آج چودھویں کی شب تھی، چاند کا حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، سیاہ اندھیری رات کا ہر منظر آج چاندنی میں بھیگا ہوا تھا، وہ اپنے بیڈ روم کی کھڑکی سے ٹیک لگائے بڑی محویت سے ٹکٹکی باندھے بظاہر چاند کو دیکھے جا رہی تھی لیکن در حقیقت وہ چاند میں اپنے محبوب کا جھلملاتا عکس ڈھونڈ رہی تھی، ہر طرف گہرا سکوت اور جامد خاموشی تھی، جیسے کائنات کی ہر شے، اپنا دم سادھے چاند کے حسن کا نظارہ کر رہی ہو بس اس کی سانسوں کا زیر و بم تھا جو سکوت زدہ فضا میں ارتعاش پیدا کر رہا تھا اور اک ہوا تھی جو پورے تسلسل سے چل رہی تھی۔
’’رات کا حسن تو چاند سے ہے اگر یہ چاند نہ ہوتا تو رات بھی اتنی حسین نہ ہوتی۔‘‘ اس نے جیسے پورے دل سے اقرار کیا اور پھر کسی خیال کے تحت اس کے لب دھیرے سے مسکرا دئیے۔
’’مریان! میرا اور آپ کا رشتہ بھی چاند اور رات جیسا ہے، جیسے چاند کے بغیر رات ادھوری ہے، اگر آپ مجھے نہ ملتے تو میں بھی آپ کے بغیر ایسے ہی ادھوری رہتی، آپ نے میری زندگی کی اندھیری راہوں کو اپنی محبت کی چاندنی سے جگمگا دیا ہے۔‘‘
’’یہ چاند کے ساتھ کیا راز و نیاز ہو رہے ہیں۔‘‘ کسی نے پیچھے سے آ کر اپنی مضبوط پناہوں کے حصار میں جکڑا تھا۔
’’ارے آپ کب آئے؟‘‘ اس نے چاند پر سے نظریں ہٹا کر مریان حیدر پہ جما دیں کہ اب اسے چاند میں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
’’تم چاند کو دیکھنے میں اس قدر محو تھی کہ گاڑی کا ہارن بھی سنائی نہیں دیا۔‘‘
’’اس ’’چاند‘‘ میں بھی ہم اپنے ’’اس چاند‘‘ کو دیکھ رہے تھے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ وہ شوخی سے کہتا اس کے مزید قریب ہوا۔
’’مریان پلیز۔‘‘ وہ ذرا سی کسمسائی۔
آج تو میرا دل
کرتا ہے
کہ تم اتنے
قریب آؤ
کہ پاس سے گزرتی
ہوا کو بھی پتہ نہ چلے
کہ وہ
وہ دیوانوں کے
بیچ سے گزر رہی ہے
اک مدھم سرگوشی اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو اس کے رخسار تپ اٹھے۔
’’لگتا ہے کچھ زیادہ ہی چڑھ گئی ہے۔‘‘
’’جی! میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ وہ خمار آلودہ لہجے میں بولا۔
’’کیا مطلب؟ تم نے سچ میں پی ہے۔‘‘ وہ چیخ اٹھی اس نے تو مذاق میں کہا تھا مگر وہ تو سچ میں اقرار کر رہا تھا۔
’’ارے توبہ توبہ کیسی بات کر رہی ہو۔‘‘ اس نے جھٹ سے دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے پھر اس کی گہری براؤن آنکھوں میں جھانکا۔
سلامت رہے تیری آنکھوں کی مستی
ہمیں مہ کشی کی ضرورت نہیں ہے
’’لیٹ نائٹ غزل پروگرام سے فرصت مل گئی ہو تو اب ڈنر کر لیں۔‘‘ اس نے مریان حیدر کی مضبوط گرفت سے خود کو چھڑانے کی ناکام سعی کرتے ہوئے کہا۔
جس کے لہجے سے محبت امرت بن کر ٹپک رہی تھی۔
