتا ہے اللہ کو قرض دو۔۔۔پھر وہ تمہاری خواہش لے گا تو تمہیں رول دے گا؟ وہ تمہیں تنہا چھوڑ دے گا؟ ایک دفعہ اس پہ یقین کر کے تو دیکھو۔۔۔ یوسف کو گیارہ بھائیاں میں سے اللہ نے نکالا۔۔یعقوب کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔۔۔لیکن اللہ نے صبر کروایا اور پھر صبر کا پھل کیسے دیا؟ جب یوسف اپنے بھائیوں کے سامنے آئے تو شاہِ مصر تھے۔۔اللہ کی مصلحتوں کو تم جان سکتے ہو؟ اس نے یونس کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا۔۔۔ وہ اس ذات کے پیارے نبی تھے۔۔۔نبی بھی آزمائے گئے۔۔۔تم تو ایک عام سے انسان ہو۔ تم اللہ اللہ کرتے ہو تو وہ تمہیں آزمائے بغیر چھوڑ دے گا؟ وہ تم سے لیے بغیر تمہیں چھوڑ دے گا؟
نہیں! وہ تمہیں آزمائے گا۔۔۔بس تم یقین رکھو۔وہ دیتا ہے شکر کرو، وہ لیتا ہے صبر کرو۔۔۔انتہا پہ نہ جاؤ۔۔۔انتہا پہ جانا اسے بھی آتا ہے۔۔۔وہ اندھیری رات اسی کے قبضے میں ہے جس کی کبھی صبح نہیں ہونی!!‘‘
****
یہ ناول تفکر ڈاٹ کام کے اس لِنک سے لیا گیا ہے۔