شعلے کچھ اور شدت سے بھڑکے تو حویلی میں ایک شور سا اُٹھا۔ جیون کی درد ناک چیخوں سے حویلی کی دیواریں بھی لرز اُٹھی تھیں۔ سیف، ذکیہ بیگم، رقیہ ناز سمیت حویلی کے سارے نوکر اُس کے کمرے کی طرف بھاگے تھے، بس ایک وہی نہیں تھا جس نے اُس کی موت کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ سارے نوکر آگ بجھانے میں لگ گئے، لیکن کوئی بھی جیون کو بچانے کے لیے اِس آگ میں کود کر وفاداری کا ثبوت نہیں دینا چاہتا تھا۔ اُس کی کھڑکی سے جھانکتی ہوئی آگ سیف کے دل کو بند کرنے لگی تھی۔ وہ جیون جو اُس کی سماعتوں کی پہلی آواز تھی وہ کیسے اُس کی پکار کو ان سنی کر سکتا تھا، وہ جیون جو اُس کے ہونٹوں کا پہلا لفظ تھی وہ کیسے اُس کا نام مٹتے ہوئے دیکھ سکتا تھا، وہ جیون جو اُس کی نظر کی پہلی تصویر تھی وہ کیسے اِس تصویر کو جلتا ہوا چھوڑ سکتا تھا، وہ جیون جو اُس کی دھڑکن کی پہلی خواہش تھی وہ کیسے اِس خواہش کو مرتے ہوئے سہہ سکتا تھا۔جیون۔۔۔جیون۔۔۔ جیون تو اُس کی زندگی کے لیے امرت تھی وہ کیسے اُسے آگ کے حوالے کر دیتا، وہ دیوانا شعلوں سے لڑتا ہوا جلتی ہوئی تتلی کو باہوں میں سمیٹ لایا تھا۔ اُس نے بے بسی سے جیون کو دیکھا تتلی کے سارے رنگ سیاہ ہوگئے تھے۔
وہ بے حوش ہو چکی تھی۔۔۔ آگ نے اُس کے جسم کے کئی حصوں کو چھوا تھا۔۔۔ سیف اُس کی تکلیف دیکھ کر تڑپ اُٹھا۔۔۔وہ اذیت جو جیون حیات اُس سمے بھگت رہی تھی اُس اذیت کا ہر لمحہ سیف کے دل نے محسوس کیا تھا۔۔۔جیون کے گورے جھلسے ہوئے ہاتھ دیکھ کر سیف کو لگا زندگی کے ہاتھوں نے اُس کا گلا دبوچ لیا ہے، اور اُس پری اندام کا چہرہ جو سیف کا آئینہ ہوا کرتا تھا۔۔۔آہ۔۔۔اُس میں بھی دراڑ پڑگئی تھی۔۔۔ کبھی دیکھا ہے وہ ٹوٹا ہوا، مسلا ہوا پھول جو اپنا حُسن کھو کر بھی خوشبو برقرار رکھتا ہے۔۔۔ محبت کی خوشبو اگر روح کے نہاں خانوں تک پہنچ جائے تو خود کو مٹانے یا مارنے سے محبت نہیں مرتی۔۔۔وہ محبت اُس خواب کی طرح ہوتی ہے جو بری تعبیر پاکر بھی آنکھوں کا رستہ نہیں بھولتا۔۔۔وہ محبت اُس راگ کے جیسے ہے جس کے سارے سُر بگڑ بھی جائیں تو دُھن صدیوں تک سنائی دیتی ہے۔۔۔ وہ محبت آگ ہی تو ہے جس سے آگ بھی ہار جاتی ہے ۔۔ ۔جیون نے ایک سخت فیصلہ کرکے خود کو آگ میں جھونک دیا تھا، مگر یہ آگ بھی محبت کا چہرہ نہ بگاڑ سکی تھی۔۔۔ بس اُس کا چہرہ داغ دار ہو گیا تھا۔
اُسے فوری طور پر شہر لے جایا گیا تھا۔ اُس کی زندگی تو بچ گئی، مگر سانسوں کو زندگی کی طرف لوٹ آنے میں ابھی کافی وقت تھا۔ سیف دن رات ہسپتال میں اُس کے ساتھ تھا۔ اُس سے زیادہ جیون کی زندگی کی چاہ کس کو ہو سکتی تھی۔ رقیہ ناز اور ذکیہ بیگم کبھی کبھار اُسے دیکھنے کے لیے آجاتی تھیں، مگر اُس کا اپنا کون تھا، وہی جسے اُس نے اپنا نہیں سمجھا تھا۔ اِس حادثے کے بعد بھی جازم کے سینے میں رکھا پتھر ایک پل کے لیے بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ وہ سنگدلی اور بے اعتنائی کی اُس انتہا پر تھا جہاں اُس نے ایک بار بھی جیون سے ملنے یا اُسے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
چند دن بعد وہ گھر آئی تو بے بسی سے سر جھکا کر کھڑے نوکر ہی اُس کے منتظر تھے، جن کے لبوں پر دبی دبی دعائیں تھی۔ سامنے کھڑے لوگوں میں ذکیہ بیگم اور جازم کی غیر موجودگی نے ثابت کردیا تھا کہ اُس کی زندگی اُن کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ رقیہ ناز نے بھیگی آنکھوں سے اُسے اپنی کھڑکی سے دیکھا ۔ جیون کا سامنا کرنے کی اُن میں بھی ہمت نہیں تھی،اُنھیں اپنے اندر ایک ملال تھا کہ اُنھوں نے ذکیہ بیگم کو سمجھانے کے علاوہ عملی طور پر جیون کے لیے کچھ نہیں کیا تھا۔وہ ادھوری شخصیت کے ساتھ مکمل خاموشی اُوڑھے ہوئے تھی۔سیف اُسے اُس کے کمرے تک پہنچا کر واپس آرہا تھا کہ اُس کا سامنا سیڑھیاں اُترتے جازم سے ہوگیا۔
’’بڑی بہادر محبت ہے تمھاری ۔۔۔اُس کی خاطر آگ میں کود گئے ۔‘‘جازم کے گھمنڈی انداز میں طنز بھی تھا ،مگر سیف خاموش رہا۔
’’میرے راستے میں آنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے ،جیسا تم دونوں کا ہوا۔سنا ہے وہ بھی تم جیسی ہو گی ہے ۔سمجھاؤ اُسے! اب وہ تمھیں ہی اپنا دوست سمجھے گی ۔‘‘جازم نے زہر خند لہجے میں کہا اور بے رحمی سے ہنستے ہوئے چلا گیا تھا۔
’’آپ نے ثابت کردیا ہے کہ آپ ایک ظالم انسان ہیں۔آپ جیسا شیطان شاید ہی اِن حویلیوں میں پھر پیدا ہو۔آپ نے جیون اور صرف مجھے چوٹ نہیں پہنچائی ،آپ نے سچّے عشق پر وار کیا ہے ۔یہ عشق ہی آپ سے اپنے سارے بدلے اور حساب لے گا۔‘‘سیف نے اکڑ کر چلتے ہوئے جازم کو دور سے دیکھ کر سوچا ۔اُس کے اندر اُس کا دل پہلی بار بددعا کرنے پر مجبور ہوا تھا۔
*****
دیکھو ! ہر چیز ویسی ہے
پھولوں کی ادا
کلیوں کی خوشبو
آئینے کا چمکتا شفاف روپ
دیکھو ! کچھ کہاں بدلا ہے
دیواروں کا پینٹ
پردوں کی خاموشی
گھڑی کا نا پسندیدہ شور
دیکھو یہی کچھ تو میں چھوڑ گئی تھی
لیمپ کے پاس بڑی شاعری کی کتاب
ڈائری کا ادھورا صفحہ
تکیے کے غلاف پر چار پانچ سلوٹیں
دیکھو ! سب کچھ ویسا ہے
پر ہر شئے پر حق جتانے والی
میری زندگی بدل چکی ہے ۔۔۔۔۔
اُس کی غیر موجودگی میں اُس کے کمرے کی حالت ٹھیک کر دی گئی تھی۔وہ واپس آئی تو اُسے کہیں سے بھی نہ لگا کہ یہی وہ خوبصورت کمرہ ہے جسے وہ اپنی قبر بنانے کی کوشش کر چکی تھی۔ہر چیز اپنی جگہ پر اور سلیقے سے رکھی ہوئی تھی۔اُس نے ٹیبل پر رکھی شاعری کی کتابوں کو چھوا تو کتابوں نے جیسے جلے ہاتھ کی حدت سے سسکی بھری ۔اُس نے ساری کتابیں اٹھائیں اور کمرے کے ایک کونے میں رکھ دیں،نظموں کے سنگ جھومنے اور گنگنانے کے موسم بیت چکے تھے۔وہ سارے دیے جو وہ آنکھوں کے انتظار کے سنگ جلاتی تھی اُس نے ایک ڈبے میں ہمیشہ کے لیے بند کر دئیے، راتوں کے ساتھ حالِ دل کہنے کا وقت گزر چکا تھا۔نظر سرہانے کے پاس رکھی چاندی کی پلیٹ پر پڑی جو ہمیشہ تازہ کلیوں سے بھری رہتی تھی،آج اُس کا خالی ہونا اُسے اپنے کھوکھلے پن کا مزید احساس دلا گیا۔وہ کتنی ہی دیر الماری کھولے خوبصورت کپڑوں،جوتوں اور زیوارات کو دیکھتی رہی ہر چیز جیسے اُسے اپنانے سے انکار ی تھی۔دفعتاً ہاتھ اُس ڈائری کی طرف بڑھے جو کپڑوں کے نیچے سے جھانک رہی تھی ،جس میں اُس نے کئی گیت لکھے تھے۔اُس ڈائری کا ایک ایک صفحہ اُس نے بے دردی سے پھاڑ ڈالا تھا۔جذبوں کو مٹانے کی مشقت نے اُسے ہانپنے پر مجبور کر دیا تو وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی ہوئی آئینے کے سامنے چلی آئی۔ایک پل کے لیے ایک دل خراش چیخ فضا میں بلند ہوئی تھی ۔یہ وہ نہیں تھی ۔۔۔یہ خوبصورت خوش قسمت جیون نہیں تھی ۔۔۔یہ تو ایک بدقسمت لڑکی تھی جس کا پورا دامن اور آدھا چہرہ جل چکا تھا۔اُس نے تیزی سے اپنا ڈوپٹہ اُتارا او ر آئینے کو ڈھانپ دیا،مگر وہ اُس بدصورتی کو ڈھانپنے سے قاصر تھی جو اب ہر شئے میں نظر آرہی تھی۔ہارے ہوئے قدموں سے چلتے ہوئے وہ بیڈ تک آئی اور ایسے لیٹ گئی جیسے جان جانے کی منتظر ہو۔گول گول گھومتے ہوئے پنکھے میں اُس نے اپنی زندگی کا دائرہ دیکھا،جس میں ہر طرف ذلت تھی ۔یہ کمرہ ،یہ حویلی ،اِس حویلی سے باہر اُس کے لیے اب ہر طرف رسوائی ہی تھی۔
