شہوار کی طبیعت اب قدرے بہتر تھی اسی لئے گھر میں دادی نے سمرہ،حمزہ اور فیضان اور حوریہ کے نکاح کی ڈیٹ اگلے ہفتے رکھ لی تھی۔شہوار اپنے بھائی کے نکاح کیلئے بہت خوش تھی اب اسکو ڈریس لینے کی فکر لگ گئی تھی
“فیضی بھائی اٹھیں ابھی اور مجھے ڈریس دلائیں”وہ فیضان کے سر پر کھڑی اس سے ضد کر رہی تھی جو ابھی ابھی آفس سے آیا تھا
“گڑیا میرے سر میں درد ہے کل چلیں گے نا”فیضان کے واقعی سر میں بہت درد تھا
“آؤ شہوار میں دلادوں”شایان پیچھے سے آیا اور شہوار کو آفر دی جسپر شہوار نے بے اختیار فیضان کی طرف دیکھا
“ہاں شانی اسکو لے جاؤ” فیضان نے کہا تو شہوار کنفیوژ ہوگئی یہ پہلا تجربہ تھا کہ وہ فیضان کے علاوہ کسی اور کے ساتھ جارہی تھی اوپر سے وہ ایک شاپ پر ایک گھنٹہ لگاتی تھی جسکو صرف فیضان ہی برداشت کر سکتا تھا
وہ تیار ہوکر نیچے آئی تو شایان لاونچ میں بیٹھا تھا اسکو دیکھ کر کھڑا ہوگیا
“چلیں؟”شایان نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو شہوار نے سر ہلایا
دونوں گاڑی میں آکر بیٹھے تو شہوار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
“ایسا ہے نے بیسٹی میرا پلین بدل گیا ہے”
“کیا مطلب”شایان نے حیرانی سے کہا
“مطلب کہ ہم ڈنر کر لیتے ہیں شاپنگ کے بجائے مجھے بہت بھوک لگی ہے شہوار نے معصومانہ انداز میں کہا تو شایان مسکرایا
وہ دونوں ریسٹورنٹ پہنچے شہوار کو آج شایان بدلا بدلا لگ رہا تھا
“آپکو کیا ہوا بیسٹی؟” وہ بیٹھتے ہوئے بولی
“کچھ نہیں مجھے کیا ہونا ہے”وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولا
“دیکھیں ہم نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا ہم کچھ نہیں چھپائیں گے”شہوار نے انگلی اٹھا کر کہا
شایان اسکے انداز پر مسکرادیا
“ارے کچھ نہیں ہوا لڑکی”
“آپ بتا رہے ہیں یا نہیں”
“کیا بتاوں؟”
مجھے لگتا ہے آپکو پیار ہوگیا ہے ہے نا؟شہوار نے مسکراتے ہوئے کہا
“ہاں شایان نے فقط اتنا کہا لیکن شہوار کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا لیکن وہ نارمل رہی
“اچھا بتائیں وہ کون ہے میں دادی جان سے بات کروں گی شہوار نے مسکراتے ہوئے کہا
“لڑکی ہے”
“پیار اب آپکو لڑکے سے ہو نہیں سکتا ظاہر ہے لڑکی ہوگی اب بتائیں نا اسکا کیا نام ہے اور کیسی ہے؟”شہوار بات کر رہی تھی اور شایان اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہا تھا
“آپکے پاس پکچر تو ہوگی نا؟” شہوار اسکو خاموش پاکر واپس گویا ہوئی
“ہاں”شایان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
“دکھائیں”شہوار کا چہرہ دھواں دار ہورہا تھا جسکا اسکو بھی اندازہ نہیں تھا لیکن شایان یہ اچھی طرح محسوس کر سکتا تھا
شایان نے اپنے موبائل کا فرنٹ کیمرہ کھول کر موبائل اسکی طرف بڑھادیا