’’آپ فریش ہو جائیں میں کھانا لگاتی ہوں۔‘‘ بروقت اسے خیال آیا کہ مریان نے لنچ ٹائم کے بعد کچھ نہیں کھایا ہو گا اور وہ خود بھی تو اس کے انتظار میں بھوکی بیٹھی تھی۔
سرشاری اس کے انگ انگ سے جھلک رہی تھی اسے اپنی محبت اور آئیڈیل ایک ساتھ ملے تھے وہ اپنی قسمت پہ جتنا بھی ناز کرتی کم تھا، وہ پلٹ کر جانے ہی والی تھی کہ اسے اپنے پلو پر کسی کے کھچاؤ کا احساس ہوا وہ پلٹی تو مریان کو محض گھور کر رہ گئی اس کے پلو کا کونہ وہ اپنی انگلی پہ لپیٹ چکا تھا۔
’’اب ایسے ہی آ گئے۔‘‘ اس نے اپنے پیچھے اس کے قدموں کی آہٹ سن لی تھی۔
’’ہاں، چینج کرنے میں پانچ منٹ لگنے تھے۔‘‘
’’تو اس میں کیا ہے؟‘‘ سیڑھیاں اترتے ہوئے اس نے رک کر اسے دیکھا۔
’’سمجھا کرو یار میں پانچ منٹ تو کیا ایک منٹ بھی تم سے دور نہیں رہنا چاہتا پہلے ہی دو گھنٹے پندرہ منٹ اور دس سیکنڈ کے بعد تمہیں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ وہ اس کی اداکاری پر ہنستے ہوئے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگانے لگی تھی مریان نے بھی اس کے ساتھ مل کر برتن لگائے اور پھر لائیٹ آف کر دی۔
’’آپ کے پاس بھی کوئی کام سیدھا نہیں ہے اب لائیٹ کیوں آف کر دی ہے آپ کوپتہ بھی ہے مجھے اندھیرے سے کتنا ڈر لگتا ہے۔‘‘ اس کی جان پر بن آئی تھی، اسی لمحے وہ کینڈل جلاتا اس کے قریب چلا آیا۔
’’میرے ہوتے ہوئے تمہاری زندگی میں کبھی اندھیرا نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس نے کینڈل کو ٹیبل کے عین وسط میں رکھا اور پھر کرسی کھینچ کر اسے بٹھایا۔
’’اب ہم کریں گے رومینٹک کینڈل لائیٹ ڈنر۔‘‘ وہ ساتھ والی کرسی گھسیٹ کر خود بھی اس پر براجمان ہو چکا تھا۔
٭٭٭
’’ماما چائے بنائی ہے تو ایک کپ مجھے بھی دے دیں۔‘‘ مہرو نے کچن میں جھانکتے ہوئے کہا۔
’’جاؤ پہلے اپنے دادا جان کو دے آؤ پھر آ کر تم لے لینا۔‘‘ زہرہ بیگم نے وہیں سے اسے ٹرے تھماتے ہوئے کہا جس میں چائے کے ساتھ دوسرے لوازمات بھی تھے۔
’’اوہو میں تو بھول ہی گئی۔‘‘ وہ سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے بولی۔
’’آپ کو دادا جان بلا رہے ہیں۔‘‘ مہرو نے ٹرے واپس ان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے دادا جان کا پیغام دیا اور خود اطمینان سے بیٹھ کر گھونٹ گھونٹ چائے پینے لگی، زہرہ بیگم کچھ سوچتے ہوئے ان کے بیڈ روم کی جانب چلی آئیں جو لاؤنج کے آخری سرے پر واقع تھا، جب وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے نظریں کسی غیر مرئی نقطے پہ جمائے نہ جانے کس ان دیکھی سوچ میں گم تھے۔
’’ابا جان آپ کی چائے۔‘‘ اس انداز تخاطب پر انہوں نے چونک کر سر اٹھایا ایک پل کے لئے انہیں ایسا لگا جیسے زارا نے پکارا ہو، مگر اگلے ہی پل سامنے کھڑی زہرہ کو دیکھ کر وہ سیدھے ہو بیٹھے۔
