“تو پرسوں سے کالج کیوں نہیں آ رہی تھی “حمیرا نے پریشانی سے پوچھا۔
“کچھ نہیں طبیعت ٹھیک نہیں تھی بخار تھا”وہ نحیف سی آواز میں بولی۔
“کیا ہوا کوئی بات ہوئی ہے کیا جو تجھے بخار ہوگیا”حمیرا جانتی تھی ریحہ جب بھی کوئی ٹینشن لیتی اس کا سر درد کرتا اور بخار ہو جاتا۔
“یار کیا بتاؤں احمد نے مجھے چھوڑ دیا اور بلاک کر دیا”وہ سسک پڑی اور روتے ہوئے بولی۔
“کیا پاگل ہے کیا وہ ایسے کیسے چھوڑ دیا اس نے “حمیرا شاک رہ گئی۔
“میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی اس نے میری فیلنگس کے ساتھ کھیلا وہ کبھی میری زندگی میں سامنے آیا تو اس کا منہ نوچ لوں گی “وہ نفرت سے روتے ہوئے بولی۔
“کیا فائدہ یار میں نے تجھے سمجھایا بھی تھا فیس بک ایک الگ دنیا ہے وہاں کوئی اپنا نہیں ہوتا استعمال کرتے ہیں اوپر سے حاجی ہوتے ہیں اور حقیقت میں بہت کمینے ہوتے ہیں فیس بک بس فن کے لیے استعمال کرنا چاہیے”حمیرا نے افسوس سے کہا۔
“مجھے کیا پتا تھا میں تو ہر چیز کو سچ ہی ماننے لگی تھی سمجھتی تھی جیسی میں سچی ہوں ویسے ہی اگلا بھی سچا ہوگا “وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
“وہ تو تیری سوچ ہے نا تو اچھی ہے اس لئے سب کو اچھا سمجھ رہی ہو لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا کچھ اچھے لوگ بھی ملتے ہیں لیکن اکثر برے ہی ہوتے ہیں” حمیرا نے اسے سمجھاتے ہوے کہا۔
“اب کیا کروں میں اس کے بغیر نہیں رہ پا رہی قسم سے اتنا سر درد کر رہا ہے روتے روتے “وہ روتے ہوئے بولی۔
“پاگل ہو کیا سب دیکھ رہے ہیں تجھے مت رو تیرے آنسو اتنے فالتو ہیں کیا جو اس بے اس بے حس انسان کے لئے رو رہی ہو “ریحا سے تنبہا کرتے ہوئے بولی۔ کیوں کہ وہ دونوں کینٹن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔
“تو اور کیا کروں میں “وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
“کچھ مت کرو اللہ پر چھوڑ دو وہی سب چیزوں پر قادر ہے وہی انصاف کرنے والا ہے ہو سکتا ہے اللہ نے اسے تیری زندگی میں بھیجا تاکہ تو سبق حاصل کر سکے تیرا یہ جو بچوں کا دماغ ہے نہ اسے سمجھدار کر سکے عمر پندرا سے تئیس تک اس عمر کے دوران ہم بہت سارے عارضی لوگوں سے ملتے ہیں جو ہم کو ذہنی بیمار بنا دیتے ہیں اور سبق سکھا جاتے ہیں اور تو ہر کسی کو اپنا مت سمجھ صرف تیرے ماں باپ ہی تیرے اپنے ہیں اور حقیقت میں جیو وہ دنیا ایک فیک دنیا ہے اس سے دور رہو “حمیرا نے اسےمزید سمجھایا۔
“تم صحیح کہہ رہی ہو بس دعا کرنا وہ مجھے نہیں چاہتا تو کیا ہوا پر میں تو اسے چاہتی ہوں اور اسے اللہ سے مانگوگی”وہ پراعظم سے بولی۔
“اس انسان کو اللہ سے مانگنا چاہتی ہوں جس نے بہت ساری لڑکیوں کے دلو کے ساتھ کھیلا جس نے تیرا دل توڑا اور میں اتنی دیر سے تمہیں کیا سمجھارہی تھی “حمیرا نے حیران ہوکر اپنا سر پیٹا۔
