وہ سامان الٹا سیدھا پھینک کر ہانپتی باہر نکلی جب دلاور کی جیپ کی آواز آئی۔۔ ادینہ نے ایک زہریلی مسکراہٹ دعا پر اچھالی جو دنیا جہاں سے غافل تھی۔۔ اور باہر چلی گئی۔۔ ادی خان زادی کہاں ہے؟ دلاور نے جیپ سے اترتے پوچھا۔ آپ مجھے لے چلیں بھائی اور سانس روکے بولی دعا مر گئی ہے۔۔۔ ہٹو پیچھے دلاور اسے خود کے سامنے سے ہٹاتا اندر لپکا۔۔ دعا بےسدھ پڑی تھی اسکی دھڑکن اور شہ رگ چیک کرتے ہی دلاور نے اسے گود میں اٹھایا اور جیپ تک گیا ادینہ پہلے ہی بیٹھ چکی تھی۔۔ ہم اسے نہیں لے کر جائیں گے وہ ازلان وہ اسے ڈھونڈے گا وہ نہیں رہے گا اسکے بغیر اسکی لاش نہ ملی تو آسمان سر پر اٹھالے گا۔۔
دلاور نے لب سختی بھینچے، ملٹیز آنکھیں حد سے زیادہ خفا تھیں۔۔ وہ خفگی سے باہر دیکھتا جیپ سٹارٹ کر رہا تھا۔۔۔
اور جیپ ہوا میں اڑاتا ہوسپٹل لے گیا۔۔
*******
میں بہت شرمندہ ہوں آپ سے ازلان۔۔ دلاور نے دعا کے ماسک لگے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔ جسے ہوش آ کے نہیں دے رہا تھا۔۔۔
ازلان نے دلاور کا ہاتھ اپنے شانے سے جھٹکا۔۔۔
میں نے اپنی دعا کی انا کے لئےدینہ سے نکاح کیا تھا۔۔ ورنہ میں اتنا عظیم نہیں ہوں کسی اور مرد کی غلاظت اپنے سر لے سکوں۔۔۔دلاور کے دل کو دھچکا لگا۔۔ اسے یہ گوارا نہ ہوا وہ مزید سنے۔۔ میری بہن نے پیدائش سے لے کر اب تک بہت تکلیف اور دکھ سہے ہیں۔۔ پہلے ماں باپ چلے گئے پھر میری اماں بھی، پھر شاہ کمال کی بے وفائی اور اسکی موت۔۔ میں اسے شاہ کمال کی بے وفائی کا بتا کر مزید دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا اگر یہ بتا دیتا تو یہ اسکی انا اسکے اعتماد کو کرچی کرچی کر دیتا۔۔ اور جانے وہ کسی پر پھر اعتبار کرتی یا نہ سنبھلتی۔۔۔ میں نے اس کے لئے قربانی دی تم بتاو دلاور تم کر سکتے تھے ایسا اپنی بہن کے لئے جو میں نے کیا؟؟ نہیں نا کوئی مرد نہیں کر سکتا۔۔۔ دلاور کی جھکی خفا آنکھوں کو دیکھ کر ازلان نے کہا۔۔۔ دلاور اس وقت ضبط کی حدیں چھو رہا تھا ایک طرف بہن کی عزت تھی تو دوسری طرف محبت کی انا اور جان۔۔۔۔
وہ دو کشتیوں کا مسافر بن رہا تھا۔۔ وہ چاہ کر بھی دعا سے دور نہیں رہ پا رہا تھا اس نے پہلی بار دعا کے چہرے کو اپریشن تھیٹر میں دیکھا تھا ورنہ وہ ہمیشہ نقاب میں شاہ کمال کی معیت میں گزرتی اور جس دن دعا کی سیر کا دن ہوتا اس دن پورے گاؤں کے مردوں کو ہدایت تھی آنکھیں جھکا کر گزرنے کی ورنہ شاہ کمال کسی کی جان لینے سے گریز نہ کرتا۔۔۔ اور جب دلاور نے اسے دیکھا تب وہ نہیں جانتا تھا وہ خان زادی ہے وہ تو اسے باہر آ کے ازلان کو دیکھ کر معلوم ہوا مگر تب تک دل پور پور اسکے ان مصر کی دانوں میں الجھ کر ڈوب چکا تھا۔۔
