’’سکینہ کیا یہ ضروری ہے کہ جس کے ساتھ محبت کی جائے اُسے زندگی کا ساتھی بھی بنایا جائے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور شام کو گھر جاتے ہوئے لان کی اُس سائیڈ کی طرف نکل آئے جہاں وہیل چئیر پر بڑی فرصت سے کتاب پڑھتی سکینہ کو مخاطب کیا۔
’’یہ ضروری نہیں ہے ڈاکٹر صاحب۔۔۔‘‘سکینہ کے جواب نے انہیں حیران کیا۔وہ اس کے بالکل سامنے رکھے بینچ پر بیٹھ گئے۔
’’پھر شادی کس سے کی جائے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے دلچسپی سے اُس کا سنجیدہ چہرہ دیکھا۔وہ بوگن ویلیا کی بیل کے نیچے تھی۔عنابی رنگ کے پھول چاروں جانب بکھرے ہوئے تھے۔
’’ شادی اُس سے کی جائے جو آپ سے محبت کرتا ہو۔۔۔‘‘ سکینہ نے بڑے آرام سے جواب دیا۔
’’لو یہ کیا بات ہوئی۔۔۔‘‘انہیں جواب پسند نہیں آیا۔ ’’اپنے دل کو چھوڑ کر کون بندہ کسی دوسرے کے دل کی پرواہ کرتا ہے۔۔۔‘‘انہوں نے شوخ لہجے میں اُسے چھیڑا۔
’’جو بندہ صرف اپنے ہی دل کی سنتا ہے تو پھر دل بھی کسی ضدی بچے کی طرح ہی اُسے خوار کرتا ہے۔جب آپ دوسروں کی پرواہ کرتے ہیں تو اللہ آپ کے لیے بھی آسانیاں دے دیتا ہے۔‘‘
’’اللہ آسانی کے ساتھ وہ ہی محبت کیوں نہیں دے دیتا۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کو اس سے بحث کرنے میں مزا آنے لگا۔
’’ایک بات یاد رکھیے گا کہ محبت کے سفر میں ’’چاہنے ‘‘سے زیادہ ’’چاہے ‘‘جانا کا احساس زیادہ دلکش ہوتا ہے۔جب آپ محبت نام کا کٹورا لے کر کسی کے پیچھے نکلتے ہیں تو آپ کو کئی چیزوں کی قربانی دینا پڑتی ہے جس میں سر فہرست آپ کی عزت نفس ہے۔ اس کے برعکس انسان کو جب یہ احساس ہوتا ہے کہ اُسے چاہا جا رہا ہے تو چاہے جانے کا احساس کسی نشے کی طرح اُسے کو کئی کئی دن تک مدہوش کیے رکھتا ہے۔بے شک تجربہ کر کے دیکھ لیں ۔‘‘ سکینہ نے اپنے دل کی دھڑکنوں کو بے ربط ہونے سے بچایا۔
’’جب انسان کا اپنا ہی دل بجھ جائے تو وہ کسی اور کی محبت سے کیسے دل بہلائے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے افسردگی سے کہا۔
’’دوسروں کی محبتیں صرف دل بہلانے کا ذریعہ تھوڑی ہوتی ہیں ۔۔۔‘‘سکینہ کو ان کی بات اچھی نہیں لگی اس لیے فورا اظہار کر دیا۔
’’آئی ایم سوری سکینہ میرا ہر گز مطلب یہ نہیں تھا۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے بوکھلا کر صفائی دی۔
’’دوسروں کی محبتیں ہمیں بغیر خوار ہوئے مل جاتی ہیں ناں اس لیے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی۔۔۔‘‘سکینہ کا دل ابھی بھی صاف نہیں ہوا ۔
’’اچھا ،اگر یہ بات ہے تو بتاؤ کہ اعجاز سے کیوں چڑتی ہیں آپ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ڈاکٹر خاور نے اُسے ایک لمحے میں لاجواب کیا۔
’’مجھے اچھا نہیں لگتا وہ۔۔۔‘‘اُس نے اپنی انگلیاں مسلتے ہوئے بیچارگی سے کہا۔اس کی بات پر ڈاکٹر خاور کے حلق سے نکلنے والا قہقہہ بڑا جاندار تھا۔سکینہ سخت خفت کا شکار ہوئی۔
’’سکینہ اللہ دتّا،دوسروں کو سمجھانا اور نصیحت کرنا ،دنیا کا جتنا آسان کام ہے خود اس پر عمل کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔۔۔‘‘انہوں نے مسکراتے ہوئے اُسے بتایا۔
’’ڈاکٹر صاحب ٹھیک کہتے ہیں آپ،انسان کا اپنا دل ہی کسی طرح قابو نہیں آتا۔۔۔‘‘ سکینہ بے بسی کے احساس کے ساتھ مسکرائی۔
’’اچھا یہ بتاؤ کہ آپریشن کے بعد کی زندگی کے بارے میں کیا سوچا ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے اس کا دھیان بٹانے کو پوچھا۔
’’سچی بات بتاؤں ڈاکٹر صاحب۔۔۔‘‘وہ تھوڑا سا جھجکی۔’’ہاں ہاں کیوں نہیں ۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے نرمی سے کہا۔
