“زموږ شهزادګۍ څنګه ده؟”(کیسا ہے ہمارا شہزادہ؟) امریز خان مشوانی نے بیڈ پر آڑھے ترچھے لیٹے ہوئے داؤد کو مخاطب کیا تھا۔
“ٹھیک ہوں لالہ! آپ کیسے ہیں؟” داؤد مشوانی نے چہرے سے بازو ہٹایا تھا۔
“پریشان ہو؟” امریز لالہ نے اسکی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھا اور اسکے پاس بیٹھ گئے۔
“لالہ پریشان ہونا کیا ہوتا ہے؟” مشوانی نے اپنا سر امریز خان کی گود میں رکھ دیا تھا۔وہ جب بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا تھا ایسے ہی امریز لالہ کے ساتھ باتیں کرتا تھا۔ امریز لالہ اس سے صرف دو سال بڑے تھے مگر مشوانی انکے سامنے بچوں کی طرح اپنا دل کھول کر رکھ دیتا تھا۔
“اچھا چلو چھوڑو۔ زنان خانے میں چلو۔ مورے یاد کر رہی ہیں تمہیں۔” امریز خان نے اسے اٹھانا چاہا۔
“لالہ پلیز میرا اس وقت زنان خانے میں جا کر اس کو دیکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔” مشوانی نے منہ بنایا۔
“بس کر دو مشوانی۔۔۔!مہمل خان نے تمہیں پاگل کر دیا ہے۔ اسکی وجہ سے تم اتنے سالوں سے کراچی میں رہ رہے ہو۔ نہ تمہیں دارجی کا خیال ہے نہ مورے کا اور جو تمہارا خیال کرتے ہیں تمہیں وہ اچھے نہیں لگتے۔ کیا ہے یہ سب؟” امریز لالہ کو اب صحیح معنوں میں اس پر غصہ آیا تھا۔
“لالہ آپ مجھ سے کیا پوچھتے ہیں۔ مجھے تو خود کو خود کی خبر نہیں ہے۔ میرے اندر کی آگ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اب مجھے کسی چیز کی پرواہ ہی نہیں رہتی لالہ۔ آپ بتائیں میں کیا کروں؟”مشوانی کی آواز کسی خلا سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی جبکہ امریز لالہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ مہمل خان کو کٹہرے میں کھڑا کر کے باز پرس کریں۔ مگر اس پہ بھی ان کے لاڈلے چھوٹے بھائی نے دیوار بن کر کھڑے ہوجانا تھا۔وہ جانتے تھے مشوانی کو کہ وہ مہمل خان کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔لیکن انھیں مہمل خان کی جنونیت اور داؤد خان مشوانی کے عشق سے خوف آتا تھا۔
کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبعیت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“السلام علیکم!” نور نے گلا صاف کیا تھا۔اسکی نظریں نیچے جھکی ہوئی تھیں۔
“وعلیکم السلام! آئیں کوئی کام تھا آپ کو مجھ سے؟” شاہ نے اسے بیٹھنے کا کہا۔
“وہ مجھے فیصلہ سنانا تھا۔” نور ہاتھوں کی انگلیاں مسلسل مروڑ رہی تھی۔
“کیا میں سمجھوں کہ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” شاہ نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا۔
“میں راضی ہوں لیکن مجھے آج شام ہی نکاح کرنا ہے آپ سے۔” نور نے شاہ کی سماعتوں پر بم پھوڑا تھا۔
“مگر اسوہ لوگ آج شام روانہ ہو رہے ہیں یہاں سے اور میری بہن میرے ہی نکاح میں نہیں ہوگی؟آپ کو نہیں لگتا آپ کی بات غلط ہے۔” شاہ نے پرسوچ انداز میں اس سے سوال کیا۔
“دیکھیں پلیز آج ہی کریں جو کرنا ہے ورنہ میں یہ سب نہیں کر پاؤں گی۔” نور کی آواز میں لرزش تھی۔ شاید دل و دماغ کی جنگ ابھی جاری تھی۔
“ٹھیک ہے میں انتظامات کرتا ہوں۔” شاہ نے آہستگی سے کہا۔ابھی شاہ کو خان بابا اور زرینہ گل کو سب بتانا تھا۔خیر اب اس کے لیے اتنا بہت تھا کہ نور مان گئی باقی سب وہ سنبھال سکتا تھا لیکن اسے ہنسی آتی تھی کہ وہ کب اور کیسے محبت کا قیدی ہوا اور وہ بھی ایک پراسرار شخصیت والی لڑکی سے محبت! یہ اس کے لیے حیران کن تھا مگر اب تو شاہ کو محبت ہو چکی تھی اب کیا کیا جا سکتا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
