وہ شیشے کے سامنے کھڑی تیار ہورہی تھی آزر نے اس آفس سے کال کر کے کہا تھا وہ لوگ رات کو ڈنر مہرین کے گھر کرینگے۔
بلیک امریلا فراک زیب تن کئے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
بالوں کو اسٹریٹ کرکے اس نے کھلا چھوڑا۔
اور آنکھوں پہ اسموکی میک اپ کر کے ہونٹوں پر لپ گلاس لگایا۔
وہ صبح آزر کی حرکت کے بارے میں سوچ رہی تھی اور اس کے ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ تھی۔
“نہ جانے میں آذر کی کا سامنا کیسے کروں گی وہ تو ابھی آتے ہی ہونگے” آزر کے بارے میں سوچتے ہوئے اسے گھبراہٹ ہونے لگی۔
“السلام علیکم تیار ہوگئ آ۔۔۔ “آزر بولتے ہوئے روم میں انٹر ہوا اور اس کی طرف دیکھ کر چونک گیا۔
وہ حشر سامانیوں کے ساتھ کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
وہ بے خودی میں آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگا۔
فریحہ نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا تو گھبراتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ ملنے لگی۔
وہ آہستہ سے اس کے پاس آیا اور بے خودی سے اسے دیکھنے لگا اس نے آہستہ سے فریحہ کے چہرے میں آئے ہوئے بال کو پیچھے ہٹایا اور آہستہ سے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا۔
جہاں پر فریحہ نے گھبراتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کیں۔
“بہت خوبصورت لگ رہی ہو ! تم میرا وعدہ توڑنے پر تلی ہو “آزر نے مخمور انداز میں بولتے ہوے اسکی بند آنکھوں کو دیکھا۔
اسے ریحہ کے چہرے میں گھبراہٹ صاف نظر آرہی تھی۔
“چ۔۔۔چھ۔۔ڑ۔۔۔ے۔۔۔م۔۔۔”وہ گھبراتے ہوئے اٹک کر بولنے لگی جب آزر نے اس کے ہونٹوں میں اپنی انگلی رکھی اور اسے چپ کرایا۔
آزر نے آہستہ سے اس کے نرم ہونٹوں سے اپنی انگلی ہٹائی اور اس کے چہرے پر جھک گیا۔
ریحہ کی سانسیں اٹکنے لگی تھی وہ اس کے سینے میں ہاتھ رکھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
لیکن وہ پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا ریحا نے زور سے اسے پیچھے کی طرف دکھیلا۔
وہ پیچھے ہوتے ہوئے لڑکھڑایا اور اس نے انگلی سے اپنے ہونٹوں کو چھوا۔
آزر کے ہونٹوں پہ بے خودی سے مسکراہٹ پھیل گئی اس نے فریحہ کو واپس اپنے قریب کیا۔
اور اس کے چہرے پر واپس بے خودی سے جھکنے لگا۔
“میں نے آپکو کہا ہے نہ مجھے چھوڑے”ریحہ ایک دم غصے میں آ گئی اور اسے پیچھے کی طرف دھکا دیتے ہوئے الٹے ہاتھ کا ایک تھپڑ منہ پہ مارا۔
وہ ایک دم شاک میں آگیا اور اپنے چہرے پہ ہاتھ رکھ کر حیران ہو کر اسے دیکھنے لگا۔
جہاں ریحہ تھپڑ مارنے کے بعد ڈر گئی تھی اور شاک میں تھی۔
“و۔۔وہ۔۔گ۔۔ل۔۔۔”وہ گھبراکراٹکتے ہوئے بولی۔
“میرے کپڑے نکالو “وہ غصے سے اس کی بات سنے بغیر بولتے ہوے سیدھا واشروم کی طرف گیا۔
وہ جلدی سے اس کے پیچھے گئی لیکن تب تک وہ اندر جا چکا تھا۔
