“السلام علیکم اموجان ” کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نےاونچی آواز میں کہا اموجان نے حیرت سے سر اٹھا کر آنے والے کو دیکھا
“رانی تم “وہ اٹھ کر سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں اور اپنے پاس جگہ دیتے ہوئے بولیں “آؤ بیٹھو ” وہ مسکراتے ہوئے ان کے پہلو میں ٹک گئی
” کمرے میں اکیلے رہ رہ کر اکتا گئی تھی سوچا آپ کے پاس بیٹھ کر باتیں کر لوں ” وہ دھیمے دھیمے انداز میں کہتی انہیں بہت اچھی لگی
“اچھا کیا،،، میں بھی اکیلی پڑی رہتی ہوں آجایا کرو تم یہاں میرا دل بہل جایا کرے گا ”
“جی کیوں نہیں پر آپ اکیلی کیوں ہوتی ہیں ” وہ حیرانی سے پوچھنے لگی
“ہاں بوڑھے ہو گۓ ہیں نا اور بچے جوان… ان کی ترجیحات بدل گئی ہیں “بات کرتے کرتے انکی نظر دروازے میں کھڑی اریکہ کی طرف اٹھی تو وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسکی طرف متوجہ ہوگئیں
“آؤ اریکہ وہاں کیوں رک گئیں “رانی نے بھی گردن موڑ کر دیکھا پنک پرانےسوٹ میں ہم رنگ بڑی سی چادر لیے وہ سہمی سی کھڑی تھی
“وہ میں یہ دودھ دینے آئی تھی ”
“یہ کون ہے “دودھ رکھ کر وہ جانے لگی تو رانی کے سوال پر نہ چاہتے ہوئے بھی رک گئی
“یہ . . ” امو جان کو سمجھ نہ آئی کہ کیسے بتائیں “یہ بھی راجہ کی بیوی ہے ”
“کیا ـ ـ ” رانی اچھل پڑی “مگر وہ تو عروسہ بیگم ـ ـ ”
“ہاں وہ بھی ہے ” امو جان نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اسے بتایا
“جاؤ اریکہ تم آرام کرو تھک گئی ہو گی “رانی کے کچھ کہنے سے پہلے انہوں نے اریکہ کو منظر سے ہٹا یا اور رانی کا ہاتھ پکڑ کر پاس بٹھاتے ہوئے بولیں “اس میں اتنا حیران ہونے والی کون سی بات ہے اریکہ ایک بے ضرر سی لڑکی ہے اس سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ”
“یعنی عروسہ بیگم کی طرف سے پہنچ سکتا ہے ” وہ شرارت سے ہنسی اس کے ہلکے پھلکے انداز پر امو جان بھی مسکرا دیں
* * * * * * * * * *
وہ ندی کے کنارے بیٹھا پانی کو بڑی محویت سے دیکھ رہا تھا جب اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کسی نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا اس نے گردن موڑ کر آنے والے کو دیکھا اور پھر بے نیازی سے گردن موڑ لی “کیوں آئی ہو تم یہاں ؟؟”اس کے تلخ لہجے کو نظرانداز کرتی وہ اس کے ساتھ بیٹھ گئی
“تم سے ملنے ـ ـ کیا اب بھی نہ آتی ”
” ہاں نہ آتی کیوں آئی ہو اب ؟؟”اس نے اپنا سوال دہرایا آواز اب کی بار تیز تھی ماہا نے کوئی جواب نہ دیا وہ اسے حق بجانب سمجھتی تھی
“اگر تمہارے بھائی کو پتہ چلا تو جانتی ہو کیا ہو گا نہیں تم جان ہی نہیں سکتی وہ درد وہ اذیت جو چار سال قید میں رہ کر میں نےجھیلی ہیں ”
