“دو ماہ کے بعد زمل سے سامنا ہواتھا اور آج بھی وہ ویسی ہی ہے لاپرواہ سی۔ وہ صحیح کہتی تھی کہ میں بہت کمظرف ہوں صرف سب سے دور کرنے میں کتنا گرگیا تھا میں ۔۔ کاش اُس دن پاپا اور زمل کی پوری بات سن لیتا تو شاید یہ سب نا ہوتا یا ہماری قسمت میں ایسے ہی ملنا لکھا تھا ورنہ وہ تو پاپا کو انکار کرکے جاچُکی تھی۔اور پاپا بھی راضی ہوگئے تھے۔ لیکن میں نے سب کے سامنے اپنی ہر غلطی کا اعتراف کرتو لیا ہے اور معافی بھی مانگ چُکا ہوں۔۔ یا الله ایسا کیا کروں کے زمل بھی مجھے معاف کردے ۔
“آج سے پہلے زمل کی ہر بات پر مجھے صرف غصہ ہی آتا تھا لیکن آج اُسکا اگنور کرنا مجھے ہرٹ کررہا ہے۔۔ وہ حق بجانب ہے۔۔ کیا زمل مجھے معاف کرسکے گی کبھی۔۔؟ بالاج رات کے اس پہر اپنے کمرے میں بیٹھا تنہا اپنی غلطیوں کا اعتراف کررہا تھا اور پچتھارہا تھا ۔
“میں نے اپنی خود ساختہ سوچوں کی وجہ سے سب کو اتنی تکلیف دی اور خود کا کتنا نقصان کر لیا ۔ جمال انکل میری وجہ سے بیمار ہوگئے ۔ پاپا کے علاوہ انکل تک نے مجھے معاف کردیا جب کہ میں نے اُنکی بیٹی کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا ۔ انہوں نے لاہور میں میری اور شہرین کی اپنی بیٹی پر ہوئے ظلم کی سب باتیں سن کر بھی مجھ سے ایک سوال نہیں کیا ۔ پھر میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ مجھ سے کسی نے پیار نہیں کیا ۔ یہ اُنکی محبت کا ثبوت ہے کہ سب نے مجھے معاف کردیا ہے ۔ بس اب مجھے زمل کو منانا ہے ورنہ میں خود کو کبھی معاف نہیں کرسکوں گا
______________
“زمل کیا کررہی ہو۔۔میں اندر آجاؤں بزی تو نہیں ہو۔۔؟ ” ثناء نے دروازے میں کھڑےہوکر ہی پوچھا ۔
“نہیں بھابھی میں بزی نہیں ہوں آپ آئیں نا ۔” زمل نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا ۔
“انعم کی شادی میں کتنا کم ٹائم رہ گیا ہے اور تیاری ابھی بھی رہتی ہے ۔” بھابھی نے زمل کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا ۔
“تو آپ ہیں نا سب کر لیں گی مجھے پتہ ہے۔۔ ” زمل نے مسکرا کر کہا ۔
“اور تم کچھ نا کرنا تمہیں پتہ ہے مامی ناراض ہورہی تھیں کہ زمل بیٹی ہے اور زرا جو میرا ہاتھ بٹائے کسی کام میں ۔ تم وہاں کیوں نہیں جاتی ہو زمل۔ ؟” بھابھی نے آہستگی سے پوچھا ۔
“بھابھی آپ جانتی ہیں نا کہ میں وہاں کیوں نہیں جارہی ہوں۔۔ ”
“اور کب تک نہیں جاؤ گی۔۔ ؟” بھابھی نے مزید پوچھا ۔
“پتہ نہیں ” زمل نے نظریں چُرائی ۔
“زمل تمہیں کچھ تو سوچنا پڑے گا اب ۔تمہیں معلوم ہے ماموں بالاج سے بات نہیں کررہے ہیں وہ کہتے ہیں جب تک تم معاف نہیں کرو گی تب تک وہ بھی معاف نہیں کریں گے ۔ اور پھر تم شادی پر کیا کرو گی تب کیسے سامنے آؤگی۔؟ بھابھی آج کچھ فیصلہ کروانا چاہتی تھی ۔
” بھابھی مجھے کچھ نہیں پتہ ہے ۔ماموں میری وجہ سے اُن سے ناراضگی نہیں کریں ۔”
“زمل میری جان پھر بھی ایسا کب تک چلے گا۔۔؟
“میں نہیں جانتی بھابھی لیکن بس اتنا جانتی ہوں جب بھی اُن کے سامنے جاؤں گی میری تکلیف بڑھے گی ” اور وہ چہرہ ہاتھوں میں چُپھا کر رو پڑی
______________
“ارے واہ بھابھی نے میری ساری شاپنگ خود ہی کرلی۔۔ چلو شُکر ہے میں اس سے بچ گئی ” زمل نے اپنے روم میں پڑے شاپنگ بیگز کو دیکھ کر کہا۔
“بھابھی سے پوچھ لیتی ہوں کہ اُنکو کوئی ہیلپ چاہیئے ہو اگر۔۔؟ ” خود سے کہتی وہ نیچے کی طرف آگئی ۔
_______________
“زمل اچھا ہوا تم آگئی تمہیں مامی نے بلایا ہے۔۔؟ بھابھی نے زمل کو آتا دیکھ کہا۔
“لیکن بھابھی وہ میں کیسے۔۔؟ زمل نے شہریار اور جمال صاحب کے سامنے انکار نہیں کرپائی ۔
“بےفکر رہو بالاج اور باری دونوں اسلام آباد گئے ہوئے ہیں تم چلی جاؤ ابھی ۔” بھابھی نے مصروف انداز میں کہا۔
“”جی جاتی ہوں” زمل نظریں چُراتی وہاں سے چلے گئی ۔
________________
“ارے آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں۔۔ یہاں کا راستہ کیسے بھول گئی آج آپ۔۔ ” حماد نے زمل کو آتے دیکھ کہا۔
“کیوں یہ نہیں آسکتی ہے کیا۔۔؟ اسکا اپنا گھر ہے اسکا جب دل چاہے وہ آئے گی۔۔ ” زکیہ بیگم نے زمل کو اپنے پاس بُلاتے ہوئے کہا ۔
