“مما مما جانے دے مجھے میرا شاہ میرا شاہ میری زندگی وہاں تکلیف میں ہے مجھے مت روکے ” اس نے خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کی مما کا گرفت بہت مضبوط تھا
“کیا اول فول بول رہی ہوں کیا ہوا ہے باتوں مجھے پری میرا دل بیٹھا جا رہا ہے ” مما نے اسے جنجھوڑ کر غصے سے پوچھا
وہ ہوش میں ہوتی تو کچھ بتا پاتی اسے تو اپنے شاہ کے پاس جانے کی جلدی تھی شاہ زر کی وہ چلانے کی آواز اب بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی اس کا دل چھنی ہو رہا تھا
“مما شاہ زر ۔۔۔۔ دھماکا شاہ ۔۔ مما ” وہ مسلسل ایک ہی بات کو بار بار کہ رہی تھی مما کے دل کو کچھ ہوا اس کی بیٹی کی زندگی میں خوشیاں آنے سے پہلے ہی روٹھ گئی تھی انہوں نے پری کو اپنے ساتھ لگایا
“پری تمہیں خدا کی واسطہ ہے بتاؤ مجھے میرا دل گھبرا رہا ہے تم کچھ بتاؤ گی تو ہی میں کچھ کر سکوں گئی نا ” مما نے بےبسی سے کہا
“مما میں شاہ زر سے فون پر بات کر رہی تھی وہ شاپنگ مال میں تھے وہ واپس آ رہے تھے اچانک زور سے دھماکے کی آواز آئی اور شاہ زر کے چلانے کی بھی میں نے بہت آوازیں دی مگر دوسری طرف مکمل خاموشی تھی مما مجھے میرے شاہ زر کے پاس لے جائے میرا دل بند ہو جائے گا ” پری نے روتے ہوئے کہا اس کا وجود دھیرے دھیرے کانپ رہا تھا ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے تھے مما کو اسے سنبھالنا مشکل ہو رہ تھا ایک طرف شاہ زر کی خبر سن کر ان کے اپنے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے دوسری طرف پری ان کے کنٹرول سے باہر ہو رہی تھی بہت مشکل سے انہوں نے اسے لاؤنچ میں لا کر صوفے پر بیٹھایا
“ریلکس میری جان کچھ نہیں ہوا شاہ زر کو میں کچھ کرتی ہوں خود کو سنبھالوں پری اس وقت تمہیں ہمت سے کام لینا ہے ” مما نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی خود ان کا اپنا دل دھاڑے مار مار کر رو رہا تھا
“نہیں مما میں اور مضبوط نہیں ہوں سکتی نہیں ہے مجھ میں اور ہمت شاہ زر کو کچھ نہیں ہو سکتا وہ جانتے ہیں ان کی پری کے پاس ان کے علاوہ کچھ نہیں بچا مما مجھے لے جائے نا کیوں نہیں جانے دے رہی مجھے آپ ” وہ پھر سے اٹھ کر جانے لگی مما نے اس بار زور سے اسے پکڑ کر صوفے پر زبردستی بیٹھایا
“بس کروں پری ہوش میں آؤ آپ تم نے یہاں سے جانے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا تم کہاں جاؤ گی ہاں بولو مجھے پتا کرنے دوں خاموش ہو کر بیٹھی رہوں اللّٰہ سے دعا کروں” مما نے پری کو سختی سے ڈانٹا پری نے خاموش نظروں سے مما کو دیکھا اس کے آنسو مسلسل بہ رہے تھے وہ ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی مما نے ملازم کو بلا کر پانی منگوایا پری کو زبردستی پانی پلایا پھر اٹھ کر ٹی وی ان کی نیوز چینل پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی جس میں لاہور کے مشہور شاپنگ مال کے باہر دھماکہ ہونے کی خبر سنائی جارہی ہی تھی ساتھ ساتھ لوگوں کے زخمی ہونے اور ہلاکتوں کے بارے میں بتایا جا رہا تھا پری کے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا مما نے ٹی وی آف کر کے پری کو دیکھا جس کا رنگ پیلا زرد ہوگیا تھا صبح تک وہ اتنی خوش لگ رہی تھی خوشی اس کے چہرے سے جھلک رہی تھی اور اب اس کی حالات بہت حراب کو رہی تھی مما نے اٹھ کر موبائل فون سے شاہ زر کے منیجر کو کال ملائی یہ نمبر شاہ زر نے جانے سے پہلے ان کو دیا تھا کہ کسی بھی ضرورت کے وقت انہیں پریشانی نہ اٹھانی پڑے
“ہیلو اسلام علیکم ”
