ہاں جونی مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی مل گئی ہے،وہ گول گول گھو متے ہو ئےبولی،بتاو گی بھی کہ
یو نہی پہلیاں بجھواتی رہو گی،جونی اسے حیرت سے دیکھتے ہو ئے بولا۔ابھی میں میاں جی کے پاس گئ تھی۔شادی کی اجازت لینے،اور انہوں نے ہمیں اجازت دے دی ہے اور پیسے بھی،یہ دیکھو،وہ خوشی سے اس کے سامنے پیسے لہراتی ہو ئی بولی،بس اب میں ان سے اپنے کپڑے،زیور۔۔۔۔۔ میک اپ۔۔۔۔۔۔
وہ نہ جانے کیا کیا بولے جا رہی تھی اور جونی بت بنا کھڑا تھا۔آنے والے تمام دن ہی رادھا کے لئے خوشیوں بھرے تھے اور جونی کے لئے پریشان کن،اگر اس کی زندگی میں ساچی نہ آچکی ہوتی تو وہ بھی شاید رادھا کی طرح پر جو ش ہوتا مگر اب تو سارا معاملہ ہی مختلف تھا۔کبھی وہ سوچتا کہ ساچی کو لے کر یہاں سے دور بھاگ جائے مگر اسے سرکس کےان کر تب کے علاوہ کو ئی کام نہیں آتا تھا۔ایک دو بار اس نے رادھا کو سمجھانا چاہا کہ وہ ابھی شادی کے لئے تیار نہیں تو رادھا اس پر غصہ کرنے لگی،کبھی روتی کبھی اس کی منتیں کرتی،جونی سمجھ رہا تھا کہ رادھا کو ٹالنا اتنا آسان نہیں،اس نے رادھا سے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں تھیں،اور اگر وہ رادھا کو ٹھکرا بھی دے تو رادھا کم ازکم اس کی شادی ساچی سے نہیں ہو نے دے گی،وہ اسے یا ساچی کو قتل کر دے گی،وہ ساری رات بیٹھ کر سوچتا رہا اور اگلی صبح ہی رادھا کے پاس جا پہنچا اور اسے کہا کہ میاں جی جیسے ہی کسی مناسب تاریخ کا اعلان کریں گے میں شادی کے لئے تیار ہوں،رادھا کو یوں لگا کہ جیسے اسے دنیا جہاں کی خوشیاں مل گئ ہیں،وہ اس دن بہت خوش تھی۔اپنی محبت کی فتح پر،شام کے شو اور رات کے شو کے درمیان بہت کم وقفہ ہو تا تھا۔وہ سرکس کے ٹینٹ میں ہی کھڑے تھے۔اف آج تو میں تھک گئ،رادھا انگڑائی لیتے ہو ئے بولی۔تو جاکر آرام کر لو نا،اب تو میں بھی وہ سب کچھ کر لیتی ہوں جو تم پر فارم کرتی ہوں،ساچی نے ناک چڑاتے
ہو ئے کہا۔تمھاری غلط فہمی ہے ساچی تمھیں ابھی آئے ہوئے جمعہ جمعہ چار دن ہوئے ہیں اور تم میرا مقابلہ کر نے لگی۔رادھا تنک کر بولی۔ساچی کو رادھا کی بات سے آگ سی لگ گئ،جونی ان دونوں کی باتیں خاموشی سے سن رہا تھا۔وہ بولا ساچی تم ابھی جال لگا کر جھولتی اور جمپ لیتی ہو رادھا کی اب اتنی پر یکٹس ہو چکی ہے کہ وہ جال کے بغیر آنکھیں باندھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پو زیشن بدل لیتی ہے،رادھا کو جو نی کا اس کے حق میں بو لنا بہت اچھا لگا،وہ خود پر فخر کرنے لگی،اور ساچی کا منہ غصے سے سرٰخ ہو گیا تھا۔آج جونی کی نگاہوں کا مرکز صرف رادھا تھی،وہ اسے پیار بھری نگا ہ سے دیکھے جا رہا تھا اور رادھا شرما رہی تھی۔بارہ راونڈ تھے اور ہر راونڈ پر ہاتھ تھامتے ہی جونی رادھا کا ہاتھ یوں دباتا جیسے اولین دنوں میں دبایا کرتا تھا،آج وہ صرف رادھا کو مو قع دے ریا تھا،اناونسمنٹ سے تماشائيوں کا جوش بڑھ رہا تھا۔