“زمل یہ تمہارا اپنا گھر ہے تم پہلے بھی تو یہاں آیا کرتی تھی نا بالکل اب بھی ویسے ہی آیا کرو اور میں اب اس بارے میں کچھ نہیں سنوں۔ خیر چھوڑو یہ باتیں اور یہ دیکھو یہ تمہاری جیولری ہے ۔اور تم شادی پر یہ ہی پہنو گی اور میں انکار بلکل نہ سنوں تمہارے منہ سے اور تم جانا نہیں میں آتی ہوں۔۔ ” جیولری کے باکس زمل کو تھما کر وہ وہاں سے چلے گئیں ۔
“زمل اگر بھائی آجائیں ابھی تو کیا کرو گی تم۔۔؟ ” حماد نے اُسے چھیڑا ۔
“میں جارہی ہوں۔۔ ” زمل وہاں سے اُٹھنے لگی تو انعم نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ واپس بٹھا لیا۔
“حماد تنگ نہیں کرو اسے۔۔ زمل تم چھوڑو اسے میری جیولری دیکھو تم۔ ”
“زمل کافی ٹائم ہوا تمہارے ہاتھ کی چائے نہیں پی پلیز بناؤ نا ۔” حماد نے اُس سے فرمائش کی۔
“ایک شرط پر پھر تم مجھے تنگ نہیں کرو گے۔ ”
“اچھا بابا نہیں کرتا تم جاؤ اب۔۔ ” حماد نے ہنستے ہوئے کہا۔
“اوکے میں ماموں سے مل آؤں پھر بناتی ہوں ۔” زمل وہاں سے اُٹھ گئی ۔
________________
“زمل کباب فرائی کررہی تھی جب حماد کچن میں آیا ۔”
“زمل دیکھو بھائی تم سے ملنے آئے ہیں۔۔ ” حماد نے اُسے تنگ کیا۔
“زمل کے گھبرا کر مُڑنے پر پاس پڑا گلاس نیچے گر کر ٹوٹ گیا۔”
“بہت ہی کوئی فضول انسان ہو تم حماد دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔ ” زمل نے تپ کر کہا ۔
“ہاہاہاہا یار اگر وہ آبھی جاتے ہیں تو کیا ہوگیا تم کیوں ڈر گئی ۔” حماد نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
“تم یہاں سے جارہے ہو یا میں جاؤں۔۔ ؟” زمل نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔
“اچھا جارہا ہوں نا۔۔ ”
زمل پھر سے کام میں مصروف ہوگئی۔
“کھٹکے کی آواز پر زمل پیچھے مُڑے بنا ہی بولی۔ ”
“حماد تم پھر سے آگئے ہو اب کوئی فضول بکواس مت کرنا اب چاہے تم ہو یا ساتھ تمہارے بھائی بھی آتے ہیں تو آئے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے یہ گھر جتنا اُنکا ہے اتنا ہی میرا بھی ہے۔۔ ”
” تو واپس آجائیں اپنے گھر میں۔۔” بالاج کی آوز پر زمل کے کام کرتے ہاتھ تھمے تھے ۔
زمل کی جانب سے کوئی جواب نا پاکر وہ چلتا ہوا آکر اُس کے قریب رک گیا تھا ۔”
“میں نہیں جانتا کہ اپنی پچھلی غلطیوں کی تالافی کیسے کروں لیکن صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ تم جیسے پہلے یہاں آتی تھی بلکل ویسے ہی آیا کرو ۔ میری والی غلطی تم مت کرنا سب تمہیں بہت چاہتے ہیں اُن کی محبتوں کا مان رکھ لینا ۔۔” وہ یہ کہہ کر رکا نہیں اور وہاں سے چلاگیا ۔ زمل نے اُسکے جاتے ہی اپنی رکی سانسیں بحال کی ۔
_________________
“زمل تم میرے روم میں آجاؤ نا یار ٹائم ہی کتنا رہ گیا ہے شادی کو۔۔ ” انعم نے پھر سے اُسے منانا چاہا۔
“ابھی بھی پورا ایک ہفتہ ہے انعم۔۔ ” زمل نے شرارت سے کہا۔
“زمل بہت بدتمیز ہو یار اب مجھے تمہاری ضرورت ہو تو میں پہلے تمہیں تمہارے روم سے بُلانے آؤں شرم تو نہیں آتی ایسا کرتے ہوئے۔ ” انعم نے مصنوعی خفگی سے کہا۔
“تو کال کرلینا نا تم۔۔” زمل نے چڑایا اُسے ۔
“میں تمہاری شادی میں ایسا کرتی تو تمہیں لگتا پتا۔۔ ” انعم کو غصہ آیا ۔
” وہ ہوچُکی ہے۔۔ ” زمل کے منہ سے بے ساختہ نکلا ۔
“زمل تم بھائی کو معاف نہیں کرسکتی ہو۔۔؟ انعم نے زمل کو نرم پڑتے دیکھ پوچھا ۔
“مجھے کوئی شکایت نہیں ہے اُن سے۔۔ ” زمل نے نظریں چُرائی ۔
“جھوٹ مت بولو اگر شکایت نہیں ہوتی تو تم آج اُن کے ساتھ ہوتی۔۔ میں بھائی کو ایسے نہیں دیکھ سکتی ہوں اور نہ تمہیں۔۔ اور تم جانتی ہو پاپا نے ابھی تک بھائی سے بات نہیں کی ۔ زمل میری خوشی تم لوگوں کی خوشی کے بنا اُدھوری ہے۔۔” انعم کی آواز میں نمی تھی ۔
“ڈونٹ وری تمہارے بھائی کے ساتھ کوئی اور آجائے گی جلد اور ماموں سے میں بات کرتی ہوں ۔”
“کیا مطلب کوئی اور آجائے گی۔۔ ” انعم نے اچنبھے سے پوچھا۔
“کچھ نہیں۔۔ ” زمل نے چہرہ جُھکا لیا۔
“”بتاؤ اب مجھے ” انعم نے ضد کی ۔
“اپنے بھائی سے ہی پوچھنا۔۔ اب پلیز کوئی اور بات کرو۔۔ ” زمل نے بات ختم کی۔
“انعم بی بی آپکو بلارہے ہیں ۔” ملازمہ نے آکر کہا۔
“تمہیں تو میں آکر پوچھتی ہوں۔۔” انعم تنبیہ کرتی ہوئی چلے گئی ۔
زمل بھی جانے کو اٹھی تو بالاج کو دروازے پر ایستاد پایا۔ زمل پاس سے گزرنے لگی تو بالاج نے اُسکو ہاتھ سے پکڑ کر روک لیا۔