ماضی:-
رقیہ گل اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا کس کو بتاتی۔
انکے والد اور والدہ تو حیات نہیں تھے۔بڑے بھائی تھے مظفر مشوانی جنھوں نے روایات کا خیال کرتے ہوئے رابطہ نہیں رکھا اور چھوٹی بہن ماہ گل جو روایت کے سامنے مجبور تھی۔
ماضی میں جب زرینہ گل سب کر رہیں تھیں تو شاہ انکے اس راز سے واقف تھا۔
اسکا دل کرتا وہ سب کو بتا دے کہ اسکے چچا کے خاندان پر ظلم ہورہا ہے لیکن وہ یہ نہیں کر پاتا تھا۔
کیونکہ اگر وہ یہ کرتا تو زرینہ گل کو جرگہ موت کی سزا سنا دیتا۔
اسے اپنی کزن مہمل خان کی تکلیف بڑا دکھ دیتی تھی لیکن وہ کچھ کر نہیں پاتا تھا۔
شاہ سے جب یہ راز سنبھالا نہ گیا تو اسنے اپنے دوست داؤد مشوانی کو سب بتا دیا اور پھر ایک طریقے سے شاہ نے مہمل کو حویلی سے باہر نکال کر مشوانی حویلی کے باہر ایک راستے پر کھڑا کر دیا۔
مہمل کی قسمت اچھی تھی کہ مظفر مشوانی وہاں سے گزر رہے تھے، انھوں نے جب مہمل کو دیکھا تو انھیں اپنی بہن یاد آئی کیونکہ مہمل کے چہرے پر رقیہ گل والی معصومیت تھی۔
وہ مہمل کو لے کر جب حویلی پہنچے اور سب پوچھا تو آٹھ سالہ مہمل خان نے یوسفزئی حویلی میں جہانداد خان کے ہاتھوں ہوئے ظلم کی داستان سنا دی جسے سن کر انکا خون کھول اٹھا۔
روایات سے مجبور ہو کر وہ بہن سے رابطہ نہیں رکھ سکے تھے کیونکہ انکی بہن سے قبیلے کے مخالف جا کر دوسرے قبیلے میں شادی کی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ لاوارث تھیں۔
وہ اسی وقت مہمل خان کے ساتھ یوسفزئی حویلی گئے اور وہاں زرینہ گل کو جہانگیر خان اور رقیہ گل کو انکے حوالے کرنے کا کہا۔
پہلے تو زرینہ گل نہ مانی لیکن پھر جرگے کے ڈر کی وجہ سے انھوں نے ہتھیار ڈال دیے۔
اسکے بعد مظفر مشوانی اپنی بہن رقیہ گل کو لے کر مشوانی حویلی پہنچے تو ایک الگ بھونچال آیا تھا۔مشوانی قبیلہ اپنے قبیلے کہ لڑکی کے ساتھ ہوئے ظلم کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔
ابھی تک مہمل خان کو اپنے تایا کا انتظار تھا مگر اسکی امیدوں کا محل تب مسمار ہوا جب اس نے اپنے تایا کا ظلم دیکھا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
“رقیہ بی بی آپ کو نہیں پتا اتنے سالوں بعد آپ کو سینے سے لگا کر مجھے کتنی خوشی ملی ہے۔ ایک ہی بہن تھی میری وہ بھی روایات نے دور کر دی مگر اب ہم مل ہی گئے ہیں پھر سے۔” ماہ گل جو آج ہی اپنی بیٹی درشہوار کے ساتھ مشوانی حویلی پہنچی تھی، اپنی بہن سے مل کر جزباتی ہو رہی تھیں۔
“بس ماہی قسمت میں جو لکھا ہوتا ہے وہ تو ہونا ہوتا ہے۔” رقیہ بیگم نے اپنی چھوٹی بہن سے کہا تھا۔
ماہ گل مہمل کو گلے لگانے لگی تو وہ انھیں روک کر باہر چلی گئی۔
“ماہی معاف کرنا یہ ایسی ہی ہے دودھیالی رشتوں کی سنگدلی نے اسکے دل میں زہر بھر دیا ہے۔ اسے اپنے پیار کرنے والے مظفر ماموں اور ماہی خالہ کا پیار نظر نہیں آتا۔” رقیہ بیگم نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا جو مہمل کا رویہ دیکھ کر انکی آنکھوں میں آ گئے تھی۔
“ارے چھوڑیں بی بی یہ اب حویلی میں آ گئی ہے دیکھیے گا آہستہ اہستہ ہم سب کا خلوص اسے ایک مثبت انسان بنا دے گا۔” ماہ گل نے رقیہ بیگم کو دلاسہ دیا تھا۔
مگر مستقبل کا علم تو صرف خدا کے پاس ہے!
