ٹپ ٹپ کرتی پانی کی بوندے اس کے بےجان ہوتے وجود کو ہوش میں رکھے ہوئےتھی۔
اسکے دونوں بازوں کو زنجیروں کی مدد سے سیدھا اوپر کی جانب باندھا گیا تھا۔۔۔جبکہ خود وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھی تھی
پانچ گھنٹے!!!۔۔۔۔پانچ گھنٹوں سے وہ اسی پوزیشن میں تھی۔۔۔۔اسکا پورا جسم درد سے چکنا چور تھا۔۔۔۔۔ گالوں پر موجود آنسوؤں کے نشان بھی خشک ہوگئے تھے۔
وہ تھک چکی تھی مگر خوف و ڈر کی وجہ سے بار بار پلکیں جھپکتی نیند کو خود سے دور رکھے ہوئے تھی
وہ جب سے ہوش میں آئی تھی خود کو ایسے ہی بندھے پایا۔۔۔۔۔ رستم نے کہاں تھا کہ وہ اسے ایسی سزا دے گا وہ زندگی بھر یاد رکھے گی اور اب وقت آچکا تھا۔۔۔۔۔۔
اچانک بھاری قدموں کی آواز اس کے کانوں سے ٹکڑائی۔۔۔ اسکے پورے وجود میں ایک سنسنی سی پھیل گئی
’’پرنسز!!!” سرگوشی نما آواز اسکے کانوں سے ٹکڑائی۔۔۔۔اسکا پورا وجود کانپنے لگا
وہ جو کوئی بھی تھا اب بلکل اس کے سامنے آبیٹھا
’’ادھر دیکھو پرنسز” محبت سے اسکا چہرہ اوپر کیے وہ بولا
جبکہ سامنے بیٹھے وجود کی آنکھوں سے ایک بار آنسوؤں بہنا شروع ہوگئے تھے
’’کیا ہوا تکلیف ہورہی ہے؟” اسکے آنسوں دیکھتے اس شخص نے بےتابی سے پوچھا۔۔۔۔جس پر وہ فقط سر ہلاپائی
’’تمہیں میری بات مان لینی چاہیے تھی پرنسز۔۔۔۔اب جو بھی ہوگا اسکی ذمہ دار تم خود ہوگی”دھیمے پر اسرار لہجےمیں بولتا وہ چاقو بلکل اسکی دائیں آنکھ کے پاس لے آیا
زنجیروں میں جکڑے وجود میں حرکت پیدا ہوئی
’’ننننن۔۔۔۔نہیں” مسلسل سر نفی میں ہلاتے خود کو ان زنجیروں سے آزاد کروانے کی تگ و دو میں وہ بولی
’’رستم!!!!!” اسکی آنکھوں میں رحم کی بھیک تھی۔۔۔فریاد تھی۔۔۔جسکا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا اور بہت جلد تہہ خانہ اسکی چیخوں سے گونج اٹھا۔۔۔
چاقو کی نوک کو اسکی آنکھ سے چہرے پر پھیرتے وہ اسکے بائیں بازو کی جانب لے آیا اور چاقو آرام سکون سے اسکے جسم میں گھونپنے لگا۔۔۔۔۔ انا کی چیخیں رستم کو سکون دے رہی تھی۔۔۔۔ انا نے رستم کے بہت سے روپ دیکھے تھے مگر یہ والا تو سب سے الگ تھا۔۔۔۔۔۔ انا کی چیخیں اسکا رونا رستم کو سکون دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔ آدھے گھنٹے بعد وہ اپنے کام سے مطمئن پیچھے کو ہٹا۔۔۔۔۔ انا کا بازو لہولہان ہوگیا تھا اور اسکا بےہوش ہوتا وجود زنجیروں کی قید میں جھول رہا تھا
’’یہ تو ابھی شروعات ہے پرنسز!!‘‘ اسکے کان میں صور پھونکتے وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ انا کی آنکھوں کہ آگے ایک بار پھر سے اندھیرا چھا گیا
