اس نے اپنے گھر میں قدم رکھا حسن صاحب بھی اس کے ساتھ تھے وہ سوچ رہا تھا جب اُس کی ماں کو سب پتا چلے گا تو ان کا کیا ری ایکشن ہو گا۔۔۔۔۔ اس نے حسن صاحب کی طرف دیکھا انہوں نے اس کے کندھے پر تھپکی دی ۔۔۔۔
اور اندر کی طرف بڑھ گئے ۔۔
آمنہ انہیں کچن کے دروزے کے پاس کھڑی مل گئی وہ گاڑی کی آواز سن کر باہر آئی تھیں
ان کی نظر عائدون پر پڑی وہ حیران نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی جس کی رنگت پیلی پڑی تھی اور وہ کمزور بھی بہت لگ رہا تھا ۔۔۔۔ وہ بےاختیار اُس کی طرف بڑھیں ۔۔۔۔
عادی ! میرے بچے کیا ہو گیا ہے تمہیں یہ کیا حالت بنا لی ہے اپنی کیا ہوا ہے تمہیں ؟؟ وہ روتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی ۔
ماں کچھ نہیں ہوا آپ پلیز یہاں آئیں وہ انہیں لیے صوفے کی طرف بڑھا۔۔ حسن صاحب بھی خاموشی سے صوفے کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔
اب بتاؤ کیا ہوا عادی میں نے تو تمہیں ٹھیک ٹھاک بھیجا تھا ؟؟ وہ ابھی تک رو رہی تھی ۔۔
اس نے حسن صاحب کو اشارہ کیا حسن صاحب نے پھر آمنہ کو شروع سے لے کر ہر بات بتا دی
اور پھر آمنہ کو سنبھالنا مشکل ہو گیا وہ روتی جا رہی تھی اور عائدون کو بار بار ہاتھ لگا کر دیکھ رہی تھی ان کا بیٹا موت کے منہ سے واپس آیا تھا ۔۔۔۔۔
ماما مجھے کچھ نہیں ہوا دیکھے زندہ ہو میں آپ کے سامنے ہو ۔۔۔۔ وہ جھنجھلا کر گویا ہوا۔۔۔
اور اگر کچھ ہو جاتا تو ؟؟ مگر کچھ ہوا تو نہیں نا اب کی بار حسن صاحب بولے ۔۔۔۔۔۔
اسے آرام کرنے دیں اب اور اس کے لیے کچھ اچھا سا بنائیں
انہوں نے عائدون کی پیشانی چومی اور پھر اس کے لیے کشھ بنانے کے لیے چل دی ۔۔۔۔
عائدون بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
“یار تم نے بتایا بھی نہیں اور چلے گئے تھے مجھ سے چھپاتے ہوئے تم کچھ شرم کر لیتے ! معیز ناراض سی آواز میں کہہ رہا تھا ۔ عائدون نے اسے فون پہ اپنے آنے کا بتایا تھا اور تب سے لے کر اب تک معیز اسے ایک سو دفعہ کہہ چکا تھا ۔
اس نے مجھے بھی نہیں بتایا تھا معیز مجھے خود ابھی پتہ چلا ہے ۔۔۔۔ آمنہ بھی خفگی سے کہہ رہی تھی ۔ معیز نے اسے ناراض نظروں سے دیکھا۔۔
مجھے معاف کر دیں ! بہت بڑی غلطی ہو گئ مجھ سے اب آئندہ سے بتا کر جایا کروں گا ۔۔۔
معیز کے منہ کے زاویے کچھ ہوئے تو اسے رابیل یاد آئی اسے عائدون سے ڈسکس کرنی تھی یہ بات ۔۔۔۔
آمنہ بھی مسکراتی ہوئی چل دی۔۔۔
تم نے رابیل کے بارے میں کیا سوچا ہے ؟؟
اس کے بارے میں کیا سوچنا ہے اب جبکہ میں آگیا ہوں تو رشتہ بھیجنا ہے اور پھر شادی ۔۔۔ اس نے منٹوں میں حل بتا دیا تھا ۔۔۔
اس کا رشتہ پہلے ہی طے ہونے والا ہے اس کے تایا کے دوست کے بیٹے کے ساتھ بزنس کرتا ہے ویل اسٹبلیش ہے میرا نہیں خیال کے انکار ہو بلکہ ایک دو دن میں تاریخ بھی طے ہو جائے شاید ۔۔۔۔۔ اس نے ایک ہی سانس میں سب کچھ بتا دیا تھا ۔۔۔۔۔
وہ بے یقین نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا اسے اپنے کانوں پر جیسے یقین نہیں آیا تھا
تم کیسے جانتے ہو یہ سب ؟؟
کیونکہ رابیل فریال کی کزن ہے ! معیز اس کی طرف دیکھ رہا تھا
وہ بہت ضبط سے کام لے رہا تھا اور پھر اس نے سوچنا شروع کیا اس نے گہری سانس لی اور معیز کی طرف دیکھا