’’میں موت کو گلے لگا کر آگئی جازم ،مگر تم پھر بھی نہیں آئے ۔مانا کہ تم نے میری محبت کو قدموں تلے روند دیا ہے ،لیکن کیا تمھاری انسانیت نے تمھارے پاؤں نہیں پکڑے ؟ کیا تمھارے احساس نے تمھارے آگے ہاتھ نہیں جوڑے؟کیا تمھاری سوچ نے دل پر دستک نہیں دی ؟کیا تمھارے ضمیر نے نفس پر چوٹ نہیں کی ؟‘‘ اُس کے خاموش لفظوں پر اُس کی آنکھیں نہیں روئیں،اُس کا دل رو دیا تھا۔
’’جیون ۔۔۔یہ کیا حرکت کی تھی تم نے؟‘‘ذکیہ بیگم کھلے دروازے سے کب اندر آئیں اُسے خبر ہی نہ ہوئی۔اُس نے چھت پر سے نظریں ہٹائیں اور اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
’’جس حویلی نے تمھیں سب کچھ دیا اُسی کی عزت خاک میں ملانے جا رہی تھی تم۔۔۔اپنی کمزور محبت کو ثابت کرنے کے لیے تم نے اتنہائی گھٹیا طریقہ اختیار کیا۔۔۔اپنے آپ کو مار کر تم ہماری شان کا جنازہ نکالنا چاہتی تھی ۔۔۔ایک پل کے لیے بھی سوچا تم نے کہ اگر تم مر جاتی تو کس کس کو جواب دیتی میں۔‘‘ذکیہ بیگم نے حلق پھاڑ کر چیختے ہوئے ایک کے بعد ایک ملامت کے تیر برسائے، مگر جیون کی چپ نہ ٹوٹی ۔
’’دیکھو ! خود سر لڑکی اپنی صورت دیکھو ۔۔۔ تمھارے جنون اور اعمال نے تمھاری صورت بگاڑ دی ہے ۔کتنی بدصورت ہو گئی ہو تم ۔کون تمھیں دیکھے گا؟ کون تم سے بات کرنا پسند کرے گا ؟اب تم کسی کے بھی قابل نہیں ہو۔اب صرف اِس کمرے کی تنہائی ہی تمھارا مقدر ہے ۔‘‘ذکیہ بیگم کا انداز انتہائی ہتک آمیز تھا ۔اُن کی کسی بات سے بھی جیون کے چہرے پر کوئی تاثر نہ اُبھرا۔
’’بولو تم آئیندہ ایسا کچھ نہیں کرو گی ۔۔۔بولو تم یہ حماقت پھر نہیں دہرا ؤ گی۔‘‘ذکیہ بیگم نے اُسے جھنجھوڑا تو وہ بے جان سی بستر پر ڈھے گئی ۔اُس کی کھلی آنکھوں اور بند ہونٹوں پر کوئی جواب نہ تھا۔وہ زندگی کے نام پر بس سانس لے رہی تھی ۔ذکیہ بیگم کو ایک عجیب وحشت نے آن گھیرا تو وہ فوراً وہاں سے چلی آئیں۔
*****
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
سچّے عشق والے محبوب کی ذات پر پورا اختیار ہی کب چاہتے ہیں؟ اُنھیں تو اپنی ذات کی بے اختیاری ہی سرشار رکھتی ہے۔وہ بھی اُس موڑ پر تھا جہاں ملن کی آرزو ترک کر دی جاتی ہے ،جہاں مہکنے کے لیے محبوب کی خوشبو ہی کافی ہوجاتی ہے۔ جیون اب بھی اُس کے لیے ویسی تھی ،کیونکہ اُس کا سر حُسن کے آگے نہیں ،دل کے سامنے جھکا تھا ۔اُسے اِس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ چاند میں داغ پڑ چکا تھا ،اُس کے لیے اِتنا ہی کافی تھا کہ وہ چاند ہمیشہ اُس کے سامنے رہے ۔وہ ابھی بھی اُسے ہر جگہ نظر آتی تھی ،حویلی کی ہر سمت ہر کونے پر۔۔۔پھول کی ہر پتی ، تتلی کے ست رنگی پروں میں۔۔۔سفید بادلوں پر تیرتی ،شیشے کی بوندوں میں جھلکتی۔۔۔اُس کے لیے جیون کا عکس ،اُس کا چہرہ کسی بھی شئے میں دھندلا نہیں ہوا تھا۔وہ خوبصورت نہ رہ کر بھی اُس کے لیے ہر شئے میں خوبصورتی برقرار رکھے ہوئے تھی۔ خوبصورت صورت پر مرنا خوبصورت من پر مرنے سے زیادہ آسان ہے اور یہ ایسی موت ہے جس میں محبت زندہ نہیں رہتی ،مگر اُس کی محبت زندہ تھی وہ جیون کے من تک اُترا تھا۔وہ ہر حال میں اُسے اچھی لگتی تھی ،وہ ہر حال میں اُسے اپنی لگتی تھی ،وہ ہر حال میں اُسے قبول تھی ۔
روگ ایسے بھی غم ِ یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
دالان میں کھلنے والی جیون کے کمرے کی کھڑکی زیادہ تر بند رہنے لگی تھی۔وہ سارا دن بند کھڑکی کے باہر بیٹھا اُس کے ہونے کے احساس کو محسوس کرتا رہتا تھا۔جیون کی دیکھ بھال کے لیے جو خادمہ مقرر تھی وہ جب بھی اُس کے کمرے سے نکلتی تو وہ اُس کے چہرے پر جیون کی بے بسی کی کئی کہانیاں پڑھتا۔ وہ اپنا حال کسی کو نہیں بتاتی تھی ، مگر کھڑکی کے اطراف کے باریک سراخوں سے سنائی دینے والی سسکیوں نے سیف کو بے چین کر رکھا تھا۔ وہ اُس سے بات کرنا چاہتا تھا، اُس کا درد بانٹنا چاہتا تھا۔بس وہ منتظر تھا کہ کب جیون اُسے سنے ، کب جیون اُسے اِس قابل سمجھے۔
’’جیون کیسی ہو تم؟ میں کب سے تمھارا انتظار کر رہا تھا۔تم نے کیوں خود کو قید کر لیا ہے جیون ؟ وہ تمھارے ہاتھ کی لگائی ساری سبزیاں ،سارے پھل جو تمھارے گیتوں کی چھنکتی دھوپ میں پکتے تھے، بولو ! وہ تمھاری آواز کو سننے کے لیے بے تاب ہیں۔ وہ سارے پھول ،وہ ساری کلیاں جو تمھاری مسکراہٹ سے کھل جاتی تھیں، سنو! وہ تمھاری چاندی کی پلیٹ کو اداسی سے بلا رہی ہیں۔ وہ جابجا تمھارے لیے لگے سارے آئینے جو تمھارے عکس سے د ھل جاتے تھے، دیکھو ! وہ تمھیں نہ پاکر اندھے ہو گئے ہیں۔اپنے آپ کے ساتھ اپنے محبت کرنے والوں کو سزا مت دو۔باہر کی ساری دنیا اب بھی تمھاری راہ دیکھ رہی ہے،اب بھی تمھیں ڈھونڈ رہی ہے ۔‘‘کتنے دنوں بعد آج کھڑی کھلی تو وہ اپنے جذبات کو ر وک نہ سکا۔جیون نے دوسری طرف منہ کر رکھا تھا ،مگر سیف کی ہر بات نے اُس کے اندر ہلچل مچا دی تھی۔
’’اُن سب سے جاکر کہہ دو جیون مر گئی۔۔۔۔جیون مر گئی۔‘‘وہ کھردرے لہجے میں پلٹ کر بولی۔ اُس کا چہرہ سفید ڈوپٹے سے ڈھکا ہوا تھا ۔سیف نے سفید ڈوپٹے کو حسرت سے دیکھا،کبھی جیون پر اُسے شوخ رنگ ہی نظر آتے تھے۔
’’ایسا مت کہو ۔۔۔ایسا مت کہو جیون !تمھاری معصوم روح کو کچھ ہوا تو حویلی پر قہر نازل ہوجائے گا ۔۔۔عذاب اتریں گے ۔۔۔یہ ہری بھری حویلی کھنڈر بن جائے گئی ۔۔۔تمھیں کچھ ہوا تو ہر شئے واویلا مچا دے گی۔۔۔ہر چیز تڑپ اُٹھے گی۔۔۔ تم نہ رہی تو یہ پھول یہ پودے۔۔۔ یہ آئینے یہ ستون۔۔۔ سب ختم ہوجائیں گے۔۔۔ کچھ بھی نہ رہے گا۔۔۔تم مر گئی تو تمھارا یہ ناپسندیدہ غلام بھی جی نہیں پائے گا۔‘‘ سیف فرش سے اُٹھا اور شدت سے کانپتے ہوئے بولتا چلا گیا ۔وہ سیف کے اِس جلالی پن پر مبہوت رہ گئی تھی ۔
’’تم نے پہلے ہی مجھے ڈرا دیا ہے ۔۔۔تم جانتی ہو اِس آگ نے صرف تمھیں نہیں چھوا مجھے جلایا ہے ۔۔۔۔صرف ایک شخص کے لیے تم نے اپنی قیمتی جان کو داؤ پر لگا دیا ۔۔۔اِس حویلی کی ہر اُس چیز کا کیا جس کی سانسیں تم سے جڑی ہیں ۔۔۔تمھارے اِس کمزور دوست کا کیا جس کے لیے بس تم ہی اُس کی طاقت ہو ۔‘‘وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ایسی باتیں کر گیا تھا جو جیون کے دل کو الجھا گئیں۔ جیون نے کھڑکی بند کرتے ہوئے اُسے غور سے دیکھا ،اُس کی آنکھوں میں صرف غلامی اور دوستی نہ تھی ،کچھ ایسا تھا جس سے وہ نظریں چرانا چاہتی تھی۔
*****
تم سونے لگو تو
تمھاری پلکوں پر ستارے رکھ کر جاؤں
تم جاگو تو
خوشبو سے کہوں تمھیں صبح بخیر کہے
تم چاہو نہ چاہو