انا کی دوبارہ آنکھ کھلی تو بیڈ پر تھی۔۔۔۔۔ اس نے اٹھنا چاہا تو بائیں بازو میں تکلیف کی شدید لہر اٹھی وہ واپس بستر پر گرگئی۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسوؤں نکلنے لگ گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں ایک ملازمہ کمرے میں داخل ہوئی اسکے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھی۔۔۔۔۔ انا نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ نئی ہے کیونکہ انا نے اسے آج سے پہلے یہاں نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔۔ انا ہمت کرکے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھ گئی
’’تم کون ہوں؟‘‘ انا نے آنکھیں چھوٹی کیے اس سے پوچھا
’’وہ میں اقرا سر نے رکھا ہے مجھے آپ کی دیکھ بھال کے لیے میم۔۔۔۔‘‘ اقرا اپنی انگلیوں سے کھیلتے بولی
’’وہ میں آپ کے لیے لنچ لائی ہوں۔۔۔۔ سر نے آپکی کنڈیشن کے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہ آپ کی ڈائٹ کا خاص خیال رکھنا ہے‘‘ اقرا کچھ ہچکچائی
’’تم کیا گیم کھیلنا چاہتے ہوں رستم شیخ‘‘ انا خود سے بولی
’’کچھ کہاں میم؟‘‘ اقرا نے پوچھا
’’نہیں ۔۔۔۔۔ یہ لاؤ کھانا دوں مجھے‘‘ انا کھانا کھانا تو نہیں چاہتی تھی مگر رستم کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ خود میں طاقت پیدا کرتی
’’شکریہ میم آپ نے کھا لیا۔۔۔۔۔ اگر آپ کھانے سے انکار کردیتی تو سر نے کہا تھا کہ وہ مجھے بھوکے کتوں کے آگے ڈال دیتے‘‘ اقرا خوشی سے بولی تو انا مسکرا دی
’’تمہاری عمر کیا ہے؟‘‘ انا نے سوپ پیتے پوچھا
’’جی اکیس سال‘‘ اقرا نے جھٹ سے جواب دیا۔۔۔۔۔ انا کو معلوم تو تھا کہ وہ چھوٹی ہے
’’کتنا پڑھی ہوں؟‘‘ انا نے دوسرا سوال کیا
’’میں ڈاکٹر بن رہی ہوں‘‘ اقرا نے جواب دیا۔۔۔۔ اب کی بار انا نے زرا ٹھہر کر اسے دیکھا
’’ہمم تم جاؤ‘‘ انا نے اسے جانے کو کہاں اور سوپ پینے لگی
’’میم وہ آپکی میڈیسن؟‘‘ اقرا نے میڈیسن کی جانب اشارہ کیا
’’فکر مت کروں میں لے لو گی‘‘ انا ہلکا سا مسکرائی۔۔۔۔۔ مگر سوچ کے سارے تانے بانے رستم کی جانب تھے جو خود نجانے کہاں غائب تھا
پورا دن انا نے کمرے میں گزارا تھا۔۔۔ اب رات آپہنچی تھی جب کمرے کا دروازہ ایک دھاڑ سے کھلا اور رستم اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔ اسے دیکھ کر انا کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھرے۔۔۔۔۔۔۔ رستم کپڑے لیے سیدھا واشروم کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اس نے بہت زیادہ پی رکھی تھی
انا نے اس پر لعنت بھیجی اور خود سونے کے لیے لیٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ خود کو پرسکون کرتا گھنٹے بعد رستم واشروم سے باہر نکلا تھا۔۔۔۔۔۔ جب نظر انا پر پڑی۔۔۔۔۔ ایک شیطانی مسکراہٹ اسکے چہرے پر در آئی وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا انا کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔ انا کچی پکی نیند میں تھی جب اسے اپنے اوپر بوجھ سا محسوس ہوا
