الجیریا
"سر مجھے کمانٹس دی جائیں ”
کان میں لگے آلہ کے ذریعہ اجازت طلب کی ۔۔۔آج وہ ایک محسوس یونیفارم میں ماجود تھی یونیفارم کے اوپر رینجرز کا ٹیگ واضح تھا جبکہ نام کی جگہ (M. Shaikh) لکھا ہوا تھا آنکھیں براؤن کانچ کے جیسی جن میں کوئی اپنا عکس آسانی سے دیکھ سکتا تھا جسم عام لڑکیوں کی طرح ڈھیلا ڈالا نہیں تھا اُسکی سخت ٹریننگ کی وجہ سے ایک مضبوط جسم کی ملک تھی لمبی سراحی دار گردن جس کے گرد لال وردی کا رومال لیپیٹ رکھا تھا
"مس شیخ یہ حکم آپکو نہیں مل سکتا آپ بس پیچھا کریں گی”
دوسری طرف سے آواز آئی
"پھر بھی میں اپنے رینک کی وجہ سے ایکشن لے سکتی ہوں”
حوصلہ ابھی پست نہیں ہوا تھا
"مس شیخ آخر کب یہ بچوں والی حرکتیں چھوڑیں گی آپ وہاں دشتگردی نہیں لوگوں کو بچانے کے لیے گیں ہیں ورنہ آپکے تمام رائٹس ریزرو کیا جاسکتے ہیں”
آواز سنتے ہی آنکھیں میں حیرت کے طوفان اومڈ آئے جتنی اُسے اس آواز سے چڑ تھی داشت گرد بنانے میں دیر نہ لگاتی
"مسٹر خان اگر ہو سکے تو کروا کر دیکھیں مجھے اس عہدے پر سے فریز ”
دانت پیستے ہوئے بولی اور دل میں کئی گلیوں سے نوازہ
"اگر تم دونوں نے آج لڑائی کی تو دونوں کو میں ابھی سسپنڈ کردوں گا ”
درمیان میں کافی سخت اور غُصہ سے بھرپور آواز آئی تو دونوں کو ہی سانپ سونگ گیا
"سوری سر”
"اوکے گو اینڈ ڈو یور ورک اینڈ فالو دا رولز”
لائن ڈسکینٹ ہوگئی
پاس کھڑی بائک جس کے تین پیے تھے اُس پر بیٹھ کر فل سپیڈ سے جلد ہی آنکھوں سے اوجل ہوگئی بس دھول باقی رہی تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
ابھی دونوں ایک دوسرے کی خوشبو میں کھوئے ہوئے تھے جب دامل بٹھکی روح کی طرح نازل ہُوا
"اوہ ہو یہاں تو سین آن ہے ”
عندلیب نے جلدی سے اپنے اور اُسکے درمیان فاصلہ قائم کیا اور چہرہ یکدم لال اناڑی جیسا ہوگیا لیکن طالش کو ذرا برابر فرق نہیں پڑا
"ویسے اپنا کمرہ کم پڑ رہا تھا بھائی جان ”
عندلیب جلدی سے بھاگ گئی طالش نے غُصہ سے بھرپور نظر دامل کو دیکھا جو اپنی طرف سے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے کر ہٹا تھا کچھ کہے بغیر ہی کمرے سے چلا گیا کیوں کہ آج عندلیب اور طالش کی دعوت کی تھی اُسکے دوستوں نے اسلیے جلدی جانا تھا اور عندلیب کو بھی بتانا تھا
کمرے میں آیا توعندلیب نے دوپٹہ صوفہ پر رکھا ہوا تھا اور خود بیڈ شیٹ تبدیل کرنے میں مصروف تھی جب دھیمے قدم اُٹھاتا اُسکے قریب گیا لیکن عندلیب اِس سے بیخبر کام میں مصروف تھی بال کو ٹیل پونی کی مدد سے باندھ رکھا تھا جو اُسکی کمر پر جھول رہے تھے تین چار لیٹیں جو شاید سٹپ کی وجہ سے پونی سے باہر تھیں نازک سراپا صحیح معنوں میں طالش ابراہیم کے دل پر بجلیاں گرا رہا تھا
نکاح کا خوبصورت بندھن اور اپنا من چاہا انسان جب سامنے ہو تو جذبات کو قابو کرنا مشکل امر ہوتا ہے