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
گھر میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں گو کے اس کے لیے یہ سب مشکل تھا مگر پھر بھی وہ خود کو سنبھال کر شادی کی تیاریوں میں حصہ لے رہی تھی ہر چیز میں اس کی پسند کو مدنظر رکھا گیا تھا ۔۔۔۔
آیدہ ہر چیز اس کے لیے اتنے پیار سے خرید رہی تھی کہ کچھ چیزیں جس کی اسے ضرورت نہیں تھی وہ منع کرنا چاہتی تھی مگر رک گئی ان کی خوشی کے لیے اس نے ہر چیز لی تھی ۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
فریال نے اس دن کے بعد سے معیز سے بات نہیں کی تھی ہسپتال میں جیسے معیز کی حرکت نے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی ۔۔۔۔ معیز نے رخصتی کے لیے بات کی مگر اس نے منع کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ چاہتا تو پوری بات کلیئر کر سکتا تھا مگر وہ کسی مصلحت کے تحت رکا ہوا تھا اس کے بعد ہی وہ فریال کا دماغ ٹھکانے لگائے گا۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
اور پھر شادی کا دن بھی آن پہنچا پورا گھر روشنیوں سے جگمگا اٹھا تھا وہ ڈیپ ریڈ لہنگے میں ملبوس تھی اور بہت خوبصورت لگ رہی تھی آیدہ اور منزہ کئی دفعہ اس کی بلائیں لے چکی تھی فریال نے اسے تیار دیکھا تو بےاختیار ماشااللَّہ بول کر اس کی پیشانی چومی تھی ۔۔۔
بہت بہت خوبصورت لگ رہی ہو تم رابی ! وہ مسکرا دی ۔۔۔۔
لگتا ہے بارات آ گئی ہے ہم دیکھ کے آتے ہیں ! فریال اپنی کزنز کے ساتھ باہر چل دی ۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں نکاح ہو جائے گا اور میں اپنی پوری زندگی کسی اور شخص کے نام کر دوں گی ۔۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی !
آج وہ اس شخص کو آخری بار سوچ رہی تھی ایک آنسو اس کی آنکھ سے ٹپکا اور ڈوپٹے میں گم ہو گیا ۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں نکاح خواں اندر آئے
رابیل عثمان ولد عثمان احمد کیا آپ کو عائدون حسن ولد حسن شاہ سے حق مہر بیس لاکھ سکہ رائج الوقت نکاح قبول ہے !
نکاح خواں کے منہ سے نکلے لفظ اس کی سماعت میں سیسہ بن کر پگلے تھے وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب کو دیکھ رہی تھی سب کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ایک فریال تھی جس کی بھی حالت اس جیسی تھی ۔۔۔۔
رابی جان سائن کرو! آیدہ نے آگے آ کر اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا اس نے نظریں اٹھا کر ان کے مسکراتے چہرے کو دیکھا اور پھر ہر آنسو ، ہر دلیل کو اندر ہی دفن کر دیا ۔۔
ہر طرف مبارک کا شور اٹھا ایدہ اور منزہ نے باری باری اسے گلے سے لگایا فریال ابھی تک ویسے ہی کھڑی تھی اور رابیل کو دیکھ رہی تھی
پھر بےاختیار آگے آئی اور اس کے گلے لگ کر رونے لگی سب یہی سمجھے تھے کہ وہ اس سے جدائی کی وجہ سے رو رہی ہے مگر اصل بات صرف وہ دونوں جانتی تھیں ۔۔۔۔۔
ان دونوں کے رونے سے ہر آنکھ نم ہو گئی تھی منزہ بیگم نے ان دونوں کو الگ کیا
پاگل ہو گئی ہو تم دونوں خوشی کے موقع پر بھی کوئی روتا ہے بھلا۔۔۔۔ چلو اب رابی کو باہر لے کے چلو ۔۔۔۔