“یہ کیا طریقہ ہے۔۔؟” زمل کو غصہ آیا ۔
“حق رکھتا ہوں۔۔ اینڈ بائے دا وے دوسروں سے میرے بارے میں پوچھنے کی کوشش سے بہتر ہے کہ ڈائیریکٹ مجھ سے ہی پوچھ لیتی تم۔” بالاج نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
“ہاتھ چھوڑیں میرا اور مجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ کے بارے میں کچھ بھی پوچھنے کا ” زمل نے ترخ کر کہا۔
“یہ ہاتھ تو اب ہمیشہ اسی ہاتھ میں رہے گا اور تمہیں شوق بھلے نا ہو لیکن میں تمہیں پھر بھی بتاؤں گا کہ میرے ساتھ اب تمہارے علاوہ کوئی نہیں آئے گی مائے ڈئیر وائف۔۔ ”
“اب ایسا ناممکن ہے بالاج۔۔ ” زمل نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
“یہ تو وقت بتائے گا۔۔ میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا ہو زمل ۔۔ ” بالاج نے اُسکا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا۔
“اب کون سا ڈرامہ کررہے ہیں یا اب بھی کوئی کسر باقی ہے تکلیف دینے میں۔۔؟ زمل کی آنکھ سے آنسو نکل کر گرا اور وہوہاں سے چلے گئی ۔ بالاج اُسکی پشت دیکھتا رہا۔۔ ”
______________
“یار مجھے نہیں لگتا کہ اب وہ مانے گی۔۔ اور اگر پاپا کو پتہ چل گیا نا کہ میں اُنکی چہیتی کو تنگ کررہا ہوں تو اب کی بار وہ مجھے گھر سے ہی نکال دیں گے۔۔ ” بالاج نے صوفے کی پشت ے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
“آپ اور۔۔ زمل سے آغاز میں ہی ہار مان گئے ہو مجھے یقین نہیں آرہا ہے۔۔ ” حماد نے ہنستے ہوئے کہا۔
“ہار کے بچے تمہیں تو جیسے پاپا کا پتہ نہیں ہے نا جو میں کر چُکا ہوں نا اُس کے بعد امید کم ہی رکھوں تو بہتر اور وہ زمل پہلے ہی اتنے غصے میں ہے اوپر سے انکل اور بابا کی سپورٹ پر سوچو وہ کیا نہیں کرسکتی۔ پاپا اور انکل کی اجازت ہوتی نا پھر دیکھو کیسے مناتا اُسے اپنے طریقے سے۔۔ ”
“مطلب زبردستی منواتے؟ حماد نے ایکٹینگ کی ۔
“نہیں یار پیار سے ہی مناتا نا۔۔اب زبردستی یا غصے کی گنجائش نہیں ہے اس رشتے میں۔۔ اب مجھے اُسکا یقین حاصل کرکے محبت سے منانا ہے ۔” بالاج نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔
“ہماری طرف سے اجازت ہے۔۔ ” جمال صاحب کی آواز پر دونوں نے دروازے کی طرف دیکھا اور وہان مدثر صاحب اور جمال کو کھڑے پایا ۔
“آپ لوگ اندر آئے نا۔۔ پلیز۔۔ ” بالاج نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔
“بالاج اب کی بار میری بیٹی کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔۔ ” مدثر صاحب نے بالاج کے سامنے آکر کہا۔
“بابا اب ایسا کبھی نہیں ہوگا انشااللہ بس آپ لوگوں کی دعائیں چاہیئے۔۔ ”
“وہ ہمیشہ ساتھ ہیں۔۔ ” مدثر صاحب نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
“بابا آپ نے مجھے معاف کردیا ہے نا۔۔ ” بالاج نے دھیمے سے پوچھا ۔
“تم صرف زمل سے معافی کے حقدار ہو۔۔ اور زمل صحیح کہتی تھی میری غلطی کی وجہ سے تمہارے دل میں یہ سب کچھ آیا اور میری جلد بازی نے اتنا معاملہ خراب کیا ہے ۔” ”
“پاپا پلیز اب سب کچھ بھول جائیں آگے سب اچھا ہوگا ۔۔”
“انشااللہ ” مدثر صاحب نے بیٹھتے ہوئے کہا
______________
“بھابھی کی ہمت ہے کیسے سنبھال لیتی ہیں سب کام ۔۔” زمل نے مامی سے کہا۔
“بس دیکھ لو جب ہی کہتی ہوں تم بھی تھوڑا تھوڑا کرو آگے تمہیں بھی تو سنبھالنا ہے۔۔ ”
“ممی یہ اپنے ایک عدد شوہر کو تو سنبھال لیں پہلے۔۔ ” حماد نے چھیڑا۔
“مامی اسے سمجھا لیں آپ ” زمل نے چڑ کر کہا۔
“حماد بری بات بھابھی کو ایسے تنگ نہیں کرتے ہیں۔۔ ” حماد کا قہقہہ ہوا میں بلند ہوا ۔
“مامی کیا آپ بھی میں جارہی ہوں۔ ”
“ہاں جاؤ اور ٹائم پر تیارملو مجھے سب۔۔ ” مامی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“حماد یہ بالاج کہاں ہے۔۔؟
“باری بھائی کے ساتھ ہیں دونوں کو کچھ کام تھا ۔”
“ایک تو ان لڑکوں کو آج کے دن بھی سکون نہیں ہے۔۔ تم بھی جاکر تیار ہو اب ” زکیہ بیگم نے اُسے بھی جانے کا کہا ۔
________________
“ماشا الله میری دونوں بیٹیاں کتنی پیاری لگ رہی ہیں۔۔ کسی کی نظر نہ لگے۔۔ ” زکیہ بیگم نے باری باری دونوں کا ماتھا چوما ۔
“ممی میک اپ کے ساتھ بولیں۔۔ ” حماد نے چڑایا ۔