’’پرنسز!!!‘‘ اس سے پہلے انا کچھ سمجھ پاتی رستم اسکے اپنی گرفت میں لےچکا تھا اور پھر انا کی چیخیں گونجی جنہیں جلد ہی رستم اپنے ہاتھ سے دبا گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کی پہلی کرن پھوٹتے ہی کمرے میں داخل ہوئی جہاں انا بکھرے حلیے میں بیڈ پر لیٹی تھی۔۔۔۔۔۔۔ کل کی رات اسکی زندگی کی ایک اور سیاہ رات ثابت ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ اسکے بازو کا زخم اکھڑ گیا تھا اور خون پورے بیڈ کو گیلا کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔ انا کے بازو میں شدید تکلیف تھی بلکہ اسکے جسم کے ساتھ اسکی روح بھی تکلیف میں تھی مگر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رستم صرف ایک دن میں ہی اسے جتلا گیا تھا کہ وہ اسکے ساتھ کیا کیا کر سکتا ہے۔۔۔۔۔ انا کی ہمت ایک رات میں ہی ٹوٹنے لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔ رستم کا خوف اسکے دل میں مزید بڑھ گیا تھا۔۔۔ اٹھنا بےکار تھا جب اقرا ناشتے کی ٹرالی کھینچے اندر داخل ہوئی مگر انا کی حالت دیکھ کر وہ راستے میں ہی رک گئی
’’میم!!‘‘ حیرت زدہ آواز اسکے منہ سے نکلی
انا کے زخم سے خون بہت زیادہ بہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اقرا نے فورا جاکر انا کا زخم چیک کیا تھا اسکا خون بہت بہہ گیا تھا۔۔۔۔۔ اسکی رنگت زرد ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔
’’سر!! سر!!!‘‘ اقرا چلاتی فورا کمرے سے باہر بھاگی انا کی آنکھوں سے سیلاب بہنا شروع ہوگیا تھا
’’سر!!!‘‘ اقرا چلاتی فورا بھاگ کر نیچے آئی جہاں رستم آرام سے ناشتہ کررہا تھا
’’سر!!‘‘ اقرا ہانپتی ہوئی اسکے پاس آکھڑی ہوئی
’’کیا ہوا مس اقرا؟‘‘ رستم نے یوں شو کیا جیسے اسے کچھ معلوم ہی نہ ہوں
’’سر۔۔۔سر وہ میم انکا زخم ۔۔۔۔۔ انکے بازو کا زخم۔۔۔۔۔۔ بہت خون بہہ رہا ہے سر۔۔۔۔۔۔ اور انکی رنگت بھی زرد ہورہی ہے‘‘ اقرا ہانپتے بولی
’’سر اگر انہیں فورا ٹریٹ نہیں کیا گیا تو مسئلہ ہوجائے گا سر۔۔۔۔۔۔ میں نے ان کی میڈیکل ہسٹری پڑھی ہے وہ صرف ٹو منتھ پریگنینٹ ہے سر۔۔۔۔۔۔ اور اب کی بار واقعی بچے کے بچنے کے چانسز ناممکن سے ہے‘‘
بچے کا سنتا ہی رستم تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور لمبے ڈگ بھرتا وہ کمرے میں پہنچا۔۔۔۔۔۔ انا کی حالت دیکھ کر اسے اندرونی تسکین حاصل ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔
’’پرنسز!!‘‘ رستم ہلکی سے مسکان لیے اسکے پاس بیٹھ گیا
’’مس اقرا فورا جاکر ڈاکٹر کال کرے‘‘ رستم نے اسے حکم دیا وہ سر ہلا کر فورا وہاں سے چلی گئی
رستم بس انا کو دیکھے جارہا تھا جس کی حالت رستم کو سکون دے رہی تھی