’’میرا اب کچھ بھی سوچنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ایسے لگتا ہے جیسے زندگی میں کوئی فل اسٹاپ سا لگ گیا ہو۔۔۔‘‘اس کی آنکھوں میں رنج جھلکا اور ڈاکٹر خاور کو مضطرب کر گیا۔
’’ایسی باتیں نہیں کرتے سکینہ،اچھا اچھا سوچتے ہیں۔۔۔‘‘ ان کی آنکھوں میں سکینہ کے لیے ایک خاموش دلاسا تھا۔
’’بہت عرصہ میں نے بہت اچھا اچھا سوچ کر دیکھ لیا،اب خود کو اللہ کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے۔۔۔‘‘ اُس نے اپنے گود میں گرے بوگن ویلیا کے پھول فضا میں اچھالے۔
’’جب اللہ کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے تو ایسی باتیں نہیں کرتے جس سے لگے کہ مجبورا یہ فریضہ سرانجام دیا گیا ہے۔‘‘ڈاکٹر خاور نے اُسے سمجھانے کی غرض سے کہا تو وہ اداسی سے سرہلا کر رہ گئی
’’میں نے آپ کے لیے ایک کام سوچا ہے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور کی بات نے اُسے تجسس میں مبتلا کیا۔
’’میرے لیے۔۔۔‘‘وہ حیران ہوئی ۔’’وہ کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’یہ تو میں آپ کے آپریشن کے بعد ہی بتاؤں گا انشاء اللہ۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور کے چہرے پر بڑی پر اسرار سی مسکراہٹ ابھری۔
’’ہوں۔۔۔‘‘اُس نے سر ہلایا۔’’لیکن میں یہ شہر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔۔۔‘‘ سکینہ نے بیچارگی سے کہا۔
’’ہم آپ کو اسی شہر میں رکھیں گے ۔آپ بے فکر رہیں ۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کی بات پر اس کا دل تھوڑی سی خوش فہمی کا شکار ہوا۔
’’اسی شہر میں ،کہاں۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ وہ حد درجہ تعجب کا شکار ہوئی۔
’’کہیں بھی۔۔۔‘‘وہ بڑے پروقار انداز سے مسکرا ئے سکینہ کے دل میں ایک حشر سا برپا ہو گیا۔’’لیکن کہاں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے اصرار کیا۔
’’یہ کوئی چھوٹا شہر تھوڑی ہے سکینہ۔۔۔‘‘انہوں نے ہلکے پھلکے لہجے میں مزید کہا۔’’اور کہیں نہ سہی ،میرا گھر تو آپ کے لیے حاضر ہے۔۔۔‘‘
سکینہ نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھے ڈاکٹر خاور کو دیکھا ۔جن کی آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح نرمی اور چہرے پر ایک پرخلوص سی بے ریا مسکراہٹ تھی۔سکینہ کو تو گویا ہفت اقلیم کی دولت مل گئی۔دل کسی مورنی کی طرح ناچنے لگا اور آنکھوں میں جگنوؤں کی ایک برات سی آ کر بیٹھ گئی۔
* * *
’’مائی گاڈ،علی ،رامس کا بھائی ہے۔۔۔‘‘اپنے کمرے کے کارپٹ پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے اُس نے کوئی سینکڑوں دفعہ سوچا ۔
اُس دن رامس کے بے تحاشا اصرار پر بھی اُس نے ایک لفظ بھی نہیں بتایا تھا۔اپنے دل کی اتھل پتھل حالت کو سنبھالتے ہوئے وہ نہ جانے کس طرح اپنے کمرے تک پہنچی تھی۔ماما کے پاس انصر بھائی کی والدہ آئیں ہوئیں تھیں۔اُس نے ڈرائینگ روم میں جا کر خالہ کو سلام تک کہنا مناسب نہیں سمجھا اور اپنے کمرے میں آ کر ہی دم لیا۔
’’اوہ مائی گاڈ۔۔۔‘‘وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام کر بیٹھ گئی۔
’’یہ میں نے کیا کر دیا،پھر وہ لڑکی کون تھی اس نے اتنے دھڑلے سے علی کا نام کیوں لیا۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘دماغ میں بیشمار سوچوں نے اودھم مچایا۔
’’رامس تو ہزار دفعہ اپنے بھائی کا ذکر کر چکا ہے اور اگر واقعی اس کی کوئی بھابھی ہوتی تو وہ اس کا ذکر کیوں نہ کرتا۔‘‘ اُس نے خود کو سمجھایا۔
’’پھر وہ لڑکی کون تھی،کاش مجھے دوبارہ کہیں مل جائے۔۔۔‘‘ اُس نے آنکھیں زبردستی بند کرتے ہوئے صوفے کے ساتھ ٹیک لگائی۔