“بری بات حماد ” شہریار نے ہنسی کو کنٹرول کرتے ہوئے ٹوکا ۔ کیونکہ وہ انعم کو بولنے کا ارادہ کرتے دیکھ چُکے تھے ۔
“زمل تمہیں جو میں نے جیولری دی تھی تم نے وہ نہیں پہنی؟ ” زکیہ بیگم نے پوچھا۔
“سوری مامی میں بھول گئی تھی ۔ کل پہن لوں گی پکا۔ ” زمل نے ٹالنا چاہا۔
“بلکل نہیں ابھی جاکر پہنو ۔” زکیہ بیگم نے سختی سے کہا۔
“مامی ایک تو بھابھی نے اتنا ہیوی ڈریس لاکر دیا ہے اوپر سے آپ جیولری بھی پہنا رہی ہیں۔۔ کل پہن لوں گی نا پلیز ۔” زمل منمنائی ۔
“ہرگز نہیں جب میں نے تم سے کہہ دیا تھا تو تمہیں بھولنا ہی نہیں چاہیئے تھا تمہیں اس لیے میں نے پہلے دی تھی ۔اور اچھا ہے نا میریڈ ہو تیار ہوئے دیکھ لگنا تو چاہیئے نا۔۔ ” زکیہ بیگم نے حتمی لہجے میں کہا۔ سب کے سامنے اُنکے کہنے سے زمل جھینپ گئی ۔ بالاج کو آتا دیکھ وہ وہاں سے چلے گئی ۔
_________________
“چاچا سب لوگ چلے گئے کیا۔؟ زمل نے وہاں کسی کو نا پاکر روہانسے انداز میں پوچھا۔
“جی بیٹا ابھی ابھی گئے ہیں۔۔ صرف بالاج بابا کی گاڑی ہے وہ ہی رہ گئے ہیں۔۔ ”
“کیا ہوا چاچا۔۔؟ بالاج نے زمل کے پیچھے سے پوچھا ۔
“مجھے لگتا ہے زمل بیٹی کو بھول گئے ہیں سب چلے گئے ہیں میں یہ ہی بتا رہا تھا۔ ” انہوں نے تفصیل سے جواب دیا ۔
“اس میں رونے کی کیا بات ہے زمل میرے ساتھ چلو۔۔ ” بالاج نے اُسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کہا ۔
زمل آج عام دنوں سے ہٹ کر تیار ہوئی تھی۔ ورنہ بالاج نے اُسے کبھی ایسے تیار ہوتے نہیں دیکھا تھا وہ اتنی خوبصورت ہے بالاج کو اندازہ نہیں تھا یا شاید بالاج نے کبھی اُسے دیکھا ہی نہیں تھا اب دل کی دنیا بدلی تو وہ بھی اُسے بدلی ہوئی لگی ۔ گرین ڈریس میں وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی ۔
“میں شہریار بھائی کو بلالیتی ہوں آپ تکلیف نہیں کریں۔۔ ” زمل نے انکار کرنا چاہا ۔
“تکلیف کی کوئی بات نہیں یہ میرا فرض ہے۔۔ اور تم میری ذمہ داری ہو زمل۔ شہریار کو تکلیف کیوں دینی ہےاور ویسے بھی ہم پہلے ہی بہت لیٹ ہوچُکے ہیں بھابھی کی کالز آرہی ہیں ۔ ”
“بالاج میں نہیں جاؤ گی آپ کے ساتھ۔۔ ” زمل کو بالاج پر غصہ آیا تھا ۔
“آرام سے مان جاؤ ورنہ زبردستی اُٹھا کر لے جاؤں گا ۔” بالاج نے اُسے تپانے کے لیے کہا ۔
“آپ مجھے دھمکی دے رہے ہیں۔۔؟ زمل کو یقین نہیں آیا تھا ۔
“نہیں عمل بھی کرکے دکھا سکتا ہوں اگر تم نہیں مانی تو اور ویسے بھی اتنی حسین لگ رہی ہو ایسا موقع ہاتھ سے جانے دینا تو غلط ہوگا نا۔۔؟ بالاج کی مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔
“آپ بہت بدتمیز ہیں۔۔ ” اپنے پیچھے بالاج کاقہقہ اُسے اور تپا گیا تھا ۔وہ غصے میں گاڑی میں جاکر بیٹھ چُکی تھی ۔
__________________
“کیسا رہا سفر۔۔؟ انعم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
“تم تو مجھ سے بات نہیں کرو بے وفا عورت۔۔ مجھے اکیلے چھوڑ آئے تھے تم سب۔۔ ” زمل کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
“یاراچھی خاصی لڑکی کو عورت تو نا کہو اور تم آئی نہیں تو ممی نے کہا چلو بھابھی کی کالز آرہی تھی ۔ اور اکیلے کہاں بھائی تھے نا۔۔ ” انعم نے اطمینان سے کہا ۔
“تم لوگوں نے جان کر ایسا کیا میرے ساتھ اوپر سے تمہارے بھائی اتنے بدتمیز ہیں کہ پوچھو مت۔۔ ” زمل کا غصہ کم ہی نہیں ہورہا تھا ۔
“تم کہتی یو تو نہیں پوچھتی ہوں اور کچھ حکم جناب کا۔۔ ” انعم نے بمشکل ہنسی روکی ۔
“دفع ہوجاؤ تم میں ہی پاگل جو تم سے بات کر رہی ہوں۔۔ ” زمل نے کھڑے ہوکر خفگی سے کہا ۔ اور پیچھے مڑتے ہوئے بالاج سے ٹکرا گئی ۔
“اُف آج کا دن ہی برا ہے۔۔” زمل نے ماتھا سہلاتے ہوئے کہا۔
“شوہر کی برائی کریں گی لوگوں سے تو سزا تو ملنی تھی نا۔۔ اب دھیان سے چلنا اور ہاں تھینکس گجرے پہننے کے لیے۔۔ ” بالاج نے مزید چڑایا ۔
“ذیادہ خوش فہمی نہیں ہوں آپ کو بھابھی نے زبردستی پہناوائے ہیں۔۔ ”
“جو بھی ہو میرے لیے ہوئے تمہارے ہاتھوں میں ہیں کافی ہے میرے لیے۔۔ ” بالاج نے ہنستے ہوئے کہا۔
“آئی تھنگ اب آپ لوگوں کو ایکدوسرے پر سے توجہ ہٹا کر مہمانوں پر توجہ دینی چاہیئے۔۔ ” حماد نے دونوں کے پاس آکر کہا ۔ زمل غصے سے وہاں سے چلے گئی ۔ اور دوبارہ زکیہ بیگم کے زبردستی کرنے پر اُسے بالاج کے ساتھ اسٹیج پرآنا پڑا رسم کے لیے۔۔ زمل کا دل چاہ رہا تھا وہ یہ سب چھوڑ کر چلی جائے کہیں ۔ اُس نے سوچ لیا تھا وہ سب سے بات کرے گی اب ۔