’’کیا تھا انا جو تم اپنی اکڑ ختم کردیتی۔۔۔۔۔ کیا تھا جو تم جھک جاتی میرے آگے مگر نہیں تم نے تو مقابلہ کرنا چاہا۔۔۔۔۔ میں نے کہا تھا نا کہ تمہیں سزا ملے گی‘‘ اسکے کان کے پاس جھکا وہ سرگوشی کررہا تھا
بےبسی سے انا کی آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگا
’’چچچ۔۔۔ نہیں نہیں رونا نہیں ہے میری جان۔۔۔۔۔۔۔ جو تمہارے ساتھ ہوا وہ تو ابھی ٹریلر تھا۔۔۔۔۔۔ ابھی تو وہ کیا کہتے ہے؟ ہاں ابھی تو پوری فلم باقی ہے‘‘ اسکے زخمی بازو کو سخت گرفت میں پکڑے اس نے زور ڈالا تو انا کی چیخیں بلند ہوئیں۔۔۔۔۔۔ وہ تکلیف اور درد کی انتہا پر تھی
’’کک۔۔۔۔۔کیا ہوا؟‘‘ اقرا فورا بھاگ کر اندر داخل ہوئی
’’پرنسز۔۔۔۔۔ مائی پرنسز۔۔۔۔ میری جان کیا ہوا؟‘‘ رستم بھی پریشان سا بولا۔۔۔۔ رستم کی پیٹھ تھی اقرا کی جانب اسی لیے وہ اسکے چہرے پر موجود مسکراہٹ نہیں دیکھ سکی تھی
’’سر میں کال کی ہے ڈاکٹر پانچ منٹ میں آجائے گی‘‘ اقرا نے اطلاع دی
’’ہمم ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ تم ایسا کروں گرم پانی میں کپڑا بھیگو کر ملکہ کا زخم صاف کروں‘‘ رستم نے اسے حکم دیا
’’کون ملکہ؟‘‘ اقرا نے حیرانگی سے سوال کیا
’’یہ۔۔۔۔۔یہ ملکہ۔۔۔۔۔ میری پرنسز تمہاری ملکہ‘‘ رستم اقرا کو گھور کر بولا تو وہ سرپٹ وہاں سے بھاگی
’’اور تم میری جان تیار رہوں اور بھی بہت کچھ ہے تمہارے لیے‘‘ اسکی کان کی لو کو چومتا وہ اپنا کوٹ ٹھیک کیے کمرے سے باہر نکل گیا
’’مس اقرا‘‘ رستم نے اسے بلایا جو گرم پانی کا باؤل لیے کمرے سے باہر نکلی تھی
’’جی سر؟‘‘ اقرا نے فورا سوال کیا
’’مجھے کچھ ضروری کام ہے میں آفس جارہا ہوں آپ ملکہ کے پاس رہیے گا‘‘ رستم نے نیا حکم جاری کیا
’’سر آپ نہیں رکے گے؟‘‘ اقرا نے حیرت سے پوچھا
’’مس اقرا اگر مجھے ہی گھر رکنا ہوتا تو میں آپ کو کیوں ہائر کرتا؟‘‘ رستم نے سخت لہجے میں پوچھا تو اقرا ہڑبڑا گئی
’’بہادر خان چلو!!‘‘ اقرا کو سخت نظروں سے گھورتے وہ بہادر خان کو حکم دیے وہاں سے نکل گیا
’’اور ہاں ملکہ کی ڈائٹ میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے‘‘ بنا پلٹے ایک حکم سنایا گیا
’’عجیب پاگل آدمی ہے ویسے بیوی پر جان چھڑکتا ہے اور ایسی حالت میں چھوڑ کر جارہا ہے‘‘ اقرا نے غصے سے اسکی پشت کو گھورا اور انا کے کمرے کی جانب چلی گئی
ڈاکٹر آکر انا کی بینڈایج کرکے جاچکی تھی۔۔۔۔۔ اقرا نے انا کو کھانا کھلا کر اسے دوائی دی تھی انا اب سو چکی تھی جب اقرا نیچے لاؤنج میں آکر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔ وہ فارغ تھی اور کرنے کو کچھ بھی نہیں تھا اسی لیے ٹی۔وی دیکھنے لگی جب اسے خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی۔۔۔۔۔ اقرا نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک ویل سوٹڈ بندہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ کاشان جو رستم سے ملنے آیا تھا کسی لڑکی کو وہاں دیکھ کر حیران ہوا