’’ہر دفعہ ایک ہی لڑکی کیوں۔۔۔؟؟؟؟کہیں اُس کے بھائی نے چوری چھپے شادی تو نہیں کر رکھی۔۔۔‘‘دماغ نے ایک نئی راہ دِکھائی۔
’’نہیں ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔وہ ایسا لگتا تو نہیں ۔۔۔‘‘دل نے فورا ہی اس کی طرفداری کی۔
’’مجھے علی کو کال کرنی چاہیے۔۔۔‘‘اُس نے فورا ہی بیگ اٹھا کر اپنا سیل فون نکالا اور اُس کا نمبر ڈائل کیا۔بیل دوسری جانب جا رہی تھی۔اُس کے دل کی دھڑکنیں ایک لمحے کو رک سی گئیں۔ سانسوں کے تسلسل میں بھی بے قاعدگی پیدا ہوئی۔دوسری جانب سے کال اٹینڈ نہیں کی گئی۔عائشہ کا دل ایک لمحے کو رک سا گیا اُس نے بے تابی سے اُس کا نمبر دوبارہ ملایا۔اس دفعہ تیسری بیل پر اس کی کال کاٹ دی گئی ۔عائشہ کے دل کو دھچکا سا لگا۔وہ اب پاگلوں کی طرح بار بار اس کا نمبر ڈائل کر رہی تھی لیکن ہر دفعہ اس کی کال اتنی ہی بیدردی سے کاٹ دی جاتی۔
’’علی ،میری کال اٹینڈ کریں۔۔۔‘‘اُس نے مختصر سا ایک ٹیکسٹ اُسے بھیجا۔
’’میں آپ کی آواز سننا نہیں چاہتا۔۔۔‘‘ دوسری طرف سے آنے والے میسج کو پڑھ کر عائشہ کو ایسے لگا جیسے کسی نے اُسے بُری طرح سے زمین پر دھکا دے دیا ہو۔اُس نے ایک دفعہ پھر اس کا نمبر ملایا لیکن اس دفعہ نمبر پر چلنے والی ٹیپ سے اُسے پتا چلا کہ سیل فون ہی بند کر دیا گیا ہے۔
’’یہ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ایک پریشان کن سوچ نے اُس کے ذہن کا احاطہ کیا۔
’’تم نے بھی تو اُس کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا۔اُسے کسی بھی قسم کی صفائی کو موقع دیے بغیر فرد جرم عائد کر دی تھی۔‘‘ دل نے بھی عین موقعے پر آ کر اُسے یاد دلایا۔
اُس نے ہاتھ میں پکڑا سیل فون اب بیڈ پر پھینک دیا ۔وہ حد درجہ ذہنی خلفشارکا شکار ہوئی ۔اسی ذہنی پراگندگی کے ساتھ وہ اپنے کمرے سے باہر نکل آئی ۔رات کے گیارہ بج رہے تھے۔
’’بھائی طبیعت ٹھیک ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے موحد کو ڈرائینگ روم کے ایک اندھیرے کونے میں کشن آنکھوں پر رکھے بیٹھے دیکھا۔
’’ہوں ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘موحد نے بیزاری سے جواب دیا۔عائشہ نے کمرے کی ساری لائٹس جلا دیں۔
’’عاشو لائٹیں بند کردو،مجھے روشنی اچھی نہیں لگ رہی ۔۔۔‘‘ موحد نے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیے۔ عائشہ نے ایک دفعہ پھر ساری لائٹیں آف کر دیں ۔کمرے میں بس لان کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی روشنی آ رہی تھی۔
’’بھائی جن لوگوں سے ہمیں محبت ہو۔ان کی آنکھوں میں جھانکنے کے لیے ہمیں باہر کی روشنی کی ضرورت نہیں پڑتی۔اُن کی آنکھوں کی نمی براہ راست دل پر گرتی ہے۔‘‘ عائشہ تھکے تھکے انداز کے ساتھ اس کے پاس کارپٹ پر آ کر بیٹھ گئی۔یہ اس کا مخصوص اسٹائل تھا۔وہ اب اپنی کہنیاں اس کی گود میں ٹکائے بڑے غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
’’پھر جن لوگوں سے آپ محبت کا دعوی کرتے ہوں،ان سے کوئی بات چھپانی بھی نہیں چاہیے۔‘‘ موحد نہ چاہتے ہوئے بھی گلہ کر گیا۔
’’ہم دونوں بہن بھائی ہی محبت کے معاملے میں شاید بد قسمت واقع ہوئے ہیں۔۔۔‘‘عائشہ کے افسردہ لہجے پر موحد نے فورا آنکھیں کھولیں۔اُس کی آنکھوں کی لالی سے عائشہ نے بمشکل نگاہیں چرائیں۔
’’عاشو،کون تھا وہ۔۔۔‘‘ موحد نے اُس کے سرد ہاتھ تھامے اور انتہائی محبت سے انہیں اپنے ہاتھوں سے حرارت بخشی۔
’’شاید کوئی مانوس اجنبی تھا جسے میں نے اپنی بدگمانی سے کھو دیا۔۔۔‘‘ عائشہ اکیلے یہ بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک گئی تھی اس لیے آج ضبط کا پیمانہ چھلک ہی گیا۔