ازلان کی آواز دلاور کو ماضی سے کھینچ لائی میں اب ادینہ کو دعا کے ساتھ نہیں رکھ سکتا اگر شاہ کمال کی اولاد اب دنیا میں آتی بھی ہے تو اسے کوئی حقارت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔۔ ادینہ تین ماہ سے میرے گھر میرے ساتھ رہ رہی ہے۔۔ میرا خیال ہے اتنا کافی ہے۔۔ اب بات میری دعا کی زندگی کی ہے۔ میری ایک ہی بہن ہے۔۔ بچپن میں اماں کہتی تھیں یہ میرا کھلونا ہے اور میں نے اپنے کھلونے کو کبھی نہیں توڑا دلاور، ہمیشہ انکی حفاظت کی ہے۔۔ اور دعا۔۔۔ وہ تو میرا پہلا کھولنا ہے میری گڑیا ہے میں نے اپنے حصے میں سے دودھ، اپنی ماں کی محبت اور اپنے باپ کی شفقت تک اس سے بانٹ دی۔۔۔ میں کیسے یہ برداشت کرلوں کوئی اسکا گلا دبا کر مار دے وہ بھی اس گناہ کے لئے جو نہ اس نے کیا ہے نا اسکی ذات سے ہوا ہے۔۔۔ وہ گناہ جس کے ہونے سے اسکی زندگی اجڑی وہ انجان ہے۔۔ مگر اب میں اسے سب سچ بتا دوں گا۔۔۔
ازلان پلیز نہیں۔۔۔ ازلان کی آخری بات پر دلاور نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔۔ میری بہن کی عزت آخری بار رکھ لو کچھ نہیں ملے گا خان زادی کو بتا کر، نا ہی اب وہ شاہ کمال سے لڑ سکتی ہے نا حساب مانگ سکتی ہے اسکی انا اور بھرم بھی ٹوٹ جائے گا اور میری بہن کی عزت کا بھرم بھی کرچی کرچی ہو جائے گا۔۔۔
تم غلط سمجھتے ہو دلاور میری بہن کی انا ٹوٹے گی مگر وہ ادینہ کا پردہ کبھی نہیں توڑے گی میں یہ آخری چانس ادینہ کو دیتا ہوں میں دعا سے کچھ نہیں کہوں گا مگر میں اب ادینہ کو اپنے گھر نہیں لے جا سکتا وہ چاہے تو طلاق لے سکتی ہے۔۔۔ ازلان نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔۔۔
دلاور نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ لیں وہ ادینہ سے ایسی بے وقوفی کی توقع نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ کہ کے وہ ازلان جیسے انسان کے دل میں محبت جگانے کے بجائے بدلے پر اتر آئے گی۔۔۔
*******
بھائی مجھے معاف کردیں ایم سوری مجھے معلوم نہیں مجھے کیا ہوا میں ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔ دعا ازلان کی بہن ہے اور ازلان میرے لئے ابر رحمت ہیں۔۔ میرا پردہ ہیں۔۔ میں نے دعا کی بکس میں شاہ کمال لکھا دیکھا تو برداشت نہیں ہوا۔۔ مجھے نہیں پتا میں نے کیوں اسے مردہ سمجھ کر اس پر تھوک دیا۔۔۔۔ وہ دلاور کے گھٹنے سے لگی رونے لگی۔۔۔ میں سونے جا رہا ہوں تم بھی کچھ کھا کر میڈیسن لو اور سو جاؤ دلاور نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔ وہ ادینہ کو اسکی بیوقوفی کا احساس دلانا چاہتا تھا۔۔۔ اس لئے اس سے خفا رہنا ضروری تھا۔۔
بھائی پلیز کچھ کھا لیں۔۔۔ کھا لئے ہیں میں نے ازلان خان کے جوتے جب تک اسکی بہن کو ہوش نہیں آیا بھگو بھگو کر مجھے مارتا رہا ہے۔۔۔