“وعلیکم السلام بیٹا میں شاہ زر کی چاچی بت کر رہی ہوں”
“جی جی آنٹی کہئے سب خیریت ہے نا”
“خیریت ہی نہیں ہے اسد بیٹا ” انہوں نے اسد کو ساری بات سے آگاہ کیا
“یہ کیا کہ رہی ہے آپ سر کو کچھ نہیں ہو سکتا میں ابھی پتا کرتا ہوں بلکہ میں لاہور کے لیے نکلتا ہوں آپ پری میڈم کو سنبھالے میں اپنی وائف کو بھی آپ کے ہاں بھجوتا ہوں آپ پریشان مت ہوں اللّٰہ سب خیر کرے گا ” اس نے تسلی دی دل تو سب کا ہی گھبرا رہا تھا یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی دھماکے کے وقت شاہ زر وہاں موجود تھا کچھ بھی ہو سکتا تھا اس لیے وہ لوگ بےحد پریشان تھے مما نے پری کو بہت مشکل سے چپ کروایا تھا اس کی ایک ہی ضد تھی کے اسے شاہ زر کے پاس جانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسدنے اپنی وائف اور اپنی والدہ کو ان لوگوں کے ساتھ چھوڑ دیا خود وہ لاہور کے لیے روانہ ہوا فون پر وہاں کے جانے والوں سے مسلسل رابطے میں تھا مگر ابھی تک کوئی اچھی خبر نہیں ملی تھی
پری اور کلثوم بیگم کی خالت بہت خراب ہو گئی تھی پری کو تو ہوش ہی نہیں رہا تھا وہ مسلسل ہوش ور بے ہوشی کی کیفیت میں تھی اس کے زبان پر ایک ہی جملہ تھا شاہ کے پاس جانا ہے مجھے شاہ کے پاس لے جاؤ اس کی فریاد اس کی آنسو دیکھنے کے لیے شاہ زر وہاں نہیں تھا
“مما مما شاہ زر نے کہا تھا میں سو نوافل ادا کر لوں تو وہ لوٹ آئے گا ” اس نے صوفے سے اٹھتے ہوئے پر جوش لہجے میں کہا اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو گئی تھی
مما نے بےبسی سے سے دیکھا جو اس وقت بلکل بچی بنی ہوئی تھی وہ کسی بھی حال میں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ شاہ زر کو کچھ ہوا ہے
” میں ابھی جا کر پڑھتی ہوں آپ دیکھا وہ واپس آ جائے گا مجھے تنگ کر رہا ہے وہ مجھ سے ناراض ہے نا میں نے جاتے ہوئے اسے کہا تھا میں اس کے جانے سے بہت خوش ہوں اس لیے وہ مجھے تنگ کر رہ ہے بہت برا کر رہے ہے میرے ساتھ بلا اپنے پیاروں کے ساتھ کوئی ایسا مزاق کرتا ہے مما ” اس نے گے بڑھ کر مما کے ہاتھ تھام کر طرح روتے ہوئے ان سے زیادہ خود کو تسلی دینے کی کوشش کی
“ہاں ہاں پری تم جاؤ وضو کروں نوافل پڑھو شاہ زر بیٹا ضرور آ جائے گا ” انہوں نے اسے بچکارہ اس وقت وہ خود ازیت کی انتہا پر تھی پری نے آٹھ کر انہیں گلے لگایا “میرا شاہ زر آ جائے گا آپ بھی دعا کرے مما وہ آجائیے گا ” وہ کہ کر وضاحت کرنے چلی گئی مما پوٹ پوٹ کر رو دی ان سے اپنی بیٹی کی ایسی دیوانوں والی خالت دیکھی نہیں جا رہی تھی
اسد کا فون آیا ابھی تک شاہ زر کا کوئی اتا پتا نہیں چل سکا تھا اس کی گاڑی قریب ہی پارکنگ ایریا میں کھڑی تھی جس کا صاف مطلب تھا شاہ زر وہی کہی آس پاس تھا ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا تھا اسد پاگلوں کی طرح اسے تلاش کرنے میں لگا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“پری آخر کب تک تم خود کو اور مجھے اذیت دیتی رہوں گئی یقین کر لوں میری جان کہ شاہ زر اب اس دنیا میں نہیں رہا پچھلے چار ماہ سے تم میں ہم سب اسے پاگلوں کی طرح تلاش کر رہے ہے وہ نہیں رہا پری ایک بار اس تکلیف دہ حقیقت کو مان لوں مت کروں ایسا ” پری اس وقت بھی لان میں درخت کے سائے میں بیٹھی اوپر آسمان میں کچھ تلاش کر رہی تھی وہ ان چار ماہ میں کہی سے بھی پہلے والی پری نہیں لگ رہی تھی اس نے بولنا بند کر دیا تھا صرف بہت ضروری بات پر مما کو سپاٹ لہجے میں جواب دے دیتی تھی یا تو پورا پورا دن روتی رہتی یا پھر کمرے میں خود کو بند رکھتی اس کا چہرہ ہر جذبے سے آری تھا اس نے خود پر جینا حرام کر دیا تھا اس وقت بھی شکن ذدہ کپڑوں میں ملبوس تھی وہ لڑکی جو ہر وقت آپ تو ڈیٹ رہتی تھی آج بلکل ٹوٹ کر رہ گئی تھی