’’یہ محبت اتنی بدگماں کیوں ہوتی ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ موحد کے اپنے دل کے سارے ٹانکے بھی ادھڑ گئے۔
’’محبت ہی تو بدگمان ہوتی ہے ورنہ دوسرے جذبوں کے معاملے میں تو ہم لاپرواہ ہوتے ہیں۔ جس چیز کی پرواہ ہوتی ہے۔اُسی چیز کے کھو جانے کا اندیشہ ہمیں ہلکان کیے رکھتا ہے اور ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے ردعمل ظاہر کرنے لگتے ہیں۔۔۔‘‘عائشہ نے اپنا نچلا لب کچلتے ہوئے وضاحت دی۔
’’کیا اُس نے آپ کو فون نہیں کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے اُس کی خاموشی سے گھبرا کر پوچھا۔
’’نہیں ،وہ بھی شاید میری طرف سے بدگمان ہو گئی ہے۔۔۔‘‘ موحد رنج بھرے انداز سے کہا۔
’’محبت زیادہ دیر تک بدگمان رہ ہی نہیں سکتی۔دل کوئی نہ کوئی منطق یا دلیل ڈھونڈ ہی لاتا ہے۔۔۔‘‘ عائشہ نے موحد کا ہاتھ دبا کر تسلی دی۔
’’پھر تمہارے دل نے کوئی منطق یا دلیل ڈھونڈنے میں اتنی دیر کیوں کر دی۔۔۔‘‘ موحد نے عجیب سا سوال کر کے اس کے دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش برپا کر دیا۔
’’زیادہ دیر تو نہیں ہوئی بھائی۔۔۔‘‘عائشہ نے سادگی سے کہا تو موحد نے سوالیہ نگاہوں سے اپنی بہن کا چہرہ دیکھا جو اُسے دنیا میں سب سے زیادہ پیارا تھا۔
’’اب اتنی ناراضگی تو اُس کا بھی حق بنتی ہے ناں۔۔۔‘‘اُس کے معصومانہ انداز پر وہ بے ساختہ مسکرا دیا۔
* * *
’’تم یہ سب مجھے اب بتا رہی ہو۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ نے سخت صدمے سے سامنے دیوار پر بیٹھی نابیہ کو دیکھا جو ایک گرما گرم ابلے ہوئے بھٹے پر لیموں اور نمک مرچیں لگائے بڑے مزے سے کھا رہی تھی۔
’’تو کیسے بتاتی یار،دو دفعہ آئی،خالہ جان ہی پاس سے نہیں اٹھ رہی تھیں۔اُس کے بعد کل آئی تو اُس وقت تم شہیر کی کال سننے میں مصروف تھیں۔‘‘ نابیہ نے فورا گھبرا کر صفائی دی۔
’’شٹ اپ،بات نہ کرو مجھ سے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کو ٹھیک ٹھاک غصّہ آ گیا ۔
’’اب تو بات کرنا میری مجبوری ہے ،ظاہر ہے کہ تمہارے ماموں کے بیٹے پر دل جو آ گیا ہے میرا۔‘‘ نابیہ نے ایک آنکھ شرارت سے دبا کر اُسے اشارہ کیا۔
’’بکو مت اور یہ لوفروں کی طرح حرکتیں بند کرو۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے ٹھیک ٹھاک اُسے جھاڑا لیکن آگے سے بھی نابیہ تھی فوراً ہی ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا۔
’’قسم سے رج کے سوہنا ہے تمہارا کزن،اور جب بازو سینے پر باندھ کے غور سے دیکھتا ہے تو یقین کرو نورجہاں کی طرح وہ گانا گانے کو دل کرتا ہے۔‘‘وہ اچھل کر دیوار سے زمین پر آئی اس وقت دونوں اپنی مشترکہ چھت پر تھیں جن کے درمیان چھوٹی سی منڈیر تھی۔
’’دل کرتا ہے کہ اونچی آواز میں گانا گاؤں’’وے میں دل تیرے قدماں وچ رکھیا،تو پیر اوتے پا تے سہی۔۔۔‘‘ وہ شرارت سے پوری چھت پر گھوم رہی تھی۔اُس کی شوخیاں اس وقت ثنائیلہ کو زہر لگ رہی تھیں۔
’’بند کرو،اپنی فضول ،بے ہودہ حرکتیں۔۔۔‘‘ثنائیلہ بُرا سا منہ بنا کر آسمان پر اڑتی ایک بڑی پتنگ کو دیکھنے لگی۔
’’لو جی میں کروں تو سالا کریکٹر ڈھیلا ہے۔۔۔‘‘نابیہ نے ایک اور پڑوسی فلم کے گانے پر ہاتھ صاف کیا۔
’’ہم لوگ یہاں اتنی ٹینشن میں ہیں،امّی روز مجھ سے پوچھتی ہیں کہ تمہارے ماموں کے گھر سے کوئی اطلاع نہیں آئی اور تم۔۔۔‘‘مارے غصّے کے ثنائیلہ سے مزید بولا ہی نہیں گیا۔
’’دھیرج میری جان دھیرج،اب تو کچے دھاگے سے سرکار بندھے چلے آئیں گے۔۔۔‘‘نابیہ پر ابھی بھی شرارت کا بھوت سوار تھا۔
’’تم اپنے یہ کچے پکّے دھاگے اپنے پاس رکھو اور مجھے شرافت سے اس کا نمبر دو،میں خود بات کرتی ہوں۔۔۔‘‘ثنائیلہ کی سنجیدگی پر نابیہ نے بھی معاملے کو ذرا سنجیدہ لیا۔