میں اِس چاہت کا ذائقہ ہر کھانے میں ملا دوں
تم کانوں پر انگلیاں رکھ دو
مگر میں زندگی سے جڑی ہر بات تمھاری سماعتوں میں اُتار دوں
میں نے زندگی کے سارے کام خود پر قرض کرکے
محبت میں تمھارا ہر کام خود پر فرض کرلیا ہے
وہ حویلی کا نوکر تو تھا ہی ،مگر جیون کے سب کا م بھی اُس نے خود پر فرض کر لیے تھے ۔اُس کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا تھا جیون کا خیال رکھنا،جیون کو خوش کرنا ۔وہ روز کھڑکی میں تازہ سفید کلیاں رکھتا اور اگلے دن وہی کلیاں مسلی ہوئی ملتیں۔۔۔اُسی کھڑی سے وہ کھانے کی ٹرے پکڑاتا اور وہی ٹرے محرومیوں سے بھری ہوئی واپس آتی۔۔۔وہ حویلی کی ساری باتیں طوطے کی طرح فر فر سناتا اور وہ پنجرے کے اُس پار بس ہوں ہاں کرتی۔۔۔وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ایسی کونسی تسلی دے جس سے جیون جی اُٹھے ۔۔۔ایسی کیا بات کرے جس پر وہ مسکرا دے۔۔۔ایسی کونسی خبر سنائے کہ وہ جھٹ سے دروازہ کھول دے۔وہ سمجھ سکتا تھا کہ جیون کا صرف جسم ہی نہیں دل بھی بری طرح جل چکا ہے اور راکھ میں پھول کھلانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔دل کی زمین ایک بار بنجر ہوجائے تو سالوں تک ہری بھری نہیں ہو پاتی ،مگر وہ ایک عزم اور امید کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا ۔اُس کا مقصد جیون کا دل جیتنا نہیں جیون کے دل سے ہار کے نقش مٹانا تھا۔اُس کی کوششیں اور حرکتیں ذکیہ بیگم اور حویلی کے نوکروں سے چھپی ہوئی نہیں تھیں۔ہر آنکھ اُس کے دل کا وہ حال جان چکی تھی جو اُس نے برسوں سے چھپا رکھا تھا۔سب نوکر جیون کو ہنستا مسکراتا دیکھنے کے خواہشمند تھے تو ذکیہ بیگم اُس کا کوئی مستقل بندوبست چاہتی تھیں۔سب کی خاموشی سیف کی ہمت بڑھا رہی تھی ۔اُسے جیون کے پاس جانے سے اب کوئی نہیں روک سکتا تھا،خود جیون بھی نہیں۔
’’ نہ تم اِن کلیوں کو اپنے پاس رکھتی ہو،نہ تم ٹھیک سے کھانا کھاتی ہو۔‘‘صبح اُس نے کھڑی کھولی تو سیف نے جھٹ سے کہا۔ اُس کا انداز شکایتی تھا۔
’’نہ کلیوں سے خوشبو آتی ہے ،نہ کھانے میں ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔‘‘جواب کھوئے کھوئے لہجے میں دیا گیا ۔ادھ کھلی کھڑکی سے دکھتا اُس کا افسردہ وجود سیف کو مغموم کر گیا تھا۔
’’کمرے کا دروازہ کھولو جیون ۔۔۔اداسیوں کو نکلنے دو۔۔۔روشنیوں کو اندر آنے دو۔۔۔باہر کی ہوا میں سانس لو۔۔۔یہ گھٹن تمھیں کچھ بھی بھولنے نہیں دے گی۔‘‘وہ ایک مخلص دوست کی طرح اُسے سمجھانے لگا۔
’’ روشنیوں میں بھی اب اندھیرا ہی ہے اور ہواؤں میں بھی ایک گھٹن۔کمرے کا دروازہ کھل بھی جائے تو دل کا دروازہ زندگی کی طرف نہیں کھل سکتا۔‘‘جیون کا لب ولہجہ اتنا مایوس کن تھا کہ سیف نے آنکھوں کی نمی چھپانے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیا۔
’’تم اِس طرح بیمار ہو جاؤ گی جیون۔‘‘سیف نے سراسیمگی سے کہا۔اُس کی آواز میں فکر تھی۔
’’موذی مرض لگ چکا ہے اب اور کیا بیمار ہونگی میں۔‘‘اُس نے گہری سانس کھینچی ، جیسے سانسیں بھی اُس سے روٹھی روٹھی ہوں۔
’’تم اُسے بھول جاؤ۔۔۔برے انسان اور بری یادوں کو بھول جانا چاہیے ۔۔۔پھر سے جیو جیون۔۔۔نئی زندگی تمھارا انتظار کر رہی ہے۔‘‘سیف نے امید بھرے لہجے میں کہتے ہوئے باہر سے کھڑکی مکمل کھول دی۔جیون اُس کی اِس حرکت سے کھڑکی کے ساتھ دیوار سے جا لگی تھی۔
’’میں نے اُس سے نفرت کرنے کی بھی بہت کوشش کی ہے ،لیکن جب دل بے اختیار کردے تو کوشش سے نہ محبت ہوتی ہے نہ نفرت۔نئی زندگی میں بھی وہ ساتھ رہے گا۔پرانی زندگی سے پیچھا چھڑانے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘اُس کے بامعنی جملوں نے سیف کو کچھ پل کے لیے خاموش کرادیا ۔
’’وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ جائے گا،خوش رہے گا اور تم اِس بند کمرے میں عشق کی مالا جھپتی رہنا ۔اِتنی بلند ظرفی کا مظاہرہ نہ کرو،وہ اِس قابل نہیں ہے۔‘‘سیف باوجود ضبط کے برہم ہوگیا تھا۔
’’کیا میں اِس قابل ہوں کہ تم میرا خیال رکھو؟کیا میں قابل ہوں کہ تم میری دل جوئی کرو؟کیا میں اِس قابل ہوں کہ تم اپنی دوستی ،اپنا وقت ،اپنی پرواہ مجھ پر نچھاور کرو؟ ہم دونوں ایک ہی رستے کے مسافر ہیں سیف ۔تم واپس نہیں آسکتے تو مجھے بھی مت بلاؤ۔‘‘ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے وہ دو ٹوک انداز میں بولی،سیف کو لگا وہ اُس کے دل تک پہنچ چکی ہے۔
’’اپنا اور اُس شخص کا موازنہ مت کرو جیون ۔تم اِس قابل ہو کہ کوئی تمھارے لیے سب کچھ لٹا دے ،مگر وہ اِس لائق نہیں کہ تم اُس کی خاطر سب برباد کردو ۔‘‘سیف نے سنبھل کر ملائمت سے کہا ۔وہ چاہ کر بھی اپنا دل کھول کر سامنے نہیں رکھ سکتا تھا۔
’’ایک لحاظ سے جازم نے میرے ساتھ ٹھیک ہی کیا ہے۔اُس کی بدولت اِس بدصورت دنیا میں نہ آتی تو تمھارے جیسے خوبصورت دل والے انسان کو پہچان نہ پاتی ۔‘‘جیون کے سرعت سے کہے گئے لفظوں کی پشیمانی پر سیف چونک سا گیا۔یہ اُس کی زندگی کا پہلا لمحہ تھا جب جیون نے۔۔۔جیون حیات نے اُس کے لیے کچھ اچھا کہا تھا۔جیون نے ہاتھ بڑھا کر کھڑکی بند کردی ۔وہ گم صم سا بند کھڑکی کو تکتا رہا۔زندگی نے پہلی بار اُس پر احساس کا در کھولا تھا۔
*****
یوں تو کہنے اور سننے کے لیے کچھ بھی نہ رہا تھا،مگر وہ کچھ ایسا کہنا چاہتی تھی جو جازم کی زندگی میں اُس کی یاد ہمیشہ زندہ رکھے۔۔۔وہ کچھ ایسا کہنا چاہتی تھی جو سزا نہ ہوکر بھی جازم کو ہمیشہ تڑپا ئے ۔۔۔وہ کچھ ایسا کہنا چاہتی تھی جو بددعا نہ ہوکر بھی جازم کے کانوں میں گو نجتی رہے ۔۔۔وہ کچھ ایسا کہنا چاہتی تھی جو جازم کو اُس کے ہونے کے احساس اور خیال سے باندھ دے ۔۔۔وہ کچھ ایسا کہنا چاہتی تھی جو جازم کی جیت کو ہار میں بدل دے ۔
’’پھول تمھارے پاس ہونگے ،مگر اُنھیں سونگھنے کی حس میں اپنے پاس رکھ لونگی۔۔۔
سمندر تمھارے قریب ہوگا ،مگر میں تمھاری پیاس اور سمندر کے رستے میں ہمیشہ کھڑی رہونگی۔۔۔
بارش تمھارے اوپر برسے گی ،مگر میری ہتھیلیاں آڑ بن کر تمھیں بھیگنے نہیں دے گیں۔۔۔
چاند تمھاری کھڑکی میں ہوگا ،مگر میری آنکھیں تمھاری آنکھوں کو اُس پر ٹکنے نہیں دیں گیں۔۔۔‘‘
اُس نے کاغذ قلم اُٹھایا اور نم پلکوں سے جازم کے نام ایک خط لکھنا شروع کردیا۔اپنے دل کی ساری باتیں لکھنے کے بعد اُس نے آخر میں لکھا تھا۔
’’تمھارے نام یہ میرا آخری خط ہے ۔اِسے سنبھال کر رکھنا !تم نے مجھے خود سے الگ کردیا ہے ،لیکن یہ عشق ہمیں کبھی جدا نہ کرے گا۔‘‘خط لکھنے کے بعد وہ کھڑکی کے پاس آئی اور آہستہ سے کھڑکی کھول کر باہر دیکھنے لگی۔سیف ستون سے ٹیک لگائے باہر ہی بیٹھا ہوا تھا۔
’’باہر بہت سردی ہے ۔۔۔ہر وقت یہاں مت بیٹھا کرو۔۔۔بیمار ہوجاؤ گے۔‘‘وہ رخ موڑے بنا ہمدردی سے بولی ۔سیف خفیف سا مسکرایا۔ دل ہی دل میں وہ اُس کی پرواہ پر نثار ہوا تھا۔