’’تم میرا کتنا خیال رکھتی ہو بیٹا! ابھی مجھے شدت سے چائے کی طلب ہو رہی تھی اور تم لے آئی۔‘‘ وہ ممونیت سے بولے۔
’’ابا جان آپ کی خدمت میرا فرض ہے۔‘‘ زہرہ بیگم نے کچھ خفگی سے باور کروایا تو وہ دھیرے سے مسکرا دئیے۔
’’مجھے تم سے ایک ضروری مشورہ کرنا تھا۔‘‘ انہوں نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔
’’جی کہیے۔‘‘ وہ ہمہ تن گوش ہوئیں۔
’’تم جانتی ہو زہرہ جب زارا ایک ننھے وجود کو اپنی ممتا سے ہمیشہ کے لئے محروم کر کے خود ابدی نیند سو گئی تھی، تو میرا دل چاہا تھا میں اس ننھی زارا کو جو میری زارا کے وجود کا حصہ ہے، ہمیشہ کے لئے اپنی آغوش میں سمیٹ لوں کہ اس پہ کبھی دنیا کی گرم ہوا کا سایہ بھی نہ پڑے، مگر وہ شیراز حسن…‘‘ انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
زبیر لغاری کی ایک ہی بیٹی تھی ’’زارا‘‘ اگرچہ بیٹا بھی ایک ہی تھا وہ ’’زارا‘‘ کی شادی اپنے دوست کے بیٹے سے طے کر چکے تھے جب زارا نے اپنے کلاس فیلو شیراز حسن کو ان سے متعارف کروایا اور پھر اس کی ضد کے سامنے اور کچھ اپنی عزت کے رولنے کے خوف سے مجبور ہو کر زارا کا نکاح اس سے کروا دیا مگر اس شرط پہ کہ آج سے تم ہمارے لئے مر گئی ہو اور اب پلٹ کر کبھی اس شہر واپس نہ آنا، وہ تو شاید آ ہی جاتی مگر زندگی نے اتنی مہلت ہی نہ دی، شادی کے تین سال بعد وہ ایک وجود کی تخلیق کرنے کی کوشش میں خود زندگی ہار گئیں، زارا کی موت کی خبر نے زبیر لغاری کے مضبوط وجود کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا وہ اس سے لاکھ خفا سہی مگر انہوں نے ایسا تو کبھی نہیں چاہا تھا، عریشہ کو اپنی گود میں لے کر انہیں ایسا لگا جیسے وجود میں تھمی ہوئی خون کی گردش پھر سے رواں ہو گئی ہو وہ جو بخود زارا کی کاپی تھی۔
انہوں نے چاہا کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے جائیں لیکن شیراز حسن راستے کی دیوار بن گیا، عریشہ اس کی محبت کی واحد نشانی اس کے جینے کا اکلوتا سہارا بھلا وہ کیسے لے جانے دیتا اور زارا سے ملنے والا پہلا اور آخری تحفہ۔
وہ تو اس کی متاع جان تھی لیکن زبیر لغاری اس کے جذبات نہ زارا کے لئے سمجھ پائے تھے اور نہ عریشہ کے لئے سمجھ پا رہے تھے اور اس دن سے لے کر آج تک ان کا دل اپنی نواسی میں ہی اٹکا ہوا تھا۔
’’خیر جانے دو ان باتوں کو۔‘‘ وہ ایک لمحے کے توقف سے بولے۔
’’اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ کیسے عریشہ کو ہمارے گھر سے دور رکھتا ہے اب وہ اس گھر میں آئے گی بھی اور ہمیشہ کے لئے اس گھر میں رہے گی بھی۔‘‘ آخز میں وہ چائے کا خالی کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے پرجوش انداز میں بولے۔