’’اُف یہ ظالم سماج دنیا،کبھی دو دلوں کو ملنے نہیں دیتی۔۔۔‘‘اُس نے دہائی دی لیکن ثنائیلہ کے گھورنے پر فورا گھبرا کر بولی۔’’اب صبر کر لو یہ بھٹہ کھا کر نیچے جاتی ہوں ،میرے سیل فون میں ہے اس کا نمبر۔لے لینا،جان کیوں نکل رہی ہے۔۔۔‘‘ وہ اب عجلت بھرے انداز میں کھانے لگی۔مرچوں کی وجہ سے اس کی ناک اور آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا لیکن وہ سوں سوں کرتے ہوئے بھی کھانے سے باز نہیں آ رہی تھی۔ثنائیلہ خاموشی سے آسمان پر ڈولتی ہوئی پتنگوں کو دیکھنے لگی۔
’’ویسے کیا حال ہے تمہارے ہیرو کا،کوئی فون شون آیا کہ نہیں۔۔۔‘‘ نابیہ کو اچانک ہی یاد آیا تو ثنائیلہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’تبھی مزاج گرامی اتنا برہم ہے۔۔۔‘‘ نابیہ نے بلند آواز میں تبصرہ کیا لیکن دوسری جانب ہنوز خاموشی تھی۔’’تم نے خود کال کر لینی تھی۔۔۔‘‘
’’کیوں ،میں کیوں کروں۔۔۔؟؟؟‘‘وہ ایک دم پلٹ کر غصّے سے بولی۔ ’’اب کیا ہر دفعہ میں ہی پہل کروں،پہلے بھی میں ہی اُس کے پیچھے بھاگتی رہی تو کیا اب ساری زندگی یہی کام کیے جاؤں گی۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کا موڈ ٹھیک ٹھاک خراب تھا۔
’’کم آن مائی ڈئیر،یہ محبتوں میں تیرے میرے والے حساب نہیں ہوتے۔یہ سوچنے لگو گی تو اپنی ہی زندگی خراب کرو گی۔۔۔‘‘نابیہ نے ہاتھ میں پکڑا بھٹہ اب ساتھ والوں کی چھت پر پھینک دیا۔ثنائیلہ نے تنبیہی نظروں سے اُسے دیکھا۔
’’یہ لوگ خود آم کھا کر گٹھلیاں ہماری چھت پر پھینک دیتے ہیں ۔۔۔‘‘اُس نے کان کھجاتے ہوئے خوشگوار انداز سے صفائی دی۔
’’شرم کرو۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے اُسے ڈانٹا تو وہ بڑے معصومانہ انداز سے بولی ۔’’جس نے کی شرم،اُس کے پھوٹے کرم۔۔۔‘‘
’’تم کبھی نہیں سدھر سکتی۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے مایوس ہو کر کہنیاں دیوار پر ٹکا لیں ۔سامنے سورج غروب ہونے کا منظر دل میں افسردگی کا احساس بھر رہا تھا۔
’’وہ بھی یہی کہتا ہے۔۔۔‘‘ نابیہ نہ چاہتے ہوئے بھی شرارت کر گئی تو ثنائیلہ کو ہنسی آ گئی۔اُس کا موڈ بہتر دیکھ کر نابیہ نے بھی سکون کا سانس لیا۔
’’چلو صبح تمہارے ہیرو سے ملنے چلتے ہیں۔۔۔‘‘اُس کی فرمائش پر ثنائیلہ کو جھٹکا سا لگا۔ ’’ہر گز نہیں ۔۔۔‘‘اُس نے صاف انکار کیا۔
’’یہ تم سب محبت کرنے والوں کی مشترکہ گندی عادت ہوتی ہے،ہر وقت انا کے اونچے مینار پر بیٹھ کر جلتے اور کڑھتے رہیں گے لیکن ناک نیچی ہونے کے خوف سے رابطہ نہیں کریں گے۔ ساتھ ساتھ نیچے جھانکتے بھی رہیں گے کہ شاید دوسرے کو عقل آ جائے اور وہ اُسے منانے آ جائے۔۔۔‘‘نابیہ کو بھی ایک دم ہی جلال آیا ۔
’’ہاں تمہیں بڑا تجربہ ہے ناں۔۔۔‘‘ثنائیلہ اُس کے جل کر بولنے پر کھلکھلا کر ہنسی۔
’’نہیں ہے تو ہو جائے گا،تمہارے کمینے بھائی نے تو میرے سارے ہی ارمانوں پر پانی پھیر دیا تھا۔۔۔‘‘وہ اب خود بھی ڈوبتے سورج کو دیکھ کر اداس ہوئی۔
’’چلو بھائی تو خود غرض نکلا اب ذرا دھیان سے ،اگلا بھی میرا ہی ماموں زاد ہے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے پہلی دفعہ اُسے چھیڑا تو وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔
’’فکر نہ کرو،اس دفعہ مضبوطی سے پلوّ سے باندھ کر گرہ لگا ؤں گی ایسے۔۔۔‘‘ نابیہ نے اپنے دوپٹے کے کونے کو گرہ لگا کر دِکھائی تو ثنائیلہ اس کی شرارت پر کافی دیر تک ہنستی رہی۔
* * *
’’ماہم ،اگر آپ فری ہیں تو آج کا ڈنر اکھٹے کریں۔۔۔‘‘علی کی غیر متوقع کال نے ماہم پر شادی مرگ طاری کر دی۔