“یہ کیا ہے پکچر کھول کر دیں نا خود کیسے تلاش کروں نجانے کتنی لڑکیاں ہونگی”شہوار ہنستے ہوئے بولی
“پورا موبائل چھان مارو ہر جگہ صرف ایک لڑکی ہے”شایان نے اسکو بغور دیکھتے ہوئے کہا اسی دوران کھانا بھی آگیا تھا
شہوار نے گیلری کھولی پکس پر کلک کیا تو صرف اسی کی تصویریں تھیں شہوار حیرانی سے دیکھے جارہی تھی اس نے سر اٹھا کر شایان کو دیکھا وہ اسکو آنکھوں میں ایک محبت کا سمندر لئے دیکھ رہا تھا شہوار نے بے اختیار نظریں جھکالیں اور ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے
“ارے کیا ہوا اگر تمہیں برا لگا تو سوری شہوار پر میں اپنے دل کو نہیں سمجھا سکتا تھا سات سال سے خاموش محبت کرتے کرتے میں تھکگیا تھا”شایان نے گھمبیر لہجے میں کہا
“آپ نے وہ راستہ چنا ہے جسکی کوئی منزل نہیں”شہوار نے جھکے سر سے ہی کہا
“منزل راستہ پر قائم رہنے سے مل جاتی ہے”شہوار آگے جھکتے ہوئے بولا
“شہوار میں جانتا ہوں تم ماما سے ڈر رہی ہو پر اگر تم میرا ساتھ دو تو ہم ایک ہو سکتے ہیں”شایان کی آنکھوں میں روشی کی ایک چمک تھی
“کیسا ساتھ”شہوار نے ڈرتے ہوئے پوچھا
جس دن سمرہ اور حمزہ کا نکاح ہوگا اس دن خوب اچھی طرح تیار ہونا اور ہاں فیضان کے ساتھ سوٹ لینے جاؤ تو پرپل کلر لینا تم پر اچھا لگتا ہے”شایان نے اسکو مسکراتے ہوئے دیکھا تو وہ نا سمجھی میں سر ہلا کر رہ گئی
__________________
دونوں گاڑی پارک کر کے اندر آئے تب بد قسمتی سے بڑی تائی راستہ میں مل گئیں اور شایان کے ساتھ شہوار کو دیکھ کر غصے کی وجہ سے لال ہونے لگیں شہوار کی جان نکلنے لگی
“تم میرے بیٹے کے ساتھ کہاں سے آرہی ہو؟” تائی نے کڑک لہجے میں کہا تب شایان اسکے آگے آیا
“آپکا بیٹا ہی اسکو لیکر گیا تھا ماما”شایان کا لہجہ سپاٹ تھا
“اب یہ تم پر ڈورے ڈالنے لگی”تائی اسکی طبیعت کا لحاظ کئے بغیر ہی کہ رہی تھیں
“ماما پلیز”پھر شایان پیچھے مڑا اور شہوار کو مخاطب کر کے بولا
“شہوار تم اندر جاؤ”اور شہوار اسکے کہتے ہی اندر بھاگ گئی شایان ماں کی طرف متوجہ ہوا
“ماما کسی کی طبیعت کا ہی خیال رکھ لیتے ہیں کم از کم انسانیت کی خاطر”شایان کے لہجے میں ہلکی سختی آگئی تھی
“واہ بھئ واہ ایک ہی دن اسکے ساتھ رہ کر ماں کے سامنے ہی کھڑے ہوگئے اور طبیعت صرف ہمدردیاں سمیٹنے کا بہانہ ہیں آئی سمجھ؟”تائی بلند لہجے میں بولیں
“ماما پلیز” وہ بحث کرنا نہیں چاہتا تھا اسکے آگے بڑھ گیا اور تائی سر جھٹک کر بینش کے پاس چلی گئیں۔
_________________
کل نکاح تھا۔سب کزنز آج چھت پر بیٹھے تھےلڑکیاں ایک دوسرے کو مہندی لگا رہی تھیں
“شہوار تم مہندی نہیں لگوا رہی نا تو جاؤ چائے بنا کر لے آؤ”اریبہ نے کہا تو شہوار اٹھ کر کچن میں آگئ
“شہوار”شایان کی آواز پر وہ پیچھے مڑی تو وہ مسکرادیا