اس نے شکوہ بھری نظر سے مما کو دیکھا جو کھڑی پری کو ہی دیکھ رہی تھی
“کتنی بار کہو آپ سے میرے شاہ زر کو کچھ نہیں ہوا وہ زندہ ہے وہ لوٹ آئے گا ناراض ہو کر گیا تھا مجھ سے میں مناؤ گئی تو وہ آ جائے گا آپ کیوں نہیں سمجھتی ” اس نے گھاس کو بےدردی سے نوچ ڈالا تھا
“خدا کا واسطہ ہے پری کیا ہوتا جا رہا ہے تمہیں کیا بچوں کی طرف ضد کر رہی ہوں حقیقت کا سامنا کرنا سیکھوں ” مما نے زنچ ہو کر کہا وہ پری کی اس دیوانگی سے خوفزدہ ہو گئی تھی
“مما مجھے میرے حال پر چھوڑ دے مجھے آپ کی کسی بات پر یقین نہیں ہے آپ سب کے کہ دینے سے میرا شاہ زر چلا نہیں گیا وہ زندہ ہے ایک دن لوٹ کر آئے گا پھر آپ سب کو بتاؤں گی میں میرا شاہ زر لوٹ آیا ہے ” وہ اٹھ کر غصے سے گویا ہوئی آج اتنے دنوں کا غصہ ایک پل میں ہی نکال دیا تھا شاہ زر زندہ تھا پری کا شاہ زر کیسے اسے چھوڑ کر جا سکتا ہے یہ سب تو پاگل تھے
“ماں ہوں تمہاری کیسے اپنے دل کے ٹکڑے کو ایسے چھوڑ دوں میرے پاس کچھ بھی نہیں بچا پری ایک آخری رشتہ تم ہی ہوں میں کیسے تمہیں اس حال میں چھوڑ دوں جانے والوں کے ساتھ کوئی مر نہیں جاتا جینا پڑتا ہے تم بھی جتنی جلدی اس حقیقت کو مان لوں اتنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے ” انہوں نے اب کی بار سے سخت الفاظ میں سمجھایا پری ایک شکوہ بھری نظر اپنی ماں پر ڈال کر وہاں سے بنا کچھ کہے چلی گئی مما نے تاسف سے سر ہلایا وہ ماں تھی کب تک اپنی بیٹی کو اس حال میں دیکھ سکتی تھی
“شاہ زر خدا کرے تم ذندہ ہو میرا دل بھی نہیں مانتا مگر میں پری کی طرح خود کو مزید جھوٹی تسلیاں دے کر نہیں بہلا سکتی اللّٰہ کرے پری کا گمان سچ ثابت ہو میری بیٹی ٹوٹ کر بکھر گئی ہے شاہ زر تم کہی سے آجاؤ میرے بچے میں تھک گئی ہوں پری کو اس گھر کو اور خود کو سنبھالتے سنبھالتے ” وہ وہی بیٹھی اپنی بیٹی کی خوشیوں کے لیے دعا مانگ رہی تھی ان کا دل اندر سے زخمی زخمی ہو گیا تھا اب ان میں اور درد سہنے کی طاقت باقی نہیں رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پری مما سے شرمندہ تھی وہ آج کچھ زیادہ ہی کہ گئی تھی مگر کوئی اس کے جذبات کو بھی تو نہیں سمجھ رہا تھا وہ ابھی ابھی اپنے روم میں آئی تھی نیند تو اس سے روٹھ ہی گئی تھی اس نے نیند کی ٹیبلیٹ پانی کے ساتھ نگل لی خوش آب بیڈ پر آکر لیٹ گئی اس نے آج تک اپنے برابری والے روم کو کھول کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی وہ اس روم میں جو اس کا اور شاہ زر کا تھا شاہ زر کے ساتھ جانا چاہتی تھی
آنکھیں بند کیے وہ شاہ زر کے خیالوں میں گم تھی اس کی بند آنکھوں سے آنسوں بہ رہے تھے رات کو اکثر وہ ڈر کر چلانے لگ جاتی تھی مما کبھی کبھی اس کے پاس ہی سو جاتی تھی پری نے ہی انہیں مانا کیا تھا وہ اپنے ساتھ ساتھ انہیں مزید پریشان نہیں کر سکتی تھی شاہ زر کو سوچتے سوچتے ناجانے کب وہ نیند کے آغوش میں چلی گئی
رات کا درمیانی پہر تھا اسے کسی نے زور زور سے ہلایا پری نے مندی مندی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا وہ اس وقت بھی نیند میں تھی
“کون ہے ” اس نے اٹھ کر ڈرے ہوئے لہجے میں کہا اندھیرے کی وجہ سے اسے کچھ دیکھائی نہیں دے رہا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر لیمپ ان کیا سامنے وجود پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھیں پٹی کی پٹی رہ گئی آگلے بندے نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ کر اسے چلانے سے روکا