اسکا سمجھانا بھی اسے سمجھ نہی دےسکی۔
“ہاں کیونکہ مجھے اس سے بے انتہا پیار ہے میری زندگی میں کوئی بھی نہیں وہی میرا پہلا پیار ہے اور زندگی بھی اس کے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں”وہ آنسوں بھری آنکھوں کے ساتھ مسکرا کر بولی۔
“تمہارا دماغ پھر گیا ہے کیا ایسے کیسے مل جائے گا وہ تمہیں تجھے اسکا اتہ پتا ہی نہیں معلوم نا اس کا چہرہ دیکھا نہ آواز سنی یہ ایک ناممکن سی بات ہے “حمیرا کو اس کی عقل پر شک ہوا۔
“ناممکن تو کچھ بھی نہیں ہے جب اللہ نے آدم علیہ السلام کو ماں حوا سے ملوا دیا تو ہم تو پھر عام سے انسان ہیں ” وہ نجانے کونسی دنیا میں جی رہی تھی۔
حمیرا نے مزید کچھ کہنے سے خود کو روکا تھا اسکے انداز ہی اسے حیران کرنے کے لئے کافی تھے اسے لگا اسکا دماغ الٹ گیا ہے کیسی بہکی بہکی باتیں کررہی ہے۔
“چلو چھوڑو ٹیچر آگئی ہونگی کلاس میں چلتے ہیں “حمیرا اٹھتے ہوے بولی اور کلاس کی طرف چل دی۔
وہ اپنا چہرہ ٹشو پیپر کی مدد سے صاف کرتے ہوے اسکے پیچھے چل دی۔
***
“ریحا مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے”فہمیدہ بیگم نے اسے مخاطب کیا تھا۔
“جی مما بولیں”وہ جو کالج ورک کررہی تھی سر اٹھاکر انکی طرف دیکھنے لگی۔
“بیٹا یہ تمھارا کالج کا لاسٹ ائیر ہے ہم چاہتے ہیں کہ تمھارا کالج ختم ہوتے ہی تمھاری شادی کردی جائے”انہوں نے اسکے ماتھے پر آتے ہوئے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا تھا۔
“پر مما میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی” وہ جزبز ہوتے ہوئے بولی۔
“کیوں کیا مسلہ ہے ابھی شادی کرنے میں” انہوں نے تیکھے انداز میں پوچھا۔
“ابھی میری ایج ہی کیا ہوئی ہے میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں”وہ انکے انداز پر گڑبڑا کر بولی۔
“کوئی ضرورت نہیں ہے آگے پڑھنے کی تم جانتی ہو خاندان میں لڑکیاں بس پرائمری تک پڑھتی ہیں اور جلدی شادی کردی جاتی ہے تم تو پھر بھی کالج تک پہچی ہو وہ بھی تمھارے باپ کے سپورٹ ملنے پر ” انہوں نے سخت لہجے میں کہا۔
“پر مما میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں ” وہ ضد سے بولی تھی۔
“یہ بات تم جاکے اپنے باپ سے کرو مجھے مت بولو” وہ اٹھ کھڑی ہوئیں تھیں۔
“ٹھیک ہے میں بابا سے ہی بات کرونگی” وہ بے فکری سے بولی تھی۔
“ہاں ٹھیک ہے اب اٹھو میری مدد کرو کھانا پکانے میں” انہوں نے حکم دیا اور اسے آنے کا اشارہ کرتی ہوئیں چلی گئیں۔
***
“اسلام علیکم ڈیڈ”وہ سلام کرتے ہوئے شہزاد صاحب کے پاس بیٹھا۔
“وعلیکم اسلام بیٹا کہاں سے آرہے ہو” انہوں نے اخبار سے نظریں ہٹا کر پوچھا۔
“فیکٹری کی طرف گیا تھا دیکھنے نیازی صاحب کام ٹھیک سےکررہے ہیں کہ نہیں” اسنے جواب دیتے ہوئے ٹی وی کا ریمورٹ اٹھایا۔