“یہ میں نے کیا کر دیا ان کو تھپڑ مار دیا “وہ پریشانی سے خود سے بولی۔
اور الماری سے آزر کے لیے کپڑے نکالنے لگی۔
***
وہ اس وقت ٹیرس میں کھڑی فرحان سے کال میں باتیں کررہی تھی۔
“تم گھر کب بات کروگے ہمارے بارے میں”سارہ نے ناراضگی سے پوچھا۔
“کیوں ایسی بھی کیا جلدی آگئی”فرحان سمجھ گیا تھا سارہ کو کچھ نہیں پتا اسلئے شرارت سے بولا۔
“جلدی؟فرحان میرے رشتے آنے لگے ہیں اب”وہ غصے سے بولی۔
“دیکھو یار ابھی میں کیسے بات کروں گھر ابھی تو میں پڑھ رہا ہوں کمپلیٹ بھی نہیں ہوئی اور میں کوئی جاب بھی نہیں کرتا کہ تمھاری زمداری اٹھا پاؤں “وہ اپنی آواز میں سنجیدگی لاتے ہوئے بولا۔
“سیدھا بول دو نا میرے ساتھ ٹائم پاس کررہے تھے”وہ غصے سے بولی۔
“یہی سمجھ لو”وہ پھر شرارت سے بولا۔
“فرحان….”وہ شاک میں رہ گئی۔
“ہاں بولو”وہ اپنے لہجے میں بے زاری لاتے ہوئے بولا۔
“تو کیا بچپن سے لے کر آج تک میرے ساتھ ٹائم پاس نہیں کر رہے تھے اور میں سمجھتی رہی کہ تم مجھ سے پیار کرتے ہو محبت کرتے ہو بڑا پچھتاؤ گے “وہ ایکدم روتے ہوئے بولی۔
“ارے ارے تم تو رونے ہی لگ گئی مذاق کر رہا تھا میں”وہ اس کے رونے کی آواز سن کر گھبراتے ہوئے بولا۔
“اگر مذاق کر رہے ہو تو سیدھا گھر میں بات کرو میں کچھ نہیں جانتی”وہ روتے روتے بولی۔
“ارے بابا کر چکا ہوں آج مامااسی وجہ سے تمہارے گھر آئی تھی تم ہی انجان ہو”غرور مسکراتے ہوئے بولا۔
“تم۔۔۔تمہیں تو میں دیکھ لونگی”سارہ دبے دبے غصے سے بولی۔
“مجھے تو تمہیں پوری زندگی دیکھنی ہوگی “وہ جوابن بولا۔
“میں تمسے بات نہیں کرونگی اب “وہ ناراضگی سے بولی۔
“مجھے اب ‘ تم’ بولنا بند کرو پانچ سال بڑا ہوں تم سے “وہ روعب جھاڑتے ہوئے بولا۔
“نہیں بولونگی”وہ دوبدو بولی۔
“کیوں نہیں بولوگی میں مارونگا اگر مجھے ‘آپ’ نہیں بولا تو”وہ ناراضگی سے بولا۔
“آپ مجھے مارینگے؟”وہ رونے والی آواز سے بولی۔
“نہیں مارونگا لیکن ناراض ہوجاونگا”وہ پیار سے بولا۔
“اچھا میں اب تمہیں آپ بولنے کی کوشش کرونگی”وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
“آئی لو یو سارہ “وہ محبت سے بولا۔
“آئی لو یو ٹو “وہ بھی شرمیلہ انداز میں بولی۔
“نجانے کب ہماری شادی ہوگی”وہ خیالوں میں گم ہوتے ہوے بولا۔
“انشاءاللہ ہوجائیگی “اسنے جوابن کہا۔
دونوں بات کرنے میں مصروف ہوگئے تھے۔
***
مہرین کا گھر آچکا تھا ریحہ کے اترنے پر آزر نے گاڑی کو لاک کیا اور اسکا انتظار کئے بغیر خاموشی سے اندر میں چلا گیا۔
فریحہ اسکو جاتا دیکھنے لگی اسنے بھی آہستہ سے اپنے قدم آگے بڑھا دیئے۔
“اسلام علیکم آپی”آزر نے انکو سلام کیا اور صوفے میں بیٹھا۔
“وعلیکم السلام آگئے تم لوگ”مہرین نے انکو دیکھا تو مسکرا کر بولی۔
“ظاہر سی بات ہے اب ہمارا بھوت تو نہیں ہے یہ”آزر نے ہلکے سے مسکرا کر کہا۔
ریحہ نے صوفے میں بیٹھتے ہوئے اسکی طرف دیکھا۔