“خاموش ایک لفظ بھی تمہارے منہ سے نہیں نکلنا چاہیے نہیں تو میں تمہاری جان لے لوں گا” اس نے ڈھار کر کہا
پری کی سانس بند ہونے لگی سامنے کھڑے بندے کے منہ پر ماسک تھا پری کو اس سے ڈر لگ رہا تھا رات کے اس پہر کوئی مرد اس کے کمرے میں تھا اس کی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی اس بندے نے دھیرے سے اس کے منہ پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا
“اٹھو چلو میرے ساتھ منہ سے ایک لفظ بھی نکالا تو ابھی گلہ دبا کر مار ڈالوں گا ” اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے ساتھ چلنے کو کہا
پری نے کچھ کہنا چاہا مگر خوف کے مارے اس کے الفاظ ہی نہیں نکل پا رہے تھے اس نے نفی میں سر ہلایا
“لگتا ہے تم اسے نہیں مانوں گی ” وہ جارہانہ انداز میں آگے بڑھا
“میرے۔۔ قریب مت آنا دور راہو مجھ سے میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ مجھے ہاتھ مت لگانا” اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر وہ غم وغصے سے آہستہ آواز میں چلائی
“اچھی بات ہے مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گئی اٹھو اب زیادہ نخرے میں برداشت نہیں کر سکتا ” پری کو اس کی آواز جانی پہچانی لگ رہی تھی مگر اس وقت وہ اتنی گھبرائی ہوئی تھی کہ زیادہ غور نہیں کر پائی اٹھ کر پاؤں میں چپل پہنے اور اس ماسک والے بندے کے پیچھے پیچھے چلنے لگی اس کا دل کیا وہ اس ماسک والے بندے کو زور سے مارے اور خود بھاگ جائے مگر وہ ایسا کچھ کر نہیں پا رہی تھی وہ اسے لے کر داخلی دروازے سے باہر نکالا سامنے ساری لائٹس آف تھی صرف سوئمنگ پول کے اردگرد روشنی کی گئی تھی سامنے ایک میز پڑا ہوا تھا جس کو محتلف غباروں سے سجایا گیا تھا وہ حیران نظروں سے وہ سب دیکھ رہی تھی خواب کی سی کیفیت میں آگے قدم بڑھا رہی تھی سوئمنگ پول کے پانی کے اوپر پھولوں سے دل بنا ہوا تھا جس پر پری شاہ زر لکھا گیا تھا وہ اپنے ساتھ ماسک والے بندے کو بھی بھول گئی تھی وہ حیران نظروں سے وہ سب دیکھ رہی تھی سب کچھ اتنے اچھے سے سجایا گیا تھا کہ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کوئی اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہوا ہاتھ بڑھا کر اس کو کندھوں سے تھام کر رح اپنی طرف مڑا منہ اس کے کان کے پاس لے جا کر سرگوشی میں کہا
“ہیپی برتھڈے پریشے شاہ زر ” اس کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی پری ایک دم سے جیسے نیند سے جاگی اپنے سامنے شاہ زر کو دیکھ کر اس نے بےیقنی سے اسے دیکھا
“شاہ زر” اس نے بےیقنی سے اس کے چہرے کو چھوا
“م۔مت کرے میرے ساتھ کوئی مزاق آپ جو کوئی بھی ہو پلیز مت کروں یہ سب ” اس نے خود کو اس کے گرفت سے آزاد کرنے کی کوشش کی آگے کی گرفت اور سخت ہوئی وہ اسے تھامے ٹیبل کے سامنے لے آیا اسے چھوڑ کر وہ اسکے سامنے کھڑا ہوا اب ٹیبل کے موجود موم بتیوں کی روشنی میں شاہ زر کا چہرا صاف دکھائی دے رہا تھا
“کیا ہوا پسند نہیں آیا میرا سرپرائز” اس نے شرارت سے کہا
پری کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اس نے انہیں واپس دھکیلنے کی کوشش کی سامنے کھڑا بندا شاہ زر ہی تھا مگر وہ اتنا مطمئن دیکھائی دے رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو
“کیا ہوا وائفی ناراض ہو اب تک یا اپنے دس شکرانے کے نوافل ضائع ہوتے نظر آ رہے ہے کیونکہ میں تو واپس آ گیا” اس نے آگے بڑھ کر اسے تھامنا چاہا
پری نے اس کے دنوں ہاتھ بےدردی سے جھٹک دیے
“ہاتھ مت لگائی گا مجھے اتنا بڑا جھوٹ اتنا بڑا دھوکا آپ شاہ زر آپ زندہ ہو آپ کو تھوڑا سا بھی میرا خیال نہیں آیا کہاں تھے آپ جواب دے مجھے ” اس نے بے بسی سے کہا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اسے لگ رہا تھا وہ سب خواب ہے وہ شاہ زر کو چھوئے گئی تو خواب حتم ہو جائے گا سب ختمِ ہو جائے گا
شاہ زر نے آگے بڑھ کر اسے خود سے قریب کیا پری نے اس کے سینے پر سر دکھ دیا وہ اب کانپ رہی تھی شاہ زر کی مہربان ہاتھوں نے اسے سمیت لیا تھا وہ رو رہی تھی بے آواز اس کے آنسو شاہ زر کی نہ صرف شرٹ بھگو رہی تھی بلکہ اس کے آنسو شاہ زر کے دل پر گر رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کہاں تھے آپ شاہ میں نے آپ کو کتنا تلاش کیا آپ کیوں چلے گئے تھے مجھے اکیلا چھوڑ کر ”
بہت رو لینے کے بعد اس نے سر اٹھا کر شاہ زر کی آنکھوں میں دیکھ کر شکوہ کیا
شاہ زر نے اسے خود سے الگ کیا اسے ہاتھ سے تھام کر سوئمنگ پول کے کنارے لے آیا
“بیٹھوں یہاں پری آرام سے سب بتاتا ہوں تمہارے سارے سوالوں کے جواب دوں گا مگر اب میں تمہاری آنکھوں میں ایک آنسو بھی نا دیکھوں بہت رو چکی تم اب اور نہیں میری جان ” شاہ زر نے اپنے ہاتھ کے پوروں سے اس کے آنسو صاف کیے پری نے نظر اٹھا کر شاہ زر کو دیکھا جو اسے ہی بہت محبت سے دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں محبت کا سمندر آباد تھا
شاہ زر اسے کندھوں سے تھام کر آرام سے سوئمنگ پول کر سائیڈ پر بیٹھایا خود بھی اس کے ساتھ وہی بیٹھ گیا دونوں کے پاؤں پانی میں تھے پانی میں حرکت ہوئی سارے پھول آبشار کی طرح آدھر ادھر بکھر گئے پری نے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھ دیا شاہ زر نے ہاتھ اس کے کمر کے گرد ڈال کر اسے اپنے حصار میں لیا
“پری جانتی ہوں تمہارے اس ایک فون کال نے مجھے کتنی خوشی دی تھی میں تم سے بات کرتے ہوئے جیسے ہواؤں میں اڑ رہا تھا پھر نجانے کیا ہوا میرے سر پر یک بھاری چیز آ کر لگی اور میں ہوش وحواس گھو بیٹھا میرے ہاتھ سے موبائل کہی دور جا کر گر گیا تھا پھر جب مجھے تین گھنٹے بعد ہوش آیا میں تمہارے پاس آنا چاہتا تھا مگر نہیں آ پایا جانتی ہوں کیوں کیونکہ میں اپنے آپ کو پرکھنا چاہتا تھا میں جانا چاہتا تھا تم سے محبت صرف دو دن کی تو نہیں کل کو وقت کی ڈور میں الجھ کر میں اپنے باپ کی طرح تمہیں بےیاروں مددگار تو نہیں چھوڑ دوں گا مجھے لگا تھا تم میری محبت سے زیادہ میری عادت بن گئی ہوں اور مگر نہیں میں غلط تھا تم میری عادت سے زیادہ میری ضرورت میری محبت بن گئی تھی ہر روز میں تمہیں یاد کرتا تڑپتا رہا ہوں میں آنے کو بے چین ہو جاتا میرا دل کرتا بھاگ کر تمہارے سامنے جاؤ اور تمہیں بتاؤں تم میرے لیے کتنی خاص ہو ” شاہ زر نے دھیرے سے کہا
“اور آپ کو ان سب کے دوران میرا خیال نہیں آیا مجھ پر کیا گزری میں کتنی تڑپی کتنا روئی اب کو صرف اور صرف اپنا خیال تھا “آنسو قطار در قطار اس کی آنکھوں پھسل پڑے تھے
شاہ زر نے رخ موڑ کر اس کے آنکھوں سے نکتے آنسوں کو دیکھا اس کے دل کو کچھ ہوا وہ ہر بار ان خوبصورت آنکھوں میں آنسو لانے کا سبب بن جاتا تھا اس نے دوسرا ہاتھ بڑھا کر اس نے آنسو صاف کئے