“تم آگئے بیٹا مجھے تم سے ضروری بات کرنی تھی ” شیلا بیگم اپنا ساڑی کا پلو درست کرتی ہوئیں اسکے پاس بیٹھتے ہوئے بولیں۔
“کیا بات کرنی تھی بولیں آپ ” وہ ٹی وی میں نظریں ٹکائے بولا۔
“یہ کچھ لڑکیوں کی تصوریں ہیں دیکھ لو جو بھی اچھی لگے ڈن کردونگی سب اچھے اچھے گھرانوں کی لڑکیاں ہیں” انکے ہاتھ میں کوئی لفافہ تھا جو انہوں نے آزر کی طرف کیا تھا۔
“آپ بھی نا پیچھا ہی نہیں چھوڑتی پچھلے تین چار منتھ سے دلہن ڈھونڈنے میں لگی ہیں ابھی تک ختم نہیں ہوا ” وہ بیزار ہوکر بولا۔
“میں اپنے بیٹے کے لئے چاند سی خوبصورت سی دلہن لانا چاہتی ہوں اسی لئے زیادہ ٹائم لگ گیا لیکن اس دفعہ بہت پیاری بچیوں کی تصویریں ہیں تم اک دفع تو دیکھ لو” انہوں نےاسے پچکارتے ہوئے کہا تھا۔
” لائیں دکھائیں “اسنے لفافہ انکے ہاتھ سے لیا تھا اور تصویریں نکالی۔
اسکی نظر اک لڑکی کی تصویر پر ٹکی تھی تیکھے نین نقش کیوٹ سی اسمائیل اور گالوں میں پڑتا ڈمپل اسکا دیہان لے گیا تھا۔
“یہ والی پیاری لگ رہی ہے پر مما دیکھ لیں کہیں فراڈ نا ہوجائے ہمارے ساتھ تصویر میں کوئی اور اصلی میں کوئی نکل آئے”اسنے پسندیدگی کے ساتھ اپنا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
“نہیں بیٹا میں نے سب معلومات حاصل کرلی ہیں سب کی تم پریشان نا ہو اور ویسے بھی تم نے اسے پسند کیا ہے تو ہم پہلے دیکھنے جائنگے نا پھر ہی ہاں کرینگے” انہوں نے تفصیل سے سمجھایا تھا۔
“ٹھیک ہے جیسا آپکو بہتر لگے وہ کریں پر لڑکی یہی ہونی چاہئے” اسنے شرارت سے کہا۔
“لاؤ ہمیں بھی دکھائے ہیمارے بیٹے کی پسند ” شہزاد صاحب مسکرا کر بولے۔
شیلا بیگم انکوں تصویر دکھانے لگیں آزر نے اپنی نظریں ٹی وی پر مرکوز کردی۔
***
“اے اللہ پلیز بابا مان جائے آگے پڑھنے کی اجازت دیدے اک ہی تو وجہ ہے جس میں اپنے دکھ کم محسوس ہوتا ہے مصروف رہکر!
” احمد کو بھولنا بے حد مشکل ہے دل سے اسکی محبت جاتی ہی نہیں پورے پانچ مہینے ہوگئے اسکی یاد ایسے ذہن میں ہے جیسے کل ہی ہم الگ ہوئے ہیں میرا دل ااسکے علاوہ کسی اور کے لئے مانتا ہیی نہیں ہے یا اللہ اسے میرا کردے ناممکن ہے پر تو سب راستے نکال سکتا ہے ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے ” وہ آج بھی تہجد کے نماز میں زاروقطار روتے ہوئے بولی۔
اسکی روز کی روٹین بن گئی تھی سونے سے پہلے تہجد پڑتی اور دعائیں کرتی۔
وہ احمد سے نفرت کرنا چاہتی تھی لیکن نجانے اسکے دل میں نفرت کے بجائے محبت بڑھتی جارہی تھی۔۔۔
وہ چاہ کر بھی اس سے نفرت نہیں کر پارہی تھی۔۔۔
اسکی نفرت محبت پر بازی لے جاتی تھی۔۔۔
تہجد کا سجدہ تھا۔۔۔
چند آنسوں تھے۔۔۔
دل کی باتیں تھیں۔۔۔
اور دل کا خالق تھا۔۔۔
جو کن کا مالک تھا۔۔۔
بہت پرسکوں ملاقات تھی۔۔۔
جو رب کے ساتھ تھی۔۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...