بالوں میں ہاتھ پھیرے، گہری سانس خارج کیے اس پر بستر پر موجود ہوش و حواس سے بیگانہ وجود کو ایک نظر پھر دیکھا تھا۔
آنکھوں میں آنسو چھلکنے کو تیار تھے۔
ایک بار پھر اس نے اسے غور سے دیکھا۔۔۔ وہ بالکل ان کے جیسی تھی شہرینہ جیسی۔۔۔۔ گندمی رنگت اب صاف شفاف ہوچکی تھی۔
پندرہ سال!۔۔۔۔۔۔۔ کیا پندرہ سال کا عرصہ کم ہوتا ہے کسی بچھڑے ہوئے اپنے سے دوبارہ ملنا؟
یہ وہ لڑکی تھی جس کے لیے سنان شاہ نے نجانے کون کون سے الفاظ استعمال نہ کیے تھے۔۔۔۔۔ بن دیکھے ہی وہ اس سے نفرت کرتا تھا۔۔۔۔ اس کے کردار کو داغدار کیا تھا یہ سوچے بنا کہ وہ اسی کی بہن تھی۔۔۔
جی کے لیے وہ پچھلے آدھے سال سے خوار ہورہا تھا وہ وہی تھی اس کی نظروں کے سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ اسے ایک نگاہ دیکھ لیتا تو پہچان لیتا مگر اس نے کہاں دیکھا تھا۔
جب اس کے آدمی شبیر زبیری کے گھروالوں کی تصاویر لےکر آئیں تو اس نے باقی عورتوں کے ساتھ اس کی تصویر کو بھی ایک سائڈ پر رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی گڑیا تک پہنچنے کے لیے شبیر زبیری کی خاندان کی کسی بھی عورت کو استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا۔
کاش، کاش وہ اس وقت اسے دیکھ لیتا کاش۔
اس کے پاس سے اٹھتا وہ اب بیڈ کے ساتھ موجود دونوں پالکیوں کی جانب گیا تھا، جس میں دونوں ننھے وجود مزے سے سوئے ہوئے تھے۔
زخمی مسکراہٹ، ایک آنسو اس کی آنکھ سے ٹوٹ کر مشعل کے گال پر گرا تھا وہ بالکل اپنی ماں کی کاپی تھی۔۔۔۔ ویسا ہی گندمی رنگ، اب اس نے چھوٹے شہزادے عبداللہ کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔
جہاں مشعل کے ماتھے پر ننھے بل تھے وہی عبداللہ کے چہرے پر میٹھی سی مسکان۔۔۔۔۔ ان دونوں کو دیکھ سنان ایاک لمحے میں سمجھ گیا تھا کہ کون ان سب کو ٹف ٹائم دینے والا ہے۔
ہلکے سے ہنستے اس نے پورے کمرے پر نگاہ ڈالی تھی۔۔۔
“تم کب سے جانتے یہ سچ؟” اب اس نے وائے۔زی سے سوال کیا جو کونے میں کھڑا تب سے اس کی حرکتیں دیکھ رہا تھا۔
“دو ماہ سے!” وہ مزے سے کندھے اچکائے بولا تھا۔
“اور تم نے مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھا؟” سنان نے ایک سخت نگاہ اس پر ڈالی تھی۔
“خاموشی ضروری تھی۔” اس نےسنان کی گھوری کو اگنور کیے جواب دیا۔
“ہمیں انہیں لےکر جلد از جلد پاکستان کے لیے نکلنا ہوگا۔۔۔۔۔ شبیر زبیری جیسے شخص سے کوئی بیر نہیں وہ کچھ بھی کرسکتا ہے!” سنان بڑبڑایا جسے وائے۔زی نے اچھا سے سنا تھا۔
“کیا میں تمہیں بتانا بھول گیا؟” وائے۔زی اچانک بولا
“کیا؟”
“اہمم۔۔۔ یہی کہ ہم آدھے گھنٹے میں ایک پرائیوٹ جیٹ کے ذریعے پاکستان کے لیے نکلنے والے ہیں!” وائے۔زی کی بات پر سنان کی آنکھیں پھیلی تھی۔