’’وہ کیسے ابا جان؟‘‘ زہرہ بیگم کا لہجہ اور انداز دونوں نارمل تھے انہیں اس بات پر بالکل حیرت نہ ہوئی تھی وہ جانتی تھیں کہ ابا جان ان اٹھارہ سالوں میں عریشہ کو اپنے ساتھ رکھنے کے ہزاروں پلان بنا چکے تھے کبھی کہتے ’’گاؤں کے دو ٹکے کے گورنمنٹ سکولوں میں عریشہ کیا خاک پڑھے گی کبھی دیہاتی زندگی پر لمبا اور طویل لیکچر دیتے، کبھی اس کے مستقبل کے متعلق نالاں نظر آتے، مگر ابا جان کی ہر کوشش بے سود رہی، اتنے طویل بحث و مباحثے کے بعد شیراز حسن کا ایک ہی جواب ملتا۔‘‘
’’میں اپنی بیٹی کے بغیر نہیں رہ سکتا اور میں اسے اپنی نظروں سے دور نہیں بھیجوں گا۔‘‘ اور اب کی بار ابا جان کیا مشورہ کرنے والے تھے۔
’’میں اسے راحل(پوتا) کی دلہن بنا کر اس گھر میں لاؤں گا۔‘‘ کچھ لمحوں کے توقف کے بعد آخر انہوں نے وہ بم پھوڑ ہی دیا جس سے وہ ڈر رہی تھیں۔
زہرہ بیگم نے ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے انہیں دیکھا ان کے لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہو چکی تھی آنکھوں سے روشنیاں پھوٹ رہی تھیں زہرہ بیگم کو ایسا لگا جیسے وہ بام تصور میں عریشہ اور راحل کی شادی دیکھ رہے ہوں۔
قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ابا جان کی نواسی کے لئے دن بدن بڑھتی دیوانگی کو دیکھتے ہوئے یہی بات کل زہرہ بیگم کے دل میں بھی آئی تھی اور وہ دل کی باتوں کو دل میں رکھنے کے قائل نہیں تھیں سو اظہار رائے کے لئے فوراً راحل کی طرف رجوع کیا اور راحل کی رائے کا اظہار سن کر وہ صدمے کے مارے گنگ رہ گئی تھیں اور اب وہی الفاظ ان کے کانوں میں گونج رہے تھے۔
’’امی یہ بات آپ کے دل میں آئی بھی کیسے؟ میں اس سے ہرگز شادی نہیں کروں گا آج کے بعد ایسا سوچئے گا بھی مت۔‘‘ وہ تو بات سنتے ہی بری طرح سے بپھر گیا تھا۔
’’بس وہ میرے ٹائپ کی نہیں، اس کا فیملی بیگ گراؤنڈ اس کی کوالیفیکیشن اس کا مزاج کچھ بھی تو ہم میں کامن نہیں ہے۔‘‘
’’اچھا تو کیسی لڑکی چاہیے تمہیں جس سے تم شادی کرو گے۔‘‘ زہرہ بیگم نے حتی المقدور اپنے لہجے کو نرم رکھنے کی کوشش کی ورنہ تو غصے کے مارے برا حال تھا۔
’’خوبصورت، ویل ایجوکیٹڈ، ماڈرن اور اپنی کلاس کی جو میرے ساتھ سوسائٹی میں موو کر سکے جو میرے ساتھ چلتی ہوئی اچھی لگے، جس کو ساتھ پا کر میں فخر محسوس کروں۔‘‘ انتہائی تحمل سے اپنا آئیڈیل آشکار کیا گیا۔
’’دوسرے لفظوں میں بے حیا، بے باک، ہر طرح کی اخلاقیات سے عاری، یوں کیوں نہیں کہتے کہ تمہیں بیوی نہیں ایک چلتا پھرتا اشتہار چاہیے جسے گلے میں لٹکا کر پھرو اور ہر کوئی دیکھے بار بار دیکھے۔‘‘