بھائی آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں۔۔ میں ناراض نہیں ہوں بس تمہاری شکل دیکھ کر مجھے احساس ہوتا ہے میں نے ایک کریمنل کی وکالت کرکے اسے گھر میں پناہ دی ہے۔۔۔ دلاور نے سخت لہجے میں کہا اور اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے مقفل کر لیا۔۔۔ بھائی کھولیں میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔ بھائی پلیز آپکو کیا ہوتا جا رہا ہے۔۔ ادینہ دروازے سے لگی سسکتی رہی۔۔۔
********
ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں لہسن دعا جی پلیز لگوا لیں انجیکشن شان نے شرارت سے کہا۔۔۔۔ سارہ نے مسکراہٹ دبا کر دعا کا بی پی چیک کر کے فائل میں مینشن کیا۔۔۔ کیونکہ وہ دعا کے انجیکشن کی طرف اٹھتی نظر اور بگڑتے تاثرات دیکھ چکی تھی۔۔
ہم یہ نہیں لگوائیں گے تم پھر ہمیں اسی گندے ہوسپٹل میں لے آئے ازلان وہ ازلان پر خفا ہوئی جو معصومیت سے چہرہ ہاتھوں میں گرائے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
میں نہیں لایا آپکو مجھے آپ یہیں ملی تھیں۔۔ وہ سکون سے بولا۔۔۔ دعا نے اسکی بات پر یقین نہیں کیا۔۔ ہم بس یہ نہیں لگوائیں گے۔۔ ڈاکٹر سارا پلیز ہیلپ شان نے کہا۔۔ سارا مسکراتی دعا کے پاس گئی اور اسکی بازو پکڑنے لگی۔۔ چھوڑو ہماری بازو ورنہ ہم گولی چلوا دیں گے۔۔ دعا کی دھمکی پر شان نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔۔۔ تم جانتے نہیں ہمیں ہم گاؤں کی سردارنی ہیں۔۔ ازلان نے بمشکل ہنسی ضبط کی۔۔۔ آپ گاؤں کی سردار ہیں تو ہم ہوسپٹل کے سردار۔۔۔ شان کی بات پر ازلان کو کھانسی لگ گئی۔۔ جبکہ کہ سارہ نے ہنستے دعا کو دیکھا۔۔۔ جو اسے کچا چبا جانے کو گھور رہی تھی۔۔۔ شان نے ہاتھ اٹھائے پھر بولا مس سرادرنی کیا آپ کی شان میں ہم انجیکشن پیش کر سکتے ہیں۔۔۔۔ دعا نے روہانسی ہو کر ازلان کو دیکھا۔۔ ہمیں گھر جانا ہے ازو پلیز ہم ٹھیک ہیں چل کے دکھاؤں دعا اٹھنے لگی۔۔۔ ارے ارے لیٹی رہیں۔۔ سارہ نے اسے سنبھالا جو چکراتے سر کے ساتھ اب شرافت سے لیٹ رہی تھی۔۔۔ بس ختم بہادری ازلان نے ڈپٹا یہ لگوا لو چھوٹا سا ہے ان بچاروں کے اور بھی مریض ہیں۔۔۔ تم ہماری بازو زور سے پکڑ لو دعا نے ازلان سے کہا۔۔۔ شیور۔۔ ازلان نے اسکی زور سے بند آنکھوں کو مسکراتے دیکھا اور دوسرا بازو پکڑ لیا۔۔۔ ڈاکٹر سارہ پلیز شان نے خاموشی سے دعا کے پیروں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ سارا نے مسکراتے انکو پکڑا۔۔۔ شان نے دعا کی بازو جیسے ہی پکڑی تو اسے اپنے ہاتھ دعا کی سفید دودھیا بازو کے سامنے چاند پر داغ لگی۔۔۔ ہائے یہ سردارنی تو گوری ہے واقع گاؤں کی گوری۔۔ شان نے خود سے کہا اور ازلان کا لحاظ کرتے شرافت سے انجیکشن اسکی بازو پر لگانے لگا۔۔۔ اللہ ہمیں بچا لو۔۔۔ دعا نے ڈرتے ہوئے اپنے ناخن شان کی بازو پر مارے اور پیر بھی چھڑوانے لگی۔۔۔ بس بس بس ہو گیا۔۔۔ شان نے اسکا بازو دباتے اطلاع دی۔۔۔۔ تب تک اسکی کالی آنکھیں نیلے پانیوں سے بھر چکی تھیں۔۔۔ چھوڑ دیں اب ہمارا بازو ہمیں ایک سیکنڈ بھی اب گندے ہوسپٹل میں نہیں رہنا۔۔۔ دعا نے خفگی سے کہا۔۔۔ ہمارے لئے بھی یہی بیسٹ ہے۔۔ کیونکہ ڈاکٹرز بلٹ پروو جیکٹس نہیں پہنتے اور میری تو شادی بھی نہیں ہوئی میرے چھوٹے چھوٹے بچے دنیا میں آنے سے پہلے یتیم ہوں جائیں گے۔۔۔ شان نے جس سنجیدگی سے ازلان کو کہا اس کا قہقہہ نکل گیا۔۔
********
سسسی۔۔۔ سارہ شان کے ہاتھ پر ایٹی جیمز گرا رہی تھی جب سنجیدہ سی شکل کے ساتھ دلاور بھی وہیں آیا۔۔۔ کوٹ ٹیبل پر گرا کر موبائل رکھا۔۔ اور اپنی گردن دباتے پوچھنے لگا کیا ہوا اب اسے؟؟ وہ سارہ سے پوچھ رہا تھا۔۔ اس سے کہاں پوچھ رہے ہو مجھ سے پوچھو۔۔۔ وہ دانت پیس کر بولا کل جس فتنے کو تم ہوسپٹل لائے تھے اسی نے اپنے ساری ناخن انجیکشن کے بدلے میرے ہاتھ پر گاڑ دیئے ہیں۔۔۔ اوپر سے دھمکی دی ہے کہ وہ سردارنی ہے اور غریب ہینڈسم پر بھری جوانی میں گولیاں چلوانے کی دھمکی دی ہے اور یہ بھی نا سوچا میرے آنے والے بچے۔۔ منہ بند کرو اپنا دلاور نے غصے سے سخت لہجے میں کہا۔۔ سارہ کے چہرے پر بال گر رہے تھے اس لئے دلاور نے اس کا ہنسی ضبط کرنے میں بے حال ہوتا چہرہ نہیں دیکھا۔۔۔
لگوایا انہوں نے یا نہیں؟ چند منٹ بعد دلاور نے سرسری سہ پوچھا۔۔۔
اوہ ہ۔۔ہ۔ہ۔ہ۔۔۔ سارہ اور شان نے منہ گول کیا۔۔۔ “انہوں نے”۔۔ شان نے دانت کچکچاتے اس کے لفظ کو پکڑا۔۔۔
میں بے غیرت انسان پوچھ سکتا ہے وہ تمہاری کیا لگتی ہے۔۔۔ شان نے میز بجا کر پوچھا۔۔
دلاور سٹپٹا گیا۔۔۔ “مجھے کام ہے” اتنا بول کر وہ اٹھا جب ڈاکٹر جیا بروقت سامنے آئیں۔۔ آپ ایسے نہیں جا سکتے ہم بچاریوں کا دل توڑ کر، اف توڑ دو یہ میری چوڑیاں۔۔ جیا نے نہ پہنی ہوئی چوڑیاں دلاور کے سینے سے کلائیاں مار مار کر توڑیں دلاور کی بھی ہلکی ہلکی ہنسی نکلنے لگ گئی۔۔۔ سنو جیا میری بھی یہ ہری چوڑیاں توڑ دو میرا تو اب محبت سے یقین ہی ختم ہو گیا۔۔۔ سارہ نے اپنے بازو پر پلاسٹک کے بینگلز کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔ شان بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا فورا اٹھا اور سارہ کی کلائی تھام کر بولا اسی سنگ دل اور پتھر انسان کو مارو اور توڑ دو اس ہر جائی کے نام کی چوڑیاں دھو ڈالو یہ سندور یہاں دو اپنا منگل سوتر، شان نے سارہ سے کہا۔۔۔ سارہ نے اپنے گولڈ پینڈل کی طرف دیکھا اور شان کے پھیلے ہاتھ کی طرف اس پر پنچ مار کر بولی زیادہ میسنے مت بنو اتنی بھی مجھے دلاور سے محبت نہیں۔۔
ہائے میرا تو کچھ کرو جیا نے دہائی دی۔۔۔