چادر صحیح کرتی کا ہاتھ طالش ابراہیم کے ہاتھوں میں آچکا تھا جس سے کرنٹ کہا کر پیچھے ہوئی
اُسکی آنکھوں میں اُسکے عمل کا مہفوم سمجھ کر چہرے پر شرم و حیاء کے رنگ بکھر گے پلکوں کے جلر نرمی سے جھُکا لیے تھے جیسے اپنی آنکھوں میں بسی محبت کی کمزور ڈور طالش کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی
طالش نے تھوڑا سا جُھک کر عندلیب کی کانپتی پلکوں پر اپنے حدت بڑے لمس چھوڑے عندلیب کی تو جیسے جان نکال کر اُسے بے جان کردیا ہو ہاتھ پاؤں میں تھوڑی سی لرزش آئی
کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اُسکی قسمت میں لکھ دیا جائے گا وہ اِس طرح سے اُسکے سامنے ہوگا
ملیحہ والا منظر اُسکی نظروں کے سامنے گھوما جب طالش اُسے اپنے پاس بیٹھے باتیں کر رہا تھا
تو پھر دل میں اُٹھی ایک خوش فہمی کی کلی وہی مرجا گئی ۔۔۔۔۔۔
وہ کسی کو ہے کسی اور کی محبت ۔۔۔۔۔۔کسی اور کو اپنے لیے سوچتا ہے
لیکن پھر بھی پیچھے ہٹنے کے غلطی نہیں کی بس دل خوش نہیں تھا
جب انسان کسی سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے تو اُسے بس اپنی دسترس میں چاہتا ہے اُسکے وجود پر سوچ پر اور دل پر خود قبض ہونا چاہتا ہے اور یہی چاہت عندلیب کی بھی تھی لیکن وہ اتنے سب کے باوجود بھی ایک انچ پیچھے نہیں ہوئی تھی
اُس کا شوہر تھا ہر طرح سے اُس پر اُسکے جسم پر اُسکی سوچوں پر حق رکھتا تھا اُسکے تمام حقوق ادا کرنا خُدا کی طرف سے ہی عندلیب پر فرض تھا پھر کیسے اپنے ربّ کو اپنے مجازی خُدا کو اپنی کسی حرکت سے ناراض کر سکتی تھی
"دیب”
ہلکی سی سرگوشی جو اُسکے کانوں سے ہوتی دل میں اُتری تھی آج اُسکی ایک خواہش پوری ہوئی تھی طالش نے اُسے معتبر کیا تھا چاہے نام یاد رکھ کر ہی
طالش جو کب سے اُسکے چہرے پر ہر بدلتا رنگ اور تاثرات بہت غور سے دیکھ رہا ایک سکون کی لہر اندر تک متعین کر گئی تھی
"عندلیب ۔۔۔۔۔”
لیکن میڈم پتہ نہیں کیا سوچ کر آنکھیں کھولنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی پلکیں ابھی تک لرز رہیں تھی اُسکے پکارنے پر آنکھیں کھولیں
"جی”
ہلکا سا منمنائی
"تیار ہوجاؤ ہمیں کہیں جانا ہے بس آدھا گھنٹہ ہے تمہارے پاس”
وہ اپنے جذبات کو لگام دیتا ہُوا پیچھے ہوا کیوں کے ٹائم بہت کم رہ گیا تھا
اور جلدی سے باہر چلا گیا
"کیا وہ مجھ سے خوش نہیں ہے وہ کیوں اتنے دور ہیں ۔۔۔۔نہیں مجھے اُنہیں اپنے پاس رکھنا ہے ہر قیمت پر اتنی جلدی نہیں چھوڑوں گی اتنی مُشکِل سے تو ملے ہیں۔۔۔۔کہیں میری عمر کی وجہ سے ہاں ۔۔۔۔یہ بات بھی ہوسکتی ہے”
با آواز بول رہی تھی ساتھ ہاتھوں کی اُنگلیوں کو چٹخار رہی کُچھ سوچ کر موبائل اٹھایا اور یو ٹیوب پر کچھ سرچ کرنے لگ گئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
مایا نے اپنی ضد کو اہمیت دی تھی اتنی محنت کے بعد تو اُسے موقعہ ملا تھا اپنا انتقام لینا تھا اُسکی نیندوں کا حساب جو پیچھے تین سال سے گم تھیں وہ یہ نہیں سوچ پائی کے آخر کو ایک عورت ہے مرد سے کمزور بس آنکھوں پر انتقام کی پٹی بندھ گی تھی