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
“کیا ہے؟” نور نے فون اٹھایا تھا۔
“کام ہونے والا ہے وہ دونوں گھر سے نکل چکے ہیں۔” دوسری طرف سے خبر دی گئی تھی۔
“کام تو شاید یہاں بھی ہونے والا ہے۔” نور کا لہجہ عجیب سا تھا۔
“کیا نکاح ہو گیا ہے؟” اگلے نے لمبی سانس بھرتے ہوئے سوال کیا تھا۔
“نہیں بس ہونے لگا ہے تھوڑی دیر میں۔۔۔۔۔” نور نے جواب دیا تھا۔
دونوں طرف خاموشی تھی دونوں کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہیں۔ آخر تھوڑی دیر توقف کے بعد دوسری طرف سے آواز آئی تھی۔
“محبت کا جنازہ اٹھانے وہ پہنچ چکا ہے۔ ابھی ائیر پورٹ سے باہر نکلا ہے۔” فون کٹ چکا تھا۔
نور فون کو دیکھے جا رہی تھی۔ ایک دفعہ اسکے دل میں آیا کہ یہاں سے بھاگ جائے کہیں دور مگر پھر اسکا دل محبت کے سامنے مجبور تھا۔ اسے اپنے دشمن سے محبت تھی۔
کیا عجیب کھیل کھیلا تھا قدرت نے اسکے ساتھ!!!
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“بہت محبت کرتا ہے نا مشوانی آپ سے؟” کمرے میں کھڑی درشہوار نے اس سے سوال کیا تھا۔
“آپ؟؟” مہمل الجھی تھی۔
“قسمت کہ ستم ظریفی ہے کہ آپ ساری زندگی سگے رشتوں سے دور رہی ہیں۔ لیکن میں بتا دیتی ہوں میں آپ کی خالہ ماہ گل کی اکلوتی اولاد ہوں درشہوار۔” درشہوار نے اسے جواب دیا تھا۔
“کیا آپ مجھے باقی سب کے بارے میں بتا سکتی ہے؟” مہمل نے شرمندگی سے پوچھا کیونکہ وہ یہاں اپنے ننھیال میں کسی کو نہیں جانتی تھی۔
“مجھے اور امی کا تو اب آپ کو پتہ ہی ہے۔ مظفر ماموں یعنی دارجی ہمارے اکلوتے ماموں ہیں اور انکے تین بچے ہیں سب سے بڑے امریز لالہ جنکی منگنی اور شادی ہو رہی ہے اور ان سے چھوٹی پلوشہ گل جو آپ کے گھر آئیں تھیں انکی شادی ہو چکی ہے اور پھر مشوانی ہے سب سے چھوٹا اور ممانی جان کو بھی آپ جانتی ہی ہیں۔ بس یہی چھوٹا سا ننھیال ہے آپ کا۔” درشہوار نے مسکرا کر اسے بتایا۔
ایک لمحے کو مہمل کو لگا شاید وہ اس پر طنز کر رہی ہے کہ جو تھوڑے سے پر خلوص رشتے ہیں انکو بھی نہیں جانتی لیکن اسے درشہوار کے چہرے پر کوئی طنز نظر نہیں آیا تو اسنے سر جھٹکا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
“آپ نے بتایا نہیں کہ بہت محبت کرتا ہے مشوانی آپ سے؟” درشہوار نے ایک بار پھر سوال دہرایا تھا۔
“شاید۔۔۔۔!” مہمل نے درشہوار کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