اسکا یہ کرو اسکے منگیتر کا فون نمبر مجھے دو میں اسے سناؤں اپنی اور اسکی محبت کی داستان دلاور نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔ اللہ مر گئی۔۔ شان کا جیا کے موبائل کی طرف بڑھتا ہاتھ دیکھ کر جیا کی روح فنا ہونے لگی۔۔۔ جہنم میں جاؤ تم دلاور مزاق بھی نہیں سمجھتے۔۔۔
مزاق نہیں مجھے سچ میں تم دونوں سے عشق ہے دونوں سے شادی کروں گا۔۔۔ سارح نے اندر آتے شازیہ کو دیکھا تو دہائی دیتے بولی ہائے دلاور بڑے غلط وقت پر اظہار کیا ہے مجھے ڈاکٹر شان نے پہلے پرپوز کردیا ہے۔۔۔ اب میری اور شان کی منگنی ہونے والی ہے۔۔۔ ڈاکٹر شازیہ وہیں رک گئیں۔۔۔۔ ہاں ہم دونوں دو مہینے سے ڈیٹ کر رہے ہیں شان نے سارہ کے شانے پر بازو پھیلایا جسے سارہ نے بلکل نہیں جھٹکا کیونکہ وہ جانتی تھی شازیہ سب سن رہی ہے۔۔۔ بلکل شان تو پوری پوری رات مجھے فون کرتہ ہے اور بڑی رومینٹک باتیں کرتا ہے۔۔۔ سارا نے شرارت سے کہا اور زرا شان کے اور قریب ہوئی۔۔ جیا کمر پر ہاتھ جمائے دونوں کو گھور رہی تھی۔۔۔ مجھے لگتا تھا ڈاکٹر شان آپ شازیہ کو لائک کرتے ہیں۔۔۔ وہ بھی کوئی چیز ہے لائک کرنے والی تیکھی مرچی۔۔۔ بار بار فیس بک پر بلاک کر دیتی ہے۔۔۔ دلاور نے ہاتھ باندھے سمجھداری سے سر ہلایا کیونکہ اسکا رخ دروازے کی طرف تھا اور وہ شازیہ کا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ چکا تھا۔۔۔ گاڈ بلیس یو۔۔۔ دلاور نے اسکا شانہ تھپتھپایا اور جیا کو گھسیٹتا باہر جانے لگا۔۔۔
گڈ افٹر نون ڈاکٹر شازیہ ۔۔۔ دلاور کی مسکراتی آواز پر شان کرنٹ کھا کر پلٹا اور سارہ کے شانے سے ہاتھ اٹھایا۔۔۔ میں بھی چلتی ہوں بے بی۔۔ سارہ نے شان کے گال پر چٹکی بھری اور شازیہ پر مسکراہٹ اچھالتی باہر نکل گئی۔۔۔
یہ سب مذاق تھا شان نے اپنی صفائی دی۔۔۔
میں نے پوچھا تم سے مذاق تھا یا نہیں۔۔۔ شازیہ کی آواز پر دلاور جیا اور سارہ نے باہر کھڑے اپنے کانوں میں انگلیاں دیں۔۔۔۔
شازیہ آئی سوئیر وہ سب جان بوجھ کر کرکے گئے ہیں۔۔۔۔ اور شازیہ نے اسکا کالر پکڑ کر اسے باہر کیا۔۔۔ شکل بھی مت دکھانا مجھے اپنی۔۔۔ اور دھڑ سے دروازہ بند کر لیا۔۔۔ اور چہرہ ہاتھوں میں گرائے رونے لگی۔۔۔
شان لڑکھڑاتا باہر کوریڈور میں گرا۔۔۔ دلاور سارہ اور جیا کو منہ دبا کر ہنستے دیکھ کر شان نے سر ہاتھوں میں گرایا۔۔۔۔
تمہاری والی میری والی سے زیادہ خطرناک ہے وہ دھمکی دیتی ہے مگر یہ تو عمل کرتی ہے۔۔ دلاور جلتی پر نمک چھڑک کر چلا گیا۔۔۔ ہائے میرا دلاور جیا اسکے پیچھے بھاگی۔۔۔
تو پھر کب بھیج رہو ہو جانو اپنی مما کو سارہ نے مسکراتے کہا۔۔۔ تم سب لوگ فتنے ہو۔۔۔ شان نے دانت پیسے کہا۔۔ اور کھڑے ہو کر اپنے بال درست کئے۔۔۔