“تم!” اس سے پہلے وہ وائے۔زی کی جانب بڑھتا، چھوٹی مشعل پورا منہ کھولے رونا شروع ہوگئی تھی۔
سنان نے خوف سے پہلے اسے اور پھر عبداللہ اور شزا کو دیکھا جو پرسکون نیند سوئے تھے۔
“وہ نہیں اٹھے گی۔۔ بےہوشی کی تگڑی ڈوز دی ہے میں نے۔۔۔۔۔ البتہ ان صاحبزادے کا مجھے کوئی آئیڈیا نہیں!” اشارہ عبداللہ کی جانب تھا۔
سنان نے انتہائی نرمی سے مشعل کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور اسے اپنے سینے سے لگائے سلانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔ جبکہ مشعل اب اپنی دونوں آنکھیں پوری کی پوری کھولے اسے گھور رہی تھی۔
“کیا؟” اس کے یوں گھورنے پر سنان نے اس سے سوال کیا جس پر وہ پورا منہ کھول کر ہنسی۔
اسے ہنستے دیکھ وہ بھی مسکرایا تھا۔
“میری گڑیا!۔۔۔۔۔ اب کہی نہیں جانے دوں گا!” اس کے دونوں گالوں کو چٹاچٹ چومتا وہ بولا تھا۔
اس کی اس حرکت پر مشعل کا منہ بن گیا تھا، اسے یہ عمل پسند نہیں آیا تھا۔
“ہمیں جلد نکلنا ہوگا سنان، وقت کم ہے!” وائے۔زی کی بات پر اس نے صرف سر ہلایا تھا جبکہ دھیان پورا اس ننھی آفت کی پڑیا کی جانب تھا۔
“بہت شرارتی ہو تم!” اسے اپنے ڈارھی کھینچتے دیکھ سنان بڑبڑایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں داخل ہوتے ہی اس کا ٹکڑاؤ ماورا کے تمام رشتہ داروں سے ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ وہ سب تو معتصیم کو دیکھ کر چونک اٹھے تھے۔
جب تایا ابو نے باقی سب خاندان والوں کو ماورا کی واپسی کے بارے میں بتایا تو ان کے دماغوں میں بہت سے سوالات اٹھے تھے اور اب پھر دوبارہ انہیں ماورا کی شادی کے بارے میں بتانے کے لیے کال کی گئی تو انہیں یہ شک درست ہوتا نظر آیا کہ ماورا گھر سے بھاگ گئی تھی۔
انہیں مکمل یقین تھا کہ اب اپنی عزت بچانے کو وہ ماورا کی شادی کسی بڈھے سے کررہے ہوگے، اور ویسے بھی ماورا جیسی اپاہج کو کون اپناتا؟
“یہ کون ہے؟” چھوٹی چچی نے بڑی چچی کے کان میں سرگوشی کی۔
“کیا پتہ ماورا کے ہونے والے شوہر کو بیٹا ہو۔۔۔۔۔ اور اب اپنی نئی جوان ماں سے ملنے آیا ہو!” بڑی چچی کی بات پر وہ دونوں ہنس دی تھی۔
“او بھئی لڑکے تم کون ہو؟” پھوپھی نے کڑک انداز میں سوال کیا تھا۔
“ارے معتصیم بھائی آپ؟ آپ کب آئے۔۔۔۔۔ پھوپھو یہ معتصیم بھائی ہے آپا کے شوہر!” تقی جو ابھی ابھی وہاں آیا تھا معتصیم کو دیکھ کر چونکا اور پھر ان کا تعارف سب سے کروایا۔
جبکہ باقی سب کھلے منہ اور پھٹی آنکھوں سے اس شہزادوں جیسی آن بان والے شخص کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔
کیا قسمت پائی تھی اس کم شکل ماورا نے!۔۔۔۔۔۔ دونوں چچیاں اور پھوپھی بس یہ سوچ سکی۔