اس کی طرف دیکھ کر وہ دل کی بھڑاس نکال رہا تھا ماہا کی آنکھوں میں آنسو آگۓ کتنا مجبور کر دیتی ہے یہ محبت بھی
“میرا کیا قصور ہے اس سب میں مجھے تو پتا بھی نہیں تھا کہ بھائی نے ایسا کیا ہے ”
“اچھا اب تو پتا لگ گیا ناکیا کر لیا اب تم نے کچھ بھی نہیں ہونہہ ـ ـ یہ سب باتیں ہیں مشغلہ ہے محبت تم بڑے لوگوں کا جاؤ چلی جاو یہاں سے ” وہ طنزًا بولا اور اسکی طرف سے رخ پھیر گیا
“نہیں میں سچ میں محبت کرتی ہوں تم سے سجاول یقین کرو میرا ” اسکے رونے میں تیزی آگئی
“اچھا کیا کر سکتی ہو میرے لیے ” وہ براہ راست اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھنے لگا
“جو بھی تم کہو سب کچھ کرنے کو تیار ہوں مگر تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی ” وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی
“سوچ لو ایک بار ”
“میں سوچ کر ہی یہاں آئی ہوں ”
“محت قربانی مانگتی ہے ماہا قربانی کے بغیر محبتیں نہیں ملا کرتیں تمہارے بھائی نے اپنی محبت کو پانے کے لیے مجھے آزادی دے دی یہ الگ بات ہے کہ اس محبت سے اسکا دل بہت جلد بھر جائے گا ” اب کے اس کا لہجہ نرم تھا
“تم مجھے کبھی بھی محبت کی آزمائیش میں پیچھے نہیں پاو گے ” اسکا لہجہ مضبوط تھا
” تو ٹھیک ہے میرے ساتھ چلو یہاں سے بہت دور جہاں ہم دونوں ہوں گے یہ ظالم سماج اور تمہارا چنگیز بھا ئی نہیں ہو گا بولو چلو گی میرے ساتھ ” وہ اس کا ہاتھ تھامے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بڑی محبت سے کہہ رہا تھا اور اسے یوں لگ رہا تھا کسی نےاس کے جسم سے حان نکال لی ہو وہ ہاتھ چھڑا کر بھاگتے ہوئے وہاں سے نکل گئی سجاول پر سوچ نگاہوں سے اسے تکتا ہوا سر جھٹک کر اٹھ کھڑا ہوا
* * * * * * * * * * *
“میں پوچھتی ہوں تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے کمرے میں جانے کی ” آملہ بیگم کی تیز آواز حویلی میں گونجی سب بھاگ کر اپنے کمروں سے نکل آۓ آج پھر ایک تماشہ ہونے والا تھا
“آـ ـ آپ نے کہا تھا جانے کو “اریکہ نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے بس اتنا ہی کہا تھا کہ منہ پر پڑنے والے تھپڑ سے دور جا گری
“ذلیل عورت تو نے موقع دیکھتے ہی میرا قیمتی سیٹ اٹھا لیا شرم نہ آئی تجھے ” آملہ بیگم کے منہ سے مغلظات نکلنے لگے
“نہ ـ ـ نہیں میں ایسا نہیں کیا قسم سے میں نے نہیں اٹھایا “وہ صفائی دینے لگی
“سچ بتا سچ “وہ ملازمہ کے ہاتھ سے ڈنڈا لیتے ہوئے بولیں اریکہ نے اپنے سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیری “میں ـ ـ سچ کہہ رہی ہوں ”
“تو تمہارا مطلب چچی جان جھوٹ بول رہی ہیں”عروسہ بیگم نے آگ لگانے والے انداز میں پوچھا مگر جواب اریکہ کی بجائے دوسری طرف سے آیا تھا