“جی”شہوار اب اس سے جھجھکتے لگی تھی
“میں نے اظہار اسلئے تو نہیں کیا تھا کہ ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ ختم ہوجائے”شایان اسکو بغور دیکھتے ہوئے بولا
“نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں” وہ شرماتے ہوئے بولی
“اچھا پھر کیسی بات ہے؟شرما رہی ہو؟؟ہائے شہوار تم شرماتی بھی ہو؟”شایان اسکو چھیڑتے ہوئے بولا
“آپ جائیں نا وہ آجائیں گی”شہوار اسکو باہر دھکیلتے ہوئے بولی
“کون؟” شایان کو اسکو چھیڑتے ہوئے مزہ آرہا تھا
“ڈریکولا”شہوار نے ہنستے ہوئے بولا جسپر شایان بھی ہنس پڑا
“اے خبردار جو میری ماں کو کچھ کہا”شایان مصنوعی غصے سے بولا
“آپ جائیں”وہ اسکو کچن سے باہر نکال کر مسکراتے ہوئے چائے بنانے لگی
“مہندی لگالینا شایان اسکے کان میں بول کر بھاگ کر چلا گیا اور وہ فقط مسکرا کر رہ گئی
“یہ لو بھئ سب کی چائے” وہ چائے بنا کر آئی اور سبکو دینے لگی
“بھیا اپنے کپ میں سے دیدیگا”وہ اکثر فیضان کی جھوٹی چائے پیتی تھی۔
“اوکے گڑیا”فیضان اپنی بہن کو پیار سے دیکھتے ہوئے بولا جسکے نصیب بھی کھلنے والے تھے
“اریبہ میرے بھی مہندی لگاؤ”شہوار بیٹھتے ہوئے بولی
“ہیں یہ تبدیلی کب اور کیسے آئی؟”سب جانتے تھی شہوار کو مہندی سے خاص چڑ ہے اور اب اسکے بولنے پر حوریہ حیرانی سے دیکھتے ہوئے بولی
“بس آگئی مجھے لگاؤ بس”
شہوار نے شایان کی طرف دیکھا جو اسکو محبت سے دیکھ رہا تھا شہوار نے سر جھکالیا
فیضان نے شایان کی طرف دیکھتے ہوئے وکٹری کا اشارہ کیا اور دونوں کھل کر ہنس دیئے۔
شہوار مہندی لگوارہی تھی اور شایان بالکل اسکے برابر میں آکر بیٹھ گیا شہوار اپنے آپ میں سمٹ گئی۔
“آپ کس خوشی میں ادھر آئے ہیں”اریبہ جو کہ مہندی لگا رہی تھی اسکے آنے پر بولی
“میں یہ دیکھنے آیا ہوں میری بہن کتنی اچھی مہندی لگاتی ہے”شایان نے مسکراتے ہوئے کہا اور ارہبہ اپنی تعریف سن کر خوش ہوگئی اور اسکو واپس اٹھنے کو بھی نہیں کہا شہوار نے نظریں اٹھا کر اسکی طرف دیکھا تو شایان نے شرارتا آنکھ ماری جسپر شہوار اندر تک کنفیوژ ہوگئی۔
“شایان”فیضان کی آواز آئی اور شہوار کے منہ سے شکر نکلا جسپر شایان نے اسکو گھور کر دیکھا اور چلا گیا
“بکو”فیضان کا بلانا اسکو پسند نہیں آیا تھا
“میری بہن کو میری نظروں کے سامنے تاڑنے سے بہتر ہے تم کوئی کام کرلو”فیضان نے مصنوعی غصے سے کہا
“آپکی بہن عنقریب میری زوجہ محترمہ بننے والی ہیں”شایان نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا جسپر فیضان کی ہنسی نکل گئی
“ابھی تو جاکر دادی کی ڈانٹ سن” فیضان نے اسکو سیڑھیوں کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا
“یار میں کیوں سنوں”شایان پریشان ہوگیا