’’جی آپ کون؟‘‘ اقرا نے آنکھیں چھوٹی کیے پوچھا
’’وہ میں کاشان رستم کا دوست!‘‘ پہلی بار ہوا تھا کہ کاشان نے کسی کو اپنا انٹرو دیا
’’اوہ سر وہ تو کہی گئے ہے بہادر خان کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ وہ آئے گے تو بتادوں گی کہ آپ آئے تھے ملنے‘‘ اقرا نے ہلکی مسکان سے بتایا
’’نہیں اسکی ضرورت نہیں بھابھی کہاں ہے؟‘‘ کاشان نے لگے ہاتھوں انا کا پوچھا
’’وہ انکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو وہ میڈیسن لیکر سو گئی ہے‘‘ اقرا نے جواب دیا
’’اچھا چلے اللہ حافظ!!‘‘ اتنا کہہ کر کاشان وہاں سے چلا گیا
’’اللہ حافظ‘‘ پیچھے اقرا نے اونچی آواز میں جواب دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سر نوید شیخ ملنے آئے ہے آپ سے‘‘ بہادر خان نے اسے آکر بتایا جو اپنے کام میں مگن تھا ایک دم سر اٹھا کر اسے دیکھا
’’ہمم بھیج دوں‘‘ لب بھینچے وہ بولا
تھوڑی دیر میں نوید شیخ اندر داخل ہوئے۔۔۔۔۔ چال میں وہی اکڑ لیکر جو رستم کا خاصہ تھی
’’کہیے ڈیڈ کیسے آنا ہوا؟‘‘ رستم نے کافی کا سپ لیتے سوال کیا
’’صرف ایک سوال کا جواب ۔۔۔۔۔۔ تم ہوتے کون ہوں میری بیٹی کا رشتہ مجھ سے پوچھے بنا طے کرنے والے؟‘‘ نوید شیخ ٹیبل پر ہاتھ مارتے دھیمے لہجے میں غرائے
’’اسے کہتے ہے رسی جل گئی مگر بل نا گیا۔۔۔۔۔۔پتہ نہیں سب ڈھیٹ لوگ مجھے ہی کیوں ملتے ہیں‘‘ رستم نے بڑبڑا کر اپنا ماتھا مسلا اور پھر اپنے موبائل میں موجود نوید شیخ کی ویڈیو آن کرکے ان کے سامنے رکھ دی
نوید شیخ جتنی اکڑ سے کمرے میں داخل ہوئے تھے ان انکے ماتھے پر پسینے کی ہلکی ہلکی بوندیں چمکنے لگی تھی
’’میں چپ ہوں اسکا مطلب یہ نہیں کہ میں انجان ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اگر اپنی ہوس پر قابو نہیں پاسکتے تو یہ گھٹیا کام اپنے کسی فارم ہاؤس میں کیا کرے نا کہ کوٹھوں پر۔۔۔۔۔۔۔ اتنے جاہل نہیں ہے آپ کہ آپ کو معلوم نا ہوں کہ ان کمروں میں کیمرہ لگے ہوئے ہوتے ہیں‘‘ رستم انکو اچھی خاصی جھاڑ پلا چکا تھا
’’اور جہاں تک بات رہی کہ میں کون ہوتا ہوں زرقہ کا رشتہ طے کرنے والا تو ٹھیک ہے آپ کردے۔۔۔۔۔ مگر کس سے کرے گے؟ غازان انصاری سے؟ آپ کا ناجائز خون؟ تو سنیے نوید شیخ صاحب۔۔۔۔۔ اگر آپ نے غازان کے رشتے کو ہاں کی تو آپ کی یہ ویڈیو میں لیک کردوں گا اور اگر آپ نے انکار کیا تو غازان۔۔۔۔۔۔ میرا کام صرف میری بہن کو بچانا تھا آپ سے میرا کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ آؤٹ!!!‘‘ آخر میں رستم دھاڑا تو نوید شیخ فورا وہاں سے نکلے