“جی ہاں بالکل ٹھیک کہا آپ نے آپ کی چچی جان جھوٹ بول رہی ہیں “آواز کے تعاقب میں سب نے سر اٹھا کر حیرت سے سیڑھیوں کی طرف دیکھا جہاں انار کلی فراک پر بڑے سٹائل سے دوپٹہ سر پر لیے رانی کھڑی تھی آملہ بیگم کی آنکھیں حیرت سے پوری کی پوری کھل گئیں
“تم تم تمہاری اتنی ہمت کہ تم مجھے جواب دو “مارے غصے کہ ان سے پوری بات کرنا مشکل ہو گیا مگر رانی کے اطمینان میں کوئی فرق نہ آیا وہ بڑے آرام سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی اور جھک کرزمین پر گری اریکہ کو سہارا دے کر اٹھانے لگی اس حرکت پر تو آمکہ بیگم کو صحیح معنوں میں آگ لگ گئی
“اے لڑکی ہمارے معاملے سے دور رہ تیری اتنی اوقات نہیں کہ ہم تیرے منہ لگیں چل ہٹ ” وہ انگلی اٹھا کر غرائیں اور اسے بازو سے پکڑ کر دھکا دیا
رانی نے بڑے آرام سے انکا ہاتھ پکڑ کر جھٹکا اور استیزائیہ انداز میں ہنسی
“آپ کو کیا لگتا ہے ہم آپ سے بات کرنے کے لیے آۓ ہیں ہا ہا نہیں آملہ بیگم ہم تو آپ کو حقیقت بتانے آۓ ہیں “وہ شاہانہ انداز میں بولی اور ساتھ ہی گلے سے دوپٹہ ہٹا دیا آملہ بیگم کا منہ کھل گیا عروسہ بیگم کی حالت بھی کم و بیش ایسی ہی تھی اس کے گلے میں وہی ہیرے کا سیٹ جگمگا رہا تھا
“وہ کیا ہے نا ہمیں یہ پسند آگیا تھا تو ہم نے لے لیا آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں نا ” وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاکر بولی
“تم،،، تمہیں میں زندہ نہیں چھوڑوں گی “آملہ بیگم کا بس نہ چل رہا تھا وہ غصے سے اسکی طرف بڑھیں
“یہیں رک جائیں “رانی نے ہاتھ اٹھا کر اونچی آواز میں کہا آملہ بیگم قدم روک کر اسےدیکھنے لگیں
“آگے مت بڑھیے گا ورنہ میں بھول جاوں گی کہ آپ سے میرا کیا رشتہ ہے ”
“تم شاید جانتی نہیں تم کس سے بات کر رہی ہو ” آملہ بیگم کا غصہ پھر عود آیا تھا
“بیٹا تم اندر چلو ” امو جان نے بات بڑھتے دیکھ کر کہا
“اچھا کس سے بات کر رہی ہوں ؟؟؟” وہ بازو سینے پر باندھ کر آرام سے بولی
“ہم مالک ہیں یہاں کے جب دل چاہے اٹھا کر باہر پھینک دیں ” آملہ بیگم نے فخریہ گردن اکڑا کر بتایا
“اونہہوں …. اپنی یہ غلط فہمی دور کر لیں آپ مالک نہیں مالک ہم ہیں یہا ں کہ “اس کی بات پر جہاں آملہ بیگم کو سانپ سونگھ گیا وہاں اموجان نے بھی حیرت سے سر اٹھا کر دیکھا
“اگر یقین نہ آۓ تو راجہ سے پوچھ لیجیے گا “نرمی سے کہتے ہوئے وہ یکدم غصے سے بولی
“اور ایک بات کان کھول کر سن لیں دوبارہ ہم سے اس لہجے میں بات مت کرئیے گا ورنہ ہم آپ کو اٹھا کر باہر پھینکنے کی صرف دھمکی نہیں دیں گے بلکہ ایسا کر گزریں گے ”
انگلی اٹھا کر سختی سے کہتی وہ انہیں ساکت کر گئی کتنے ہی لمحے وہ کچھ بولنے کے قابل ہی نہ رہیں اور جب ہوش آیا تو وہ اریکہ کا ہاتھ تھامے وہاں سے نکل گئی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...