سٹیج پہ اس کے ساتھ بیٹھنے پر وہ اس کی مسکراہٹ دیکھ چکی تھی اور اس کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اس شخص کو چھوڑے گی نہیں اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کے خوبصورت چہرے سے مسکراہٹ نوچ ڈالے اس شخص کا حشر بگاڑ دے وہ بمشکل ضبط کیے بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
اور عائدون کے چہرے پہ مستقل مسکراہٹ جیسے چپک گئی تھی اس کا پلان کامیاب رہا تھا فتح مندی کے احساس سے اس کی گردن اٹھی ہوئی تھی آج اس کا دن تھا وہ محبت کا فاتح بن کر لوٹا تھا ۔۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس سے بہت ناراض ہے مگر اسے یقین تھا کہ وہ اسے منا لے گا۔۔۔۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
رخصتی کے وقت وہ سب کے گلے لگ کر بہت روئی تھی زیان اور سعد نے اسے قرآن پاک سائے میں گاڑی میں بیٹھایا تھا ۔۔۔ وہ گاڑی میں بھی روتی رہی تھی آمنہ بیگم نے اُسے بےاختیار گلے سے لگایا۔۔۔
بس بیٹا چپ ہو جاؤ میں بھی تمہاری ماں ہو نا چلو شاباش اس طرح تو تمہاری طبیعت خراب ہو جائے گی! ان کے حوصلہ دینے پر اس نے آنسو پونچھ لیے تھے ۔۔۔۔۔
عائدون کے گھر پر اس کا اسقبال بہت اچھے انداز میں ہوا تھا کچھ رسموں کے بعد اسے عائدون کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا اُس کی ایک کزن نے اسے کھانے کے لیے کچھ فروٹ دیے ۔۔۔۔۔۔
بلیک ٹو پیس میں عائدون کی وجاہت ٹھٹھکا دینے والی تھی آج وہ فتح کے نشے میں چور تھا جب اس نے اپنے کمرے میں قدم رکھا تو پہلے ہی قدم پر ٹھٹھک گیا آیا واقعی یہ اُس کا کمرہ ہے اچھی طرح پہچان کر لینے کے بعد وہ اندر آیا
اس کے کمرے کا سارا نقشہ بدلا ہواتھا ہر چیز زمین بوس تھی قیمتی ڈیکوریشن پیس کے ٹکڑے قالین پر پڑے تھے اُس نے جتنی چاہت سے کمرہ سجایا تھا اتنی ہی نفرت سے اس کمرے کی حالت کو بگاڑا تھا اس نے اس دشمن جاں کو ڈھونڈھنے کے لیے نظریں دوڑائی وہ اسی وقت واش روم سے نکلی تھی دلہن ہونے کے سارے آثار مٹا کر وہ سادہ سے سوٹ میں ملبوس تھی
اُس کی طرف دیکھے بغیر وہ بیڈ پہ ایک سائیڈ پہ لیٹ گئی اور کمبل لپیٹ لیا ۔۔۔۔
عائدون ابھی پہلے جھٹکے سے سنبھلا نہیں تھا کہ یہ دوسرا جھٹکا لگا غصے کی ایک لہر اٹھی تھی وہ تو چاہتا تھا کہ رابیل اس سے پوچھے اس کے ساتھ کیا ہوا تھا مگر وہ ۔۔۔۔۔۔
اس نے رابیل کے اوپر سے کمبل کھینچا وہ غصے سے اٹھی
کیا تکلیف ہے آپ کو ؟
یہ تم مجھ سے پوچھ رہی ہو اور یہ میرے کمرے کا کیا حال کیا ہے ؟؟ وہ کمر پر دونوں ہاتھ رکھے اس سے پوچھ رہا تھا
یہ تو بہت کم ہے اگر میرے بس میں ہوتا تھا نا تو میں اس کمرے کو آگ ہی لگا دیتی وہ دانت پیس کر کہہ رہی تھی ۔۔
عائدون نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے کھینچ کر کھڑا کیا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا
اب بتاؤ کیا کہہ رہی تھی تم اور کیا کرنا چاہتی تھی !
میں ۔۔۔ میں ہاتھ چھوڑے میرا ! وہ ہکلاتے ہوئے بولی
اچھا یہ لو اُس نے ہاتھ چھوڑ کر اپنا ہاتھ اس کی کمر میں ڈالا ۔۔۔۔ چھوڑ دیا! وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا ۔
یہ۔۔۔ یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑیں مجھے ! وہ اس کے حصار میں چیخی تھی ۔
اور خود کو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔
شادی تو چپ چاپ کر لی ہے اب اس سب کا کیا فائدہ !