انکے لیے تو آگے کنواں پیچھے کھائی والا کام تھا۔۔۔۔۔۔ جو بھی راستہ چنتے بربادی اور ذلت انکا مقدر بنتی۔۔۔۔ مگر اب وہ صرف خالی ہاتھ تھے۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ایک نظر مڑ کر اس رستم کو دیکھا جسکو انہوں نے ایسا بنایا تھا۔۔۔۔۔۔ انہیں اپنی جوانی کے دن یاد آئے جب انہوں نے بھی اپنے باپ کو یونہی زمانے کے سامنے رسوا اور زلیل ہونے کو اکیلے چھوڑ دیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفس سے رستم سیدھا کلب میں آگیا تھا جہاں وہ ان چاروں کے پرائیویٹ روم میں موجود تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ وائن پی رہا تھا جب غازان سیٹی بجاتا اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔۔۔ وہ رستم کے ولیمہ والے دن ہی تاشہ کو لیے ہی وہ امریکہ چلا گیا تھا
’’واٹس اپ ایوری ون؟‘‘ غازان نے مسکرا کر پوچھا آج وہ کچھ زیادہ ہی خوش نظر آرہا تھا۔۔
’’ایوری تھنگ پرفیکٹ‘‘ کاشان مزے سے کندھے اچکائے بولا
’’سچ یاد آیا۔۔۔۔۔۔ رستم بھابھی کی طبیعت کیسی ہے اب؟‘‘ کاشان نے فورا اس سے ہوچھا
’’انا کو کیا ہوا؟‘‘ وجدان نے حیرت سے پوچھا
’’تمہیں انا کی طبیعت کے بارے میں کیسے معلوم ہوا؟‘‘ رستم نے تیکھی نظریں کیا پوچھا
’’وہ آج میں ملنے آیا تھا تم سے کوئی لڑکی تھی تمہارے گھر اس نے بتایا‘‘ کاشان نے فورا جواب دیا
’’ اوہ ہاں یاد آیا میں نے سنا تمہاری بیوی بھاگ گئی تھی تمہیں چھوڑ کر‘‘غازان ہنسا تو رستم کے اندر ایک آگ سی جلی
’’ویسے مجھے تو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اس نے اپنے پرانے عاشق کو بچانے کے لیے اپنے شوہر کے ہاتھوں سینے پر گولی کھا لی تھی۔۔۔۔ پھر بھی بچ گئی ۔۔۔۔۔۔ واؤ‘‘ غازان طنز کے تیر چلا چکا تھا جو سیدھا رستم کے دل میں اتر رہے تھے
’’ایسا کچھ نہیں غازان جس نے بتایا ہے بکواس کی ہے تم سے‘‘ وجدان رستم کی سرخ آنکھوں کو دیکھتا رسانیت سے بولا
’’سچ میں؟ واقعی ایسا نہیں ہے؟‘‘ غازان چونکا
’’تو رستم پھر ایسا کیا ہوا کہ انا کو گھر سے بھاگنا پڑا وہ بھی اتنی رات میں اکیلے اور گولی بھی کھا لی وہ بھی کسی اور مرد کر لیے۔۔۔۔۔ ویسے بہت ہی شرم کی بات نہیں کہ وہ رستم شیخ جس کے ہاتھ کے اشارے پر ایک زمانہ چلتا ہے۔۔۔۔۔۔ جو سب کو اپنے اشارے پر چلاتا ہے اس سے اپنی بیوی نہیں سنبھالی گئی۔۔۔۔۔۔ دوسروں کو اپنی انگلیوں پر نچانے والے کو اسکی بیوی نے نچوا دیا۔۔۔۔۔ بہت ڈھونڈا تھا تم نے ویسے انا کو۔۔۔۔تم تو جورو کے غلام نکلے۔۔۔۔۔ خاصی بری حالت ہوگئی تھی تمہاری۔۔۔۔۔۔ویسے شیور نا کہ تمہاری بیوی کا کسی سے کوئی چکر وکر نہیں تھا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔۔ وہ کیا ہے نا میں سنا ہے کہ جو جیسا ہوتا ہے اللہ اسے ہمسفر بھی ویسا ہی دیتا ہے۔۔۔۔ خیر مجھے کیا تمہاری لائف ہے‘‘ رستم کے اندر ابلتے لاوا کو پکا کر غازان یہ جا وہ جا