“کیا مطلب ایک انسان آپ کے پیچھے خود کو تباہ کر رہا ہے اور آپ کو کچھ معلوم نہیں۔” اب کی بار درشہوار کے لہجے میں تھوڑی تلخی تھی۔
“جو خود تباہ ہو بکھرا ہو اسے کسی اور کی کیا خبر!” مہمل کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
درشہوار نے اسے دیکھا اور پھر مڑ گئی۔
“محبت کو نہ ٹھکرائیں کیا معلوم جسے آپ ٹھکرا رہی ہوں اس نے آپ کے لیے ساری دنیا کو ٹھکرایا ہو۔” درشہوار نے جاتے ہوئے کہا تو مہمل نے اس سے فوراً پوچھا تھا:
“تمہیں داؤد خان مشوانی سے محبت ہے نا؟” جس پر اس نے کہا تھا:
“محبت ہونے سے کیا ہوتا ہے بات تو جب ہے جب محبوب آپ کی تکلیف کم کر دے۔میں یہ تکلیف برداشت کر رہی ہوں اس لیے نہیں چاہتی کہ آپ مشوانی کو اس میں مبتلا کر دیں وہ تو ویسے بھی اب شاید عشق کے مرحلے کا مسافر ہے۔”
“انسان پانے کی کوشش کرتا ہے، آپ نے نہیں کی؟” مہمل کے لہجے میں چبھن تھی۔
“پانے تو لگی تھی مگر پھر پتہ چلا روح میری نہیں تو پھر کیا فائدہ؟” مہمل کو درشہوار کہ آنکھوں سے شعلے نکلتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔
“میں وہ ہوں جسکے پاس تھا سب مگر خالی ہاتھ رہی اور تم سب کھو کر بھی سب پا گئی۔” درشہوار کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔
آنگن میں میرے چاند چڑھا دیکھتا رہا
میں اپنے گھر سے دور کھڑا دیکھتا رہا
زہرا پہ آ کے ٹوٹ گئی عمر کی لکیر۔۔۔۔۔
جس نے بھی میرا ہاتھ پڑھا دیکھتا رہا
” کبھی بددعا دی اسے! ” نجانے کس خیال کے تحت مہمل نے پوچھا تھا جس پر درشہوار کی آنکھوں نے سب کہہ ڈالا تھا۔
سلسلے جو وفا کے رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
حوصلے انتہا کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رکھتے ہیں !!!
ہم کبھی بد دعا نہیں دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ !!
ہم سلیقے دعا کے ۔۔۔۔۔۔۔ رکھتے ہیں !!!
اُن کے دامن بھی جلتے دیکھے ہیں ۔۔۔۔۔
وہ جو ۔۔۔۔۔۔۔۔ دامن بچا کہ رکھتے ہیں !!!
ہم نہیں ہیں شکست کے قائل !!
ہم سفینے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلا کے رکھتے ہیں !!!
جس کو جانا ہے وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلا جائے !!
ہم دیئے سب بجھا کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رکھتے ہیں !!!
ہم بھی کتنے عجیب ہیں، محسن !!!
درد کو دِل بنا کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رکھتے ہیں !!!