وہ جو اب بالکل ہی اس سے مایوس ہو گئی تھی ۔اس کال نے اُس کے اندر قوت کا ایک جہاں بھر دیا ۔اُس نے اپنی واڈروب سے اپنا بہترین سوٹ نکالا،بڑی مہارت اور سلیقے سے میک اپ کر کے اُس نے خود کو آئینے میں دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی۔رائل بلیو کلر میں اس کی گوری شہابی رنگت کی چھب ہی نرالی تھی۔کچھ لمحوں کے لیے تو خود ماہم بھی مبہوت انداز سے خود کو دیکھتی رہ گئی۔میریٹ میں پہنچنے تک بے شمار توصیفی نگاہوں نے اُس کے وجود کا احاطہ کیا ۔
’’کیسے ہیں آپ۔۔۔‘‘ ماہم نے بڑی دلکش مسکراہٹ سے پہلے سے موجود علی کو دیکھا جو خاصا تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔
’’آپ کے سامنے ہوں۔۔۔‘‘ وہ بڑی دقّت سے مسکرایا۔
’’کیا ہوا ،کچھ ٹینس لگ رہے ہیں ۔۔۔‘‘ماہم نے ایک نظر میں ہی بھانپ لیا کہ وہ اس وقت رنج و غم کی کیفیت میں ہے۔
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں ،ایک تو کام کا برڈن کافی تھا اور کچھ دنوں سے امّی کی بیماری کی وجہ سے رات کو سو بھی نہیں سکا۔۔۔‘‘ اُس نے تفصیل سے بتایا۔
’’آپ ملوائیں ناں ،کسی دن اپنی ماما سے۔۔۔‘‘ ماہم کی فرمائش پر وہ تھوڑا سا چونکا۔
’’ہاں ضرور کیوں نہیں ،بہت جلد انشاء اللہ۔۔۔‘‘ وہ ویٹر کو فارغ کر کے اس کی طرف متوجہ ہوا۔
’’اچھی لگ رہی ہیں آپ۔۔۔‘‘ علی کے منہ سے نکلنے والے اس فقرے نے ماہم کے چہرے پر اس قدر روشنی بھر دی کہ ایک لمحے کو علی خود بھی ٹھٹک کر رہ گیا۔
’’تھینکس گاڈ ،آپ کے اندر بھی اچھی چیز کو سراہنے کی حس موجود ہے۔۔۔‘‘ ماہم کھلکھلا کر ہنسی تو دائیں بائیں سے کافی لوگوں نے مڑ کر بے اختیار اُسے دیکھا۔
’’آئی ایم سوری۔۔۔‘‘ماہم نے بڑے نزاکت بھرے انداز سے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا جہاں ہنسی کسی جھرنے کی طرح بہتی ہی جا رہی تھی۔دل کی دنیا کے انوکھے راگ ماہم کو بے حال کیے جا رہے تھے۔ہر چیز اُسے محو رقص لگ رہی تھی۔
’’کیوں ،میں انسان نہیں ہوں کیا،میرے خیال میں تو میں اچھا خاصا جمالیاتی ذوق رکھتا ہوں۔۔۔‘‘ علی نے سادگی سے وضاحت دی۔
’’اچھا۔۔۔؟؟؟؟‘‘وہ بے مقصد ہنسی۔ ’’مجھے تو لگتا تھا کہ آپ کا سارا جمالیاتی ذوق بس آرٹ اور پینٹینگس تک محدود ہے۔۔۔‘‘ماہم ہنستے ہنستے طنز کر گئی۔
’’وہ تو ابھی بھی ہے۔۔۔‘‘ علی کی سنجیدہ بات پر اس کی ہنسی کو بریک لگی۔ ’’مجھے جہاں بھی کوئی اچھی پینٹنگ نظر آئے میں فوراً ہی اُسے خریدنے کو بے تاب ہو جاتا ہوں۔‘‘علی کی وضاحت پر وہ کچھ مطمئن ہوئی۔کھانا فورا ہی سرو کر دیا گیا ۔
’’آپ جس چیرٹی شو کا ذکر کر رہی تھیں پچھلی دفعہ،اُس پر کام اسٹارٹ کریں۔۔۔‘‘علی کی بات نے اُسے جی بھر کے بد مزہ کیا۔
’’جی ،جی کیوں نہیں۔۔۔‘‘ اُس نے زبردستی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔’’آپ ایسا کریں کہ سارے پروگرام کا ایک خاکہ سا بنا لیں پھر اُس کے مطابق کام شروع کر دیں گے۔‘‘ماہم نے تفصیل سے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے ،میں پہلی فرصت میں اس پر کام شروع کرتا ہوں،پھر آپ سے ڈسکس کروں گا۔۔۔‘‘علی نے اپنی پلیٹ میں رائس نکالتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیا سوچا ہے آپ نے اپنی لائف کے بارے میں ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے اچانک ہی سوال کیا۔وہ ایکد م ہی حیران ہوا۔
’’کیا سوچنا ہے۔۔؟؟؟بس خود بخود ہی سب کچھ ہوتا جا رہا ہے اور چیزیں جتنے فطری انداز سے ہو ں اتنی ہی بہتر ہوتی ہیں۔۔۔‘‘ علی نے بھی گھما پھر ا کر ہی جواب دیا ۔
’’آپ نے اپنے بارے میں کبھی تفصیل سے بتایا ہی نہیں ۔۔۔‘‘ ماہم نے بڑے لاڈ سے گلہ کیا۔
’’مجھے اپنے بارے میں بات کرنا اچھا ہی نہیں لگتا۔۔۔‘‘ اُس کی صاف گوئی دل کو دکھانے والی تھی۔