’’اب میں کسی کی دعاؤں کے حصار میں آچکا ہوں۔۔۔اب مجھے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘سیف نے برجستگی سے کہا ۔ اُس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں محبت کے یقین سے چمک اُٹھی تھیں۔
’’میں چاہتی ہوں تمھیں کبھی کچھ نہ ہو ،تمھارے جیسے انسان کی اِس حویلی کو ضرورت ہے ۔‘‘جیون کا لہجہ دعائیہ تھا۔اُس نے چہرے تک لپیٹے ڈوپٹے کو مزید سمیٹا۔
’’اور تمھیں۔‘‘ سیف نے جھجکتے ہوئے مان سے پوچھ لیا۔
’’ہاں مجھے بھی تمھارے جیسے دوست کی ضرورت ہیـ۔‘‘جیون نے اُس کا مان سلامت رکھا تو وہ اندر ہی اندر پرسکون ہونے لگا۔اُس کی نظریں جیون کی آنکھوں پر ٹھہر گئی تھیں۔وہ اُس کی نظروں کی تپش محسوس کر کے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی ۔وہ سوچ رہی تھی سیف خود اُس کے اتنی صبح باہر آنے کی وجہ پوچھے ،مگر سیف تو دن کے خواب میں ڈوب چکا تھا۔
’’میرا ایک کام کرو گے؟‘‘ وہ اُسے خاموش دیکھ کر کچھ توقف کے بعد بولی تھی ۔
’’حکم کرو۔‘‘سیف نے جواباً محبت بھری تابعداری سے سر ہلایا۔
’’یہ خط اُس تک پہنچا دو۔‘‘جیون نے لفافہ کھڑکی کے کنارے پر رکھتے ہوئے آزردگی سے کہا۔ایک پل کے لیے اُس کے ہاتھ کانپے تھے۔
’’یہ کیا ہے جیون! کیوں اذیت کا در دوبارہ سے کھولنے جارہی ہو؟کیوں ایک بے رحم شخص پر پھر سے اپنے لفظ ضائع کرنا چاہتی ہو؟ اُس کے پاس وہ دل نہیں جو تمھارے جذبوں کی گہرائی میں اُتر سکے ،اُس کے پاس وہ نظر نہیں جو تمھارے لفظوں کی سچائی کو دیکھ پائے۔تمھیں اب تک سمجھ جانا چاہیے تھا کہ وہ تم سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتا ۔زخم کرید کر خود کو تکلیف مت دو۔‘‘سیف اُسے سمجھاتے ہوئے کچھ تلخ ہونے لگا۔اُس کے چہرے پر دکھ اور غصّے کے ملے جلے تاثرات اُبھرے تھے۔
’’میں نے اِس خط میں اذیت کا در بند کردیا ہے ۔۔۔زخموں کے منہ سی دیے ہیں۔۔۔اِس کہانی کے انجام اور اپنے دل پر مہر لگا دی ہے۔۔۔یہ خط یہی رکھا ہے۔۔۔کل بھی یہی رکھا رہا تو میں تم سے ضد نہیں کرونگی۔‘‘جیون نے اُس کیفیت سے گزرتے ہوئے کہا،جو کیفیت اُس نے یہ خط لکھتے ہوئے محسوس کی تھی۔
اُس کے جانے کے بعد سیف نے خط اُٹھایا اور چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا آیا ۔کافی دیر وہ خط کو مٹھی میں دبوچے بیٹھا رہا تھا۔آج بھی جیون کے شفاف دل میں جازم کی مورت تھی ،یہ حقیقت اُسے اِس خط پر صاف دِکھ رہی تھی۔
’’مجھے یہ خط پڑھ کر دیکھنا چاہیے ۔آخر جیون نے جازم کو اِس بار کیا لکھا ہے۔‘‘ایک محبوب کی بے قراری اُسے اِس حرکت پر اُکسانے لگی۔
’’نہیں میں یہ چوری نہیں کر سکتا۔یہ امانت میں خیانت ہے۔ اُس نے پہلی بار مجھ پر اعتبار کیا ہے،میں اُس کا اعتبار نہیں توڑ سکتا۔‘‘وہ خط کھولتے کھولتے رک گیا ۔اُس نے خود ہی اپنی سوچ کی سختی سے تردید کردی تھی۔
’’مجھے یہ خط جازم کو نہیں دینا چاہیے۔یہ نہ ہو یہ خط جیون کے لیے کوئی اور مشکل کھڑی کردے ۔مجھے اِس خط کو چھپا دینا چاہیے۔‘‘ کسی انہونی کے ہوجانے کے ڈر سے اُس نے ایک اور فیصلہ لیا۔
’’یہ بھی تو دھوکہ ہے سیف ۔کیا پتا یہ خط جیون کی اذیت کی آخری پکار ہو۔۔۔بھڑاس ہو۔۔۔امید ہو۔‘‘وہ خط دراز میں رکھتے رکھتے ضمیر کی آواز سے بری طرح سے چونک گیا۔
اُس نے ساری سوچوں کو جھٹکا اور محبوب کے حکم کی تکمیل کے لیے جازم کے کمرے کی طرف چل دیا۔اِس رستے پر چلتے ہوئے اُس نے شدت سے تکلیف محسوس کی تھی، اِس رستے پر کبھی جیون کے قدم پڑے تھے۔
*****
عشق کرکے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی
اِس قدر اُلجھن میں پہلے زندگی دیکھی نہ تھی
’’یہ وقت نے کیسی کروٹ لی ہے کہ تم میرے پاس آگئی ہو ،مگر میری نہیں ہو۔۔۔یہ قسمت کی کیسی بازی ہے کہ میں تمھاری دھڑکنوں کی زباں پڑھ سکتا ہوں،لیکن تمھارے دل پر اپنا نام نہیں لکھ سکتا۔۔۔یہ حالات کا کیسا ستم ہے کہ میں تمھارے ٹوٹے خواب کو تسلی دے رہا ہوں،مگر تمھاری پلکوں پر نیا خواب نہیں رکھ پا رہا۔۔۔جانتا ہوں وہ تمھارے اندر سے نہیں نکلے گا۔۔۔پر میں اِس گھٹن میں تمھیں مرنے نہیں دے سکتا۔۔۔تم خوش نہ بھی ہونا چاہو تو تمھیں خوش رکھنا میری اولین خواہش ہے ۔۔۔میری انسانیت کی ذمہ داری ہے ۔۔۔میری عشق سے وفاداری ہے۔۔۔کل تک میں جو تمھیں خوابوں خیالوں میں کہتا آیا تھا ۔۔۔آج تم سے تمھارے روبرو کہوں گا۔۔۔چاہے تم مجھے قبول نہ کرو ۔۔۔مجھے ٹھکرا دو ۔۔۔مجھے بے عزت کرو۔۔۔میں تم سے اقرار کروں گا۔۔۔میں تم سے اقرار کروں گا جیون!‘‘
ساری رات اُس نے سوچتے ہوئے اور فیصلہ کرنے میں گزار دی تھی۔آج کتنے سالوں بعد اُس نے اپنے بزدل دل کو قا ئل کر لیا تھا۔ وہ اپنے بستر سے اُٹھا اور مصمّم ارادہ کرتا جیون کی طرف چل پڑا۔سورج کی ہلکی ہلکی روشنی چار سو پھیل رہی تھی ۔اُس نے چلتے چلتے سامنے دیکھا تو جیون کھڑکی کھولے اُسی کی ہی منتظر تھی۔
’’تم آگئے سیف ۔۔۔تم نے اُس تک خط پہنچا دیا۔‘‘ اُسے دیکھتے ہی جیون نے بے صبری سے پوچھا ۔سفید ڈوپٹے کے پیچھے وہ اُس کے چہرے پر لکھی بے قراری بھی جان گیا تھا۔
’’ہاں جیون۔‘‘ سیف نے اختصار سے کہا اور نیچے فرش پر بیٹھنے کے لیے جھکا۔
’’نیچے مت بیٹھو۔۔۔ فرش ٹھنڈا ہے ۔۔۔بہت سردی ہے باہر۔‘‘وہ اُسے روکتے ہوئے فکر انگیز لہجے میں بولی ۔
’’جو میں کہنے آیا ہوں۔اُس کے لیے میرا نیچے بیٹھنا بہت ضروری ہے جیون۔میں اپنی اوقات سے بڑی بات کہنے والا ہوں۔‘‘سیف نے عاجزی سے کہا ،وہ اُس کے ارادے کو کچھ کچھ سمجھ کر بے تاب ہوئی تھی۔
’’ایسا کیا ہے سیف جو تم سر اُٹھا کر نہیں کہہ سکتے۔‘‘جیون نے کھڑکی کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے حیرت بھرے انداز میں پوچھا۔
’’محبت! ایک غریب انسان کی محبت۔۔۔ایک کمزور انسان کی محبت۔۔۔ایک بدصورت انسان کی محبت ۔۔۔ایک غلام کی محبت۔‘‘اُس نے جھکے ہوئے سر سے محبت کا پرچم اُٹھایا تھا۔
’’محبت ـ‘‘جیون نے بے خیالی میں اُس کے منہ سے نکلے اِس انمول لفظ کو دہرایا ۔
’’ہاں میری محبت !میری محبت کے دامن پر ہزاروں داغ ہیں کئی عیب ہیں،مگر میرا دل شفاف ہے، بے عیب ہے۔میں نے جب سے تمھیں اِس دل میں جگہ دی تب سے یہ دل معصوم بچے کی طرح دھڑکا ہے ،جو کبھی کسی کا برا نہیں چاہ سکا۔جانتی ہو تم میرے دل میں کب آبسی ،جب میں اِس حویلی میں تمھارے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آیا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ تم دور ہوئی اور یہ محبت بڑھتی گئی۔میری محبت تب بھی تھی جب میرے کھلونے توڑے گئے ،میری محبت تب بھی تھی جب میری کتابیں پھاڑی گئیں،میری محبت تب بھی تھی جب میرے جسم کو اذیت پہنچی ۔‘‘وہ کہتے کہتے کچھ پل کے لیے خاموش ہوا۔دوسری جانب جیون پشیمانی کے گڑھے میں گر چکی تھی۔
’’تمھاری محبت عظیم ہے سیف ،معتبر ہے۔اِسے خود سے نکال دو۔اِس کا کہیں صلہ نہیں۔‘‘وہ کھڑکی کا ایک پٹ باہر کی طرف دھکیلتے ہوئے نحیف لہجے میں بولی۔