“کیونکہ انھوں نے تجھے ہی کہا تھا نا کہ سر فراز انکل سے بات کر کے ہال کی مینجمنٹ انکو بتادینا اب انکا فون آیا ہے کہ تم نے انکو کچھ نہیں بتایا”فیضان نے تفصیلا اسکو بتایا
“ابے یار میں تو بالکل بھول گیا تھا” شایان سر پر ہاتھ مار کر بولا
“ہاں تو اب تو ہر چیز ہی بھول جانی ہے آپکو”فیضان نے اسکو مصنوعی طنزیہ انداز میں کہا جسپر شایان اسکو بھرپور گھور کر نیچے اپنی درگت بنوانے چلا گیا
_______________
“ارے! اٹھاؤ ان لوگوں کو گھر پر ہزاروں کام پڑے ہیں” وہ سب صبح فجر پڑھ کر سوئے تھے اب دن کے بارہ بج رہے تھے کوئی بھی نہیں اٹھا تو دادی نے چھوٹی تائی کو کہا
“جی اماں”وہ کہتے ہوئے ان سب کے کمروں کی جانب چل دیں
” اٹھو بچوں دادی غصہ ہو رہی ہیں”وہ اندر آئیں اور سب کو اٹھانے لگیں
“ارے مامی انکو بتادیں ہم تھکے ہوئے ہیں” یہ اریبہ تھی جس نے کمبل کے اندر سے ہی دہائی دی۔
“بیٹا میں نے یہ بتا دیا نا تو وہ تمہیں آکر تمغہ محنت نوازنے آئیں گی وہ بھی اپنے ڈنڈے سے” تائی ہنستے ہوئے بولیں تو ان سب کو اٹھنا ہی پڑا
سب ناشتہ کرنے ٹیبل پر آئے اور ساتھ میں دادی کی ڈانٹ بھی کھانے لگے جو تقریبا ایک ہفتے سے انکا معمول تھا۔
_________________
شہوار اپنے سوٹ کا دوپٹہ ٹیلر کے پاس سے لینا بھول گئی تھی اور اب اسکو ٹینشن لگی تھی۔فیضان ہال کی مینجمنٹس کروانے گیا ہوا تھا شایان گھر پر تھا لیکن تائی کی وجہ سے وہ اسکو بول نہیں سکتی تھی اور پھر اب شرم بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے نا
“کیا ہوا شہوار یہاں کیوں بیٹھی ہو”حوریہ اسکے پاس آکر بولی
“تم جاؤ یہاں سے مجھ سے بات مت کرو”کل جب وہ اپنا سوٹ لینے گئی تھی تو شہوار نے اسکو اپنا دوپٹہ لانے کو بھی کہا تھا لیکن وہ بھول گئی تھی تب سے وہ حوریہ سے ناراض تھی
“دیکھو آج رات میں تمہاری بھابھی بننے کے مرتبے پر فائز ہونے والی ہوں اسلئے یہ ناراضگی چھوڑدو”حوریہ اسکو مناتے ہوئے بولی
“حوری میرا دوپٹہ کون لائیگا اب”شہوار روہانسے انداز میں بولی
“حمزہ بھائی یا کاشان بھائی کو بولتے ہیں وہ لے آئیں گے” حوریہ اٹھتے ہوئے بولی
“کوئی بھی گھر پر نہیں ہیں دادی نے سب کو کام دیئے ہوئے ہیں” شہوار اب رونے والی ہوگئی تھی
“تو تمہارے ہزبنڈ کو بول دیتے ہیں”حوریہ کی زبان پھسلی تو اس نے اپنے زبان کو دانتوں تلے دبالیا
“کیا مطلب کون؟ اور وہ بھی میرے ہزبنڈ” شہوار حیرانی سے پوچھنے لگی
“یار کیوں نہ ہم خود چلیں”حوریہ نے فوری طور پر موضوع بدلا
“تاکہ مہمان جو آئے گے وہ نکاح کے بجائے ہم دونوں کی شہادت کی تقریب دیکھ کر بھاگ جائیں کیونکہ دادی کے ہاتھوں ہم نہیں بچنے والے”شہوار نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا
“کیا ہوا تم دونوں ادھر کیوں بیٹھی ہو؟” شایان جو کسی کام سے باہر جارہا تھا ان دونوں کو دیکھ کر رک گیا
“اوہ شایان بھائی بڑے اچھے وقت پر آئے اسکا دوبٹہ ٹیلر کے پاس سے لانا ہے آپ اسکو لیتے ہوئے چلے جائیں”حوریہ تو اسی موقع کے انتظار میں تھی
“ہاں چلو”اس نے شہوار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو کل سے بے انتہا حسین لگ رہی تھی
“پر شایان وہ تائی”شہوار ڈرتے ہوئے بولی
“ارے وہ پارلر گئی ہوئی ہیں تم چلو”وہ بولتا ہوا گاڑی کی جانب چل دیا تو شہوار بھی اسکے پیچھے آگئی
شایان مسلسل اسکی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ کنفیوژ ہوئے جارہی تھی
“سامنے دیکھ کر گاڑی چلائیں نا”شہوار منمنائی اب تو شایان کے سامنے اسکی آواز بھی نہیں نکلتی تھی
“کیا یہ میری وہی دوست ہے جسکو شرمانا بہت عجیب لگتا تھا”شایان اسکو تنگ کر رہا تھا اسکو یاد تھا جب سمرہ حمزہ بات کر رہے تھے تو شایان اور شہوار دور کھڑے انکو دیکھ رہے تھے سمرہ کے مسلسل شرمانے پر شہوار نے کہا تھا
“پتہ نہیں لڑکیاں کیوں شرماتی ہیں بھئ وہ انکے شوہر ہی تو بننے والے ہیں نا پھر شرمانے کا فائدہ بعد میں انہی کا سر کھائیں گی پتہ ہے بیسٹی مجھے شرمانا بہت عجیب لگتا ہے اب ان سے کیا شرمانا جو کل کو آپکے لائف پارٹنر بن جائیں گے”اسوقت شایان اسکی بات سے بہت محفوظ ہوا تھا اور اب اسی کی بات سے اسکو چڑانے میں بہت مزہ آرہا تھا۔
“پتہ نہیں میں نے بھی کس کے سامنے بکواس کر دی تھی”شہوار بڑبڑائی
“میرے سامنے ڈیئر میرے سامنے”شایان باقاعدہ اپنے طرف اشارہ کر کے بولا
“پلیز نا شانی”شہوار نے بے چارگی سے کہا
“اوکے اوکے نہیں کہتا”شایان نے ہنستے ہوئے کہا
“ویسے تمہارے ہاتھوں پر مہندی بہت اچھی لگتی ہے”شایان نے مسکراتے ہوئی تعریف کی جسپر شہوار بھی مسکرادی
_____________________
بڑے تایا اور چھوٹے تایا جو بزنس کیلئے لندن گئے ہوئے تھے شام کو اچانک آگئے جسپر سب بہت خوش تھے خصوصا شہوار اس سے دونوں تایا بہت پیار کرتے تھے اب ان کے آنے سے اسکو ڈھارس ملی تھی
وہ بڑے تایا کے ساتھ لگی تھی اور تائی اسکو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھیں
“شہوار بیٹی آپ نے شاپنگ وغیرہ کر لی تھی نا”تایا نے اس سے پیار سے پوچھا
“جی”شہوار نے فقط اتنا کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئی کیونکہ اس سے وہاں وہ نظریں برداشت نہیں ہو رہی تھیں
___________________
“ارے بھئی جلدی کرو لڑکیوں سمرہ آپی اور حوریہ ہال پہنچ بھی گئیں” اریبہ اور وہ ایک دوسرے کو تیار کر رہی تھیں جب ارسلان کی آواز آئی
“ایک تو کوئی سکون سے تیار بھی نہیں ہونے دیتا”اریبہ بڑبڑائی اور دونوں جلدی جلدی تیار ہوکر نیچے آئیں۔
“ہائے میں مر گیا مما بچاؤ دو چڑیلیں آگئیں”ارسلان نے مرنے کی ایکٹنگ کی جسپر اریبہ اسکو مارنے کیلئے آگے بڑھی