“میں نے تمہیں بہت درد بہت دکھ بہت تکلیف دی ہے اب میں ان سب کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں پری میں جانتا ہوں ان چار ماہ میں تم پر کیا گزری ہو گی میں لوٹ آیا ہوں میں اعتبار ہونے تک لوٹ کر نہیں آنا چاہتا تھا مجھے تمہارے پیار سے زیادہ تمہارا خود پر اعتبار کا اعتماد کا بھروسہ کا ساتھ چاہئے تھا اور آج مجھے یقین ہو گیا ہے میں اور تم صرف ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں” اس نے پیار سے کہ کر اس کا ہاتھ تھام لیا
“آج ہی کیوں آپ پہلے بھی تو آ سکتے تھے اتنا تڑپانے کی کیا ضرورت تھی ” وہ خفگی سے گویا ہوئی
” تمہیں تمہاری سالگرہ پر سرپرائز دیناتھا نا اس لیے ” وہ شرارت سے گویا ہوا
“ہاں ہاں اور اس سرپرائز کے چکر میں بےشک میری جان چلی جاتی ” اس نے روٹھے لہجے میں کہا
“تمہیں کچھ ہو جاتا نہ پری تو تمہارا شاہ زر بھی زندہ نہیں رہ پاتا ” اس نے سنجیدگی سے کہا
پری نےتڑپ کر سر اس کے کندھے سے سر اٹھا کر انگلی اس کے ہونٹوں پر رکھ دی
“شش اب اور نہیں مرنے مارنے کی باتیں مت کریں شاہ ”
شاہ زر اس کی اس ادا پر دل اور جان سے فدا ہی ہو گیا اس نے مسکرا کر اس کا وہی ہاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھا
“اس دل میں صرف اور صرف تم ہی رہتی ہوں پریشے شاہ زر آنکھیں بند کر کے ان دھڑکنوں کو محسوس کروں تمہیں میرے جذبوں کی سچائی کا اندازہ ہو جائے گا ” اس نے جذب کے عالم میں اس کی آنکھوں میں محبت سے دیکھ کر کہا
پری نے آنکھیں بند کر کے اس کی دھڑکنوں کو محسوس کرنا چاہا جس کے ایک یک دھڑکن پر پری کا نام لکھا تھا پری نے مسکرا کر آنکھیں کھول دیں
“کچھ سنائی دیا ” اس نے محبت سے پوچھا
پری نے شرارت سے سر نفی میں ہلایا
شاہ زر نے گھورا
پری کھلکھلا کر ہنس دی شاہ زر نے آگے بڑھ کر اس کے بالوں کو کان کے پیچھے کیا
“میں تمہاری زندگی میں تب لوٹ کر آنا چاہتا تھا جب تمہیں مجھ پر پورا یقین ہو جاتا اعتبار ہونے تک مجھے تم سے دور ہی رہنا تھا میں تمہاری زندگی میں زبردستی شامل نہیں ہونا چاہتا تھا پری میں تمہاری پوری رضامندی سے تمہیں اپنانا چاہتا تھا ” اس نے مدھم لہجے میں محبت سے چھور لہجے میں کہا
پری زیادہ وقت اس کی آنکھوں میں دیکھ نہیں پائی اس نے دھیرے سے نظریں چرا لی اس کا دل ابھی بھی ڈھک ڈھک کر رہا تھا
“شاہ مجھے اب تک یہ سب ایک خواب لگ رہا ہے جیسے ابھی آنکھیں کھولوں گی اور سب ختم ہو جائے گا ” پری کے لہجے میں خوف بول رہا تھا
شاہ زر نے اس کا ہاتھ دل سے ہٹا کر اپنے دنوں ہاتھوں میں لیا
“میں جانتا ہوں میری جان سب بہت اچانک ہوا ہے مگر اب یقین کر لوں کہ تمہارا شاہ زر لوٹ آیا ہے صرف اور صرف تمہارے لئے “اس نے پری کے گال پر پیار سے تھپکی دی پھر موبائیل نکال کر فون ملانے لگا
“ہاں ہاں یار آجاؤ ” اس نے کہ کر فون بند کیا پری نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا شاہ زر دھیمے سے مسکرایا
“اٹھو پری صاحبہ چل کر تیار ہو جائے شاہ زر کا آڈر ہے منا تو پڑے گا نا ” پیچھے سے صنم کی چہکتی آواز آئی
پری نے چونک کر پیچھے دیکھا اسے آج سرپرائز پر سرپرائز مل رہے تھے
“آپ یہاں ” اس نے شاہ زر کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکلا اٹھ کربے یقینی سے صنم کو دیکھا اس کی آواز میں خوشی صاف دیکھائی دے رہی تھی
صنم نے محبت سے اسے دیکھا آگے بڑھ کر گرم جوشی سے پری کو گلے لگایا
“میری پیاری سی پرستان کی شہزادی کیسا لگا سرپرائز ” صنم نے شرارت سے کہا
پری نے ناراض نظروں سے اسے دیکھا
“آپ دنوں ملے ہوئے تھے کیا ” اس نے باری باری دونوں کو گھورا