“انکا موڈ تو اب اچھا لگ رہا ہے ابھی تو ناراض لگ رہے تھے”اسنے آزر کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
“کیسی ہو فریحہ”مہرین نے اس سے پوچھا۔
“جی ٹھیک ہوں آپ کیسی ہو”اسنے بھی انکا حال دریافت کیا۔
“میں بھی ٹھیک ہوں ! جاؤ رانی انکے لئے جوس لیکر آؤ”مہرین نے اسے جواب دیتے ہوئے اپنی نوکرانی سے کہا۔
“جی ابھی لیکر آتی ہوں”وہ بولتے ہوئے کچن میں چلی گئی۔
“نیشا کہا ہے نظر نہیں آرہی؟”آزر نے نیشا کے بارے میں پوچھا وہ نظر نہیں آرہی تھی۔
“وہ زرا بچوں کو تیار کررہی ہے “مہرین نےاسے بتایا۔
“اچھا”وہ مختصر سا بولا اور مبائل چلانے لگا۔
اتنے میں رانی جوس اور نمکو وغیرہ لے آئی۔
“یہ لو کھاؤ “مہرین کو کے پلیٹ ان دونوں کے سامنے کیا۔
“ہم سوچ رہے ہیں تمہاری شادی کے بعد کہیں گھومنے نہیں گئے تو کیوں نہ ہم یہاں سے کل کہیں گھومنے چلے جائیں تم دونوں رات یہی رک جاؤ”مہرین نے آزر سے کہا۔
“نہیں میرا کل ایک ضروری میٹنگ ہے وہ اٹینڈ کرنی ہے میں نہیں جا سکتا “آزر نے منع کرتے ہوئے کہا۔
“تم صبح آفس چلے جانا اور شام تک آ جانا ہم یہاں سے نکلیں گے تھوڑا گھوم پھر لیں گے اچھا لگے گا “مہرین نے پھر سے کہا۔
“اچھا ٹھیک ہے میں تو کھانا کھاکے گھر چلا جاؤں گا ریحہ تم لوگوں کے ساتھ رہے گی”آزر نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بے فکری سے کہا۔
ریحہ تضبب کا شکار ہوتے ہوئے اس کی طرف دیکھا وہ رکنا نہیں چاہتی تھی۔
“یہ صحیح رہے گا تم ہمارے ساتھ رہو کل ہم باہر گھومنے جائیں گے آزر بھی آفس سے یہی آجائے گا”مہرین نے ریحہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
“جی ٹھیک ہے “وہ جو سوچ رہی تھی آذر کو گھر جا کے منائیگی ان کی بات پر ناچار آہستہ سے سر اثبات میں ہلایا۔
” السلام علیکم بھائی ، بھابی “نیشانے بچوں کے ساتھ سیڑھیوں سے اترتے ہوئے سلام کیا۔
“وعلیکم السلام تم تو یہی کی ہو کے رہے گی گھر بھی نہیں آتی “آزر نے شکوہ کرتے ہوئے کہا۔
“اصل میں یونیورسٹی جاتی ہوں پھر یہی آ کے کھانا کھا کے آرام کرتی ہوں پھر پڑھائ شروع کرتی ہوں اس لیے ٹائم ہی نہیں ملتا کہ گھر جاپاؤں “نیشا صوفے میں بیٹھے ہوئے تفصیل سے بتانے لگی۔
اس کی بات پر آزر نے سر ہلایا اور وفا کو اٹھا کر اپنی گود میں بٹھایا۔
“ماموں مجھے کھلونے چاہیے “آریان نے اس سے فرمائش کرتے ہوئے کہا۔
“آریان بیٹا غلط بات ہے ماموں ابھی آئے ہیں اور تمہارے پاس اتنے سارے کھلونے ہیں پھر بھی ان سے مانگ رہے ہو”مہرین نے اپنے دوسرے بیٹے کو ڈپٹتے ہوئے کہا۔
“آپی کوئی بات نہیں میں ان کو کھلونے دلا کر آتا ہوں چلو بچوں”وہ بولتے ہوئے اٹھا۔
“ارے چھوڑو ان کے پاس بہت سارے کھلونے ہیں بیکار میں تمہیں تنگ کر رہے ہیں”مہرین نے اپنے بچوں کو گھورتے ہوئےآزر سے کہا۔
“انکے پاس ہونگے لیکن میں اپنی خوشی سے دلانا چاہتا ہوں “وہ مسکرا کر بولا۔