’’کیا ہوا زہرہ کس سوچ میں پڑ گئی اگر تمہیں میری بات پسند نہیں آئی تو کوئی بات نہیں تم اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرو، تم راحل کی ماں ہو اس کی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق تمہیں مجھ سے زیادہ ہے ہو گا وہی جو تم چاہو گی۔‘‘ زہرہ بیگم نے دیکھا آخری جملہ ادا کرتے ہوئے ان کی آنکھوں کی جوت بجھ چکی تھی اور لہجہ بھی خاصا پست تھا۔
’’یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں ابا جان۔‘‘ وہ کرسی سے اٹھ کر ان کے پاس آبیٹھیں۔
’’خدا آپ کا سایہ ہمیشہ ہمارے سر پہ سلامت رکھے آپ کے ہوتے ہوئے میں کون ہوتی ہوں فیصلہ کرنے والی۔‘‘ وہ ان کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے عقیدت سے بولیں۔
’’خوش رہو بیٹا۔‘‘ وہ زہرہ کے بے حد ممنون تھے جو بہو ہو کر بیٹیوں سے بھی بڑھ کر تھیں۔
’’بس سہیل آ جائے تو اس سے بھی بات کرتے ہیں۔‘‘ وہ اپنے تئیں بالکل مطمئن ہو چکے تھے۔
’’لیکن ابا جان!‘‘
’’ہاں … ہاں بولو۔‘‘ وہ اس کا تذبذب بھانپ چکے تھے۔
’’آپ ایک بار راحل سے بھی پوچھ لیتے۔‘‘ زہرہ بیگم نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
’’راحل سے کیا پوچھنا۔‘‘ اس معاملے میں وہ پرانے خیالات کے مالک تھے بس جو بڑوں نے طے کر دیا بچوں کو ہر صورت نبھانا ہے۔
’’راحل میرا بہت فرمانبردار پوتا ہے وہ میری بات کبھی نہیں ٹالے گا۔‘‘ اس طرف سے وہ گویا آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے، زہرہ بیگم کا جی چاہا کہ ان کے لاڈلے پوتے کی روشن خیالی ان پر عیاں کر دے مگر پھر کچھ سوچ کر خاموشی میں ہی عافیت جانی اور ایک بار پھر راحل کو قائل کرنے کا ارادہ باندھا۔
٭٭٭
زہرہ بیگم کی تو گویا نیند ہی اڑ گئی تھی، تمام رات سوچوں، خیالوں کے تانے بانے بننے میں گزر گئی۔
’’اگر راحل نے عریشہ کو ریجیکٹ کر کے اپنی پسند کی کسی لڑکی سے شادی کر لی تو ابا جان اسے ویسے ہی گھر سے نکال دیں گے جیسے بیس برس پہلے لالہ کو…‘‘ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھ تھیں۔
اس کا لالہ اس کا چاند سے پیارا بھائی کتنا اچھا تھا حویلی میں رہنے والے دوسرے مردوں کی نسبتاً سادہ، معصوم، نرم خو اور بہت محبت کرنے والا، اسے کتنا شوق تھا لالہ کی شادی ہو اس کی بھابھی حویلی میں آئے اور اس کی خواہش جس روز پوری ہوئی، وہ ایک طوفانی رات تھی سہ پہر سے ہی سرخ آندھی نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، بادل کس قدر زور سے گرج رہے تھے تبھی اس شور میں ایک اور شور اٹھا تھا۔
’’چوہدری شیراز حسن شہر سے اپنی دلہن لے کر آئے ہیں۔‘‘ رحمت جو کہ ان کا گھریلو ملازم تھا اُس کی آواز پر اس کا ہاتھ اپنی جگہ ساکت رہ گیا تھا وہ کھڑکیاں، پردے وہیں چھوڑ کر باہر کی جانب لپکی۔