“ارے اریبہ چھوڑو اسکے بولنے سے کونسا ہم چڑیلیں بن گئیں”شہوار دور سے تایا کو آتے ہوئے دیکھ چکی تھی
“میری بیٹی بہت پیاری لگ رہی ہے”ربیعہ بیگم پیچھے سے آکر اسکو ساتھ لگاتے ہوئے بولیں
“اور مامی میں”اریبہ بھی انکی دوسری طرف آگئی اسکو اپنی یہ مامی بہت اچھی لگتی تھیں
“تم بھی”انہوں نے اریبہ کو بھی ساتھ لگایا اور پورچ کی جانب چل دیں گھر میں صرف ربیعہ بیگم چھوٹے تایا ارسلان اریبہ اور شہوار ہی بچے تھے باقی سب جا چکے تھے
____________________
ہال پہنچ کر شہوار نے اپنی نظریں اسٹیج پر گھمائیں وہاں سمرہ اور حوریہ دولہن بنی بیٹھی تھیں اور دونوں ہی بہت پیاری لگ رہی تھیں شہوار نے متلاشی نظروں سے فیضان کو ڈھونڈا تو وہ اسکو شایان کے ساتھ کھڑا ہوا نظر آیا
“ان کو بھی انہیں کے ساتھ کھڑا ہونا تھا اب میں کیسے جاؤں”شہوار بڑبڑائی “لیکن بھیا کے سامنے تو وہ کچھ نہیں کرسکتے نا” اس نے دل میں سوچا اور فیضان کے پاس جانے لگی
“بھائی”شہوار نے اسکے قریب پہنچ کر آواز دی جسپر دونوں ہی اسکی طرف متوجہ ہوئے فیضان نے آگے بڑھ کر اسکو گلے لگالیا اور شایان بس اسے دیکھتا رہ گیا
پرپل میکسی جسپر نازک سلور کام ہوا تھا ہاتھوں میں چوڑیاں زیب تن کئے سیدھے بال پشت پر ڈالے بلا شبہ وہ بہت حسین لگ رہی تھی
“میری بہن کو نظر لگانے کا ارادہ ہے کیا”شہوار فیضان سے مل کر جا چکی تھی پھر فیضان اسکی طرف دیکھتا ہوا بولا
“نہیں”شایان نے فقط اتنا کہا
“کیا ہوا پریشان ہو؟”فیضان نےاسکی خاموشی محسوس کرتے ہوئے کہا
“ہاں جو پلین ہم نے بنایا ہے کہیں اسمیں گڑبڑ نہ ہوجائے”شایان نے کہا
“نہیں ہوگی انشاءالله تایا ابا تائی کو سمجھا چکے ہونگے انکے سامنے وہ ویسے بھی کچھ نہیں کر سکتیں”فیضان نے اسکو تسلی دی
پھر مولوی صاحب نکاح پڑھانے آگئے اور فیضان حوریہ اور سمرہ حمزہ کا نکاح پڑھایا شہوار مٹھائی لانے کیلئے ہال کی دوسری جانب جانے لگی تب فیضان اسکے سامنے آیا
“ابھی کہیں نہیں جاؤ”فیضان اسکو بازوؤں میں لیتا ہوا بولا
“کیوں بھئی” شہوار اسکے حصار سے نکلتے ہوئے بولی
“کیونکہ ابھی آپ بھی نکاح جیسی زنجیر میں بندھنے والی ہیں”فیضان اسکا ماتھا چومتا ہوا بولا وہ واقعی آج بہت خوش تھا اسکی بہن آج اس شخص کی زندگی میں شامل ہو رہی تھی جس نے ہر قدم پر اس کا ساتھ دیا تھا اسکا بہترین دوست۔۔ بہترین بھائی۔۔
“بھائی یہ آپ کیا کہ رہے ہیں؟”شہوار کی آواز دور کھائی سے آئی پھر اچانک اریبہ اسکو پکڑ کر ڈریسنگ روم میں لے گئی اور کب کیسے نکاح ہوگیا وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی اس نے کیسے نکاح کے کے پیپرز پر سائن کئے اسکو کچھ نہیں پتہ تھا شہوار کا دماغ سن ہونے لگا تھا پھر فیضان کے کہنے پر اریبہ نے ڈریسنگ روم خالی کروایا اور خود بھی چلی گئی۔ وہ بھائی کو دیکھ کر رو پڑی