_______________
“تم یہاں کیا کررہی ہو اس وقت ؟ ” بالاج کی آواز پر زمل کا دل اچھل کے ہلک میں آگیا تھا ۔
“وہ میں کچھ نہیں بس واک کررہی تھی ۔” زمل نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
“اس وقت اور اس ڈریس میں۔۔؟ ” بالاج کو شبہ ہوا مہندی کے فنکشن والےڈریس میں دیکھ کر ۔
“میری مرضی جو بھی کروں میں۔۔آپ کو کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیئے۔” زمل نے خود کو نارمل کیا ۔
“مطلب تو بہت سارے ہیں تم سے۔۔خیر اندر جاؤ رات کے اس پہر یہاں نہیں پھرو۔” بالاج نے سیریس ہوتے ہوئے کہا۔ زمل اندر کی جانب بڑھ گئی ۔
“بالاج کے اندر جاتے ہی زمل وآپس آگئی اور اشارے سےباری کو بُلایا۔ باری بھائی آپ نے مروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مجھے آج ۔
“سوری زمل اینڈ تھینک یو ویری مچ۔”
“او تو ملاقاتیں چل رہی تھا یہاں۔۔ “بالاج کی آواز پر زمل نے مڑ کر دیکھا اور نظریں جُھکا کر اندر جانے لگی ۔”یہاں ہی ٹھہروں اور تمہیں تو میں بعد میں پوچھتا ہوں۔۔بالاج نے باری کو گھورتے ہوئے کہا۔باری آنکھ مارتا ہنستا ہوا وہاں سے چلاگیا ۔
“دوسروں کو ملوایا جارہا ہے اپنے ملنے کے بارے میں بھی سوچ لو۔۔ ” بالاج نے زمل کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
“مجھے نہیں سوچنا ہے کچھ بھی ۔” زمل نے بالاج کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
“کیا اب بھی تمہیں یہ لگتا ہے کہ یہ سب میرا ڈرامہ ہے۔؟ ” بالاج نے بخور اُس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
“مجھے نہیں معلوم۔۔ اور وہاں سے جانے لگی ۔
“بالاج نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر روکا ۔ جب دل میں جگہ دے سکتی ہو تو زندگی میں بھی گنجائش نکال لو ۔۔” بالاج نے ایک ہاتھ سے اُسکے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
“ایسا کچھ نہیں ہوگا آپ نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے۔ جب دل ہوا میری ذات کی تذلیل کرلی پھر اپنی مرضی سے زندگی میں شامل کر لیا بدلہ پورا ہونے پر زندگی سے نکالنے کا کہہ دیا اور اب پھر سے وآپس لانا چاہتے ہیں۔۔؟ اُسکی آنکھوں میں آنسو آگئے
“بالاج نے اُسکے لبوں پر انگلی رکھ کر خاموش کروادیا ۔
“سب کچھ بھول جاؤ زمل ایک خوبصورت زندگی تمہارا انتظار کررہی ہے۔ایک آخری بار یقین کرکے تو دیکھو۔۔ تمہیں نا امید نہیں کروں گا ۔ تمہارے روم میں کچھ رکھا ہے تمہارے لیے بس وہ دیکھ لینا اور پھر ایک بار سب کچھ بھول کر فیصلہ کرنے کی کوشش کرنا ۔ اور تم جو فیصلہ کرو گی مجھے منظور ہوگا ۔ میں انتظار کروں گا تمہارے جواب کا ہوسکے تو ذیادہ وقت مت لینا۔۔ زمل کے ماتھے پر اپنے پیار کی مُہر ثبت کرتا وہ وہاں سے چلا گیا۔” زمل حیرانگی سے جاتا اُسے دیکھتی رہی ۔
_________________
“یہ تم نے میری بیوی کو کس کام پر لگایا ہوا تھا ۔بجائے اس کے ہمیں ملاواؤ تم اپنی ملاقاتیں کروا رہے ہو” بالاج نے کال ملاتے ہی باری کی کلاس لی ۔
“ہاہاہا دکُھی مت ہو جاتے جاتے تیری بھی کرواگیا تھا ۔اگر چاہتا تو رُک بھی سکتا تھا ۔” باری نے چڑایا ۔
“اور میں تجھے رکنے دیتا نا جیسے ۔” بالاج نے بھی فوراً کہا ۔
“اچھا بتاؤ کچھ بنا ؟ ” باری نے سیریس ہوکر پوچھا۔
“رہنے دو تم ایک بات یاد رکھنا بیٹا اگر کل زمل بھی رخصت ہو کر نا آئی تو میں تمہاری شادی میں پنگا ڈال دوں گا ۔” بالاج نے بات کو مزاق میں اڑادیا ۔
“جب میں روکتا تھا تب تمہیں سمجھ نہیں آتی تھی بات۔۔ اب بلاوجہ میری شادی نہیں خراب کرو۔۔ ” باری نے تپ کر کہا ۔
“ہاہاہا مزاق کررہا ہوں یار چل اب تم بھی آرام کرو کل بات ہوتی ہے۔۔ الله حافظ۔
“تم بھی اپنا خیال رکھنا ۔سب اچھا ہوگا ۔”
سیل رکھ کر بالاج نے گھڑی کی طرف دیکھا تو چار بج رہے تھے ۔ آج اُسے انتظار کرنا تھا ۔
_________________
“زمل انعم کے سونے کے بعد اپنے روم میں آئی اور دروازہ لاک کیا۔ وہ اب تک حیران تھی اُسے بالاج سے اس کی امید نہیں تھی ۔”