“السلام علکیم!۔۔۔۔۔۔ تقی تایا ابو کہاں ہے ملنا ہے ان سے!” معتصیم سلام کرتا تقی کی جانب متوجہ ہوا۔
“جی بھائی آئیے۔” تقی اسے لیے کمرے میں داخل ہوا جہاں ماورا، تایا ابو اور تائی امی سب موجود تھے۔
ماورا کے چہرے پر غصہ جبکہ ان کے چہروں پر پریشانی تھی۔
معتصیم کو دیکھ وہ غصہ مزید بڑھا تھا۔
“آپ لوگ باہر جائیے مجھے اکیلے میں اس سے بات کرنی ہے!” معتصیم بلا تمہید بولا۔
“مگر مجھے اس کی شکل بھی نہیں دیکھنی۔” وہ کڑھ کر بولی
معتصیم نے آنکھ کے اشارے سے سب کو باہر جانے کو کہاں۔
“دھیان سے بھائی حالات بہت خراب ہیں! گرج چمک کے امکانات ہیں!” تقی جاتے جاتے اس کے کان میں بولا تھا۔
“کوئی بات نہیں گھی اگر سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی کو ٹیڑھا کرنا ہی پڑتا ہے اور اس کام میں میرا کوئی ثانی نہیں!” اسے آنکھ مارتا وہ ماورا کی جانب متوجہ ہوا تھا جو کہ اس سے رخ موڑ چکی تھی۔
کمرے میں اب ان دونوں کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔
“کیوں تنگ کررہی ہو انہیں۔۔۔۔۔ مان کیوں نہیں جاتی ان کی بات؟” ویل چئیر اپنی جانب بڑھائے گھٹنوں کے بل بیٹھتا وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لےچکا تھا جنہیں ماورا نے چھڑوانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
“ان کی بات ماننے کے قابل ہوتی تو ضرور مان جاتی! اور ویسے بھی جو وہ مانگ رہے وہ نہیں دے سکتی۔۔۔۔!” وہ غصے سے بولی۔
“کیوں ایسا کیا مانگ لیا انہوں نے جو نہیں دے سکتی؟۔۔۔۔۔” وہ جواب کا منتظر تھا جبکہ وہ خاموش۔
“انہیں تنگ مت کرو ماورا۔۔۔۔۔ وہ تم سے بہت محبت کرتے ہیں، کبھی ظاہر نہیں ہونے دیا کہ تم ان کی اولاد نہیں۔۔۔۔ ان کی محبت کا یہ صلہ مت دو۔۔۔۔۔ ان کی تکلیف کو سمجھو۔۔۔۔۔۔ جانتی ہو ابھی باہر تمہارے سو کالڈ خاندان والوں سے تمہارے بارے میں کیا سن کر آرہا ہوں؟”
اس نے نگاہیں اٹھائے ماورا کو دیکھا جس کے کان اس کو سن رہے رہے تھے۔
“کہہ رہے تھے کہ ماورا پکا گھر سے بھاگی تھی اور اب کسی عمر رسید انسان نے اپاہج ماورا کو بیاہا جارہا ہے اور میں اس کا بیٹا ہوں، جو کم عمر ماں سے ملنے آیا ہوں۔۔۔ سوچو ماورا اگر یہ باتیں تایا تائی میں سے کوئی سن لیتا تو؟۔۔۔۔۔ تم پہلے بھی انجانے میں انہیں تکلیف دے چکی ہو۔۔۔۔۔ اب جانتے بوجھتے مت کرو ایسا!” وہ اسے ایموشنلی بلیک میل کررہا تھا۔
“مسئلہ وہ نہیں تم ہو!” اپنے ہاتھ اس کی گرفت سے چھڑوا کر وہ چلائی تھی۔
“تمہیں کیا لگتا ہے کہ مجھے پاکستان لاکر، میرے اپنوں سے ملوا کر، میری مدد کرکے، مجھ اپاہج کو اپنا کر تم اپنے تمام گناہوں کو دھو ڈالو گے؟ نہیں معتصیم ایسا نہیں ہے، اور اگر یہ سوچ ہے تمہاری تو بہت غلط سوچ ہے!” آنسو اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے جبکہ چہرے پر بلا کا غصہ تھا۔