’’رستم اسکی بات پر کان مت دھرنا بکواس کر کے گیا ہے۔۔۔ سمجھا؟‘‘ وجدان رستم کو دیکھ کر بولا
’’ہمم!!‘‘ رستم نے ایک گھونٹ بھرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدھی رات کو رستم گھر میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ کمرے میں آتے ہی اس نے لائٹ آن کی تو نظر اس پر گئی جو پیٹ کے بل الٹی سوئی ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ انا کی جانب گیا تھا جس کے چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔۔۔۔ رستم غور سے اس سکون کو دیکھ رہا تھا اتنی ازیت اور تکلیف سہنے کے بعد بھی ایسا سکون
’’نجانے یہ سکون مجھے کب ملے گا؟‘‘ رستم اسکے چہرے کو دیکھتے بڑبڑایا
رستم اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا جب نظر اسکے بازو کے زخم پر گئی۔۔۔۔ اس زخم کو دیکھتے ہی رستم کو یاد آیا وہ دن جب انا نے اپنے سینے پر گولی کھائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ اسکے کانوں میں غازان کے الفاظ گونجنے لگے۔۔۔۔۔ اسکے چہرے پر دوبارہ کرختگی چھانے لگی تھی
وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا اور نیچے کچن کی جانب چلا گیا۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں ماچس اور کینڈل تھی
وہ شیر کی سی چال چلتا بیڈ ہر پہنچا ماچس اور کینڈل ایک سائڈ پر رکھے اسنے اپنی پاکٹ سے ایک چھوٹا سا چاقو نکالا
’’پہلے صرف تمہارے جسم پر اپنی جنونیت کی چھاپ چھوڑی تھی آج اپنے نام کی چھاپ بھی چھوڑو گا۔۔۔۔۔ تاکہ دنیا کہ ساتھ ساتھ تمہیں بھی اس بات کا علم ہوجائے کہ تم میری ہوں‘‘ اسکے کان میں صور پھونکتے رستم نے ایک جھٹکے اسکی پیچھے سے کمیز پھاڑ دی
انا کی آنکھیں یکدم کھلی۔۔۔۔۔ اسے اپنی کمر پر کچھ چبھتا محسوس ہوا
’’رر۔۔۔رستم‘‘ انا کی ڈری ہوئی آواز رستم کے کانوں سے ٹکڑائی
’’ششش!! آواز نہیں نکلے‘‘ رستم اسکے کان میں بولا اور چاقو کی نوک سے انا کی کمر پر اپنا نام لکھنا شروع کردیا۔۔۔۔۔ انا نے اپنا ہاتھ اپنے منہ پر جمائے اپنی چیخوں کو روکا۔۔۔۔ انا کو چیختے نا دیکھ کر رستم نے چاقو مزید بےدردی سے اسکی کمر میں گھونپ دیا
سرخ سیال اسکی کمر کو لال کرچکا تھا مگر ابھی رستم کا جی نہیں بھرا تھا۔۔۔۔ اسنے فورا پاس پڑی کینڈل ماچس سے جلائی اور پگھلتی موم کو اپنے نام کے اوپر پھینکنا شروع کردیا
اب کی بار انا کی چیخیں بےقابو ہوئی تھی۔۔۔۔
’’ششش۔۔۔۔۔ بس تھوڑا سا درد۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘ رستم اسکے بالوں پر بوسہ دیتے بولا۔۔۔۔۔۔۔ مگر انا کی چیخیں بےقابو ہورہی تھی۔۔۔۔۔ اسکی چیخوں نے پورے ولا کے در و دیوار کو ہلا ڈالا تھا
’’اب تم مجھ سے کبھی دور نہیں جاسکوں گی‘‘ رستم ہنسا تھا