سائیڈ ٹیبل پر اُسے ایک لفافہ ملا زمل نے جلدی سے اُسے کھولا اُس میں وہ ڈائری تھی جو وہ اسلام آباد میں ہی بھول آئی تھی ۔ زمل نے اپنا ہاتھ منہ پر رکھا اور وہ نیچے ہی بیٹھ گئی ۔
“زمل نے سوچا ہی نہیں تھا کہ اُسکے دل کی بات بالاج تک جاسکتی ہے اور وہ بھی ایسے ۔۔ اُس نے تو کبھی بھی نا بتانے کا ارادہ کرلیا تھا اور اب یہ سب ۔ بھلے وہ بالاج کے جذبات کی نفی نہیں کرسکتی تھی لیکن وہ سب کچھ بھولی بھی نہیں تھی ۔”
زمل نے ڈائری کے ساتھ رکھا کاغڈذ بھی نکالا ۔ وہ بالاج ہی نے لکھا تھا ۔
“زمل میں جانتا ہوں کہ میری غلطیوں کے لیے معاف کرنا اتنا آسان نہیں ہے ۔ میرے لیے یہ بہت مشکل مرحلہ ہے کہ بار بار تمہارے آگے جُھک کر معافی مانگوں لیکن میں کروں گا تب تک جب تک تم مان نہیں جاؤگی کیونکہ میں تمہیں کُھونا نہیں چاہتا ہوں ۔ جب تمہاری یہ ڈائری ملی میں اسے پڑھنا نہیں چاہتا تھا لیکن خود کو روک بھی نہیں سکا تھا ۔ میری نفرت تمہاری محبت کے آگے بہت چھوٹی پڑ گئی۔ تمہاری اچھائی کسی کو بھی بدل سکتی ہے انعم نے صحیح کہا تھا ۔ جب جب تمہیں تکلیف دی خود کو بھی ملامت کرتا تھا ۔تم چاہتی تو پہلے دن ہی سب کو سب بتا کر اپنا راستہ الگ کرسکتی تھی لیکن تم نے ایسا نہیں کیا ۔ تم نے ہر ممکن اس رشتے کو نبھانا چاہا ہے تو کیا مجھ پر اسکا اثر نہیں پڑتا کوئی ؟ میں تمہارے یہاں آنے سے پہلے ہی تم سے معافی مانگنا چاہتا تھا لیکن اُسی رات میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا ۔یہاں آکر بھی تم نے کسی کو کچھ نہیں بتایا میرے دل میں تمہارے لیے پھر کیسے نہیں آتی قدر ۔اور اب مجھے صرف تمہارے ہی ساتھ کی ضرورت ہے میں کوئی زبردستی نہیں کروں گا ۔اب کی بار تمہاری ہی مرضی سے ہوگا ۔ اور میں نے جو کچھ بھی کہا اس میں کچھ جھوٹ نہیں ہے۔ زمل چاہو تو ساتھ چل کر آزما لو۔۔ اور چاہو تو مزید انتظار کروا کر سزا دے لو لیکن یاد رکھنا کہ مرتے دم تک بھی انتظار کروں گا تمہارا۔۔ ”
زمل نے نم آنکھوں سے کاغذ بند کیا ۔
“کیا میں اتنی خوش نصیب ہوں کہ ایک ایسا انسان جو مجھ سے بچپن سے ہی نفرت کرتا بڑا ہوا ہے آج وہ اپنی سب غلطیوں کی معافی کے ساتھ ساتھ اپنے دل میں میرے لیے جذبات رکھتا ہے ۔ میری محبت میرے دروازے پر خود چل کر آکر دستک دے رہی ہے۔۔ کیا میں اُسے دھتکارنے کی ہمت رکھتی ہوں۔۔؟ لیکن محبت میں دھتکارنا آتا ہی نہیں ہے۔ محبت تو صرف دینے کے نام ہے چاہے وہ پھر قربانی ہو، معافی ہو یا محبت ۔ سامنے والا بھی چاہے یہ کوئی شرط تو نہیں ۔ مجھے بھی اپنی محبت میں کچھ دینا ہی ہے پہلے قربانی دی اور اب معافی دوں گی ۔۔ باقی میرا نصیب ۔ محبت کے سفر میں اکیلے بھی چلنا ہی ہے تو کیوں نا اپنی محبت کے ساتھ ہی چلا جائے ۔ ”
“مجھے آپ سے ملنا ہے ابھی۔۔جہاں تھوڑی دیر پہلے ملے تھے۔” زمل نے بالاج کو ٹیکسٹ کیا وہ جانتی تھی کہ وہ اُسکا انتظار کررہا ہوگا ۔ اور وہ مزید اب اُسے جُھکنے نہیں دے سکتی تھی ۔
______________
” مجھے یقین تھا کہ تم آؤگی ۔” بالاج نے زمل کو دیکھتے ہی کہا۔
“آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میں ضرور آتی۔۔ ”
“جن کے ساتھ چلنے کی چاہ ہو تو یقین اولین شرط ہے ۔” بالاج کے لفظوں سے اُسکی سچائی کا یقین کرسکتی تھی وہ ۔
“زمل چلو باہر چل کر بات کرتے ہیں ۔” بالاج نے زمل کا ہاتھ تھام کر کہا۔
“”واٹ۔؟ آپ کو پتہ ہے کہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔؟ صبح ہونے والی ہے؟
“تو کیا ہوگیا یہ ہی وقت ہوتا ہے جانے کا ۔”
“بلکل نہیں یہاں ہی بات کریں ابھی سب اُٹھ جائیں گے ہمیں نا پاکر پریشان ہوجائیں گے ۔”
“تمہیں سب کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے تم چلو۔۔ ” بالاج نے ضد کی ۔
“بالاج پلیز نہیں۔۔ ” زمل نے منع کرنا چاہا ۔
” میں پوچھ نہیں رہا ہوں تمہیں بتا رہا ہوں ہم چل رہے ہیں بس۔۔ اور اب بلکل چُپ ” بالاج نے دھونس جمائی ۔ زمل کو ماننی ہی پڑی
______________
“تمہیں یہاں آنا بہت پسند ہے نا۔۔؟ بالاج نے سی ویو پر کار روکتے ہوئے کہا۔
“آپ کو کیسے پتہ ۔۔؟ زمل نے حیرانگی سے پوچھا ۔
“اب ایک گھر میں رہتے ہوئے تمہارے ایسے شوق کا علم نہیں ہوتا ایسا تو ناممکن تھا۔” بالاج نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“یہاں کیوں لائے ہیں ؟ زمل نے اُترتے ہوئے پوچھا۔