چلو اتنا تو پتا چلا آگ دونوں طرف برابر لگی ہے ورنہ دن میں جتنی بار یہ مجھے بلاک مارتی تھی سیدھا دل پر لگتی تھی۔۔ تھینک یو بے بی۔۔ شان نے ممنون ہوتے سارہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے چومنے لگا۔۔۔ اف گھٹیا شخص شوخے۔۔۔۔ سارا نے بروقت ہاتھ کھینچ لیا۔۔۔ اچھا ہوا تمہارے ساتھ اسی کے قابل ہو۔۔۔ یاد رکھنا سارہ تمہیں میں اپنی دوسری بیوی بنا کر چھوڑوں گا۔۔ مر جاؤ تم۔۔۔ وہ ناگواری سے کہتی چلی گئی۔۔۔ شان نے ایک نظر سٹاف روم کے بند دروازے کو دیکھا اور فلائی کس اس طرف اچھالتے وہ بھی چلا گیا۔۔۔
*******
بھائی کھانا کھا لیں۔ ادینہ نے دلاور کو فریش ہو کر نیچے آتے دیکھ کر کہا۔۔
تم کھا لو مجھے بھوک نہیں ہے میں لیٹ آؤں گا اور باہر سے کچھ کھا آوں گا۔۔ ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا اور بنا اسکی طرف دیکھے چابی لئے باہر نکل گیا۔۔
ادینہ نے غصے سے پانی کا جگ زمین پر پھینک دیا۔۔۔ تم بری ہو دعا بہت بری ہو، تم نے مجھ سے سب چھین لیا میری محبت میرا بھائی میرا مان سب کچھ تم بری ہو۔۔۔۔ بہت بری ہو۔۔۔۔ ادینہ روتے ہوئے ماضی کی طرف چلی گئی۔۔۔
********
اپنی جینز پر شارٹ شرٹ پہنے ادینہ نے گلے سے سکارف لیا تھا اپنے اڑتے ہوئے کٹے بال پونی میں نے بند کرتے وہ کلاس میں آتے شاہ کمال سے ٹکرائی۔۔۔ ایم سوری شاہ کمال نے معذرت کرتے کہا۔۔۔ اٹس اوکے ادینہ نے ایک مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی۔۔۔ اور زمین پر بیٹھ کر اسکے ساتھ شاہ کمال کی چیزیں اکھٹی کرنے لگی۔۔ آپ رہنے دیں میں کر لوں گا۔۔۔ اٹس اوکے سردار جی ادینہ نے مسکرا کر کہا۔۔۔ اور شاہ کمال کے جھینپتے ہوئے تاثرات دیکھ کر ہنس دی۔۔۔
اوہ تو ہمارے سرادر شرماتے بھی ہیں۔۔ اور شاہ کمال کے دلکش سراپے کو نظروں کے حصار میں لیتی بولی۔۔
وہ بس ایسے ہی یہاں شہر میں کبھی کسی نے کہا جو نہیں۔۔ شاہ کمال نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اپنی چیزیں اس سے لیں۔۔ اوکے میں چلتا ہوں وہ مروت میں مزید مسکراتا اندر چلا گیا۔۔ ادینہ کا ہاتھ بے اختیار دل کی تیز ہوتی دھڑکن تک گیا۔۔۔
مار دیا ظالم نے۔۔۔ ادینا اپنی سرگوشی پر ہنستی اسکے ساتھ باہر چلی گئی۔۔۔
دو دن بعد۔۔۔۔۔
وہ یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں فٹ بال میچ کھیل رہا تھا۔۔۔ ادینہ کی نظر اسکے پیسنے میں شرابور کسرتی بازوؤں تک گئی۔۔۔ کبھی وہ اسکی گندمی رنگت اور دلکش چہرے کو دیکھتی۔۔۔
تالیوں کی آواز پر وہ ہوش میں آئی میچ ختم ہو چکا تھا شاہ کمال نے جیت سے سرشار اپنے لمبے بالوں سے پسینہ جھٹکا۔۔ اور بہت سے لڑکوں نے نارہ لگاتے اسے اٹھا لیا۔۔۔
ادینہ بس خوشی سے اپنے ہاتھ اٹھائے مگر شاہ کمال کے چاہنے والوں کا اتنا رش تھا کہ اسے ادینہ کے وہاں ہونے کی خبر بھی نہ تھی۔۔
********
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...