’’اماں بی سنا آپ نے لالہ کی دلہن۔‘‘ جوش میں اس نے راستے میں حیرت کا بت بنی اماں بی کو بھی گھما ڈالا تھا۔
’’بس یہیں رک جاؤ، کوئی باہر نہیں جائے گا۔‘‘ ابا جان کے لہجے میں بادلوں کی سی گرج تھی وہ اور اماں بی وہی تخت پر بیٹھ گئیں مگر اس کے دل میں ہول اٹھ رہے تھے اور ایک جھلک اس لڑکی کو دیکھنا چاہتی تھی جسے اس کے لالہ شیراز حسن نے پسند کیا تھا، پندرہ منٹ کے طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد ابا جان اکیلے ہی بڑے ہال میں آئے تھے، زہرہ کا دل دھک سے رہ گیا۔
’’آج سے میں اس حویلی میں اس نافرمان کا نام نہ سنوں مرگیا آج سے وہ ہمارے لیے۔‘‘ وہ جس طرح سے آئے تھے اسی طرح اپنا فیصلہ سناتے دھپ دھپ کرتے واپس چلے گئے پیچھے ان کے قدموں کی گونج رہ گئی تھی یا پھر اماں بی کی سسکیاں۔
’’کیا بات ہے زہرہ، تم ابھی تک جاگ رہی ہو؟‘‘ سہیل رضا کی آواز پر اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تھا، وہ ان کی جانب کروٹ بدلے متفکر سے پوچھ رہے تھے۔
’’ہاں وہ بس نیند نہیں آ رہی تھی۔‘‘ ان کا انداز ٹالنے والا تھا۔
’’چلو پھر باتیں کرتے ہیں۔‘‘ وہ کہنے کے ساتھ ہی شرارت سے اٹھ بیٹھے۔
’’اب مجھے کچھ کچھ نیند آنے لگی ہے۔‘‘ زہرہ بیگم نے لیٹ کر سرتاپا چادر اوڑھ لی تھی وہ زیر لب مسکراتے ہوئے پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگے۔
اگلی صبح وہ اس سے بات کرنے اس کے بیڈ روم میں آئیں تو وہ اپنا سوٹ کیس تیار کیے کہیں جانے کو بالکل تیار کھڑا تھا، پوچھنے پر اس نے بتایا۔
’’آفس کی طرف سے ایک ماہ کے کنٹریکٹ پر لندن جا رہا ہوں۔‘‘ ان کی خود سرجیکل کی فیکٹری تھی لیکن وہ ایم بی اے پاس کرنے کے بعد خود کو جیسے کوئی توپ سمجھنے لگا تھا اسے سرجیکل کی فیکٹری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں پرکشش سیلری پیکج پر بطور ور کر کام کر رہا تھا۔
’’تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔‘‘
’’کل ہی ڈیل فائنل ہوئی ہے رات دیر سے آیا تو آپ سو رہی تھیں۔‘‘ وہ جلدی جلدی بالوں میں برش چلاتے ہوئے بولا۔
’’فلائیٹ کتنے بجے ہے۔‘‘
’’دس بجے اور مجھے ابھی راستے سے ایک دوست کو بھی پک کرنا ہے، لاہور جانے میں بھی دو گھنٹے لگیں گے اس لئے اب مجھے اجازت دیں۔‘‘ اس نے ریسٹ واچ پر نظر دوڑاتے ہوئے سر کو زہرہ بیگم کے سامنے ذرا سا خم کیا، انہوں نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی چوم لی، پہلی بار وہ اتنے لمبے سفر پہ جا رہا تھا اس خیال سے ہی ان کی آنکھیں بھر آئیں۔
’’امی پلیز بس ایک مہینے کی تو بات ہے آپ پلیز ایسے مت کریں۔‘‘ وہ زہرہ بیگم کو اپنے بازوؤں کے حلقے میں لئے ہوئے باہر آیا۔
’’خدا تمہیں اپنی امان میں رکھے۔‘‘ کچھ ہی دیر میں وہ سب سے مل کر بزرگوں کی دعاؤں کا حصار لئے گھر سے رخصت ہوا۔