“جو بھی چیز تمہیں خوشی دیتی مجھے وہ کرنا اچھا لگے گا اور میں نے سوچا جب تم اپنا رونا دھونا یہاں کرتی ہو تو خوشی بھی یہاءملنی چاہیئے تمہیں۔۔ ” بالاج نے چھیڑتے ہوئے کہا۔
“آپ نے کب دیکھا مجھے روتے ہوئے یہاں۔۔؟ ”
“جب تم طبیعت ٹھیک ہونے کے بعد خود ڈرائیو کرکے آئی تھی تب حماد نے ٹیکسٹ کرکے تمہارا خیال رکھنے کو کہا تھا ۔”
“او اچھا ۔” زمل کو حیرت ہوئی تھی ۔
“تب بھی تم نے وائٹ ڈریس ہی پہنا تھا ۔تم اکثر ہی ایسی ڈریسنگ کرتی ہو۔ ” بالاج نے یاد دلایا ۔
“مجھے پسند ہے بہت اس لیے۔۔ ”
“جب ہی میں نے تمہارے لیے ایک دن کا وائٹ ڈریس سلیکٹ کیا انعم کی شادی پر۔۔ ” بالاج کے کہنے پر زمل نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا ۔
“آپ نے ڈریس سلیکٹ کیے میرے سارے۔۔؟ زمل نے حیرانگی سے پوچھا۔
“جی ہاں۔۔ اور تمہارے روم میں رکھوائے بھی میں نے تھے حماد سے کہہ کر ۔۔ ” بالاج نے مسکراتے ہوئے بتایا ۔
“جب ہی میں پریشان کل سے کیونکہ جب میں نے بھابھی سے کہا آپ نے ہیوی ڈریس کیوں بنوایا تو اُنہوں نے کہا کہ میری شاپنگ اُنہوں نہیں کی تھی ۔ آپ کو بتانا چاہیئے تھا۔” زمل نے شکوہ کیا۔
“کیا پھر تم پہنتی۔۔؟ بالاج نے الٹا سوال کیا ۔زمل نے کوئی جواب نہیں دیا۔
“اس لیے نہیں بتایا تھا ۔” بالاج نے خود ہی کہا۔
وہ دونوں ریت پر خاموشی سے چلتے جارہے تھے۔ بالاج نے زمل کا ہاتھ تھام لیا ۔ لہروں کی آواز کا شور الگ ہی سکون دے رہا تھا۔
“زمل تم اب تو ناراض نہیں ہو نا مجھ سے۔۔؟ بالاج نے زمل کے سامنے آتے ہوئے کہا۔
” آپ کو کیا لگتا ہے ؟” زمل نے سوال کیا ۔
“جانتا ہوں لیکن تمہارے منہ سے سن کر سکون آئے گا ۔”
“بالاج بہت مشکل سے راضی کرپائی ہوں خود کو۔۔ میرا یقین نہیں ٹوٹے اب پلیز کیونکہ مجھ سے اب برداشت نہیں ہوگا اور نہ میں اپنی وجہ سے اب اپنوں کو دُکھی دیکھ سکتی ہوں۔۔ ”
“اب کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی زمل یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔۔ میں تمہارے ہردُکھ کا مداوا کروں گا اتنی خوشیاں دوں گا کہ ان غموں کی پرچھائی بھی تم تک نہیں آسکے گی ۔ یقین رکھنا ہمیشہ میرا۔ آئی رئیلی لو یو زمل ” بالاج نے اُسکے دونوں ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا۔
“آئی تھنگ اب ہمیں گھر جانا چاہیے سب اُٹھ گئے ہوں گے۔۔ “زمل نے گھبراتے ہوئے کہا۔
“تمہیں سب کی اتنی ٹینشن کیوں ہے یار اپنے ہسبینڈ کے ساتھ آئی ہو ریلکس رہو ۔” بالاج نے محبت آمیز لہجے میں کہا۔
“آپ چل رہے ہیں یا نہیں ۔؟
“اگر نہیں چلوں تو۔؟ بالاج نے تنگ کرنا چاہا ۔
“میں خود چلے جاؤں گی ۔” زمل نے دھمکی دی ۔
“پہلے اپنا ہاتھ چھڑواؤ۔۔ ” بالاج نے شرارت بھرے انداز میں کہا۔
“بالاج تنگ نہیں کریں نا پلیز۔۔ ” زمل نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی ۔
“اچھا چلو ٹھیک ہے۔۔ ” بالاج نے مسکراہٹ دے کر کہا۔
______________
“ویسے کون سی ایسی باتیں تھی جو گھر پر نہیں ہوسکتی تھی ۔” حماد نے کار سے اترتی زمل اور بالاج کو دیکھ کر کہا۔
“تم اپنے کام سے کام رکھو۔” بالاج نے گھورا ۔
“اچھا جی اب میں اپنے کام سے کام رکھوں جب آپ کے کام کرتا تھا تب تو ایسا نہیں کہا تھا آج آنکھیں پھیر لی ۔”
“اے لڑکی صبح صبح کہاں سے اور کس کے ساتھ گھوم کر آئی ہو۔” حماد نے زمل کو بھی گھسیٹا ۔
“اپنے شوہر کے ساتھ گئی تھی اب ہٹو میرے راستے سے۔۔ ” زمل مسکراہٹ دباتی اندر چلے گئی ۔
“یار تمہیں دوسروں کی جاسوسی کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آتا ہے۔۔ ؟ بالاج نے حماد کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
” بھائی اب تو ایسے ہی بولو گے آپ حماد نے کندھے سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے منہ بنایا ۔” بالاج کا قہقہہ ہوا میں بلند ہوا ۔
“سوری یار تم تو برا مان گئے جب تمہارا وقت آئے گا تب پوچھوں گا۔۔” بالاج نے ہنستے ہوئے کہا۔
“بات بن گئی نا۔۔؟ ” حماد نے پوچھا ۔
“یس ” بالاج نے مسکرا کر کہا۔
ٹیرس پر کھڑی زکیہ بیگم نے اپنے بیٹے کے ہمیشہ خوش رہنے کی دُعا کی تھی۔