سوچتے ہی اپنی الریڈی لوڈ کی ہوئی گن دیکھی جیب میں پڑی پٹاش کی چھوٹی سی بوتل اور دوسری میں ایسڈ تھا
"مس شیخ آپ ہدف سے آگے جارہی ہیں ۔۔۔۔شپ کے پاس مت جائیں۔۔۔آپ اُنکے نشانے پر ہیں ”
تین چار لوگ اکٹھے اُسکے کانوں میں چیخ رہے تھے ۔۔۔لیکن اُسکی نظریں ایک نقطہ پر تھیں
"Muguls tareefai”
جو بحری جہاز کے ایک سائڈ پر چھوٹے سے حصہ پر لکھا گیا تھا
(جو لوگ اِس دنده میں ملوث ہوتے ہیں اُنکے کُچھ ٹائٹلز نام ہوتے جو اُنکی اصل پہچان سے بلکل مختلف ۔۔۔۔۔۔کئی تو اُن زبانوں میں لکھوائے جائیں جو بہت سال پہلے ناپید ہوگئی ۔۔۔۔یہ پھر ایک خاص قسم کا سٹار ہوتا ہے جو اُنکے سگنچر کے ساتھ نشان دہی کے لیے ہوتے ہیں)
اُسکے سامنے تین لوگ تھے شاید اُنکو وہ نظر نہیں آرہی تھی اور یہی اُسکی غلط فہمی تھی کیوں کے ایسے کاموں دُنیا کے بیسٹ ہیکر خرید کر اپنے کام میں استعمال کیے جاتے
اپنے ہاتھ سے پیچھے لگی ایک پسٹل نکالی اِس سے پہلے کے وہ اپنا ہاتھ سیدھا کرتی اُسکے سینے پر تین لال نشان اُبرے مطلب اُسے نشانِ پر لے لیا گیا ہے
اتنی کمزور نہیں تھی کے پہلے بار میں ہی ڈر کر رائے فرار اپنا لیتی
اُسنے ایسے ہی ظاہر کیا جیسے اپنے اوپر آتے نشانوں کو دیکھ ہی نہیں سکی
اُسی پسٹل سے ہوا میں نشانہ لگایا اور ایک اڑتا پرندہ پانی میں گر گیا
"وہ شکار کے لیے آئی ہے ۔”
تینوں میں سے ایک نے کہا . جبکہ زبان ذرك تھی جو اب بہت کم بولی جاتی ہے
"ہیلو”
پیچھے سے کسی کی آواز آئی تو اتنے ہی اعتماد سے پیچھے موڑی
"شکر ہے کوئی یہاں پاکستان کا ورنہ مجھے تو "ہوئی. شوئی۔موئی "کی سمجھ ہی نہیں آئی”
آنے والا محد تھا جس کے ہاتھ میں ایک پھٹا سا بیگ
شکل سے اور زبان سے پاکستانی اور آیا اُس شپ سے تھا جس سے سمگل ہوکر لوگ آج امریکہ جانے تھے لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ وہ نکلا کیسے
مایا کے چہرے پر نرمی ائی پرے دیس میں اپنے ملک کا جانور ہی مل جائے تو دل بے قابو ہوجاتا وہ تو پھر انسان تھا جس کے پاس سے اُسکے وطن کی خوشبو آرہی تھی
"تم کون ہو یہاں کیا کر رہے ہو”
جو بھی تھا فورس سے تعلق رکھنے والی تھی اور تشویش کرنا رگ رگ میں بھرا ہوا تھا
"مسٹرنی لگ رہی ہیں اتنے سوال تو ہماری اُستانی سبق نہ آنے پر نہیں پوچھتی تھی جیتنے تم مطلب آپ پوچھ رہیں”
اتنا خوش تھا امریکہ جو آگیا تھا اسلیے اپنی ہی دھن میں لگا ہوا تھا
مایا نے ایک پنچ اُسکے منہ پر مارا
"میں پاکستان سے آیا ہوں کمپنی کی طرف سے اور یہاں امریکہ میں نوکری کرنی ہے”
ایک سانس میں بول گیا
"بھاگو”
ابھی کچھ اور بھی بولتا مایا ہاتھ پکڑ بلکل مخلف سمت میں بھاگی بھاگتے ہوئے اُسنے دیکھا لڑکی نے تو اُسکے ملک والی وردی پہنی ہے مطلب خطرناک چیز ڈر کے مارے بھاگا بھی نہیں جارہا تھا