“نہیں میری جان مجھے بھی ایک ویک پہلے پتا چلا ہے شاہ زر نے سختی سے منا کیا تھا وہ تمہیں سرپرائز دینا چاہتا تھا مجھے بھی ایمرجنسی میں بلایا گیا ظالم انسان نے وہاں میری شادی کی تیاریاں شروع ہے اور میں یہاں پاکستان میں گھوم پھیر رہی ہوں” اس نے ایک ہی سانس میں ساری بات کہ دی پری قہقہہ لگا کر ہنس دی شاہ زر اور صنم نے حیرانی سے اسے دیکھا
“صنم آپ کی جلدی جلدی بولنے کی عادت کب حتم گئی ” اس نے ہستے ہوئے صنم کو چھیڑا شاہ زر بھی ہنس دیا صنم نے مصنوعی خفگی سے اسے گھورا پر آگے بڑھ کر اسے پھر سے گلے لگایا “چلو میرے ساتھ تمہیں جلدی سے تیار کرو ابھی تو تمہیں شاہ زر کے ساتھ اپنی برتھڈے بھی سیلیبریٹ کرنی ہے ” پری نے سر اثبات میں ہلایا جانے سے پہلے اس نے مڑ کر شاہ زر کو مسکرا کر دیکھا شاہ زر کے ہونٹوں پر بھی خوبصورت مسکراہٹ تھی وہ قدم آگے بڑھا گئی ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ زر آدھے گھنٹے سے اس کا انتظار کر رہا تھا آج کی رات اس کی زندگی کی سب سے خوبصورت رات تھی وہ کھولے آسمان کے نیچے کھڑا آسمان پر چاند کو دیکھ رہا تھا جو پورے آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا اس کے اردگرد چھوٹے چھوٹے تارے چاند کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے اس نے مسکرا کر دور آسمان پر چاند کو آہٹ پر مڑ کر دیکھا پری داخلی دروازے سے باہر آ رہی تھی
اس نے ریڈ میکسی جس پر گولڈن نازک کام ہوا تھا زیب تن کیا ہوا تھا جس کا ایک سراپری نے نازاکت سےاپنے ہاتھ کے دو انگلیوں سے تھام رکھا تھا پاؤں پر گولڈن ہیل پہنی ہوئی تھی جو اسکے خوبصورت پاؤں کو اور دلکش بنا رہے تھے بال اس نے کھولے چھوڑے ہوئے تھے جو ہوا کے ساتھ اڑ کر اس کے چہرے پر آ رہے تھے چہرے پر ہلکا ہلکا سا میک اپ اس کے حسین چہرے کو اور خوبصورت بنا رہا تھا گلے میں نازک سا ڈائمنڈ نیکلس تھا
وہ آہستہ آہستہ شاہ زر کی طرف بڑھ رہی تھی شاہ زر یک تک اسے بےخودی سے دیکھ رہا تھا اسے اپنے اردگرد کی کوئی خبر نہیں رہی پری نے اس کے سامنے آ کر اپنا ہاتھ اس کے چہرے کے سامنے ہلایا شاہ زر نے چونک کر اسے دیکھا
“پری یہ سچ میں تم ہی ہوں یا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں” اس نے ایک قدم اگے ہو کر مدہوش لہجے میں کہا پری نے شرما کر نظریں جھکا لی شرمانے سے اس کے گال لال ہو گئے اس روپ میں وہ اور دلکش دیکھائی دے رہی تھی
“کیوں میری جان لینے پر آمادہ ہو تم ” اس نے شرارت سے کہا
پری نے اب کی بار بھی نظریں اٹھا کر شاہ زر کو نہیں دیکھا
“جانتی ہوں اس ڈریس کو لیتے وقت مجھے اندازہ بھی نہیں تھا تم اس میں اس قدر خوبصورت لگوں گی اسے پہن کر تم نے اس معمولی ڈریس کو بہت خاص کر لیا ” شاہ زر نے اس کے چہرے پر آئے بال پیچھے کیے
“خاموش کیوں ہو کچھ کہوں نا” شرارت سے بولا
“ناراض ہو کیا ”
پری نے نفی میں سر ہلایا نظریں اٹھا کر دیکھنے کی ہمت اب بھی نہیں ہوئی
شاہ زر اس کے معصوم چہرے کو بغور دیکھا پھر اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکا دی اور آنکھیں میچ کر مدھم لہجے میں اس کی کان میں سرگوشی کرتے ہوئے ہوئے بولا
“آج کی رات کتنی خوبصورت ہے ” نرم لہجے میں کہتا وہ سیدھا پری کے دل میں اتر رہا تھا اس نے پری کا نازک سا ہاتھ دھیرے سے تھام کر ٹیبل تک آیا پری نے محبت سے اس کے چہرے کو دیکھا جو آج زندگی میں پہلی بار اتنی خوشی مل جانے کے بعد خوشی سے دھمک رہا تھا اس نے دل ہی دل میں ماشاءاللہ کہا
شاہ زر نے اس کا ہاتھ چھوڑا خود ایک پاؤں پر پری کے سامنے بیٹھ گیا پری نے حیرانی سے اسے دیکھا وہ اب کیا کرنے والا تھا