_____________
“وائٹ گھیرے والی فراک پر بالوں کو ُکھلے چھوڑے اور خوشی سے دمکتا چہرہ زمل کو اور خوبصورت بنا رہا تھا ۔” زمل اور بالاج کے ہنستے ہوئے کی پکچر حماد نے کیمرے میں مقید کرلی تھی ۔
“شہریار زمل آج کتنی خوش لگ رہی ہے نا۔۔” ثناء نے اپنے ساتھ میں کھڑے شہریار سے کہا۔
“اللہ ان دونوں کو ہمیشہ ہی خوش رکھے آمین۔۔ ” شہریار نے دُور اسٹیج پر کھڑے اُن دونوں کو دیکھ کر دعُا دی تھی ۔
” میٹ مائے وائف زمل ” بالاج نے اپنے ساتھ کھڑے کپل سے زمل کا تعارف کروایا ۔
“زمل یہ شہرین ہے اور یہ اُن کے ہسبینڈ ۔” زمل کے چہرے سے اسمائل سمٹی تھی ۔ جو بالاج سے مخفی نہیں رہی تھی ۔
بالاج اپنے فرینڈڑ میں بزی تھا جب شہرین زمل کے پاس آئی ۔
“کیا میں آپ کا تھوڑا ٹائم لے سکتی ہوں۔۔؟ شہرین نے زمل سے اجازت مانگی ۔ شہرین وہاں مہمان تھی اس لیے زمل کو منع کرنا اچھا نہیں لگا۔۔”
“جی ” زمل نے مختصر سا جواب دیا اور ایک کونے میں آگئی دونوں ۔
“میں جانتی ہوں زمل آپ کو میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگا ہوگا ۔لیکن میں یہاں بالاج سے معافی مانگنے آئی ہوں جو پاپا نے اُس پر حملہ کروایا اور ایکسیڈنٹ کروایا اُسکا۔۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ میری شادی بالاج سے ہو وہ اپنے فرینڈ کے بیٹے سے کرنا چاہتے تھے اس لیے یہ سب کیا اُنہوں نے۔۔ لیکن شُکر الله کا کہ بالاج کی جام بچ گئی ورنہ میں خود کو کبھی معاف نہیں کرپاتی ۔۔ پاپا نے بہت غلط کیا تھا ۔ وہ بھی شرمندہ ہیں بہت۔ اور میں تم سے بھی ملنا چاہتی تھی کہ تمہیں یہ بتا سکوں کہ بالاج مجھ سے نہیں بلکہ میں بالاج سے شادی کرنا چاہتی تھی میں اُسے پسند کرتی تھی ۔ہم دونوں اچھے فرینڈز تھے اس لیے اُس نے بھی ہامی بھر لی لیکن یہاں آکر اُسکی تم سے شادی ہوگئی۔ تب میں نے بھی جانے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔لیکن بالاج تمہاری ضد میں مجھ سے کرنا چاہتا تھا ۔ زمل وہ دل سے برا نہیں چاہتا تھا ۔ یو نو واٹ وہ جب بھی آتا تھا مجھ سے ملنے تو کہتا تھا کہ وہ تمہارے ساتھ ذیادتی کررہا ہے اُسے گلٹی فیل ہوتا تھا اور لاسٹ دنوں میں تو اُس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ یہ سب ختم کردے گا وہ تھک گیا تھا تمہاری برداشت کے آگے ۔ اور جس دن اُسکا ایکسیڈنٹ ہوا وہ مجھ سے مل کر تمہارے پاس ہی آرہا تھا ۔ کیونکہ میں اپنے پاپا کے پاس جارہی تھی ارجنٹ ملنے کے لیے بُلوایا تھا میں نے اُسے ۔پاپا نے دھوکے سے بیمار ہونے کا کہہ کر شادی کے لیے بلوایا تھا مجھے اور میں اُس سے مل کر اور سب بتا کر جانا چاہتی تھی۔ میں یہ سب خود تمہیں بتانا چاہتی تھی کہ زندگی کے کسی بھی مُوڑ پر تم دونوں کے درمیان میری وجہ سے کوئی اختلاف نہ آئے ۔ اور بالاج سچ میں بہت خوش قسمت ہے کہ اُسے اتنی اچھی بیوی ملی ہے ۔ امید ہے کہ تم سب بُھلا کر آگے بڑھو گی ۔ پیرنٹس کے فیصلے ہمارے حق میں بہت بہتر ہوتے ہیں بے شک کبھی کبھی وقتی پریشانی آتی ہے لیکن اُس میں بھی کوئی مصلحت ہی ہوتی ہے ۔
“ہوگئی میری برائی۔؟ ” بالاج نے وہاں آکر کہا۔
“ہاں بہت کی اب تم اپنی بیوی سے خیر منانا۔ ” شہرین نے شرارتی انداز میں کہا۔
“میری بیوی بہت اچھی ہے کچھ نہیں کہے گی ۔ ” بالاج نے زمل کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ۔وہ زمل کے چہرے پر اطمینان دیکھ چُکا تھا ۔
“ایکسکیوز می ذرا میں بھی اپنے شوہر کو دیکھ لوں۔۔ ” شہرین وہاں سے ہنستے ہوئے چلے گئی ۔
“آپ بھی آج اپنے گھر سے رخصتی کی تیاری کر لیں اور انکار کرنے کا سوچنا بھی مت کیونکہ میں نے ممی سے کہہ کر ہاں کروا لی ہے اس لیے تم بھی پریشان نہیں ہونا اور تیار رہو اپنے گھر آنے کے لیے مائی لائف ” بالاج محبت سے کہتا وہاں سے ہٹ گیا ۔
“کیا میں اتنی خوش قسمت ہوں کہ میری محبت اتنی آسانی سے مل گئی مجھے۔ میں نے تو سوچا ہی نہیں تھا ۔ کیا واقعی خوشیاں میرے ایک قدم پر تھی ۔؟ زمل نے مسکراہٹ کے ساتھ اسٹیج پر کھڑے بالاج کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں پیار لیے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ زمل نے بھی اپنے قدم اُسکی جانب بڑھا دیے۔
ختم شَدہ ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...