مُحسن نقوی
درشہوار جا چکی تھی۔
اسکے جانے کے بعد مہمل خان سانس بھر کر رہ گئی تھی۔نجانے کتنی محبتوں کو مہمل خان نے برباد کرنا تھا۔ شاید مہمل خان بربادی کا ہی دوسرا نام تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
ماضی:-
مشوانی قبیلہ اور یوسفزئی قبیلہ اب ایک دوسرے کے سامنے آ چکے تھے۔
اب جب حالات زرینہ گل کے قابو سے باہر ہوئے تو انھوں نے جہانداد خان کو لندن سے واپس بلایا اور سب کچھ بتایا۔
پہلے تو جہانداد خان نے زرینہ گل پر کافی غصہ کیا مگر پھر جائیداد کے لالچ نے ان کا خون بھی سفید کر دیا۔
انھوں نے جرگے میں اپنے بھائی اور بھابھی پر انتہائی بے ہودہ الزام لگائے جو کہ مظفر مشوانی اور پورے مشوانی قبیلے کو بھڑکانے کے لیے کافی تھے۔
دونوں قبائل میں سرد مہری کا آغاز ہو چکا تھا اور ساتھ ہی جھڑپیں شروع ہو چکی تھی۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر فائرنگ معمولی بات بن چکی تھی۔ پولیس بھی اس سب میں بے بس تھی کیونکہ جب قبائلی لوگ اشتعال میں آ جائیں تو پھر انھیں قابو کرنا مشکل ہوتا ہے۔
مہمل خان اس سب میں سکول نہیں جا سکتی تھی کیونکہ باہر خطرہ کافی زیادہ تھا اور دوسرا وہ خوفزدہ رہنے لگی تھی۔ دومہینے تو سب ایسے ہی رہا کافی لوگ زخمی ہوئے مگر طوفان تب اٹھا جب ایک دن مشوانی حویلی کی گاڑی پر یوسفزئی قبیلے نے حملہ کیا اور اس حملے میں مظفر مشوانی تو زخمی ہوئے لیکن ماہ گل کے شوہر اور درشہوار کے والد کی جان چلی گئی۔
یہاں پر رقیہ گل کی برداشت جواب دے گئی اور انھوں نے پشاور چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ کہیں ان کی وجہ سے اور جانیں بھی ضائع نہ ہو جائیں۔
جب وہ کراچی جانے کا فیصلہ کر چکی تھیں اور جہانداد خان سے جہانگیر خان کی جائیداد کا مطالبہ کیا گیا تو جہانداد خان نے صاف جواب دیا کہ جہانگیر خان کا کچھ نہیں ہے اور اگر انھیں زیادہ تنگ کیا گیا تو وہ مہمل خان کو رقیہ گل سے چھین لینگے۔
رقیہ بیگم چپ چاپ پشاور سے کراچی چلی آئیں اور بس ماضی کو بھلانے کی کوشش شروع کر دی لیکن ماضی مشوانی کی صورت میں انکے خاندان سے جڑا رہا جو مہمل کی خبر رکھتا تھا۔شروع شروع میں وہ صرف اسے اپنی پھپھو کی بیٹی سمجھتا رہا لیکن بڑے ہوتے ہی اسکے دل میں محبت کی کلی کھلی تھی لیکن مہمل خان بڑے ہو کر اپنے تایا اور تائی کی طرح سنگدل نکلی تھی۔
اور یہی تھی ماضی کی داستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پشاور سے کراچی آنے تک کہ کہانی۔۔۔۔۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“السلام علیکم!” درشہوار نے اسے زنان خانے میں داخل ہوتے دیکھ کر سلام کیا تھا۔
“وعلیکم السلام!” مشوانی کے چہرے پر بیزارکن تاثرات تھے۔وہ آگے بڑھنے لگا لیکن درشہوار نے اسے روکا تھا۔
“ڈر کس بات کا ہے آپ کو؟ کچھ مانگ تو نہیں لونگی آپ سے میں۔” درشہوار طنزیہ مسکرائی تھی۔
“یہی تو بات ہے کہ آپ نے سب معاف کر دیا ہے مجھے۔” مشوانی کی نظریں ہنوز جھکی ہوئیں تھیں۔
“دل کے رشتے ہوں تو چھوٹی چھوٹی باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں بلکہ انسان دوسرے کو خون بھی معاف کر سکتا ہے۔” درشہوار کا لہجہ سپاٹ تھا۔
“میں شرمندہ ہوں کچھ نہیں دے سکتا آپ کون” مشوانی یہ کہہ کر زرش خانم یعنی اپنی مورے کے کمرے کی طرف بڑھا جب پیچھے سے درشہوار کی آواز آئی تھی۔
” تمہاری پسند بہت اعلیٰ ہے مشوانی حویلی کی خانم اسے ہی بننا چاہیے۔ میں تو شاید اس کہانی کا ایک ثانوی کردار ہوں۔محبت کا سفر اکثر اکیلے ہی طے کرنا پڑتا ہے۔ “
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...