گھو متی روشنییاں اور تیز انگلش میوزک نے سارے ماحول کو گرما دیا تھا،اب ہماری سرکس کی جان اور شان رادھا رانی اور جونی راجہ بِنا جال کے جھو لتے ہو ئے ہواوں میں لہرائیں گے۔سرکس ورکرز تیزی سے جال سمیٹ رہے تھے،رادھا جو نی کو دیکھے جا رہی تھی۔وہ روز ہی اس پر تین ٹائم جھولتی تھی۔ایک ڈنڈے سے پینگ پر جھو لتےہو ئے جو نی کا بڑھا ہو ا ہاتھ تھام لیتی تھی اور جونی اپنے مظبوط بازووں میں اسےایک گڑیا کی طرح تھا م لیتا تھا،ایک سرے پر رادھا تھی اور دوسرے سرے پر چھت کے قریب جونی۔اور نیچے لکڑیوں کے پھٹوں سے بنا سٹیج تھا،لوگ محو حیرت ہو کر اوپر نگاہیں جمائے دیکھ رہے تھے،رادھا نے جھولا لیا اور پینگ کو جونی کے پاس لے گئ۔جونی نے رادھا کو ہاتھ بڑھا کر تھام لیا۔اور اپنے ساتھ لگا لیا،رادھا کے دل میں خوشی کے پھول کھل اُٹھے۔یہاں سے پھر جونی جھول کر دوسری طرف گیا اور وہاں اپنی پوزیشن سنبھال کر رادھا کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا،رادھا پلک جھپکائے بنا جونی کو دیکھ رہی تھی غلطی کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی،رادھا نے ہلکورا بھرا اور زور سے ڈنڈے پر دھرے پاوں کو زور لگا کر بالکل جو نی کے پاس پہنچ گئ جونی نے اس کا داہنا ہاتھ تھام لیا اس نے اپنی ٹانگیں آگے کیں اور جونی کی پینگ پر اپنے پاوں جمانے کی کو شش کی،وہ ایک پاوں رکھ چکی تھی۔اور اس نے دوسرا پاوں رکھنے کے لئے بڑھایا ہی تھا کہ جونی نے اسے پیچھے کی طرف دھکیل دیا اور اپنے قوی ہاتھ میں تھما ہوا رادھا کا نازک سا ہاتھ فضا میں چھو ڑ دیا،رادھا نے گرتے ہو ئے جونی کی طرف دیکھا اور دوبارا پکڑنے کے لئے ہا تھ بلند کیا مگر کوئی ایسی چیز نہ تھی جسے وہ تھا متی،وہ گھو متی ہوئی سر کے بل اتنی اونچائی سےنیچے آن گری۔مجمعے پر سکتہ چھا گیا تھا،سرکس والے تیزی سے خون میں لت پت رادھا کی طرف بڑھے،کسی نے اسے اٹھایا۔اس کی گردن ایک طرف مڑی ہو ئی تھی۔اور تیزی سے خون بہہ رہا تھا،تمام
سر کس کے لوگ سوگ کی حالت میں تھے۔اپنے بدن کی ہڈیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کے گنننے والی رادھا کی سب ہڈیاں چور چور ہو گییں تھیں۔جونی بھی صدمے میں تھا۔بظاہر افسردہ تھا۔لیکن جو اس نے کیا تھا وہ اس سے مطمئن تھا،رادھا سے وہ ہمیشہ کے لئے پیچھا چھڑا چکا تھا۔رادھا کو سپرد خاک کر دیا گیا تھا،میاں جی کے حکم پر سرکس کے شو بند تھے،دو تین بار پو لیس آچکی تھی۔جونی سے اور موقعے پر موجود لوگوں سے
پو چھ گچھ کر چکے تھےلیکن انسانی غلطی تھی۔رادھا کی گرفت ڈھیلی پڑی تھی اور وہ گر گئ تھی،ایف آئی آر تک نہ کٹی۔سرکس دوسرے شہر آئی تو شو بھی شروع ہو گئے،رونقیں لوٹ آئیں تھیں ۔ساچی اور جونی کے درمیان اب رادھا نہیں تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...