اس نے پینٹ کی جیب سے ایک ڈبہ نکالا اسے کھول کر پری کے سامنے کیا جس میں ایک خوبصورت سی ڈائمنڈ رنگ جکمگا رہی تھی پری نے بےیقنی سے اسے دیکھا اس کے چہرے خوشی سے چمک رہا تھا
“کیا تم پوری زندگی کے لیے میری ہمنوا بنا چاہوں گئی ” شاہ زر نے دھیرے سے کہا پری نے دھیرے سے سر کو حرکت دی
شاہ زر نے اٹھ کر اس کا بایاں ہاتھ تھام کر تیسری انگلی میں رنگ پہنائی پری نے محبت سے اسے دیکھا آنسو خودبخود نکل آئے
” اب اور نہیں میری جان ” شاہ زر نے آگے بڑھ کر اس کے آنسو پونچھ ڈالے
“یہ تو خوشی کے آنسو ہے شاہ زر میں آپ کو بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں مجھے سمجھ نہیں آرہا میں اپنی خوشی کیسے بیان کروں ” پری نے مسکرا کر اپنے محبوب شوہر کو دیکھ کر کہا
“تم نا بھی کہو تمہارے چہرے پر صاف دکھائی دے رہا ہے تمہیں اظہار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں میں ان آنکھوں میں لکھا پڑ سکتا ہوں پری ”
شاہ زر نے پری کے کمر کے گرد اپنا بازوں حمائل کیا اسے اپنے ساتھ لگا کر ہاتھ تھام کر کیک کاٹا پری نے ایک ٹکڑا اٹھا کر اس کے منہ میں رکھا شاہ زر نے بھی پری کو کیک کھلایا دونوں آج بہت خوش تھے ان کی خوشی پر دور آسمان پر موجود چاند بھی مسکرا رہا تھا پری نے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھ کر اپنی آنکھیں موند لی
“میری زندگی کی سب سے حسین رات ہے یہ شاہ زر مجھے اتنا اچھا سرپرائز دینے کے لیے بہت بہت شکریہ میں اس رات کو کبھی نہیں بھول سکتی ” پری نے پیار بھرے لہجے میں کہا شاہ زر اس کا ہاتھ تھام کر اسے اندر لے جانے لگا
“ابھی ایک اور سرپرائز باقی ہے ”
وہ دنوں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے شاہ زر کے کمرے کے باہر روک گئے
“سنا ہے تم اس کمرے میں میرے ساتھ جانا چاہتی تھی آج تمہاری یہ خواہش بھی پوری کر دیتا ہوں ”
دروازا جسے ہی کھولا شاہ زر اور پری نے مل کر قدم اندار رکھا شاہ زر نے آگے بڑھ کر لائٹ ان کی کمرہ روشنیوں میں نہلا گیا ہر طرف پھول ہی پھول تھے پری کی آنکھیں حیرت سے کھولیں کی کھولیں رہ گئی اتنا خوبصورت استقبال اس نے شاہ زر کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
“میری زندگی کو اتنا خوبصورت بنانے کے لیے شکریہ”
“میری زندگی میں آنے کے لیے شکریہ” شاہ زر نے اس کے ہی انداز میں کہا
پری دھیمے سے ہنس دی
“مجھے تم سے بہت پیار ہے میں اپنی ساری زندگی تمہارے سنگ گزرنا چاہتا ہوں کیا آپ اس ناچیز کا ہاتھ تھام کر اسے جینا سکھائی گئی ملکہ عالیہ ” شاہ زر نے جھک کر ایک ہاتھ سینے پر باندھ کر سر جھکا کر ایک ادا سے کہا
پری نے مسکرا کر اس کے جھکے سر کو دیکھا
“مجھے سوچنے کا وقت چاہئے عالم پناہ ” پری نے شرارت سے کہا
شاہ زر نے پری کو گھورا پری اسے ہی دیکھ کر مسکرا رہی تھی شاہ زر کی ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آ گئی
پری نے آگے بڑھ کر شاہ زر کے دنوں ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگائے اس کے اس انداز پر شاہ زر مسکرا دیا اس نے ان آنکھوں کو باری باری ہونٹوں سے چھوا
“میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ آپ کے نام کرتی ہوں یہ زندگی ہی کیا میں تو مرنے کے بعد بھی آپ کے ساتھ جنت میں داخل ہونا چاہتی ہوں آپ میری زندگی ہوں شاہ زر مجھے آپ سے بےحد محبّت ہے ” پری نے اس کی طرف دیکھ کر جذب کر عالم میں کہا شاہ زر نے مسکرا کر اسے اپنے ساتھ لگا دیا ۔۔۔۔ آج ان کی کہانی مکمل ہو گئی تھی
#The_End
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...