“ارے پگلی اسمیں تو خوشی کی بات ہے رو کیوں رہی ہو؟” فیضان اسکو اپنے اندر سمیٹتے ہوئے بولا
“بھیا یہ کیا ہوا میرا کس سے نکاح ہوا ہے میں کسی اور سے محبت کرتی تھی آپ اپنی بہن سے پوچھ تو لیتے بھیا”وہ زار و قطار رو رہی تھی اور فیضان کے سر پر بم پھٹنے لگے اس نے بے اختیار دروازہ کی طرف دیکھا جہاں شایان دھواں دار چہرے کے ساتھ کھڑا تھا
“کس سی کرتی تھی تم محبت؟”فیضان کے لہجے میں سختی آگئی تھی
“شایان سے انہوں نے ہی مجھے محبت کا مطلب سکھایا تھا”وہ بغیر ڈرے بولی “وہ بھی مجھ سے محبت کرتے تھے آپ نے بہت ظلم کیا میرے ساتھ میں انکو کیا جواب دوں گی بھیا آپ کو اپنے دوست کے بارے میں بھی نہیں پتہ”شہوار بولے جارہی تھی جب اس نے فیضان کی طرف دیکھا وہ بہت خوبصورتی سے مسکرا رہا تھا
“آپ مسکرا رہے ہیں آپ کی بہن کا دل برباد ہوگیا اور آپ”شہوار نے حیرانگی اور پھر دکھے دل سے کہا
“تمہارا نکاح کس سے ہوا ہے شہوار؟” فیضان نے مسکراتے ہوئے پوچھا
“جس سے بھی ہوا ہے آپ نے شاید نکاح نامہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا میں نے نام نہیں پڑھا اسکو ادھر بلائیں میں طلاق لینا چاہتی ہوں میں شایان سے محبت کرتی ہوں انہیں سے نکاح کروں گی” وہ جذباتی انداز میں بولی
“اچھا تمہارا دلہا آگیا دیکھو”فیضان کی کہنے پر شہوار نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں شایان بڑی خوبصورت مسکراہٹ لیئے کھڑا تھا شہوار نے پھر فیضان کی جانب دیکھا وہ بھی مسکرا رہا تھا
“میرا نکاح؟”
“شایان سے ہی ہوا ہے؟”وہ بڑبڑائی
“جی بالکل اپنی بہن کی خوشی جانتا ہوں میں اب تم دونوں بات کرو مجھے اپنی بیگم کے پاس بھی جانا ہے” فیضان کہتا ہوا باہر چلا گیا وہ اسکے پیچھے جانے لگی تب شایان نے اسکو روک لیا شہوار نے بے اختیار نظریں نیچے کرلیں
“ہائے تم اتنی پیاری لگ تھی مجھ سے برداشت نہیں ہوا میں نے نکاح کرلیا”شایان نے شرارتی انداز میں کہا تو شہوار اندر تک شرمندہ ہوگئی نجانے انہوں نے کیا کیا سن لیا وہ دل میں سوچتے ہوئے شرمندہ ہوئے جارہی تھی شایان اسکے قریب آیا ماتھے پر بوسہ دیکر کہا
“اس اقرار محبت اور میرا ساتھ دینے کیلئے شکریہ”شایان نے مسکراتے ہوئے کہا اور باہر چلا گیا جہاں تایا اسکو بلا رہے تھے
اور شہوار اپنی قسمت پر حیران تھی اور حوریہ کی آواز کانوں پر پڑنے لگی جو دوپہر سے اسکو “تمہارے شوہر” کیے جارہی تھی پھر خود ہی موضوع بدل لیتی تھی أسوقت شہوار کو اپنے ڈوبی کی ٹینشن تھی اس نے غور نہیں کیا اور اب اسکو سب سمجھ آنے لگا تھا
“مطلب اسکو بھی پتہ تھا”وہ دل میں سوچنے لگی اور پھر اس کی کلاس لینے کا ارادہ کر کے کھڑی ہوگئی