لیکن اُس کی سپیڈ اتنی تیز تھی کے چھوٹی ہوئی ٹرین بھاگ کر آسانی سے پکڑ سکتی تھی
بال جو کئی سالوں بعد کنگھی کیے تھے بھاگنے کی وجہ سے خراب ہو رہے تھے
ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرا میڈم کے ہاتھ میں تھا ورنہ بال ہی سیدھے کر لیتا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
یو ٹیوب سے دیکھا تھا بس ایک لائن لکھنے کے بعد ویڈیوز کی لائن لگ گئی تھی
تقریباً سب میں یہی تھا اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایسے کپڑے پہنے اور ایسا میک اپ کریں ۔۔۔۔اور اُس سے آگے نہیں دیکھ سکی اُسکے بس میں تو کپڑے ہی تھے اور میک اپ بھی کر لیتی اسی لیے جلدی سے کپڑے دیکھنے لگی
ایک میکسی جو اُسے گفٹ میں ملی تھی وہی نکال لی
"وہ ملیحہ ایسے ہی کپڑے پہنتی ہے اُسے پسند کرتے ہیں شاید میں بھی اچھی لگو ۔۔۔۔ہاں دیکھا پھر کیسے وہ اُسے اپنے پاس بیٹھا کر بیٹھے تھے۔۔۔۔۔ مجھے تو کبھی ڈمپل نہیں دکھایا ۔۔۔۔۔۔”
یہی سوچتی واشروم میں چلی گئی یہ نہیں جانتی تھی کے اپنی موت کو دعوت دینے لگی ہے
تھوڑی دیر میں طالش کمرے آیا تو وہ کمرے میں نہیں تھی شیشے کے سامنے کھڑا ہوکر اپنے بال سیٹ کرنے میں مصروف ہوا جب عندلیب اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ واشروم سے نکلی
جیسے ہی ایک نظر اُسے دیکھا آنکھوں میں خون چھلکنے لگ گیا تھا عندلیب جو پلکیں گرے ہلکا سا مسکرا رہی تھی پتہ نہیں کونسی دادیں تھیں جنہیں سوچ کر رنگت بھی سُرخ ہورہاتھا پاس جاکر اُسکا بازو جکڑا
کہاں سے آئیں ہیں یہ کپڑے؟؟؟”
گہری نیلی جھیل جیسی آنکھوں میں سُرخ ڈورے واضح ہورہے تھے ۔۔کشادہ پیشانی پر بل نما تھے جبکہ اُنگلیاں سامنے کھڑی روئی جیسی لڑکی کے بازوں میں دنستی جارہی تھیں
ایک نظر سامنے کھڑی حور نما لڑکی کو دیکھا جو لونگ بلیک میکسی میں کسی قیامت سے کم نہیں لگ رہی تھی پر امریکین طرز کی میکسی جس کا گلا کافی زیادہ ڈیپ اور استین کندھوں سے دو انچ نیچے تک تھیں ۔۔۔لمبائی ٹھیک تھی لیکن گھٹنوں سے چند انچ اوپر جس سے اُسکے پنڈلیں تھوڑی بہت نظر آرہیں تھیں ایک نظر جائزہ لینے کے بعد ایک زور دار دھکا دے کر بیڈ پر پھنکا
"تم اب عندلیب مجاہد نہیں مسز طالش ابراہیم ہو ،اور اگر میں نے دوبارہ تمہیں ایسا کپڑوں میں دیکھا جس سے تمہارا ایک انچ جسم بھی نظر آرہا ہوا تو اُن کپڑوں سمیت آگ لگا دوں گا تمہیں ۔۔۔۔اور یہ بات ذہن میں رھے طالش ابراہیم ایک بار جو بات کہہ دیتا ہے اُسے پورا کرنے میں اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتا ”
خونخار نظروں سے دیکھتا ہوا باہر چلا گیا
قسمت نے ایسا پلٹا کھایا تھا کے آسمان کی بلندیوں سے نیچے پھینک دیا گیا تھا
ایسے ہی ساخت پڑی رہی یہاں تک کے بیڈ شیٹ کا وہ حصہ پوری طرح آنسوں سے تر ہوگیا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...