’’کیسے نکال دوں؟ محبت میرے اندر نہیں،میں محبت میں تحلیل ہو چکا ہوں ۔میرا بے ضرر وجود محبت کے طاقت ور وجود میں قید ہے ۔میں محبت کے اندر گمشدہ ہو گیا ہوں،کھو چکا ہوں۔میں اِس محبت کے بغیر کھوکھلا ہوں جیون۔‘‘سیف کا لفظ لفظ محبت کی سچائی بکھیر رہا تھا اور یہ سچائی جیون کے اعصاب پر عذاب کی طرح نازل ہوئی۔
’’یہ دیوانگی نری بربادی ہے سیف۔‘‘جیون نے سرد آہ بھر کر کھڑکی کے کونے پر سر ٹکا دیا تھا۔
ـ’’یہ بربادی میرے آباد ہونے کی پہلی نشانی ہے۔‘‘سیف نے سر پھرے ا نداز میں بے انتہا یقین سے کہا۔
’’کچھ نہیں مل سکتا۔۔۔سچّے عاشق کو کچھ نہیں مل سکتا۔۔۔کچھ حاصل نہیں ہے ۔۔۔کچھ حاصل نہیں ہے اِس میں۔‘‘جیون نے الجھتے ہوئے جیسے اُس کی منت کی۔
’’اگر نہیں ہے تو میں حاصل کرنے آیا ہوں۔۔۔میں نے اب تک کی اپنی زندگی میں تمھارے تصور سے باتیں کی ہیں۔۔۔تمھاری تصویر سے دل لگایا ہے۔۔۔تمھاری خوشبو کے تعاقب میں بھاگا ہوں۔۔۔تمھاری آواز کی سمت میں ٹھرا ہوں۔۔۔میں اِس محبت کو بغیر کسی صلے کے اپنے اندر پالتا رہا ہوں۔۔۔بغیر کسی غرض کے نبھاتا رہا ہوں۔۔۔لیکن آج مجھے صلہ چاہیے ۔۔۔آج مجھے غرض ہے ۔۔۔میری غرض تمھاری خوشی سے بندھی ہے ۔۔۔مجھے صلے میں اپنا ساتھ دے دو۔۔۔میری زندگی میں شامل ہو جاؤ ۔۔۔میری یہ زندگی تمھاری زندگی سے ہے ۔‘‘وہ خواب ناک لہجے میں کہتا ہوا زمین سے اٹھا اور ہاتھ جوڑ کر اُس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔جیون کو اُس میں اپنا ہی عکس نظر آیا وہ وحشت ذدہ ہوکر کچھ قدم پیچھے ہٹ گئی۔
’’یہ ممکن نہیں ہے سیف ،ممکن نہیں ہے ۔تم ایسے انسان سے زندگی مانگ رہے ہو جو خود موت کے قریب ہے۔میں ڈوب رہی ہوں اور تم بھی میرے سنگ ڈوب جاؤ گے۔‘‘وہ بے بسی سے کہتے ہوئے روہانسی ہوئی تھی ۔
’’ایسا مت کہو۔میں تمھیں کسی قیمت پر ڈوبنے نہیں دونگا۔‘‘ سیف کی کرب سے لرزتی ہوئی آواز بلند ہوئی ۔
’’مجھے ڈوبنے دو ،میں تمھارے قابل نہیں ہوں۔تم بہت اچھے ہو ،بہت اونچے ہو۔میرے ظرف کا قد تم تک کبھی نہیں پہنچ سکتا۔میں نے کئی بار تمھیں تمھاری بدصورتی کے کارن ٹھکرایا ہے۔ میں کیسے اپنی تمام تر بدصورتیوں کے باوجود تمھاری محبت قبول کر لوں؟میرے ضمیر کو ایک اور پچھتاوا گوارا نہیں ہے سیف۔میں اتنی خود غرض نہیں ہو سکتی ۔‘‘وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر سسک پڑی تھی۔
’’میری نظر کے آئینے سے دیکھو ! تم ہر خوشی کے قابل ہو ۔۔۔تم اچھی ہو۔۔۔تم خوبصورت ہو۔۔۔ تم سب سے خوبصورت ہو جیون ۔‘‘سیف نے اُسے ترحم بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔ وہ جیون کو یوں ہار تا دیکھ کر ٹوٹنے لگا تھا۔
’’مت بہلاو مجھے !یہ چہرہ اب داغ دار ہوا ہے ،یہ دل تو کب کا کھوٹا ہے ،یہ سوچ یہ روح تو کب سے میلی ہے۔ اپنے غرور کا سر بلند رکھ کر اپنے ضمیر کو مار چکی تھی جیون،اُس ضمیر کی برسوں پرانی لاش تک پہنچی ہوں میں۔تم نہیں جانتے میری گلی سڑی لاش پر پچھتاؤں کے کتنے کیڑے رینگ رہے ہیں۔میری خطاؤں اور گناہوں کے کئی سانپ آس پاس پھنکار رہے ہیں۔جو آئینے میرے حُسن کی پرستش کرتے تھے ،وہی دیکھا رہے میں کہ میں کتنی بری ہوں۔‘‘وہ اُس سے نظر ملاتے ہوئے اعترافِ جرم کر رہی تھی ۔اُس کے آنسو اور شدت سے بہنے لگے تھے۔
’’ایسا کچھ نہیں ہے جیون۔‘‘ وہ احتجاجاً چلایا۔
’’کچھ مت کہنا۔۔۔کچھ مت کہنا۔۔۔بس سنو ۔۔۔بس دیکھو۔۔۔وہ دیکھو !وہ سارے پودے جیون حیات کے ہاتھوں نے لگائے ہیں اور وہ اپنے خمیر میں نفرت بوتی رہی ہے ۔۔۔وہ دیکھو !وہ ساری اونچی دیواریں کس قدر مضبوط ہیں ،مگر جیون حیات کی اکڑ اُن کو بھی پار کر گئی تھی ۔۔۔۔وہ دیکھو ! بے زبان پرندے جو جیون حیات سے امن کے گیت سنتے تھے،لیکن اُس نے تم جیسے جیتے جاگتے انسان سے دشمنی نبھائی ہے۔۔۔کیوں بچایا تم نے مجھے کیوں؟۔۔۔جل کر بھسم ہوجانے دیتے مجھے ۔۔مرجانے دیتے مجھے۔‘‘سیف نے کچھ کہنے کے لیے لب وا ہی کیے تھے کہ جیون نے سختی سے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روک دیا ۔
’’یہ کیسی باتیں کر رہی ہو تم ؟ مت کہو ایسا ۔۔۔ تمھیں جینا ہے ۔۔۔تمھیں جینا ہے ۔۔۔خود کو اور مجھے یوں تکلیف مت دو۔‘‘اُس کا یہ روپ سیف کے لیے ناقا بلِ برداشت ہو رہا تھا۔
’’ یہ پشیمانی مجھ میں لہو کی جگہ لے چکی ہے۔۔۔ یہ ندامت میری دھڑکن بن گئی ہے۔۔۔ یہ پچھتاوا میری بینائی ہوگیا ہے ۔۔۔بہت ناقابلِ برداشت ہے یہ ۔۔۔بہت زیادہ۔‘‘وہ ہچکیوں میں کہتے ہوئے آگے بڑھی تھی۔اُس نے دونوں ہاتھ ڈوپٹے سے باہر نکالے اور اپنے ہی چہرے پر تھپڑ برسانے لگی۔
’’رک جاؤ ۔۔۔اپنے آپ کو مت مارو۔۔۔خدا کے لیے بس کردو جیون۔۔۔چپ ہو جاؤ۔‘‘ سیف کا دل اب پھٹ جانے کو تھا۔
’’تمھیں سننا ہوگا سیف ۔۔۔بچپن سے تمھاری ہر ا چھی چیز چھینی ہے میں نے۔۔۔تمھیں نوکر سمجھا ہے۔۔۔تمھیں دھتکارا ہے۔۔۔تم سے نفرت کی ہے۔۔۔تمھاری بدصورتی کا مذاق اُڑایا ہے۔۔۔میں اور جازم تمھیں فٹ بال سمجھ کر اِدھر اُدھر پھنکتے رہے ہیں۔۔۔تمھارے دل کو کھلونا جان کر تمھارے احساسات سے کھیلتے رہے ہیں۔۔۔ہر لمحہ ہر پل تمھیں تکلیف پہنچاتے رہے ہیں ۔۔۔تم سے ملنے والی خوشیوں اور راحتوں پر میرا کوئی حق نہیں ۔۔۔میں ایک بری انسان ہوں ۔۔۔اندر باہر سے بدصورت انسان ۔۔۔ میں حقدار ہوں اِس سزا کی۔۔۔یہ صرف ایک بے لگام محبت کی نہیں،میرے غرور کی بھی سزا ہے۔۔۔میری ناانصافی کی سزا ہے۔۔ ۔میرے ہر گناہ ہر زیادتی کی سزا ہے ۔ ۔۔چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔ چلے جاؤ۔۔۔آئیندہ یہاں ایک دوست کی حیثیت سے آنا،ورنہ ! جیون تمھیں کبھی نہیں ملے گی۔‘‘جیون نے روتے تڑپتے ہوئے اپنے اندر کا سارا طوفان باہر نکال کر کھڑکی بند کر دی تھی۔سیف کچھ پل کے لیے ساکت کھڑا رہا اور پھر گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گیا۔دو صورتوں میں ایک انسان کو واپس نہیں لایا جاسکتا،جب وہ غرور کی انتہا تک پہنچ جائے ،جب وہ ملال کی گہرائی میں اُتر جائے ۔سیف دونوں صورتوں میں ہی ہار گیا تھا۔
*****
وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو اُس کی نظر قالین پر پڑے خاکی لفافے پر ٹھر سی گئی ۔اُسے یہ سمجھنے میں ایک پل بھی نہ لگا کہ یہ خط کس کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور کس کے ذریعے یہاں تک پہنچا ہے۔وہ خط کو نظر انداز کرتا سرعت سے آگے بڑھ گیا ،ملنے والی خوشی کو وہ کسی بھی قیمت پر بدمزہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’تم کبھی نہیں سدھر سکتی ۔‘‘صوفے پر بیٹھے بیٹھے تیکھی نظریں دوبارہ خط پر پر پڑیں تو اُس کے لب بے اختیار ہلے،مگر جلد ہی اُس نے اپنا دھیان جیون اور اُس کے خط سے ہٹا لیا تھا۔