٭٭٭
زبیر لغاری جو راحل کے جانے کی وجہ سے بے حد افسردہ سے رہنے لگے تھے، عریشہ کے آنے کا سن کر پھر سے کھل اٹھے تھے، آج صبح سے ان کی ہدایات جاری تھیں۔
’’زہرہ آج ڈنر خاصا پر تکلف ہونا چاہیے اسے بریانی بہت پسند ہے وہ ضرور بنا لینا اور چائے وہ بالکل نہیں پیتی ہاں لسی ضرور بنا لینا اس کے بغیر نوالہ اس کے حلق سے نہیں اترتا۔‘‘ وہ ایک ہی بات کوئی دس بار دوہرا رہے تھے، اس کا کمرہ بھی انہوں نے کسی ملازمہ کی بجائے مہرو سے صاف کروایا تھا کہ وہ اچھی طرح ڈیکوریٹ کرے گی۔
مہرو کو ابھی سے اس وی آئی پی مہمان شخصیت سے جلن ہونے لگی تھی وہ بھی تو دادا جان کی پوتی تھی محبت کا یہ مظاہرہ اس نے کبھی اپنے لئے تو نہیں دیکھا تھا۔
٭٭٭
’’ایک تو اس ٹرین کو بھی آج ہی ایک گھنٹہ پہلے آنا تھا اب ایک گھنٹہ یہاں ویٹ کروں۔‘‘ اس نے نہایت کوفت کے عالم میں بڑبڑاتے ہوئے بیگ اٹھایا، تو وہ بمشکل ہی اسے اپنی جگہ سے ہلا پائی۔
’’اف اتنا بھاری یہ نوری کی بچی نے لگتا ہے پوری الماری کے کپڑے پیک کر دئیے ہیں۔‘‘ اسے جی بھر کر نوری پہ تاؤ آیا۔
’’ہائے اب کیا کروں؟‘‘ اس نے بے بسی سے سوچا۔
اتنے رش میں وہ ٹھوکریں کھاتی آگے بڑھی تو لڑکھڑا کر رہ گئی، اتنے طویل سفر کے بعد تو ویسے بھی سر درد سے پھٹا جا رہا تھا آنکھوں کے سامنے تارے ناچ رہے تھے اس نے مدد طلب نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا تو اسی بھیڑ میں ایک مہربان شناسا چہرہ دکھائی دیا، وہ لپک کر آگے بڑھی۔
’’نانا جان۔‘‘ اس نے دور سے ہی آواز دی، زبیر لغاری بھی اسے دیکھ چکے تھے۔
’’نانا جان آپ ایک گھنٹہ پہلے کیسے آ گئے، آپ کو پتہ تھا ٹرین ایک گھنٹہ پہلے آنے والی ہے۔‘‘ وہ ان کے گلے میں جھولتے ہوئے حیرت سے بولی تو وہ مسکرا دئیے۔
’’میں تو اپنی بیٹی کے انتظار میں پچھلے دو گھنٹے سے یہاں بیٹھا ہوں اب تو آنکھیں بھی تھکنے لگی تھیں۔‘‘ عریشہ کو ان کی محبت پر کوئی شبہ نہیں تھا وہ محبت سے انہیں دیکھتی ان کے ساتھ چل پڑی۔
’’واؤ بیوٹی فل کار۔‘‘ اس نے بلیک مرسڈیز کو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، زبیر لغاری نے اس کی سمت کا دروازہ کھولا تو وہ کچھ جھجکتے ہوئے بیٹھ گئی، اپنی زندگی میں وہ پہلی بار ایسی شاندار گاڑی میں بیٹھی تھیں۔
’’تمہیں یہ گاڑی پسند آئی۔‘‘
’’ہاں بہت۔‘‘ عریشہ نے بہت کو خاصا لمبا کھینچا۔
’’شیراز حسن نے کبھی تمہیں اس گاؤں سے باہر نکلنے ہی نہیں دیا اگر ہمارے پاس رہتی تو ایسی ہی گاڑیوں میں گھومتی۔‘‘ ان کے لہجے میں دولت کا غرور بول رہا تھا، عریشہ کو ان کی یہ عادت بالکل پسند نہیں تھی۔