اسنے کینڈل کو بجھا کر زمین پر پھینکا تھا۔۔۔۔۔ رستم اب خوشی سے اپنا سر انجام دیا کارنامہ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ مگر ابھی بھی اسکا دل بھرا نہیں تھا
’’آج تم بہت حسین لگ رہی ہوں پرنسز!!‘‘ اسکی گردن میں منہ چھپائے رستم مخمور لہجے میں بولا اور ایک بار پھر اسکا وجود اپنے قبضے میں لے گیا
آج کی تکلیف کی شدت کل سے بھی زیادہ تھی۔۔۔ رستم کے جارحانہ انداز اور کمر دیا گیا زخم۔۔۔۔۔ انا کی پوری رات درد اور تکلیف میں گزری۔۔۔۔
مگر یہ آخری بار نہیں تھا۔۔۔۔۔ پانچ مہینے۔۔۔۔۔ پانچ مہینے ہوگئے تھے انا کو اس تکلیف سے گزرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ انا کہ جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں تھا جس پر رستم کے دیے گئے زخم موجود نہیں تھے۔۔۔۔۔ رستم آج پھر کمرے میں داخل ہوا تھا جب انا کو دیکھ کر اسکے چہرے پر گہری مسکراہٹ آگئی۔۔۔۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا انا کے سامنے آیا اور چاقو اسکی شہہ رگ پر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔ انا نے خود چاقو پر دباؤ ڈالا تو رستم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔۔۔۔۔۔ وہ نوٹ کررہا تھا کہ انا بہت بدل چکی ہے۔۔۔۔۔ وہ اب اسکی دی گئی سزاؤں پر چیختی چلاتی نہیں تھی۔۔۔ اور نا ہی کچھ بولتی وہ بس ایک مردہ وجود بن کررہ گئی تھی۔۔۔۔۔ رستم نے بھی چاقو سے مزید دباؤ ڈالا تو انا نے مسکرا کر آنکھیں بند کرلی
وہ موت چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ مگر نہیں رستم اسے موت نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ وہ ترستی رہے گی مگر اسے آزادی نہیں ملے گی
رستم نے ایک جھٹکے سے چاقو زمین پر پھینکا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے باہر نکل گیا
’’مس اقرا مجھے کچھ کام ہے ملکہ کا خیال رکھیے گا‘‘ اقرا کی جانب دیکھے بنا وہ بولا تو اقرا نے بھی سر ہاں میں ہلادیا
اقرا کو یہ جاب بہت پسند آئی تھی وہ بس جاکر انا کو اسکی دوا دیتی اور کھانا پھر سارا دن اپنی پڑھائی کرتی۔۔۔۔ انا کو واک پر لیجانے کا کام رستم کا تھا
اقرا تو انا کی قسمت کر رشک کرتی جسے تھوڑا عجیب سا مگر محبت کرنے والا ہمسفر ملا تھا۔۔۔۔۔۔ اقرا شام میں ہی گھر چلی جاتی تھی اسی لیے رات میں ہونے والی تمام کاروائی سے انجان تھی اور صبح اسکے آنے سے پہلے ہی رستم انا کو مرہم لگا دیتا۔۔۔۔۔۔ رستم نے اسے زیادہ تر زخم اسکی پیٹھ، بازوؤں اور ٹانگوں پر دیے تھے۔۔۔۔
’’میم آپکی دوائی!!‘‘ اقرا کمرے میں داخل ہوئی جب اسنے انا کو تکلیف میں دیکھا۔۔۔
’’میم ۔۔۔۔۔ میم کیا ہوا ہے آپکو؟‘‘ اقرا فورا بھاگ کر انا کے پاس آئی
’’ہہ۔۔۔ہوسپٹل!!‘‘ انا چلائی تو اقرا نے فورا رستم کو کال کی۔۔۔جبکہ انا کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔۔۔