وہ آج بہت خوش تھا ،خوش کیوں نہ ہوتا اُسے دیوانہ کرنے والی،کئی مہینوں سے اُس کے دل پر راج کرنے والی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُس کی جو ہونے والی تھی ۔وہ ہر پسندیدہ چیز کو اپنی طاقت اور شاطرانہ فطرت کی بدولت حاصل کرتا آیا تھا اور وہ لڑکی اُس کی اب تک کی سب سے بڑی جیت تھی ۔محبت کو حاصل کرنے کا جنون ،محبت کو سمجھنے کے جنون سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور اکثر لوگ یہی مات کھا جاتے ہیں۔وہ اپنی دانست میں محبت کو اپنی باندی سمجھتا تھا یہ جانے بغیر کہ محبت کو فتح کرنے کے لیے محبت کا غلام بننا پڑتا ہے ۔ اُسے بس اپنی بادشاہت کا زعم تھا ،اُسے ہمیشہ جیتنے سے غرض تھی اِس بات کی پرواہ کیے بنا کہ اُس کی وجہ سے کئی رشتے ہار گئے ہیں۔وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا تھا کہ ایک لڑکی اُس کی محبت میں دیوانی ہوئی تھی تو دوسری ہر قربانی دینے کو تیار تھی۔
’’میں نے اپنے لیے تمھیں چنا ہے ۔۔۔تم وہ قیمتی ہیرا ہو جو میرا ہی ہو سکتا تھا ۔۔۔جیسے میرا ہی ہونا تھا۔۔۔تم کوئی معمولی لڑکی نہیں ہو۔۔۔تم خوبصورتی اور فراست کا حسین امتزاج ہو ۔۔۔ تم انمول ہو۔۔۔تم جازم خان کا انتخاب ہو۔‘‘اُس نے موبائل آن کر کے اُس نازنین کی تصویر دیکھی اور پر سوچ انداز میں کہتا ہوا کھڑکی کی طرف چلا آیا ۔
باہر پورے چاند کی رات تھی ۔اُس نے ایک نظر چاند کو دیکھا پھر سفید لباس میں ملبوس اُس پیاری لڑکی کو ۔تصویر نے ساری روشنیوں کو مات دے کر اُس کی نظروں کو مقناطیسی انداز میں اپنی طرف کھینچ لیا۔جازم نے اُس کی بڑی بڑی آنکھوں میں جھانکا ،کتنی دلچسپ تھیں اُس کی آ نکھیں ،محبت کی گہرائی میں غوطہ لگاتی۔۔۔فسوں بکھیر کر بولنے والی۔۔۔ذہانت کے پانیوں سے بھری آنکھیں ۔وہ آنکھوں کی زبان میں اتنی طاق تھی کہ اکثر جازم اُسے خاموشی سے تکتا رہتا۔وہ اپنی انوکھی سوچ اور منفرد حرکتوں سے کئی بار اُسے چونکا چکی تھی ۔وہ جذبات میں بہتی ہوئی،روتی تڑپتی ہوئی لڑکیوں سے ہمیشہ چڑتا تھا۔ اُس کی شاطر سوچیں اپنے محبوب کے حُسن کے بعد اُس کی ذہانت پر ہی فدا ہوئی تھیں ،ابھی وہ اِس حقیقت سے انجان تھا کہ وہ لڑکی صرف ذہین ہی نہیں،خودسر اور بہادر بھی ہے۔
کتنی ہی دیر اپنی ہونے والی بیوی کے بارے میں سوچنے کے بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچا کہ اب اُسے یہ خوشخبری حویلی کی ہونے والی ملکہ کو سنا دینی چاہیے ۔اِس خیال کے ساتھ اگلے ہی لمحے وہ معنی خیز مسکراہٹ سے اُس کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
’’میں کب سے تمھاری کال کی ہی منتظر تھی۔تم جانتے ہو اِس کہانی کو ہمیں ہی مکمل کرنا ہے۔ اب کس بات کا انتظار کر رہے ہو تم؟‘‘وہ تفتیش بھرے انداز میں فکر مندی سے بولی ۔
’’یوں سمجھو کہ انتظار ختم ہوا۔اب دن نہیں لمحے گننا شروع کردو۔‘‘جازم نے تسلی بخش آواز میں کہا۔اُس کے ہونٹوں کا تبسم اور گہرا ہوا اور لہجے کی شوخی مزید بڑھی۔
’’کیا مطلب ؟ صرف لمحے ؟‘‘وہ نا سمجھنے والے انداز میں معصومت سے پوچھنے لگی۔
’’ہاں بس لمحے ! میں کل صبح ہی تمھیں لینے آرہا ہوں۔‘‘جازم نے محبت سے لبریز انداز میں ایسا فیصلہ سنایا تھا کہ وہ کچھ پل کے لیے خاموش ہوگئی۔
’’کیا یہ سچ ہے ؟ کوئی خواب تو نہیں ہے؟ خوبصورت کھنکتی آواز میں ہنوز بے یقینی تھی۔
’’بس آج رات تک خواب ہے یہ ۔۔۔چاہو تو سو جاؤ۔۔۔چاہو تو جاگ کر اِس خواب کو حقیقت بنتے ہوئے دیکھو۔‘‘جازم نے جاذبیت سے کہا تو اُس نے شرماتے ہوئے فون بند کر دیا تھا۔
کل اُس کی زندگی بدلنے والی تھی ۔وہ اپنی زندگی کو ہمیشہ کے لیے اِس حویلی میں لے کر آنے والا تھا۔نہ اُسے ذکیہ بیگم کے ردعمل کی پرواہ تھی نہ جیون کی تکلیف کی ۔ اُسے غرض تھی توبس اپنی مرضی اور خوشی سے ۔ایک کے بعد ایک جرم نے اُسے واقعی پتھر دل بنا دیا تھا۔وہ مدہوشی کے عالم میں چلتا ہوا بیڈ تک آیا ور بستر پر ڈھے سا گیا۔ذہن میں آنے والے کل کامنصوبہ گھومنے لگا تھا۔نجانے کیسے اُس کی ہزاروں سوچو ں میں سے ایک سوچ اُس خط پر رک سی گئی ۔ کئی بار اِس نا پسندیدہ سوچ کو جھٹکا گیا ،مگر تجسس ایسا تھا کہ وہ اُٹھنے پر مجبور ہوا۔اُس نے خط نیچے سے اٹھایا اور بے دردی سے لفافہ پھاڑنے کے بعد پڑھنا شروع کردیا۔طویل خط کے اُتار چڑھاؤ نے اُس کے تاثرات یکدم بدل دئیے تھے۔
’’کیا بکواس ہے یہ؟ تم کبھی بھی اپنی سستی حرکتوں سے باز نہیں آسکتی۔تم کیا سمجھتی ہو تمھاری یہ باتیں مجھ پر اثر کرے گیں۔مائی فٹ!‘‘زہر بھرے انداز کہتے ہوئے اُس نے سفید کاغذ ہوا میں اچھال دیا اور غصے سے پورے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ناچاہتے ہوئے بھی جیون کے لکھے کئی لفظ ،کئی جملے اُس کی نظر کے سامنے آنے لگے تھے ۔اُس نے جھک کر پھر خط اٹھایا اور بار بار پڑھتا رہا۔اُس کے پورے وجود پر وحشت طاری ہوگئی تھی ۔وہ ایک بے چین کیفیت میں گرفتار ہو چکا تھا۔رات دیر تک سوچنے کے بعد آخر وہ ایک نتیجے پر پہنچ گیا۔
’’سوری بے بی کل نہیں ۔۔۔تمھیں ایک مہینہ انتظار کرنا ہوگا ۔۔۔مجھے ہماری شادی سے پہلے کچھ انتظامات کرنے ہونگے۔۔۔کچھ ایسے انتظامات جو بہت ضروری ہیں۔‘‘یہ پیغام بھیجنے کے بعد اُس نے بھرپور تھکن سے سر بیڈ کے کراؤن سے ٹکا دیا۔جیون اُس سے اپنی خوشیاں تو نہ چھین سکی ،مگر اُس کی خوشی کو پھیکا کرنے میں کامیاب ضرور ہوئی تھی۔
*****
تڑپ اُٹھوں بھی تو ظالم تیری دہائی نہ دوں
میں زخم زخم ہوں پھر بھی تجھے دکھائی نہ دو
وقت کے ساتھ ساتھ وہ صبر کرنا سیکھ گئی تھی۔بوجھل دل اور خالی آنکھیں ۔۔۔ اُس نے زندگی کا نیا چہرہ قبول کر لیا تھا۔بہت کچھ کھو کر بھی زندگی کی بدصورتی میں وہ اپنا اصل پا گئی تھی۔آنسو خشک نہیں ہوئے تھے ،پر اِن آنسوؤں کے ساتھ دل میں ٹیس نہیں اُٹھتی تھی ۔دل دماغ سے وہ نکلا نہیں تھا ،پر اُس کے ہونے سے گھٹن نہیں بڑھتی تھی ۔ زخم ابھی تک بھرے نہیں تھے ،مگر اِن زخموں میں راحت کا سامان پیدا ہو چکا تھا۔اُس نے جازم کو امید کے دائرے سے نکال کر سارا عشق اپنے نام کر لیا تھا ۔یہ عشق اب اُس کا تھا ،اُس کی ملکیت تھا ،اُسے سنبھالنا ،سنوارنا،زندہ رکھنا اب صرف اُس کی خواہش تھی ۔دھوکہ ایسی چیز ہے جو بڑی سے بڑی محبت کو بھی نفرت میں بدل دیتا ہے ،نفرت دن رات کئی بار اُس کا در کھٹکٹاتی رہی ،مگر اُس کے وجود کے اندر ،کمرے کے کونے کونے میں عشق سما چکا تھا وہ کیونکر دروازہ کھولتی ۔ وہ بے تابی کے سمندر میں غرق ہوکر طمانیت کے سیپ ڈھونڈ لائی تھی ۔وہ اِس یکطرفہ محبت کی وفاداری پر پرسکون ہونا سیکھ گئی تھی ۔بس اِس زندگی کو قبول کرکے بھی اُسے کبھی کبھی یہ سپنا آجاتا کہ جازم کے بھٹکتے قدم اُس کی منزلوں کے نشان ڈھونڈ نے نکلے ہیں ،اکثر یہ گمان جاگ جاتا کہ دل توڑنے والا ایک دن دل سمیٹنے کے لیے آئے گا، کسی وقت یہ یقین پختہ ہونے لگتا کہ وہ جازم کو وہاں ملے گی جہاں جدائیوں کا تصور بھی نہیں ہوتا۔
وہ پھر سے لوٹ آیا ہے
مگر!