’’اچھا یہ بتاؤ شیراز حسن نے ہمارے گھر آنے کی اجازت کیسے دی؟‘‘ وہ ابھی تک دل سے شیراز حسن کو اپنا داماد نہیں مانتے تھے اس لئے آج تک نہ تو وہ ان کے گھر آئے تھے نہ ہی اس گھر سے سوائے زبیر لغاری کے کوئی آزاد کشمیر جاتا تھا ایک تو سفر بہت تھا دوسرے تعلقات کوئی خاص خوشگوار نہیں تھے زبیر لغاری کو محض عریشہ سے غرض تھی ان کا جب دل چاہتا وہ ملنے چلے جاتے تھے۔
عریشہ کو اپنے نانا جان سے بہت محبت تھی وہ جب بھی آتے اس کے لئے ڈھیروں تحائف لے کر آتے تھے جن کو وہ خاصا اترا اترا کر اپنی دوستوں کو دکھاتی تھی۔
’’لالہ جانی تو بہت اچھے ہیں، بہت پیار کرتے ہیں مجھ سے، اس لئے تو میری ہر بات مان لیتے ہیں میری برتھ ڈے پہ کہنے لگے ’’آج مجھ سے جو مانگو کی ملے گا۔‘‘ تو میں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ میں کچھ دنوں کے لئے نانا جان کے گھر جانا چاہتی ہوں تو وہ کچھ رنجیدہ ہو گئے، میرے بغیر رہ نہیں سکتے نا اس لئے مجھے خود سے دور نہیں بھیجتے مگر اس بار میں نے بھی پکی ضد باندھ لی، دو دن بھوک ہڑتال کی تو خود ہی نوری کو بلا کر میرا سامان پیک کروا دیا۔‘‘
پھر نوری کی امی نے سمجھایا کہنے لگیں۔
’’پاں جی، آپ کی عیشو تو بڑی بھولی ہے باہر کی دنیا تو اس نے دیکھی ہی نہیں کل کلاں کو اس کا بیاہ بھی تو کرنا ہے اسے گھومنے پھرنے دیں دنیا دیکھنے دیں اپنے رشتے داروں سے ملنے دیں اور پھر آپ سے دور رہے گی تو آپ کے بغیر رہنے کی عادت پڑے گی۔‘‘
’’خالہ کی بات لالہ جانی کی سمجھ میں آئی یا نہیں یہ میں نہیں جانتی لیکن میری سمجھ میں خوب اچھی طرح سے آ گئی تھی میں نے کہہ دیا لالہ جانی سے، پہلی بات تو یہ کہ میں شادی نہیں کروں گی اور اگر کی تو سب سے پہلے یہ شرط کہ ’’وہ‘‘ میرے ساتھ لالہ جانی کے گھر رہے گا، میں اپنے لالہ جانی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔‘‘ اتنی لمبی بات کے بعد اس نے ایک لمحے کو توقف کیا۔
’’میں نے ٹھیک کیا نا، نانا جان۔‘‘ آخر میں معصومیت سے نانا جان سے تصدیق چاہی تو ان کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لیں، وہ نواسی کو گھر لانے کے منصوبے بنائے بیٹھے تھے اور نواسی ان کے لاڈلے پوتے کو بھی لے اڑنے کا پلان بنا چکی تھی۔
’’نہیں بیٹا لڑکے اپنا گھر نہیں چھوڑتے ہمیشہ لڑکیوں کو ہی اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔‘‘ انہوں نے رسانیت سے سمجھایا، تو وہ بگڑ کر بولی۔
’’ایویں فضول میں۔‘‘
’’عریشہ بیٹے یہ دنیا کا دستور بھی ہے اور قرت کا قانون بھی اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔‘‘ وہ نرمی سے بولے۔
’’نانا جان آپ بالکل لالہ جانی جیسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘ عریشہ نے منہ پھیلاتے ہوئے کہا تو نانا جان مسکرا دیے، اگلے چند منٹوں میں گاڑی لغاری ہاؤس کے سامنے رک چکی تھی۔
٭٭٭