“اچھا ٹھیک ہے جلدی آ جانا”مہرین نے بھائی کی محبت دیکھ کر کہا۔
“چلو بچوں سب آ جاؤ “وہ سب کو ساتھ لے کر باہر چلا گیا۔
“تم بتاؤ تم کیا کرتی ہو سارا دن گھر پہ”مہرین نے ریحہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
“ک۔۔۔کچھ نہیں ان کا آفس میں جانے کے بعد سارا دن ہو رہی ہوتی ہوں “وہ آہستہ سے بولی۔
تینوں ایک دوسرے سے بات کرنے میں مصروف ہوگئے۔
***
فریدہ بیگم رات کے کھانے کے لئے سبزی کاٹنے میں مصروف تھیں۔
“ماما نے آپ سے ایک بات پوچھوں “سارہ نے ان کے پاس آکر پوچھا۔
“ہاں بولو کیا پوچھنا ہے “انہوں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
“آپ غصہ تو نہیں کریں گی “وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔
“تم بولو تو سہی “انہوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
“آج خالہ کس لئے آئی تھیں “ان کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔
فریدہ بیگم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
“تمہیں فرحان نے بتایا ہوگا کیا تم نہیں جانتی “فریدا بیگم نے گھورتے ہوئے اس سے پوچھا۔
“ج۔۔۔جی۔۔۔جانتی ہوں “وہ ڈرتے ہوئے بولی۔
“تو پھر مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو جب سب جانتی ہو”انہوں نے سخت لہجے میں کہا۔
“آپ نے کیا کہا ان کو”اس نے ان سے پھر پوچھا۔
“یہ بھی جا کے فرحان سے پوچھ لو کیا جواب دیا میں نے ان کو”وہ سخت لہجے میں بولیں۔
“ماما آپ ایسے کیوں بات کر رہی ہیں”وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔
“کیونکہ مجھے زوہا نے سب بات بتائا ہے تمہارا اور فرحان کے بیچ کیا چل رہا ہے”انہوں نے گھورتے ہوئے کہا۔
“تو کیا ہوا ہے شادی تو کرنا چاہتے ہیں نہ ہم اور تائی خالہ نے بھی بات کرلی اس بارے میں “ان کی بات سن کر ایک پل کے لیے وہ ڈر گئی تھی پھر ہمت کرکے بولی۔
“پہلے تو میں ان کو منع کرنا چاہتی تھی کیونکہ فرحان ابھی کوئی جاب نہیں کرتا ایسے کیسے اپنی بیٹی اس کے ہاتھوں میں دیدوں لیکن زوہا کی بات سن کر میں نے تمہارے باپ سے بات کرکے اس ڈر سے ہاں کر دی کہیں آگے جا کے کوئی مسئلہ نہ ہو جائے جو ہمارے بدنامی کا سبب بنے”انہوں نے سخت لہجے میں کہا۔
ان کی بات سن کر اسے غصہ آیا لیکن خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔
“جاؤ جا کر کام کرو مجھ سے پھر فضول سوالات نہ پوچھا کرو”انہوں نے غصے سے اسے کہاوہ خاموشی سے ان کے سامنے سے چلی گئی۔
***
رات کا ڈنر کرنے کے بعد آزر گھر چلا گیا تھا اور ریحہ نے نیشا کے ساتھ اس کے روم میں رات گزاری۔
پھر صبح ناشتہ اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ آرام کرنے لگے تاکہ شام کو فریش موڈ کے ساتھ گھوم پھر سکے۔
شام ہونے کے بعد وہ لوگ تیار ہونے لگے اور آزر کے آنے پر سب جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئے۔