پہلے سے زیادہ اجنبی ہے
پہلے سے زیادہ انجان سا ہے
پہلے سے زیادہ۔۔۔۔۔۔
کسی اور کا ہے
اُس کے ہاتھوں میں اِس بار
کسی کا ہاتھ ہے
وہ میرے پاس ہے پر
کسی کے ساتھ ہے
میں ملن کا یہ نظارہ دیکھ کر
اپنے ہی اندر گمشدہ ہوگئی ہوں
پہلے سے زیادہ تہی دامن ہو چکی ہوں
مٹی کے وجود کی بولتی دھڑکیں
لکڑی کی کھڑکی سے خاموش منظر
مجھے بتا گئے ہیں
صبر کا دامن پل میں چھوٹ گیا
دل پہلے سے زیادہ ٹوٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔
صبح سے اُسے سیف نظر نہیں آیا تھا،اُس کی کیفیت بھی کچھ عجیب سی تھی ۔وہ بار بار کھڑکی کھولتی اور بند کردیتی ۔وہ آنے والے طوفان سے بے خبر تھی ۔اِس بات سے بے خبر تھی کہ وہ صبر کی جس منزل پر کھڑی ہوئی ہے ،وہاں ایک نئی آزمائش آنے والی ہے ۔اُس کا دل بہت مضطرب تھا، بوجھ تلے دبی ہوئی دھڑکنوں پر پھر سے کوئی پہاڑ گرنے کا اندیشہ تھا،سمندر کو صحرا بنانے والی آنکھوں میں پھر سے طوفان آنے کا دھڑکا تھا۔وہ جس حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کر رہی تھی اُس حقیقت کا سامنا کرنے کا وقت شاید آچکا تھا۔کچھ دیر بے قراری سے لڑنے کے بعد وہ کھڑکی کے پاس گئی تو کھلی کھڑکی نے جیسے اُس کا سانس تنگ کردیا۔وہ اُس کے سامنے تھی، وہی جس نے اُس کی جگہ لی تھی، وہی جس کی خاطر اُسے چھوڑ دیا گیا تھا۔وہ حویلی کے بڑے دروازے کو پار کرکے اندر قدم رکھ چکی تھی ۔جازم اُس سے تھوڑا آگے آگے چل رہا تھا ،اُس کی باز جیسی نظریں سامنے کی طرف تھیں۔وہ اِرد گرد سے بے خبر تھا یا نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔وہ سہمے سہمے انداز میں جازم کے پیچھے پیچھے تابعداری سے چل رہی تھی۔وہ ایک دبلی پتلی نرم و نازک سی لڑ کی تھی،جس کا معصوم چہرہ خوشی اور افسردگی کے رنگوں سے سجا ہوا تھا۔وہ اپنی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے ایک ایک چیز کو حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔وہ بغیر میک اپ کے نکھری نکھری اور دلکش تھی ۔سادہ سے کپڑے ،بکھرے بال ، ننگے پاؤں بتا رہے تھے کہ وہ عام حالات میں یہاں تک نہیں پہنچی تھی۔جیون کھڑکی کے پیچھے چھپ سی گئی ۔اُس لڑکی کا ایک ایک قدم اُس کے صبر کو کچلنے لگا تھا۔
’’کیسا عشق ہے تیرا جیون ! اپنے عشق کو کسی اور کا ہوتا دیکھ اور اِس پر خوش ہو۔۔۔
اِن ہواؤں کے ذریعے اُسے مبارک بھیج اور خوش ہو۔۔۔
تجھے ناز تھا اپنے صبر پر ،دل کو سنبھال اور خوش ہو۔۔۔‘‘ اُس کا دل بھی آج اُس کا نہیں تھا وہ اُس کی خاموشی توڑنے پر مصر ہوا۔
’’نہیں۔۔۔نہیں ۔۔۔یہ اِتنا آسان نہیں۔۔۔‘‘ وہ پاگل دل سے اُلجھنے لگی ۔ وہ لڑکی چلتے ہوئے پھولوں کے پاس رکی اور اُس نے ایک پھول توڑ لیا۔
’’مت توڑو اُنھیں وہ میرے ہیں۔میں نے اُنھیں اپنے ہاتھوں سے لگایا ہے۔‘‘جیون نے ایک آہ بھر کر دل پر ہاتھ رکھا۔اُسے لگا پھول نہیں اُس کا دل پھر سے توڑا گیا ہے۔
داخلی رستے سے چلتے ہوئے وہ دونوں اطراف لگے رنگ برنگے پھولوں کو حسرت سے دیکھ رہی تھی ۔جلد ہی اُسے احساس ہوا تھا کہ وہ اپنے ہمسفر سے پیچھے رہ گئی ہے۔وہ بھاگنے والے انداز میں اُس تک پہنچی تو نیچے رکھے ایک گملے سے بے دھیانی میں ٹکرا گئی ۔گملا اُس کی ٹھوکر سے ماربل کے فرش پر گھومتا ہوا ایک طرف سے ٹوٹ چکا تھا۔آواز پیدا ہونے پر جازم نے اُسے مڑ کر دیکھا ،مگر کچھ کہا نہیں۔
’’آہ۔۔۔تم نے میرا پیارا گملا توڑ دیا۔تم نہیں جانتی کہ یہ سارے گملے میرے بچوں کی طرح ہیں ۔حویلی کا ایک ایک گملا میرے ہاتھوں سے رکھا ہوا ہے۔‘‘جیون نے منہ پر ہاتھ رکھ کر آنکھوں کو بہنے سے روکا تھا ، لیکن وہ اپنی ضد پر اُتریں۔
حویلی کے بڑے کمرے کے دروزے تک پہنچنے سے پہلے وہ پریوں کے حُسن والی ایک بار پھر چونکی اور دونوں طرف بنے قد آور ستونوں کو تعجب سے دیکھنے لگی ۔مغلیہ نقش و نگار سے سجے یہ ستون اُس کی توجہ کھینچ رہے تھے ۔وہ کچھ پل کے لیے دائیں طرف کے ستون کے پاس رک کر اُس کے اوپر بنے خوبصورت ڈیزائن پر انگلی پھیرتے ہوئے مسکرائی تھی ۔
’’مت ہاتھ لگاؤ۔۔۔تممھارا چھونا اِن ستونوں کو اچھا نہیں لگے گا۔یہ صرف میرے لمس کے عادی ہیں۔‘‘جیون نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں سختی سے آپس میں جوڑ لیں تو وہ لڑکی پیچھے ہٹ گئی جیسے جیون کی التجا اُس کی سماعتوں تک پہنچی ہو۔
تین سیڑھیاں چڑھنے کے بعد اُس کی رقیب نے دروازے کے بائیں جانب لگے اپنے قد جتنے بڑے آئینے میں خود کو محویت سے دیکھا ۔ اُس نے جلدی سے منہ پر ہاتھ پھیرا اور اپنے بال درست کرنے لگی۔
’’سنو اے لڑکی ! یہ آئینے تمھاری تعریف کبھی نہیں کرے گے۔ یہ صرف جیون کے دیونے ہیں۔‘‘جیون نے تنی ہوئی گردن کے ساتھ حق سے کہا تھا۔
اب وہ اجنبی لڑکی اُسے کچھ قریب سے نظر آرہی تھی۔ جیون نے کھڑکی کی اوٹ میں چھپتے ہوئے اُسے غور سے دیکھا ۔ وہ بلا کی حسین تھی۔۔۔ اُس کا حُسن بھرپور تھا۔۔۔ اُس کے چہرے کا ہر نقش جان لیوا تھا ۔۔۔وہ کس قدر مکمل تھی ۔جیون نے دل میں اعتراف کیا کہ وہ اُ س سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔وہ دونوں اُس کی نظر سے اوجھل ہو چکے تھے ،مگر وہ تب تک وہاں کھڑی رہی جب تک وہ دونوں حویلی کی حدود میں رہے۔
’’تمھاری پسند واقعی قابلِ دید ہے۔۔۔ قابلِ تعریف ہے۔۔۔تم نے اپنے لیے ہیرا ڈھونڈ ہی لیا،جس کے برابر میں کبھی نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔کاش میں اُس کی جگہ ہوتی ۔۔۔کاش وہ ہاں نہ ہوتی ۔۔۔کاش میں جیون نہ ہوتی ۔‘‘ باقی سارا دن وہ خاموش رہی ،باقی سارا دن اُس نے دل سے یہی جملے سنے تھے۔اُسے شدت سے احساس ہوا کہ اُس نے جازم کے نام وہ خط لکھ کر غلطی کردی ہے۔
*****
جیون کا رونا ،خود کو نوچنا ،ندامت سے جھکا ہوا سر سیف کے صبر کو توڑ چکا تھا۔ وہ کچھ دن تک اُس کی کھڑکی کے پاس نہ گیا ۔یہ حقیقت اُس کے لیے جان لیوا تھی کہ جیون خود کو وہ گنگار سمجھتی ہے ،جو معافی مانگنے کے باوجود بھی سزا ہی چاہتا ہے ۔وہ جان گیا تھا کہ جیون نہ اُس کی دی ہوئی خوشیوں کو قبول کرے گی ،نہ اُس کا ہاتھ تھامے گی ،وہ ملال کے اُس راستے پر تھی جہاں اُس نے سزا کو ہی منزل سمجھ لیا تھا۔
’’نہیں ہو تم اُتنی قصور وار جتنی تم خود کو سزا دے رہی ہو۔میں نے کبھی تمھارا برا نہیں چاہا۔میں نے کبھی نہیں چاہا کہ تم احساس کے اُس مقام تک پہنچو جہاں تم خود پر ساری خوشیاں حرام کرلو۔‘‘ جیون کااعتراف جرم ایسا تھا کہ سیف نے نے خود کو ہی ملامت کی۔
وہ اُس کے سامنے نہیں جانا چاہتا تھا۔اُس سے نظر نہیں ملانا چاہتا تھا،مگر دل بار بار سمجھانے لگا کہ جیون کو اُس کی ضرورت ہے ۔اُس نے ساری بے بسی اپنے کمرے میں چھوڑی اور پھر اُسی راہ پر چل پڑا ۔جیون کے دل پر نیا زخم جو جازم نے اپنی خوشی کی صورت لگایا تھا،وہ زخم صرف اُسے ہی بھرنا تھا۔رات کافی ہو چکی تھی اور جیون کی کھڑکی بند تھی وہ کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہی بیٹھ گیا۔وہ جانتا تھا جیون اُس کی موجودگی ضرور محسوس کرے گی۔
’’تم آگئے سیف ۔۔۔مجھے تم سے کچھ کہنا ہے ۔۔۔کچھ ایسی باتیں جو میں اب سمجھی ہوں ۔‘‘ کوئی میٹھی آواز اُس کے کانوں کو چھو گئی تھی ،کسی کی ملائم انگلیاں اُسے اپنے بالوں میں گھومتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا تھا ۔آنکھ کھلی تو وہ اُس کے سامنے ہی کھڑی تھی۔
’’کیا صبح ہوگئی ہے ۔‘‘سیف نے اردگرد پھیلتی ہلکی روشنی کو دیکھ کر اچنبھے سے پوچھا۔
’’ہاں واقعی صبح ہو چکی ہے ۔‘‘جیون نے گہری سانس لے کر اطمینان سے کہا۔وہ اپنا ہاتھ پیچھے کر چکی تھی ۔وہ سنبھل کر بیٹھ گیا ،مگر جیون کی یہ عنایت اُس کے دل کو گدگدا گئی تھی۔
’’تم پہلے جیسی ہو جاؤ جیون !ضدی ،نٹ کھٹ ،حکم دینے والی جیون ۔میں تمھارا یہ روپ نہیں سہہ سکتا ۔تمھارا یوں ٹوٹنا مجھے بکھیر کر رکھ دے گا۔‘‘اِس سے پہلے وہ کچھ کہتی سیف نے سر اُٹھا کر کہا تو اُسے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔وہ آج کچھ بدلی بدلی لگ رہی تھی۔اُس کے چہرے پر وہ تکلیف نہیں تھی جو جازم کو دیکھنے کے بعد ہونی چاہیے تھی ۔