آپ اتنے مصوم نا بنیں اور کہہ ایسے رہے ہیں
جیسے میں آپ کو جانتی نہیں ہوں ! وہ دانت پیستے ہوئے بولی ۔
اس کا قہقہ بےساختہ تھا وہ کتنی ہی دیر ہنستا رہا ۔۔۔۔
وہ ابھی تک خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی
مجھے تو آج پتا چلا ہے تم مجھے کتنی اچھی طرح جانتی ہو ویسے اور کیا کیا جانتی ہو میرے بارے میں ؟؟ وہ شرارت سے پوچھ رہا تھا
یہی کہ آپ نہایت گھٹیا اور دھوکےباز انسان ہیں مجھ سے دھوکے سے شادی کی ہے آپ نے ۔۔۔۔
میں کوئی دھوکا نہیں دیا بس ان لوگوں کو زرا پیار سے سمجھایا اور میں نے رشتہ بھیج دیا بس !! وہ سکون سے بولا۔
ہنہ !میں آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی چھوڑیں مجھے اُس نے خود کو چھڑوایا ۔۔۔۔
تم پہلے میری سکون سے بات سن لو جو مرضی کہہ لینا! وہ تحمل سے کہہ رہا تھا
مجھے نہیں سننی آپ کی جھوٹ کی داستان ! وہ بولی اور پلٹ کر کمرے کے ساتھ ملحقہ لائبرری میں چلی گئی اور دروازہ بند کر لیا
وہ وہی خالی ہاتھ کھڑا رہا ۔۔۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
ولیمہ کا فنگشن بھی خیر خیریت سے گزر گیا رابیل اپنے گھر والوں کے ساتھ چلی گئی اور بعد میں عائدون کے ساتھ آنے سے انکار کر دیا سب گھر والوں کو بھی بتا دیا سب نے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر اس کی ایک ہی رٹ تھی کہ وہ وہاں دوبارہ نہیں جائے گی آمنہ بھی اس سے ملنے آئی تھی اور اسے سمجھایا بھی مگر وہ اپنی رٹ پہ قائم تھی
عائدون نے بہت دفعہ اس سے بات کلئیر کرنے کوشش کی مگر ڈھاک کے وہی تین پاٹ ۔۔۔۔۔
مجبوراً عائدون کو یہ قدم اٹھانا پڑا تھا ۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
زیان کو عائدون نے ساری بات بتا کر اعتماد میں لیا تھا اور اب زیان نے سب گھر والوں کو بتا دیا تھا اس کے آپریشن پہ جانے سے لے کر اب تک کی ہر بات !
شاباش بیٹا دو دن اور رک جابا تھا پھر بتا دیتے ۔۔۔ حسان صاحب طنز سے بولے
سوری بابا ! بس سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیسے بتاؤں
سب نے شکر ادا کیا تھا کہ کم از کم وہ اپنوں میں تھی ۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
دور کہیں فجر کی اذانیں ہو رہی تھی وہ ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی اتنی دیر ہو گئی ہے ماضی کے خیالوں میں کھوئے ہوئے۔ وہ اٹھی وضو کیا اور نماز پڑھی دعامانگتے ہوئے کئی آنسو اس کی آنکھوں سے گرے تھے
ساری رات جاگنے کی وجہ سے اب اس کے سر میں درد ہو رہا تھا وہ بیڈ پہ لیٹ گئی اور پھر جلدی ہی نیند کی آغوش میں چلی گئی ۔۔۔۔
وہ جب کمرے میں داخل ہوا تو وہ بیڈ پہ سوئی ہوئی نظر آئی ایک ہاتھ آنکھوں پہ رکھے ایک ہاتھ پہلو میں رکھے وہ محو خواب تھی
بارہ بج چکے تھے مگر اس کے اٹھنے کے اثار نظر نہیں آ رہی تھے وہ پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور سگرٹ سلگا لی اس کی نظریں اب بھی اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
معیز کے گھر والے رخصتی کی تاریخ طے کر کے گئے تھے دو ہفتے بعد رخصتی تھی فریال بھی چپ چاپ تیاریوں مصروف تھی اسے بس ایک بات کا دڑ تھا کہ معیز پتا نہیں اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا
اس نے سب اللَّہ پر چھوڑ دیا اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ معیز سے معافی مانگ لے گی ۔۔۔۔