ایک دو گھنٹے کے سفر کے بعد وہ پورٹ گرینڈ پہچ چکے تھے۔
“جاؤ تم دونوں اکیلے گھوم پھر لو تم دونوں کی نئی شادی ہوئی ہے کباب میں ہڈی نہیں بن سکتے ہم”مہرین نے پارک میں انٹر ہونے کے بعد ہنستے ہوئےآذر سے کہا۔
نہیں ہم یہی ٹھیک ہیں آپ لوگوں کے ساتھ”وہ جو سمجھ رہی تھی آزر مان جائگا اسکی بات سن کر چونک کر اسکی طرف دیکھا۔
وہ اس سے بات تک نہیں کررہا تھا اگنور کرنے میں مصروف تھا۔
“نہیں نہیں جاؤ تم دونوں “مہرین نے انکے بیچ دراڑ محسوس کی تھی اسلئے انکو اکیلے میں بھیجنا چاہتی تھی۔
اسکی بات سن کر ریحہ جھٹ کھڑی ہوگئی تھی تاکہ آزر اور کوئی ایکسکیوز نا کرپائے۔
وہ لوگ اک جگہ میں بیٹھ چکے تھے۔
“تم لوگ یہیں آجانا آخر میں ہم بھی یہیں ملینگے “مہرین نے ان سے کہا۔
“ٹھیک ہے آپی”آزر کہتے ہوئے اٹھا اور ریحہ کا انتظار کئے بغیر آگے بڑھ گیا۔
فریحہ جلدی جلدی اسکے قدم سے قدم ملانے کی کوشش کرنے لگی۔
“ان دونوں کے درمیان کچھ ہوا ہے شاید بھائی ناراض سے لگ رہے ہیں بھابھی سے”نیشا نے مہرین سے کہا۔
“ہاں میں نے تو کل سے اندازہ لگایا تھا اسلیئے گھومنے پھرنے کا پلین بنایا تاکہ دونوں اک دوسرے کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرسکے”مہرین نے وفا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
اچھا کیا آپ نے اسی بہانے ہماری مستی بھی ہوجائیگی “نیشا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“ہاں! چلو اس طرف چلتے ہیں “مہرین نے بچوں کے گیم کی طرف اشارہ کیا۔
بچے بھی کافی خوش لگ رہے تھے بہزاد مصروفیت کی وجہ سے انکے ساتھ نہیں آئے تھے۔
***
“سنیں میرے لئے تو رکیں”وہ اسکے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے پھلے سانسوں کے ساتھ بولی۔
اسکی بات پر آزر نے غصے سے مڑ کر اسکی طرف دیکھا تھا اور اپنی رفتار دھیما کردیا۔
فریحہ نے جلدی سے اسکے پاس پہنچ کر حق سے اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنی انگلیاں آزر کے انگلیوں کے ساتھ پھنسائیں۔
“چھوڑو میرا ہاتھ”آزر نے غصے سے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔
“نہیں چھوڑوں گی”اسنے چلتے چلتے اپنا سر اسکے کندھے سے ٹکا دیا اور ضدی لہجے میں بولی۔
اسکی بات سن کر آزر نے اک نظر غصے سے اسے دیکھا اور خاموشی سے چلنے لگا۔
“نجانے مجھے کیا ہوگیا ہے انکی ناراضگی برداشت نہیں ہوتی دل کرتا ہے ان کے ساتھ ہی رہوں ان کا چھونا بھی اچھا لگتا ہے کہیں مجھے انسے پیار؟ نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا یہ بس اٹریکشن ہے اور کچھ نہیں”اسنے اپنی سوچ کو نفی کردی تھی۔
“نجانے مجھے کل کیا ہوگیا تھا میں نے غصے میں تھپڑ مار دیا اب کیسے بھی کرکے ان کو منانا پڑے گا “ریحا چلتے چلتے سوچنے لگی۔