’’میں سمندر ہو چکی ہوں،پھر سے قطرہ نہیں ہو سکتی ،مگر ہاں! تمھیں قطرہ قطرہ ٹوٹنے سے بچا سکتی ہوں۔‘‘یہ کہتے ہوئے اُس نے اپنے چہرے سے سفید ڈوپٹہ ہٹا دیا ۔سیف اُس کے لفظوں پر کیا غور کرتا وہ اُس کے چہرے کی روشنی میں کھو چکا تھا۔ادھے جلے چہرے کے باوجود بھی وہ اُتنی ہی خوبصورت تھی۔جازم کی کھوٹی محبت اُس کے سونے جیسا روپ نہیں بگاڑ سکی تھی ،یا پھر وہ اُسے لگتی ہی اتنی حسین تھی۔عاشق کا دل کوئی عام دل نہیں ہوتا ،اُسے خوشبو خوشبو سے بڑھ کر آتی ہے،اُسے حُسن حُسن سے زیادہ دیکھائی دیتا ہے ۔وہ اُسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جا رہا تھا۔
’’تم تو اِس کھڑی کے باہر ایسے سو گئے ، جیسے میں جازم کے دروازے کے باہر سو جاتی تھی۔یقین کرو نیندوں کو حرام کرنے سے کچھ نہیں ملتا۔‘‘وہ اُس کی محبوب نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے بے چینی سے بولی۔
’’کوچے کوچے کے پتھر عاشقوں کو پہچانتے ہیں ۔۔۔گلی گلی کی خاک عاشقوں کی ساتھی ہوا کرتی ہے ۔۔۔یہ صحرا صحرا پھرتے ہیں اور در در پڑے رہتے ہیں۔۔۔جانتی ہو کس لیے ؟ پورے وجود کی ملکیت کے لیے نہیں بس ایک نگاہ کی بھیک کے لیے۔‘‘وہ اُس کے ادھورے روپ کو اپنی پوری روح میں تحلیل کر چکا تھا۔
’’میں نے ہمیشہ عشق عشق کیا۔۔۔مگر عشق کیا تو تم نے کیا سیف۔۔۔میرے عشق میں نفرت تو نہیں سمائی ،مگر جلن نہیں مٹی۔۔۔کل اُسے کسی اور کے ساتھ دیکھ کر میں تڑپ گئی۔۔۔کل مجھے اپنے محدود عشق کے اندر تمھارے لا محدود عشق کا نشان ملا۔۔۔میں اُس کو اپنے ساتھ خوش دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔اور تم بس مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہو۔۔۔میں تم سے عشق نہیں کر سکتی ۔۔۔پر میرا عشق تمھارے عشق کے در کا غلام بن گیا ہے ۔۔۔میرا عشق تمھارے عشق سے عشق کر بیٹھا ہے ۔اُس نے گہری آنکھیں سیف کی آنکھوں میں رکھتے ہوئے سرور سے کہا تو سیف کا دل اپنی جگہ سے ہل سا گیا تھا۔
’’یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی میں جانتا ہوں،تم مجھ سے محبت نہیں کرسکتی۔‘‘سیف دل سے مجبور ہوکر بولا۔اُسے جیون کے چہرے پر اپنی محبت کا احترام دیکھائی دے رہا تھا،اپنے لیے محبت نہیں۔
’’محبت کرنا ضروری نہیں ہوتا سیف ۔۔۔محبت کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے ۔۔۔اِس حویلی کی محبتوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میں تمھاری محبت سمجھ گئی ہوں۔‘‘جیون دھیرے سے کہتے ہوئے آگے بڑھی اور کھڑکی میں آکر بیٹھ گئی۔
’’میں چاہتی ہوں تم مجھے جی بھر کے دیکھ لو۔کسی نے میرے دل کی تمنا ٹھکرا دی تھی ،میں دل سے تمھاری خواہش پوری کرنا چاہتی ہوں۔‘‘اُس نے سکون سے آنکھیں بند کرتے ہوئے کھڑی کے کونے پر سر ٹکادیا۔سیف اُس کی آنکھوں کے بند ہوتے ہی بجھ سا گیا تھا۔
’’کیا تم میری طرف ایک بار بڑھ نہیں سکتی جیون۔‘‘سیف کے شکستہ لہجے میں آخری امید تھی۔
’’بڑھنا چاہتی ہوں۔کاش ! بڑھ سکتی مگر کیا کرو ں کہ میرے بڑھتے قدم تمھارے وجود کو مٹا دیں گے۔اِس دل کا سودا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اِس دل میں کوئی دھڑکن نہیں بچی، بس وہ ظالم رہ گیا ہے ۔میں اپنا دل اور یہ کمرا نہیں بدل سکتی وہ ہر جگہ نظر آتا ہے ۔‘‘ جیون نے ہر بار کی طرح اُس کی امید توڑ دی تھی ۔
’’یہ پاگل پن ہے جیون۔وہ تمھیں برباد کر کے کسی اور کے ساتھ جا چکا ہے ۔ تم بھی واپس لوٹ آؤ۔ ‘‘سیف اُسے جھنجھوڑتے ہوئے خفگی سے بولا۔
’’میں نے تم پر ملامت کی۔۔۔۔تمھیں ذلت میں دھکیلا۔۔۔تمھیں ٹھکرایا۔۔۔تمھیں تکلیف پہچائی ۔۔۔پھر بھی تم یہاں بیٹھے ہو۔۔۔تو بولو ! اُس کی دھتکار۔۔۔اُس کی بے وفائی۔۔۔اُس کے ستم کے باوجود کیسے میں اُس کی چوکھٹ سے اُٹھ جاؤں؟۔۔۔تمھارے عشق نے مجھے بدل دیا اور میں شاید تب تک ناکام رہونگی جب تک وہ نہیں بدل جاتا۔‘‘وہ بنا آنکھیں کھولے اُسے لاجواب کر گئی تھی۔
’’وہ نہیں بدلے گا جیون ۔۔۔۔نہیں بدلے گا ۔۔۔اِس گمان کی دنیا سے باہر نکل آؤ۔۔۔میں تمھیں ایسے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔مجھے درد ہوتا ہے ۔۔۔بہت درد۔‘‘وہ پہلی بار بے بسی سے ہار کر بچوں کی طرح رو پڑا۔
’’تمھارے اور میرے درد کے ختم ہونے کا وقت آچکا ہے ۔۔۔کبھی مت رونا سیف ۔۔۔تمھارے رونے سے مجھے تکلیف ہوگی ۔۔۔آئیندہ کبھی مت رونا۔۔۔تم وہ شخص ہو جس نے ہمیشہ میری خوشیوں کی دعا کی ہے۔۔۔میں تمھیں بہادر دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔۔اِس کمزور ی کو عشق کے راستے میں مت آنے دینا۔۔۔کبھی بھی نہیں۔‘‘ جیون نے کہتے ہوئے اچانک سے آنکھیں کھول دیں تو وہ اُس کی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر خوفزدہ سا ہوا۔
’’اپنا خیال رکھنا اور سب عشق کرنے والو کا! ‘‘ اُس نے سیف کو ایک نظر دیکھا اور پھر اُن دونوں کے بیچ کی کھڑی بند ہو گئی۔
“جیون ۔۔۔ جیون ۔۔۔جیون کھڑکی کھولو۔‘‘وہ مجنوں کی طرح بند کھڑی کو پیٹتے ہوئے اُس کا نام زور زور سے پکارنے لگا ۔نجانے کیوں اُس کا دل کسی انجانے وہم اور خوف سے لرز رہا تھا۔جیون نے اُس کی کوئی التجا نہیں سنی ،وہ خاموش ہو چکی تھی ۔اُس نے زندگی کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا،زندگی اُس کا ہاتھ چھوڑ کر جا چکی تھی۔
*****
زندگی سے لڑ جھگڑ کر
میرے نہ رونے کی خواہش کرنے والی
مجھے بہادر دیکھنے والی
میں تمھارے آخری لفظوں پر پورا اتر چکا ہوں
پر تمھارے ساتھ مر چکا ہوں!!!
ساری کلیاں سارے پھول بے آواز روئے تھے ۔۔۔
سارے آئینے سارے ستون گلا پھاڑ کر چیخے تھے۔۔۔
حویلی کی اونچی اونچی دیواریں شرمندہ سی سر جھکائے کھڑی تھیں۔۔۔
سفید بطخیں، رنگین تتلیاں اُس کی جدائی میں اداس بیٹھی تھیں۔۔۔۔
پرندوں کی آواز میں درد بول رہا تھا۔۔۔
ہر آنکھ کا آنسو چپ چاپ بہہ رہا تھا۔۔۔
کمرے۔۔۔دالان۔۔۔زینے۔۔آنگن۔۔کونسی جگہ ایسی تھی جہاں صفِ ماتم نہ بچھی تھی۔۔۔۔جہاں اُس کی کمی نہ تھی۔۔۔
حویلی کے سب نوکر غم سے نڈھال تھے۔۔۔ رقیہ ناز کی آنکھوں میں گہرا ملال تھا تو ذکیہ بیگم کے چہرے پر بے حسی۔۔۔ سیف کے لیے تو جیسے سب کچھ ہی ختم ہو گیا تھا۔۔۔دل دھڑکنے کی وجہ ۔۔۔دیکھنے کی وجہ ۔۔۔محسوس کرنے کی وجہ ۔۔۔سانس لینے کی وجہ ۔۔۔وہ ہر وجہ اپنے ساتھ لے گئی تھی۔۔۔وہ اندر باہر سے بالکل خالی ہو چکا تھا ۔۔۔اپنی روح سے جدا انسانوں کے بیچ ہوا میں معلق ۔۔۔اُس کی صورت کو ہر جگہ دیکھتا خود سے بالکل لا تعلق ۔۔۔اُس کے اندر جیسے لہو جم گیا تھا۔۔۔کوئی بوند بھی حرکت کر کے زندگی کا پتا دینے کو تیار نہ تھی ۔۔۔اور دل جس کی ٹک ٹک ہمیشہ جیون کا نام لیتی تھی ۔۔۔وہ سننے سے بھی سنائی نہ دیا ۔۔۔نجانے دل گونگا ہو گیا تھا یا کان بہرے ۔۔۔جیون کے ساتھ اُس کی زندگی کو بھی چپ لگ گئی تھی ۔۔۔زندگی روٹھ چکی تھی۔۔۔اُس کی آنکھوں کے سامنے مٹ چکی تھی۔۔۔مگر وہ کچھ نہ کر سکا۔۔۔وہ اُس لمحے اِتنا بے بس تھا کہ رو بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔روتا بھی تو کیسے وہ حکم چلانے والی آنسو پر پابندی جو لگا گئی تھی۔۔۔ایک غلام نے ایک محبوب نے آخری لفظوں کا پاس رکھا۔۔۔اُس نے آنکھوں کی برسات کو روک دیا۔۔۔مگر دل کا طوفان ایک پل کے لیے بھی نہیں تھما تھا۔
جیون کی خوشیوں کا قاتل حویلی میں نہیں تھا۔ اُسے جلد ہی جازم کو ڈھونڈ کر، اُسے یہ تکلیف دہ اطلاع دینی تھی ۔وہ دکھ اور صدمے کے جمود کو توڑتے ہوئے دیوانوں کی طرح بھاگنے لگا۔ کبھی وہ جیون کہتا تو کبھی جازم۔ اِس دیوانگی میں وہ خود کو بھی بھول گیا۔ وہ ایسا محبوب تھا جسے آخری دیدار کی پیاس نہ تھی، جس کے لیے صرف اِس وقت ضروری مرنے والی کی تمنا تھی۔
جازم تک خبر پہنچ گئی تو حویلی کا ہر فرد اُس کا انتظار کرنے لگا۔ سیف نے حویلی سے قبرستان اور قبرستان سے قبر تک اُس کی راہ دیکھی، مگر وہ نہیں آیا نہ کسی پل کی محبت کے واسطے۔۔۔نہ بچپن کی دوستی کی خاطر ۔۔۔نہ انسانیت کے ناتے۔ سیف کو آخری لمحے تک امید رہی کہ وہ شاید مرنے والی کے احترام میں آجائے۔ اُس لڑکی کو پلٹ کر دیکھ لے جو اُسے زندگی مانتی تھی۔ جو محبت میں مٹ کر موت سے جا ملی تھی۔ وہ جانتا تھا بے جان جیون کو بھی اُس کا انتظار ہوگا، مگر وہ اتنا سفاک تھا کہ اُس نے جیون کی آخری مراد بھی پوری نہ کی۔ بارش ہونے والی تھی اب سیف اور جیون کے لیے اُس کا انتظار بے سود تھا۔ اُس کو آنا ہوتا تو شاید وہ کبھی جاتا ہی نہیں۔
*****