“میں بھولی نہیں ہو معتصیم، نہیں بھولی تمہارا مجھے فہام جونیجو کے حوالے کرنا، تمہارا مجھے بولنے کا موقع دیے بنا سزا سنانا!۔۔۔۔۔ نہیں بھولتی وہ تکلیف دہ راتیں جو میں نے پاگلوں کے اس ہسپتال میں گزاری تھی، وہ راتیں جب ذہنی طور پر ہر طرح کی تکلیف دی جاتی تھی۔۔۔۔ کچھ نہیں بھولی میں معتصیم!۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے؟ کیا وہ سب بھولنا اتنا آسان ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ مجھے، مجھے تکلیف ہوتی ہے معتصیم، آج بھی بہت تکلیف ہوتی ہے یہاں، ان دنوں کو سوچ کر!” اپنے دل پر انگلی رکھے وہ دبی دبی آواز میں چلائی تھی۔
“ماورا۔۔۔۔۔” ماورا نے ہاتھ اٹھائے اسے کچھ بھی بولنے سے روکا تھا۔
“نہیں معتصیم نہیں تم، تم اس تکلیف، اس درد کو محسوس بھی نہیں کرسکتے جس سے ماورا گزری۔۔۔۔۔۔ میں، میں آٹھ سالوں کو نہیں بھول سکتی معتصیم جو تمہاری وجہ سے برباد ہوگئے میرے۔۔۔۔۔جانتے ہو جس دن تایا ابو نے خلع کی بات کہی تو مجھے بہت تکلیف ہوئی، محسوس ہوا جیسے سانس بند ہوجائے گی، میں، میں نکلنا چاہتی تھی اس ماحول سے۔۔۔۔۔۔ ڈر رہی تھی تمہیں کھونے سے۔۔۔۔۔ بھلے اس وقت میں نے جو دیکھا اس پر یقین کیا مگر بعد میں ناجانے کیوں دل کی گواہی پر یقین آنے لگا کہ وہ ایسا نہیں ہوسکتا!۔۔۔۔۔۔۔ صرف تم سے جدائی کی سوچ مجھےصوفیا کہ در تک لے گئی اور دیکھو وہاں سے میں کہاں پہنچ گئی۔۔۔۔۔۔ اورجب تمہیں ملی تو تم نے کیا کیا؟۔۔۔۔ وہ سب، وہ سب چاہ کر بھی بھول نہیں سکتی میں!”چہرہ ہاتھوں میں چھپائے وہ رو دی تھی۔
نم نگاہوں سے معتصیم نے اسے دیکھا، ہاں معاف کرنا اتنا آسان تھوڑی نہ تھا۔۔۔۔۔۔ مگر نہیں فلحال وہ یہ غلطی نہیں کرنے والے تھا۔۔۔۔ وہ سمجھ رہا تھا ماورا جو چاہ رہی تھی وہ یہ شادی روکنا چاہتی تھی، وہ ابھی ان سب کے لیے تیار نہیں تھی مگر معتصیم اسے فلحال کسی قسم کی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔
“جو بھی فیصلہ کرنا، ایک بار اپنے تایا ابو کے بارے میں سوچ لینا۔۔۔۔۔۔ تمہارا انکار یا اقرار ان کے لیے ایک نئی زندگی کی نوید ہوگے!” جواب دیے وہ وہاں سے نکل آیا تھا۔
“کیا بنا؟” اس کے باہر نکلتے تایا ابو نے بیتابی سے سوال کیا۔
“منانے کے چکر میں رلا آیا ہوں اسے!” سر کھجائے وہ ہلکا سا مسکرایا تھا جس پر تایا ابو نے اسے آنکھیں دکھائیں تھی۔
“اب باقی آپ پرچھوڑتا ہوں!” انہیں بولتا وہ وہاں سے جاچکا تھا۔
تایا ابو اس کی پشت کو گھورے کمرے میں داخل ہوئے جہاں وہ چہرے پر موجود آنسوؤں کو صاف کررہی تھی۔
“کیا ہوا ہے؟ کیا اس نے رلایا؟” ان کے سوال پر اس کا سر نفی میں ہلا۔