“تم یہاں بیٹھو میں کھانے کے لیے کچھ لے آتا ہوں”آزر نے اسے چیئر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“ن۔۔۔نہیں میں آپ کے ساتھ جاؤں گی کہیں آپ مجھے یہاں چھوڑ کر بھاگ گئے تو”وہ مزید اس سے چھپکتے ہوئے منہ پھلا کر بولی۔
“میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر جاؤں گا پاگل ہوں میں “اس کی بات پر آزر نے غصے سے اسکی طرف دیکھکرکہا۔
“آپ کا کیا بھروسہ ہے ویسے بھی میں آپ کو زہر لگنے لگی ہوں اب “وہ ناراض لہجے میں بولی۔
“کس نے کہا تم مجھے زہر لگنے لگی ہو”اس نے گھورتے ہوئے پوچھا۔
“جس طرح اپ مجھے کل سے اگنور کررہےہیں نہ اس سے صاف پتا چل رہا ہے “وہ منہ پھلاکر بولی۔
“اور جو تم نے میرے پیار کرنے پر تھپڑ مارا وہ کیا تم نے بہت اچھا کام کیا تھا”وہ اسکے ساتھ بیٹھتے ہوے ناراضگی سے بولا۔
“آپ بھی تو مجھے سانس لینے نہیں دے رہے تھے کتنے زور سے میرے ہونٹوں کو۔۔۔”وہ جلدی سے بولنے لگی اور جب احساس ہوا وہ کیا بول رہی ہے تو شرما کر چپ ہوگئی۔
“کیا کیا ہے میں نے تمہارے ہونٹوں کو”وہ اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے لہجہ سخت کرتے ہوئے بولا۔
“و۔۔۔و۔۔۔وہ آپ۔۔۔کچھ لے کر آئیں کھانے کے لئے”وہ گھبراتے ہوئے بات نا کر بولی۔
“ٹھیک ہے تمہیں ساتھ میں چلنا ہے تو چلو”وہ اس کا شرم سے لال چہرہ دیکھتے ہوئے اٹھا اور اس سے کہا۔
“نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں “وہ اپنی نظریں نیچے کرتے ہوئے آہستہ سے بولی۔
“ٹھیک ہے یہی رہنا میں ابھی آتا ہوں”وہ بولتے ہوئے کینٹین کی طرف چلا گیا۔
“میں بھی پاگل ہوں کیا کیا بولنے لگی تھی انکو “وہ آذر کو کینٹن کی طرف جاتا ہوا دیکھ کر سوچنے لگی۔
***
وہ اس وقت کال میں فرحان سے باتیں کررہی تھی۔
“آج مجھے ماما نے ڈانٹا”وہ منہ پھلاکر بولی۔
“کیوں کس لئے ڈانٹ دیا خالہ نے”اسنے پوچھا تھا۔
“وہ شائد ہمارے رشتے سے خوش نہیں ہیں پتہ نہیں زوہا آپی نے انکو کیا کہا ہے کہہ رہی تھیں کہیں ہماری بدنامی نا ہوجائے اسلئے مان گئی ہوں”وہ اداسی سے بولی۔
“کیسی بدنامی”اسنے حیران ہوکر پوچھا۔
“پتا نہیں شاید انکو لگتا ہم بہت آگے بڑھ گئے ہیں شاید اک دوسرے کے قریب آگئے ہیں “وہ غصے سے بولی۔
“استغفرُللہ زوہا آپی بھی نا کیسی کیسی باتیں سوچ لیتیں ہیں”وہ توبہ کرتے ہوئے بولا۔
“فرحان مجھے بہت برا لگ رہا ہے دل کررہا ہے ڈوب کر مرجاؤ کیا سوچ رہے ہیں ہمارے بارے میں”وہ اک دم سے روتے ہوئے بولی۔
“ارے تم کیوں رورہی ہو وہ جو سوچتے ہیں سوچنے دو ہم جانتے ہیں نا ہماری محبت پاک ہے”وہ اسکے رونے کی آواز سن کر پریشان ہوتے ہوئے دلاسہ دیکر بولا۔
“تم جلدی نکاح کی بات کرو میں نہیں چاہتی اور باتیں بنے ہمارے بارے میں”وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بولی۔
“ہاں میں ماما سے بات کرتا ہوں تم پہلے رونا بند کرو”وہ پریشان ہوکر بولا۔