’’یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماہم کھانا چھوڑ کر اُس کا سنجیدہ چہرہ دیکھنے لگی تو وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔’’بھئی کو ئی بتانے والی بات بھی تو ہو،بس دو بھائی ہیں ہم اور والدہ ہیں ۔یہی چھوٹی سی فیملی ہے ہماری۔۔۔‘‘ اُس نے بادل نخواستہ تھوڑا بہت بتا ہی دیا جو ماہم کے لیے تسلی بخش تھا۔
’’اور جاب یا بزنس۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے فورا ہی اگلا سوال کیا۔
’’بھئی نکما سا بندا ہوں،غریب سا،بس لوگوں کی خدمت کر کے خوش ہو جاتا ہوں یہی میراکام ہے اور یہی بزنس۔۔۔‘‘اُس نے سراسر ماہم کو ٹالا تھا اور یہ بات اُسے فورا ہی سمجھ آ گئی۔
’’حیرت ہے کہ آپ نے اس دفعہ عائشہ کے بارے میں نہیں پوچھا ابھی تک۔۔۔‘‘ ماہم نے بھی بات بدلنے کی غرض سے کہا۔وہ ہلکا سا چونکا اور مسکرایا۔
’’جس راہ پر اب جانا ہی نہیں ،اُس کے بارے میں کیا پوچھنا۔۔۔‘‘ علی کی بات پر ماہم کو ایک خوشگوار سا جھٹکا لگا۔اُس نے بے یقینی سے اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا۔
’’کیا ہوا۔۔؟؟؟ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ علی نے اس کی محویت کو فورا ہی نوٹ کیا۔
’’کچھ نہیں سوچ رہی ہو ں کہ آج گنگا الٹی کیوں بہہ رہی ہے۔۔۔‘‘
’’دریا اپنا راستہ بدل بھی تو لیتے ہیں ۔۔۔‘‘علی کے معنی خیز لہجے پر ماہم کا دل پوری قوت سے دھڑکا۔ اُس کی بھوک اچانک ہی اڑ گئی تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ دریا اتنی آ سانی سے بھی راستہ بدل سکتے ہیں ۔۔۔
* * *
’’امّاں جی جاجی کا بچّہ اب یہاں کیوں آیا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘سکینہ کا موڈ آج صبح ہی سے خراب تھا۔ابّے کے ساتھ ڈھیروں گنّے،مولیاں اور شلجم لیے اندر آتا جاجی سکینہ کا سارا ہی سکون غارت کر گیا تھا۔ابّا جیسے ہی ظہر کی نماز پڑھنے گیا۔وہ جمیلہ مائی پر برس پڑی۔
’’ہائے ہائے پتّر ،مجھ نمانی نوں کی خبر۔۔۔‘‘جمیلہ مائی وضاحتیں دے دے کر تھک گئی تھی ۔
’’لو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ابّے نے تجھے ٹیلی فون پر اُس کے آنے کی اطلاع نہ دی ہو۔۔۔‘‘سکینہ کو قطعاً بھی یقین نہیں آیا۔
’’اے لو۔۔۔!!!!‘‘ جمیلہ مائی نے ناک پر انگلی رکھ کر اپنی لاڈلی بیٹی کا خفا خفا سا چہرہ دیکھا۔’’بھلا سکینہ میں نے کیا تجھ سے پہلے کبھی جھوٹ بولا ہے جو اب بولوں گی۔۔‘‘
’’کچھ نہ کچھ تو تجھے ابّے نے بتایا ہی ہو گا ناں۔۔۔‘‘سکینہ کی سوئی ایک ہی جگہ پر اٹکی ہوئی تھی۔
’’جاجی کے آنے کا تو نہیں بتایا،ہاں اتنا ضرور بتایا تھا کہ جاجی نے اپنی بے بے کی منگنی کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے کمرے میں دھماکہ ہی تو کیا تھا۔
’’دیکھا ،میری چھٹی حس ٹھیک کہتی تھی کہ شوخا ایویں نہیں یہ سارے کھیت اجاڑ کر یہاں لے آیا۔۔۔‘‘سکینہ کو ایک دم ہی اشتعال آیا۔
’’غصّہ نہیں کرتے میری دھی رانی،یہ چیزیں تو تیرا ابّالے کے آیا ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اپنی بیٹی کا غصّہ کم کرنے کی کوشش کی۔
’’ابّے کے کون سے مربعے ہیں۔۔۔‘‘وہ بُری طرح چڑی۔ ’’ساری زندگی تو ابّے نے مٹی کے پانڈے ہی بنائے اور بیچے ہیں ۔یہ کھیتی باڑی تو جاجی کا ابّا کرتا تھا۔‘‘سکینہ کو پتا تھا کہ یہ ساری چیزیں اعجاز سوغات کے طور پر لایا ہے۔
’’چل چھڈ،میری دھی غصّہ نہیں کرتے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اُسے پچکارا۔
’’امّاں ایک بات کان کھول کے سن لے تجھے جاجی کی بے بے کی باتیں بھول سکتی ہیں،مجھے نہیں۔۔۔‘‘سکینہ نے بُرا سا منہ بنا کر جمیلہ مائی کو یاد دہانی کروائی تو وہ پھیکے سے انداز سے مسکرا دی۔