“تم پر کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں میری جان، تم جو فیصلہ لوگی مجھے منظور ہوگا۔۔۔۔ میں نے تمہاری تائی کو کہاں بھی تھا کہ تم سے پوچھ لے مگر وہ بڑے مان سے بولی تھی کہ ہماری ماورا انکار نہیں کرے گی، پگلی بھول گئی کہ ماورا اب بڑی ہوگئی ہے انکار، اقرار کا حق رکھتی ہے!” وہ مزید اسے ایموشنل کررہے تھے اور انہیں برا بھی لگ رہا تھا مگر کیا کرتے اس کے لیے ضروری تھا۔
“میں ابھی سب کو منع کردیتا ہوں!۔۔۔۔ میرے لیے میری بیٹی کی خوشی زیادہ اہم ہے!” انہوں نے اس کا سر تھپتھپایا تھا۔
“تایا ابو۔۔۔۔” انہیں دروازے کی جانب جاتے دیکھ اس نے پکارا۔
“میں، میں راضی ہوں!” سر جھکائے اس نے فیصلہ سنایا۔
خوشی سے وہ آگے بڑھے اور اس کا سر چومے ڈھیر دعائیں دیتے وہ باہر چلے گئے۔
ہاں اس کے تایا ابو، تائی امی نے اس کے لیے بہت کچھ کیا تھا۔۔۔۔ اس سے بےپناہ محبت کی تھی۔۔۔۔۔ تو کیا وہ ان کی خوشی کے لیے اتنی بھی قربانی نہیں دے سکتی تھی؟۔۔۔۔۔ وہ خودغرض نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں تمام لوگ پریشان تھے۔۔۔۔۔۔ جازل نے اپنے تمام سورسز استعمال کرلیے تھے مگر کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔
مسز زبیری کو اپنے پوتے، پوتی کی فکر لاحق تھی جبکہ شبیر زبیری کا غصے سے برا حال تھا۔۔۔۔۔
ان کا پلان ایک بار پھر فلاپ ہوا تھا۔
سب کچھ کتنا آسان تھا، راستے میں شزا کو مروا کر اس کا الزام بھی ارحام شاہ کے سر ڈال دیتا،اور بچے اپنے پاس رکھتا۔۔۔۔ مگر پھر یہ کون تھا جو اس شزا اور اس کے خاندان کے وارث کو لیے اڑن چھو ہوگیا تھا۔
شبیر زبیری کا سب سے پہلا شک سنان اور وائے۔زی پر گیا تھا مگر انفارمیشن کے مطابق وہ دونوں دو دن پہلے ہی پاکستان جاچکے تھے تو پھر کیسے؟
“آہ!! تم جو بھی ہو چھوڑوں گا نہیں میں تمہیں!” وہ غصے سے بڑبڑائے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلی کاپٹر بہت جلد پاکستان کی سرزمین پر لینڈ ہوا تھا۔۔۔۔۔ ارحام شاہ بھی اس وقت سنان کے گھر بےصبری سے اپنی بیٹی کا انتظار کررہے تھے، وہ بیٹی جیسے وہ تئیس سال بعد دیکھنے والے تھے۔
بہت جلد انہیں گاڑی کی آواز سنائی دی تھی۔۔۔۔ وہ اور زویا بھاگتے ہوئے دروازے کی جانب آئے تھے۔۔۔ جہاں وائے۔زی دونوں بچوں کو تھامے پہلے اندر داخل ہوا تھا جو دونوں بڑے مزے سے آنکھیں پھیلائیں اس نئی جگہ کو دیکھ رہے تھے۔
وائے۔زی نے گھور کر شیطان کی اس ماں کو دیکھا تھا جس نے اسے بڑا ستایا تھا۔
اس کے پیچھے ہی سنان اپنی باہوں میں شزا کو اٹھاتا اندر داخل ہوا تھا۔
“شہرینہ!” ارحام شاہ کے لب ہلے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...