“آئی لو یو فرحان “وہ روتے روتے بولی۔
آئی لو یو ٹو تم بس رونا بند کرو میں کرتا ہوں کچھ”وہ پیار سے بولا۔
اسکی بات سن کر اسنے رونا بند کیا تھا۔
“میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں کچھ اسائمنٹ بنانے ہیں “وہ ٹائم دیکھتے ہوئے بولا رات کے آٹھ بج رہے تھے۔
“ٹھیک ہے تم کام کرو اللہ حافظ”اسنے بولتے ہوئے کال کٹ کی۔
فرحان اسائمنٹ بنانے میں مصروف ہوگیا۔
***
“یہ لو لے آیا ہوں”وہ برگر اور چپس کی پلیٹ اسکی طرف کرتے ہوئے بولا۔
اسنے پلیٹ لیتے ہوئے اسکی طرف دیکھا اسکا موڈ ٹھیک لگ رہا تھا۔
“آپ بھی کھاؤ نا”اسنے برگر کھاتے ہوئے آزر سے کہا۔
“نہیں میرا موڈ نہیں ہے”وہ مبائل نکال کر بولا اور چلانے لگا۔
“کیوں نہیں ہے موڈ ہے کھائیں آپ بھی “اسنے گھورتے ہوئے برگر اسکی طرف کیا۔
آزر نے اسکی طرف دیکھا اور برگر کا ایک بائٹ لیا۔
“یہ مبائل رکھے واپس پاکٹ میں اور کہیں چلتے ہیں”اسنے برگر ختم ہونے کے بعد دھونس سے حکم دیتے ہوئے کہا۔
“کہا جانا ہے”آزر نے گھورتے ہوئے مبائل رکھکر پوچھا۔
“آزر ہم کشتی میں بیٹھتے ہیں نا “اس نے بچوں کی سی ضد کی۔
“چلو چلتے ہیں “وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی اظہر نے کشتی کے لیے ٹکٹ لیا اور احتیاط سے فریحہ کو کشتی میں بٹھایا اور خود بھی بیٹھ گیا۔
کشتی چلنے لگی تیز ہوائیں پہیا کے بالوں کو اڑا رہی تھی دور سے کنسرٹ کی آواز آرہی تھی۔
آزر نے موبائل نکالا اور دونوں کی یہ موومنٹ کیپچر کرنے لگا کشتی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگیں اور ہلنے لگی۔
فریحہ نے ڈرتے ہوئے آزر کو کس کے پکڑا اس نے اس کا سہما ہوا چہرہ دیکھ کر اپنے قریب کیا۔
“ڈرو مت میں ہوں نا “آزر نے اپنے سارے ناراضگی بھلا کر آہستہ سے کہا۔
اس کی بات سن کر فریحہ نے پیار سے اس کی طرف دیکھا اور اس کے مزید قریب ہو گئی۔
اس کی اس ادا پر آزر نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
“آپ مجھ سے ناراض تو نہیں “فریحہ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
“پہلے تھا لیکن اب نہیں ہوں لیکن آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے”آزر سنجیدہ ہوکر کہا۔
اس کی بات پر اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
“آپ بھی آئندہ تکلیف نہیں دیاکرینگے “وہ جھجکتے ہوئے بولی۔
“دیکھتے ہیں”وہ دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
اس کی بات پر فریحا نے ناراضگی سے اسے گھور کر دیکھا۔
آزر نے ماحول کی پرواہ کیے بغیر آہستہ سے اس کے گالوں میں کس کی۔
فریحہ اس کی جسارت پر شرماتے ہوئے اسے دیکھا اور زبردستی خود سے دور کیا۔
آزر نے ناراضگی سے اسے گھورا جس پر وہ مسکراتے ہوئے پھر سے اس کے قریب آگئی تھی۔
دونوں مسکراتے ہوئے ماحول کو انجوائے کرنے لگے۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...