’’پتّر کڑوی کسیلی باتوں کو صبر کے گھونٹ کے ساتھ نگلنا ہی پڑتا ہے ورنہ یہ حلق کو بدمزا کر کے کسی بھی چیز کا سواد لینے نہیں دیتیں۔۔۔‘‘ امّاں نے نصیحت کی۔
’’امّاں تجھے ہی ان کوڑی باتوں کے سواد آ سکتے ہیں ،مجھے نہیں۔۔۔‘‘ سکینہ نے ناک چڑھا کر کہا اور خود جگ سے پانی ڈال کر پینے لگی۔اُس کا مزاج اچھا خاصا برہم تھا۔
’’اچھا اچھا،اب بوہتی اوکھی نہ ہو،مجھے نماز پڑھنے دے ،عصر کا ویلا نکلتا جا رہا ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بمشکل اٹھی اور وضو کے لیے واش روم کی طرف بڑھ گئی۔ سکینہ نے تھوڑا سااٹھ کر کھڑکی کا پردہ ہٹایا۔ سامنے لان میں ایک اداس سی شام دھیرے دھیرے اتر رہی تھی۔
’’میری دھی رانی ٹھیک ہے ناں۔۔۔‘‘اللہ دتّا کمہار ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا۔سکینہ اپنے ابّے کو دیکھ کر مسکرائی۔ اللہ دتے نے اپنی گلابی پلاسٹک کی ٹوکری میں سے کپڑوں میں لپٹی ہوئی ایک خوبصورت سی صراحی نکالی۔
’’یہ دیکھ میں اپنی دھی رانی کے لیے خصوصی طور پر بنا کر لایا ہوں۔۔۔‘‘ اللہ دتے نے ایک نازک سی پانی والی صراحی سکینہ کی طرف بڑھائی۔
’’واہ ابّا،یہ تو بہت پیاری ہے۔۔۔‘‘ ایک بے ساختہ سی خوشی سکینہ کے چہرے پر چھلکی۔وہ صراحی پر بنے نقش ونگار کو حیرت سے دیکھنے لگی۔ ابّا اس کی حیرانگی پر بڑی متانت کے ساتھ مسکرایا۔
’’دیکھ لینا میری دھی بھی انشاء اللہ آپریشن کے بعد ایسی ہی پیاری ہو جائے گی۔۔۔‘‘اللہ دتے نے اُسے امید کا ایک چراغ پکڑایا۔
’’اور اگر ابّا،میں ایسی نہ ہوئی تو۔۔۔‘‘سکینہ نے ایک اندیشے کے تحت پوچھا۔
’’تو کیا ہوا،میری دھی تو ویسے ہی میری اکھیوں کا چانن ہے اور مجھے تو جیسی بھی ہو اچھی ہی لگتی ہے۔۔۔‘‘ اللہ دتا کمہار بالکل اس کے پاس کرسی رکھ کر بیٹھ گیا۔
’’ہاں ابّا،اپنا پانڈا(برتن) تو ہر کمہار کو ہی اچھا لگتا ہے۔۔۔‘‘ سکینہ کے لہجے کی شرارت نے اللہ دتے کے دل میں کئی پھول کھلا دیے۔
’’بس پتری سمجھ کہ یہ دنیا بھی کسی کمہار کا ہی گھر ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے لوگوں کو بہت محبت سے تخلیق کرتا ہے اور اُسے پھر زمین پر بھیج دیتا ہے۔ اُس کے بنائے سارے ہی پانڈے چاہے جتنے بھی ٹیرھے میڑھے،بدشکلے یا بے ڈھنگے ہوں۔اُس ذات کو ہر ایک ہی سے پیار ہے۔انسان تو اُس کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا۔‘‘ اللہ دتاّ نے ہمیشہ کی طرح اپنی لاڈو کو آج بھی ایک ہی سبق پڑھایا تھا۔
’’ہاں ابّا،انسان تو اپنا ایک جوڑ تک نہیں بنا سکتا لیکن اللہ کی بنائی ہوئی شکلوں میں کھڑے کھڑے ایک سو ایک نقص نکال دیتا ہے۔‘‘سکینہ نے افسردگی سے کہا۔
’’ نا سمجھ ہے ناں،غور نہیں کرتا،اس لیے گھاٹے کے سودے خود خرید کر گھر لے آتا ہے۔۔۔‘‘ اللہ دتّا اپنی بیٹی کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’اچھا ابّا،یہ بتا کہ کتنے دن کے لیے آیا ہے۔۔۔‘‘سکینہ نے صراحی کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’بس اب تو میں اپنی دھی رانی کے آپریشن کے بعد ہی جاؤں گا۔۔۔‘‘ اُس نے فورا ہی اپنا پروگرام بتایا تو سکینہ بھی مطمئن ہو گئی۔ وہ ابھی بھی صراحی کو غور سے دیکھ رہی تھی۔اُس نے مسکراتے ہوئے صراحی کو سائیڈ میز پر رکھا،اچانک اس کی کہنی پاس ہی رکھے شیشے کے گلاس سے ٹکرائی اور گلاس صراحی کو ساتھ لیتا ہوا جو فرش پر گرا تو کرچیاں دور دور تک پھیل گئیں۔سکینہ کا دل دھک کر کے رہ گیا۔اُس نے سخت صدمے اور رنج سے فرش پر بکھری صراحی کو دیکھا۔اُس کا رنگ زرد ہوگیا۔ایک لمحے کو تو اللہ دتا کی بھی قوت گویائی سلب ہو کے رہ گئی۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...